جمعۃالمبارک ، 02 دسمبر ، 2011
بنگلہ دیش میں ملت کے پاسباں پھر زیر عتاب
فضل حسین اعوان
دبئی میں ایمرٹیس ایئر لائن کے سٹاف نے ایئر پورٹ سے ہمیں گاڑی میں ہوٹل کے لئے روانہ کیا تو میرے ساتھی صحافی شبیر سرور نے ڈرائیور سے انگریزی میں کہا کہ میوزک اگر ہے تو لگا دے، ملٹی نیشنل سٹی ہونے کے باعث یہاں کی مشترکہ زبان انگلش ہے۔ ڈرائیور نے عاطف اسلم کا گانا چلا دیا۔ اس کے بعد انگریزی بولنے کے تکلف کی ضرورت نہیں تھی۔ اس سے پوچھا ”بھائی کہاں کے رہنے والے ہو“۔ 35چالیس سال کے پیٹے شخص نے مختصر جواب دیا ”بنگلہ دیش“۔ ہم پاکستانیوں کو ساتھ بٹھا کر اسے تو شاید کوئی تعجب نہ ہوا ہو لیکن میرے سامنے بچپن کی یادوں کے سیاہ سائے لہرانے لگے۔ اخبارات کی چیختی چنگھاڑتی اور دلدوز ہیڈ لائنز ”ڈھاکہ میں قومی پرچم جلا دیا گیا۔ جنرل نیازی نے ہتھیار پھینک دیئے۔ ہزاروں فوجیوں کو بھارت نے قیدی بنا لیا“ کوشش کے باوجود ذہن سے محو نہیں ہوتیں۔ ہم ایئر پورٹ سے پانچ سات منٹ میں ہوٹل پہنچ گئے۔ اس لئے بنگلہ دیشی نوجوان سے تفصیلی بات چیت تو نہ ہو سکی البتہ اس نے بنگلہ لہجے میں اردو بولتے ہوئے جو کہا اس کا مفہوم یہ ہے ”اِدھر اور اُدھر کے اقتدار پرستوں نے پاکستان کے دو حصوں کے درمیان نفرت کی اونچی دیوار چن دی“۔ بنگالیوں میں آج بھی پاکستان اور پاکستانیوں سے محبت کے جذبات پائے جاتے ہیں۔ پاکستانیوں کی بنگلہ دیش میں ہمیشہ پذیرائی ہوتی ہے۔ بھارت میں جو حال ہوتا ہے، وہ سب پر عیاں ہے ۔ اس لئے کہ ہندو بنیا پاکستان اور پاکستانیوں سے اپنی نفرت کا اظہار کرے بنا رہ ہی نہیں سکتا۔ بنگلہ دیش میں پاکستانی جاتے رہتے ہیں۔ اب تو بہت سے صنعتکار اپنا کاروبار بھی وہاں سے لے گئے ہیں لیکن کسی بھی شعبے کی شخصیت کے ساتھ وہاں توہین آمیز سلوک نہیں ہوا۔ جبکہ بھارت کے انتہا اور شدت پسند ہندو پاکستانی کھلاڑیوں، فنکاروں کی تواضح جوتوں سے کرتے ہیں۔ حکومتی سطح پر قیدیوں کو بہیمانہ تشدد کا نشانہ بناتے ہوئے موت سے ہمکنار کر دیا جاتا ہے یا معذور بنا کر پاکستان بھجوا دیا جاتا ہے۔ بھارت میں حکومتی اور عوامی سطح پر پاکستانیوں سے نفرت کا اظہار کیا جاتا ہے۔ اگر کوئی مسلمان پاکستان یا پاکستانیوں سے پیار کا اظہار کربیٹھے تو اسے اس کے کاروبار سمیت جلا ڈالنے سے بھی گریز نہیں کیا جاتا۔ پاکستان میں دکانوں، ہوٹلوں حتیٰ کہ بعض گھروں میں بھی بھارتی کھلاڑیوں اور فنکاروں کی تصاویر لگی ہوئی ہیں۔ بھارتی مسلمان پاکستانی کھلاڑیوں اور فنکاروں کی تصویر صرف اپنے دل میں سجا سکتے ہیں۔ ہوٹل، دکان اور کاروباری مقام پر ہر گز نہیں۔ بنگلہ دیش میں عوامی سطح پر پاکستانیوں کے لئے والہانہ پن موجود ہے۔ حکومتی سطح پر گرم سرد کا انحصار حکمران جماعت پر ہے۔ وہاں بھی پاکستان کی طرح حکومت کے لئے خالدہ ضیاءاور حسینہ واجد کی باری لگی ہے۔ خالدہ ضیاءحکومت میں ہوں تو پاکستان بنگلہ دیش تعلقات میں تنوع اور حسینہ واجد کی حکمرانی میں تناﺅ ہوتا ہے۔71ءکا جانکاہ سانحہ جہاں بہت سے غداروں کو بے نقاب کر گیا، وہیں غلط فہمیوں کی بھی فصل بو گیا جس نے نفرتوں کا روپ دھار لیا۔ بنگلہ دیش اور پاکستان بچھڑے ہوئے دو بھائی اور اسلامی ممالک بھی ہیں۔ دونوں کو کسی بھی معاملے میں ایک دوسرے سے کوئی خطرہ نہیں۔ اب تک تو نفرتیں ختم ہو جانی چاہئیں تھیں لیکن حسینہ واجد غلط فہمیوں کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتی اور دونوں ممالک کے عوام کے درمیان نفرتوں میں اضافے کی کوشش کرتی ہیں۔ مجیب الرحمن کی قیادت میں بنگالیوں کے مختصر گروہ نے اپنی چرب زبانی اور حقائق کو مسخ کرکے بنگالیوں کی سوچ کو یرغمال بنایا اور پاکستان کے ازلی دشمن بھارت کی مدد سے پاکستان کو دو لخت کراکے ایک حصے کی حکمرانی حاصل کر لی۔ پاکستان سے غداری کس نے کی؟ اس نے جس نے بھارت کے ہاتھوں میں کھیلتے ہوئے پاکستان توڑنے میں اپنا بھیانک کردار ادا کیا۔ اس کے باوجود پاکستان سے باعزت رہا ہو کر بنگلہ دیش کا حکمران بن گیا۔ آج بنگلہ آزاد اور خود مختار ملک ہے لیکن حسینہ اپنے باپ کی طرح بھارت کی داسی بنی نظر آتی ہے۔ منموہن کو سونے میں تولا جا رہا ہے۔ سونیا کے کہنے پر یورپی یونین کے ساتھ پاکستان کی تجارت کو ویٹو کیا گیا ہے اور 71 میں پاکستان کے حامیوں پر مقدمات چلائے جا رہے ہیں۔ مجیب الرحمن کو پاک فوج نے نہیں بنگلہ فوج نے قتل کیا۔ پاکستان میں یہ معاملہ ہوتا تو حسینہ کی پاکستان کی مخالفت کا کوئی جواز تھا۔ وہ پاک فوج پر 30 ہزار بنگالیوں کے قتل کا بے بنیاد الزام لگاتی ہیں۔ سات آٹھ ماہ میں اس قدر قتل و غارت ہوئی تو ہر گلی لاشوں سے اَٹی ہوئی تھی، عالمی میڈیا اس کو طشت ازبام کرنے سے کبھی باز نہ رہتا۔ پاک فوج کی 35 ہزار کی نفری کیا صرف اس ایک کام پر لگی تھی؟ حسینہ واجد ان فرضی مقتولین کی قبریں گنوا دے۔ ان کے جھوٹ کا بڑا ثبوت یہ ہے کہ آج نصف صدی ہونے کو ہے کہ مقتولین کی لسٹ ہی نہیں بن پائی۔ وہ اقوام متحدہ کو مقتولین کی لسٹ دیں آج میڈیا بڑا ایڈوانس ہے۔ وہ اقوام متحدہ کی جانچ پڑتال سے قبل ہی دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کر دے گا۔حسینہ واجد کی حکومت کو آج چالیس سال بعد ان لوگوں کی تلاش ہے جو 71 ءمیں پاکستان سے علیحدگی کے مخالف تھے۔ ان میں سے کئی کو گرفتار کرکے ان پر جنگی جرائم کے مقدمات چلائے جا رہے ہیں۔ زیادہ تر ”مجرموں“ کا تعلق جماعت اسلامی سے ہے۔ 89 سالہ غلام اعظم کو گرفتار کرنے کی کوشش ہو رہی ہے۔ طرفہ تماشا ہے۔ ملت کے غدار ملت کے پاسبانوں پر غداری کے مقدمات چلائیں گے۔پاکستان کی تحریک آزادی میں جماعت اسلامی کا کردار قابل تعریف نہیں ہے تاہم 71ءمیں اس نے پاکستان کو ٹوٹنے سے بچانے کے لئے کسی قربانی سے دریغ نہیں کیا جس کی پاداش میں بنگلہ دیش میں اس کے رہنماﺅں اور کارکنوں کو اذیتوں اور مصائب و آلام کا سامنا رہا اور وہ آج بھی زیر عتاب ہیں۔ جماعت اسلامی کا بھارت کو پسندیدہ ملک قرار دینے کے خلاف سٹینڈ بھی اہم ہے۔ پاکستان میں عمران کی تحریک انصاف سمیت ہر قابل ذکر سیاسی جماعت بھارت کے ساتھ تعلقات، تجارت اور دوستی کے گن گا رہی ہے، ایسے میں جماعت اسلامی، جماعت الدعوہ اور دیگر مذہبی جماعتوں کا کردار واقعی مثالی ہے۔ جماعت اسلامی کے ایسے اقدامات سے تحریک آزادی میں ”کردار“ کا کافی حد تک مداوا ہو سکتا ہے۔
No comments:
Post a Comment