About Me

My photo
Fazal Hussain Awan colomnist Daily NAWAI WAQT awan368@yahoo.com 03334215368

Friday, September 30, 2011

آزاد فلسطین کا قیام نا ممکن نہیں


آزاد فلسطین کا قیام نا ممکن نہیں
فضل حسین اعوان ـ 18 ستمبر ، 2011



 اسرائیل‘ فلسطین ہی نہیں‘ پوری مسلم امہ کے بدن پر ناسور بن چکا ہے‘ یہاں انسانیت سسک رہی ہے‘ عالمی سطح پر انسانی حقوق کا تحفظ یقینی بنانے کے دعویدار ہی یہاں انسانوں پر ڈھائے جانیوالے مظالم‘ انکے خون سے کھیلی جانیوالی ہولی‘ بچوں کے بیدردی سے قتل عام اور خواتین کی بے حرمتی کے ذمہ دار ہیں۔ فلسطینیوں کو اپنے ہی وطن میں خوارو دربدر کردیا گیا۔ آج فلسطینیوں کو امن‘ سلامتی‘ عزت و آبرو کے ساتھ ساتھ ایک وطن کی بھی تلاش ہے۔ یہ وطن ان کو کون دلائے گا؟ وہ کیسے آزاد ہونگے؟ اسرائیل کے پنجہ استبداد سے ان کو کیسے چھٹکارا ملے گا؟ ان سوالات کا جواب تو بڑا سیدھا سا ہے کہ اقوام متحدہ آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کی قرارداد منظور کرے اور عالمی برادری اس پر عمل کرادے۔ جیسے شمالی تیمور کو انڈونیشیا اور جنوبی سوڈان کو سوڈان سے الگ کیا گیا ہے۔ آج تقریباً پوری دنیا آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کی حامی ہے۔ بشمول برطانیہ کے جو ہر اچھے برے کام اور اقدام میں امریکہ کے کندھے کے ساتھ کندھا ملا کر رکھتا ہے۔ آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کی راہ میں آج صرف اسرائیل اور امریکہ حائل ہیں۔ تیسرا ملک بھارت ہو سکتا ہے لیکن عرب ممالک کے ساتھ اچھے تعلقات کی وجہ سے وہ کھل کر سامنے نہیں آرہا۔
اگلے ہفتے اقوام متحدہ میں فلسطین کو آزاد ریاست کا درجہ دلانے کیلئے اقوام متحدہ میں قرارداد پیش ہو رہی ہے۔ امریکہ کی کوشش ہے کہ قرارداد پیش ہی نہ ہو‘ اس نے واضح کر رکھا ہے کہ قرارداد پیش ہوئی تو وہ اسے حسب سابق ویٹو کر دیگا۔ لیکن اس بار شاید امریکہ کیلئے ویٹو کرنا پہلے کی طرح اتنا آسان نہ ہو۔ ایران تو پہلے ہی اسرائیل کے بخیے ادھیڑ کر رکھ دینے کی خواہش رکھتا ہے‘ اسکے پاس ایٹمی ٹیکنالوجی ہے یا نہیں لیکن جو کچھ بھی ہے اسکے راکٹ‘ میزائل‘ توپ و تفنگ‘ سب کا رخ اسرائیل کی جانب ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ کی بندوق کی نالی ایران کی طرف اٹھتی اور پھر نیچے ہو جاتی ہے۔ تاہم امریکہ کو اقوام متحدہ میں ایران کی اسرائیل کی مخالفت اور فلسطین کی حمایت کی اتنی پروا نہیں‘ امریکہ کیلئے فکر مندی کی بات ترکی اور سعودی عرب کی طرف سے کھل کر فلسطینیوں کی حمایت کےلئے کھڑے ہو جانا ہے۔ محصورین غزہ کی امداد لے کر جانیوالے فریڈم فلوٹیلا پر حملہ کرکے اسرائیل نے 18 افراد کو مار ڈالا تھا اس پر ترکی نے شدید ردعمل کا اظہار اور محصورین کی آزادی کا عزم ظاہر کیا تھا۔ حالیہ دنوں میں اقوام متحدہ نے اپنی رپورٹ میں اسرائیلی کارروائی کو حق بجانب قرار دیا تو ترکی نے اسرائیل کے ساتھ اپنے تمام معاہدے معطل کر دیئے۔ اسرائیلی سفارتکاروں کو ملک سے نکال کر اپنے سفارت کار اسرائیل سے واپس بلا لئے۔ گزشتہ ہفتے وزیراعظم طیب اردگان نے قاہرہ میں عرب وزرائے خارجہ کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے یہ جرات مندانہ اعلان بھی کیا کہ ”فلسطینی ریاست کو بین الاقوامی سطح پر تسلیم کیا جانا‘ ایک آپشن نہیں بلکہ ذمہ داری ہے‘ اب وقت آگیا ہے کہ فلسطینی پرچم اقوام متحدہ پر لہرایا جائے اور یہ پرچم مشرق وسطیٰ میں امن و انصاف کی علامت بنا دیا جائے“۔ دیکھئے طیب اردگان کے اس جذباتی خطاب اور دل کی آواز پر عرب وزرائے خارجہ کی غیرت اور ضمیر کس حد تک جاگتے ہیں۔ البتہ سعودی شہزادہ ترکی الفیصل نے نیویارک ٹائمز میں چند روز قبل شائع ہونیوالے آرٹیکل میں امریکہ کو باور کرایا ہے کہ اگر امریکہ نے آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کی اقوام متحدہ میں مخالفت کی تو عرب دنیا میں اسکی رہی سہی ساکھ کا جنازہ بھی نکل جائیگا۔ شہزادہ ترکی الفیصل نے مزید کہا کہ سعودی عرب امریکہ کے ساتھ پہلے کی طرح تعاون جاری نہیں رکھ سکے گا‘ انکے الفاظ میں ملاحظہ فرمائیے: 
The United State must support the Palestinian bid for statehood at the United Nation this month or risk losing the little credibility it has in the Arab world. If it does not, American influence will decline further, Israeli security will be undermined and Iran will be empowered, increasing the chances of another war in the region. Moreover, Saudi Arabia would no longer be able to cooperate with America in the same way it historically has. With most of the Arab world in upheaval, the "special relationship". between Saudi Arabia and the United State would increasingly be seen as toxic by the vast majority of Arabs and Muslims, who demand justice for the Palestinian people.
اچھی بات ہے ترکی اور شہزادہ ترکی الفیصل آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کیلئے ہر مسلمان کی خواہشات کی امنگوں کی ترجمانی کر رہے ہیں۔ ترکی الفیصل سعودی عرب کے انٹیلی جنس چیف اور امریکہ و برطانیہ میں سفیر رہ چکے ہیں‘ آجکل کنگ فیصل سنٹر فار ریسرچ اینڈ اسلامک سٹڈی کے چیئرمین ہیں۔ وہ جرات اظہار کے حوالے سے اپنی مثال آپ ہیں۔ دو سال قبل انہوں نے صدر باراک اوباما کو خبردار کیا تھا کہ مشرق وسطیٰ کے حوالے سے سعودی عرب اور امریکہ کے تعلقات خطرے میں ہیں۔ جب تک امریکی انتظامیہ فلسطینیوں کا قتل عام روکنے کیلئے فوری اقدامات نہیں اٹھاتی‘ اس وقت تک امن عمل‘ سعودی عرب اور امریکہ کے تعلقات اور خطے کا استحکام خطرے میں رہیں گے۔ اگر امریکہ چاہتا ہے کہ وہ مشرق وسطیٰ میں قائدانہ کردار ادا کرتا رہے اور اپنے سٹرٹیجک اتحادیوں بالخصوص سعودی عرب کے ساتھ خصوصی تعلقات جاری رکھے تو اسے اسرائیل اور فلسطین سے متعلق اپنی پالیسیوں کو ازسرنو مرتب کرنا ہو گا۔ انہوں نے یہ انکشاف بھی کیا تھا کہ ایرانی صدر محمود احمدی نژاد نے سعودی فرما نروا شاہ عبداللہ کو خط بھیجا ہے‘ جس میں سعودی عرب پر اسرائیل کیخلاف جہاد یا ایک مقدس جنگ کی قیادت پر زور دیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ابھی تک تو سعودی عرب ایسے ارادوں کی مزاحمت کرتا رہا ہے تاہم ہر آنے والا دن اس روک کو مزید دشوار بنا دیتا ہے۔“ امریکہ کے ایبٹ آباد میں اپریشن کے بعد شہزادہ ترکی الفیصل نے کہا تھا‘ اسامہ بن لادن کے قتل کے بعد امریکہ کو چاہیے تھا کہ وہ افغانستان سے فوری طور پر اپنی فوجیں واپس بلالیتا۔ مصر‘ جہاں سے طویل عرصہ تک اسرائیل کی حمایت میں آوازیں اٹھتی رہیں‘ ہفتہ دس دن قبل وہاں اسرائیل کیخلاف زبردست مظاہرے ہوئے‘ مظاہرین نے اسرائیلی سفارت خانے پر بھی دھاوا بولا۔ 
ترکی امریکہ کا اصل اتحادی جبکہ پاکستان کو امریکہ نے اعزاز ی اتحادی کا درجہ دے رکھا ہے۔ ترکی آزاد فلسطین کے کاز کی خاطر اٹھ کھڑا ہوا ہے‘ تو پاکستان کو بھی اسلامی ممالک میں اسلام کا قلعہ سمجھنے کے باعث اور مسلم امہ کی پہلی ایٹمی طاقت ہونے کے ناتے اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ اقوام متحدہ میں سعودی عرب‘ ترکی‘ مصر اور ایران کی مخالفت کی وجہ سے امریکہ کیلئے آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کی مخالفت بہت مشکل ہے۔ پاکستان کا امریکہ کی دہشت گردی کی جنگ میں اہم کردار ہے‘ امریکی سمجھتے ہیں کہ پاکستان کی حمایت کے بغیر وہ یہ جنگ جیت نہیں سکتا‘ اگر پاکستان بھی آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کے حوالے سے ایران‘ ترکی‘ سعودی عرب اور مصر کے شانہ بشانہ ہو جائے تو امریکہ کیلئے اقوام متحدہ میں فلسطین کی مخالفت ناممکن ہو جائےگی۔ اگر امریکہ پھر بھی اسرائیل کی بے جا حمایت جاری رکھتا ہے‘ تو شاید ترکی الفیصل شاہ عبداللہ کو احمدی نژاد کی دعوت قبول کرنے پر قائل کرلیں۔ جس میں شاہ عبداللہ سے اسرائیل کیخلاف جہاد کی قیادت کرنے کو کہا گیا تھا۔ دیگر اسلامی ممالک اس جہاد کی عملی حمایت میں بے شک نہ اٹھیں لیکن لب کشائی ہی کر دیں تو امریکہ و اسرائیل کی خود سری اور تکبر و تفاخر کے غبارے سے ہوا نکل جائیگی۔



