بدھ ، 06 جولائی ، 2011
کرچی کشکول .... دریدہ دامن
فضل حسین اعوان
کشکول توڑنے اور کشکول چھوڑنے کے دعوے عرصہ سے کئے جا رہے ہیں۔ قوم کا مشاہدہ اور تجربہ یہی ہے کہ کشکول کبھی توڑا نہیں گیا۔ چھوڑا ضرور گیا ہے۔ اسے چھوڑ کر دامن پھیلا دیا جاتا ہے۔ غیرت کی لہر اٹھے تو دامن سمیٹ کر تھوڑا وقفہ پھر کشکول برداری۔ مشرف اور ان کے جانشینوں کی پالیسیوں اور دیگر معاملات میں کوئی انیس بیس ہو سکتی ہے۔ انسانوں کی سوداگری اور خون فروشی کی علت جیسی ذلت برقرار رہی ہے۔ ہم ان سے جنگ کی تباہ کاریوں کا معاوضہ مانگتے ہیں وہ بھیک سمجھ کر دیتے ہیں۔ امریکہ نے دہشت گردی کی جنگ کے خلاف ساڑھے چار سو ارب ڈالر مختص کئے اس میں سے فرنٹ لائن اتحادی کو صرف ایک ارب ڈالر سے کچھ اوپر حصہ ملے گا۔ بھکاری مخیر سے اس کی حیثیت کے مطابق دینے کی توقع رکھتا ہے۔ یہ فیاض کی مرضی کہ وہ اپنی حیثیت کے مطابق دے یا فقیر کی حیثیت کو مدنظر رکھ کر‘ امریکہ ہمیں اپنی نہیں ہماری حیثیت پیش نظر رکھ کر خیر ڈالتا ہے۔ 68 ارب ڈالر کا نقصان‘ 40 ہزار بندے مروا کر بھی امداد 17 ارب ڈالر‘ وہ بھی کئی بڑوں کے پیٹوں اور بینکوں میں چلی گئی۔ جس اعانت سے اہانت ہو، اس پر لعنت ۔ اپنے وسائل بروئے کار لاکر غیرت سے جینا چاہئے۔ امریکہ کی جنگ لڑتے لڑتے پاکستان کا کیا حشر ہو گیا! امریکہ کا آج بھی مطالبہ ہے کہ فوج بتائے وہ ہمارے ساتھ ہے یا دشمن کے ساتھ! پاکستان امریکہ کے دشمن کے ساتھ ہوتا تو اسے اس خطے میں قدم رکھنے کی جرات نہ ہوتی۔ امریکہ کے ڈومور کے مطالبات کے آگے نورمور کہنے سے قبل اور دو (Give more) کی رٹ چھوڑنا ہو گی۔ امریکہ کی ”درگاہ“ اور فرینڈز آف پاکستان کی ”بارگاہ“ سے جبیں اٹھا لینا ہو گی۔ ملکی وسائل سے استفادہ قوم کی صلاحیتوں پر بھروسا اور رب العزت پر توکل کریں تو نصرت خداوندی سے تقدیر بدل جائے گی، پہلی شرط تدبیر ہے
توکل کا یہ مطلب ہے کہ خنجر تیز رکھ اپنا
پھر انجام اس کی تیزی کا مقدر کے حوالے کر
اب اندھیرے میں روشنی کی ایک کرن سی نظر آتی ہے۔ صدر آصف علی زرداری برطانیہ کے طویل دورے پر ہیں۔ انہوں نے ڈیوڈ کیمرون سے ملاقات کی جس میں سرمایہ کاری کے فروغ کی بات ہوئی یورپی یونین کے ساتھ تجارتی معاملات میں برطانیہ کے تعاون کا شکریہ ادا کیا اور مزید تعاون کی درخواست بھی کی۔ کیمرون نے بڑی گرمجوشی سے کہا وہ پاکستان اور یورپی یونین کے مابین تجارت اور سرمایہ کاری کےلئے اپنا کردار ادا کرتے رہیں گے۔ وزیراعلیٰ شہباز شریف بھی برطانیہ کے دورے پر ہیں ان کا کہنا ہے کہ بیرونی دورے پاکستان میں سرمایہ کاری لانے کےلئے ہیں۔ قائداعظم گاندھی سے ملاقات و مذاکرات کرتے تو سردار عبدالرب نشتر کو اپنے پہلو میں بٹھاتے۔ نشتر خاموشی سے گاندھی کی طرف دیکھتے اور مونچھوں کو تاﺅ دیتے رہتے۔ کچھ اور گاندھی جی اکثر چوکڑی بھول جایا کرتے تھے۔ شہباز شریف رانا ثناءاللہ کو ساتھ لے گئے۔ تجارت اور سرمایہ کاری کے معاہدوں کے دوران ہو سکتا ہے وہ مونچھوں کو تا ¶ دے کر دوسرے فریق کر مرعوب کرکے پاکستان کےلئے بہتر معاہدے کروا لیں۔پاکستان کی جس بھی ملک کے ساتھ ممکن ہے تجارت ہونی چاہئے سوائے ازلی دشمن بھارت کے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ آپ تجارت خصوصی طور پر برآمدات کے قابل بھی ہیں؟ بجلی آپ کے پاس نہیں‘ گیس آپ کے پاس نہیں تیل کی قلت رہتی ہے۔ انرجی کے بغیر آپ پیدا کیا کریں گے اور ایکسپورٹ کیا کریں گے؟ گنجی نہائے گی کیا اورنچوڑے گی کیا۔ پاکستان کی تاریخ میں کبھی گرمیوں میں گیس کی قلت ہوئی اور نہ آدھا آدھا ہفتے لوڈشیڈنگ کی ذلت۔ سی این جی سٹیشن ہفتے میں دو دن بند رہتے تھے۔ رواں ہفتہ سے تین دن کا ناغہ کر دیا گیا۔ گھریلو‘ صنعتی اور کمرشل صارفین پہلے ہی پریشان تھے۔ اوپر سے نئے کمرشل اور صنعتی کنکشنوں پر پابندی لگا دی گئی ہے۔ ایران کے ساتھ گیس کی فراہمی کا معاہدہ ہے۔
اُس طرف سے لائن بھی ڈال دی گئی ہے۔ ہمارے وزیر پٹرولیم اور قدرتی وسائل ڈاکٹر عاصم کا کہنا ہے کہ ایران گیس پائپ لائن معاہدے پر 6 ماہ میں کام شروع کر دیا جائےگا۔ 6 ماہ کیوں؟ آج ہی سے کیوں نہیں؟ 6 ماہ بعد کیا آپ امریکہ کے خوف سے نکل آئیں گے؟ انرجی کے بغیر آپ ایکسپورٹ تو کیا اپنی ضروریات بھی پوری نہیں کر سکتے۔ دنیا سے اگر کچھ مانگنا ہے تو امداد نہیں ٹیکنالوجی مانگیں‘ فنی تعلیم کے معاہدے کریں۔ جیساکہ شہباز شریف لندن میں کر رہے ہیں۔ خوش آئند امر یہ ہے کہ تھر کے کوئلے کو گیس اور ڈیزل میں تبدیل کرنے کا کامیاب تجربہ کر لیا گیا ہے۔ اب اس پر توجہ مرکوز کر دی جائے اور ڈاکٹر ثمر مبارک مند کو مبارکباد حاصل کرنے کے قابل بنا دیا جائے۔ کالا باغ ڈیم کی تعمیر کو بھی مت بھولیں۔ کشکول کو توڑ کر کرچی کرچی کردیں۔ دامن دریدہ کرلیں تاکہ اٹھانے اور پھیلانے کی حسرت و خواہش انگڑائی ہی نہ لے۔ اس حدیث مبارکہ کو نہ بھولیں کہ ”مانگنا ذلت ہے چاہے‘ اپنے سگے ماں باپ ہی سی کیوں نہ ہو“
No comments:
Post a Comment