غداری کیس …تضادات اور شبہات
حکومت میں آ کر مت ماری جاتی ہے یا ہمارے سیاستدان ہیں اتنے جوگے کہ اپنے بیانات اور اقدامات سے سیدھے سادے معاملے کو کتے کی دُم بنا دیتے ہیں۔ اچھے کام کو بُرے طریقے سے کرنے کی لت پڑ چکی ہے۔ انکے انہی خصائص کے باعث کرسٹل کلیئر اور واضح صورتحال پر بھی شکوک و شبہات کی گرد چڑھ جاتی ہے۔
جنرل پرویز مشرف کی ججز نظربندی، اکبر بگٹی اور بینظیر بھٹو قتل کیسوں میں ضمانت ہوئی تو چک شہزاد کے ’’تاج محل‘‘ سے باہر قدم رکھنے سے قبل انکی لال مسجد اپریشن اور غازی عبدالرشید قتل کیس میں گرفتاری ڈال دی گئی، اس کیس میں بھی عدالت نے ضمانت لے لی۔ انہوں نے سندھ ہائیکورٹ سے ای سی ایل سے نام نکلوانے کیلئے رجوع کر رکھا ہے۔ اس دوران وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان نے پریس کانفرنس میں جنرل مشرف کیخلاف آرٹیکل 6 کے تحت کارروائی شروع کرنے کا اعلان کر دیا۔ چودھری نثار کی پریس کانفرنس تضادات کا مجموعہ ہے۔ سُنا تھا جو انسان زیادہ بولتا ہے وہ غلطیاں بھی زیادہ کرتا ہے‘ اب دیکھ بھی لیا ہے۔ انہوں نے جوشِ خطابت میں سابق آرمی چیف جنرل پرویز مشرف کے 12 اکتوبر 1999ء کے اقدام کو فوجی انقلاب قرار دیا اور سچ بھی یہی ہے تاہم انہوں نے کسی صحافی کے سوال پر وضاحت کرتے ہوئے اس اقدام کو فوجی بغاوت اور جمہوریت پر شب خون قرار دیا۔ 12 اکتوبر کا اقدام یقیناً آئین شکنی، فوجی بغاوت اور جمہوریت پر شب خون تھا۔ ایسے اقدامات کامیاب ہو جائیں تو انقلاب‘ اگر ناکام ٹھہریں تو بغاوت کہلاتے ہیں۔ مشرف کے اقدام کو سپریم کورٹ اور پارلیمنٹ نے جائز قرار دیا تو وہ بغاوت کے ضمن میں سے نکل کر انقلاب کے سانچے میں ڈھل گیا ۔ اس انقلاب کی کوکھ سے بڑے بڑے پارلیمنٹرین نے جنم لیا جو آج بھی پارلیمنٹ کا حصہ اور بہت سے نواز شریف کے کندھے سے کندھا ملا کر جمہوریت کو مضبوط کر رہے ہیں۔ ایسا انقلاب پھر کبھی آیا تو یہ انقلابی لیڈر کا ساتھ دینے کا فیصلہ کرنے میں لمحہ بھر کی تاخیر نہیں کرینگے۔ صدارت کیلئے پیپلز پارٹی نے میاں محمد اجمل کا نام دیا، اس پر نواز لیگ نے ناک بھوں چڑھائی کہ وہ مشرف کے 3 نومبر 2007ء کو ایمرجنسی کے نفاذ کے اعلان کے موقع پر سیکرٹری قانون تھے۔ اس کو تضاد کے کس درجے میں فٹ کیا جائے کہ اس دور کے وزیر قانون زاہد حامد کو نواز لیگ میں لے لیا گیا، انکو ایم این اے کا ٹکٹ دیا اور کامیاب ہونے پر وزارت قانون ہی کا قلمدان بھی تھما دیا گیا، شور اُٹھا تو انکی وزارت بدل دی۔ امیر مقام مشرف کا پستول بدل بھائی ہے، الیکشن میں ہار گیا تو بھی نواز شریف کے دل میں امیر مقام کی الفت کا چراغ اُسی طرح روشن رہا جس طرح مشرف کے دل میں جلتا رہا تھا۔ آج امیر مقام وزیراعظم کے مشیرکا عہدہ انجوائے کر رہا ہے۔