Thursday, September 15, 2011

عدلیہ

جمعرات ، 15 ستمبر ، 2011


عدلیہ
فضل حسین اعوان 
دس مارچ2007 کے سانحے، ٹھوکر یا ٹھڈے نے ایک عام اور روایتی جج کو صاحبِ افتخار بنادیا۔ جسٹس افتخار،مشرف کی طرف سے ڈھائی گئی قیامت کے بعد وکلاءکی معیت میں گھر سے باہر نکلے تو عوام ان کے ہم قدم تھے۔ ان کی پہلی بحالی عوامی دباﺅ پر نہیںہوئی مبنی بر انصاف فیصلہ تھا جو مشرف سرکار سے ہضم نہ ہوسکا تو اسی سال 3نومبر کو کئی ساتھی ججوں سمیت ایک اور قیامت سے دوچار کردیا گیا۔ معطلی کے ساتھ ساتھ نظر بندی بھی۔ان حالات میں کئی جج صاحبان کندن بن کر نکلے۔ اب قوم ہر جج سے جسٹس افتخار جیسے کردار کی توقع رکھتی ہے اورجسٹس افتخار سے اس سے بھی زیادہ کی۔
آج کل جسٹس افتخار محمد چودھری انتہائی اہم کیس کی سماعت کراچی میں کر رہے ہیں۔عید سے قبل انہوں نے عہد کیا تھا کہ ضروری ہوا تو عید کی چھٹیوں میں بھی اپنے ہی سوموٹو پر سماعت جاری رکھیں گے۔ کراچی صدر، وزیراعظم کے دوروں کے دوران بھی جلتا رہتا ہے۔اب جسٹس افتخار کی عدالت لگی ہے تو بھی جل رہا ہے۔کراچی کی خونریزی جلد خاتمے کی متقاضی ہے۔لوگ حکومت اور سیاستدانوں سے مایوس، ان کی نظریں اب سپریم کورٹ پر ہیں۔ جس سے نان سٹاپ سماعت کرکے سرعت کے ساتھ فیصلے کی توقع تھی۔ اس سماعت کے دوران چیف جسٹس صاحب کم از کم دومرتبہ لاہور اور نہ جانے کتنی بار اسلام آباد تشریف لائے۔ ان کا بھارتی قانون دان کے ساتھ سٹیج پر بیٹھنے اور امن کی شمع روشن کرنے سے زیادہ زخموں سے چور کراچی کی مرہم پٹی کرنا زیادہ اہم ہے۔جب لاہور میں ان کی طرف سے امن کی شمع جلانے کی بات ہوگی تو اسی سیمینار کی دوسری نشست میں جسٹس تصدق حسین جیلانی کی تقریر کو نظر انداز نہیں کیاجاسکتا۔
” انصاف سب کیلئے، استثنیٰ کسی کو نہیں“ کے موضوع پر سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان کی سپریم کورٹ کے جج نے فرمایا” گلوبلائزیشن کے موجودہ ماحول میں کچھ قوتیں ایک دوسرے کو ملانے اور باہمی ہم آہنگی پیدا کرنے کی کوشش کر رہی ہیں تو کچھ قوتیں مذہب ، کلچر اور سیاست کی بنیاد پر لوگوں کو تقسیم کررہی ہیں، ایسی قوتوں کا راستہ نہ روکا گیا تو عدم استحکام پیدا ہونے کا خدشہ ہے۔ عدم برداشت کا خاتمہ، اداروں کو مضبوط، وسعت نظری پیدا کرتے ہوئے باہمی روابط کے فروغ، مل جل کر اور امن کے ساتھ رہنے کے عمل کو پروان چڑھانا ضروری ہے باہمی امن کی کوششوں کو پروان چڑھانے میں بھارت اور پاکستان کے دو صحافتی اداروں نے ” امن کی آشا“ کے نام سے مثالی کوشش کی ہے۔ پاکستان اور بھارت دونوں نے نو آبادیاتی حکمرا ن سے 63 سال قبل آزادی حاصل کی مگر اب تک وہ غربت کی چکی میں پس رہے ہیں۔علاقائی تنازعوں اور مختلف وجوہات کے باعث خطے کے کروڑوں لوگ متاثر ہیں اگر یورپ میں انسانی تاریخ کی دو بد ترین اور خوں ریز جنگوں کے بعد وہاں یورپی یونین کی صورت میں لوگ امن سے رہنا سیکھ سکتے ہیں تو پھر ہم باہمی تنازعات کو کیوں طے نہیں کرسکتے اور ہم اپنے وسائل کو امن کے فروغ اور لوگوں کی معاشی ترقی کیلئے کیونکر استعمال نہیں کرسکتے۔“
ایک نظریہ کی بنیاد پر قائم ہونے والے پاکستان کی سپریم کورٹ کے جج کے ایسے ریمارکس جن کا موضوع کے ساتھ تعلق تھا نہ قانون یا اس کی تشریح کے ساتھ، اکثر اہل وطن کے دلوں کو گھائل کرگیا۔اس پر امن کی آشا کے علمبردار آٹے میں نمک کی مقدار اور تعداد رکھنے والے طبقے نے تو ضرورشادیانے بجائے ہوں گے۔ شاید جج صاحب کا مدعا بھی یہی تھا۔ بڑے لوگوں کے بدن پر جو جبہ اور سروں پر دستار سجی ہے وہ آزاد پاکستان کی بدولت ہی ہے۔ اسی سیمینار میں مسٹر جسٹس تصدق حسین جیلانی نے بھارتی شاعر جاوید اختر کی نظم بھی پڑھ کر سنائی جس میں سرحدوں کی نفی کا تصور پیش کیا گیا ہے....
”پنچھی، ندیاں اور پون کے جھونکے “
”کوئی سرحد انہیں نہ روکے“
”سرحدیں تو انسانوں کے لئے ہیں“
” سوچو تم نے اور میں نے کیا پایا انسان ہوکے“
لوگ فون پر اعتراض اور احتجاج کر رہے ہیں۔ ان کو سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں کہ یہ جج صاحب کے ذاتی خیالات ہیں جواب آتا ہے ایسے ذاتی خیالات اپنی ذات تک محدود رکھیں پاکستان کی شہ رگ بھارت کے پنجہ استبداد میں ہونے اور اس کی سفاک سپاہ کی طرف سے کشمیریوں کا خون بہانے تک امن کی آشا چہ معنی دارد۔ علامہ ملک خادم حسین رضوی نے رنجیدہ لہجے میں مختصر سا تبصرہ کیا۔کڑ کڑ کتھے، انڈے کتھے۔ بھارت سے پیار کرنے والے وہیں جابسیں۔ 
جسٹس افتخار محمد چودھری نے نئے قومی عدالتی سال کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے یہ کہہ کر کئی لوگوں کے سنہرے مستقبل کے خواب چکنا چور کردئیے کہ ریٹائرڈ جج2سال تک سرکاری ملازمت قبول نہ کریں۔قانون اور آئین کے ماہرین کی بھی یہی رائے ہے۔چیف جسٹس صاحب کا روئے سخن غالباً جسٹس(ر) جاوید اقبال کی طرف ہے۔ جسٹس جاوید اقبال 10مارچ2007 کے بعد تھوڑا لڑ کھڑائے،ڈگمگائے پھر سنبھلے اور بالآخر ثابت قدمی سے جسٹس افتخار کے شانہ بشانہ ہوگئے۔وہ تیس جولائی 2011کو ریٹائر ہوئے پہلا بیان ہی حکومت کی حمایت میں دیدیا۔پنجاب بار کونسل کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا”حکومت اور عدلیہ میں کوئی محاذ آرائی نہیں یہ بات صر ف میڈیا تک ہے، عدالتی فیصلوں پر عمل درآمد میں تاخیر ضرور ہوئی ہے لیکن حکومت بیشتر عدالتی فیصلوںپر عمل درآمد کر رہی ہے۔حکومت نے سپریم کورٹ کے کسی فیصلے کو رد نہیں کیا،یہ تاثر غلط ہے کہ حکومت سپریم کورٹ کے فیصلوں کو نہیں مانتی۔“
شاید اسی بیان کے پیش نظر حکومت نے ان کو چیئر مین نیب بنانے پر کمر کس لی۔ جج صاحب پھر ڈگمگاتے نظر آتے ہیں شاید اپنے ساتھی کے مشورے پر سنبھل جائیں۔
آج ہمیں عدلیہ آزاد اور غیر جانبدار نظر آرہی ہے۔خدا کرے ہمیشہ ایسی رہے۔لیکن ایک کھٹکا سا لگا رہتا ہے کہ عدلیہ کی آزادی،غیر جانبداری اور جرات رندانہ جسٹس افتخار کی ریٹائرمنٹ کے ساتھ ہی معدوم نہ ہوجائے!



