17-8-2011
ISLAM ABAD
سانحہ بہاولپور۔ تحقیقات؟
فضل حسین اعوان
جنرل محمد ضیاءالحق نے جمہوری حکومت پر شب خون مارا۔ کہا جاتا ہے کہ انہوں نے عوامی مقبولیت کے حامل اور امریکہ کے دل میں کھٹکنے والے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کو تختہ دار تک پہنچانے میں اپنا جرنیلی اور صدارتی کردار اور اختیار استعمال کیا۔ پھر وہ موقع بھی آیا کہ جنرل محمد ضیاءالحق بھی بہت سے معاملات میں ذوالفقار علی بھٹو کی پالیسیوں پر عمل پیرا رہے تو امریکہ کے دل میں کانٹا بن گئے۔ جنرل ضیا کی فوج، سیاسی معاملات اور اپنے طرز کی غیر جماعتی جمہوریت پر مکمل گرفت تھی۔ اس لئے ضیاءالحق کو بھٹو جیسے انجام سے دوچار کرنے کے لئے امریکہ کو کوئی دوسرا ”ضیاءالحق“ نہ ملا تو اپنے ایک جرنیل اور سفیر کو صدر پاکستان کی معیت میں سی ون 130 میں سوار کرا کے مصیبت سے جان چھُڑا لی۔
جنرل ضیاءالحق کے جمہوریت کے قتل کے اقدام کی کوئی توجیح پیش کی جا سکتی ہے کوئی جواز نہ عذر۔ ان کا اقدام بطور فوجی ان کے حلف اور قسم کی صریح خلاف ورزی تھا۔ جنرل محمد ضیاءالحق کے اس اقدام سے جمہوریت ایسی ڈی ریل ہوئی کہ آج تک پٹڑی پر نہ چڑھ سکی۔ 4 جولائی 1977ءکو جمہوریت کا ”گھٹ بھرے“ جانے کے سبب ہی آج ملک میں افراتفری، لاقانونیت، بدامنی، عدم استحکام، کرپشن، اقربا پروری، مہنگائی بے روزگاری اور دیگر بہت سی آفات و بلیات کا دور دورہ ہے۔ جنرل ضیاءنے جمہوریت کے پودے کو شاخیں اور کونپلیں نکالتے ہی جڑ سے اکھاڑا اور مسل کر پھینک دیا۔ اس سب کے باوجود بھی جنرل ضیاءالحق کا 11 سالہ دور ایک حقیقت ہے۔ اس دور میں روس کو شکستِ فاش سے دوچار کر کے اس کے ٹوٹنے کی بنیاد رکھ دی گئی۔ روس کا افغانستان میں قبرستان بنانے میں امریکہ، اس کی پالیسیوں، اسلحہ و ڈالروں نے اہم کردار ادا کیا لیکن جنرل ضیاءالحق نے اسے سر نہیں چڑھایا۔ امریکی براہِ راست مجاہدین لیڈروں سے رابطے رکھ سکتے تھے نہ ملاقاتیں کر سکتے تھے۔ ایک مرتبہ تو امریکی سفیر کی خیرآباد پل سے گاڑی جبری اسلام آباد کی طرف واپس کرا دی گئی۔ مشرف کی طرح ضیاءالحق اور آج کے جمہوری حکمرانوں کی طرح ذوالفقار علی بھٹو نے امریکہ کے سامنے کبھی بزدلی کا مظاہرہ نہیں کیا۔ ذوالفقار علی بھٹو نے ہنری کسنجر کا وہ خط راولپنڈی میں سرِ بازار لہرا دیا جس میں ایٹمی پروگرام جاری رکھنے کی صورت میں عبرت کا نشان بنانے کی دھمکی دی گئی تھی۔ جنرل ضیاءالحق امریکی خواہشات اور احکامات کے برعکس صدام کے مقابلے میں ایران کی مدد کرتے رہے۔ جنگ میں ایرانی پائلٹوں کو تربیت دی گئی۔ ایران کی انقلابی حکومت کو تسلیم کیا۔ ذوالفقار علی بھٹو نے ایٹمی پروگرام جس جوش و خروش سے شروع کیا تھا جنرل ضیاءالحق نے اپنے دور میں اسے مزید جانفشانی سے امریکہ کو چکر دے کر جاری رکھا۔ یہ پروگرام 1984ءکو پایہ تکمیل کو پہنچ چکا تھا۔ افغان وار کے باعث شاید امریکہ نے بھی چشم پوشی سے کام لیا ہو تاہم اس کی بارگاہ میں ایسے کام کرنے والے لوگ قابلِ معافی نہیں ہوتے۔
ذوالفقار علی بھٹو ضیاءالحق کے ہاتھوں شہید ہوئے۔ صدرِ پاکستان آرمی چیف جنرل ضیاءالحق، مسلح افواج کے سربراہ اختر عبدالرحمن اور ساتھی کس کے ہاتھوں شہید ہوئے؟ سانحہ بہاولپور کے حقائق کیا تھے؟ یہ ہنوز اور بدستور ایک معمہ‘ اسرار اور راز ہے۔ فوج میں ایک گولی بھی گم ہو جائے تو کورٹ مارشل کی روایت ہے۔ جہاں 17 اگست 1988ءکو تقریباً پوری فوجی قیادت ختم کر دی گئی لیکن سربستہ راز سے پردہ نہیں اٹھایا گیا۔ پھر دو مرتبہ میاں نوازشریف پاکستان کے وزیراعظم بنے۔ ضیاءالحق نے ان کو اپنی عمر لگ جانے کی دعا دی تھی۔ وہ شاید قبول بھی ہو گئی۔ جنرل ضیاءالحق کے پوت اور اختر عبدالرحمن کے سپوت کئی بار انتخابات میں کامیاب ہوئے۔ اعلیٰ عہدے ان کی گردپا بنے۔ لیکن کبھی اپنے باپ کے قاتلوں کی گرد تک نہ پہنچ سکے۔ والد کے قتل کا درد سا کوئی درد نہیں ہو سکتا۔ انہوں نے بھی تحقیقات کرانے کے ہزار جتن کئے لیکن یہ بے بس اور جن کے بس میں بہت تھا وہ بے حس ٹھہرے۔ کتنا طاقتور ہے قاتل جس کے سامنے اپنے صدر اور فوجی قیادت کے قتل کی تحقیقات کے لئے پوری ملکی مشینری مجبور‘ معذور اور اپاہج و لاچار ہے۔ شاید بھٹو، ضیاءالحق اور ساتھیوں کے انجام سے عبرت پکڑی ہو۔ بہرحال لوگوں کے دلوں میں کسی کے لئے محبت اور کسی کے لئے نفرت راسخ ہے۔ آج بھی کسی کے دل میں بھٹو اور کسی کے دل میں جنرل ضیاءالحق کی محبت اور عقیدت کے دیپ جل رہے ہیں۔
No comments:
Post a Comment