جمعۃالمبارک ، 01 جولائی ، 2011
امریکہ طالبان مذاکرات پروپیگنڈا!
فضل حسین اعوان
صدیوں قبل ہی سہی امریکیوں نے اپنی جانیں دیکر اور برطانوی آقاﺅں کی جانیں لیکر آزادی حاصل کی۔ زخم دونوں طرف ہوسکتا ہے، مندمل ہوچکے ہوں لیکن نشان باقی ہیں۔ جن پر نظر پڑتے ہی خون آشام مناظر آنکھوں کے سامنے ضرور گھوم جاتے ہیں۔ ایک نسبتاً تازہ زخم برطانیہ، افغانستان سے بھی کھائے اور اسکا بوجھ اٹھائے ہوئے ہے۔ 1842ءمیں کابل سے بھاگتی ہوئی 16500 انگریز سپاہ کو افغانوں نے قتل کردیا تھا۔ صرف ڈاکٹر برائیڈن کو زندہ چھوڑا تاکہ وہ جلال آباد چھاﺅنی پہنچ کر اپنے ساتھیوں کے عبرتناک انجام سے آگاہ کرسکے۔ اب برطانیہ 2001ءمیں امریکہ کا اتحادی بن کر اسے افغانستان میں کھینچ لایا ہے۔ ایک تیر سے دو شکار کرنے کی کوشش۔ امریکہ اور افغانستان سے انتقام.... امریکہ کو عراق کی دلدل میں بھی برطانیہ نے جھوٹی گواہی دیکر پھنسایا۔ اس جنگ میں امریکہ کی معیشت ڈوب رہی ہے۔ اتحادی فوجیوں کا خون بہہ رہا ہے۔ لاکھوں افغان موت کے منہ میں چلے گئے، پورا ملک برباد ہوگیا۔ اس سے برطانیہ کے کلیجے میں ٹھنڈ تو ضرور پڑی ہوگی تاہم امریکہ مغرب سے طلوع ہو کر آج مشرق میں غروب ہونے کو ہے۔ اس کا تمام ترگھمنڈ راکھ ہو کر خاک میں مل گیا ہے۔ اس نے دل میں شکست مان لی۔ زبان سے اقرار کرنے سے فی الوقت گریزاں ہے۔ اس نے واپسی کا اعلان بھی کردیا۔ ایسے اعلانات وہ عراق سے انخلاءکے بھی کرچکا ہے۔ اس نے نائن الیون کا ڈرامہ کیا، اسامہ کے قتل کا فریب دیا، عافیہ کا مقدمہ اور سزا جھوٹ پر مبنی ہے، جھوٹی اطلاعات اور شہادتوں پر عراق پر یلغار کردی۔ افغانستان سے انخلاءکا اعلان اور شیڈول بھی ایک جھوٹ، دغا، فریب اور چال ہوسکتا ہے۔ اگر امریکہ واقعی افغانستان سے انخلاءمیں مخلص ہے تو اسے جنگ سمیٹنے کی تیاری کرنی چاہئے تھی لیکن وہ تو جنگل کو مزید پھیلا رہا ہے۔ نہ صرف افغانستان میں بلکہ پاکستان کے اندر تک بھی۔ اوباما کے مشیر برینن نے جارحانہ انداز میں دھمکی دی ہے کہ القاعدہ کے مراکز قبائلی علاقے ہیں جہاں کارروائی کریں گے۔
افغانستان سے انخلاءکی نیک نیتی ثابت کرنے کیلئے امریکہ نے طالبان سے مذاکرات کا تاثر دینا شروع کردیا ہے۔ پہلے وہ کہتا تھا صرف اچھے طالبان سے مذاکرات ہوسکتے ہیں۔ اب ملا عمر کے ساتھیوں سے مذاکرات کی خبریں نشر اور شائع کرائی جا رہی ہیں۔ اچھے طالبان کون ہیں؟ وہی جو امریکہ کے آگے سرنڈر کرگئے۔ اپنے مشن اور طالبان کے کاز کے ساتھ غداری کی۔ طالبان حکومت کے آخری وزیر خارجہ وکیل احمد متوکل کی خو کے لوگ۔ ایک ملا عبدالسلام ضعیف بھی تھے، طالبان حکومت کے پاکستان میں آخری سفیر، جن کو مشرف حکومت نے تمام تر سفارتی پروٹوکول، قوانین اور قواعد و ضوابط کے برعکس امریکہ کے حوالے کردیا۔ پھر وہ کئی سال گوانتانامو میں قائم امریکی عقوبت خانے میں عذاب اور عتاب کا نشانہ بنتے رہے۔ وہ اپنی اسیری کی داستان میں لکھتے ہیں کہ وکیل احمد متوکل وہ شخص ہے جس نے امریکیوں سے اپنے ضمیر کا سودا کرلیا تھا۔
