About Me

My photo
Fazal Hussain Awan colomnist Daily NAWAI WAQT awan368@yahoo.com 03334215368

Thursday, December 15, 2011

! معافی غلطی کی ہوتی ہے بدمعاشی کی نہیں

15-12-2011


!معافی غلطی کی ہوتی ہے بدمعاشی کی نہیں
فضل حسین اعوان 
پہلی جنگ عظیم پولینڈ کے شہزادے فرڈی ننڈ کے قتل کے باعث شروع ہوئی جس مےں تین کروڑ انسان زندگی یا زندگی کی رعنائیوں سے محروم ہوگئے۔ غیرت مند قومیں اپنی آزادی، خودمختاری اور سلامتی کے لئے اپنے تمام تر وسائل بروئے کار لانے سے گریز اور دریغ نہیں کرتیں۔ پاکستانی قوم بھی ایک غیرت مند اور خوددار قوم ہے لیکن اس کی تقدیر کے فیصلے ایسے لوگوں کے ہاتھ مےں ہےں جو مال، دولت و دنیا اور زر و جواہر کو ہی اپنی دنیا و عاقبت سمجھ رہے ہےں۔ مشرف دور سے اب تک کے حکمرانوں کی امریکی غلامی پر قوم تلملا رہی ہے، جس کی حکمرانوں کو کوئی پروا نہیں۔ 25 اور 26 نومبر کی شب امریکیوں نے سلالہ چیک پوسٹ پر حملہ کر کے 24 پاکستانی فوجیوں کو شہید کیا تو پاک فوج کی طرف سے اس پر شدید ردعمل کا اظہار کیا گیا۔ فوری طور پر نیٹو سپلائی بند کر دی گئی اور شمسی ایئربیس خالی کرنے کا مطالبہ کیا گیا جو 11 دسمبر کو خالی کر دیا گیا، لیکن یہ سب کافی نہیں ہے۔ نیٹو کو سلالہ چیک پوسٹ پر حملے کی جرات اس لئے ہوئی کہ گذشتہ سال اس نے ایک چیک پوسٹ پر حملہ کر کے دو پاکستانی فوجی شہید کر دیئے تھے جس پر پاکستان کی طرف سے احتجاج ہوا اور نیٹو سپلائی روک دی گئی، پھر جلد معاملات معمول پر آئے اور سپلائی کھل گئی۔ پاک فوج نے جو موقف آج اپنایا وہ اس وقت اپنایا ہوتا تو مہمند مےں یہ سانحہ ہوتا نہ ڈرون حملوں مےں سینکڑوں بے گناہ پاکستانی مرتے۔ گذشتہ سال کا المیہ شاید غلط فہمی کی بنا پر ہوا ہو لیکن 25 نومبر والے حملہ مےں غلطی اور غلط فہمی کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ فوج بار بار کہہ رہی ہے کہ نیٹو کا حملہ ارادی تھی، ڈی جی ملٹری آپریشنز میجر جنرل خورشید ندیم نے کابینہ کے اجلاس اور مسلح افواج کے کمانڈر جنرل خالد شمیم وائیں نے سفیروں کے اجلاس میں پاک فوج کے موقف کا اعادہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ حملہ حادثہ تھا نہ غیر ارادی فعل بلکہ یہ سوچا سمجھا منصوبہ تھا۔ 
