جمعرات ، 01 دسمبر ، 2011
وقتی ابال!
فضل حسین اعوان ـ
نیٹو ہیلی کاپٹروں کی بمباری سے پاکستان فوج کے 28سپوتوں کی شہادت کے بعد پوری قوم مشتعل ہے، دلوں میں امریکہ کے خلاف نفرت کے جذبات کا لاوا زبان سے اظہار کی صورت میں اُبل رہا ہے۔ اس موقع پر حکمران قومی جذبات کی بھرپور ترجمانی کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ ان کے تلاطم خیز بیانات اور جنون آمیز اعلانات سے لگتا ہے کہ نیٹو کے اس بدمعاشی کے اقدام وہ دکھی غمزدہ مضطرب اور شدید غصے میں ہیں جس پر پوری قوم ان کے دل کی بات کرنے والے حکمرانوں کی پشت پر متحد ہو کر کھڑی ہے۔ خدا کرے ایسا ہی ہو۔ مثل مشہور ہے گھر میں پیدا ہونے والوں کے دانت گننے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ ہمارے حکمرانوں نے امریکی اقدام کے خلاف جو طوفان اٹھایا ہوا ہے۔ اس کی حیثیت منافقت، دھوکے اور فریب سے زیادہ کچھ نہیں۔ ان کے جوش و خروش سے لبریز بیانات اور اعلانات کڑھی سا ابال اور پیالی میں طوفان سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتے۔ اگر ان کی زبان دل کا ساتھ دے رہی ہوتی تو اس کارروائی پر جس پر امریکہ معافی مانگنے پر بھی تیار نہیں، امریکی سفارتخانہ بند، سفیر ملک بدر کیا جا چکا ہوتا۔ اسلام آباد میں قائم سی۔ آئی۔ اے کا دنیا میں سب سے بڑا سٹیشن بند کر دیا جاتا۔ کوئی فوج کو مطمئن رکھنے کے لئے امریکہ سے دوری کا راگ الاپ رہا ہے تو کوئی عوام کے غضب سے بچنے کے لئے شمسی ایئر بیس خالی کرانے کی بین بجا رہا ہے۔
نیٹو کی فوجی چوکی پر ایک ہی وقت میں بمباری سے 50 فوجی خاک اور خون میں مل گئے۔ اس کے ذمہ دار ہم خود بھی ہیں۔آج پاکستان مہنگائی، بیروزگاری، بدامنی، لاقانونیت، رشوت ستانی، اقربا پروری جیسی بیماریوں میں مبتلا ہے۔ قیام پاکستان کے بعد پہلے قاتل، پہلے راشی، پہلے ڈاکو، چور، رہزن، پہلے رشوت خور اور پہلے ریپ کے ملزم کو سزا مل جاتی تو آج پاکستان بحرانوں کا شکار نہ ہوتا۔ پہلے فوجی باغی کو لٹکا دیا جاتا تو قوم مزید تین فوجی بغاوتوں سے بچ جاتی۔ نیٹو بمباری سے کل شہید ہونے والے فوجیوں سے قبل ایسے ہی واقعات میں 50 اہلکار جام شہادت نوش کر چکے ہیں۔ زخمیوں کی تعداد 100 سے زائد ہے۔ عسکری قیادت آج جس شدید ردّ عمل کا اظہار کر رہی ہے نیٹو حملوں میں پہلے فوجی کی شہادت پر اس رویے کا اظہار کیا جاتا تو دوسرے فوجی کی شہادت کی نوبت نہ آتی۔ ڈرون حملوں کے خلاف میڈیا گلا پھاڑ پھاڑ کر چلاتا رہا ہے۔ بڑی کارروائی کی صورت میں قوم بھی وقتاً فوقتاً میڈیا کی آواز میں آواز ملا دیتی ہے۔ کسی سیاسی جماعت نے کبھی دھرنا دیدیا تو کسی نے مذمتی بیان۔ سیاسی اور عسکری قیادت کے بیانات آئندہ ایسے حملے برداشت نہیں کریں گے، مذاق بن کر رہ گئے۔ یہ بیانات حکمرانوں کی زبان سے مکمل طور پر ادا بھی نہیں ہوتے کہ نیا حملہ ہو جاتا ہے۔ اگر پاکستانیوں کو ہٹ کرنے والا پہلا ڈرون مار گرایا جاتا تو کیا دوسرا اسی مقصد کے لئے مادر وطن کی حدود میں داخل ہو جاتا؟ لیکن یہاں معاملہ ہی کچھ اور ہے۔ امریکہ بار بار کہہ چکا ہے کہ ڈرون حملے پاکستانی حکام کی مرضی سے ہوتے ہیں۔ اس میں شک کی بھی گنجائش نہیں۔ ڈرون تواڑتے ہی ہماری حدود سے ہیں۔ آج ایک سابق سی آئی اے عہدیدار نے کہہ دیا ہے کہ شمسی ایئر بیس خالی بھی کر دیا گیا تو بھی ڈرون حملے جاری رہیں گے۔ قوم نے ایسے حکمرانوں سے امیدیں باندھ لی ہیں کہ امریکہ کے سامنے سر اٹھا کر بات کریں گے۔ یہ مشکل نہیں، ناممکن ہے۔ امریکہ کے نمک خوار اس سے بے وفائی نہیں کر سکتے۔ یہ کل بھی امریکہ کے کاسہ لیس تھے، آج بھی ہیں۔ زبان امریکہ کے خلاف عوام اور فوج کو تسلی دینے کے لئے شعلے اگل رہی ہے، دل امریکہ کی الفت سے لبریز ہے، خوابیدہ قوم 28 فوجیوں کی شہادت پر انگڑائی لے کر اٹھی اور امریکہ کے خلاف طوفان برپا کر دیا۔ ڈرون کیا پھول برساتے ہیں؟ ڈرون حملوں میں تین ہزار پاکستانی شہید ہوئے۔ کیا وہ کاغذ کے انسان تھے؟ ان کے والدین، بچے اور عزیز رشتہ دار نہیں تھے، جرنیل اور سیاست دان سویلین کی شہادتوں پر جوش میں کیوں نہیں آتے۔ قوم نے بھی شدید ردّ عمل کا اظہار کیوں نہیں کیا؟ چلو قوم اب جاگی ہے تو نہ خود سوئے اور نہ جرنیلوں اور سیاستدانوں کو سونے دے۔ حکمران پھر سے عوام کی خوابیدگی کے منتظر ہیں۔ یہ پھر امریکہ کے چرنوں میں بیٹھنے کے لئے بے قرار ہیں۔ امریکہ نے پاکستان کو فرنٹ لائن اتحادی قرار دیا اور اس پر ستم بھی ڈھائے۔ پاکستان کو امریکہ کی جنگ کو لات مارنے کا کئی بار جواز ملا لیکن حکمرانوں کی طولِ اقتدار کی خواہش اور ڈالروںپر فریفتگی آڑے آئی اور دونوں آرزﺅں کی بدستور تشنگی برقرار ہے۔ امریکہ جو کچھ کر رہا ہے اس کا اصولی جواب تو اینٹ کا جواب پتھر نہیں تو اینٹ تو ہونا چاہیے۔ علامہ نے شاید ایسے ہی مواقع کے لئے کہا تھا: لڑا دے ممولے کوشہباز سے اور مومن ہے تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی۔ ہم چونکہ کمزور ایمان واقع ہوئے ہیں اس لئے حکمرانوں کو ممولے کو شہباز سے لڑانے کا کوئی مشورہ نہیں دیتا۔ کشتی کو طوفان میں اتارنے کے لئے کوئی نہیں کہتا۔ تاہم خود کو امریکہ کی جنگ سے الگ تو کیا جا سکتا ہے۔ امریکی حکام کئی مرتبہ امداد کی بندش کی دھمکی دے چکے ہیں۔ ہمارے حکمران کہہ دیں کہ آپ اپنی امداد پاس رکھیں، ہمیں معاف کر دیں۔ ہم تمہاری جنگ سے تائب ہوئے اور باز آئے۔ آپ اس کی امداد کو ٹھکرادیں گے تو وہ بھی آپ کو اپنی غلامی پر آمادہ کرنے کی کوشش نہیں کریگا۔ذرا یہ کرکے تو دیکھیں۔
No comments:
Post a Comment