20-8-11
20 اگست ، 2011
نشانِ پاکستان اور بانی ¿پاکستان
فضل حسین اعوان
آمریت ہو یا جمہوریت ہمارے صاحبان اقتدار و ذی وقار، اختیاراتِ بے حصار کیلئے سرگرم رہے ہیں۔ پھر جن کو موقع ملا اختیارات سمیٹنے اور استعمال کرنے میں کسی نے بخل سے کام نہیں لیا۔ اگر یہ اختیارات ملکی اور قومی مفادات کیلئے استعمال ہوں تو بسم اللہ، دوسری صورت میں لعنت اللہ! قائداعظمؒ کے بعد فوجی اور جمہوری آمر آتے رہے۔ کالا باغ ڈیم نصف صدی کا قصہ ہے۔ کسی کو اس کی خشتِ اول رکھنے کی توفیق نہیں ہوئی۔ اتفاق رائے کی بات ہوتی ہے، کیا باقی سب کام اتفاق رائے سے ہوئے؟ چار جرنیلوں کی مہم جوئی Consensus سے ہوئی؟ ایوب نے امریکہ کو بڈبیر اڈا اور مشرف نے امریکہ کو ضرورت کے مطابق استعمال کرنے کیلئے ہوائی اڈے قومی و اتفاق رائے سے دیئے تھے؟ بھٹو نے ایٹمی پروگرام کی بنیاد اور ضیاءالحق نے اس کی تکمیل کیلئے Consensus کی ضرورت محسوس کی تھی؟ اگر ایسا کرتے تو کالا باغ ڈیم کے مخالفین ایٹمی پروگرام کی بھی مخالفت کرتے۔ کالا باغ ڈیم کی مخالفت کی جڑیں واشنگٹن، تل ابیب اور دلی تک پھیلی ہوئی ہیں۔ ان کے کٹنے تک کالا باغ ڈیم کی تعمیر ناممکن ہے۔ آج اگر کوئی ان جڑوں کو کاٹ سکتا ہے تو صدر آصف علی زرداری ہیں۔ یہ کام وہ اپنی شیریں سخنی یا میٹھی آری سے بخوبی کر سکتے ہیں۔ آج ان کے پاس اختیارات کا بحرِ بیکراں ہے۔ یہاں تک کہ جس کو چاہیں خلعتِ فاخرہ عطا فرما دیں جسے چاہیں خلعتِ اکیس پارچہ پہنا دیں۔ ان کی حکومت نے یوم آزادی پر 185 اکابرین‘ عمائدین‘ معززین و حویدین کو اعزازات سے سرفراز فرمایا ہے۔ اکثر کے بارے میں عوامی سطح پر تحفظات ظاہر اور اعتراضات وارد ہو رہے ہیں۔ اعزازات واقعتاً اعلیٰ منفرد اور امتیازی کارکردگی کے حاملین کو ہی دیئے جاتے ہیں۔ اب جن کے نام یہ ہو چکے ہیں وہ خود احتسابی سے کام لیں، دیکھیں یہ واقعی اعزاز کے حقدار و سزاوار ہیں؟ اگر نہیں تو خود کو اس کا حقدار ثابت کرنے کیلئے جان لڑا دیں۔ قوم و ملک کیلئے کوئی عظیم کارنامہ انجام دینے کیلئے دن رات ایک کر دیں۔ پاکستان میں ہر شعبے میں نام پیدا کرنے کے بیشمار مواقع ہیں۔
