منگل ، 09 اگست ، 2011
گورنر سعید بن عامرؓ .... اور عمران خان
فضل حسین اعوان
پاکستان نے ایک ہی کرکٹ ورلڈ کپ جیتا جو عمران خان کے نام رہا‘ عمران خان نے شوکت خانم کینسر ہسپتال کے نام سے بہت بڑے منصوبے کا آغاز کیا تو دن رات ایک کرکے اسے بھی کامیابی سے ہمکنار کر دیا۔ آج اسکی پاکستان میں 62 لیبارٹریز اور کولیکشن سنٹر کام کر رہے ہیں۔ پشاور میں ہسپتال کی تعمیر شروع ہے‘ کراچی میں شہر کے اندر جگہ خریدنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ ہسپتال کے دو ارب روپے کے سالانہ اخراجات میں سے آدھے مخیر حضرات پورے کرتے ہیں۔ رمضان المبارک کے اوائل میں عطیات‘ زکوٰة اور خیرات کی وصولی کےلئے افطار کی تقریب ہوتی ہے۔ ایسی ہی تقریب چوتھے روزے ہوئی‘ جس میں دس کروڑ روپے کا ہدف مقرر کیا گیا تھا جو تقریباً پورا ہو گیا۔ بلاشبہ دنیا میں پاکستانی سب سے زیادہ چیریٹی کرنےوالے لوگ ہیں اور اس میں بھی شک نہیں کہ دنیا میں سب سے زیادہ ٹیکس چوری اور حرام خوری بھی پاکستان میں ہی ہوتی ہے۔ شاید اس لئے کہ چیریٹی کا پیسہ عوام پر خرچ ہونے کا یقین ہوتا ہے اور ٹیکس عمال کی جیبوں میں جانے کا۔ عمران کامیاب کپتانی کے بعد ایک کامیاب سماجی ورکر ٹھہرے‘ اب سیاست ہی نہیں‘ ملک میں بھی انقلاب برپا کرنے کیلئے سرگرم و سرگرداں ہیں‘ وہ عوامی خدمت اور سیاست کو الگ الگ رکھنے اور چلانے کی کوشش ضرور کرتے ہیں‘ لیکن دونوں کام ایک ہی شخصیت سے وابستہ ہیں تو خدمت اور سیاست کبھی کبھی پہلو بہ پہلو بھی ہو جاتے ہیں۔ 4 رمضان المبارک کو فنڈ ریزنگ تقریب غیرسیاسی تھی‘ لیکن موجودہ حالات میں سیاست کی تلخی یہاں بھی محسوس کی گئی۔ ایک مقرر نے حضرت سعید بن عامرؓ کی گورنری سے متعلقہ پہلو نمایاں کئے۔” عیاض بن غنمؓ کی وفات کے بعد جب حمص کی گورنری خالی ہوئی تو حضرت عمرؓ نے سعید بن عامرؓ کو اس جگہ متعین کیا۔ کچھ عرصہ بعد کسی نے مرکز خلافت میں خبر دی کہ سعید بن عامرؓ پر جنون کا اثر رہتا ہے تو حضرت عمرؓ نے تحقیقات کےلئے فوراً طلب فرمایا۔ اس طلبی پر حمص کا گورنر جس شان سے مدینے آیا‘ اس کا نقشہ سیرت اور تاریخ کی کتابوں میں ان الفاظ کے ساتھ کھینچا گیا ہے کہ سعید بن عامرؓ گورنر حمص کے ہاتھ میں صرف ایک عصا اور کھانے کیلئے ایک پیالہ تھا۔ حضرت عمرؓ نے پوچھا‘ ”سنا ہے تم پر جنون کا اثر رہتا ہے‘ تم پر غشی کے دورے پڑتے ہیں“؟ ہاں یہ سچ ہے لیکن اس کا سبب کسی قسم کا جنون نہیں ہے بلکہ اسکی وجہ خبیب بن عدیؓ کی شہادت کا واقعہ ہے‘ اس وقت میں بھی قریش کے ساتھ موقع شہادت پر موجود تھا۔ وہ اس حالت میں قریش کےلئے بددعا کرتے تھے‘ چونکہ میں بھی قریشی ہوں اس لئے جب خبیب بن عدیؓ کی بددعا یاد آتی ہے تو ڈر کے مارے بے ہوش ہونے لگتا ہوں۔“ حضرت عمرؓ نے پھر ان کو گورنری واپس کرنا چاہی تو انہوں نے انکار کر دیا لیکن پھر خلیفہ کے حکم سے مجبور ہو گئے اور حمص کی گورنری سنبھال لی۔ جب سعید بن عامرؓ حمص کے گورنر تھے تو ایک بار حضرت عمرؓ حمص اس غرض سے تشریف لے گئے کہ وہاں فقراءاور مساکین کی معاش کا انتظام کریں۔ خلیفہ نے کاتبوں سے ان کی فہرست تیار کرائی‘ اس میں سعید بن عامرؓ بھی ایک نام تھا۔ حضرت عمرؓ نے پوچھا یہ سعید بن عامرؓ کون ہیں؟ عرض کیا گیا ”یاامیرالمومنیں! ہمارے اور آپؓ کے امیر‘ حمص کے گورنر“۔ حضرت عمرؓ نے متحیر ہو کر پوچھا‘ ”تمہارا امیر اور فقیر! وظیفے کا کیا کرتا ہے؟“ لوگوں نے بتایا ”وظیفے کو تو وہ چھوتے بھی نہیں‘ غریبوں میں تقسیم کر دیتے ہیں“۔ حضرت عمرؓ سعید بن عامرؓ کی بے نیازی دیکھ کر رونے لگے اور اسی وقت ایک ہزار دینار کی تھیلی انکے پاس بھیجی تاکہ اس کو وہ اپنی ضرورت پر خرچ کریں۔ لیکن انہوں نے دولت کو اپنے لئے فتنہ سمجھا اور اگلے روز صبح اسلامی لشکر ادھر سے گزرا‘ آپ نے کل رقم اس کی ضرورت کیلئے دیدی۔“ ان صاحب نے عمران خان سے کہا‘ آپ کو اقتدار ملے تو ایسے ہی گورنر تعینات کیجئے گا۔ عمران خان نے اپنے خطاب میں کہا‘ بالکل ایسا کرنے کی کوشش کرینگے لیکن ایسے لوگ شاید امپورٹ کرنا پڑیں‘ لیکن کہاں سے؟ اس پر ایک ماہر قانون کی تقریباً دس سال قبل کی گفتگو یاد آگئی۔ وہ پاکستان میں تمام امراض کا علاج آزاد عدلیہ کو قرار دیتے ہوئے کہہ رہے تھے کہ سپریم کورٹ میں جج امپورٹ کرکے لائے جائیں‘ جن کو کوئی لالچ ہو‘ نہ خوف‘ اس سے اوپر سے نیچے تک سسٹم درست ہو جائیگا۔ ایسا چونکہ ممکن تھا‘ نہ کسی کی دلچسپی تھی‘ لیکن خدا کا کرنا یہ ہوا کہ ہمیں ایسے جج مل گئے جس طرح کے ایک قانون کے ماہر نے امپورٹ کرنے کا خواب دیکھا تھا۔ خدا کرے 2013ءکے بعد بھی ہمارے ججز جسٹس افتخار محمد چودھری کی روایات کے امین بن کر فیصلے کرتے رہیں۔ عمران خان اگر سیاسی انقلاب لے آتے ہیں‘ انکے کردار‘ اعمال و افکار‘ حضرت عمرؓ جیسا ہوئے تو یقیناً حضرت سعید بن عامرؓ جیسے گورنر عملہ اور عمال پاکستان سے ہی مل جائیں گے۔ قرون اولیٰ میں سلطنت وسیع ہوتی رہی‘ کامیابیوں کے پھریرے لہراتے رہے‘ عوام خوشحال اور امن و امان کی مثالی صورتحال تھی‘ ایک خاتون زیورات کے ساتھ تن تنہا مکہ سے مدینے تک بلاجھجک اور بغیر کسی خطرے کے سفر کرسکتی تھی‘ اس لئے کہ انصاف کی فراہمی یقینی تھی‘ سینکڑوں میل دور کتا بھوک سے مر جائے تو مدینے میں بیٹھا حکمران خود کو اس کا ذمہ دار سمجھتا تھا‘ عوام کی زندگی آسان‘ حکمرانوں کی کٹھن تھی‘ آج اسلامی جمہوریہ پاکستان میں اسکے برعکس ہے۔ برطانوی وزیراعظم کی رہائش گاہ 10ڈاﺅننگ سٹریٹ چند کمروں پر مشتمل ہے‘ یہ اخراجات انکی حکومت پورے کرتی ہے‘ بدیس میں حکمرانی کیلئے آئے تو گورنر ہاﺅس جیسے شاہی قلعے بنا دیئے جس میں پورا شہر آباد ہے‘ باغات‘ پہاڑیاں اور چڑیا گھر تک‘ یہ اخراجات غلاموں کا خون نچوڑ کر پورے کئے جاتے تھے‘ انگریز گیا فرق صرف یہ پڑا کہ مکینوں کی شکلیں بدلیں‘ نسلیں بدلیں اور رنگ بدلے‘ اعمال وہی رہے۔ ظاہر ہے گورے انگریزوں کی جگہ کالے ”انگریزوں“ نے لے لی تو مسائل بڑھنا ہی تھے۔ عام انتخابات زیادہ دوری پر نہیں‘ قوم کیلئے ان ملوکیت زدہ ”کالے انگریزوں“ سے جان چھڑانے کا ایک ہی بہترین موقع ہے‘ ووٹ کا صحیح استعمال اور غور و خوض کرکے سو بار سوچ کے کیجئے گا‘ شاید حضرت عمرؓ اور سعید بن عامرؓ جیسے حکمران پاکستان کو نصیب ہو جائیں۔ جہاں تک ”انقلاب“ کا تعلق ہے‘ خدا کرے وہ فرانسیسی انقلاب کی طرح نہ آئے‘ اس میں شاید عمران خان خود بھی اسکی نذر ہو جائیں‘ اللہ تعالیٰ پاکستان کو بتدریج انقلابی تبدیلی عطا فرمائے!
No comments:
Post a Comment