اتوار ، 17 جولائی ، 2011
جنگیں تباہی کا نشاں.... لیکن
فضل حسین اعوان
امریکہ نے افغانستان سے واپسی کا اعلان تو کر دیا لیکن سوال یہ ہے کہ کیا وہ واقعی افغانستان سے نکل رہا ہے۔ کیا وہ انخلا کے اپنے اعلان پر قائم رہے گا اور پرعزم بھی۔ جس مقصد کے لئے افغانستان آیا کیا وہ پورا ہو گیا؟ یقیناً امریکہ بظاہر جس مقصد کے لئے افغانستان آیا وہ پورا ہو گیا۔ اُس نے اسامہ بن لادن کو نائن الیون سانحے، واقعے یا اپنے رچائے ڈرامے کا ذمہ دار قرار دیا تھا۔ طالبان حکومت نے بن لادن کو امریکہ کے حوالے نہ کیا تو وہ اسے بزور یہاں اٹھانے یا مار گرانے آیا تھا۔ یہی اس کا واحد مقصد تھا۔ جو 2 مئی 2011 کو ایبٹ آباد آپریشن میں اسامہ کے مبینہ قتل بعداز قتل سے پورا ہو گیا۔ امریکہ اور اس کے اتحادی گزشتہ سال لزبن کانفرنس میں افغانستان سے 2014ءتک انخلا پر متفق ہو چکے تھے۔ اسامہ کو ایبٹ آباد میں قتل کر کے امریکہ نے پھر سے 2014 تک افغانستان سے انخلا کا اعادہ کر دیا۔ جب آپ کا مقصد پورا ہو گیا تو انخلاء2014 تک کیوں؟ فوری ایک دو ماہ میں کیوں نہیں؟ اس کا جواب بالکل واضح ہے کہ امریکہ کا نہ صرف افغانستان بلکہ خطے میں آنے کا مقصد کچھ اور ہے۔ بن لادن کا تعاقب ایک بہانہ تھا۔ اس میں شک نہیں کہ افغانوں اور ملکِ افغاناں کو سکندراعظم اور اپنے اپنے دور کی سپر پاورز برطانیہ اور روس سمیت دنیائے تاریخ کی کوئی طاقت تسخیر نہیں کر سکی۔ فتح کا زعم لے کر آنے والا ہر کوئی رسوائیوں سے دوچار ہو کر لوٹا۔ اگر امریکہ کا مقصد افغانستان کو فتح کرنا تھا وہ تو پورا نہیں ہوا۔ البتہ ایک مقصد برطانیہ بھی لئے ہوئے ہے۔ امریکیوں نے آزادی اپنا خون دیکر اور برطانوی گوروں کا خون لے کر حاصل کی تھی۔ اہل برطانیہ کے دل میں بھی امریکہ کے افغانستان میں دفن ہونے کی امید کے چراغ جل رہے ہیں۔ ان کا مقصد امریکہ کو توڑنا ہے۔ برطانیہ کی معیشت ڈوبی تو بکھر کے رہ گیا۔ روس کے ٹکڑے بھی اس کی معیشت گرانے سے ہوئے۔ نائن الیون اگر ڈرامہ نہیں تو یہ سانحہ برپا کرنے والوں کا مقصد بھی امریکی معیشت کو بھنور میں پھنسانا تھا۔ برطانیہ بھی امریکہ کو اس کا ساتھی و اتحادی بن کر اس خطہ میں اس کے سلامت واپس نہ جانے کے خواب آنکھوں میں سجا آیا تھا۔ اب جن کے خلاف یہ صلیبی جنگ لڑی جا رہی ہے ان کا کیا مقصد ہونا چاہئے؟ امریکہ کا وہی انجام جو معیشتیں ڈوبنے پر برطانیہ اور روس کا ہوا؟
پاکستان کے موجودہ حالات پر ہر محب وطن پاکستانی دکھی ہے۔ ٹیکسلا سے دردِ دل رکھنے والے الشیخ احمد فضلی صاحب نے اپنے خط میں کچھ امید اور کچھ نومیدی کی باتیں کی ہیں ان کی نظر میں امریکہ کے افغانستان میں آنے کے مقاصد وہ نہیں جن کا امریکہ نے اظہار کیا۔ مختصراً ملاحظہ فرمائیے۔
