About Me

My photo
Fazal Hussain Awan colomnist Daily NAWAI WAQT awan368@yahoo.com 03334215368

Monday, December 5, 2011

جھوٹ میں بھی عروج

4 دسمبر ، 2011

جھوٹ میں بھی عروج
فضل حسین اعوان ـ 
امریکہ آج دنیا کی واحد سپرپاور ہے‘ جدت‘ ترقی اور حتٰی کہ بدمعاشی میں بھی اس کا کوئی ثانی نہیں ہے۔ جھوٹ فریب ‘ اور مکاری میں بھی کوئی ملک اس کا ہمسر نہیں ہے۔ گوئبلز کے مطابق اتنا زیادہ جھوٹ بولو کہ سچ کا گمان ہونے لگے۔ آج نہ صرف امریکہ پورے شدومد کےساتھ گوئبلز کے فارمولے پر عمل پیرا ہے بلکہ جھوٹ پہ جھوٹ پے در پے جھوٹ بول کر سیاہ کو سفید اور سفید کو سیاہ کر دکھانے میں امریکی میڈیا بھی اپنی سرکار سے پیچھے نہیں۔ پاکستان کے حوالے سے تو آج جھوٹ کے طوفان اٹھائے جا رہے ہیں۔ تازہ ترین ”مہم جوئی“ وال سٹریٹ جرنل نے یہ کہہ کر کی ہے کہ ”نیٹو حملہ سے قبل پاکستانی حکام کو آگاہ کر دیا تھا‘ پاکستانی حکام سلالہ چیک پوسٹوں پر اپنی فورسز کی موجودگی سے بے خبر تھے۔“ پاک فوج کا موقف قطعی درست ہے‘ یہ حملہ ارادی طور پر کیا گیا.... کیوں کیا گیا؟ یہ ایک اور راز معمہ تھا جس سے جنرل اسلم بیگ نے پردہ اٹھا دیا ہے‘ وہ کہتے ہیں: 
” 25/26 نومبر کی درمیانی رات سلالہ کے مقام پر واقع پاکستانی چوکی پر متعین فوجیوں نے پاکستان تحریک طالبان ولی الرحمن اور فضل اللہ گروپ کے پچاس کے لگ بھگ ایسے عسکریوں کو گھیرے میں لے لیا تھا جو پاکستان دشمن کارروائیوں میں مصروف تھے۔نیٹو اور امریکی طیارے انہیں چھڑانے کیلئے تیزی سے حرکت میں آئے اوردوپاکستانی چوکیوں کو بمباری کا نشانہ بنایا۔اس پر سلالہ چوکی پر متعین کمانڈر نے ایساف سے رابطہ کیا اور انہیں بتایا کہ انکے طیارے پاکستانی چوکی کو نشانہ بنا رہے ہیںاور یہ حملہ فوری طور پر بند کیا جائے لیکن ان کا پیغام نظر انداز کر دیا گیا اور دو گھنٹے تک یہ حملہ جاری رہا‘جب تک کہ عسکریت پسندوں کو رہا کراکے افغانی علاقے میں پہنچا نہ دیا گیا“۔ 
کیسی سنگ دلی ہے‘ امریکہ اس پاکستانی فوج کو مار رہا ہے‘ جو امریکہ کی جنگ لڑتے ہوئے اسکے دشمنوں کو اپنا دشمن سمجھ کر مار رہی ہے اور پھر امریکی بدمعاشی کہ اپنے جارحانہ اور بہیمانہ اقدام کی مذمت‘ نہ معافی۔ ریمنڈ ڈیوس کے معاملے میں بھی کھلا جھوٹ بولا گیا‘ وہ بھی اعلیٰ سطح تک۔ صدر اوباما نے ریمنڈ کی گرفتاری پر اسے سفارتکار قرار دیکر پوری دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی کوشش کی‘ بعدازاں اسی ریمنڈ کو امریکی میڈا نے سی آئی اے کا اہم عہدیدار قرار دیا تھا۔ ابھی چند روز قبل کی بات ہے کہ پینٹاگون نے بڑی ڈھٹائی سے کہا تھا کہ شمسی ایئربیس پر کوئی امریکی موجود نہیں۔ اسکے ساتھ ساتھ امریکہ کی طرف شمسی ایئربیس خالی نہ کرنے کیلئے پوری دنیا سے پاکستان پر دباﺅ ڈلوایا جا رہا ہے۔ امریکی وعدہ خلافیاں پاکستانی کبھی نہیں بھول سکتے۔ 1962ءمیں رن آف کچھ میں ہندوستان کے ساتھ سرحدی جھڑپ ہونے سے امریکہ نے پاکستان کا ساتھ دینے سے انکار کر دیا۔ جب 1965ءمیں پاکستان نے بھارت کی جارحیت کیخلاف معاہدے کی پابندی کرنے کی بات کی تو الٹا امریکہ نے ہمیں اس جنگ کو شروع کرنے کا ذمہ دار قرار دیا اور پاکستان کی معاشی اور فوجی امداد بند کردی۔ 71ءمیں پاکستان کی مدد کیلئے بھیجا جانےوالا بحری بیڑہ کبھی پاکستان کے ساحلوں کے قریب نہ پہنچ سکا۔ اپنے مذموم اقدام پر ڈھٹائی اور معافی نہ مانگنے کی ہٹ دھرمی امریکیوں کا وتیرہ رہا ہے۔ وہ ذیل کے واقعہ سے مزید نمایاں ہوتا ہے۔ پشاور ایئربیس سے امریکی پروازیں روسی فضا میں داخل ہو کر اپنا کام کرتی رہیں‘ پھر یکم مئی 1960ءکو امریکی یوٹو روس نے گرا لیا لیکن اسکی خبر جاری نہ کی۔ 4 مئی کو جاسوسی طیارہ مار گرانے کا اعلان کیا تو امریکہ نے کہا‘ اسکا ترکی سے اڑنے والا موسمی طیارہ لاپتہ ہوا ہے۔ پائلٹ نے آخری بار آکسیجن کا مسئلہ درپیش آنے کی کال کی تھی۔ ہو سکتا ہے وہی طیارہ راستہ بھٹک کر روس کی حدود میں جا گرا ہو۔ اسکے ساتھ اسی قسم کے ایک جہاز کو ناسا کا رنگ و روغن کرکے اور مونو لگا کر میڈیا کو دکھا دیا گیا۔ 7 مئی کو امریکیوں کے جھوٹ کا بھانڈا اس وقت پھوٹ گیا‘ جب روسی وزیراعظم خروشیف نے کہا کہ پائلٹ کو زندہ پکڑ لیا گیا ہے اور وہ صحت مند و تندرست ہے۔ اس سے روسی کرنسی 7500 روبل‘ خواتین کے زیورات اور اسلحہ ملا ہے جبکہ جہاز کے اندر سے جاسوسی کیمرے اور حساس مقامات کی تصاویر بھی برآمد ہوئی ہیں۔ اس سب کے باوجود بھی آئزن ہاور نے معافی مانگنے سے انکار کیا جس کے باعث خروشیف پیرس میں ایسٹ ویسٹ سمٹ ادھوری چھوڑ کر چلے آئے۔ آج پاکستان کو بھی ان حالات کا سامنا ہے جیسا یوٹو گرانے پر روس کو تھا۔ امریکہ اب پاکستان سے معافی مانگنے پر تیار نہیں ہے۔ ایسے میں بون کانفرنس میں شرکت نہ کرنے کا فیصلہ بروقت اور احسن ہے۔ امریکہ اور اسکے میڈیا سے خبردار رہنے کی ضرورت ہے۔ وہ پاک فوج میں انتشار پھیلانا چاہتا ہے جو اسکے مذموم مقاصد کی راہ میں رکاوٹ بن کر کھڑی ہے۔ پاک فوج اور محب وطن حلقوں کو امریکی کارستانیوں پر کڑی نظر رکھنا ہو گی اور اسکی ہر جارحیت کا منہ توڑ جواب دینا ہو گا‘ اسی طرح اس جھوٹے جمہوریت کے علمبردار‘ عیار اور دوست نما دشمن سے محفوظ رہا جا سکے گا۔



No comments:

Post a Comment