دسمبر ,11، 2011
زرداری یاروں کا یار!
فضل حسین اعوان
آصف علی زرداری کے حوالے سے پھیلنے والی یا پھیلائی گئی افواہوں نے عام آدمی کے دماغ کو گھما کے رکھ دیا۔ بندہ کس کی سنے کس کی نہ سنے۔ کس کی بات کو مانے کس کی بات کو رَد کر ے، کچھ سمجھ نہیں آتا تھا۔ وزیر اعظم سمیت اہم حکومتی بزرجمہر ان افواہوں پر شدید ردّ عمل کا اظہار کرتے ہوئے وضاحتیں کرتے رہے لیکن یہ وضاحتیں بھی مزید افواہوں کی شکل دھارتی رہیں۔ افواہ سازوں نے جرمن کے گوئبلز اور یونان کے مسٹر پروپیگنڈہ کو بھی مات دے دی۔ سوال یہ ہے کہ افواہوں کی ابتدا کہاں سے ہوئی؟ ابتداءبلاول بھٹو کے ماموﺅں نے کی۔ کسی نے کہا صدر صاحب کو دل کی معمولی تکلیف ہوئی تھی۔ کوئی گویا ہوا وہ معمول کے چیک اَپ کے لئے گئے ہیں۔ کسی نے گلفشانی کی کہ بچوں کو ملنے گئے ہیں۔ کسی نے انکشاف کیا کہ ان کی انجیوپلاسٹی ہوئی ہے۔ کسی نے بتایا دو دن میں واپس آئیں گے، کوئی بولا ڈاکٹروں کے مشورے کے بعد واپسی ہو گی۔ گویا جتنے ماموں اتنی باتیں۔ ہر کوئی خود کو صدر زرداری کے قریب ترین ہونے کا تاثر دیتے ہوئے خود کو شاہ سے زیادہ شاہ کا وفادار ثابت کر رہا تھا۔
زرداری صاحب کے حوالے سے کچھ بھی کہنے کی ذمہ داری ایوان صدر کے ترجمان فرحت اللہ بابر کی ہونی چاہیے۔ خوابیدہ ترجمان نے پہلے زرداری صاحب کے دبئی روانگی کی تردید کی، پھر تصدیق کر دی۔ حکومتی زعما اور پارٹی اکابرین کے بیانات ایک دوسرے سے متصادم تھے۔ آصف زرداری کے بیان کے بعد اب افواہوں کا گردوغبار اور قیاس آرائیوں کے بادل چھٹنے شروع ہو گئے ہیں لیکن ایک کنفیوژن بدستور ہے کہ صدر صاحب کو ہانگ کانگ سے ایئر ایمبولنس منگوا کر دبئی روانہ کیا گیا تھا یا پاک فضائیہ کے طیارے میں لے جایا گیا تھا۔ گو اس کی کوئی اہمیت نہیں کہ صدر صاحب ایئر ایمبولنس میں گئے یا فضائیہ کے طیارے میں۔ لیکن یہ بھی ایک لاحاصل افواہ تھی۔
اگر صدارتی ترجمان یا وزیر اعظم خود صدر زرداری کی صحت اور دبئی روانگی کے حوالے سے ایک بیان جاری کر دیتے تو کسی کے لئے خوش کن اور کسی لئے مایوس کن افواہوں اور قیاس آرائیوں کی نوبت نہ آتی.... اپنوں کی اڑائی ہوئی دھول اپنوں کے ہی سر میں پڑتے دیکھی تو وہ اینکر اور صحافی بھی میدان میں کود پڑے جن کو خود کے سب سے بڑا باخبر ہونے کا دعویٰ ہے۔ اسی اعزاز کو برقرار رکھنے کے لئے ان سے جو بن پڑا انہوں نے کیا۔ اس کے ساتھ ہی جلتی پر تیل کا کام فارن پالیسی میگزین نے یہ کہہ کر کیا کہ زرداری میموگیٹ سکینڈل پر شدید دباﺅ کے باعث استعفیٰ دے سکتے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی میمو کیس میں صدر زرداری کی طلبی این آر او کیس نظر ثانی کی اپیل کا مسترد ہو نا، بون کانفرنس میں پاکستان کی شرکت اور نیٹو سپلائی کی بحالی کے لئے امریکی دباﺅ، کڑی سے کڑی بن کر قیاس آرائیوں اور تجربوں کی بنیاد کو مضبوط بناتا رہا۔ حکمران حسب سابق اپنی نااہلی، بدنظمی اور بدعملی کو چھپانے کے لئے میڈیا پر برس رہے ہیں۔ اگر انہوں نے محاسبہ کرنا ہے تو ابتدا اپنے گھر سے کی جائے۔