Monday, September 12, 2011

نائن الیون---اور قائد کا پاکستان

 پیر ، 11 ستمبر ، 2011


نائن الیون---اور قائد کا پاکستان
فضل حسین اعوان
قائد اعظم نے 64 سال قبل پاکستان کو انگریز کی غلامی سے آزاد کرایا اور ہندو کی غلامی میں جانے سے بچایا۔ 10 سال قبل امریکہ کے نائن الیون کے بعد جنرل پرویز مشرف نے پاکستان کو امریکہ کی غلامی میں دیدیا۔ آزادی کے بعد پاکستان نے قائد اعظم کی قیادت میں جس طرح اٹھان اور اڑان پکڑی تھی۔ اس کے مطابق ہم محو پرواز رہتے تو پاکستان ترقی و خوشحالی کے آسمان پر درخشندہ و تابندہ ستاروں کی طرح جگمگ جگمگ اور جھلمل جھلمل کر رہا ہوتا۔ قائد اعظم کے سانحہ انتقال و ارتحال کے بعد معاملات کھوٹے سکوں کی دستبرد میں آئے تو ترقی و خوشحالی کی رفتار تھم سی گئی۔ ستاروں پر کمند ڈالنے کے جذبے معدوم ہونے لگے۔ اس کے بعد جو کچھ ہوا اسے ترقی کا نام دیا گیا۔کامیابیوں کے عشرے منائے گئے۔ اسے ارتقا سے زیادہ کا نام نہیں دیا جا سکتا۔ چین پاکستان سے بعد میں آزاد ہوا۔ بہت سے معاملات میں اس کا دو دہائیوں تک پاکستان پر انحصار رہا۔ اس نے ارتقا یا بتدریج ترقی کے عمل کو زقندیں بھر کر روندتے ہوئے ہمارے قائد کے فرمان ”کام کام اور صرف کام کو“ حرز جاں بنا لیا تو آج اس کی ترقی کی معراج کو دیکھیے۔ ہم نے ”کام کام اور صرف کام“ کے بجائے آرام آرام اور صرف آرام کو مطمح نظر بنایا تو پستی کے انجام کو دیکھیے۔ آج دنیا میں ہمارا اگر نام ہے تو کرپشن جیسی لعنت میں سرفہرست ہونے میں، فراڈ میں، حج اور عمرے جیسے مقدس فریضے میں بھی کمشن کمانے میں، عدلیہ اور فوج جیسے اداروں کا مضحکہ اڑانے میں، پی آئی اے، ریلوے اور سٹیل ملز جیسے اداروں کا بھٹہ بٹھانے میں، انسانوں کی سوداگری اور عافیہ جیسی خواتین کو بیچ کھانے میں، پاکستان کی شہ رگ پر قابض ازلی و ابدی دشمن کے ساتھ تعلقات بڑھانے اور اسے وارفتگی سے گلے لگانے میں۔
جنرل مشرف امریکہ کی جنگ میں کودے، یہ ان کی بزدلی اور ذاتی مفاد پر مبنی فیصلہ تھا۔ 2008ءکے الیکشن میں آمریت سے چھٹکارا ملا، قوم شاداں و فرحاں تھی۔ سلطانی جمہور کے سہانے سپنے سجائے اس کے ثمرات سمیٹنے کے لئے بے تاب تھی لیکن یہ سہانے خواب اس وقت چکنا چور ہو گئے جب جمہوریت کی بحالی اور ملک کو خوشحالی کی منزل مراد پر پہنچانے کے دعویداروں نے امریکی جنگ میں خود کو مشرف کا جانشیں ثابت کر دیا۔ دس سال سے قائد اعظم کے پاکستان کے وجود سے خون رس رہا ہے۔ اس کی پُر بہار فضائیں بارود سے دھواں دھواں ہیں۔ اس کی حسین وادیوں کا حسن آپریشنوں، بم دھماکوں اور ڈرون حملوں سے ماند پڑ گیا ہے۔ ملک میں اگر کسی کی جان محفوظ ہے تو وہ صدر اور وزیر اعظم ہیں جن کی زندگی جہاز میں یا غیر ملکی دوروں میں کٹ رہی ہے۔ کمشن بنانے اور مال کمانے کا مقابلہ جاری ہے۔ غریب کو پیٹ بھرنے کے لئے روزی میسر نہیں۔ وزیروں، مشیروں اور امیروں کو غیر ملکی اکاﺅنٹ بھرنے سے فرصت نہیں۔ آج پاکستان کے آدھے مسائل کی وجہ کرپٹ حکمرانی اور باقی آدھے کی امریکہ کی جنگ کا وہ ڈھول ہے جسے ہمارے حکمران برضا و رغبت اپنے گلے میں ڈال کر دس سال سے پیٹتے چلے آ رہے ہیں۔ بلاشبہ جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات ہوتی ہے۔ لیکن ہم کمزورکہاں؟ ہم تو ایٹمی قوت ہیں۔ ہم بے کس، بے بس، مفلس، معذور و مجبور بھی نہیں ہےں۔ پھر ہمارا جرم کیا ہے؟ ہمارا جرم بے حسی ہے، بے دلی و بزدلی ہے۔ امریکی ناروا و نارسا تقاضوں کے سامنے بھیگی بلی بن جانا ہے۔ ڈالروں پر نظر ہے۔ چھٹتے نہیں ہیں منہ کو یہ کافر لگے ہوئے۔ سب سے بڑا جرم بے حمیتی و بے غیرتی ہے۔ جس کا درس مشرف نے دیا جس پر زرداری حکومت دل و جان سے فدا اور عمل پیرا ہے۔
امریکی جنگ نے پاکستان کی معیشت ڈبو دی، پورے ملک کو بارود کا ڈھیر، پُر خطر اور غیر محفوظ بنا دیا ۔ یہ جنگ وطن عزیز کے لئے ناسور بن گئی۔ امریکہ کے حکم پر تعلیمی نصاب تک بدل ڈالا گیا۔ سفارت کاروں کی آڑ میں اس کے دہشت گرد شہر شہر دندناتے پھرتے ہیں۔ اس کے باوجود وہ پاکستان سے ناخوش ہے۔ پاکستانیوں کے امریکہ کے لئے نفرت انگیز احساسات و جذبات پر برآشفقہ برانگیختہ، مشتعل و مضمحل ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ اس کی ستم گری پر، ڈرون حملوں میں لاشیں گرانے پر پاکستانی اشک بار ہونے کے بجائے گلنار و قہقہہ بار ہوں۔ اِدھر زخم لگے، جگر پاش پاش اور کلیجہ چھلنی چھلنی ہو تو اُدھر یہ انسان مسکراہٹیں بکھیرتے نظر آئیں۔ ان کی کراہ میں ترنم، آہ میں تبسم، سوز میں تراوت، سنگ کھا کے بھی زبان پہ اظہار محبت ہو۔
قائد ایسا پاکستان تو نہیں چاہتے تھے۔ وہ خود داری اور خود مختاری کا درس دے گئے ہم بھکاری بن گئے۔ ہم نے آزادی کے بعد 64 سال میں اتنا پایا نہیں جتنا غلامی کے 10 سال میں نائن الیون کے بعد کھو دیا۔ اپنی خود مختاری کھو دی، سالمیت اور استحکام کھو دیا۔ اپنا نام کھو دیا۔ حتیٰ کہ کردار غیرت اور ایمان بھی کھو دیا۔ خدا پاکستان کو قائد اعظم جیسا رہنما عطا فرمائے جو ہم پاکستانیوں کو وہ سب کچھ لوٹا دے جو ہم نے نامراد و ناہنجار حکمرانوں کی نااہلی، نالائقی اور مفاداتی پالیسیوں کے باعث کھویا ہے۔ یقین کیجئے یہ جو آج بچا کھچا پاکستان ہے یہ قائد اعظم اور پاکستان سے محبت کرنے والوں، اس پر جاں قربان کرنے والوں اور جانثاری کا جذبہ رکھنے والوں کا ہے۔ ان کا نہیں جو حکمران بن کر اسے نوچ نوچ کر کھاتے ہیں یا جوج ماجوج کی طرح اسے چاٹ جاتے ہیں۔ خدا قائد کے پاکستان کو تاقیامت سلامت اور مفاد پرستوں سے محفوظ رکھے!



Thursday, September 8, 2011

انسانیت کے سوداگر

جمعرات ، 08 ستمبر ، 2011


انسانیت کے سوداگر
فضل حسین اعوان 