مشرف کیخلاف 2007ء کی ایمرجنسی کے نفاذ کی پاداش میں غداری کی کارروائی شروع ہو رہی ہے۔ وزیر داخلہ کے بقول حکومت چیف جسٹس کو تین رکنی خصوصی عدالت کی تشکیل کی استدعا کر رہی ہے۔ 3 نومبر کے اقدام سے متعلق ایف آئی اے کی کمیٹی نے اپنا کام مکمل کر لیا ہے۔ مشرف نے بیماری کی بات کر کے کمیٹی کے سامنے پیش ہونے سے انکار کر دیا مگر سرٹیفکیٹ پیش نہ کر سکے۔ چودھری نثار یہ بھی کہتے ہیں کہ میاں نواز شریف نے ذاتی رنجش اور تلخی جو جنرل مشرف کے ساتھ تھی وہ صاف کر دی، مگر آئین اور قانون کی جس طرح خلاف ورزی ہوئی اور پاکستان کی عدلیہ کو پابند سلاسل کیا گیا، ججز کے بال نوچے گئے مگر پاکستان کے آئین اور قانون کے سامنے جوابدہ ہے۔ چودھری صاحب لمبی پریس کانفرنس کرتے ہوئے پٹڑی سے اُتر جاتے ہیں یا چکر دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ 3 نومبر کو ایمرجنسی کے نفاذ کو سپریم کورٹ آئین شکنی قرار دے چکی ہے۔ججز کو نظر بند کرنے کا الگ سے کیس چلا جس میں مشرف کی ضمانت ہوئی۔ بال نوچنا توہین اور تضحیک آمیز اقدام ہے کیا یہ بھی غداری کے زمرے میں آتا ہے؟ چودھری نثار نے فخریہ فرمایا ’’کہا جاتا ہے کہ کوئی غریب جرم کرے تو کارروائی کی جاتی ہے بڑے آدمی کیخلاف نہیں ہوتی، ہم نے نئی روایت قائم کی ہے۔‘‘ آپ نے نئی روایت قائم نہیں کی، پرانی کو ہی نبھایا ہے۔ زرداری، گیلانی اور راجہ جیسے بڑے لوگوں نے ملکی وسائل کو بے دردی سے لوٹا، انکے احتساب کا آپ نعرہ لگاتے رہے، انکی لوٹ مار خزانے میں واپس لا کر نئی روایت قائم کریں۔
خنزیر اور کتے کا گوشت کیا کسی بھی حالت میں ہمارے دستر خوان پر آ سکتا ہے؟ مولانااحمد رضا خان بریلویؒ نے تحریک موالات کے دوران اپنے فتوے میں کہا تھا ’’سور کو بکری بنا کر نہیں نگلاجا سکتا‘‘ لیکن پاکستان میں ایسا کر دیا گیا ہے۔ جمہوری حکومت کا تختہ اُلٹنے سے بڑی آئین شکنی نہیں ہو سکتی۔ 12 اکتوبر کو جو ہوا کچھ عرصہ بعد سپریم کورٹ اور پھر پارلیمنٹ نے اسے ’’حلال‘‘ قرار دے دیا۔ 3 نومبر کے اقدام پر عدلیہ اور پارلیمنٹ جائز جائز پڑھ دیتی تو آج مشرف دودھوں نہائے پائے جاتے۔ پاکستانیوں کی اکثریت آمر کا احتساب چاہتی ہے، آمر اکیلا کچھ بھی نہیں کر سکتا، شریک جرم تو کیا جرم معاف کرنیوالے بھی معافی کے مستحق نہیں۔ معافی مجرم کے قبولِ جرم کی صورت میں ہی ہو سکتی ہے۔ کیا مشرف اور انکے ساتھیوں نے 12 اکتوبر کا جرمِ بغاوت قبول کر لیا تھا؟ 12 اکتوبر اور 3 نومبر کے اقدامات غیر آئینی تھے تو ان کو کامیابی سے ہمکنار کرنیوالوں کے اقدامات کیا آئین اور قانون کیمطابق تھے؟ آمریت کے راستے ہمیشہ کیلئے روکنے ہیں تو 12 اکتوبر کی آئین شکنی کو ٹیسٹ کیس بنانا ہو گا۔ نواز حکومت 12 اکتوبر کے اقدام کا نوٹس تو ہرگز نہیں لے گی۔ 3 نومبر کی ایمرجنسی کے حوالے سے کارروائی بھی ڈرامہ نظر آتی ہے۔ شایدیہ آمر کو انجام تک پہنچانے نہیں اسے بچانے کیلئے سٹیج سجایا جا رہا ہے۔ حکمران جلد از جلد مشرف کو بیرون ملک بھجوانے کیلئے بے قرار ہیں تاکہ ضامنوں کے ریال اور ڈالر ز کی برکھا برسنے لگے۔
چودھری نثار کی پریس کانفرنس کے تضادات واضح اور انکی طرف سے اتوار کو چھٹی کے روز ہنگامہ کانفرنس نے شکوک و شبہات کو جنم دیا -- - جو کارروائی حکومت کے آنے کے فوراً بعد شروع ہونا تھی اس میں چھ ماہ کی تاخیر کر دی گئی اور اب ایک دن میں معاملہ’’ منطقی انجام‘‘ تک پہنچانے کی کوشش کی جارہی ہے اور تاثر انصاف کے تقاضے پورے کرنے کا دیا جا رہا ہے ۔