امریکہ کو ”اچھے طالبان“ سے مذاکرات کا تو کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ اب ”اصل طالبان“ سے مذاکرات کا پروپیگنڈہ کیا جا رہا ہے۔ یہ پاکستان کو بدنام کرنے اور پاکستان میں امریکی جنگ مزید پھیلانے کا ایک حربہ ہے۔ پہلے یہ اطلاعات آئیں کہ ملا عمر کے پرسنل سیکرٹری طیب آغا کے اتحادیوں سے جرمنی میں مذاکرات ہوئے ہیں۔ پھر کرزئی بولے کہ امریکہ اور طالبان مذاکرات شروع ہوگئے۔ اسکے بعد بتایا گیا کہ برطانیہ، امریکہ اور جرمنی کے حکام سے بات چیت کیلئے ملا عمر نے طیب آغا کو قطر بھیج دیا۔ آخری اطلاع یہ تھی کہ ملا عمر کا ایک نمائندہ معتصم قطر میں امریکہ کے ساتھ مذاکرات کررہا ہے۔ یہ کسی مصدقہ ذریعے کی اطلاعات نہیں، کرزئی امریکہ کی کٹھ پتلی، وہ امریکہ کی دی گئی چابی کے مطابق ہی چلے گا۔ اقوام متحدہ میں سابق طالبان سفیر عبدالحکیم مجاہد امریکی پروپیگنڈے کو پھیلانے کا دوسرا ذریعہ ہے۔ اسکی حیثیت بھی وکیل احمد متوکل جیسی ہے۔ ملا عمر کے بارے میں مذاکرات کے حوالے سے ایسا تاثر قائم کیا جا رہا ہے کہ وہ جیسے کسی ہیڈکوارٹر میں بیٹھے مذاکرات کیلئے بااعتماد لوگوں کو ہدایات دے رہے ہیں۔ مذاکرات کا پروپیگنڈہ کرکے امریکہ اس تاثر کو مزید مضبوط کریگا کہ ملا عمر حکومت پاکستان یا خفیہ ایجنسیوں کی حفاظت میں ہیں۔ پھر پاکستان پر ہر بات ماننے کا دباﺅ بڑھا دیگا۔ اپنی عادت اور فطرت کے عین مطابق۔ شمالی وزیرستان میں آپریشن اسکی بڑی اور پہلی ترجیح ہے۔ مذاکرات کیلئے ماحول سازگار بنایا جاتا ہے۔ ایک طرف افغانستان میں طالبان پر بمباری، گولہ باری جاری ہے، بچوں اور خواتین سمیت بے گناہ افغانوں تک کا عرصہ حیات تنگ کیا ہوا ہے، دوسری طرف مذاکرات، اگر مذاکرات کرنا ہیں تو سیزفائر پہلی ضرورت ہے۔ پھر آپ ان لوگوں سے مذاکرات کی خبریں دے رہے ہیں جن کے سروں کی بدستور بھاری قیمت مقرر ہے۔ اگر مذاکرات کیلئے نیت نیک ہے تو پہلے انکو ”مطلوب لسٹ“ سے نکالو، سروں کی قیمت ختم کرو، پھر مذاکرات کی بات کرو۔ درمیان میں کسی کو لانے کی ضرورت کیا؟ ملا عمر سے براہ راست مذاکرات کرو۔ اس سب کا امریکہ اور اتحادیوں کو مکمل ادراک ہے، چونکہ نیت ہی معاملات کو سلجھانے کی نہیں ہے۔ مذاکرات کے پروپیگنڈہ کی آڑ میں دیگر مقاصد کا حصول مقصود ہے جس کی کوششیں بلکہ سازشیں کی جا رہی ہیں جو بالآخر پاکستان کے گلے پڑیں گی۔ اس لئے حکومت پاکستان کو ابھی سے تدارک کی فکر کرنی چاہئے۔
No comments:
Post a Comment