اگست کے آخر میں امریکہ نے وزیرستان میں القاعدہ رہنما عطیہ عبدالرحمن کو ڈرون حملے میں قتل کرنے کا دعویٰ کیا۔ پاکستانی مجاز حکام اس کی تصدیق کرنے کے لئے تیار نہیں۔ عطیہ عبدالرحمن مبینہ طور پر مارے گئے تو کہا گیا کہ لیبیا سے تعلق رکھنے والے اس مجاہد کو القاعدہ میں اسامہ بن لادن کے بعد دوسری پوزیشن حاصل تھی۔ ایسا کہنے والوں کی نظر میں ایمن الظواہری کا کیا مقام ہے؟ گرفتاری یا ہلاکت کے بعد القاعدہ اور طالبان کا ہر رہنما اہم ترین ہو جاتا ہے۔ کسی کو پہلے درجے کا، کسی کو دوسرے اور تیسرے درجے کا رہنما قرار دیا جاتا ہے۔ اپنی کارروائیوں کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنے میں ہماری حکومتیں بھی امریکہ سے کچھ پیچھے نہیں۔ جس اعلیٰ سطح کے القاعدہ طالبان رہنماﺅں کی ہلاکتوں اور گرفتاریوں کے دعوے کئے گئے ہیں اگر ان میں صداقت ہوتی تو اب تک القاعدہ اور طالبان کا وجود صفحہ ہستی سے مٹ چکا ہوتا۔
گزشتہ روز امریکی اور پاکستانی حکومتوں کی طرف سے ایک بار پھر مشترکہ دعویٰ، کامیابی، کامرانی اور شادمانی کا دعویٰ سامنے آیا ہے کہ: ”آئی ایس آئی اور ایف سی بلوچستان نے امریکی تعاون سے مشترکہ آپریشن کے دوران کوئٹہ سے یونس الموریطانی سمیت القاعدہ کے تین اہم کمانڈروں کو گرفتار کر لیا ہے۔ کوئٹہ کے نواح سے گرفتار القاعدہ رہنماﺅں میں عبدالغفار الشمسی اور میثار الشمسی شامل ہیں۔ آئی ۔ایس۔ پی۔ آرکے مطابق یونس الموریطانی القاعدہ کے بین الاقوامی آپریشنوں کی منصوبہ بندی اور اس پر عمل درآمد کا انچارج تھا اور امریکہ میں گیس پائپ لائن اور ڈیمز کو نشانہ بنانے سمیت عالمی پانیوں میں آئل ٹینکرز کو سپیڈ بوٹس سے دھماکہ خیز مواد کے ذریعے نشانہ بنانے کی منصوبہ بندی کر رہا تھا۔ یہ آپریشن امریکی خفیہ ایجنسیوں کی تکنیکی معاونت کے ساتھ کیا گیا۔ آئی ایس آئی اور امریکی انٹیلی جینس ایجنسیز کے درمیان مضبوط اور تاریخی تعلقات ہیں۔ اپنے اپنے ملکوں کی سیکورٹی بڑھانے کے لئے باہمی تعاون جاری رکھیں گے“۔ بیان میں مزید کہا گیا کہ پاکستان اور امریکہ کی انٹیلی جینس ایجنسیوں کے درمیان تعاون کی بدولت نہ صرف پاکستان اور امریکہ بلکہ باقی دنیا میں بھی دہشت گردی کی کئی بڑی کارروائیوںکو روکنے میں مدد ملی ہے۔ دوسری طرف وائٹ ہاﺅس نے گرفتاریوں کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستانی خفیہ ایجنسی اور سیکورٹی فورسز کی کارروائی قابل ستائش ہے۔ وائٹ ہاﺅس کے ترجمان جوز ارنسٹ نے میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ یہ کارروائی پاکستان اور امریکہ کی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں دو طرفہ کثیر الجہتی تعاون کی مثال ہے۔ امریکہ کی قومی سلامتی کونسل کے سربراہ ٹومی ویٹر نے بھی کہا ہے کہ پاکستانی انٹیلی جینس اور سیکورٹی فورسز کی کارروائی کو سراہتے ہیں۔ گرفتاریاں پاکستان امریکہ پارٹنر شپ کی اچھی مثال ہے۔
یونس الموریطانی کی القاعدہ میں اہمیت اور امریکہ و مغرب کے لئے خطرناک ہونے کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے۔ اُن کا نام امریکہ کو مطلوب افراد کی لسٹ میں شامل تھا نہ اُن کے سر کی کوئی قیمت رکھی گئی تھی۔ یہ لوگ کوئٹہ میں بیٹھ کر بین الاقوامی آپریشن کی منصوبہ بندی کر رہے تھے۔ یہ جرم ٹھہرا ان کا۔ انٹیلی جینس ایجنسیوں نے شاید ان کی سوچ پر پہرے بٹھا رکھے تھے۔ یہ الزام کسی پر کسی بھی وقت لگ سکتا ہے۔ ہم نے ثابت کر دیا کہ امریکہ اور پاکستان کے درمیان بہترین انٹیلی جینس شیئرنگ ہو رہی ہے۔ یہ بھی ثابت کر دیا کہ آئی ایس آئی اور سی آئی اے کے درمیان مضبوط اور تاریخی تعلقات ہیں۔ کل تک امریکہ اور اس کی ایجنسیاں پاکستان اور اس کی ایجنسیوں پر اعتماد کرنے کے لئے تیار نہیں تھیں۔ اس واقعہ نے امریکیوں کو مطمئن کر دیا، وہ شاباش دے رہے ہیں۔ کب تک؟ شاید کل تک ۔ اس کے بعد پھر الزام اور الزام سے بڑھ کر دشنام طرازی شروع ہو جائے گی۔ ایسی ہی مزید گرفتاریوں کے مطالبات ہوں گے۔ حقانی نیٹ ورک پر قابو پانے پر دباﺅ ڈالا جائے گا۔ کوئٹہ میں موجود خیالی طالبان شوریٰ کے خلاف آپریشن کے لئے زور ڈالا جائے گا۔
پہلے خبر آئی تھی کہ موریطانی اور ساتھیوں کو امریکہ کے حوالے کر دیا گیا ہے۔ اب لیون پنیٹا کا بیان سامنے آیا ہے کہ ہم یونس الموریطانی اور اس کے ساتھیوں تک رسائی کی کوشش کریں گے۔ یونس الموریطانی اور اس کے ساتھیوں نے امریکہ کے خلاف کوئی جرم نہیں کیا۔ ان کو امریکہ کے حوالے کرنے کا کوئی جواز نہیں؟ ان کی پاکستان میں موجودگی غیر قانونی ہو سکتی ہے۔ ان کی سرگرمیاں پاکستان کی سلامتی اور سالمیت کے لئے خطرناک نہیں ہو سکتیں۔ ان کا پاکستان میں ہی ٹرائل ہونا چاہئے۔ سزا دی جائے اور ان کو ان کے ملک کے حوالے کر دیا جائے۔ یہ بھی معلوم نہیں کہ وہ کوئٹہ میں چھپے ہوئے تھے یا چھپائے گئے تھے۔ بہرحال امریکہ کو کوئٹہ میں ڈرون حملوں کا ایک اور جواز فراہم کر دیا گیا۔ جس کا وہ مطالبہ کرتا رہتا ہے۔ الموریطانی کو امریکہ کے حوالے کیا گیا تو یہ انسانوں اور انسانیت کی سوداگری کی ایک اور مثال ہو گی۔
انسانوں کی سوداگری کا سلسلہ بینظیر بھٹو کے دوسرے دورِ حکومت سے شروع ہوا جب رمزی یوسف کو 1995ءمیں امریکہ کے حوالے کر دیا گیا۔ ان پر 1993ءکے ورلڈ ٹریڈ سنٹر پر حملے میں ملوث ہونے کا الزام تھا۔ ان کو زندگی بھر قید کی سزا سنائی گئی۔ مئی 1997ءمیں نواز شریف دور میں ایمل کانسی کو سردار فاروق خان لغاری کے شہر ڈی جی خان سے پکڑ کر امریکہ کے حوالے کیا گیا تھا۔ فاروق لغاری ان دنوں صدر مملکت تھے۔ مشرف دور میں انسانوں کی سوداگری اور تجارت زوروں پر رہی۔ انہوں نے خود امریکہ کے ہاتھ پاکستانیوں کی فروخت کا اعتراف کیا۔ ایمل کانسی کو امریکہ نے سزائے موت سنائی اس پر عمل کیا اور میت پاکستان کے حوالے کر دی۔ مقدمہ کے دوران امریکی وکیل نے کہا تھا ”پاکستانی ڈالروں کے لئے اپنی ماں بھی بیچ دیتے ہیں“۔ جس کا پاکستان میں شدید ردعمل ظاہر کیا گیا۔ تاہم مشرف اور ان کی حکومت نے عافیہ صدیقی کو امریکہ کے ہاتھ فروخت کرکے ثابت کر دیا کہ کم از کم حکمرانوں کی حد تک پر امریکی وکیل کا تجزیہ درست تھا۔ دیکھئے الموریطانی اور ساتھیوں کو ہمارے حکمران امریکہ کو فروخت کر دیتے ہیں یا خود مختاری کا مظاہرہ کرتے ہوئے انہیں ان کے آبائی ممالک کے حوالے کرتے ہیں؟ تمام تر خرافات کی موجودگی کے باوجود موجودہ حکومت نے ساڑھے تین سال میں کوئی بھی فرد امریکہ کے حوالے نہیں کیا۔ یہ ریکارڈ نہ ٹوٹے تو بہتر ہے۔



