About Me

My photo
Fazal Hussain Awan colomnist Daily NAWAI WAQT awan368@yahoo.com 03334215368

Friday, December 16, 2011

سقوط ِ مشرقی پاکستان کا انتقام باقی ہے

جمعۃالمبارک ، 16 دسمبر ، 2011

سقوط ِ مشرقی پاکستان کا انتقام باقی ہے
فضل حسین اعوان 
سقوطِ مشرقی پاکستان 16 دسمبر 1971ءکا سیاہ دن تاریخ میں ہماری ذلت کی داستان کے طور پر رقم ہوچکا ہے۔ اس دور میں زمامِ اقتدار فوج کے سپرد تھی۔ شرابی کبابی جرنیل اعظم نے اُمہ کے ماتھے پر ایسا بدنما داغ لگا دیا جو قیامت تک دھل سکتا ہے نہ مٹ سکتا ہے۔ کچھ جاگیرداروں کے اپنی جاگیروں سے محرومی کے خدشے اور اقتدار کے رسیا سیاستدانوں کی مشرقی بنگال میں لگائی ہوئی آگ یحییٰ خان اور اسکے حواریوں نے پٹرول سے بجھانے کی کوشش میں مزید بھڑکا دی جس سے وطن عزیز کا آدھا حصہ خاکستر ہوگیا۔ 1971ءمیں جرنیلوں کے ہاتھوں پاکستانی قوم اور اسلامی تاریخ کے ساتھ جو کچھ ہوا اس کی ذلت کے سائے، دلدوز یادیں، درد اور کرب بدستور موجود ہے۔ اس روز قائداعظم کا خون جگر و دل دیکر بنایا ہوا پاکستان دولخت ہو گیا، 90 ہزار فوجی ازلی و ابدی دشمن کی قید میں چلے گئے۔شکست کھیل اور الیکشن کا لازمی جزو ہے۔ جنگ میں شکست کا تصور نہیں، جنگ صرف اور صرف فتح و نصرت کے لئے لڑی جاتی ہے طارق بن زیاد نے کشتیاں جلا کر درس دیا جنگ کا انجام فتح یا موت ہے، اس کے سوا کوئی آپشن نہیں۔ شکست کی ذلت سے عزت و غیرت کی موت کہیں بہتر ہے۔ ہمیں اسلامی تاریخ کے سقوط یاد دلاتے اور باور کراتے ہیں کہ شکست تسلیم کرنے والوں کا انجام ہمیشہ دردناک اور عبرت ناک ہوا۔10 فروری 1258ء میں منگول سردار ہلاکو نے حملہ کرکے بغداد کو فتح کیا۔ شہر کو آگ لگا دی لاکھوں مسلمانوں کو بے دردی سے موت کے گھاٹ اتار دیا۔ خون مسلم سے دریائے دجلہ کا پانی سرخ ہو گیا۔ ہلاکو کے سامنے آخری عباسی خلیفہ المستعصم بااللہ کو پیش کیا گیا۔ خلیفہ فاقے سے تھا ہلاکو نے اس کے سامنے ہیرے جواہرات اور سونے کے زیورات پلیٹ میں رکھ کر کھانے کیلئے پیش کئے۔ خلیفہ نے کہا یہ میں کیسے کھا سکتا ہوں؟ ہلاکو نے طیش میں آکر کہاتو ان کو اکٹھا کرنے کے بجائے دشمن کے ساتھ لڑنے کا انتظام کیوں نہ کیا، ایسا کیا ہوتا تو آج یوں بے بس نہ ہوتا… اس کے ساتھ ہی اسے قالین میں لپیٹ کر زمین پر پھنکوایا اور اوپر سے گھوڑے دوڑا دئیے۔
