جمعرات ، 25 اگست ، 2011
پکار
فضل حسین اعوان
آج کی حکومت اور حکومتی پارٹی میں ایک سے بڑھ کر ایک شیر پایا جاتا ہے لیکن ہر شیر کسی ببر شیر کے سامنے راکھ اور خاک کا ڈھیر ہے۔ ذوالفقار مرزا کراچی میں وزیر اعظم گیلانی کی موجودگی میں رحمن ملک پر دھاڑے۔ چند روز قبل رحمن ملک نے قومی اسمبلی کے اجلاس کے دوران اپنے وزیر اعظم کو ڈانٹ پلا دی تھی۔ وزیر اعظم گیلانی کا عدلیہ پر گرجنا اور اپوزیشن پر برسنا معمول ہے۔ صدر آصف علی زرداری عموماً خاموش رہتے ہیں لیکن جب لپکتے اور جھپٹتے ہیں تو اگلی پچھلی کسر نکال دیتے ہیں، ان کا شکار اپوزیشن ہی ہوتی ہے۔ جوش اور جذبات میں آپے سے باہر ہونے والے اپنی حدود، قیود اور اوقات سے باہر نہیں ہوتے۔ اس سے خوب واقف ہیں۔ یہی ان کی کامیابی کی کلید اور اقتدار کے ایوانوں میں موجود رہنے کا گُر ہے۔
بینظیر بھٹو وزیر اعظم ہوتیں تو ان کے کسی وزیر کو اونچا سانس لینے کی مجال ہوتی! اور پھر ان کی موجودگی میں ایک صوبائی وزیر مرکزی وزیر داخلہ کی ”لاہ پاہ“ کر دیتا؟ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا لیکن محترمہ ہوتیں تو یہ بابا وزیر داخلہ ہی کیوں ہوتا! آج وزیر اعظم اور وزرائے کرام حکومت نہیں، نوکری کر رہے ہیں۔ رحمن ملک گیلانی کابینہ کا حصہ ہے۔ درحقیقت یہ وزیر ہے کسی اور کا اسے پالتا کوئی اور ہے۔ سنا ہے گیلانی اور عبدالرحمن کی نہیں بنتی۔ لیکن اصلی دستِ اقتدارِ سے دونوں کی بنتی ہے۔ عام الیکشن اس سال ہوں، اگلے سال یا پارلیمنٹ کی آئینی مدت پوری ہونے پر۔ اگر پیپلز پارٹی جیتتی ہے تو گیلانی صاحب ہی وزیر اعظم ہوں گے۔ کیونکہ ان میں فاروق لغاری جیسا ایک بھی مائل بہ بغاوت جرثومہ نہیں پایا جاتا۔ گیلانی صاحب نے وزارت عظمیٰ کا مرتبہ پانے اور اسے برقرار رکھنے کے لئے اپنی ہستی مٹا دی ہے۔ اب ان کی سوچ اپنی ہے نہ پالیسی اورنہ کارکردگی۔ رحمن ملک ان سے بڑھ کر اوصاف حمیدہ رکھتے ہیں۔ وزارت داخلہ کا قلمدان ان سے کوئی نہیں چھین سکتا۔ وہ وزیر اعظم بھی بن سکتے ہیں۔ ان کے ہاتھ بہت لمبے ہیں۔ اہل وطن کی سوچ سے بھی لمبے۔ جولائی 2008ءمیں وزیر اعظم گیلانی کے ساتھ امریکہ گئے بش ملاقات میں باتیں گیلانی سے کر رہے تھے تھپکیاں رحمن ملک کو دیتے رہے۔ پھر اولمپکس کی افتتاحی تقریب میں شرکت کے لئے بلاول، پارٹی رہنماﺅں کے ساتھ چین گئے، صدر بش بھی آئے ہوئے تھے۔ وفد کے ساتھ ملاقات میں صدر بش نے رحمن ملک کے کندھے پر ہاتھ رکھا اور ایک کونے میں جا کر راز داری کرتے رہے۔ پاکستان میں بلیک واٹر کی عدم موجودگی کی وہ امریکہ سے بڑھ کروکالت کرتے ہیں آج موجودہ حکومت میں سب سے زیادہ تنقید ان پر ہی ہوتی ہے۔ ان کی وزارت کی کارکردگی عیاں ہے۔ ان کی پارٹی کے صوبائی وزیران کو کراچی میں فساد کی جڑ سمجھتے ہیں لیکن وہ اپنے عہدے پر موجو د ہیں۔ لیکن انہوں نے کراچی میں براجمان رہنے کا اعلان کر دیا ہے۔ مرزا صاحب بے شک دھاڑتے رہیں، زرداری صاحب بلا کر خواہ کچھ کہیں لیکن خبر چھپے گی تصویر کے ساتھ کہ جپھی ڈلوا دی ہے۔ یہ ہماری شامتِ اعمال ہے، کسی کی بدعاﺅں کا نتیجہ ، یا حکمرانوں کے کرموں کا پھل، قوم کا ستارہ گردش میں ہے۔ ہمیں ہر دکھ درد مصیبت اور عذاب کا سامنا ہے۔ جن پر مسائل کے حل کی ذمہ داری ہے وہ احساس و ادراک سے تہی ہیں۔ یہاں مشرقی پاکستان میں سینڈوپ (Sandwip) جزیرے کی تباہی کے واقعات سامنے آ کھڑے ہوئے۔ چٹاگانگ کے سینڈوپ ڈویژن میں 12نومبر1971ءکی رات سمندری طوفان نے تباہی مچا دی۔ لیکن سول ایڈمنسٹریشن نے مرکز یا فوج سے مدد طلب نہ کی۔ دو دن بعد پتہ چلا کہ سول ایڈمنسٹریشن پوری کی پوری ڈوب گئی تھی۔ مدد کے لئے پکارنے والے صفحہ ہستی سے مٹ چکے تھے۔ آج پاکستان میں بدامنی کی آگ میں جھلسنے، اپنے پیاروں کی لاشیں اٹھانے اور کٹے اعضا سنبھالنے والے سسکتے بلکتے، روتے پیٹتے اور چیختے چلاتے انسان مدد کے لئے پکار رہے ہیں۔ لیکن کوئی سن نہیں رہا۔ شاید عوامی جان و مال کے تحفظ کے ذمہ داروں کے ضمیر عیش و نشاط کے سمندر میں ڈوب کر مردہ ہو گئے ہیں۔ سینڈوپ ڈویژن کی سول ایڈمنسٹریشن کے طوفان میں مارے جانے کی طرح۔ وہ ایڈمنسٹریشن مدد کے لئے پکارنے کے قابل نہ رہی تھی، یہ پکار سننے سے قاصر ہیں۔
No comments:
Post a Comment