Tuesday, September 6, 2011

ہندو ذہنیت مسئلہ کشمیر اور پاکستان بھارت تعلقات


 منگل ، 06 ستمبر ، 2011


ہندو ذہنیت مسئلہ کشمیر اور پاکستان بھارت تعلقات
فضل حسین اعوان
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ر ±تیں اور موسم ضرور بدلتے ہیں۔ قانون قدرت اور اصولِ فطرت میں کوئی تبدیلی نہیں آتی۔ اخلاقیات بدلتی ہیں نہ اخلاقی ضوابط و قواعد۔ گزرتا زمانہ کسی کو اس کے حق سے محروم کرتا ہے نہ کسی کے جبر و قہر اور قبضے کو سند استحقاق بخشتا ہے۔ تقسیم ہند کے قواعد کے مطابق پورا کشمیر پاکستان کا حصہ ہے۔ قائد اعظم محمد علی جناح نے اسے پاکستان کی شہ رَگ قرار دیا تھا۔ کوئی بھی ذی ر ±وح شہ رَگ کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا ہے۔ پاکستان کی بقا سلامتی و سا لمیت کا انحصار اپنی شہ رَگ پر ہے۔ جو بدقسمتی سے 64 سال بعد بھی پاکستان کے اَزلی دشمن کے قبضے میں اور اس کے رحم کرم پر ہے۔ کشمیریوں کا شروع سے نعرہ ”کشمیر بنے گا پاکستان“ ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو نے کہا تھا کشمیر پر ہزار سال تک بھی جنگ لڑنا پڑی تو لڑیں گے۔ ان کے جانشین اقتدار کی جنگ میں ا ±لجھ گئے۔ البتہ آزاد کشمیر میں پیپلز پارٹی کے صدر سردار یعقوب نے کہا ہے کہ کشمیری اگلے سو سال تک بھی ”کشمیر بنے گا پاکستان“ کے موقف سے دستبردار نہیں ہوں گے۔ کشمیری ہندو بنیئے کی غلامی سے آزادی کی خاطر اپنی گردنیں کٹوا رہے ہیں۔ شہدائے کشمیر کی تعداد دو لاکھ سے تجاوز کر چکی ہے۔ معذور ہونے والے اس سے د ±گنا ہیں۔ سات لاکھ بھارتی افواج کے ہاتھوں کشمیریوں کی جان و مال محفوظ ہے نہ حرمت و آبرو، وہ الحاق پاکستان کے لئے قربانیاں دیئے جا رہے ہیں۔ کشمیر کے پاکستان بننے کے حسین خواب سجائے، جدید اسلحہ سے لیس اور گولہ بارودمیں بہتات کی حامل بھارتی فوج کے ساتھ برسر پیکار ہیں۔ وہ نہیں تھکے، ہم تھک گئے، ان کے اعصاب اور قویٰ جوان و تنومند ہیں۔ ہمارے اعصاب پر بھارت کے ساتھ دوستی کے شوق میں بڑھاپا طاری ہو گیا۔ قائداعظم انتہائی متحمل مزاج اور سیاست میں جارحیت کے قطعاً قائل نہیں تھے۔ انہوں نے ایک دن بھی جیل جائے بغیر اپنی اہلیت صلاحیت اور اصولی سیاست کے بل بوتے پر عظیم ترین نظریاتی اسلامی مملکت کا حصول ممکن بنا دیا۔ لیکن جب انہوں نے دیکھا کہ کشمیر کی آزادی طاقت کے بغیر ممکن نہیں تو جنرل گریسی کو کشمیر پر قبضے کا حکم دیدیا۔ بوجوہ جنرل گریسی نے حملہ سے گریز کیا۔ قائد اعظم کو زندگی نے مہلت نہ دی۔ قائد چند سال مزید سربراہ ریاست رہتے تو یقینا مسئلہ کشمیر حل ہو جاتا۔ اس کے بعد سے بھارت نے مذاکرات کا ایسا جال بچھایا جس میں ہماری سیاسی اور فوجی حکومتیں و قیادتیں ا ±لجھ کر رہ گئیں۔ بھارت اپنے اٹوٹ انگ کے موقف پر قائم ہے۔ پھر مذاکرات کس بات پر؟ وہ تو 1948ءمیں اقوام متحدہ میں کشمیریوں کے لئے حق استصواب کو تسلیم کرکے آیا تھا۔ اب تک تو استصواب ہو جانا چاہیے تھا۔ بھارت نے اس کے برعکس 1954ءمیں اپنے آئین میں ترمیم کرکے مقبوضہ کشمیر کو بھارتی صوبے کا درجہ دیدیا۔ ہندو بنیا تو اکھنڈ بھارت کے ایجنڈے پر عمل پیرا ہے۔ ہم اس سے مذاکرات کی توقعات لگائے بیٹھے ہیں۔ اس کے ساتھ مذاکرات سے آزادی کشمیر کی توقعات بے سود اور مذاکرات لاحاصل اور فضول ہیں۔ مذاکرات وزرائے اعظم کی سطح پر بھی ہوں۔ کیا کسی بھارتی وزیر اعظم میں یہ جرا ¿ت ہے کہ وہ پارلیمنٹ کو اس آئینی ترمیم کی تنسیخ پر قائل کر لے جس کے تحت مقبوضہ کشمیر کو بھارت کا صوبہ قرار دیا گیا تھا۔ متعصب ہندو پارلیمنٹرین بلا امتیاز حکومتی یا غیر حکومتی ایسی سوچ کا اظہار کرنے والے وزیر اعظم کی تکا بوٹی کر دیں گے۔ میاں نواز شریف کو واجپائی سے مسئلہ کشمیر کے حل کی بڑی امیدیں تھیں۔ وہی واجپائی جو جنرل مشرف کے دورہ بھارت پر مشترکہ اعلامیہ جاری کرنے پر بے بس تھے۔ وہ کشمیر پر اتنا بڑا فیصلہ کرنے کی پوزیشن میں کیوں کر ہو سکتے تھے؟ افسوس کہ ایسے دانشور بھی پیدا ہو گئے جو مسئلہ کشمیر کو پرانا قرار دیکر اس سے جان چھڑانا چاہتے ہیں۔ المیہ یہ بھی ہے کہ پاکستان کی قابل ذکر سیاسی و مذہبی جماعتیں کسی اور مسئلے اور بات پر متفق ہوں نہ ہوں۔ مسئلہ کشمیر کی موجودگی کے باوجود بھارت کے ساتھ تعلقات پر ضرور ایک جیسی سوچ رکھتی ہیں۔ اے این پی، متحدہ قومی موومنٹ، جمعیت علمائے اسلام نے بھارت کے لئے نیک خواہشات کبھی نہیں چھپائیں۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ( ن) کبھی پاکستان اور بھارت کے مابین ویزے کے خاتمے کی اور کبھی سرحدیں ہٹانے کی بات کرتی ہیں۔ آزادی کشمیر کا ذکر گول مول طریقے سے محب وطن پاکستانیوں کے اشتعال سے بچنے کے لئے کر دیا جاتا ہے۔ مستقبل کی امید عمران خان بھی بھارت کے ساتھ اچھے تعلقات کی سوچ کے اسیر ہیں۔ آج بھی بھارت کے ساتھ تجارت جاری ہے۔ وہ بھی خسارے کی۔ گزشتہ مالی سال کے دوران ایک ارب 20 کروڑ روپے کا خسارہ ہوا۔ وفود کے تبادلے ہو رہے ہیں۔ آج بھی 18 پارلیمنٹرین کا وفد بھارت یاترا پر ہے۔ کہا گیا ہے کہ کشمیر پر بھی بات چیت کرے گا۔ مسئلہ کشمیر پر بھارت کی طرف سے مذاکرات منافقت ہے۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ مذاکرات کا کوئی نتیجہ نہیں نکلے گا پھر بھی بھارت کے ساتھ مذاکرات کی میز پر جا بیٹھنا ہی منافقت ہے۔ ہمارے پارلیمنٹرین بھی بھارت جا کر یہی کچھ کر رہے ہیں۔
بھارت کی ثقافتی یلغار کھیل اور فلموں کے ذریعے نئی نسل کو برباد کر رہی ہے۔ اس سے شاید بڑے بوڑھے بھی متاثر ہو گئے ہیں۔ ثقافت کے حوالے سے ان کی سوچ فلموں، گانوں، ڈراموں تک محدود ہو گئی ہے۔ اس لیے ہماری اور ان کی ثقافت کو ایک کہا جا رہا ہے۔ اس سوچ سے نہ صرف میڈیا کے کچھ لوگ متاثر ہیں بلکہ اس کو فروغ بھی دے رہے ہیں۔ یہ بھارتی شردھالو?ں کے بڑے کام آ رہے ہیں بلکہ ان کی راہیں آسان بنا رہے ہیں جو اچھے تعلقات اور نیک خواہشات پہلے تنازعات کے بعد ملنے کی خواہش رکھتے ہیں۔ بھارت کے ساتھ محبتیں بڑھانے اور پیار کی جوت جگانے کی تمنائیں لیے ہوئے دانشور شریعت سے پڑوسیوں کے حقوق کے حوالے ڈھونڈ ڈھونڈ کر لاتے ہیں۔ کیا آپ اس پڑوسی کے گلے میں بانہیں ڈال کر رقصاں ہوں گے امن کی آشا کا گیت گائیں گے جس کے ایک ہاتھ پٹرول کی بوتل دوسرے میں ماچس ہو اور وہ آپ کے آشیاں کو جلانے کے لئے بے قرار ہو؟ آپ اپنے پیاروں کے قاتل ہمسائے کو پیار بھری نظروں سے دیکھنے کی ہمت رکھتے ہیں؟ ہمسایہ، ہمسایہ تو بنے۔ اس میں انسانیت اور انسانی صفات تو ہوں۔ وہ بھی تو حق ہمسائیگی ادا کرنے پر تیار ہو!۔ یکطرقہ اظہار محبت نہ صرف تحریک آزادی کے شہدا بلکہ کشمیر میں پاکستان کی خاطر جانیں قربان کرنے والوں کے خون کی توہین ہے۔ بھارت نہ صرف کشمیر میں مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیل رہا ہے بلکہ اس نے مشرقی پاکستان کی علیحدگی میں بھیانک اور شرمناک کردار ادا کیا۔ پاکستان ایٹمی طاقت نہ ہوتا تو شاید وہ اسے کچا چبا جاتا۔ اب وہ کھل کر جارحیت سے تو اجتناب کر رہا ہے البتہ پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کے لئے اس کی سازشیں جاری ہیں۔ افغانستان میں اس کے قصبوں تک میں قونصل خانے ہیں۔ یہیں سے فاٹا میں دہشت گردی اور بلوچستان میں علیحدگی پسندوں کی مالی اور اسلحی مدد کی جاتی ہے۔ وزیر داخلہ رحمن ملک نے بلوچستان میں بھارتی مداخلت کے کئی بار دعوے کئے ہیں۔ وزیر اعظم گیلانی نے شرم الشیخ میں وزیر اعظم منموہن سنگھ کو بلوچستان میں RAW کے ملوث ہونے کے ثبوت فراہم کئے تھے۔ منموہن نے مداخلت روکنے کی یقین دہانی کرائی تھی لیکن بے سود۔ فاٹا میں بہت سے لوگ فوج کے ساتھ مقابلے میں مارے گئے جن کو شدت پسند قرار دیا گیا۔ پوسٹ مارٹم کیا گیا تو ثابت ہوا کہ وہ ہندو تھے۔ مہران بیس حملے میں مارے جانے والوں کے بارے میں بھی ایسی ہی رپورٹیں ہیں۔ سندھ حکومت کہہ چکی ہے کہ کراچی کی قتل و غارت میں بھارتی اسلحہ اور بھارتی منصوبہ بندی استعمال ہو رہی ہے۔ پکڑے جانے والے دہشت گردوں نے بھارت سے تربیت حاصل کی۔ اس بھارت کے ساتھ ہم تعلقات غیر مشروط طور پر بہتر بنا لیں؟ شرم کا مقام ہے اسی ماہ ہمارے وزیر تجارت بھارت کو بھارت جا کر "The most favourite Nation" کا درجہ دینے کے لئے بے چین ہیں۔
بھارت کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے میاں نواز شریف کے 14اگست کو سیفما کے اجلاس میں خطاب کے دوران سامنے آنے والے خیالات کے بعد جہاں جہاں وسیع پیمانے پر میڈیا میں ناپسندیدگی کا اظہار ہوا وہیں ا ±ن کی حمایت میں بلاتکان لکھنے والوں کے قلم بھی خاموش رہے۔ سوائے ایک آدھ کے۔ تاہم چند ایک کو میاں نواز شریف کے خیالات کی آڑ میں پاکستان بھارت تعلقات کے پرچار کا موقع ضرور مل گیا۔ کچھ کے ایسے نظریات بدلے کہ ان کو نظریہ پاکستان اور دو قومی نظریہ بھی متنازعہ نظر آنے لگا۔ ایک نے فرمایا: کوئی بھی جنگ نہیں چاہتا، حتیٰ کہ کشمیر کی آزادی اور پانی کے ذرائع کو محفوظ بنانے کے لئے بھی۔ اس دور میں ایٹمی ہتھیار کو استعمال کرنے کی پالیسی کے بارے میں سوچا ہی نہیں جا سکتا۔ ہر کسی کو معلوم ہے کہ کسی بھی طرف سے ایسا ہواتو دونوں کی تباہی یقینی ہے۔ شاید آگے بڑھنے کا واحد راستہ ہٹ دھرم ہمسایہ کے ساتھ تنازعات پر بات چیت ہے۔
اب بات چیت یا مذاکرات کے لئے مزید کتنا عرصہ چاہئے۔ 63 سال کیا مذاکرات کے نام پر بیوقوف بننے کے لئے کافی نہیں۔ مسئلہ کشمیر حل نہ ہوا تو اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ کی شہ رَگ پر بدستور دشمن کا انگوٹھا رہے گا۔ جو 2020ئ میں پاکستان کے حصے کے پانی کا ہر قطرہ روکنے کی صلاحیت حاصل کر لے گا۔ سندھ طاس معاہدے کے مطابق بھارت کو بھیجے جانے والے دریائے راوی، دریائے ستلح اور بیاس میں آج ریت اڑتی ہے۔ 2020ئ کے بعد دریائے سندھ، چناب اور جہلم بھی خشک ہوئے تو پاکستان کو تباہ کرنے کے لئے بھارت کو ایٹمی جارحیت کی ضرورت نہیں رہے گی۔ اس کی آبی دہشت گردی ہی ہمارے لئے ایٹم بم ثابت ہو گی۔ امن کے پجاری جتنا زور پاکستان پر بھارت کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے پر دے رہے ہیں۔ اپنے بھارتی دوستوں کے ساتھ مل کر بھارتی حکومت پر بھی دیں تو شاید پاکستان اور بھارت کے درمیان واحد اور بڑے تنازع ”مسئلہ کشمیر“ کے حل کی راہیں نکل آئیں۔ پاکستان کی موجودہ سیاست کے تناظر میں تو مسئلہ کشمیر کے حل کی کوئی تدبیر نظر نہیں آتی۔ پاکستان کی سیاست میں کبھی ٹھہرا? نہیں رہا۔ کچھ بھی یقینی نہیں ہے۔ حالات بدلتے دیر نہیں لگتی۔ مسئلہ کشمیر پر ہماری گزشتہ حکومتیں کمیٹڈ تھیں نہ آج کی حکومت ہے۔ امید رکھتی اور دعا کرنی چاہیے کہ ایسے حالات ہوں، ایسی حکومت اور حکمران آئے جو کشمیر کے حوالے سے کمیٹڈ ہو۔ مسئلہ کشمیر مذاکرات سے حل کرا دے یا قائد اعظم کی پیروی کرتے ہوئے آزادی کشمیر کا معاملہ فوج کے سپرد کر دے۔ آخری آپشن ایٹمی قوت کا استعمال ہے۔ یہ بھی کرنا پڑے تو گریز نہ کرے۔ بھوک اور پیاس سے ایڑیاں رگڑ کر مرنے سے بہتر ہے دشمن سے لڑ کر مر جائے۔ آئندہ نسلوں کی بقا کے لیے، یہ سودا مہنگا نہیں ہے۔ مسلمان مرنے سے نہیں ڈرتا۔ شہادت تو مردِ مومن کا مقصود ہے۔ شہادت کی موت اس کی محبوبہ ہے۔ ہندوجنگ اورموت دونوں سے بدکتا ہے اب مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے ایٹم بم نکالیں تو سہی۔ اس کی جھلک ہی بنیئے کی دھوتی گیلی کرنے کے لئے کافی ہو گی۔ چلانے کی نوبت نہیں آئے گی۔