جنرل پرویز مشرف کی ججز نظربندی، اکبر بگٹی اور بینظیر بھٹو قتل کیسوں میں ضمانت ہوئی تو چک شہزاد کے ’’تاج محل‘‘ سے باہر قدم رکھنے سے قبل انکی لال مسجد اپریشن اور غازی عبدالرشید قتل کیس میں گرفتاری ڈال دی گئی، اس کیس میں بھی عدالت نے ضمانت لے لی۔ انہوں نے سندھ ہائیکورٹ سے ای سی ایل سے نام نکلوانے کیلئے رجوع کر رکھا ہے۔ اس دوران وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان نے پریس کانفرنس میں جنرل مشرف کیخلاف آرٹیکل 6 کے تحت کارروائی شروع کرنے کا اعلان کر دیا۔ چودھری نثار کی پریس کانفرنس تضادات کا مجموعہ ہے۔ سُنا تھا جو انسان زیادہ بولتا ہے وہ غلطیاں بھی زیادہ کرتا ہے‘ اب دیکھ بھی لیا ہے۔ انہوں نے جوشِ خطابت میں سابق آرمی چیف جنرل پرویز مشرف کے 12 اکتوبر 1999ء کے اقدام کو فوجی انقلاب قرار دیا اور سچ بھی یہی ہے تاہم انہوں نے کسی صحافی کے سوال پر وضاحت کرتے ہوئے اس اقدام کو فوجی بغاوت اور جمہوریت پر شب خون قرار دیا۔ 12 اکتوبر کا اقدام یقیناً آئین شکنی، فوجی بغاوت اور جمہوریت پر شب خون تھا۔ ایسے اقدامات کامیاب ہو جائیں تو انقلاب‘ اگر ناکام ٹھہریں تو بغاوت کہلاتے ہیں۔ مشرف کے اقدام کو سپریم کورٹ اور پارلیمنٹ نے جائز قرار دیا تو وہ بغاوت کے ضمن میں سے نکل کر انقلاب کے سانچے میں ڈھل گیا ۔ اس انقلاب کی کوکھ سے بڑے بڑے پارلیمنٹرین نے جنم لیا جو آج بھی پارلیمنٹ کا حصہ اور بہت سے نواز شریف کے کندھے سے کندھا ملا کر جمہوریت کو مضبوط کر رہے ہیں۔ ایسا انقلاب پھر کبھی آیا تو یہ انقلابی لیڈر کا ساتھ دینے کا فیصلہ کرنے میں لمحہ بھر کی تاخیر نہیں کرینگے۔ صدارت کیلئے پیپلز پارٹی نے میاں محمد اجمل کا نام دیا، اس پر نواز لیگ نے ناک بھوں چڑھائی کہ وہ مشرف کے 3 نومبر 2007ء کو ایمرجنسی کے نفاذ کے اعلان کے موقع پر سیکرٹری قانون تھے۔ اس کو تضاد کے کس درجے میں فٹ کیا جائے کہ اس دور کے وزیر قانون زاہد حامد کو نواز لیگ میں لے لیا گیا، انکو ایم این اے کا ٹکٹ دیا اور کامیاب ہونے پر وزارت قانون ہی کا قلمدان بھی تھما دیا گیا، شور اُٹھا تو انکی وزارت بدل دی۔ امیر مقام مشرف کا پستول بدل بھائی ہے، الیکشن میں ہار گیا تو بھی نواز شریف کے دل میں امیر مقام کی الفت کا چراغ اُسی طرح روشن رہا جس طرح مشرف کے دل میں جلتا رہا تھا۔ آج امیر مقام وزیراعظم کے مشیرکا عہدہ انجوائے کر رہا ہے۔
