About Me

My photo
Fazal Hussain Awan colomnist Daily NAWAI WAQT awan368@yahoo.com 03334215368

Sunday, July 24, 2011

خط ۔ وارننگ

 اتوار ، 24 جولائی ، 2011

خط ۔ وارننگ
فضل حسین اعوان 
سابق آرمی چیف جنرل اسلم بیگ کے موجودہ آرمی چیف جنرل کیانی کو لکھے گئے مبینہ خط کا آج کل میڈیا میں پوسٹ مارٹم جاری ہے۔ اس خط سے کسی حلقے کے ارمانوں پر اوس پڑ رہی، امیدیں نومیدی میں بدل رہی ہیں۔ کسی طبقے کی دل میں مچلتی خواہش حقیقت کا روپ دھارتی نظر آرہی ہے۔ جنرل اسلم بیگ لگی لپٹی کے بغیر اپنا مافی الضمیر بیان کرنے کا شہرہ رکھتے ہیں وہ نہ صرف جمہوریت پسند بلکہ جمہوریت پرور بھی ہیں۔ محترمہ بینظیر بھٹو نے اپنے پہلے دورِ حکومت میں فوج کو تمغہ جمہوریت دیا تھا۔ اس کی وجہ اُس وقت کے فوجی سربراہ کی طرف سے جمہوریت کی بحالی کےلئے بہترین کردار تھا۔ جنرل اسلم بیگ کے پاس جنرل ضیا ¿الحق کے المناک حادثے سے ہمکنار ہونے کے بعد ٹیک اوور کا بہترین موقع اور ان پر زبردست دبا ¶ بھی تھا لیکن انہوں نے اصولی فیصلہ کیا اور جمہوریت کو پٹڑی پر چڑھا دیا۔ جنرل بیگ جہاں جمہوریت کی بحالی کی کریڈٹ لیتے ہیں وہیں 90 سے 98 تک جمہوریت کے تزلزل اور تنزل میں بھی خود کو کسی حد تک ذمہ دار سمجھتے ہیں۔ اس کا اعتراف انہوں نے نوائے وقت میں18جون 2011ءکو شائع ہونے والے کالم ”قوم مضبوط فیصلوں کی منتظر ہے“ میں یوں کیا ہے : 
”مئی 1990ءمیں صدر غلام اسحاق خان کی جانب سے مجھے ایک فائل ملی جس میں بینظیر حکومت کی چند بڑی خامیوں کی نشاندہی کی گئی تھی۔ میں نے اپنے کور کمانڈروں اور پرنسپل سٹاف افسروں کے ساتھ اس فہرست کا جائزہ لیا اور متفقہ فیصلہ کرتے ہوئے ایوان صدر کو مشورہ دیا ”آئین کی حدود میں رہتے ہوئے صدر جو مناسب سمجھیں فیصلہ کریں۔“ اس طرح بے نظیر کی حکومت ختم کر دی گئی اور 90 دن کے اندر انتخابات کرانے کے لئے نگران حکومت بنا دی گئی۔ اس فیصلے کے نتیجے میں 1990ءسے 1998ءتک صدارتی مہم جوئی کا سلسلہ جاری رہا۔ اس فیصلے پر مجھے افسوس ہوا کیونکہ اگر مشورہ کئے بغیر میں خود فیصلہ کرتا تو بہتر فیصلہ کر سکتا تھا۔“ 
جنرل اسلم بیگ کے جنرل کیانی کو لکھے گئے جس خط کا میڈیا میں چرچا ہے اس کے مندرجات کو دیکھتے ہوئے بہت سے لوگوں کے خیال میں اس پر یقین نہیں کیا جا سکتا کہ ایک سابق آرمی چیف نے موجودہ آرمی چیف کو ایسا کوئی خط لکھا ہے۔ اگر لکھا بھی ہے تو اس سے پوہ پھوٹنے کے بعد سورج کی پہلی کرن کے ارض پاک پر ٹکرانے سے قبل سیاست میں کوئی انقلابی تبدیلی کا امکان نہیں۔ جس خط کی بات ہو رہی وہ میڈیا کو جنرل اسلم بیگ نے دیا، جنرل کیانی نے یا ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل اطہر عباس نے؟ کسی بھی اخبار میں خط کا مکمل متن شائع نہیں ہوا محض اسلام آباد کے کالم نگار کے کالم کا وہ حصہ شائع ہوا جس میں خط کا تذکرہ تھا۔ قاضی حسین احمد کی دعوت پر ملکی مسائل پر بحث کے لئے چند عمائدین سیاست و دفاع اکٹھے ہوئے کالم نگار نے لکھا ہے کہ ”جنرل اسلم بیگ نے انکشاف کیا کہ وہ بذریعہ خط مسلح افواج کی قیادت کو باور کرا رہے ہیں“ جنرل بیگ نے جنرل کیانی کو خط لکھا یا نہیں لکھا اب اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا، وہ جو کہنا چاہتے تھے وہ جنرل کیانی تک میڈیا کے ذریعے پہنچ گیا۔ آگے چلنے سے قبل ملاحظہ فرمائیے جنرل اسلم بیگ نے بات کیا کی جسے خط کا نام دیا گیا ہے : 