Monday, September 5, 2011

پاکستان بھارت تعلقات


پیر ، 05 ستمبر ، 2011


پاکستان بھارت تعلقات
فضل حسین اعوان 
جناب عطاءالحق قاسمی کا وہ متنازعہ کالم جس کا جواب نوائے وقت میں جناب سعید آسی نے دیا، اس میں قاسمی صاحب نے یہ بھی لکھا تھا....”وقت کی شدید ترین ضرورت کہ ایک دوسرے کے قریب آیا جائے۔ پاکستان اور ہندوستان کے درمیان ویسے ہی تعلقات قائم ہوں جیسے تعلقات قائد اعظم محمد علی جناح چاہتے تھے۔ ان کی تو خواہش تھی کہ وہ سال میں چند ہفتے بمبئی میں گزارا کریں“.... قاسمی صاحب کے ان خیالات پر بحث کا ایک سلسلہ چل نکلا۔ اس پر سب سے پہلے جناب ڈاکٹر صفدر محمود نے خیال آرائی اور بعد ازاں جناب مجیب الرحمن شامی نے ڈاکٹر صاحب کے خیالات کی نفی میں طبع آزمائی فرمائی۔ آسی صاحب نے پاکستان بھارت تعلقات کے حوالے سے قاسمی صاحب کے 18اگست کے کالم ”میاں نواز شریف، سری پائے اور بھولا ڈنگر“ کا مدلل جواب دیا تھا۔ قاسمی صاحب نے اس کا جواب جناب مجید نظامی صاحب کے نام خط میں دیا۔ ساتھ ہی اصرار بھی کیا کہ اسے نوائے وقت میں پورے ”تزک و احتشام“ کے ساتھ شائع کیا جائے۔ ان کی خواہش پوری کی گئی حالانکہ اس میں انہوں نے بقول ان کے ان کی تربیت کرنے والے پر طعن و تشنیع کے جتنے تیر ان کی ترکش میں تھے برسا دیئے تھے۔ وہ آسی صاحب کے کالم کا جواب اپنے اخبار میں ہی لکھ دیتے تو کافی تھا۔ آسی صاحب نے اپنا کالم جنگ میں شائع کرانے کی خواہش کی نہ درخواست نہ اصرار۔ قاسمی صاحب نے نظامی صاحب کو خط لکھنے کی ضرورت اس لیے محسوس کی کہ بقول ان کے ”مجھے منصور کے پردے میں خدا بولتا نظر آیا“ ضروری نہیں جو آپ دیکھتے ہیں، حقیقت بھی وہی ہو، سبز عینک لگا کر دیکھنے سے خزائیں بہاروں میں نہیں بدل جاتیں۔ آشوبِ چشم سے گلستان سیلابوں میں نہیں بہہ جاتے۔ قاسمی صاحب کو جو نظر آیا اسے سچ جان کے مجید نظامی صاحب کی ہجو فرما دی۔میں سعید آسی صاحب کا کولیگ اور مجید نظامی صاحب کے اسی طرح زیر تربیت ہوں جس طرح قاسمی صاحب 35سال نظامی صاحب کے زیر تربیت رہے۔ جس کا انہوں نے خود اپنے خط میں اعتراف کیا ہے۔ خدا نہ کرے میں حضرت علیؓ کے فرمان”جس پر احسان کرو اس کے شر سے بچو“ کی عملی تصویر بن کر نظامی صاحب کے روبرو ہو جاﺅں۔ منصور کے پردے میں قاسمی صاحب کو خدا بولتا اس لیے نظر آیا کہ ان کے دل کے دروازے ایسی ہی آوازیں سننے کے لئے کھلتے ہیں۔ نظامی صاحب کے کشمیر اور کشمیریوں کے حوالے سے خیالات و جذبات اظہر من الشمس ہیں۔ وہ خود کو بم باندھ کر بھارت پر گرانے کی بات کرتے ہیں تو دراصل وہ کہہ رہے ہوتے ہیںکہ مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے ہمیں جو بھی قربانی دینا پڑے جان کی اور مال کی‘ گریز اور دریغ نہیں کرنا چاہیے‘ اس کا قاسمی صاحب کو بھی مکمل ادراک ہے لیکن کمپےنیئنز کو خوش کرنے کے لیے انتہائی مضحکہ خیزی سے کام لیتے ہوئے فرمایا: 
”آپ اسے میری بزدلی اور مصلحت اندیشی کہہ لیں کہ میں آپ کی طرح اپنی کمر کے ساتھ ایٹم بم باندھ کر انڈیا پر گرنے کی بات نہیں کر سکتا کیونکہ ایک تو لاکھوں انسانوں کو مارنے کے تصور ہی سے میں لرز جاتا ہوں اور دوسرے اس لئے کہ ایٹم بم نابینا ہوتا ہے۔ انڈیا میں 18 کروڑ مسلمان بھی رہتے ہیں سو وہ جب گرے گا تو دوسرے مذاہب کے بے گناہ شہریوں کے علاوہ مسلمان بھی اس کی زد میں آئیں گے۔ لہٰذا میری درخواست ہے کہ خدارا آپ اپنی اس خواہش کو فی الحال عملی جامہ نہ پہنائیں مجھے دوسرے لاکھوں لوگوں کی طرح بلکہ ان سے بھی زیادہ آپ کی زندگی عزیز ہے۔ اللہ تعالیٰ آپ کو عمر خضر عطا فرمائے۔“ اس سلسلے کو آگے بڑھاتے ہوئے لکھتے ہیں:
”محترم نظامی صاحب! جو شخص بادل نخواستہ ادارہ نوائے وقت چھوڑنے پر مجبور ہو جائے تو کیا وہ دائرہ حب الوطنی سے بھی خارج ہو جاتا ہے اور اگر خارج ہو جاتا ہے تو میں تو ابھی تک آپ کی دعوت پر آپ کے زیر اہتمام منعقد ہونے والے یوم اقبال میں باقاعدگی سے شرکت کر رہا ہوں اگر آپ ایسا نہیں سمجھتے تو براہ کرم آپ آئندہ کسی اکھنڈ بھارتی کو اس تقریب میں مدعو نہ کریں۔ میں نے اپنی زندگی کے بہترین 35 سال نوائے وقت کو دئیے اور اب گذشتہ دس برس سے ”جنگ“ سے وابستہ ہوں۔ اس کا مالک اپنی حب الوطنی کا ڈھنڈورا نہیں پیٹتا لیکن سالہا سال سے پاکستان اور جمہوریت کے استحکام کے لئے حکمران طبقوں کے خلاف برسر پیکار ہے اور اب تک اربوں روپے کا نقصان برداشت کر چکا ہے۔ “
بتائیے قاسمی صاحب نے اس شخصیت کے ”احترام“ میں کوئی کسر چھوڑی جس نے ان کو کالم نگاری کی ابجد سکھائی؟ ۔ اب ہو سکتا ہے کہ ان کا دعویٰ ہو کہ وہ پیدائشی کالم نگار تھے۔35 سال نوائے وقت پر انہوں نے احسان کیا‘ نہ اب میں کر رہا ہوں‘ ہر پہلی پر باقاعدگی سے تنخواہ لیتا ہوں‘ یہ نوائے وقت کا مجھ پر احسان ہے۔ میری جناب قاسمی صاحب سے دعا سلام ہے نہ کبھی ملاقات ہوئی۔ اگر وہ میرے نام سے واقف ہیں تو صرف اس لئے کہ میں نوائے وقت میں کالم لکھتا ہوں۔ اگر وہ پہلے واقف نہیں تھے تو اب تعارف ہوگیا۔
اب اصل موضوع کی طرف لوٹتے ہیں۔ پاکستان بھارت تعلقات۔ ڈاکٹر صفدر محمود نے قاسمی صاحب کے خیالات پر آرٹیکل لکھا فرماتے ہیں:
”گزشتہ دنوں ملک کے ممتاز کالم نگار جناب عطاء الحق قاسمی صاحب نے اپنے کالم میں لکھا تھا کہ قیام پاکستان کے بعد”قائد اعظم کی خواہش تھی کہ وہ سال میں چند ہفتے بمبئی میں گزار ا کریں“۔ مجھے یہ بات انہونی سی لگی چنانچہ میں اس تاثر کا کھوج لگانے کی کوشش کرتا رہا۔ بلاشبہ قائد اعظم ہندوستان سے دوستانہ تعلقات کی خواہش رکھتے تھے اور آج بھی پاکستانیوں کی بڑی تعداد ہندوستان سے برابری کی سطح پر دوستانہ تعلقات کی آرزو رکھتی ہے لیکن اس آرزو کے راستے میں جتنی رکاوٹیں ہیں ان کا ہمیں اچھی طرح ادراک ہے۔ اول تو قائد اعظم پاکستان کے گورنرجنرل اور سربراہ مملکت بن کر بمبئی میں ہر سال چند ہفتے گزارنے کی خواہش رکھتے ہوں ناقابل یقین بات لگتی ہے کیونکہ وہ سات اگست1947ءکوپاکستان آئے ا ور چھ اگست کی شام وہ اپنے دوست کے ساتھ اپنی مرحومہ بیوی مریم (رتی) کی قبر پر دیر تک بیٹھے رہے۔ان کی آنکھوں سے آنسو رواں تھے اور انہوں نے اپنے دوست سے کہا کہ میں رتی کو خدا حافظ کہنے آیا ہوں جس کا مطلب یہ تھا کہ وہ دوبارہ بمبئی نہیں آسکیں گے۔ پنجاب میں تو سکھوں نے مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلی تھی لیکن دہلی، سہارن پور، یوپی وغیرہ میں ہندوو¿ں نے جس طرح مسلمانوں کا خون بہایا، عورتوں کی عصمتیں لوٹیں اور مسلمانوں کو گھروں میں جلایا اور یہ سب کچھ حکومتی نگرانی میں ہوا اس نے قائد اعظم پر گہرے اثرات مرتب کئے۔بمبئی میں ہر سال ہفتے گزارنا تو کجا قائد اعظم ہندوستان کی سرزمین پر قدم رکھنا بھی گوارا نہیں کرتے تھے جس کا سب سے بڑا ثبوت ان کا ڈھاکہ کا سرکاری دورہ ہے جب قائد اعظم کو بتایا گیا کہ ان کے طیارے کو ری فیول کے لئے دہلی اترنا پڑے گا تو انہوں نے کہا کہ وہ کسی قیمت پر بھی ہندوستانی سرزمین پر قدم نہیں رکھیں گے، چنانچہ ان کے طیارے کے ساتھ فیول دو اضافی ٹینک لگائے گئے تاکہ وہ ہندوستان رکے بغیر ڈھاکہ پہنچ جائیں۔ اس فیصلے میں خطرات مضمر تھے لیکن قائد اعظم نے ان خطرات کو قبول کیا۔ میری ذاتی رائے میں بمبئی ہفتے گزارنے کا تاثر بے بنیاد اور ہوائی ہے لیکن اگر کوئی صاحب اس ضمن میں ثبوت مہیا کرسکیں تو میں ان کا ممنون ہوں گا۔ “
ڈاکٹر صاحب کی وضاحت ہم جیسے پاکستانیوں کے دل کی آواز ہے۔ انہوں نے فرمایا تھا کہ بمبئی میں چند ہفتے گزارنے کے حوالے سے اگر کوئی صاحب اس ضمن میں ثبوت مہیا کر دیں تومیں انہوں کا ممنون ہوں گا۔ ثبوت جناب مجیب الرحمن شامی دور کی کوڑی کی طرح ڈھونڈ لائے۔ ڈاکٹر صاحب ممنون تو تب ہوں گے اگر ثبوت کو مان بھی جائیں گے۔ جناب شامی صاحب نے یہ ثبوت ڈاکٹر صاحب کو پیش نہیں کئے، قاسمی صاحب کو بھجوائے جنہوں نے انہیں اپنے کالم کا حصہ بنایا۔ تاہم شامی صاحب نے 31اگست کو عید والے دن اپنے اخبار میں بھی ”پاک بھارت تعلقات نواز شریف اور قائد اعظم “کے عنوان سے شائع کیا۔ ملاحظہ فرمائیے:
”کئی کرم فرما دو قومی نظریے کا مطلب یہ سمجھ بیٹھے ہیں کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان جنگ کا محاذ ہمیشہ گرم رہے گا اور ان دونوں ملکوں کے درمیان اچھے تعلقات کی بات ایک طرح سے اس نظریے کی نفی ہے۔ آپ (قاسمی صاحب) نے 18اگست کے روزنامہ”جنگ“ میں اپنے کالم میں اس موضوع پر اظہارخیال کرتے ہوئے لکھا تھا”وقت کی شدید ترین ضرورت ہے کہ ایک دوسرے کے قریب آیا جائے اور پاکستان اور ہندوستان کے درمیان ایسے تعلقات قائم ہوں جیسے تعلقات قائد اعظم محمد علی جناح چاہتے تھے۔ ان کی توخواہش تھی کہ وہ سال میں چند ہفتے بمبئی میں گزارا کریں“۔
میں آپ کی وساطت سے محترم ڈاکٹر صاحب کی خدمت میں پاکستان کے لئے بھارت کے پہلے ہائی کمشنر سری پرکاش کا ایک خط پیش کررہا ہوں جو30جولائی 1948ء کو لکھا گیا تھا۔ قائد اس وقت زیارت میں آرام کررہے تھے۔ اس خط کے مندرجات میں کوئی ابہام نہیں اس میں قائد اعظم کے خیالات بھی واضح طورپر سامنے آجاتے ہیں اور بھارتی حکومت کا وہ رویہ بھی جو اس نے قائد اعظم کی خواہش کے احترام میں اختیار کیا۔ یہ خط حکومت پاکستان کی طرف سے شائع کئے جانے والے ”جناح پیپرز“(جلد ہفتم) میں محفوظ ہے ملاحظہ ہو۔
ڈیئر مسٹر جناح…اس طرح زحمت دینے پر معاف کرئیے گا۔پورے خلوص دل سے مجھے امید ہے کہ اب آپ مکمل طور پر صحت یاب ہوچکے ہوں گے اور جلد ہی ہم آپ کو کراچی میں واپس خوش آمدید کہیں گے اگر آپ کراچی میں موجود ہوتے تو خود حاضر ہو کر اس معاملے کو آپ کے سامنے پیش کرتا چونکہ آپ شہر سے باہر ہیں اس لئے خط لکھ کر زحمت دے رہا ہوں۔ 
