ہفتہ ، 16 جولائی ، 2011
قرآنی
فضل حسین اعوان
کچھ اپنوں کی لگائی اور کچھ غیروں کی دہکائی آگ میں بلوچستان جل رہا ہے۔ یہ آگ کہیں پھونکوں سے اور کہیں پٹرول چھڑک کر بجھانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ موجودہ دور میں معافیوں کا بڑا چلن ہے۔ ہماری حکومتیں بلوچوں سے معافیاں مانگتی رہی ہیں۔ موجودہ حکومت نے بھی مانگی ہے۔ بلوچ بڑی غیرت مند اور خوددار قوم ہے۔ یہ کچھ نہیں مانگتے، نوکریاں نہ روٹیاں، عہدے نہ سرداریاں صرف عزت و وقار کے طلب گار ہیں۔ ہمارے حکمران معافی بھی مانگتے ہیں تو بندوق تان کر، گریبان پکڑ کر۔ دو روز قبل وزیراعظم کوئٹہ میں تھے ان کے وزیر داخلہ عبدالرحمن ملک بھی ان کے ساتھ گئے۔ 13 جولائی 2011 کو کابینہ کے اجلاس کے بعد میڈیا کو بریفنگ دیتے ہوئے ملک صاحب نے کہا قومی پرچم جلانے والوں سے بات نہیں ہو سکتی۔ ساتھ یہ بھی فرما دیا معلوم ہے کہ شرپسندوں کو امداد کہاں سے ملتی ہے.... شرپسند بلوچستان میں پرچم جلا رہے ہیں۔ علیحدگی کی تحریک جاری ہے۔ ٹارگٹ کلنگ رکنے میں نہیں آ رہی۔ جتنے مستوجب سزا یہ لوگ ہیں اُتنے ہی وہ بھی ہیں جن کو معلوم ہے کہ شرپسندوں کو امداد کہاں سے ملتی ہے اور ان کے خلاف کارروائی کرنے کے بجائے خاموش ہیں۔ اس میں کیا مصلحت ہے، کیا یہاں بھی کمشن کا چکر ہے؟ پرچم جلانے والے اگر بھٹکے ہوئے ہیں تو بلوچستان کے مخصوص حالات کے باعث ان کو راہِ راست پر لانا چاہئے نہ کہ ان کی تحریک کو مضبوط تر بنانے کے مواقع پیدا کر دئیے جائیں۔
پیپلز پارٹی کی باقی بچی ڈیڑھ سالہ آئینی مدت کی تکمیل کے راستے میں آگ کا دریا حائل ہے۔ ساڑھے تین سال کا عرصہ فرینڈلی اپوزیشن کی نظرِ کرم سے بڑی آسانی سے گزر گیا۔ اب اپوزیشن اپنی آئی پر آ گئی ہے تو اقتدار کے ایوانوں کے در و دیوار ہل رہے اور ان کے مکینوں کے سانس پھولے ہوئے ہیں۔ اپنی مدت کے آغاز پر بلوچوں سے معافی مانگی اور ساڑھے تین سال اسی معافی کے زور پر نکال لئے۔ اب وزیراعظم آغاز حقوقِ بلوچستان کی پٹاری لے کر کوئٹہ جا پہنچے۔ وہی وعدے، وہی دعوے، وہی رسمی قسمیں اور عہد و پیمان۔ یہ کر دیا وہ کر دیں گے۔ ”آغاز حقوق بلوچستان“ جیسا نام ویسا کام اور انجام۔ تین سال قبل بھی آغاز اب بھی آغاز اقتدار سے جائیں تو بھی حقوق بلوچستان کی تفویض کا آغاز ہی ہو گا۔
