اتوار ، 10 جولائی ، 2011
بڑے فوجی افسر کی چھوٹی حرکت
فضل حسین اعوان
امریکی چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی ایڈمرل مائیکل مولن نے پاکستان پر الزام لگایا ہے ”صحافی سلیم شہزاد کو حکومتی ایما پر قتل کیا گیا۔ ایسی حرکتیں کر کے حکومت غلطی پر غلطی کر رہی ہے۔ اس قتل کی اعلیٰ سطح پر منظوری دی گئی۔ اس قتل کا الزام آئی ایس آئی پر نہیں لگا سکتا“۔
امریکی فوج کے سب سے بڑے افسر کی طرف سے ایسا بیان شاید ان کی فوجی زندگی کی سب سے چھوٹی حرکت ہے۔ اس میں شک نہیں کہ ملک میں قتل و غارت، لوٹ مار اور بدامنی کی ذمہ دار حکومت ہی قرار پاتی ہے۔ اس تناظر میں سلیم شہزاد کے بہیمانہ اور بے رحمانہ قتل کی ذمہ دار بھی بالواسطہ طور پر حکومت ہی ٹھہرتی ہے۔ اس قتل پر پاکستان میں شدید ردعمل تھا بالخصوص صحافتی حلقوں میں بڑی بے چینی پائی جاتی تھی حکومت کو غیر جانبدارانہ تحقیقات پر آمادہ کرنے کے لئے جلسے جلوس مظاہرے اور دھرنے دئیے گئے۔ سینئر صحافیوں نے خفیہ ایجنسی کے چند افراد کو موردِ الزام ٹھہرایا۔ جس طرح کی بات امریکی جوائنٹ سروسز کے سربراہ نے کی ہے ایسی بات سلیم شہزاد کے لواحقین، اس قتل پر مشتعل مقتول کے ساتھیوں اور حامیوں نے بھی نہیں کی۔ پاکستان میں مائیکل مولن کے اس الزام سے کوئی بھی متفق نہیں کہ سلیم شہزاد کے قتل کی منظوری اعلیٰ سطح پر دی گئی۔ دوسری اور اہم بات یہ ہے کہ مولن نے یہ بیان کس حیثیت میں دیا؟ سلیم شہزاد کا ظالمانہ قتل قطعی طور پر پاکستان کا اندرونی معاملہ ہے۔ امریکہ کا اس سے کیا لینا دینا۔ مقتول صحافی امریکی تھا نہ دوہری امریکی شہریت کا حامل۔ حکومت قتل کی تحقیقات کے لئے سپریم کورٹ کے جج میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں کمشن تشکیل دے چکی ہے۔ جس پر صحافتی اور سیاسی حلقوں نے اعتماد کا اظہار کیا ہے۔ کمشن کا گزشتہ روز بھی اجلاس ہوا جس کے روبرو پیش ہو کر سینئر صحافیوں نے بیانات قلمبند کرائے۔ مولن کیا دنیا کو یہ تاثر دینا چاہتے ہیں کہ مقتول صحافی امریکہ کے متعین کردہ خطوط پر کام کر رہا تھا یا ان کے دل میں انسانیت نے انگڑائی لی اور وہ ایک بے گناہ انسان کے قتل پر دلبرداشتہ ہو کر زبان پہ جو آیا انسانی ہمدردی کے تحت بیان کر دیا؟ فلسطین میں یہود، کشمیر میں ہنود بے گناہ انسانوں کا خون بہا رہے ہیں۔ افغانستان اور عراق میں خود امریکہ نے لاکھوں افراد کو آگ اور بارود میں پگھلا کر مار ڈالا اس پر تو مولن کا ضمیر کبھی جاگا نہ اس میں خلش پیدا ہوئی۔ نہ ہی دل پسیجا۔ سلیم شہزاد کا قتل سب پر بھاری پڑ گیا یہ مولن کی مقتول صحافی اور پاکستانی صحافیوں کے ساتھ ہمدردی و غمگساری نہیں۔ مولن ایسے الزامات لگا کر پاکستان کو اپنے مزید ڈو مور کے تقاضوں کے سامنے سر جھکانے پر مجبور کرنا چاہتے ہیں۔ جس میں شمالی وزیرستان میں آپریشن اہم ترجیح اور شرطِ اولین ہے۔