1۔ آپ کو شاید یاد ہو کہ 14مئی کو آپ نے میری درخواست پر مجھے انٹرویو دیا تھا۔ اس کے دوران میں نے انڈیا کی حکومت کی طرف سے آپ کی بمبئی والی رہا ئشگاہ قبضے میں لینے کی اجازت مانگی تھی۔ اس کی ضرورت اس لئے پیش آئی کہ بمبئی میں گھروں کی شدید قلت ہے جبکہ یہ رہائش گاہ کئی ماہ سے خالی پڑی تھی آپ نے جواب دیا تھا کہ ایسے گھر میں کوئی شہزادہ رہ سکتا ہے یا کوئی بے حد باذوق کروڑ پتی اور اگر عام لوگوں کو یہ گھر دے دیا گیا تو وہ بس اسے برباد ہی کرسکتے ہیں۔ آپ نے مزید اضافہ کیا کہ لوگوں کے لئے ان کی بمبئی سے محبت کا اندازہ کرنا بے حد مشکل ہے اور جب حالات بہتر ہوجائیں تو کسی دن آپ وہاں واپس جانا پسند کریں گے۔ آپ نے گھر بچانے میں مجھ سے مدد مانگی تھی اور میں نے ہر ممکن کوشش کرنے کا وعدہ کیا تھا۔
2۔میں نے فوراً جواہر لال کو ایک مفصل ٹیلی گرام بھیجا جس میں آپ کے جذبات اور خواہشات بیان کی گئی تھیں۔آپ کی خواہشات کے مدنظر انہوں نے بمبئی کی حکومت کو ہدایات جاری کر دیں اور آپ کے گھر کو ہاتھ بھی نہ لگایا گیا تا ہم ابھی مجھے دوبارہ ان کا پیغام ملا ہے اور میں آپ کو یہ خط اس لئے لکھ رہا ہوں کہ اس وقت بمبئی میں گھروں کی بڑی شدید قلت ہے۔ حکومت بمبئی نے اس مسئلے پر قابو پانے کے لئے بے حد سخت اقدامات کئے ہیں، ایسے میں حکومت کے لئے یہ بڑی پریشانی کی بات ہے کہ شہر میں اتنے بڑے گھر کو خالی پڑا رہنے کی اجازت دے دی جائے۔
3۔لہٰذا میں ایک مرتبہ پھر آپ سے درخواست کر رہا ہوں کہ براہ مہربائی بمبئی حکومت کو اپنی رہائش گاہ کسی غیر ملکی قونصلیٹ کو الاٹ کرنے کی اجازت دے دیجئے۔ یہ لوگ گھر کی اچھی طرح دیکھ بھال کریں گے اور اس کے غلط استعمال کا خطرہ نہ ہو گا۔ اس سے آپ کو اس بات کی تسلی بھی رہے گی کہ غیر متعلقہ افراد گھر استعمال نہیں کر رہے۔ حکومت انڈیا نے مجھے اس بات کی یقین دہانی بھی کرائی ہے کہ جب یہ گھر الاٹ کیا جائے گا تو قونصلیٹ پر پابندی ہو گی کہ جب آپ کو ذاتی استعمال کیلئے اس کی ضرورت ہو تو ایک مناسب نوٹس پیریڈ پر وہ اسے خالی کر دے۔ مجھے یہ اضافہ کرنے کی اجازت بھی دیجئے کہ مجھے یہ جان کر بے حد مسرت ہوئی کہ آپ واپس بمبئی جانے کی خواہش رکھتے ہیں۔ یہ شہر آپ کا قرض دار ہے۔ مجھے یقین ہے کہ وہاں کے شہری آپ کا استقبال دوبارہ بڑی گرمجوشی سے کریں گے۔
4۔اگر آپ کی اجازت ہو تو میں تجویز کروں گا کہ آپ بمبئی کے حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے خود ہی اپنی رہائش گاہ کسی غیر ملکی قونصلیٹ کو دینے کی پیشکش کر دیں۔ آپ کی عین نوازش ہو گی۔ اس سے آپ کی طرف سے ظاہر کیا جانے والا خدشہ زائل ہو جائے گا کہ آپ کی رہائش گاہ کو قبضے میں لینے سے انڈین مسلمانوں کے دماغوں میں تلخی پھیلے گی کہ وہ اس حکومتی اقدام کی بے حد مختلف تشریح کر سکتے ہیں۔ انہیں جب معلوم ہو گا کہ آپ نے حکومت کی ضروریات کو دیکھتے ہوئے رضاکارانہ طور پر یہ پیشکش کی ہے، تو کوئی منفی جذبات سر نہیں ابھاریں گے اور یہ اقدام بجا طور پر آپ کی فراخدلی کا ثبوت ہو گا۔ یہ بات کرنے کے لئے معذرت چاہتا ہوں لیکن براہ مہربانی ہو سکے تو اپنی توقع کے مطابق کرائے کے لئے کوئی مناسب رقم تجویز کر دیجئے۔ حکومت انڈیا کی اس سلسلے میں مدد ہو جائے گی اور متعلقہ قونصلیٹ کو بھی مطلع کر دیا جائے گا۔ 5۔آخر میں مجھے اضافہ کرنے کی اجازت دیجئے کہ میں نے ذاتی اور غیر سرکاری طور پر اچھی طرح تحقیقات کی ہیں، میں آپ کو یقین دلانا چاہوں گا کہ آپ نے اس ساری کارروائی کے پیچھے جس شخص کے ملوث ہونے کا خدشہ ظاہر کیا تھا، اس کا اس معاملے سے کوئی تعلق نہیں۔ کسی بھی حال میں یہ گھر اس کے لئے بے حد چھوٹا ہوتا، جیسے کہ آپ کا بھی خیال تھا۔ اس کا خاندان بہت بڑا ہے اور ویسے بھی وہ بیکانیر (BIKANER) میں رہائش اختیار کر رہا ہے اور بمبئی سے اس کا کوئی خاطر خواہ تعلق نہیں۔آپ کو تکلیف دینے پر ایک مرتبہ پھر معذرت خواہ ہوں۔
آپ کا انتہائی احترام آمیز، جذبات کیساتھ سری پرکاش۔
1۔ یاد رکھا جائے کہ یہ خط جولائی 1948ء میں لکھا گیا اور اس میں سری پرکاش سے قائداعظم کی جس ملاقات کا احوال بیان کیا گیا ہے وہ بھی 14مئی 1948ء کو ہوئی 
تھی۔ اس وقت تک فسادات ہو چکے تھے، خون کے دریا بہائے جا چکے تھے، مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلی جا چکی تھی اور پنجاب کے دونوں حصوں سے علی الترتیب مسلمان اور ان کے حریف ( ہندو اور سکھ ) نقل مکانی کر چکے تھے۔ اس لئے کشت وخون نے قائداعظم پر جو بھی گہرے اثرات مرتب کئے ہوں، ان کے وژن کو بہرحال متاثر نہیں کیا تھا۔2۔اس خط سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ قائد اعظم اور بھارتی حکومت کسی کا بھی خیال نہیں تھا کہ دونوں ملکوں سے نقل مکانی کرنے والوں کی جائیدادوں پر قبضہ کیا جائے۔ بمبئی کے مکان پر قائد اعظم کے حق ملکیت کو تسلیم کیا جا رہا تھا اور قائداعظم کے ذہن میں بھی یہ بات نہیں تھی کہ پاکستان آنے سے یہ مکان ان کا نہیں رہا۔
3۔مکان کرایہ پر دینے کی بات ہو رہی تھی اور وہ کرایہ ظاہر ہے قائداعظم کو ملنا تھا اسی لئے تو ان سے تجویز مانگی جارہی تھی۔ قائد اعظم کے ذہن میں یہ نہیں تھا کہ اب وہ کبھی بھارت نہیں جائیں گے۔ ان کا خیال یہی تھا کہ دونوں ملکوں کے شہری آزادانہ ایک دوسرے ملک میں آ جا سکیں گے اور اپنی اپنی جائیدادوں کی دیکھ بھال کرسکےں گے۔ قائد اعظم کے دل میں بمبئی کی محبت جاگزیں تھی اور وہ اس سے رابطہ نہیں توڑنا چاہتے تھے۔
جہاں تک ڈاکٹر صاحب کے اس استدلال کا تعلق ہے کہ انہوں نے مرحومہ بیوی مریم (رتی) کی قبر پر دیر تک بیٹھ کر آنسو بہائے اور اسے خدا حافظ کہا، تو ان کی خدمت میں عرض ہے کہ جب ایک شخص ایک دوسرے ملک کا شہری بن رہا ہو تو ظاہر ہے پہلے ملک سے اس کا تعلق متاثر ہوتا ہے۔ قائداعظم بھی نئے وطن میں جا رہے تھے ،بھارتی سے پاکستانی بن رہے تھے تو اپنے سابقہ وطن کے رہنے والوں کو خدا حافظ کہنا غیر منطقی نہیں تھا۔ اس سے یہ کہاں ثابت ہوتا ہے کہ سابقہ وطن سے کوئی تعلق نہیں رہے گا، اور اس کی طرف مڑ کر دیکھنا بھی ممنوع قرار پائے گا۔جہاں تک ڈھاکہ جاتے ہوئے بھارت کی سرزمین پر قدم نہ رکھنے کا فیصلہ تھا تو یہ ایک لمحاتی فیصلہ ہو سکتا ہے۔ قائد اعظم کا جہاز بھارت کی فضاو¿ں سے گزر کر ہی مشرقی بنگال پہنچا تھا اور وہ بخوبی جانتے تھے کہ مغربی حصے سے مشرقی بنگال جانے کے لئے بھارت کی فضا میں قدم رکھنا پڑے گا۔ فضا میں قدم رکھنے والے کے لئے زمین پر قدم رکھنا کس طرح (ہر حالت میں اور ہر وقت ) ناقابل برداشت ہو سکتا ہے۔پاکستان اور بھارت کے درمیان گزشتہ ساٹھ سال میں جو کچھ ہوتا رہا ہے اس کی ذمہ داری بھارت پر کہیں زیادہ ہے۔ اس نے اول روز ہی سے پاکستان کو نیچا دکھانے کی خواہش پال لی تھی۔ اس سے جنوبی ایشیا کی مجموعی فضا گدلی ہوئی لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ پاکستان کی کسی حکومت سے کوئی غلطی ہی نہیں ہوئی اور معاملات کے بگاڑ میں اس کا کوئی ہاتھ ہی نہیں ہے۔ یہ موضوعات الگ بحث کا تقاضا کرتے ہیں اس لئے اسے کسی اور موقع کے لئے اٹھا رکھتے ہوئے اجازت چاہتا ہوں۔اللہ تعالیٰ ہمیں تاریخی حقائق کو ان کے صحیح سیاق و سباق میں سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے۔“
”شامی صاحب نے فرمایا کہ اس سے کہاں ثابت ہوتا ہے کہ سابقہ وطن سے کوئی تعلق نہیں رہے گا۔ بالکل اسی طرح سری پرکاش کے خط سے بھی کہیں ثابت نہیں ہوتا کہ قائد اعظم نے سال میں چند ہفتے بمبئی میں گزارنے کا عہد کیا یا عندیہ دیا تھا۔ مزید فرماتے ہیں اس وقت تک فسادات ہو چکے تھے خون کے دریا بہائے جا چکے تھے“۔ یہاں شامی صاحب نے صرف نظر فرمایا یا بھول گئے کہ فسادات کا سلسلہ تقسیم ہند کے بعد کبھی نہیں رُکا۔ بقول قائداعظمؒ پاکستان کی شہ رگ مقبوضہ کشمیر تقسیم ہند کے اصول و ضوابط کے مطابق پاکستان کا حصہ ہے جس پر بھارت نے نہ صرف غاصبانہ اور جارحانہ قبضہ کیا ہوا ہے بلکہ خونریزی کا سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ سری پرکاش نے اپنے خط میں یہ لکھا ” جب حالات بہتر ہو جائیں تو کسی دن آپ وہاں واپس جانا پسند کریں گے“۔ قائد اعظم کی زندگی میں کیا اب تک بھی حالات بہتر نہیں ہوئے۔ قائد اعظم نے تو جنرل گریسی کو حملہ کرکے مقبوضہ وادی کو آزاد کرانے کا حکم دیا تھا۔ کیا یہ حالات میں بہتری تھی یا مزید ابتری؟ 
بھارت اور پاکستان نے برطانیہ سے آزادی حاصل کی۔ اب دونوں آزاد ممالک کے برطانیہ کے ساتھ بہتر تعلقات ہیں۔ اس لیے کہ برطانیہ کے ساتھ دونوں کا کوئی تنازع نہیں۔ پاکستان اور بھارت کے تعلقاب بھی بعینہ بہتر ہو سکتے ہیں اگر ان کے درمیان بھی تنازع نہ رہے۔ سب سے بڑا تنازع مسئلہ کشمیر کی صورت میں موجود ہئے۔ اس کے ہوتے ہوئے بھارت کے ساتھ کیسے دوستی ہوسکتی ہے؟ قائد اعظم اصول عزم استقلال اور غیرت و حمیت کا مجسمہ تھے۔ ان کے کردار و عمل اور افکار و اقوال کی روشنی میں پورے یقین کے ساتھ کہا جا سکتا ہے کہ مسئلہ کشمیر کی موجودگی باالخصوص کشمیر میں بھارتی افواج کے مظالم اور خون کی ندیاں بہائے جانے کے باعث قائد اعظم کبھی بھارت کا رُخ نہ کرتے۔ اس کا اظہار اس سے بھی ہوتا ہے کہ وہ قیام پاکستان کے بعد اپنی زندگی کے پہلے سال چند ہفتے کیا ایک دن کے لئے بھی بمبئی نہیں گئے۔ شامی صاحب اور قاسمی صاحب سے درخواست ہے کہ یہ بھی فرما دیں کہ بھارت کے ساتھ ان حالات میں دوستی ہو سکتی ہے کہ بھارت کی کشمیر میں لاکھوں فوجیوں کے ہاتھوں کشمیریوں کی قبا محفوظ ہے نہ عزت مآب خواتین کی عبا اور ردا۔ بھارتی فوجی انکی نوجوان نسل کے خاتمے پر تلے ہیں بچوں تک کو ذبح کر دیا جاتا ہے۔کیا فرماتے ہیں بھارتی شردھالو بیچ اس مسئلہ کے؟