وزیر اطلاعات فردوس عاشق اعوان نے کابینہ کے اجلاس کے بعد میڈیا کو بتایا ہم اب بھی ناراض بھائیوں کو دعوت دیتے ہیں کہ وہ آئیں ہم سے مذاکرات کریں.... آپ نے کہہ دیا گویا ناراض بلوچوں نے مان لیا! اپنی خوش الحانی پہ کیسی خوش گمانی ہے! کیا ناراض بلوچوں کو ”پولیس صفت“ حکمرانوں پر اعتماد اور اعتبار ہے۔ براہمداغ بگتی، گزین مری، میر حیر بیار بگٹی اور خان آف قلات میر سلمان داﺅد اور بہت سے دیگر رہنما خلیجی ریاستوں، برطانیہ اور سوئٹزرلینڈ میں قیام پذیر ہیں۔ سلمان داﺅد تو جلاوطن حکومت بھی بنائے بیٹھے ہیں۔ سلمان داﺅد خان آف قلات میر احمد یار خان کے جاں نشین ہیں۔ میر احمد یار قائداعظم کے دست و بازو تھے۔ کہا جاتا ہے کہ انہوں نے دو مرتبہ قائداعظم اور مادرِ ملت کے وزن کے برابر سونا تحریک پاکستان کے لئے دان کر دیا تھا۔ ایسے محب وطن لوگوں کے ساتھ ہمارے حکمرانوں نے کیا سلوک کیا؟ ایوب خان نے اقتدار پر قبضہ کیا تو میر احمد یار خان کو گرفتار کر لیا۔ یہیں پہ بس نہیں۔ ایوب حکومت کے اس اقدام کے خلاف جھالاوان کے نواب میر نوروز خان زرک زئی نے مسلح جدوجہد شروع کر دی۔ جنرل ایوب خان نے نوروز خان کے ساتھ مذاکرات شروع کئے اور ہتھیار ڈالنے کی صورت میں معافی کا وعدہ کیا۔ وہ حکومت کے چکمے میں آنے پر تیار نہ تھے۔ ایوب خان نے نواب دودہ خان زرک زئی کو قرآن دے کر پہاڑیوں پر بھجوایا۔ اس پر نوروز خان نے ہتھیار ڈال دئیے لیکن فوجی حکومت نے وعدہ خلافی کرتے ہوئے فوجی عدالت میں انکے خلاف مقدمہ چلایا۔ 80 سالہ نوروز خان کو عمرقید کی سزا دی اور انکے بیٹے میر بٹے خان سمیت پورے خاندان کو پھانسی پر لٹکا دیا گیا۔ کچھ عرصے کے بعد نوروز خان بھی جیل میں چل بسے۔ اس کے بعد سے بلوچ مزاحمت کریں یا امن سے رہیں حکومت پر اعتبار کرنے کو تیار نہیں۔ موجودہ حکمران تو ویسے بھی وعدے معاہدے کر کے کہتے ہیں یہ کوئی قرآن و حدیث نہیں۔ مدیر نوائے وقت خاں آف قلات میر احمد یار خاں سے قلات میں جا کر ملے حال احوال پوچھنے کے بعد بات چیت ہوتی رہی ضیاالحق کا دور تھا خان قلات کے فلیٹیز ہوٹل والی فرم میں شیئرز تھے انہوں نے کہا اب ریاست کے وہ مالک نہیں رہے۔ خزانہ خالی ہے۔ حکومت سے میری خدمات کے عوض یہ تین ہوٹل فلٹیز فلیش مین اور لورڈز سروسز مجھے دیدے میں اپنے قبیلے کے اخراجات کسی حد تک پورے کر سکونگا۔ مدیر نوائے وقت نے ضیاالحق تک یہ پیغام پہنچایا۔ انہوں نے ایک کان سے بات سنی دوسرے سے نکال دی۔ سروسز ہوٹل معلوم نہیں آج کس کی ملکیت ہیں!
