منگل ، 12 جولائی ، 2011
بے رحمانہ احتساب
فضل حسین اعوان
ہم چرچل کے افکار سے رہنمائی کیوں لیں‘ ہم مستنیر (جس کی چمک کسی اور کی روشنی کی محتاج ہے) سے مستفید کیوں ہوں؟ ہمارے پاس تو خود منبعِ ہدایت موجود ہے‘ سراج اور سراجاً منیرا موجود ہے‘ جس منیر سے مغرب مستفید ہو رہا ہے‘ ہم کیوں نہ ہوں۔ چرچل نے کئی صدیوں بعد حضرت علی کرم اللہ وجہ کی بات دہرا دی کہ ملک میں انصاف کا دورہ ہے تو مملکت کو خطرہ نہیں۔ حضرت علی نے فرمایا تھا‘ ”کفر کی حکمرانی چل سکتی ہے‘ ظلم کی نہیں“۔ جس معاشرے میں انصاف نہ ملے یا بکنے لگے تو یہی ظلمت و ضلالت ہے‘ اپنے اردگرد نظر دوڑائیں‘ انصاف بکتا‘ سائل بھٹکتا‘ منصف کہیں مصلحتوں کی بھینٹ چڑھتا اور کہیں انصاف کا خون کرتا نظر آئیگا۔ خود کو خدا کے سامنے جواب دہ سمجھنے والے منصف بھی یقیناً موجود ہیں لیکن انکی تعداد اتنی ہی ہے جتنی ہمارے وزیروں مشیروں کی بیگمات کی‘ سیلاب فنڈ میں زیورات جمع کرانے والیوں کی۔ ظلم کا خاتمہ تو یقینی ہے‘ اگر یہ قہر خداوندی کے ساتھ ہوا تو سوچیئے‘ غور فرمائیے‘ کون محفوظ رہ سکے گا۔ کسی اور نے نہیں پنجاب کے سب کے بڑے منصف نے پنجاب کی ماتحت عدلیہ کی کارکردگی کے چہرے سے نقاب سرکایا تو انصاف کا کیسا چہرہ نظر آیا‘اجلا‘ چمکتا‘ جگمگاتا ہوا ہے یا دھندلا‘ مرجھایا اور کملایا ہوا۔ چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ اعجاز احمد چودھری نے ججوں کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ”جوڈیشل پالیسی پر عملدرآمد نہ ہونے کے حوالے سے پاکستان بھر میں سب سے زیادہ خراب صورتحال پنجاب میں ہے۔ ماتحت عدلیہ کا 90 فیصد عملہ کرپشن میں ملوث ہے۔ اچھی شہرت کے حامل سیشن ججوں کی تعیناتیاں کی گئیں مگر کرپشن کے قلع قمع کے حوالے سے توقعات پوری نہیں ہوئیں۔ مقدمات نمٹانے کا کام اس رفتار سے نہیں چل رہا‘ نئے مقدمات تو ایک طرف‘ ابھی تک 95 اور 96ءکے مقدمات بھی زیر التواءہیں۔ ہم نے پنجاب بھر میں اچھی شہرت کے حامل سیشن جج صاحبان کی تقرریاں کی تھیں تاکہ وہ بہتر طور پر کام کر سکیں اور ماتحت عدلیہ سے کرپشن کا قلع قمع کر سکیں لیکن ہمیں مطلوبہ نتائج نہیں مل رہے اور وہ کام نہیں ہو رہا جس کی توقع کی تھی۔ ہم غلط شہرت رکھنے والوں کو فارغ اور اچھی شہرت کے حامل جوڈیشل افسران کی حوصلہ افزائی کرینگے۔“
