اہلیت اورکنفیوژن
ہم اپنے گردوپیش کا جائزہ لیں‘ حالات کو دیکھیں‘ اپنے اوپر جو بیت رہی ہے‘ اس پر سوچیں تو لگتا ہے کہ ہمیں آج ہی آزادی ملی اور ہمیں کٹا پھٹا، زخموں سے چور ملک تھما دیا گیا ہے جس کی ہر کل کو سیدھا کرنے کی ضرورت ہے۔ اوپر سے قیادت ایسی کہ اس سے اپنی تمبی اور دھوتی سنبھالے نہیں سنبھل رہی۔ دانشوروں کی رائے میں ہمارے مسائل کی جڑ ہی قیادت کا فقدان ہے۔ پیپلز پارٹی کی قیادت کرپٹ تھی۔ کرپشن میں ہی اس نے اپنی اہلیت ثابت کی۔ ملک میں انارکی کی بنیاد اس کرپشن سے پڑی۔ آج کے حکمران اپنے پیشروؤں کے درجے کے کرپٹ تو نہیں ہیں تاہم ملک چلانے کیلئے جس اہلیت ،قابلیت اور وژن کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس سے بڑی حد تک تہی دامن ہیں۔ انہوں نے توانائی کی قلت کو دور کرنے اور دہشت گردی کے خاتمے کو باالترتیب اپنی پہلی اور دوسری ترجیح قرار دیا تھا۔ آج دونوںسون چڑی بن چکی ہیں۔ انرجی بحران میں کمی کے بجائے تیل اور بجلی کی قیمتوں میں اندھا دھند اضافہ کر دیا گیاجس سے فطری طور پر ہر چیز کی قیمت بڑھنا تھی۔ حکمرانوں کی دلچسپیوں اور عوامی مسائل سے لاتعلقی کو دیکھتے ہوئے منافع خوروں اور ذخیرہ اندوزوں نے میدان خالی دیکھا تو عوام کی چمڑی ادھیڑنے لگے۔ عام آدمی کیلئے زندگی کی گاڑی کا پہیہ رواں رکھنا سہل نہیں رہا۔ ٹماٹر ڈیڑھ سے اڑھائی سو روپے، آلو 100 روپے کلو ہوگئے ۔بلاشبہ ان کا استعمال ناگزیر نہیں ہے۔ 60روپے کلو کے پیاز کے بغیر بھی سانسیں چل سکتی ہیں۔ روٹی تو بنیادی ضرورت ہے۔ یہ بھی مہنگی ہوتی جا رہی ہے۔ گذشتہ ہفتے اسکی قیمت میں اضافہ کر دیا گیا حالانکہ اس دوران بجلی مہنگی ہوئی نہ پٹرولیم مصنوعات۔گندم کے ریٹ بھی نہیں بڑھے۔ آٹا فروشوں نے حکمرانوں کی بے خبری میں عوام پر ستم ڈھادیا۔ کچھ لوگ کھانا ہضم کرنے کیلئے دواؤں کا استعمال اور واک وغیرہ کرتے ہیں اور اکثریت ایسے لوگوں کی بھی ہے جن کو پیٹ بھرنے کو روٹی میسر نہیں۔ ایک مزدور کہہ رہا تھا کہ پہلے میںتین روٹیاں کھاتا تھا ‘اب دو کھاتا ہوں۔ پانی بھی خریدنا پڑے تو ایک روٹی پر آنا پڑے۔ نواز لیگ کے اقتدار میں آنے کے بعد ابھی کوئی بڑی فصل کسانوں نے نہ اٹھائی نہ مارکیٹ میں آئی۔ ٹماٹر پیاز اور سبزیاں آئیں تو ان کا قحط نظر آتا ہے۔ شوگر ملیں چلنے والی ہیں۔ چینی اور لوہا ’’شاہی خاندان‘‘ کی من پسند ٹریڈ ہے۔ عوام شُکر کریں کہ لوہا کھانے کی چیز نہیں ۔شَکراور پسندیدہ میں بڑا تال میل رہا ہے۔ہم وطنوں کے حصے میں لوہا چینی جتنی چینی آئیگی ۔ دکاندار حکمران، کسانوں کو مایوس کرر ہے ہیں جب اقتدار کا خمار‘ نااہلی کی بھرمار اور وژن بیمار ہو تو نتیجہ قوم کو بھگتنا پڑتا ہے۔ حکمرانوں کو ہر شعبہ انار کے اس باغ کی مانند سرسبز اور ثمربار نظر آتا ہے جس کے باغبان نے بادشاہ کو انار کا جوس پلایا تھا۔ گندم کی فصل ابھی دور ہے۔ حکمرانوں کی نیت دیکھ کر اس کے سوتے خشک ہو سکتے ہیں۔ قحط کا سماں بھوت کی طرح دندناتا نظر آرہا ہے۔خدا خیر کرے۔
اہلیت‘ قابلیت اور دانش و حکمت میں باقی سیاستدان بھی حکمرانوں سے کم نہیں البتہ سخن طرازی میں ایک سے بڑھ کر ایک ہیں۔ دہشتگردی کے خاتمے کیلئے پوری قوم متفق لیکن اسکے خاتمے کا طریقہ کار اپنا ہے۔ کوئی اسے دہشتگردوں کو ختم کرکے ختم کرنا چاہتا ہے کوئی ان کو اپنا ہمنوا بنا کر،کوئی اسے امریکہ کی حمایت سے کوئی امریکہ کو دشمن بنا کر۔ ایک طبقہ حکم اللہ محسود کو ظالم تو دوسرا مظلوم کہتا ہے۔ کسی کو اعتراض ہے کہ اسے امریکہ نے کیوں مارا ہم خود مارتے۔ قائدین ایک ہی راگ الاپ رہے ہیں کہ امریکہ نے بم برسا کر مذاکرات کا عمل سبوتاژ کر دیا۔ طالبان کا موقف ہے کہ محسود کے قتل کا منصوبہ نواز اوباما ملاقات میں بنا۔ حکومتی اور بے حکومتی سیاستدان مذاکرات کا عزم دہراتے دہراتے دُہرے ہوئے جا رہے ہیں۔ محسود کی ہلاکت اور بقول منور حسن اور فضل الرحمن شہادت پر فوج خاموش ہے۔ حکومت فوج کی طرف سے مذاکرات کی کامیابی کیلئے کردار ادا کرنے کا تواتر سے اظہار کرتی رہی۔ ڈرون حملے پر فوج بولی نہ اسکی طرف سے حکومت نے کچھ کہا۔ سوچنے کیلئے یہ بھی بہت ہے کہ 29 نومبر کو کیانی ریٹائر ہو رہے ہیں ان کا متبادل سامنے آیا نہ انہوں نے فوجی یونٹوں کے الوداعی دورے شروع کئے۔ جنرل کیانی کی قیادت میں فوج اور امریکہ کا طالبان کے ساتھ مذاکرات اور ڈرون حملوں کے حوالے سے موقف متضاد نہیں۔ ضروری نہیں حکمرانوں کا ظاہر و باطن بھی ایک ہو۔ جو لوگ فوج کو مار رہے ہیں ڈرون ان پر ہی گرتے ہیں۔ خارجہ پالیسی کو جنرل کیانی بڑی کامیابی سےtowکر رہے ہیں ۔نواز شریف امریکہ کا دورہ بھی کر آئے ہیں۔ پاکستان میں حکمرانی اور اعلیٰ عہدوں پر تعیناتی کے فیصلے‘ کہا جاتا ہے واشنگٹن میں ہوتے ہیں۔ کیانی کو کیا مزید ایکسٹنشن مل جائیگی؟ یہ سوال اپنے منطقی انجام کو پہنچ کر پھر سامنے آگیا ہے۔
