About Me

My photo
Fazal Hussain Awan colomnist Daily NAWAI WAQT awan368@yahoo.com 03334215368

Thursday, July 21, 2011

عمران کی اٹھان اور اڑان

 جمعرات ، 21 جولائی ، 2011

عمران کی اٹھان اور اڑان
فضل حسین اعوان
عمران خان پُرامید ہی نہیں پُریقین بھی ہیں کہ آئندہ انتخابات کے نتیجے میں حکومت ان کی پارٹی بنائے گی۔ مسلم لیگ ن، پیپلزپارٹی، ق لیگ، ایم کیو ایم، اے این پی اور جے یو آئی سمیت ہر پارٹی عوام کی آزمودہ ہے۔ عمران خان کی پارٹی کو کبھی قوم کی خدمت کا موقع نہیں ملا۔ بطور کرکٹر اور کپتان اعلیٰ کارکردگی بعد ازاں شوکت خانم کینسر ہسپتال کی جان جوکھوں میں ڈال کر تعمیر تکمیل اور کامیابی سے چلائے جانے کے باعث عمران خان کی عوام میں زبردست پذیرائی ہوئی۔ کھیل، سماجی و بہبودی کام اور سیاست الگ الگ میدان اور شعبے ہیں۔ عمران خان نے پہلے دو شعبوں میں تو اپنی اہلیت و صلاحیت کا لوہا منوا لیا یہ ضروری نہیں کہ وہ سیاست میں بھی اسی طرح کامیاب ہوں تاہم یہ بھی ہو سکتا ہے کہ وہ سیاست میں نئی داستانیں رقم کر ڈالیں۔ تاریخ کا دھارا موڑ کر رکھ دیں۔ ان کے مقابل مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی ہیں۔ عوام آج بھی ان پارٹیوں کے قائدین میاں محمد نواز شریف، ذوالفقار علی بھٹو اور بینظیر بھٹو کی سحر انگیز شخصیات کے اسیر ہیں۔ عمران خان نے ان کا سحر توڑا یا نہیں البتہ ان کی شخصیت کا جادو بھی کئی لوگوں کے سر چڑھ کر بول رہا ہے۔ تحریک انصاف کی 25 اپریل 1996 کو اُٹھان بڑی زبردست تھی البتہ اُڑان دھیری رہی 2002ءکے الیکشن میں اس کے حصے 0.8 فیصد ووٹ اور قومی و صوبائی اسمبلی کی ایک ایک سیٹ آئی۔ ان میں سے قومی اسمبلی کی خود ان کی اپنی اور دوسری سرحد سے ایک سیٹ تھی، 2008ءمیں بائیکاٹ کر دیا تھا، اب الیکشن زیادہ سے زیادہ ڈیڑھ سال کی دوری پر ہیں۔ عمران نے بھرپور انتخابی مہم شروع کر دی ہے۔ 25 جون سے حکومت ہٹا ¶ مہم چلانے کا اعلان کیا وہ اب کہیں ہے کہ نہیں ہے۔ عمران خان پاکستان میں تبدیلی کا عزم لئے ہوئے ہیں۔ وہ بھٹو کی طرح آئندہ الیکشن میں سویپ کرنے پر یقین رکھتے ہیں۔ وہ خود بھٹو سے اپنی شخصیت کا موازنہ کرتے یا نہیں البتہ یہ ضرور کہتے ہیں کہ بھٹو صاحب چھوٹا انقلاب لائے تھے ہم تبدیلی کا سونامی لائیں گے۔ گزشتہ دنوں وہ لندن میں تھے۔ پارٹی فنڈ ریزنگ کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے قومی بیماریوں کی نشاندہی کی اور علاج بھی تجویز کیا مختصراً ملاحظہ فرمائیے :
”اب پاکستان میں تبدیلی کا راستہ کوئی طاقت روک نہیں سکتی۔ ملک میں تبدیلی اور آئندہ انتخابات کے بعد ملک میں بننے والی اپنی حکومت کے پہلے 90 دن کا پروگرام تیار کر لیا ہے مگر اعلان کسی مناسب وقت پر کریں گے کیونکہ اگر ابھی سے اپنا منصوبہ پیش کر دیا تو اسے مسلم لیگ (ن) والے ہائی جیک کر لیں گے۔ جو پارٹیاں خود کو بڑا سمجھتی تھیں میڈیا نے ان کو ایکسپوز کر دیا ہے یہی وجہ ہے کہ اب سروے میں ہماری پارٹی پہلے نمبر پر آ گئی ہے۔ سپریم کورٹ نے 45 فیصد جعلی ووٹ ختم کر دئیے ہیں اب 35 ملین نوجوان کے ووٹ بنیں گے اور 90 فیصد نوجوان تحریک انصاف کے ساتھ ہیں۔ کرکٹ کا ورلڈ کپ لے کر آئے تھے اور اب سیاست میں ورلڈ کپ وننگ ٹیم لا کر دکھائیں گے۔ ملک کے حکمران اور سیاستدان تک ٹیکس نہیں دیتے، ملک کے اندر ٹیکس کلچر ہی نہیں ہے۔ نواز شریف 5 ہزار روپے ٹیکس دیتے ہیں۔ صدر زرداری نے ایک پیسہ ٹیکس نہیں دیا۔ ان حالات میں ملک کیسے چلے گا۔ لیڈروں نے اپنے نام پر اثاثے نہیں رکھے، جب تک سیاستدان اپنے اثاثے ڈکلیئر نہیں کریں گے ملک آئے نہیں بڑھے گا۔ اس وقت پاکستان کے مسائل کا حل صرف مڈٹرم انتخابات میں ہے، منصفانہ اور آزادانہ انتخابات کے ذریعے ہی پاکستان میں ترقی اور خوشحالی کا سنہرا دور شروع ہو سکتا ہے۔ رحمن ملک کے پاس نجانے کونسی گیدڑ سنگھی ہے کہ وہ روٹھی ہوئی ایم کیو ایم کو منا کر واپس لے جاتے ہیں۔ عمران خان کو نوجوانوں کے قوتِ بازو پر بھروسہ ہے جن کے ووٹ ابھی بننے ہیں ان سے 90 فیصد عمران خان کے ساتھ ہیں۔ نوجوانوں کے ووٹ بن جائیں نوے فیصد کپتان پر ووٹ نچھاور کر دیں گے، نوجوانوں کی تعداد کتنی ہے؟ 10 فیصد، 15 یا 20 فیصد۔ سپریم کورٹ جو پونے چار کروڑ ووٹ ختم کرنے جا رہی ہے کیا یہ ووٹ غیر ملکیوں کے تھے؟ جو الیکشن میں آ کر بھگتا جاتے تھے۔ کیا یہ کسی مخصوص پارٹی کو ووٹ دیتے تھے؟ جعلی ووٹ عموماً بلدیاتی الیکشن میں بنے۔ کسی کے دو اور کسی کے تین۔ جس کے تین بنے وہ کاسٹ کتنے کرتا ہو گا۔ صرف ایک۔ اکا دکا دو بھی ہو جاتے ہوں گے جو مجموعی رزلٹ کو متاثر نہیں کر سکتے۔ جہاں ایک حلقے میں پچاس ساٹھ ہزار تک کی برتری سے امیدوار جیتے وہاں چند جعلی ووٹوں سے فرق نہیں پڑتا تاہم جعلی ووٹ ایک بھی نہیں ہونا چاہئے۔ پونے چار کروڑ ووٹوں کا خاتمہ ہوتا ہے تو اس سے کسی پارٹی کی پوزیشن کوئی خاص متاثر ہوتی نظر نہیں آتی۔ ان میں کئی تحریک انصاف کے بھی چاہنے والے ہوں گے۔ عمران کی تبدیلی کی خواہش نیک اور ان کا قوم ملک کے لئے خلوص بھی شک و شبہ سے بالاتر ہے۔ کیا وہ اکیلے معاشرے میں انقلاب برپا کر سکتے ہیں؟ 93ءکے الیکشن میں جماعت اسلامی کلین سویپ کرنے کے لئے پُریقین تھی ”ظالموں قاضی آ رہا ہے“ اُسی الیکشن کا نعرہ تھا۔ عمران خان مکمل غور فرما لیں کہیں کسی کو جتانے اور کسی کو ہرانے کے لئے تو ان کو ٹریپ کر کے الگ تھلگ رہ کر الیکشن تو نہیں لڑایا جا رہا ہے۔ کچھ ماہرین کا خیال ہے کہ عمران خان گرینڈ الائنس بنانے کی کوشش کریں۔ اعتدال پسند پارٹی ہونے کے باعث اس کا ہر محب وطن پارٹی سے اتحاد ہو سکتا ہے۔ وہ گیدڑ سنگھی ڈھونڈنے کی کوشش کریں جو رحمن ملک کے پاس ہے جس کے ذریعے وہ بقول عمران منا کر واپس لے جاتے ہیں۔ عمران خان اگر ملک میں کثیر الجماعتی کے بجائے دو پارٹی سسٹم کی بنیاد رکھنے میں اپنا کردار ادا کر دیں تو یہ ان کا جمہوریت کے ساتھ ساتھ قوم و ملک پر بھی احسان ہو گا۔


No comments:

Post a Comment