جج صاحب نے 95ءاور 96ءسے زیر التواءمقدمات کی بات کی ہے۔ پندرہ سولہ سال میں کتنے ہونگے جو انصاف کیلئے ترستے ترستے موت کی وادی میں دل میں منصفوں کے بارے میں آزار اور فگار لے کر اتر گئے۔ انصاف کا قتل صرف ماتحت ہی نہیں‘ اعلیٰ اور عظمٰی عدالتوں تک میں بھی ہوتا چلا آرہا ہے۔ جہاں قتل‘ غداری اربوں کھربوں کی لوٹ مار کے مقدمات ہوں وہاں عتیقہ سے شراب کی بوتل برآمدگی پر اسے نشانِ عبرت نہ بنانے پر سوموٹو ؟ ایک مونس الٰہی کیس پوری حکومت اور عدلیہ پر بھاری پڑ گیا۔ مسٹر جسٹس اعجاز چودھری کی آخری بات بڑی غور طلب ہے ”ہم غلط شہرت رکھنے والوں کو فارغ کرینگے“ بڑی اچھی بات ہے لیکن فارغ کب کرینگے؟ انصاف کا خون اور عدلیہ کو بدنام کرنےوالے ججوں کو تو ایک لمحہ کےلئے برداشت نہیں کیا جانا چاہیے۔ ججوں کی تنخواہیں دگنا کردی گئیں‘ پھر بھی کوئی رشوت لے یا رشوت لینے والے اپنے ساتھیوں کو برداشت کرے تو اسے اس مقام پر رہنے کا کیا حق ہے۔ آپ کرپشن غفلت اور کوتاہی پر سخت ایکشن لیں‘ 20 میں سے اٹھارہ بھی کرپٹ ہوں تو ان کا محاسبہ کریں۔ اگلے اٹھارہ میں سے مزید دو ایماندار مل جائینگے۔ دیانتداروں کی تعداد بڑھانے کیلئے نہ صرف عدلیہ بلکہ فوج پولیس اور دیگر محکموں میں بھی کڑے احتساب کی ضرورت ہے۔
بالکل ایسے احتساب کی جس طرح آسٹریلیا میں پولیس کمشنر بل ایلسن نے رشوت کے پیسے سے سڈنی میں محل نما گھر تعمیر کرلیا تھا‘ اسکی انکوائری ہو رہی تھی‘ اس دوران ایک کاروباری شخص نے ایلسن اور اسکی فیملی کو امریکہ اور جاپان کی سیر کرائی۔ ان اخراجات کی ادائیگی بذریعہ چیک ہوئی جس کے باعث ملزم آسانی سے مجرم بن گیا جس کی پاداش میں بل کو آئی جی کے عہدے سے ہٹا کر تھانیدار بنا دیا گیا۔ بتایئے آسٹریلیا میں اس واقعہ کے بعد کون لوٹ مار کرنے کی جرا ¿ت کریگا؟ چلتے چلتے امریکہ کی بھی ایک مثال ملاحظہ فرما لیجئے۔
مئی 2005ءمیں امریکی فوج کی بریگیڈیئر جنرل جینس کارپنسکی کی ابوغریب جیل میں قیدیوں سے بدسلوکی کے معاملے میں کوتاہی برتنے پر کرنل کے عہدے پر تنزلی کردی گئی تھی۔ اس سے بھی قبل ڈسپلن کی خلاف ورزی پر جنرل ولیم لنڈرم بلی مچل کو 1925ءکو کرنل بنا دیا گیاتھا‘ اسکی امریکی فضائیہ کیلئے خدمات ناقابل فراموش ہیں‘ اس کو امریکہ کا بابائے فضائیہ (Father of Air Force) کہا جاتا ہے۔ ترک وزیراعظم طیب اردگان نے اقتدار کے رسیا جرنیلوں سے آہنی ہاتھوں سے نمٹا‘ سازشی بری‘ بحری اور فضائی افواج کے سربراہوں کو انکی ریٹائرمنٹ کے بعد ساتھیوں سمیت جیل میں ڈالا‘ دو ماہ قبل ایک ایئرچیف مارشل جوفل جرنیل کے برابر ہوتا ہے‘ کو اسکے دفتر سے گرفتار کرکے قید کر دیا۔ اسکے برعکس پاکستان میں اس قسم کے واقعات پر صرف میڈیا میں چند روز شور ہوتاہے‘ اسکے بعد مکمل خاموشی چھا جاتی ہے۔ معاشرے میں زندگی کی روانی و شادمانی اور ظلمت ضلالت و تاریکی سے نکلنے کیلئے کڑا احساب‘ ہر ادارے اور شعبے میں ناگزیر ہو چکا ہے۔
No comments:
Post a Comment