لوگ امریکہ کو اپنے مشن میں ناکام سمجھ کر اس کے واپسی کے اعلانات پر قدرے خوش ہو رہے میں اسے نہ تو ناکام سمجھتا ہوں اور نہ ہی واپسی کے پروگرام میں مخلص۔ اس کا اصل مقصد اس علاقہ کو غیر مستحکم کر کے مسائل کے گرداب میں دھکیلنا تھا سو وہ اس میں کامیاب ہو گیا ہے۔ اگر آج ہی وہ اپنے ساتھیوں سمیت افغانستان سے نکل جائے تو پھر بھی افغانستان کو ہوش سنبھالنے کیلئے اور ترقی کی راہ پر گامزن ہونے کیلئے کم از کم ایک سو سال چاہئیں کیونکہ لوگوں کی سائیکی تنظیم کو قبول نہیں کرتی اور اداروں کے بغیر ترقی ممکن نہیں انتظامیہ حد درجہ کی کرپٹ اور نااہل ہے ملک ترقی کیسے کرے گا؟ اس سے ملتا جلتا حال پاکستان کا ہے۔ اہل اقتدار کو سونے کے دو پہاڑ دے دیں تو پھر بھی وہ دو اور کا مطالبہ کریں گے عوام تک ملکی وسائل کے ثمرات کا پہنچنا محال ہے۔ امریکہ کے عزائم اس اسلامی ریاست کے خلاف انتہائی بھیانک ہیں وہ اسے بالکل اپنی ایک ریاست بنانا چاہتا ہے۔ ہم اس کے ساتھ جنگ کرنے کے متحمل ہو سکتے یا نہیں یہ الگ بحث ہے۔ دانش مندی یہ ہے کہ جس طرح جناب قائداعظم نے بغیر کسی ٹکراﺅ کے حصول پاکستان کی جنگ جیتی ہے۔ اسی طرح پاکستان کو بچانے کی جنگ بغیر کسی ٹکراﺅ کے جیتنے کی کوشش کی جائے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ پاکستان میدان جنگ نہ بن جائے۔ کیونکہ اس بلاوجہ کی جنگ میں انسانی جانوں اور املاک کا جو نقصان ہو گا اس کے تصور سے بھی رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں اور پھر جنگ کے بعد اس سے بچ جانے والوں کے لئے مسائل کا ایک نیا باب کھل جاتا ہے۔ ایسی تدبیر کی جائے کہ اس بے ایمان سے حواریوں سمیت جان چھوٹ جائے اور یہ اپنے اپنے ملکوں کو لوٹ جائیں۔
جنگوں کے بارے میں کہا جاتا ہے یہ مسائل کا حل نہیں لیکن اس حقیقت کو بھی نظرانداز نہیں کیا جا سکتا کہ بعض جنگیں تاریخ کا دھارا موڑ دیتی ہیں ان سے جغرافیائی تبدیلیاں ظہور پذیر ہوتی ہیں۔ معرکہ بدر و حنین کی برکات سے آج نورِ اسلام دنیا کے کونے کونے میں ضوفشاں ہے۔ دوسری جنگ عظیم میں لاکھوں انسانوں کا خون بہا لیکن یہ جنگ پاکستان سمیت کئی ممالک کی آزادی کی بنیاد بنی۔ جنگ سے ضرور گریز کرنا چاہئے۔ لیکن اگر یہ مسلط ہو جائے تو تیغ کے نیچے برضا و رغبت گردن رکھنے سے آمادہ پیکار ہو جانا بہتر ہے۔ اس میں موہوم ہی سہی کامیابی کی ایک امید تو ہوتی ہے اور ہو سکتا ہے ایسی جنگ امہ کے لئے نوید سحر بن جائے۔ قدرت کاملہ حقیر سی مخلوق چیونٹی سے ہاتھی کو مروا دینے پر قادر ہے پاکستان تو ایک ایٹمی طاقت ہے۔ یہ اکیلا نہیں اس کی پشت پر 57 اسلامی ممالک ہونگے تو امریکہ بھارت یا کسی بھی طرف سے مسلط کردہ جنگ تیسری عالمی جنگ بن سکتی ہے۔ بشرطیکہ پاکستان مسلم امہ کو یکجا کر لے۔
No comments:
Post a Comment