بلوچوں کے ساتھ مذاکرات کی بیل کیوں منڈھے نہیں چڑھ سکی؟ وہ حکمرانوں کو قرآنی (قرآن پر وعدہ کر کے مکر جانے والے) سمجھتے ہیں۔ حکومت پہلے اپنا اعتبار بحال کرے۔ عام معافی دے دی جائے تو بھی باہر بیٹھے ناراض بلوچ واپس نہیں آئیں گے۔ ایک طرف آپ ان کے ساتھ مذاکرات کرتے ہیں مفاہمت کی بات کرتے ہیں۔ معافی مانگتے ہیں اور معاف کرنے کے وعدے کرتے ہیں۔ دوسری طرف بلوچستان میں بندوق بردار بھی پھیلائے ہوئے ہیں۔ وہ بگتی ایسے سردار کو اگلے جہان پہنچا دیتے ہیں اور آج تک قاتل پکڑا نہیں جا سکا۔ اپنے عمل سے ثابت کریں کہ آپ واقعی اپنے ان کو قومی دھارے میں لانا چاہئے۔ وہ پاکستان آئیں نہ آئیں۔ ان کی مسلح جدوجہد کے لئے حمایت ختم ہونی چاہئے۔ بلوچستان میں لگی علیحدگی پسندی کی آگ بجھانے اور بلوچستان کو بچانے کے لئے جو بھی قیمت ادا کرنا پڑے سستا سودا ہے۔ گورنر اور وزیراعلیٰ بلوچستان کو حکومت بااختیار بناتی ہے وہ اپنی بے بسی کا اظہار کرتے ہیں۔ ان کو حقیقت میں بااختیار بنا دیں تو وہ معاملات راست سمت میں لانے میں بہترین کردار ادا کر سکتے ہیں۔ زرداری صاحب خود بلوچ ہیں نوائے وقت کی تجویز پر وفاقی کابینہ کا اجلاس کوئٹہ میں ہوا اچھی بات ہے بلوچ صدر صاحب ہفتے میں کم از کم ایک دو دن بلوچستان میں گزاریں تو معاملات مزید تیزی سے بہتر ہو سکتے ہیں۔
قرآنی
فضل حسین اعوان
کچھ اپنوں کی لگائی اور کچھ غیروں کی دہکائی آگ میں بلوچستان جل رہا ہے۔ یہ آگ کہیں پھونکوں سے اور کہیں پٹرول چھڑک کر بجھانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ موجودہ دور میں معافیوں کا بڑا چلن ہے۔ ہماری حکومتیں بلوچوں سے معافیاں مانگتی رہی ہیں۔ موجودہ حکومت نے بھی مانگی ہے۔ بلوچ بڑی غیرت مند اور خوددار قوم ہے۔ یہ کچھ نہیں مانگتے، نوکریاں نہ روٹیاں، عہدے نہ سرداریاں صرف عزت و وقار کے طلب گار ہیں۔ ہمارے حکمران معافی بھی مانگتے ہیں تو بندوق تان کر، گریبان پکڑ کر۔ دو روز قبل وزیراعظم کوئٹہ میں تھے ان کے وزیر داخلہ عبدالرحمن ملک بھی ان کے ساتھ گئے۔ 13 جولائی 2011 کو کابینہ کے اجلاس کے بعد میڈیا کو بریفنگ دیتے ہوئے ملک صاحب نے کہا قومی پرچم جلانے والوں سے بات نہیں ہو سکتی۔ ساتھ یہ بھی فرما دیا معلوم ہے کہ شرپسندوں کو امداد کہاں سے ملتی ہے.... شرپسند بلوچستان میں پرچم جلا رہے ہیں۔ علیحدگی کی تحریک جاری ہے۔ ٹارگٹ کلنگ رکنے میں نہیں آ رہی۔ جتنے مستوجب سزا یہ لوگ ہیں اُتنے ہی وہ بھی ہیں جن کو معلوم ہے کہ شرپسندوں کو امداد کہاں سے ملتی ہے اور ان کے خلاف کارروائی کرنے کے بجائے خاموش ہیں۔ اس میں کیا مصلحت ہے، کیا یہاں بھی کمشن کا چکر ہے؟ پرچم جلانے والے اگر بھٹکے ہوئے ہیں تو بلوچستان کے مخصوص حالات کے باعث ان کو راہِ راست پر لانا چاہئے نہ کہ ان کی تحریک کو مضبوط تر بنانے کے مواقع پیدا کر دئیے جائیں۔