ہم ایک کنفیوژ قوم اور ہماری تقدیر کے فیصلے کرنیوالے قوم سے زیادہ کنفیوژ ہیں۔فتویٰ گری کا فن کوئی ہم سے سیکھے ۔مولانا فضل الرحمن نے فرمایا کہ امریکہ کتے کو قتل کر دے وہ بھی شہید ہے۔منور حسن کے محسود کیلئے شہید کے فتوے پر بلاول نے ارشاد فرمایا کہ جماعت اسلامی کے ساتھ بنگلہ دیش جیسا سلوک کیا جائے۔ کیا تماشا لگا ہے‘ ایک اجلاس سینٹ کے اندر‘ دوسرا اسکے باہر ہو رہا تھا۔ قومی اسمبلی میں متفقہ طور پر کہا گیا ’’امریکہ کو بتادیا جائے مذاکرات کے دوران ڈرون حملے قبول نہیں‘‘ گویا مذاکرات سے قبل اور مابعد قبول ہیں۔ بلوچستان میں وزیراعلیٰ اور گورنر صوبے میں امن قائم کرنے میں ناکام ٹھہرے توایک علیحدگی پسندوں سے ملاقات کا ملتجی دوسرا ریاست کے خلاف ہتھیار اٹھانے والوں کی دہشتگردی کو حقوق کی جنگ قرار دیتا ہے۔ مشرف کے معاملے میں بھی مختلف رائے پائی جاتی ہے۔ ایک طبقہ انہیں پھانسی لگانا چاہتا ہے دوسرا ملک سے چلے جانے کیلئے بحفاظت راستہ دینے کا حامی ہے۔ کراچی میں اپریشن ناکام ہوتا دکھائی دیتا ہے‘ دو دن میں تیس لوگ مارے گئے۔ حالات واقعات کا ایمانداری سے تجزیہ کریں تو حکمران اپنے منشور اور انتخابی مہم کے دوران کئے گئے وعدوں پر عمل میں مکمل طور پر ناکام نظر آتے ہیں۔ کسی بحران کے حل کا کوئی سرا انکے ہاتھ نہیں لگ رہا۔ ہر گزرتے انکے ساتھ عوامی مشکلات بڑھتی جا رہی ہیں۔ عوام آخر کب تک بہتری کی امید رکھیں؟ پانچ سال بعد؟ اس وقت تک کتنے لوگ روح اور جسم کا رشتہ برقرار رکھ سکیں گے۔ ایک بے گناہ کے قتل کو پوری انسانیت کا قتل قرار دیا گیا ہے۔ نواز لیگ حکومت کی آئینی مدت پوری ہونے تک،خدا جانے بھوک افلاس‘ دہشتگردی اور ٹارگٹ کلنگ میں انسانیت کتنی بار قتل ہو چکی ہوگی ۔
اہلیت‘ قابلیت اور دانش و حکمت میں باقی سیاستدان بھی حکمرانوں سے کم نہیں البتہ سخن طرازی میں ایک سے بڑھ کر ایک ہیں۔ دہشتگردی کے خاتمے کیلئے پوری قوم متفق لیکن اسکے خاتمے کا طریقہ کار اپنا ہے۔ کوئی اسے دہشتگردوں کو ختم کرکے ختم کرنا چاہتا ہے کوئی ان کو اپنا ہمنوا بنا کر،کوئی اسے امریکہ کی حمایت سے کوئی امریکہ کو دشمن بنا کر۔ ایک طبقہ حکم اللہ محسود کو ظالم تو دوسرا مظلوم کہتا ہے۔ کسی کو اعتراض ہے کہ اسے امریکہ نے کیوں مارا ہم خود مارتے۔ قائدین ایک ہی راگ الاپ رہے ہیں کہ امریکہ نے بم برسا کر مذاکرات کا عمل سبوتاژ کر دیا۔ طالبان کا موقف ہے کہ محسود کے قتل کا منصوبہ نواز اوباما ملاقات میں بنا۔ حکومتی اور بے حکومتی سیاستدان مذاکرات کا عزم دہراتے دہراتے دُہرے ہوئے جا رہے ہیں۔ محسود کی ہلاکت اور بقول منور حسن اور فضل الرحمن شہادت پر فوج خاموش ہے۔ حکومت فوج کی طرف سے مذاکرات کی کامیابی کیلئے کردار ادا کرنے کا تواتر سے اظہار کرتی رہی۔ ڈرون حملے پر فوج بولی نہ اسکی طرف سے حکومت نے کچھ کہا۔ سوچنے کیلئے یہ بھی بہت ہے کہ 29 نومبر کو کیانی ریٹائر ہو رہے ہیں ان کا متبادل سامنے آیا نہ انہوں نے فوجی یونٹوں کے الوداعی دورے شروع کئے۔ جنرل کیانی کی قیادت میں فوج اور امریکہ کا طالبان کے ساتھ مذاکرات اور ڈرون حملوں کے حوالے سے موقف متضاد نہیں۔ ضروری نہیں حکمرانوں کا ظاہر و باطن بھی ایک ہو۔ جو لوگ فوج کو مار رہے ہیں ڈرون ان پر ہی گرتے ہیں۔ خارجہ پالیسی کو جنرل کیانی بڑی کامیابی سےtowکر رہے ہیں ۔نواز شریف امریکہ کا دورہ بھی کر آئے ہیں۔ پاکستان میں حکمرانی اور اعلیٰ عہدوں پر تعیناتی کے فیصلے‘ کہا جاتا ہے واشنگٹن میں ہوتے ہیں۔ کیانی کو کیا مزید ایکسٹنشن مل جائیگی؟ یہ سوال اپنے منطقی انجام کو پہنچ کر پھر سامنے آگیا ہے۔
ہم ایک کنفیوژ قوم اور ہماری تقدیر کے فیصلے کرنیوالے قوم سے زیادہ کنفیوژ ہیں۔فتویٰ گری کا فن کوئی ہم سے سیکھے ۔مولانا فضل الرحمن نے فرمایا کہ امریکہ کتے کو قتل کر دے وہ بھی شہید ہے۔منور حسن کے محسود کیلئے شہید کے فتوے پر بلاول نے ارشاد فرمایا کہ جماعت اسلامی کے ساتھ بنگلہ دیش جیسا سلوک کیا جائے۔ کیا تماشا لگا ہے‘ ایک اجلاس سینٹ کے اندر‘ دوسرا اسکے باہر ہو رہا تھا۔ قومی اسمبلی میں متفقہ طور پر کہا گیا ’’امریکہ کو بتادیا جائے مذاکرات کے دوران ڈرون حملے قبول نہیں‘‘ گویا مذاکرات سے قبل اور مابعد قبول ہیں۔ بلوچستان میں وزیراعلیٰ اور گورنر صوبے میں امن قائم کرنے میں ناکام ٹھہرے توایک علیحدگی پسندوں سے ملاقات کا ملتجی دوسرا ریاست کے خلاف ہتھیار اٹھانے والوں کی دہشتگردی کو حقوق کی جنگ قرار دیتا ہے۔ مشرف کے معاملے میں بھی مختلف رائے پائی جاتی ہے۔ ایک طبقہ انہیں پھانسی لگانا چاہتا ہے دوسرا ملک سے چلے جانے کیلئے بحفاظت راستہ دینے کا حامی ہے۔ کراچی میں اپریشن ناکام ہوتا دکھائی دیتا ہے‘ دو دن میں تیس لوگ مارے گئے۔ حالات واقعات کا ایمانداری سے تجزیہ کریں تو حکمران اپنے منشور اور انتخابی مہم کے دوران کئے گئے وعدوں پر عمل میں مکمل طور پر ناکام نظر آتے ہیں۔ کسی بحران کے حل کا کوئی سرا انکے ہاتھ نہیں لگ رہا۔ ہر گزرتے انکے ساتھ عوامی مشکلات بڑھتی جا رہی ہیں۔ عوام آخر کب تک بہتری کی امید رکھیں؟ پانچ سال بعد؟ اس وقت تک کتنے لوگ روح اور جسم کا رشتہ برقرار رکھ سکیں گے۔ ایک بے گناہ کے قتل کو پوری انسانیت کا قتل قرار دیا گیا ہے۔ نواز لیگ حکومت کی آئینی مدت پوری ہونے تک،خدا جانے بھوک افلاس‘ دہشتگردی اور ٹارگٹ کلنگ میں انسانیت کتنی بار قتل ہو چکی ہوگی ۔