جمعرات ، 14 جولائی ، 2011
ناکام ریاست....پاکستان نہیں امریکہ
فضل حسین اعوان
امریکی انتظامیہ لالچ یا دھونس (جسے Carrot and Stick Policy بھی کہا جاتا ہے) کے ذریعے دوسرے ممالک کو استعمال کرنے میں کمال مہارت، زبردست ملکہ اور ید طولیٰ رکھتی ہے۔ ضرورت پڑنے پر کسی بھی ملک کو بدنام یا بلیک میل کرنے کے لئے فتنہ پرور امریکی میڈیا بھی انتظامیہ کے ہم زباں وہم عناں ہوتا ہے۔ اپنے مقاصد کے حصول کے لئے خواہش کو خبر کا رنگ دے ڈالنا اس کی خوبو ہے جو اس کے خون میں شامل ہے۔ اصولوں اور غیر جانبداری کا پرچارک امریکی میڈیا اپنے ملک کے مفادات کے لئے مکمل طور پر جانبدار ہے۔ غیر جانبداری اصولوں کی پاسداری کے خبط میں مبتلا ہمارے میڈیا والے اپنی ماں (دھرتی بھی ماں ہی ہے) تک کا سکینڈل نشر اور شائع کرنے کو صحافت میں بڑی ناموری گردانتے ہیں۔
پاکستان 57 اسلامی ممالک کی واحد اور ساتویں عالمی ایٹمی طاقت ہے۔ آبادی کے لحاظ سے دنیا کا چھٹا بڑا ملک ہے، پاکستان دنیا کی 27ویں بڑی معیشت ہے۔ زرعی پیداوار کے لحاظ سے دنیائے اسلام میں اس کا نمبر پانچواں، جبکہ دنیا میں بیسواں ہے۔ یہاں دنیا میں کوئلے کے دوسرے بڑے ذخائر (1857 ارب ٹن) واقع ہیں۔ پاکستان ہی میں دنیا کا سب سے بڑا نہری نظام موجود ہے۔ پاکستان برصغیر میں مسلمانوں کی نمائندہ مملکت ہے، مسلمانوں نے ہزار سال تک ہندوستان پر حکمرانی کی۔ یہ مسلمان ہی تھے جنہوں نے انگریز کی کبھی غلامی قبول نہیں کی۔ اس کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے انگریز ہمیشہ مسلمانوں سے شاکی رہے اور غلام ہندوﺅں کو ساتھ ملا کر مسلمانوں کا عرصہ حیات تنگ کرتے رہے۔ مسلمان انگریز کی غلامی قبول کر لیتے تو ان پر تعلیم، تحقیق اور اعلیٰ ملازمتوں کے دروازے بند نہ ہوتے۔ البتہ عبداللہ ابن اُبی مسلم معاشروں میں کبھی میر جعفر اور کبھی میر صادق کے روپ میں نمودار ہوتے رہے ہیں۔پاکستان ایسے ملک کو کوئی ناکام ریاست کہے تو یہ انسان کی نہیں، اس کے اندر کے شیطان کی آواز ہے۔ ایسا کسی اور نے نہیں پاکستان کو اپنا فرنٹ لائن اتحادی قرار دینے والے عالمی تھانیدار، اجارہ دار و ٹھیکیدار امریکہ کے حاشیہ بردار جریدے فارن پالیسی نے کہا ہے۔فارن پالیسی نے دنیا کی ناکام ریاستوں کی درجہ بندی میں پاکستان کو 12ویں نمبر پر رکھا ہے۔ فنڈ فارپیس نامی ادارے کے تعاون سے جریدے کی جانب سے جاری کی گئی رپورٹ میں دنیا بھر کے 177 ممالک ناکام ریاستوں کی درجہ بندی والی فہرست میں شامل کئے گئے ہیں۔ دنیا کی ناکام ریاستوں والی فہرست میں صومالیہ سرفہرست ہے جبکہ دنیا کی ٹاپ 10 ناکام ریاستوں میں چاڈ، سوڈان، کانگو، ہیٹی، زمبابوے، افغانستان، وسطی افریقہ ریپبلکن، عراق اور کوسٹ دی آئیوری شامل ہیں۔ افغانستان کو ٹاپ 10 ناکام ریاستوں میں شمار کیا گیا ہے جبکہ پاکستان کو ٹاپ 10 ناکام ریاستوں سے صرف 2نمبر اوپر دیئے گئے ہیں اور اسے ٹاپ 15میں شامل کیا گیا ہے۔ پاکستان کو ناکام ریاستوں میں 12 ویں نمبر پر رکھتے ہوئے جریدے نے لکھا ہے، پاکستان تا حال مغرب کیلئے خطرہ بنا ہوا ہے جبکہ بیشتر وقتوں میں پاکستان خود اپنے عوام کیلئے بھی خطرہ بن جاتا ہے۔ کانگو، چاڈ، ہیٹی، سوڈان اور افغانستان جیسے ممالک جہاں امن ہے نہ سکون ہر طرف لاقانونیت، انارکی پھیلی ہوئی، خونریزی، قتل و غارت عروج پر ہے۔ حکومت اور حکمرانی کا تصور ناپید ہے، فارن پالیسی کا پاکستان کو ایسے ممالک کی صف میں شامل کرنا‘ شرمناک اور پاکستان کے خلاف اس کی خباثت کا مظہر ہے‘ ناکام ریاست (Failed State) کی مروجہ تعریف کے تناظر میں دیکھا جائے تو امریکہ پاکستان کی نسبت کہیں بڑی ناکام ریاست قرار پاتا ہے۔ آگے چلنے سے قبل سید عاصم محمود کی مختصراً رپورٹ ملاحظہ فرمائیے:”خود امریکہ کے غیر جانبدار ماہرین اور دانشور ”امریکہ“ کے زوال کی پیشن گوئیاں کر رہے ہیں۔ اب امریکہ بھی زوال پذیر ہے اور امریکی حکومت کا اندرونی یا داخلی قرضہ 14.32 کھرب ڈالر تک پہنچ گیا ہے جو اس کی کل خام قومی پیداوار (جی ڈی پی) کے برابر ہے۔ یوں امریکہ رقم کے لحاظ سے دنیا کا سب سے بڑا مقروض ملک بن چکا ہے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ جب بھی امریکہ میں جنگ ہوئی، یا وہ جنگوں میں شریک ہوا تو وہاں معیشت خوب ترقی کرتی رہی، ہر قسم کی پیداوار بڑھتی، قرضے اترتے اور عوام خوشحال ہو جاتے۔ اسی لئے امریکی حکومت نے رفتہ رفتہ جنگ جوئی ہی کو امریکی انڈسٹری اور اپنی ترقی کا واحد راستہ بنا لیا۔ (جاری )
جارج بش کے دور حکومت میں تو امریکہ جیسے سفارت کاری کرنا بھول گیا اور اس نے جارحیت کو سکہ رائج الوقت بنا دیا۔ بش حکومت نے عراق و افغان جنگوں میں اربوں ڈالر پھونک ڈالے۔ ماہرین کے نزدیک یہ جنگیں اس لئے بھی شروع کی گئیں کہ بڑھتے داخلی قرضے کو محدود کیا جا سکے لیکن اس بار یہ جنگیں مطلوبہ نتائج....قرضے میں کمی، معاشی ترقی اور عوامی خوشحالی وغیرہ سامنے نہیں لا سکیں۔ وجہ یہ ہے کہ ان جنگوں سے صرف امریکہ کے مخصوص طبقے کو فائدہ پہنچا جو اسلحے کی صنعت، افواج اور متعلقہ شعبوں سے منسلک ہے۔ بش حکومت نے غیر ممالک اور بینکوں سے قرضے بھی لیے تاکہ روز بروز بڑھتے جنگی اخراجات پورے کئے جا سکیں۔ اندازہ کیجئے کہ آج افغانستان میں ہر امریکی فوجی پر امریکہ کے ”سات لاکھ پچاس ہزار ڈالر“ سالانہ خرچ ہو رہے ہیں۔ ظاہر ہے یہ رقم ادھار یا امریکیوں کے ٹیکسوں ہی سے آتی ہے۔ لہٰذا داخلی قرضے میں مسلسل اضافہ ہوتا رہا۔ بش حکومت جنگجوئی اور اپنی چودھراہٹ جمانے کے چکر میں سمجھ ہی نہ سکی کہ وہ اپنے ملک و قوم کو قرضوں کی دلدل میں اتار رہی ہے۔