پیپلز پارٹی کی باقی بچی ڈیڑھ سالہ آئینی مدت کی تکمیل کے راستے میں آگ کا دریا حائل ہے۔ ساڑھے تین سال کا عرصہ فرینڈلی اپوزیشن کی نظرِ کرم سے بڑی آسانی سے گزر گیا۔ اب اپوزیشن اپنی آئی پر آ گئی ہے تو اقتدار کے ایوانوں کے در و دیوار ہل رہے اور ان کے مکینوں کے سانس پھولے ہوئے ہیں۔ اپنی مدت کے آغاز پر بلوچوں سے معافی مانگی اور ساڑھے تین سال اسی معافی کے زور پر نکال لئے۔ اب وزیراعظم آغاز حقوقِ بلوچستان کی پٹاری لے کر کوئٹہ جا پہنچے۔ وہی وعدے، وہی دعوے، وہی رسمی قسمیں اور عہد و پیمان۔ یہ کر دیا وہ کر دیں گے۔ ”آغاز حقوق بلوچستان“ جیسا نام ویسا کام اور انجام۔ تین سال قبل بھی آغاز اب بھی آغاز اقتدار سے جائیں تو بھی حقوق بلوچستان کی تفویض کا آغاز ہی ہو گا۔
وزیر اطلاعات فردوس عاشق اعوان نے کابینہ کے اجلاس کے بعد میڈیا کو بتایا ہم اب بھی ناراض بھائیوں کو دعوت دیتے ہیں کہ وہ آئیں ہم سے مذاکرات کریں.... آپ نے کہہ دیا گویا ناراض بلوچوں نے مان لیا! اپنی خوش الحانی پہ کیسی خوش گمانی ہے! کیا ناراض بلوچوں کو ”پولیس صفت“ حکمرانوں پر اعتماد اور اعتبار ہے۔ براہمداغ بگتی، گزین مری، میر حیر بیار بگٹی اور خان آف قلات میر سلمان داﺅد اور بہت سے دیگر رہنما خلیجی ریاستوں، برطانیہ اور سوئٹزرلینڈ میں قیام پذیر ہیں۔ سلمان داﺅد تو جلاوطن حکومت بھی بنائے بیٹھے ہیں۔ سلمان داﺅد خان آف قلات میر احمد یار خان کے جاں نشین ہیں۔ میر احمد یار قائداعظم کے دست و بازو تھے۔ کہا جاتا ہے کہ انہوں نے دو مرتبہ قائداعظم اور مادرِ ملت کے وزن کے برابر سونا تحریک پاکستان کے لئے دان کر دیا تھا۔ ایسے محب وطن لوگوں کے ساتھ ہمارے حکمرانوں نے کیا سلوک کیا؟ ایوب خان نے اقتدار پر قبضہ کیا تو میر احمد یار خان کو گرفتار کر لیا۔ یہیں پہ بس نہیں۔ ایوب حکومت کے اس اقدام کے خلاف جھالاوان کے نواب میر نوروز خان زرک زئی نے مسلح جدوجہد شروع کر دی۔ جنرل ایوب خان نے نوروز خان کے ساتھ مذاکرات شروع کئے اور ہتھیار ڈالنے کی صورت میں معافی کا وعدہ کیا۔ وہ حکومت کے چکمے میں آنے پر تیار نہ تھے۔ ایوب خان نے نواب دودہ خان زرک زئی کو قرآن دے کر پہاڑیوں پر بھجوایا۔ اس پر نوروز خان نے ہتھیار ڈال دئیے لیکن فوجی حکومت نے وعدہ خلافی کرتے ہوئے فوجی عدالت میں انکے خلاف مقدمہ چلایا۔ 80 سالہ نوروز خان کو عمرقید کی سزا دی اور انکے بیٹے میر بٹے خان سمیت پورے خاندان کو پھانسی پر لٹکا دیا گیا۔ کچھ عرصے کے بعد نوروز خان بھی جیل میں چل بسے۔ اس کے بعد سے بلوچ مزاحمت کریں یا امن سے رہیں حکومت پر اعتبار کرنے کو تیار نہیں۔ موجودہ حکمران تو ویسے بھی وعدے معاہدے کر کے کہتے ہیں یہ کوئی قرآن و حدیث نہیں۔ مدیر نوائے وقت خاں آف قلات میر احمد یار خاں سے قلات میں جا کر ملے حال احوال پوچھنے کے بعد بات چیت ہوتی رہی ضیاالحق کا دور تھا خان قلات کے فلیٹیز ہوٹل والی فرم میں شیئرز تھے انہوں نے کہا اب ریاست کے وہ مالک نہیں رہے۔ خزانہ خالی ہے۔ حکومت سے میری خدمات کے عوض یہ تین ہوٹل فلٹیز فلیش مین اور لورڈز سروسز مجھے دیدے میں اپنے قبیلے کے اخراجات کسی حد تک پورے کر سکونگا۔ مدیر نوائے وقت نے ضیاالحق تک یہ پیغام پہنچایا۔ انہوں نے ایک کان سے بات سنی دوسرے سے نکال دی۔ سروسز ہوٹل معلوم نہیں آج کس کی ملکیت ہیں!
بلوچوں کے ساتھ مذاکرات کی بیل کیوں منڈھے نہیں چڑھ سکی؟ وہ حکمرانوں کو قرآنی (قرآن پر وعدہ کر کے مکر جانے والے) سمجھتے ہیں۔ حکومت پہلے اپنا اعتبار بحال کرے۔ عام معافی دے دی جائے تو بھی باہر بیٹھے ناراض بلوچ واپس نہیں آئیں گے۔ ایک طرف آپ ان کے ساتھ مذاکرات کرتے ہیں مفاہمت کی بات کرتے ہیں۔ معافی مانگتے ہیں اور معاف کرنے کے وعدے کرتے ہیں۔ دوسری طرف بلوچستان میں بندوق بردار بھی پھیلائے ہوئے ہیں۔ وہ بگتی ایسے سردار کو اگلے جہان پہنچا دیتے ہیں اور آج تک قاتل پکڑا نہیں جا سکا۔ اپنے عمل سے ثابت کریں کہ آپ واقعی اپنے ان کو قومی دھارے میں لانا چاہئے۔ وہ پاکستان آئیں نہ آئیں۔ ان کی مسلح جدوجہد کے لئے حمایت ختم ہونی چاہئے۔ بلوچستان میں لگی علیحدگی پسندی کی آگ بجھانے اور بلوچستان کو بچانے کے لئے جو بھی قیمت ادا کرنا پڑے سستا سودا ہے۔ گورنر اور وزیراعلیٰ بلوچستان کو حکومت بااختیار بناتی ہے وہ اپنی بے بسی کا اظہار کرتے ہیں۔ ان کو حقیقت میں بااختیار بنا دیں تو وہ معاملات راست سمت میں لانے میں بہترین کردار ادا کر سکتے ہیں۔ زرداری صاحب خود بلوچ ہیں نوائے وقت کی تجویز پر وفاقی کابینہ کا اجلاس کوئٹہ میں ہوا اچھی بات ہے بلوچ صدر صاحب ہفتے میں کم از کم ایک دو دن بلوچستان میں گزاریں تو معاملات مزید تیزی سے بہتر ہو سکتے ہیں۔
No comments:
Post a Comment