About Me

My photo
Fazal Hussain Awan colomnist Daily NAWAI WAQT awan368@yahoo.com 03334215368

Thursday, July 28, 2011

بنت ِغدار

 جمعرات ، 28 جولائی ، 2011


بنت ِغدار
فضل حسین اعوان ـ 
بھارت نے اپنی سازشوں، غداروں سے مدد اور پاکستان کی سیاسی اور جرنیلی قیادت کی نا اہلی اور نالائقی سے زیادہ ان کی بے غیرتی سے فائدہ اٹھا کر پاکستان کو دولخت کردیا۔دشمن کا تو کام ہی دکھتی رَگ پر پاﺅں رکھنا اور ناقابلِ تلافی نقصان پہنچانا ہوتا ہے۔ بھارت نہ صرف پاکستان بلکہ عالم اسلام کا بھی دشمن ہے اس سے جو بن پڑا سو کیا اور اب بھی وہ پاکستان کو ڈسنے سے باز نہیں آرہا۔ اس کی دہشت گردی کے شواہد کبھی فاٹا میں ملتے ہیں اور کبھی بلوچستان اور کراچی میں۔ پاکستان کو تباہی سے دوچار کرنے میں کوشاں را کے ایجنٹ نہ صرف کارروائیوں کے دوران مردہ پائے گئے بلکہ کشمیر سنگھ اور سخت سربجیت سنگھ جیسے دہشتگرد زندہ بھی پکڑے گئے۔ افسوس کہ پاکستان کو دو لخت کرنے والوں کے خلاف کبھی ہمارے حکمرانوںکا ضمیر جاگا نہ انتقامی جذبات بھڑکے۔ انافنا فی النار ہوکر رہ گئی۔مشرقی اور مغربی پاکستان کے درمیان نفرت کی دیواریں کھڑی کرینوالے طرفین کے مٹھی بھر مفاد پرست عناصر تھے۔ پاکستان کلمہ لا اِلہ الا اللہ کی بنیاد پر معرض وجود میں آیا۔ علیٰحدگی کے بعد دونوں میں سے کسی حصے کے لوگوں کا کلمہ بدلا‘ قرآن اور دین و ایمان بدلا؟ پھر خون سفید کیوںہوا؟ یہ کام بد کرداروں اور غداروں نے کیا۔ ملک قوم اور ملت کے غداروں نے۔ ہندو کے دئیے ہوئے زخم کو چالیس سال بیت گئے۔ اب تک یہ زخم مندمل ہو جانا چاہئے تھا لیکن ہندو بنیا اسے بھرنے نہیں دیتا اس نے اپنے اشاروں پر ناچنے والوں کے ہاتھوں میں نشتر اور خنجر تھما رکھے ہیں وہ زخم کو کریدتے رہتے ہیںاس لئے یہ بڑھتا جاتا ہے۔ اس کا درد ہر پاکستانی خواہ وہ آج کے مغربی پاکستان میں ہویا کل کے مشرقی پاکستانی میں دل و جان پر شدت سے محسوس کرتا ہے۔ کل بنتِ غدار حسینہ واجد نے پاکستانیوں کے نہ صرف ایک بار پھر زخم ہرے کر دئیے بلکہ ان پر نمک پاشی بھی کی۔ سقوط مشرقی پاکستان کے کرداروں اور ذمہ داروں میں ایک اندرا گاندھی بھی ہے اس کی پاکستان کو توڑنے کی خدمات کے صلے میں مجیب کی بیٹی نے دلدوز سانحہ کے 40 اور اندرا گاندھی کے عبرت نشاں قتل کے 27سال بعد اسے بنگلہ دیش کے سب سے بڑے ایوارڈ ”تمغہ آزادی “سے نوازا۔ بنگا بندھو سٹیڈیم میں ایک ہزار رو سیاہوں کی حاضری اور حسینہ واجد کی موجودگی میں صدر ظل الرحمن نے یہ ایوارڈ اندرا گاندھی کی رنڈوی بہو سونیا گاندھی کو دیا۔ سونیا کو دی جانیوالی شیلڈ 4سو سال پرانے درخت قدم ٹری کی لکڑی کے فریم سے بنائی گئی ہے جس میں غریب قوم کے خون پسینے کی کمائی کے تقریباً ڈیڑھ کروڑ روپے کا تین کلو گرام سونا جڑا گیا ہے۔ اس تقریب میں اندرا گاندھی کی تعریفوں کے تو پل باندھے ہی جانے تھے حسینہ واجد نے جس طرح اپنے اندر کی غیرت مسلم کا جنازہ نکالا اورحقائق کو مسخ کیا وہ قابلِ مذمت قابلِ نفرت اور حیران کن بھی ہے۔حسینہ واجد نے پاک فوج کے ہاتھوں واصلِ جہنم ہونے والے ہندو دہشتگردوں کو شہید قرا ر دیا اور حقائق کو مسخ کرتے ہوئے کہا کہ جنگ میں 30 لاکھ بنگالیوں کا قتل عام اور دو لاکھ خواتین کی عصمت دری کی گئی۔حسینہ واجد اپنے باپ کی طرح جھوٹ کا طوفان اٹھا رہی ہے۔ تاریخ کا تمسخر اڑا رہی ہے اور دنیا کو غلط اعدادو شمار بتا رہی ہے۔ عصمت دری کے اس سطح کے دعوے بھی جھوٹ کا پلندہ ہیں۔ قتل اور بے حرمتی کے اس وسیع پیمانے پر واقعات کو کسی فورم پر ثابت کیا گیا نہ ایسا ممکن ہے۔ حسینہ واجد اپنے باپ کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے ایسی لغویات کا ڈھنڈورا اپنے ہندو آقاﺅں کے ایما پر بنگالیوں کے دلوں میں پاکستان کے خلاف نفرت بڑھانے کیلئے پیٹ رہی ہیں اور یہ شاید ان بنگلہ دیشیوں کو جواب بھی‘ جنہوں نے پارلیمنٹ میں بنگلہ دیش کو سیکولر کی بجائے اسلامی ملک قرار دیا ہے بہرحال اس کا پاکستان کی طرف سے قومی سطح پر توڑ ہونا چاہئے۔ مغربی اور مشرقی پاکستان کے درمیان مفاد پرستوں اور دشمنوں کی طرف سے کھڑی کی گئی نفرت کی دیواریں اتنے عرصہ بعد گر جانی چاہئیں تھیں، دیوارِ برلن کی طرح۔ لیکن ان کو دشمن تو مزید اونچا کرنے کی کوشش کریگا ہی جس میں حسینہ مجیب جیسے غدارانِ ملت دشمن کا آلہ کار بنے ہوئے ہیں۔ نفرت کی دیواریں گرانے کیلئے شاید ضروری ہے کہ غدارانِ ملت کو اُسی طرح اٹھا دیاجائے جس طرح اپنی ہی فوج نے مجیب اور اپنے ہی محافظوں نے اندرا گاندھی کو اٹھادیا تھا۔ اب دو بچھڑے بھائی گلے مل جانے چاہئیں۔ نفرت کی دیواریں گر جانی چاہئیں اس کیلئے خواہ دشمنانِ قوم و ملت کو اٹھانا پڑے یا کوئی طوفان اٹھانا پڑے۔

No comments:

Post a Comment