About Me

My photo
Fazal Hussain Awan colomnist Daily NAWAI WAQT awan368@yahoo.com 03334215368

Wednesday, August 10, 2011

امریکہ .... چاند کی بلندی سے پستی تک


آج : بدھ ، 10 اگست ، 2011




امریکہ .... چاند کی بلندی سے پستی تک
فضل حسین اعوان
یہ 20جولائی1969ءکا تاریخی دن تھا‘ جب انسان نے چاند پر قدم رکھا۔ انسان کا چاند کو تسخیر کرنا قرآن کریم کی صداقت پر دلالت ہے کہ ”زمین اور آسمانوں میں جو کچھ ہے تمہارے (انسان کے) لیے مسخر کر دیا گیا ہے“۔ خلائی جہاز اپالو 11 امریکہ سے روانہ ہوا تو اس کی اونچائی 363 فٹ اور وزن 3 ہزار ٹن تھا۔ روانگی کے ساتھ ہی سٹرن راکٹ نے 13 ہزار 600 کلو گرام فی سیکنڈ ایندھن کو گیس میں تبدیل کرنا شروع کردیا۔ اپالو 163 میل بلندی پر پہنچا تو اس کی سپیڈ 17500 میل فی گھنٹہ ہو چکی تھی۔ چاند تک اڑھائی لاکھ میل میں سے خلائی جہاز نے زیادہ تر فاصلہ 25 ہزار میل گھنٹہ کی رفتار سے طے کیا۔ چاند پر اترنے کے بعد ماہ نوردوں آرم سٹرانگ، ایڈون ایلڈرن اور مائیکل کولنز نے بہت سے آلات نصب کرنے کے بعد چار فٹ لمبی ایلومینیم کی راڈ پر امریکی پرچم لٹکا دیا۔ انہوں نے وہاں ایک دھاتی تختی بھی نصب کی جس کے ایک طرف صدر نکسن اور تینوں خلانوردوں کے دستخط اور دوسری یہ عبارت درج تھی ”اس مقام پر سیارہ زمین سے انسان اترے۔ہم تمام نوعِ انسانی کی طرف سے امن و آشتی کے لیے چاند کی سطح پر آئے“۔
1969ءمیں امریکہ نے چاند کو اس پیغام کے ساتھ تسخیر کیا کہ وہاں تک نوع انسانی کی طرف سے امن و آشتی کیلئے آئے اور یہ کامیابی اس نے ٹیکنالوجی میں جدت اور ترقی کے باعث حاصل کی‘ جبکہ آج روئے زمین پر وہ انسان کو گولی کے زور پر تسخیر کرنا چاہتا ہے۔ ”امن“ کے نام پر انسانوں کا خون بے دردی سے بہایا جا رہا ہے۔ وہ بھی نہتے ،بے بس، بے کس، لاچار اور بے گناہ مسلمانوں کا۔
گزشتہ ویک اینڈ پر 6اگست 2011ءکو افغانستان کے صوبے وردک میں سعید آباد کے علاقے تنگی میں طالبان نے امریکی ہیلی کاپٹر مار گرایا۔ یہ ایک بڑے ٹارگٹ کی تلاش میں تھا۔ ٹارگٹ کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ مارے جانے والے 31 امریکی سیلز Seals میں سے 20 وہ تھے جنہوں نے 2مئی 2011ءکو ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن کے کمپاﺅنڈپر حملہ کرکے انہیں مبینہ طور پر قتل کر دیا تھا۔ ان کے ہمراہ سات افغان فوج کے کمانڈوز بھی مارے گئے۔ نیوی سیلز امریکہ کے بہترین کمانڈوز جانے جاتے ہیں۔ عموماً خصوصی اور ٹاپ سیکرٹ مشن کے لیے ان کو بلایا جاتا ہے۔ چنیوک ہیلی کاپٹر میں مارے جانے والے سیلز کا تعلق یونٹ 6 سے تھا جس کے کل کمانڈوز کی تعداد اڑھائی سو سے تین سو بتائی جاتی ہے۔ یہ کمانڈوز نیوی سے متعلق ضرور ہیں لیکن ان سے کہیں بھی براہ راست ایکشن، یرغمالیوں کو چھڑانا، انسداد دہشت گردی، روایتی اور غیر روایتی جنگی کارروائیوں میں حصہ لینا بھی اس کی ذمہ داری میں شامل ہے۔ SEAL مخفف ہے۔ SEA, AIR LAND کا۔