ہمارے حکمرانوں نے کسی اور محاذ پر کچھ کیا یا نہیں کیا۔ ایوارڈز کے معاملے میں دریا دلی کا مظاہرہ ضرور کیا۔ ایسی فیاضی اور فراخدلی بھی دیکھنے میں آئی کہ قومی غیرت و حمیت تک شرما گئی۔ پاکستان کا سب سے بڑا اعزاز نشانِ پاکستان ہے جو اب تک 3 پاکستانی اور 79 غیر ملکی شخصیات کو دیا جا چکا ہے۔ ان میں بھارتی وزیراعظم مرار جی ڈیسائی اور مسلم ہندو کلچر کا ملغوبہ اداکار دلیپ کمار بھی شامل ہیں۔ مرار جی ڈیسائی کی ایک ”وجہ شہرت“ یورین تھراپی بھی تھے۔ وہ بڑے فخر و انبساط اور ذوق و شوق سے اپنا پیشاب پیا کرتے تھے۔ اس پر کوئی ایوارڈ اگر دیا جانا تھا تو ان کی حکومت یا کوئی عالمی ادارہ دیتا۔ اس نے کونسا کشمیر کی آزادی میں کوئی کردار ادا کیا تھا کہ پاکستان کے سب سے بڑے سول اعزاز کا حقدارٹھہرا! دلیپ کمار پشاور میں پیدا ہوئے۔ یہ ایسا کارنامہ ہے جس میں اس کا اپنا کوئی کردار نہیں۔ ماں باپ نے نام یوسف خان رکھا وہ دلیپ کمار بن بیٹھا۔ اگر بھارت میں کسی کو ایوارڈ دینا ناگزیر تھا تو وہ محمد رفیع ہیں جنہوں نے خانہ¿ خدا اور روضہ¿ رسول پر حاضری کے بعد بھجن کی ریکارڈنگ نہ کرانے کا عہد کیا۔ اس پر لتا منگیشکر نے شدید ردعمل ظاہر کیا، جزبز، سیخ پا ہوئیں اور محمد رفیع کے ساتھ کسی بھی قسم کی ریکارڈنگ نہ کرنے کا اعلان کر دیا۔ الحاج محمد رفیع اپنے عہد پر تادم آخر قائم رہے۔
بھارت کا سب سے بڑا سول ایوارڈ ”بھارت رتن“ ہے جو اب تک 42 شخصیات کو دیا گیا جس میں صرف نیلسن منڈیلا اور سرحدی گاندھی خان عبدالغفار خان غیر ملکی ہیں جنہیں اس سے نوازا گیا، باقی تمام ایوارڈ بھارتیوں کو ملے۔ ان بھارتیوں میں 6 سربراہان مملکت، 6 وزرائے اعظم، 4 وزرائے اعلیٰ، 4 وزرائ، 6 سماجی و تحریک آزادی کے کارکن، 5 موسیقار، ادیب، سول انجینئر، ماہر طبیعات شامل ہیں۔ دوسری طرف پاکستان یا پاکستان سے باہر کسی سیاست دان، موسیقار، ماہر تعلیم یا ادیب کو اس قابل نہیں سمجھا گیا جسے یہ اعزاز دیا جاتا۔ یہاں چند ماہ قبل شائع ہونے والی بی بی سی کی چشم کشا رپورٹ کا حوالہ دینا بھی ضروری ہے جس میں بتایا گیا ہے ”نشان پاکستان سے صرف 3 پاکستانیوں سابق گورنر جنرل و وزیراعظم خواجہ ناظم الدین، نشان پاکستان کا اجراءکرنے والے سابق صدر سکندر مرزا اور ان کا تختہ الٹنے والے جنرل ایوب خان کو نوازا گیا۔ یہ ایوارڈ بعد از مرگ دینے پر کوئی پابندی نہیں۔ قائداعظم محمد علی جناحؒ کو پاکستان بنانے کے باوجود نشان پاکستان تو درکنار پرائیڈ آف پرفارمنس تک نہیں دیا گیا“۔!!
پیدائشی چوتیےھویااب بنےھو؟اپنی ماں کو ھندو گدھوں سے چدوانےکےبعدخودبھی لگتاھےکھ گانڈو ھوگۓھوھرامزادے دلے۔
ReplyDelete