پرانا صدر ، نیا صدر
کل کے بادشاہ پر ویز مشرف آج جیل میں اور انکے قیدی نواز شریف تخت نشیں ہیں۔ یہ مکافاتِ عمل ہے یا تاریخ خود کو دُہرا رہی ہے،البتہ یہ اہل سیاست اور ریاست کیلئے مقامِ عبرت ضرورہے۔ بعینہ صدر آصف علی زرداری آج اسی مقام پر کھڑے ہیں جہاں 2008ءکے انتخابات کے بعد صدر جنرل (ر) پرویز مشرف بے چارگی کی تصویر بنے ہوئے تھے۔ اُن انتخابات کے ساتھ ہی مسلم لیگ ق کے سینیٹرزاور ارکانِ اسمبلی آندھی میں ہاتھ سے چھوٹے ہوئے کرنسی نوٹوں کی طرح ایسے بکھرے کہ قیادت سمیٹنے کی کوشش میں دیوانہ ہو رہی تھی۔ زرداری صاحب نے مشرف کی تنہائی کو بھانپتے ہوئے جنرل (ر) اسد درانی کے ذریعے انکو جون میں صدارت سے الگ ہونے کا پیغام دیا۔ انکار پر مواخذہ کی دھمکی دی اور کارروائی شروع کردی۔مشرف کی زخم خوردہ ن لیگ اس موقع پر مدعی سے زیادہ چست نظر آئی۔ مشرف مواخذے کی دھمکی پر بڑا تلملائے لیکن نواز زرداری اتحاد کے سامنے سرنڈر کرتے ہی بنی ۔ آج آ صف علی زرداری کی پوزیشن مشرف کے اگست 2008ءکے مقابلے میں کہیں نازک ہے۔جہاں میں اپنے جیسے قارئین کو بتانا چاہتا ہوں کی صدر کو عہدے سے ہٹانے کے عمل کو مواخذہ Impeachment اور وزیراعظم کیخلاف اسی عمل کو عدم اعتمادNo Confidence کہتے ہیں۔ 18 اگست2008ءکو مشرف کے استعفے کے بعد آصف زرداری کا 6 ستمبر کو انتخاب ہو ا مقابلے میں ن لیگ کے سعیدالزمان صدیقی اور ق لیگ کے مشاہد حسین سید تھے۔ ق لیگ کے امید وار کو 44 ووٹ ملے حالانکہ ان کی صرف قومی اسمبلی میں 54اور سینٹ میں38 نشستیں تھیں۔ زرداری صاحب کو 702 الیکٹوریل ووٹوں میں سے481 ملے۔ صدر کیلئے حلقہ انتخاب ایوان بالاوزیریں اور چاروں صوبائی اسمبلیاں ہیں۔ ارکان سینٹ قومی اسمبلی اور بلوچستان اسمبلی کے ممبران کا ایک ایک ووٹ جبکہ دیگر اسمبلیوں کے بلوستان اسمبلی کے برابر 65,65ووٹ ہیں۔ صدر کو اس میں سادہ اکثریت کی ضرورت ہوتی ہے ۔زرداری صاحب نے481 ووٹ حاصل کئے تھے۔لیکن اب انکی مشرف کی طرح ہی لُٹیا ڈوب چکی ہے۔ انکی مدت صدارت اسی سال چھ ستمبر کو ختم ہورہی ہے۔ ن لیگ جب چاہے ان کا مواخذہ کر سکتی ہے۔ اب زرداری کی صدارت مکمل طور پر ن لیگ کے رحم وکرم پرہے۔انتخاب کیلئے تو چاروں صوبائی اسمبلیاں صدر کے انتخابی کالج میں شامل ہیں‘ مواخذہ کیلئے ان کو تکلیف نہیں دی جاتی۔ مواخذہ قومی اسمبلی اور سینٹ کے مشترکہ اجلاس میں دو تہائی اکثریت سے کیا جاتا ہے جس کیلئے ایوان مکمل ہوں(قومی اسمبلی342جمع سینٹ 104 کل 446میں سے)298ووٹ درکا رہیں۔ سپیکراور ڈپٹی کیلئے ن لیگ کے امیدواروں ایاز صادق اورمرتضیٰ جاوید کو258 ، 258 ووٹ ملے۔15 ارکان نے اگلے دن حلف اُٹھایا اور ابھی کئی10 نشستوں پر انتخاب ہونا باقی ہے۔میاں نواز شریف کو244 ارکان کے اعتماد کا ووٹ ملا۔جاوید ہاشمی کو 31ووٹ ملے۔ سینٹ میں پیپلز پارٹی کو 41 نشستوں کے ساتھ اکثریت حاصل ہے جو ق لیگ کیطرح اقلیت میں تیزی سے بدل رہی ہے۔ سینٹ میں ن لیگ کی 14اور اس ساتھ چلنے والی پارٹیوں جے یو آئی ف ،فاٹا ،اے این پی اور آزاد ملا کر تعداد 45بن جاتی ہے۔مواخذے کی صورت میں پی ٹی آئی ن لیگ کا ساتھ دیگی یوں سکور مطلوبہ تعداد سے بڑھ جاتاہے ۔ سینٹ میں قائد ایوان فاروق ایچ نائک اور گورنربلوچستان ذوالفقار مگسی نے اصولی فیصلہ کرتے ہوئے اپنے عہدے چھوڑ دیئے۔ زرداری صاحب جب تک ممکن ہے استثنیٰ کی چھتری کا سایہ سر پر رکھنا چاہتے ہیں، ان سے مستعفی ہونے کی امید نہیں، اس کا وہ پُرزور طریقے سے اظہار بھی کرچکے ہیں۔کچھ لوگ کہتے ہیں کہ میاں نواز شریف رواداری میں ان کو صدراتی مدت پوری کرنے دینگے۔ اگر زرداری صاحب کو ن لیگ نے مواخذے کی پوزیشن میں ہونے کے باوجود مدت پوری کرنے دی تو یہ رواداری نہیں‘قومی جرم کے مترادف ہوگا۔ میاں نواز شرف، انکی جماعت خصوصی طور پرچھوٹا شیر، آصف زرداری پر بدترین کرپشن کے الزام لگاتے ہوئے انکے پیٹ سے قومی خزانے کی لوٹی ہوئی پائی پائی نکلوانے کے دعوے کرتے اور نعرے لگاتے رہے ہیں۔ ان کو لاہور کے بھاٹی گیٹ میں گھسیٹنے کی بات بھی کی گئی تھی ۔کسی کو کہیں بھی گھسیٹنا غیر آئینی، غیر قانونی اور غیر اخلاقی ہے البتہ مواخذہ آئین اور قانون کے عین مطابق ہے۔کسی کی ہمالہ جیسی کرپشن سے صرفِ نظر کرنا کیاکرپشن کے فروغ سے کم ہے؟مواخذہ ہونے یا نہ ہونے کی صورت میں جلد یا بدیر نواز لیگ اپنا صدر لائے گی ،اس کیلئے ابھی سے لابنگ شروع ہے۔ ن لیگ سے تعلق رکھنے والے آدھے سے زیادہ ارکان اسمبلی اپنے اباجی کو اس عہدے کیلئے موزوں سمجھتے ہیں۔ جلسوں اور تقریبات میں 80 سے 95سال کے اکابرین بھی شریف زادوں کے گرد گھومتے ہوئے تاثر دینے کی کوشش کرتے ہیں کہ صدر بننے کا ان سے زیادہ کوئی اوراہل و حقدار نہیں۔میاں نواز شریف شیر ہیں، شیر ہیں! نوازشات کے وقت بے وفاﺅں کیلئے انکے اندر جمل کی خصوصی حس اکمل ہوجاتی ہے۔ بعض کو سرتاج عزیز کے آنگن میں صدارت کا چاند اترتا دکھائی دیتا ہے ۔انہوں کتاب"Between Dreams and Realities" لکھ کر اپنا آنگن بے نور کرلیا۔ سابق صدر کے دوبارہ اس عہدے پر تعیناتی کا امکان ظاہر کیا جارہا ہے۔ نواز شریف کووزیر اعظم ہاﺅس سے ذلت و رسوائی سے نکالے جانے کے اگلے لمحے انکے صدر ایوان صدر چھوڑ دیتے تو وہ یقینا نواز شریف کے ایک بار پھر صدر ہوتے۔ زرداری کے مقابلے میں ن لیگ کے امید وار سعیدالزمان صدیقی نے153ووٹ حاصل کئے تھے۔ ان کو مخدوم امین فہیم کی طرح ہرانے کیلئے ہی نہیں رکھا ہوا۔ ان کا تعلق ویسے بھی سندھ سے ہے۔ وہ ججوں کی سائیکی سمجھتے اور ان میں اثرو رسوخ بھی رکھتے ہیں۔ میاں نوا ز شریف کی نفسیات کو سمجھنے کے دعویدار تجزیہ نگار سعیدالزمان صدیقی کو ہی صدارت کا مضبوط امیدوار قرار دیتے ہیں۔