افغانستان میں دس سال سے جاری جنگ کے دوران ایک ہی واقعہ میں 31 امریکی فوجیوں کا مارے جانا سب سے بڑا نقصان ہے اور پھر سیلز کا طالبان کے ہاتھوں ہلاک ہونا تو امریکہ کے کرب و الم میں مزید اضافہ کر دیتا ہے۔ سیلز کو کارکردگی کے حوالے سے بلیک واٹر پر بھی برتری حاصل ہے اسی لیے 31 کمانڈوز کے مارے جانے پر امریکہ میں صف ماتم بچھ گئی ہے۔مغربی میڈیا نے عندیہ دیا تھا کہ اسامہ کی موت کے حقائق چھپانے کےلئے امریکہ نے خود اپنے کمانڈوز ہلاک کئے۔ ایسی افواہیں طالبان کی بہترین جنگی حکمت عملی اور کارکردگی کو سبوتاژ کرنے کی دانستہ کوشش ہو سکتی ہے۔ 
صدر اوباما نے سپیشل کمانڈوز کی ہلاکت پر افسوس کرتے ہوئے انہیں خراج تحسین پیش کیا اور کہا ”یہ ہلاکتیں ان غیر معمولی قربانیوں کی یاد دلاتی ہیں جو امریکی فوج اور ان کے خاندانوں نے افغانستان میں امن کے لیے دی ہیں“۔ امریکہ افغانستان میں جس قسم کا امن برپا کرنا چاہتا ہے اس کا اندازہ چنیوک ہیلی کاپٹر کی تباہی کے فوری بعد صوبہ ہلمند کے علاقے نادِ علی میں امام مسجد کے گھر پر نیٹو کی شدید بمباری سے لگایا جا سکتا ہے جس میں میاں بیوی اپنے 6 بچوں سمیت جاں بحق ہو گئے۔ افغانوں کو امن سے ہمکنار کرنے کے لیے ہی کبھی شادی کی تقریبات پر بمباری کی جاتی ہے کبھی مذہبی اجتماعات پر۔ حامد کرزئی نے بڑی تعداد میں امریکی اور افغان کمانڈوز کے مارے جانے پر اوباما سے دلی تعزیت کرتے ہوئے اسے امریکہ اور افغانستان کا مشترکہ نقصان قرار دیا اور کہا کہ وہ امریکی قوم کے درد میں شریک ہیں جبکہ نیٹو فورسز کی بمباری سے جو 6 بچے مارے گئے اس پر اوباما کو ندامت ہے نہ کرزئی کو اپنے ضمیر کی طرف کوئی ملامت۔
نوع انسانی کے امن کے لیے چاند پر جانے کا دعویدار امریکہ زمین پر لاشوں کے چیتھڑے اڑا کر بچوں اور خواتین سمیت معصوم انسانوں کے خون کی ندیاں بہا کر ایک ایسا ” امن“ قائم کر رہا ہے‘ جس کی بنیاد خالصتاً امریکی مفاد پر مبنی ہے۔ امریکہ دنیا کو جس قیمت پر تسخیر کرنا چاہتا ہے اس کا شاید امریکی انتظامیہ کو اندازہ نہیں ہے۔ بش اوباما سمیت کسی بڑی شخصیت کا بچہ اس امن کی جنگ کی آگ کا ایندھن نہیں بنا‘ جس میں نائن الیون کے بعد 25 سے لاکھ زائد انسان خاکستر اور زخموں سے چور ہو کر معذور ہو گئے۔ جن کی روحیں گھائل ہوئیں ان کی تعداد اس سے بھی کئی گنا ہے۔ دہشت گردی کے خلاف اس جنگ میں امریکی معیشت غرقاب ہو چکی ہے‘ افغانوں کے ہاتھوںدنیا کی پہلی سپرپاور روس کی طرح امریکہ کے بھی غروب ہونے کے امکانات روشن ہو چکے ہیں۔ پرغرور اور طاقت کے نشہ میں چور امریکہ کی یہ جنگ دراصل بے بس لوگوں سے نہیں بلکہ اللہ سے جنگ ہے‘ اور خدا سے بھلا کون جیت سکتا ہے؟ طالبان نے ایک اور امریکی ہیلی کاپٹر مار گرانے کا دعویٰ کیا ہے‘ جس میں 33 امریکی فوجی سوار تھے۔ دیکھیں امریکہ اس بارے میں کیا کہانی گھڑتا ہے؟


No comments:

Post a Comment