امریکی حکومت پر قرضے چڑھنے کی ایک اور وجہ یہ ہے کہ جب2008ءمیں امریکہ کا ”تعمیراتی بلبلہ“ پھٹا تو کئی بنک اور مالیاتی ادارے دیوالیہ ہو گئے کیونکہ امریکی عوام نے انہی سے قرض لے کر گھر بنائے تھے۔ جب گھر بکنا بند ہو گئے تو انہیں کہاں سے رقم ملتی، امریکی حکومت نے پھر بڑے سرکاری بینکوں اور مالیاتی اداروں کو بچانے کے لئے کئی ارب ڈالر خرچ کئے۔ مگر یہ اضافی خرچ مجموعی قرضوں میں اضافہ کر گیا۔
یہ تھیں زوال کی معاشی و مالی نشانیاں، اخلاقی سطح پر بھی امریکی پہلے کی مانند بلند کردار کے مالک نہیں رہے۔ امیر طبقہ فحاشی، منشیات اور دیگر سماجی برائیوں میں مبتلا ہو چکا۔ ثبوت یہ ہے کہ امریکہ میں 43 فیصد بچے ناجائز پیدا ہوتے ہیں۔ نئی نسل پہلی نسلوں کی طرح محنتی، تجربے کار اور آگے بڑھنے کی شائق نہیں بلکہ اسے ڈیجیٹل آلات کی لت نے کام کرنے کے قابل نہیں چھوڑا۔ ان عوامل کو دیکھتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ امریکہ نیم ناکام ریاست میں بدل چکا جو تیزی سے اپنے زوال کی جانب گامزن ہے۔ اگر امریکہ میں سیاسی، اخلاقی، معاشرتی اور معاشی طور پر وسیع پیمانے پر اصلاحات نہ آئیں تو اسے تاریخ کے گڑھے میں جانے سے کوئی نہیں روک سکتا....وہ گڑھا جہاں ماضی کی کئی عظیم سلطنتیں روما‘ عثمانی سلطنت‘ برطانیہ اور روس دفن ہیں“۔
اب ملاحظہ فرمائیے خود امریکی کیا کہتے ہیں۔ وال سٹریٹ جرنل کے سابق ایڈیٹر اور امریکی وزارت خزانہ کے سابق اسسٹنٹ سیکرٹری پال کریگ رابرٹس نے اپنے آرٹیکل میں امریکہ کو ناکام ریاست قرار دیا ہے۔ ”امریکہ اپنے پروپیگنڈے کی وجہ سے دنیا میں سب سے زیادہ کامیاب ریاست سمجھا جاتا ہے۔ اگر سچی بات کی جائے تو امریکہ ایک ناکام ریاست ہے۔ امریکہ کی کامیابی کا امیج تین وجوہ کی بنا پر ہے۔ (1) وسیع سرزمین اور معدنی وسائل جو امریکہ نے ظلم و تشدد کے ذریعے مقامی باشندوں سے ”آزاد“ کرائے۔ (2) پہلی جنگ عظیم میں یورپ خصوصاً برطانیہ کی خود اپنے ہاتھوں اپنی تباہی اور (3) کمیونزم یا سوشلزم کی وجہ سے روس اور ایشیاءکے بیشتر ملکوں کی اقتصادی تباہی۔
”دہشت گردی کے خلاف جنگ“ نے امریکہ کی آئینی اور قانونی ناکامی کو مکمل کر دیا ہے۔ اقتصادی طور پر امریکہ ناکام ہو چکا ہے۔ کم مدتی منافعوں کے لئے وال سٹریٹ کے دباﺅ کے تحت امریکی کارپوریشنیں امریکی کنزیومر مارکیٹوں کے لئے ملک سے باہر جا کر مصنوعات تیار کر رہی ہیں۔ نتیجہ یہ ہوا کہ امریکی جی ڈی پی اور بڑی تنخواہوں والی اسامیاں ان ملکوں مثلاً چین، اور ہندوستان میں چلی گئیں جہاں مزدوری اور پیشہ وارانہ صلاحیت ارزاں ہے۔ یہ عمل 1990ءسے جاری ہے۔ امریکہ اس لئے بھی ایک ناکام ریاست ہے کہ عوام کارپوریشنوں یا حکومت کا کسی بھی سطح پر احتساب نہیں کر سکتے، چاہے یہ سطح ریاستی ہو، مقامی یا وفاقی ہو، برٹش پٹرولیم خلیج میکسیکو کو تباہ کر رہی ہے۔ حکومت نے اس معاملے میں کچھ نہیں کیا۔ اوبامہ حکومت کا بحران کے متعلق رد عمل غیر ذمہ دارانہ ہے۔ بہ نسبت اس ردعمل کے جو بش حکومت نے کترینہ ہری کین کے متعلق اختیار کیا تھا۔ امریکی عوام کو یہ احساس نہیں کہ ان کی شہری آزادیاں ضبط ہو چکی ہیں۔ انہیں بہت آہستہ آہستہ یہ بات سمجھ آرہی ہے کہ ان کی اقتصادی ناکامی پر سمجھوتہ کیا جا چکا ہے۔ انہیں یہ بھی احساس نہیں کہ امریکہ کی طرف سے دوسرے ملکوں میں تباہی پھیلانے کی وجہ سے دنیا میں امریکی عوام کے خلاف نفرت بڑھتی جا رہی ہے۔ امریکی اپنے آپ میں مگن ہیں، دنیا کے بیشتر عوام ایک ایسے ملک کی طرف دیکھ رہے ہیں جو احمق ہے اور انسان دوستی سے عاری بھی اور یہ عوام امریکیوں کی اپنے متعلق بڑی اچھی رائے پر حیران ہو رہے ہیں۔“
دوسری طرف برطانوی جریدے ”اکنامسٹ“ اور اخبار گارڈین نے اپنی رپورٹس میں کہا ہے کہ پاکستان کمزور ہو سکتا ہے لیکن ایک ناکام ریاست نہیں، پاکستانی معاشرہ مضبوط ہے۔
پاکستان ناکام ریاست کے زمرے میں آتا تو پاکستان کا ایٹمی پروگرام امریکہ کی بے پایاں خواہشات اور سازشوں کے باعث اس کی دسترس میں ہوتا۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کے ایٹمی طاقت ہونے کے خیال سے امریکہ اور مغرب خائف، اسرائیل کی سٹی گم اور ہندو بنیئے کی دھوتی گیلی ہو جاتی ہے۔ امریکہ کامیاب مملکت کیسے کہلا سکتا ہے؟ ویتنام سے لے کر افغانستان پر یلغار تک بتائے کہاں کامیابی حاصل کی۔ امریکہ دنیا میں جو کچھ کر رہا ہے وہ اس کے کامیاب ریاست ہونے کی علامت نہیں، بدمعاش ریاست ہونے کی دلیل ہے۔ پاکستان ناکام ہوتا تو مسلم امہ اسے اسلام کا قلعہ قرار نہ دیتی‘ امریکہ افغانستان پر دوبار وار اور یلغار کیلئے پاکستان کا محتاج نہ ہوتا۔ ناکام محتاج ہوتے ہیں احتیاج پوری کرنے والے نہیں۔ ناکام ریاستوں کو دنیا کی ایک تہائی آبادی متفقہ طور پر قلعے قرار نہیں دیتی۔ پاکستان ناکام ریاست نہیں اس کے حکمران ذاتی مفادات کا اسیر ہونے کے باعث ناکام ہو سکتے ہیں۔ یا جوج ماجوج کی طرح باری باری پاکستان کو چاٹ رہے ہیں۔ اپنی طرف سے صفایا کرکے رخصت ہوتے ہیں لیکن خدا کے فضل و کرم سے پاکستان پھر بھی قائم و دائم اور توانا ہے اور انشاءاللہ قیامت تک رہے گا۔ اگر رب ذوالجلال قائد اعظم جیسا ایک بھی رہنما چند سال کے لئے عنایت فرما دے تو پاکستان کا مقدر سنور جائے اور پاکستان حقیقت میں اسلام کا قلعہ بن جائے۔
No comments:
Post a Comment