بدھ ، 03 اگست ، 2011
”ذمہ دار میڈیا“
فضل حسین اعوان
یہ واقعہ، لطیفہ، ڈھمکیری یا افسانہ آپ نے پہلے بھی سن رکھا ہو گا۔ موقع کی مناسبت سے ایک بار پھر سہی۔ ”امریکن، کمیونسٹ روسی کو جمہوریت کے فضائل بتاتے ہوئے کمیونزم کے انسانی آزادی غصب کرنے، آزادی اظہار پر پابندیاں لگانے جیسے مسائل گِنا رہا تھا۔ روسی کا جواب تھا کہ وہ اپنی حکومت اور حکمرانوں کے روئیے سے مطمئن ہے۔ امریکن نے کہا کہ ہمیں جمہوریت نے اس قدر آزادی دے رکھی ہے کہ میں اپنے صدر کے روبرو یہ تک کہہ سکتا ہوں کہ تم بدمعاش، بے ایمان، چور لٹیرے ہو۔ روسی نے امریکن کی بات مکمل ہونے سے قبل ہی ترکی بہ ترکی جواب دیا ”یہ کونسی بڑی بات میں کئی بار یہ بات تمہارے صدر کے سامنے کہہ سکتا ہوں“.... دنیا میں ہر ملک اپنے مفاد کے لئے کام کرتا ہے۔ بات کرتا ہے۔ امریکہ اپنے مفاد کے لئے سات سمندر پار چلا آیا۔ برطانیہ سمیت کئی ملک اس کے اتحادی ہیں۔ امریکہ و برطانیہ‘ پاکستان میں اپنے اپنے مفاد کے لئے بہت کچھ کر رہے ہیں۔ ہم بھی جو ممکن ہے کرتے ہیں۔ اپنے مفاد کے لئے نہیں، اِن کے مفاد کے لئے۔ ایسی ہی مثال ہمارے نو آموز میڈیا کی بھی ہے۔
وزارتِ خارجہ کا قلمدان سنبھالنے کے چند روز بعد حنا ربانی کھر پاکستان بھارت وزرائے خارجہ سطح کے مذاکرات کے لئے دہلی گئیں۔ ہندو بنیے کا اسلام اور پاکستان سے تعصب اور خبث چھپائے نہیں چھپ سکتا۔ بھارتی میڈیا تو پاکستان دشمنی میں اپنے حکمرانوں اور سیاستدانوں سے بھی دو ہاتھ آگے ہے۔ پاکستان کا نام سنتے ہی عیار و مکار بنیے کے تن بدن میں نفرت کی چنگاری سلگ اٹھتی ہے تو میڈیا کا دل اور دماغ دہکنے اور زبان شعلے اگلتی ہے۔ گذشتہ ماہ 13 جولائی 2011 کو ممبئی میں پھر بم دھماکے ہوئے جن میں 23 افراد مارے گئے۔ بھارتی میڈیا نے ایک لمحہ کی تاخیر کئے بغیر، بلاتحقیق و تفتیش اس کا الزام پاکستان پر لگا دیا۔ بھارتی حکومت تذبذب میں رہی تاہم مکمل چھان بین کے بعد کہا گیا کہ اس میں پاکستان کا ہاتھ نہیں۔ ہندوانہ تعصب کے باعث بھارتی میڈیا نے ربانی کھر کا دورہ نئے انداز میں سبوتاژ کرنے کی کوشش کی۔ ان کی شخصیت کو طلسماتی اور کرشماتی قرار دینے کے پردے میں ان کے لباس‘ میک اپ‘ بیگ‘ زیورات اور سینڈل کی غیر حقیقی ہوشربا قیمتیں بتا کر ان کی تضحیک و تذلیل کی گئی۔ حنا ربانی نے بھارتی میڈیا کو لفٹ نہیں کرائی ہو سکتا ہے کہ وہ اس پر بھی پیچ تاب کھا رہا ہو۔ ٹائمز آف انڈیا نے حنا ربانی کھر کے بیگ کی قیمت 17 ہزار ڈالر بتائی۔ نیکلس کو مہنگے ترین موتیوں کا حامل ٹھہرایا میک اپ پر شرمناک قسم کا تبصرہ کیا۔ یہ بھی کہا گیا کہ وہ گیلانی کے ان وزرا میں شامل ہیں جو ٹیکس نہیں دیتے۔ کیا یہ بیگ نہرو گاندھی کی چمڑی اور نیکلس کے موتی ہندو حسیناﺅں کی ہڈیوں سے ان کی تشہیر کرنیوالوں کی موجودگی میں بنائے اور تراشے گئے تھے۔ ہندو الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا پاکستانی وزیر خارجہ کو ماڈل، فیشن کی دلدادہ قرار دیکر اپنے دل کی بھڑاس نکالتا رہا۔ اس پر یہاں حنا ربانی کھر کی اہلیت پر انگلیاں اٹھانے اور خود کو وزارت خارجہ کا اہل جتانے والے‘ بھارتی میڈیا کے شیطانی پراپیگنڈے کو اپنے روشن مستقبل کی نوید گردان رہے تھے۔ لیکن ہمارے میڈیا کو کیا ہوا؟ اسلام اور پاکستان ہندو میڈیا نے پاکستانی وزیر خارجہ کی شخصیت کو مسخ کرنے کا سلسلہ جہاں چھوڑا تھا ہمارے میڈیا نے اسے وہاں سے جھپٹ کر مزید آگے بڑھایا بلکہ آخری حد اور انتہا تک پہنچا دیا۔ ہمیں تو بھارتی میڈیا کا منہ توڑ جواب دینا چاہئے۔ افسوس کہ سبقت کے زعم میں دشمن میڈیا کی رپورٹوں اور رپورٹنگ کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا۔ بعض کالم نگار بھائی بھی جلتی پر تیل ڈالنے میں پیچھے نہ رہے۔ ہمارے میڈیا کے پاس حنا ربانی کھر کا کشمیری حریت قیادت سے بھارت کی زمین پر ملاقات ایک جرا ¿ت مندانہ، نمایاں اور منفرد کارنامہ ہے۔ جس کا بھارت میں سرکاری سطح پر بُرا منایا گیا۔ ہندو قیادت نے مذاکرات سے قبل دعوے کئے کہ مذاکرات کا ایجنڈا دہشتگردی ہو گا۔ کشمیر پر بات نہیں ہو گی۔ بھارت بدنیت ہی سہی تاہم یہ ساری دنیا نے دیکھا کہ مذاکرات میں مسئلہ کشمیر پر بات ہوئی۔ مشترکہ اعلامیہ میں اس کا ذکر تھا اور سب سے بڑھ کر مشترکہ پریس کانفرنس میں بھارتی وزیر خارجہ ایس ایم کرشنا نے کہا کہ کشمیر پر بات چیت جاری رہے گی۔ پاکستانی میڈیا ان معاملات کو نمایاں کر سکتا تھا۔ بھارتی میڈیا کو حنا ربانی نے کوئی اہمیت نہیں دی اس پر بہت کچھ لکھا، دکھایا اور سنایا جا سکتا تھا۔ بھارتی میڈیا نے جو کچھ کہا وہ اس کا اپنی حب الوطنی کا اظہار ہے۔ جو اپنے ہاں (نوائے وقت اور وقت نیوز کے سوا) ہوا۔ دانستہ یا نادانستہ اور بدستور ہو رہا ہے۔ آخر وہ کس سوچ کا عکاس ہے؟
تاہم اسلامی ملک کی خاتون وزیر خارجہ ہونے کے ناتے ان کا اپنے ہم منصب کرشنا سے مصافحہ کرنے کو پاکستان میں ضرور محسوس کیا گیا۔ محترمہ بینظیر بھٹو بطور وزیراعظم کسی سے ہاتھ نہیں ملایا کرتی تھیں۔ حنا کی طرف سے مصافحہ کے لئے پہل کو مزید شدت سے محسوس کیا گیا۔ پاکستانی اپنی وزیر خارجہ سے بجا طور پر امید رکھتے ہیں کہ وہ ان کے جذبات کے احترام میں آئندہ کسی مرد سے ہاتھ نہیں ملایا کریں گی۔ اس حوالے سے وہ اپنی پارٹی کی شہید قائد محترمہ بینظیر بھٹو کی تقلید کریں۔
No comments:
Post a Comment