مشرف کیخلاف 2007ء کی ایمرجنسی کے نفاذ کی پاداش میں غداری کی کارروائی شروع ہو رہی ہے۔ وزیر داخلہ کے بقول حکومت چیف جسٹس کو تین رکنی خصوصی عدالت کی تشکیل کی استدعا کر رہی ہے۔ 3 نومبر کے اقدام سے متعلق ایف آئی اے کی کمیٹی نے اپنا کام مکمل کر لیا ہے۔ مشرف نے بیماری کی بات کر کے کمیٹی کے سامنے پیش ہونے سے انکار کر دیا مگر سرٹیفکیٹ پیش نہ کر سکے۔ چودھری نثار یہ بھی کہتے ہیں کہ میاں نواز شریف نے ذاتی رنجش اور تلخی جو جنرل مشرف کے ساتھ تھی وہ صاف کر دی، مگر آئین اور قانون کی جس طرح خلاف ورزی ہوئی اور پاکستان کی عدلیہ کو پابند سلاسل کیا گیا، ججز کے بال نوچے گئے مگر پاکستان کے آئین اور قانون کے سامنے جوابدہ ہے۔ چودھری صاحب لمبی پریس کانفرنس کرتے ہوئے پٹڑی سے اُتر جاتے ہیں یا چکر دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ 3 نومبر کو ایمرجنسی کے نفاذ کو سپریم کورٹ آئین شکنی قرار دے چکی ہے۔ججز کو نظر بند کرنے کا الگ سے کیس چلا جس میں مشرف کی ضمانت ہوئی۔ بال نوچنا توہین اور تضحیک آمیز اقدام ہے کیا یہ بھی غداری کے زمرے میں آتا ہے؟ چودھری نثار نے فخریہ فرمایا ’’کہا جاتا ہے کہ کوئی غریب جرم کرے تو کارروائی کی جاتی ہے بڑے آدمی کیخلاف نہیں ہوتی، ہم نے نئی روایت قائم کی ہے۔‘‘ آپ نے نئی روایت قائم نہیں کی، پرانی کو ہی نبھایا ہے۔ زرداری، گیلانی اور راجہ جیسے بڑے لوگوں نے ملکی وسائل کو بے دردی سے لوٹا، انکے احتساب کا آپ نعرہ لگاتے رہے، انکی لوٹ مار خزانے میں واپس لا کر نئی روایت قائم کریں۔
خنزیر اور کتے کا گوشت کیا کسی بھی حالت میں ہمارے دستر خوان پر آ سکتا ہے؟ مولانااحمد رضا خان بریلویؒ نے تحریک موالات کے دوران اپنے فتوے میں کہا تھا ’’سور کو بکری بنا کر نہیں نگلاجا سکتا‘‘ لیکن پاکستان میں ایسا کر دیا گیا ہے۔ جمہوری حکومت کا تختہ اُلٹنے سے بڑی آئین شکنی نہیں ہو سکتی۔ 12 اکتوبر کو جو ہوا کچھ عرصہ بعد سپریم کورٹ اور پھر پارلیمنٹ نے اسے ’’حلال‘‘ قرار دے دیا۔ 3 نومبر کے اقدام پر عدلیہ اور پارلیمنٹ جائز جائز پڑھ دیتی تو آج مشرف دودھوں نہائے پائے جاتے۔ پاکستانیوں کی اکثریت آمر کا احتساب چاہتی ہے، آمر اکیلا کچھ بھی نہیں کر سکتا، شریک جرم تو کیا جرم معاف کرنیوالے بھی معافی کے مستحق نہیں۔ معافی مجرم کے قبولِ جرم کی صورت میں ہی ہو سکتی ہے۔ کیا مشرف اور انکے ساتھیوں نے 12 اکتوبر کا جرمِ بغاوت قبول کر لیا تھا؟ 12 اکتوبر اور 3 نومبر کے اقدامات غیر آئینی تھے تو ان کو کامیابی سے ہمکنار کرنیوالوں کے اقدامات کیا آئین اور قانون کیمطابق تھے؟ آمریت کے راستے ہمیشہ کیلئے روکنے ہیں تو 12 اکتوبر کی آئین شکنی کو ٹیسٹ کیس بنانا ہو گا۔ نواز حکومت 12 اکتوبر کے اقدام کا نوٹس تو ہرگز نہیں لے گی۔ 3 نومبر کی ایمرجنسی کے حوالے سے کارروائی بھی ڈرامہ نظر آتی ہے۔ شایدیہ آمر کو انجام تک پہنچانے نہیں اسے بچانے کیلئے سٹیج سجایا جا رہا ہے۔ حکمران جلد از جلد مشرف کو بیرون ملک بھجوانے کیلئے بے قرار ہیں تاکہ ضامنوں کے ریال اور ڈالر ز کی برکھا برسنے لگے۔
چودھری نثار کی پریس کانفرنس کے تضادات واضح اور انکی طرف سے اتوار کو چھٹی کے روز ہنگامہ کانفرنس نے شکوک و شبہات کو جنم دیا -- - جو کارروائی حکومت کے آنے کے فوراً بعد شروع ہونا تھی اس میں چھ ماہ کی تاخیر کر دی گئی اور اب ایک دن میں معاملہ’’ منطقی انجام‘‘ تک پہنچانے کی کوشش کی جارہی ہے اور تاثر انصاف کے تقاضے پورے کرنے کا دیا جا رہا ہے ۔