”فوج مزید انتظار کئے بغیر اصلاح احوال کے لئے اپنا کردار ادا کرے۔ اس کردار کا مطلب ہرگز مارشل لا کا نفاذ نہیں لیکن اس وقت اگر فوج نے حالات کو سنبھالا دینے کے لئے کوئی مثبت پیش قدمی نہ کی اور معاملات کو جوں کا توں چھوڑ دیا تو وہ موڑ جلد آنے والا ہے جب فوج کو وہ کردار ادا کرنا پڑے گا جو ہمیشہ بے ثمر ہی رہا ہے۔ امکان ہے کہ عدالت اپنے فیصلوں کی بے توقیری سے عاجز آ کر بے بس ہو جائے گی اور جج صاحبان چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی قیادت میں مستعفی ہو جائیں گے۔ عدلیہ کے مستعفی ہوتے ہی مسلم لیگ (ن) اور باقی حزب اختلاف بھی اسمبلیوں سے باہر آ جائیں گے۔ احتجاج کا ایک سونامی اٹھے گا اور پھر فوج اس پر قابو پانے کے لئے آگے بڑھے گی اور ملک خدانخواستہ ایک بار پھر لمبی آمریت کے نرغے میں چلا جائے گا۔ اگر فوج ایسا نہیں چاہتی اس کی نیت درست ہے اور بظاہر یہی لگتا ہے کہ جنرل کیانی کی سوچ میں کوئی کجی نہیں تو پھر انہیں تعمیری کردار ادا کرتے ہوئے ایک قومی حکومت کی راہ کھولنی چاہئے جو کم از کم ایک سال معاملات کی نگہبانی کرے، حالات کو سنبھالا دے اور آزادانہ انتخابات کرا کے گھر چلی جائے۔“ 
جنرل بیگ نے جن عوارض و امراض کی نشاندہی کی اس سے کس کو اتفاق نہیں۔ شاید گیلانی اور زرداری صاحب بھی عدم اتفاق نہ کر سکیں۔ جنرل صاحب کی تشخیص بالکل درست البتہ انہوں نے جو علاج تجویز کیا جن امکانات، خدشات اور تحفظات کا ذکر کیا اس سے یقیناً اختلاف کیا جا سکتا ہے۔ جنرل کیانی شاید ایسی غلطی کا اعادہ نہ کریں جس کا اعتراف جنرل بیگ نے کیا کہ وہ ساتھیوں کے مشورے پر عمل کے بجائے خود اپنا فیصلہ کرتے تو بہتر تھا۔ آج ملک بحرانوں کے طوفانوں میںگھرا ہے۔ مہنگائی، بیروز گاری، بدامنی، لاقانونیت کی سرخ، زرد اور سیاہ آندھیاں چل رہی ہیں۔ ڈرون حملوں کی یلغار، امریکی دھمکیوں کی بھرمار یہ بھی کر دو وہ بھی کر دو کی تکرار و اصرار اور اس پر ہماری قیادتوں کی جی حضوری پالیسی نے قومی خود مختاری کو بے بال و پَر کر دیا ہے۔ بلاشبہ آج عدلیہ آزاد ہے لیکن اس کے فیصلوں کو ایسی عمارت میں پھینک دیا جاتا ہے جس کا در ہے کھڑکی نہ روشن دان۔ انصاف کو یوں پا بجولاں کر دینے سے ظلمت و ضلالت میں روشنی کی کوئی تو کرن پھوٹے گی۔ انصاف کو مقید کر دینے والا گنید در بند کبھی تو ٹوٹے اور پھوٹے گا۔ یہ سب ہونے سے قبل انصاف کو آزاد کر دیا جائے۔ قوم شمع فروزاں کے جگمگانے اور جھلملانے کی امید لئے ہوئے تھی کہ حکمرانوں نے چراغ شبِ غم جلا کر اسے رنج و الم سے دوچار کر دیا۔ جنرل اسلم بیگ کے خط یا خیالات پر جمہوریت کے پروانے کہیں ملال اور کہیں جلال و اشتعال کا مظاہرہ کر رہے ہیں، یہ نہیں کہ بیگ صاحب نے اِدھر جو کہہ دیا کیانی صاحب نے آ ¶ دیکھا نہ تا ¶ اس پر عمل کر دیا۔ جنرل بیگ کے خیالات حکمرانوں، شمع جمہوریت کے پروانوں اور دیوانوں کے لئے اپنی اصلاح کا واضح پیغام ہے۔ اس خط پر مایوس نہ ہوں۔ اسے اپنی دشمنی اور جمہوریت کشی پر محمول نہ کریں۔ اسے وارننگ سمجھ کر اپنی اصلاح کریں۔ وہ نوبت ہی نہ آنے دی جائے جس سے جمہوریت متزلزل ہو اور ہم ایک بار آمریت کی تنگ و تاریک گلیوں میں کئی سال تک بھٹکتے رہیں جس کا چار مرتبہ تو تلخ تجربہ ہو چکا ہے۔


No comments:

Post a Comment