2 جنوری 1492ءاسلامی تاریخ کا ایک اور شرمناک اور عبرت انگیز دن ہے۔ اس دن اَندلُس میں مسلمانوں کے 8 سو سالہ اقتدار کا سورج غروب ہوگیا۔ یہ دن مسلمانوں پر بھاری تھا۔ یہ سقوط اَندلُس کی پہلی شام تھی جو مسلمانوں کیلئے طویل ترین تاریک رات کا آغاز ثابت ہوئی۔ اس کی تاریکی اب تک نہیں چَھٹ سکی۔ اس شام پہلی بار مسجدوں سے مغرب کی اذان سنائی نہیں دی۔ اس کے بجائے ہر طرف مسلمانوں کی چیخ پکار سنائی دیتی تھی۔ بے لباس خواتین عزتیں بچانے کیلئے بھاگ رہی تھیں لیکن کہاں جاتیں، بے غیرتی کی انتہا کہ غرناطہ کے حکمران ابو عبداللہ بابِ دل معاہدے کے تحت شہر کی چابیاں ملکہ ازابیلا اور شہنشاہ فرڈی ننڈس کو پیش کرنے کی تیاریوں میں مصروف تھے۔ اپنی ذلالت و زذالت کا اہتمام بڑی شان و شوکت سے کیا جا رہا تھا۔ اس تقریب میں شرکت کیلئے ابو عبداللہ اور شاہی خاندان کے دیگر افراد اور امرا زرق برق لباس زیب تن کئے ہوئے تھے۔ ان کے زرہ بکتر سونے چاندی کی لڑیوں سے چمک دمک رہے تھے۔ پھر ہمارے سامنے سقوط مشرقی پاکستان کی حقیقت ہے جس نے اسلامی تاریخ کو گہنا دیا۔ غرناطہ کی چابیاں ابو عبداللہ نے دشمن کے حوالے کیں تو اس کے ہم نام امیر عبداللہ نے دنیا کی سب سے بڑی اسلامی ریاست کا آدھا حصہ ہندوستان کے حوالے کر دیا۔ وہی ہندوستان جو مسلمانوں کا ہزار سال غلام رہا تھا۔ ہمارے امیر عبد اللہ ملی بے حمیتی اور اخلاقی پستی میں ابو عبداللہ سے بھی چند قدم آگے نکل گئے۔ کلف لگی وردی اور سبزکلغی میں اروڑہ کا استقبال کرنے ائر پورٹ گئے۔ اجیت سنگھ اروڑہ کے سامنے بڑے تفاخر سے سرنڈر کیا۔ اس سے قبل دستاویزات کی تیاری کیلئے اروڑہ کا نمائندہ آیا تو اس کو فحش لطیفے سناتے اور خوش گپیاں کرتے رہے۔ ابو عبداللہ کے تو سقوط غرناطہ کے بعد آنسو بہہ نکلے تھے جنرل امیر عبداللہ نیازی کو پوری زندگی اُمہ کی عزت و آبرو مکار دشمن کے سامنے گروی رکھنے کا افسوس نہ ہوا بلکہ کہتے رہے 90 ہزار فوجیوں کو زندہ سلامت نکال لایا ہوں۔ جنرل نیازی بھارتی جنرل کو اپنا پستول پیش کر رہے تھے تو ایک بنگالی نے ان کے سر پر جوتے مارتے ہوئے کہا اگر تم میں غیرت ہوتی تو مر جاتے، اپنے دشمن کے سامنے ہتھیار نہ پھینکتے۔ کاش یہ بنگالی جنرل نیازی کو گولی مار دیتا، جنرل نیازی ہتھیار پھینکنے کا جواز یہ پیش کیا کرتے تھے کہ ”حاکم وقت کا حکم تھا اسلام میں امیر کی اطاعت واجب ہے تاریخ میں امیر کی حکم عدولی کی مثال نہیں ملتی۔“ بات غیرت کی ہے۔ ان میں غیرت ہوتی تو تاریخ مثالوں سے بھری پڑی ہے۔ 
