اتوار ، 03 جولائی ، 2011
او آئی سی سے جرات رندانہ کی امید
فضل حسین اعوان
57 اسلامی ممالک کی نمائندہ تنظیم او آئی سی شجرِ بے برگ و بے ثمر بن کر رہ گئی۔ اس کی پژمردہ شاخوں سے کبھی شگوفے نہیں پھوٹے۔ ان شاخوں سے نمودار ہونے والی سوختہ کونپلیں شجر کی دائمی خزاں رسیدگی کی زباں بن کر دنیا پر اس کی حالت زار عیاں اور نمایاں کر دیتی ہیں۔ اس تنظیم کے کرتا دھرتا ممبر ممالک کے اجلاس بلاتے ہیں۔ کبھی اِس ملک ، کبھی اُس ملک، بڑے اہتمام اور انصرام کے ساتھ۔ مسلم اُمہ کے اہم ترین دو مسائل‘ دہکتا کشمیر اور شعلے اگلتا فلسطین ہےں۔ او آئی سی کا جنم 25 ستمبر 1969 کو ہوا۔ مذکورہ دونوں مسائل اس کی پیدائش سے بھی کم و بیش 20 سال قبل کے ہیں۔ ان پر پیشرفت تو کجا یہ مزید گھمبیر ہوتے چلے گئے۔ اس کے ساتھ ساتھ اُمہ کی تذلیل و تضحیک پر مبنی دیگر بہت سے سانحات و واقعات وقوع پذیر ہوئے، ان پر او آئی سی کا کردار محض گفتار کے غازی کا رہا۔ عراق نے ایران سے لڑائی کی، کویت پر چڑھائی کی۔ تینوں او آئی سی کے ممبر ہیں۔ اتنی بڑی اور اعلیٰ سطح کی تنظیم کے ہوتے ہوئے مسلم ممالک کے مابین جنگیں تنظیم کی غیر فعالیت کا ثبوت ہیں۔ امریکہ نے عراق کی اینٹ سے اینٹ بجا کر صدر صدام حسین کو پھانسی چڑھا دیا۔ افغانستان کا تورا بورا بنا دیا۔ پاکستان پر ڈرون کی یلغار و بھرمار ہے لیبیا‘ افغانستان اور عراق کی طرح امریکی واس کے اتحادیوں کے غیظ و غضب کا شکار ہے۔ ایران پر غرا رہا ہے۔ شام کو دھمکا رہا ہے۔ شام میں مظاہرے ہوں تو حکومت پر الزام‘ بحرین میں ہوں تو مظاہرین پر دشنام‘ فلسطین اور کشمیر میں آزادی کی تحریکیں دہشت گردی، شمالی تیمور اور جنوبی سوڈان میں ایسی ہی نصرانی تحریکیں حریت پسندی‘ کیسا دہرا معیار اور دوغلی پالیسی ہے عالمی تھانیدار کی۔ اس کی یہ تھانیداری او۔آئی۔سی کی بزدلی کی وجہ سے قائم اور برقرار ہے۔ ایران کی مثال سامنے ہے۔اسے پابندیوں کی پروا ہے نہ دھمکیوں کی۔ اس کی بندوق کا رُخ اسرائیل کی طرف اور انگلی لبلبی پر ہے۔ ایران کے اسی ایکشن پر امریکہ اسرائیل اور اس کے حواری بدکتے اور دبکتے ہیں۔ 57 ممالک متحد ہو جائیں پاکستان کی صورت میں ایٹمی قوت ان کے پاس ہے۔ وسائل کی کمی ہے نہ کسی بھی شعبہ کے ماہرین اور افرادی قوت کی۔ کمی ہے تو صرف عزم، ارادے، حوصلے، جرا ¿ت، حکمت اور اتحاد و اتفاق کی۔ آئی سی اسلام دشمنوں کے لئے بے ضرر ثابت ہوئی ہے۔ اس کا یہی کردار عالم اسلام کےلئے حضرت رساں ہے۔ آج کل اسلامی ممالک کے ممبر اور مبصر آستانہ قازقستان میں اُمہ کےلئے درد دل کا اظہار کر رہے ہیں۔30جون کے اجلاس میں مسلم اُمہ کو مسائل کی دلدل سے نکالنے کےلئے بڑے ”جرا ¿ت مندانہ“ فیصلے کئے گئے۔ ملاحظہ فرمائیے:۔
’‘’او آئی سی کے رکن ممالک نے اپنے 38ویں اجلاس میں کشمیر، فلسطین، لیبیا و شام کے مسائل حل کرنے کیلئے کمشن کا اعلان کر دیا تاکہ دنیا میں امن کے قیام اور انسانوں کو ان کے بنیادی حقوق فراہم کئے جائیں۔ او آئی سی کے مسلم ممالک کے ممبران نے آستانہ میں ہونے والے اجلاس میں کشمیریوں کے حق خود ارادیت کی حمایت کا اعادہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ بھارت مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے پاکستان کے ساتھ بامقصد مذاکرات کرے جبکہ مسلم اُمہ کے اتحاد کے قیام پر زور دیتے ہوئے کہا گیا کہ ہمیں ایک طاقت بننا ہے، جس کا مقصد کسی کا مقابلہ نہیں بلکہ اپنے آپ کے حالات بہتر بنانے اور اپنے آپ کو مضبوط کرنا ہے۔“ 63 سال سے ناسور بنے زخموں کا علاج اب او آئی سی کا مجوزہ کمشن تجویز کرے گا۔ مسئلہ کشمیر‘ کشمیریوں کےلئے حق خودارادیت کی حمایت کے اعادہ سے حل ہو جائے گا؟ مسلم امہ کے بھرپور طاقت بننے کی طرف پیشرفت کب ہو گی؟
اُمہ کے مسائل او آئی سی کے کرتا دھرتاﺅں کے انداز شاہانہ اور سخن گسترانہ سے نہیں، جرا ¿ت رندانہ‘ مردانگی اور اپنے مقصد کے حصول کیلئے دیوانگی سے حل ہوں گے۔ مسئلہ کشمیر کے حل کےلئے او آئی سی بھارت کو اسی لہجے اور زبان میں سمجھائے جو سمجھتا ہے۔ ڈنڈے اور جوتے کی زبان۔ اسے اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق مسئلہ کشمیر کے حل کی وارننگ اور ڈیڈ لائن دی جائے۔ جیسے امریکہ نے مشرف کو دی، قوم کےلئے شعلہ زن مشرف امریکہ کے سامنے راکھ کا ڈھیر بن گئے۔ بھارت کو 57 اسلامی ممالک کی نمائندہ تنظیم دھمکی دے گی تو بھارت راہ راست پر آ سکتا ہے۔ نہ مانے تو دھمکی پر عمل کر گزرے۔ یہی ایک حل ہے مسئلہ کشمیر کا! اس طریقے سے مسئلہ کشمیر حل ہو گا تو دنیا پر او آئی سی کی دھاک بیٹھے گی جس سے اسرائیل خود ہی راہ راست پر آ جائے گا۔
No comments:
Post a Comment