پاک فوج کو امریکہ کے ارادی حملے کا اس حد تک یقین ہے تو امریکہ کے ساتھ تعلقات مےں جزوی کیوں؟ مکمل لاتعلقی کیوں نہیں؟.... بعض حلقے تو خون کے بدلے خون کا مطالبہ کر رہے ہےں۔ وہ ممکن نہیں تو کم از کم امریکہ اور اس کی جنگ سے نجات تو حاصل کی جا سکتی ہے۔ معافی غلطی کی ہے بدمعاشی کی نہیں۔ امریکہ تو بدمعاشی پر بھی معافی مانگنے کو تیار نہیں۔ ایک طرف پاک فوج نے سخت موقف اپنا رکھا ہے تو دوسری طرف سیاسی قیادت کی ٹانگیں کانپ رہی ہےں۔ زبان سے نکلی باتیں دل کا ساتھ نہیں دے رہیں۔ وزیر دفاع نے سانحہ کے ایک دو روز بعد کہا تھا کہ امریکہ کی طرف سے معافی مانگنے تک سپلائی بحال نہیں ہوگی۔ میاں نواز شریف کا موقف بھی یہی ہے۔ وزیراعظم گیلانی صاحب نے دو روز قبل فرمایا سپلائی جلد بحال ہونے کا امکان نہیں۔ کل سفیروں کی کانفرنس مےں فرمایا کئی پریشان کن سوال سامنے آئے ہےں جن کا امریکہ اور نیٹو سے مکمل جواب چاہتے ہےں۔ دوسری طرف امریکہ نے پہلے تو معافی مانگنے سے انکار کیا لیکن عسکری قیادت کے سخت موقف کے باعث اب کہا جا رہا ہے کہ سینٹ کام کمیٹی کی تحقیقات کے بعد معافی کا فیصلہ کیا جائے گا۔ ہماری سیاسی قیادت کے رویے مےں لچک کو بھانپتے ہوئے امریکہ سپلائی کی بحالی کےلئے معافی بھی مانگ لے گا‘ کیا ایسے بھیانک اقدام پر معافی دی جا سکتی ہے؟ معافی غلطی کی ہوتی ہے ارادی اقدام کی نہیں۔ ارادی اقدام کی سزا ہوتی ہے۔ سزا کا فیصلہ کرنے کیلئے حملہ کرنے اور کروانے والے پاکستان کے حوالے کئے جائیں۔ افغانستان مےں اتحادی فوجوں کے کمانڈر جنرل ایلن نے کہا ہے کہ مہمند ایجنسی جیسی کارروائی کا اعادہ ہو سکتا ہے۔ گو پاک فوج نے افغان سرحد پر دفاعی سسٹم مضبوط بنا کر وہاں تعینات دستوں کو جارحیت کا جواب دینے کی اجازت دے دی لیکن جنرل ایلن کے بیان سے امریکیوں کی رعونت اور پاکستان کو کمتر سمجھنے کی ذہنیت واضح ہوگئی ہے۔ وزیراعظم گیلانی کا سفیروں کی کانفرنس کے دوران کہنا انتہائی شرمناک ہے ”قومی اور ملکی خودمختاری پر کوئی سمجھوتہ نہیں کریں گے۔ ملکی خودمختاری کی پامالی ہر گز قابل قبول نہیں۔“ کل تک جو ڈرون حملے ہوتے رہے کیا وہ ملکی خودمختاری کی پامالی نہیں تھی۔ حکمران کس منہ سے ڈرون حملوں کی مذمت کرتے رہے! یہ تو اڑتے ہی پاکستان کی حدود سے تھے۔ شمسی ائربیس کی حفاظت کون کرتا تھا؟ تاریخ مےں غداروں کی فہرست بنے گی تو ڈرون حملوں کی اجازت دینے والوں کا نام بھی اس مےں شامل ہوگا۔ ڈرون حملوں مےں تین ہزار کے لگ بھگ لوگ مارے گئے جن مےں 97 فیصد بے گناہ تھے۔ ان کا خون امریکہ کے ساتھ ساتھ ان ذمہ داروں کے سر بھی ہے جو ان کی اجازت دیتے رہے۔ اب عسکری حکام نے فضائی حدود کی خلاف ورزی کرنے والے ہر قسم کے طیارے کو مار گرانے کا حکم دے دیا ہے۔ ضرورت ان احکامات پر کاربند رہنے کی بھی ہے۔ اب کوئی مصلحت کوئی لالچ آڑے نہ آئے۔ اس کے ساتھ آج امریکہ کی جنگ سے نکلنے کا بہترین موقع ہے۔ افغان جنگ کے حوالے سے امریکہ اور نیٹو کو دی گئی تمام سہولتیں اور تعاون واپس لے لینا چاہئے۔



No comments:

Post a Comment