جمعۃالمبارک ، 29 جولائی 2011
انصاف کو انصاف کی تلاش
فضل حسین اعوان
جس کی جتنی سوچ اور اپروچ ہے وہ اس سے کام لے اور اسے بروئے کار لا رہا ہے۔ کسی کو اپنے طاقتور ہونے کا زعم، کسی کو بااختیار ہونے کا وہم۔ کسی کو اپنی باری کے تیزی سے اختتام کی طرف بڑھنے کا غم تو کوئی اپنی باری کے لئے بے دم۔ عام آدمی کس حال میں ہے مصائب نے اس کا سر جھکا رکھا ہے یا مسائل نے الٹا لٹکا رکھا ہے اس کی پروا حکمرانوں، سیاستدانوں ججوں اور جرنیلوں سمیت کسی کو نہیں۔ انصاف اُٹھ جائے تو قومیں اور معاشرے تاریکیوں اور بند گلیوں میں بھٹکنے لگتے ہیں۔ آج ہر کوئی مرضی کا انصاف کر رہا ہے اور ہر کوئی مرضی کا انصاف چاہتا ہے۔ عدلیہ، سیاستدانوں اور حکمرانوں نے انصاف کو مرضی کے معانی اور مفہوم کا لبادہ اوڑھا دیا ہے۔ عدالتی فیصلوں کا مذاق اڑتا دیکھ کر اکثر حکومت وقت کو دشنام دیتے ہیں بہت سے ایسے بھی ہیں جو عدلیہ کو جانبداری کا الزام دیتے ہیں۔ پھر ہر طبقہ اپنے موقف کو مبنی برحق قرار دیکر اس سے اتفاق نہ کرنے والوں کو مطعون کرنے سے بھی گریز نہیں کرتا۔ آج عدلیہ حکومت محاذ آرائی عروج پر ہے۔ کچھ اہل الرائے یہ بھی کہتے ہیں کہ متعدد مقدمات سالوں سے التوا میں ہیں حکومت سے متعلقہ متعدد کیس برق رفتاری سے نمٹائے جا رہے ہیں۔ اِدھر کیس آیا، سماعت ہوئی اُدھر فیصلہ سرِ میدان آ گیا۔ حکومت عدلیہ محاذ آرائی میں حکومت کی طرف سے معاملات لٹکانے عدلیہ کی طرف سے ہتھیلی پر سرسوں جمانے کا رویہ جلتی پر تیل کا کام کر رہا ہے۔ کئی چھوٹے موٹے اور اعلیٰ افسر اس محاذ آرائی کی بھینٹ چڑھ گئے۔ کسی کو عدلیہ نے بھگایا کسی کو حکومت نے مار مکایا۔ ایک فریق کے منظورِ نظر کو دوسرے نے مطعونِ خلائق بنا دیا۔ یہ سوچے بغیر کہ وہ بھی اسی معاشرے کا حصہ، اس کے کچھ حقوق اور عزت و احترام بھی ہے۔ قصور جس کا بھی ہے آج انصاف دربدر ہے۔ انصاف کو انصاف کی تلاش ہے۔ بلاشبہ حکومت بدمعاشی کر رہی ہے۔ سپریم کورٹ میں بیٹھے لوگوں کا اعلیٰ تعلیم یافتہ و تہذیب یافتہ ہونا بھی شک و شبہ سے بالاتر ہے۔ پھر یہ کہا ”سیدھا کر دیں گے۔ ہتھکڑیاں لگا دو، نمٹ لیں گے“۔ اس پر وزیراعظم بھی جامہ میں نہیں رہتے فرماتے ہیں میں نوکری پیشہ نہیں ہوں۔ اتھارٹی میں مداخلت ہو رہی ہے۔ اس پر وزیراعظم کے ساتھی تو اپنے باس کی لے اور لہجے میں ہی بات کریں گے۔ کہا جاتا ہے حج کرپشن کیس میں وزیراعظم کے صاحبزادے کا نام آیا تو تفتیشی ڈائریکٹر ایف آئی اے حسین اصغر سے تفتیش واپس لے کر انہیں آئی جی گلگت بلتستان لگا دیا گیا۔ سپریم کورٹ کے 6 رکنی بنچ نے حسین اصغر کے دوبارہ ایف آئی اے میں تبادلے کا حکم دیا۔ حکومت انکاری رہی۔ سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ سہیل احمد کو تبادلے کے لئے کہا تو انہوں نے کہا قانونی طور پر ان کے پاس ایسا کرنیکا اختیار نہیں۔ وزیراعظم گیلانی کہتے ہیں 20 گریڈ کے افسر کے تبادلہ کا اختیار ان کے پاس ہے۔ وزیراعلیٰ مہدی شاہ کا کہنا ہے کہ ان یا گورنر کے مشورے کے بغیر آئی جی کا تبادلہ نہیں ہو سکتا۔ سپریم کورٹ نے سہیل احمد کی سرزنش کی۔ تبادلے کا نوٹیفکیشن جاری کرنیکا سختی سے حکم دیا۔ مرتا کیا نہ کرتا قانونی غیر قانونی نوٹیفکیشن جاری کر دیا۔ اُدھر بارہ بجے نوٹیفکیشن جاری ہوا۔ اِدھر وزیراعظم ہاﺅس میں ”بارہ بج“ گئے اور ساتھ ہی حکومت نے سہیل احمد کے بھی بارہ بجا دئیے۔ سپریم کورٹ کا حکم مانا تو او ایس ڈی بننا پڑا۔ وزیراعظم کا مانتے تو شاید عدالت میں ہتھکڑی لگ جاتی۔ سہیل صاحب جس اقدام کو غیر قانونی قرار دے رہے تھے وہ قانونی محض ہتھکڑی کی جھنکار اور برطرفی کی لٹکتی تلوار دیکھ کر قانونی ہو گیا! کچھ جرنلسٹ، سابق جج اور جرنیل سپریم کورٹ کو اپنے فیصلوں پر عمل کرانے کے لئے فوج کو بلانے کی راہ دکھا رہے ہیں۔ کیا معاملات واقعی اس انتہا تک پہنچ گئے ہیں کہ سپریم کورٹ فوج کو طلب کرے۔ فوج کیا کرے گی؟ حکومت کو کہے گی سوئس حکومت کو خط لکھ دے۔ ظفر قریشی کے حوالے این آئی سی ایل کیس کی تفتیش کر دے گی۔ حسین اصغر کو بلتستان سے اٹھا کر ایف آئی اے میں بٹھا دے گی۔ بس اس کام کے لئے فوج کو طلب کیا جائے؟ محب وطن لوگوں کی خواہش ہے کوئی بھی بڑا ذمہ دار خود کو عقل کل اور دوسرے ادارے یا اداروں کو مطیع نہ سمجھے۔ معاملات عین آئین اور قانون کے مطابق چلائے جائیں۔ ایسی سوچ سے پیچھا چھڑا کر بااثر اور بااختیار افراد حکومت کو عدلیہ کے تمام تر فیصلے ماننے اور ان کی روح کے مطابق ان پر عمل کرنے کے لئے آمادہ اور مجبور کریں۔
No comments:
Post a Comment