بدھ ، 27 جولائی ، 2011
تجربہ کار ۔ سفارت کار و سیاست کار
فضل حسین اعوان
قائداعظم پاکستان کو اسلام کی تجربہ گاہ بنانا چاہتے تھے۔ قائد کے بعد آنے والے سیاستدانوں نے پاکستان کو اپنی اپنی سیاست کی تجربہ گاہ بنا لیا اور خود اس زعم میں مبتلا ہو گئے کہ ہم بڑے تیس مار خان قسم کے تجربہ کار ہیں۔ ہمارے ہاں یہ چلن بھی رہا کہ تجربہ کار سیاستدانوں نے مہم جو‘ طالع آزما اور جبراً بنے فرمانروا کی خوشامد کے مکھن سے بوٹ چمکائے تو وہ بھی خود کو سیاست کے میدان کا دھنی اور خود کو کسی بھی سیاستدان سے بڑھ کر تجربہ کار سیاستدان سمجھنے لگا۔ آمروں‘ جمہوریت کے پرستاروں اور سیاسی تجربہ کاروں نے ملک دو لخت کر دیا۔ سیاچن بھارت کی جھولی میں ڈال دیا۔ مسئلہ کشمیر ان کے تجربوں کی بھینٹ چڑھا ہوا ہے۔ حیدر آباد دکن ماناوادر اور جونا گڑھ کو ہمارے سیاستدانوں کا سیاسی اور سفارتی تجربہ نہ بچا سکا۔ دفاعی تجربہ کار مشرقی پاکستان کو مغربی پاکستان کے ساتھ جوڑ کر نہ رکھ سکے۔ معین قریشی اور شوکت عزیز اقتصادیات میں تجربہ رکھتے تھے دونوں بالآخر اپنے اپنے دور میں پاکستان کی معیشت ڈبو کر چلے گئے۔ ایک سے بڑھ کر ایک سفارتکار اور تجربہ کار وزیر خارجہ آئے ان کی کارکردگی سوائے بیگ کے ساتھ منہ اٹھا کر بیرون ممالک جانے کے اور کچھ اور کہیں بھی دکھائی نہیں دیتی۔ تنازع کشمیر ہماری بقا اور انا کا معاملہ و مسئلہ ہے۔ وہ 63 سال قبل جہاں تھا آج بھی وہیں ہے۔ کشمیر کمیٹیاں بنتی ٹوٹتی ہے۔ آتی جاتی‘ گاڑیاں جھولتی‘ مراعات کھاتی دورے فرماتی رہیں اصل کام مسئلہ کشمیر کو عالمی سطح پر اجاگر کرنے کا مظلوم اور مقہور کشمیریوں کے ذمے ہی رہا۔ ذوالفقار علی بھٹو نے کشمیر کی خاطر ہزار سال تک جنگ لڑنے کا عزم ظاہر کیا تھا ان کے جاں نشیں کشمیر پر جنگ کے بجائے اسے اقتدار کے لئے جنگ سمجھ کر لڑ رہے ہیں۔
شاہ محمود قریشی کو جرات اظہار کی سزا ملی یا بی بی ہلیری سے پیار کی۔ سر سے سر جوڑنے کی (ہلیری سے ملاقاتیں بڑھیں تو قریشی صاحب نے اپنا ہیئر سٹائل بل کلنٹن جیسا بنا لیا۔ وہ وزارت سے گئے لیکن ان کا ہیئر سٹائل اور ہیئر کلر آج بھی بل کلنٹن جیسا ہے) 11 فروری 2011ءکو وزیراعظم گیلانی نے نئی کابینہ بنائی تو قریشی صاحب کو کابینہ سے باہر اور وزارت خارجہ کا قلمدان خالی رکھا گیا۔ حنا ربانی کھر کو امور خارجہ کی وزیر مملکت یعنی آدھی یا نائب وزیر بنایا گیا۔ اس قلمدان پر خود کو تجربہ کار‘ سیاستکار اور سفارتکار سمجھنے والوں کی نظر تھی۔ 19 جولائی کو حنا ربانی مکمل وزیر خارجہ بنا دی گئیں تو وزارت خارجہ کے بڑے امیدوار سردار آصف احمد علی کف افسوس ملتے اور ان کے احساسات خیالات غصے میں ڈھلتے نظر آئے۔ مولانا فضل الرحمن کی سربراہی میں کشمیر کمیٹی بے بال و پر ہو چکی ہے۔ حضرت کی بھی شاید وزارت خارجہ پر نظر تھی۔ حنا ربانی کو یہ قلم سونپا گیا تو دل کی بات زباں لے آئے۔ حضرت مولانا نے فرمایا ”حنا ربانی کو وزیر خارجہ بنائے جانے کو دانشمندانہ فیصلہ ہرگز قرار نہیں دیا جا سکتا۔ حنا ربانی تو ”دو جمع دو“ کے معاملات پر عبور رکھتی ہیں ان کا سیاست اور سفارت میں کوئی اہم یا قابل ذکر پس منظر یا تجربہ نہیں ہے۔ سردار آصف احمد علی کا فرمان بھی ملاحظہ فرمائیے۔ ”وزیراعظم گیلانی نے مجھے وزیر خارجہ بنانے کا فیصلہ کیا تھا تاہم ان قوتوں کے بارے میں علم نہیں ہے جنہوں نے ناتجربہ کار اور خاتون کو وزیر خارجہ بنوایا۔ پاکستان کو بھارت کے ساتھ مذاکرات اور اسے سفارتی سطح پر شکست دینے کے لئے سینئر اور تجربہ کار وزیر خارجہ کی ضرورت ہے۔ سفارتکاری کے گر سیکھنے کیلئے وقت لگتا ہے‘ سفارتکاری کے لئے مہارت کی ضررت ہے‘ حنا ربانی کھر ایک ناتجربہ کار وزیر خارجہ ہیں۔ پارٹی کے پاس ایسے لوگ موجود تھے جو اس ذمہ داری کو احسن طریقے سے نبھا سکتے ہیں۔“
خارجہ اور سفارت کاری کے میدان میں کسی کی اہلیت و صلاحیت اور اس کے اندر کے گوہر و جوہر اور تجربہ جانچنے کا ہمارے پاس ایک ہی پیمانہ مسئلہ کشمیر ہے۔ سردار صاحب 1991ءسے 1993ءمحترمہ بے نظیر بھٹو کی حکومت کے آغاز سے انجام تک وزیر خارجہ رہے۔ ان کے دور میں مسئلہ کشمیر پر کیا پیشرفت ہوئی؟ حضرت مولانا ساڑھے تین سال سے کشمیر کمیٹی کے چیئرمین ہیں وہ پاکستان اور بیرون ممالک جاکر بہت کچھ کرتے اور کہتے ہیں سوائے کشمیر کاز کو آگے بڑھانے کے۔ دونوں حضرات تجربہ کہاں سے لے کر آئے؟ کیا یہ سیاستکاری اور سفارتکاری کے میدان میں اترنے سے قبل بھی تجربہ کار تھے؟ حنا ربانی کھر کی ہلیری کلنٹن سے ملاقات پاکستان کے نقطہ نظر سے بہتر رہی۔ بھارت کے ساتھ مسئلہ کشمیر پر مذاکرات کبھی ثمر بار نہیں رہے۔ حنا کیا کرتی ہیں۔ اس کا انتظار کرنا چاہئے۔ حضرت مولانا اور سردار صاحب تجربہ کار بزرگ ہیں۔ اپنی خواہشات کو ہاتھی بنا کر ان پر سواری کے بجائے قوم اور ملک و ملت کے لئے دعا کریں۔ حنا ربانی مسئلہ کشمیر پر قومی موقف کو لے کر آگے بڑھیں تجربہ کاروں کے تجربات سے استفادہ کی ضرورت ہے نہ مشوروں کی انہوں نے جو کرنا تھا موقع ملنے پر کر دکھایا۔ خدا کرے کہ پاکستان اور پاکستانی عوام کی سیاست اور سفارت کے میدان کے ”تجربہ کاروں“ سے جان چھوٹ جائے۔ جو مشرقی پاکستان بچا سکے اور نہ کشمیر آزاد کرا سکے بلکہ اگر کچھ کر سکے تو لوٹ مار‘ کرپشن‘ لاقانونیت اور وطن فروشی میں ہی نام ہی پیدا کر سکے۔
No comments:
Post a Comment