حکومت نے مولن کے بیان کی مذمت اور شدید ردعمل ظاہر کرتے ہوئے اسے نہایت ذمہ دارانہ قرار دیا ہے۔ ایسا ہی بیان دوہری شہریت کے حامل حسین حقانی کو بھی دینا چاہتے تھے لیکن اس پر تو خاموش رہے البتہ یہ ضرور اور بلاضرورت اوباما حکومت پر زور دیتے ہوئے کہہ دیا۔ ”ایک تحقیقاتی کمشن سلیم شہزاد کے قتل کی تحقیقات کر رہا ہے اگر امریکی حکام کے پاس اس حوالے سے کوئی شواہد ہیں تو وہ اس کمشن کو فراہم کئے جائیں۔ ہم اس معاملے میں تہہ تک جانا چاہتے ہیں“۔
امریکہ اس معاملے میں کیوں آئے اور ٹانگ اڑائے۔ حسین حقانی امریکہ میں کس ملک کے مفادات کا تحفظ کر رہے ہیں؟ پاکستان یا امریکہ کے۔ انہوں نے امریکی شہریت کا حلف اٹھا رکھا ہے ملاحظہ فرمائیے۔ ”میں حلف اٹھاتا ہوں کہ میں امریکی شہریت اختیار کرنے کے بعد امریکہ کے علاوہ کسی بھی ملک، حکومت یا ریاست کے ساتھ کسی قسم کی وابستگی نہیں رکھوں گا میں کسی بھی دوسرے ملک کی شہریت سے دستبردار ہو جاﺅں گا۔ میں امریکی ریاست، آئین اور قانون کا اندرونی اور بیرونی دشمنوں سے تحفظ کروں گا اور ان کا ہر قیمت پر دفاع کروں گا۔ یہ کہ میں امریکی ریاست، آئین اور قانون کا ہمیشہ وفادار رہوں گا۔ یہ کہ میں قانون کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے امریکہ کے دفاع اور تحفظ کے لئے ہتھیار اٹھاﺅں گا۔ میں قانون کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے امریکی افواج میں غیر فوجی خدمات کی ادائیگی کے لئے ہمہ وقت دستیاب ہوں گا۔ میں سول حکومت کی ہدایت پر ہر قسم کا قومی فریضہ سرانجام دینے کے لئے دستیاب ہوں گا۔ یہ کہ میں بقائمی ہوش و حواس اپنی آزادانہ مرضی سے یہ حلف اٹھا رہا ہوں اور اس حلف کے مندرجات سے پہلو تہی کرنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتا۔ خدا میرا حامی و ناصر ہو“۔ امریکہ نے تو پاکستان کے خلاف ہتھیار اٹھائے ہوئے۔ حقانی جیسی چیزیں بھی اپنے حلف کے مطابق ساتھ رکھی ہوئی ہیں۔ لنکا جب بھی ڈھائی ہمارے اپنوں ہی نے ڈھائی۔ حقانی جس تہہ تک پہنچنا چاہتے ہیں۔ امریکہ کا مدعا بھی یہی ہے۔ یہ تہہ بھی خود تخلیق اور تعمیر کرتے ہیں پھر اس تک پہنچ بھی خود جاتے ہیں۔
امریکہ کا جب سلیم شہزاد سے کوئی تعلق ہی نہیں تو اسے شواہد پیش کرنے کی پیشکش کیوں کی جائے۔ حکومت کو مولن کا بیان ٹھنڈے پیٹوں صرف مذمتی، الفاظ کا سہارا لے کر بیٹھ نہیں جانا چاہئے۔ ایسے بیانات کا سفارتی پروٹوکول کے مطابق باقاعدہ جواب دینا اور طلب کرنا چاہئے۔ جوڈیشل کمشن کے اگر دائرہ اختیار میں ہے تو مولن کو بھی گواہ کے طور پر طلب کر کے وہ شواہد طلب کرنے چاہئیں جن کی بنا پر مولن نے کہا کہ قتل کی اعلیٰ حکومتی سطح پر منظوری دی گئی۔
No comments:
Post a Comment