بلاشبہ آصف زرداری پر کرپشن سمیت کئی الزامات ہیں۔ملک میں بحرانوں، مہنگائی، بیروز گاری، لاقانونیت کے حوالے سے بھی بطور حکومتی پارٹی کے سربراہ کے ان کو ذمہ دار ٹھہرایا جاتا ہے۔ ان کے بارے میں بہت سی منفی باتیں ہوتی ہیں۔ اس سب کے باوجود وہ ایک بہادر شخص ہیں۔ انہوں نے جیل جس پامردی سے کاٹی اس پر ہی نظامی صاحب نے انہیں مردِ حُر اور پھر جس طریقے سے 2008ءکے انتخابات کے بعد ق لیگ کے سوا مسلم لیگ ن سمیت تمام سیاسی جماعتوں کو ساتھ لے کر چلے تو مرد راہوار کا خطاب دیا تھا۔ جواب میں انہوں نے جو کچھ کیا بہت کم لوگ جانتے ہیں اور اس کا تعلق کالم کے عنوان نہیں ہے بلکہ برعکس ہے۔ زرداری 1996ءمیں مقدمات کا سامنا کرنے کیلئے لندن سے پاکستان آئے اور سیدھے جیل پہنچا دیئے گئے۔ گو جیل جانا ان کے کرموں کا ہی نتیجہ تھا، وہ واقعی بھاگنے والے نہیں ہیں۔ انہوں نے کہا میرا سب کچھ پاکستان میں ہے۔ پاکستان میں پیدا ہوا، پاکستان میں ہی مروں گا، بھاگنے والا نہیں۔ ”میرا سب کچھ پاکستان میں“ ہے اس کے سوا ان کے دیگر اقوال پر یقین کر لینا چاہیے۔
صدر زرداری یاروں کے یار ہونے کے حوالے سے بھی جانے جاتے ہیں۔ زندگی میں جو ان کے کام آیا، ایماندار تھا یا چور اُچکا، اس کو انہوں نے نوازنے میں کنجوسی نہیں دکھائی، سوائے جناب مطلوب وڑائچ کے جو سوئٹزر لینڈ میں اپنے خرچے پر ان کے کیس لڑتے رہے، وہ چار سال سے کنارے پر بیٹھے ساتھیوں کا گنگا جل میں اشنان دیکھ رہے ہیں۔ شاید زرداری صاحب چاہتے ہیں کہ کم از کم ایک شخص تو ضمانتیں کرانے کے لئے محفوظ رہ جائے۔ عدالت کسی عہدیدار کو سزا یافتہ، کرپٹ یا بدعنوان کے الزام کو فارغ کرتی ہے حکومت ایسا ہی کوئی اور لا بٹھاتی ہے۔ ان میں سے کوئی زرداری کا یار اور کوئی گیلانی کا وفادار ہوتا ہے۔ اب جبکہ حکومت کے چل چلاﺅ کی باتیں ہو رہی ہیں۔ ویسے بھی آئینی مدت ختم ہونے میں سال، سوا سال بچا ہے۔پاکستان نے زرداری پر کسی بھی شخص سے بڑا احسان کیا ہے۔ وہ سب سے بڑے عہدے پر تعینات ہیں، اب ایک سال پاکستان سے یاری اور وفاداری نبھا دیں۔ جیب سے قوم کو کچھ نہ دیں۔ صرف انصاف کے تقاضے پورے کرنے کے لئے اپنا کردار ادا کر دیں تو ملک سے کرپشن نابود بدعنوانی ولاقانونیت مفقود ہو سکتی ہے۔پاکستان صحیح معنوں میں امن خوشحالی کا گہوارہ اور اسلامی و فلاحی ریاست بن سکتا ہے۔
No comments:
Post a Comment