جنرل انامی کورے چیکا جاپان کا وزیر جنگ تھا جس نے امریکہ کے سامنے سرنڈر کی بھرپور مخالفت کی۔ امریکہ نے جاپان کو ایک اور ایٹم بم چلانے کی دھمکی دے رکھی تھی، بادشاہ نے جرنیلوں کی جنگ جاری رکھنے کی تجویز سے اتفاق نہ کیا اور اپنے طور پر جنگ کے خاتمے کا اعلان کر دیا۔ جنرل کورے چیکا کو اس کے ہم خیالوں نے جنگ کے خلاف ووٹ دینے یا مستعفی ہونے کا مشورہ دیا، اس سے انامی کورے چیکا نے اتفاق نہ کیا۔ اس نے اپنے کزن سے اس موقع پر کہا ”ایک جاپانی سپاہی ہونے کے ناطے شہنشاہ کی اطاعت مجھ پر واجب ہے“.... 14 اگست 1945ءکو انامی کورے چیکا نے کابینہ کے اجلاس میں سرنڈر کی دستاویزات پر دستخط کر دیے۔ ایسا موقع جنرل نیازی پر بھی آیا لیکن جو کچھ اس کے بعد انامی نے کیا نیازی وہ نہ کر سکا۔ سرنڈر کی دستاویزات پر دستخط کرنے کے اگلے روز جنرل انامی نے خودکشی کر لی۔ جنرل انامی کورے چیکا نے اپنے لئے باوقار موت کا انتخاب کیا۔ کاش جنرل نیازی ذلت کی زندگی پر عزت کی موت کو ترجیح دیتے۔”جو ہوا سو ہوا“ یہ کہہ کر ہم 71ءکے سانحہ کو بھول نہیں سکتے۔ اس سے سبق حاصل کرتے ہوئے ہندو بنئے سے انتقام بھی ہم پر فرضِ عین کی حقیقت رکھتا ہے۔ اُس وقت ہماری پالیسیوں اور بے بصیرتی نے بنگالیوں کو ہم سے متنفر کیا اور اپنی مکتی باہنی کے ذریعے بنگلہ دیش بنایا۔ آج ہم امریکی جنگ میں کود کر قبائلیوں کو ناراض کر رہے ہیں۔ ایک طرف امریکہ ہمارا اتحادی دوسری طرف بلوچستان میں اسکا کردار مکتی باہنی جیسا ہے۔ 24 پاکستانیوں کی شہادت سے عسکری قیادت نے قومی امنگوں کی ترجمانی کرتے ہوئے سخت موقف اپنایا، اسی پر قائم رہنے کی ضرورت ہے۔ امریکہ سے شمسی ائربیس خالی کرا لیا گیا، باقی تنصیبات سے بھی اسکو لاتعلق کر دیا جائے۔ سیاسی و عسکری قیادت کے امریکہ کے سامنے ڈٹ جانے کے بعد جہاں ڈرون حملے بند ہوئے وہیں عسکریت پسندوں کی کارروائیاں بھی رک گئی ہیں۔ بنگالی تو فوج کی بات سُنتے تھے نہ انتظامیہ کی۔ عسکریت پسند خود مذاکرات کی میز پر آنا چاہتے ہیں۔ آج انکو اعتماد میں لینے اور امریکہ سے جان چھڑانے کا بہترین موقع ہے جو کسی لالچ، دھونس اور دباﺅ کے باعث ضائع نہیں ہونا چاہئے۔ ہمارا اصلی، ازلی و ابدی دشمن بھارت ہے جو مشرقی پاکستان کی طرح پاکستان میں ایک اور سقوط کیلئے سرگرم ہے۔ نہ صرف اسکی ریشہ دوانیوں اور سازشوں سے بچنا ہے بلکہ اس سے کشمیر کو آزاد کرانا، سیاچن کا قبضہ چھڑانا اور پاکستان کا ایک بازو کاٹ ڈالنے کا انتقام بھی لینا ہے۔ یہ ناممکن نہیں، قوم کو صالح قیادت مل جائے تو سب ممکن ہے۔

No comments:

Post a Comment