خواہشات .... توقعات




ستمبر 4 ، 2011

خواہشات .... توقعات







آج :4 ستمبر ، 2011

خواہشات .... توقعات
فضل حسین اعوان
بے جا خواہشات اور توقعات مایوسی کے طوفانوں اور پریشانیوں کی داستانوں کو جنم دیتی ہیں‘ انسان دوسروں سے توقعات وابستہ کرتا ہے‘ پوری نہ ہونے پر مایوس ہو جاتا ہے۔ کیا خوب ضرب المثل ہے : ”نیکی کر دریا میں ڈال“ اگر انسان اس ضرب المثل کی تصویر بن جائے تو زندگی آسانیوں کے خواب کی تعبیر بن سکتی ہے۔ توقعات و خواہشات کو انسانی فطرت سے الگ تو نہیں کیا جا سکتا‘ البتہ اپنی ذات کی بھلائی کیلئے ان کو کم ضرور کیا جا سکتا ہے۔ 
کسی دانشمند کا قول ہے ”اگر زندگی میں سکون چاہتے ہو تو کسی سے توقع نہ رکھو‘ کہ توقع کا پیالہ ہمیشہ ٹھوکروں میں رہتا ہے۔“ کسی کو سلام کرکے جواب کی توقع نہ رکھو‘ کسی پر احسان کرکے شکریئے کی امید رکھنا دراصل معاوضہ کی خواہش ہے۔ یہی خواہشات انسان کو کردار کی بلندی سے پستیوں کی اتھاہ گہرائیوں تک لے جاتی ہےں۔ اپنی ذات سے وابستہ خواہشات و توقعات پر غور کیا جائے تو زندگی میں امڈ آنےوالی پریشانیوں کا شمار بآسانی کیا جا سکتا ہے۔ آج کا معاشرہ خواہشات و توقعات کے تابع ہو کر فسادات کا باعث بن چکا ہے۔ یہ توقعات کی فرمانبرداری ہی تو ہے جس نے بھائی کو بھائی کا دشمن بنا دیا‘ ساس بہو کا روایتی جھگڑا گھر کے سکون کو جہنم بنا دیتا ہے۔ یہ توقعات کا بگاڑ ہی تو ہے جس نے ہماری سیاست‘ سیاسی کارکن‘ پارٹی اور قائد کو مصائب و مشکلات کے سامنے لاکھڑا کیا‘ جو سسٹم کی بہتری چاہتے ہیں‘ انہیں صرف کامیابی سے غرض ہوتی ہے‘ جو اپنی محنت اور قربانیوں کے صلے میں خواہش اور توقع رکھتے ہیں‘ پوری نہ ہونے پر دل ویراں لئے پھرتے ہیں۔ 
محترمہ شہید ہوئیں تو کئی امیدواروں نے وزیراعظم بننے کی امید لگالی‘ کئی من مرضی کی وزارت کے خواستگار بن گئے‘ توقعات پوری نہ ہوئیں تو کوئی بددلی سے ساتھ رہا‘ کوئی اِدھر گرا‘ کوئی اُدھر گرا۔ مسلم لیگ نون میں بھی کئی صاحبان توقعات کے مارے ہوئے ہیں۔ جاوید ہاشمی تو بعض اوقات ایسی مبہم باتیں کر جاتے ہیں کہ اندازہ ہی نہیں ہوتا کہ وہ اپنی پارٹی کے اندر ہیں، یا باہر۔ ان کی بہکی بہکی باتیں پریشان کر دیتی ہیں۔ ن لیگ کے اہم لیڈر ہیں لیکن حریف تحریک انصاف کے دھرنے میں بھی اُگ آتے ہیں۔ ایک مرتبہ بلوچستان کے حالات کے ضمن میں فرمایا میں بلوچی ہوتا تو علیحدگی کا اعلان کر چکا ہوتا۔ پنجاب کو تین حصوں میں تقسیم کرنے کی بات کر چکے ہیں۔ ایک مرتبہ اسمبلی ہال میں مطالبہ کیا کہ نواز شریف جنرل ضیاءکی حمایت پر قوم سے معافی مانگیں۔ اب فرمایا ہے کہ صوبے نہ بنائے تو لاہور کے حالات کراچی جیسے ہو جائیں گے۔ یہ سب ہاشمی صاحب کی طرف سے توقعات پوری نہ ہونے کے باعث اپنی ہی ن لیگ پر خودکش حملے ہیں۔ سیاست میں اختلاف ہو جاتا ہے ہونا بھی چاہئے تاہم اظہار کے لئے پارٹی پلیٹ فارم ہونا چاہئے سر بازار پریشر ککر کی ”ڈھمری یا ویٹ“ اٹھا دینا دانشمندی ہے؟ اگر سیاستدانوں کے لئے ریٹائرمنٹ کی عمر ہوتی تو ہاشمی صاحب یقیناً اس عمر کو پہنچ چکے ہیں۔ یہ خواہش ہی تو تھی جو چودھری نثار علی خان روٹھ کر لندن جا بیٹھے تھے‘ وہ نون لیگ میں اس کھڑکی کا مقام حاصل کرنا چاہتے ہیں کہ ہر آنےوالا اس میں سے جھک کر گزرے۔ 
ہمارے سیاسی لیڈروں کی خواہشات کی بہتات نے ملک کو اس نہج پر پہنچا دیا ہے کہ اب کچھ لوگ ملک کے معاملات‘ بالخصوص جلتے ہوئے کراچی کے حالات کے سدھار کیلئے فوج سے امیدیں لگائے بیٹھے ہیں۔ 
بہتر نہیں کہ ہم، بالخصوص آج کے حالات میں ہمارے سیاسی لیڈر و قائدین اپنی خواہشات کو لگام دیں اور ایک دوسرے سے توقعات سے پرہیز کریں۔ معاملات آئین اور قانون کے مطابق چلنے دیں‘ اپنے مفادات کی خواہش کو جلا کر راکھ کر دیں‘ جو شاید ان کیلئے دل گردے کا کام ہو گا۔ سکون چاہیے‘ امن اور آسودگی چاہیے تو انہیں ملک و قوم کی خاطر‘ کم از کم ان حالات میں جن سے آج پورا ملک بری طرح دوچار ہے‘ اپنی خواہشات کی گٹھڑی اور توقعات کی پوٹلی کو دہکتے الاﺅ میں پھینک کر کراچی کی آگ کو ٹھنڈا کر دیں۔

Thursday, September 1, 2011

کیسے کہوں عید مبارک


31-8-2011


کیسے کہوں عید مبارک!
فضل حسین اعوان 
کئی برسوں کی طرح 1432 ہجری کی عید الفطر میں بھی ہمارے لیے پیغام مسرت ہے نہ نوید راحت و فرحت۔ اُمہ پر بدستور مایوسیوں کے سائے اور تاریکیوں کے سائبان تنے ہیں۔ جہاں اس کا سبب ہنود، یہود و نصاریٰ کا گٹھ جوڑ ہے وہیں اسلامی ممالک کے حکمرانوں کی منافقت کی سی مصلحت بھی کار فرما ہے۔ افغانستان اور عراق میں انسانیت سسک اور بلک رہی ہے۔جو جنگ کا ایندھن بنے، ان کے لواحقین کی تعداد کروڑوں میں ہے۔ ان کی عید کیسی ہو گی! فلسطین میں صہونیت نے مسلمانوں کی گردن پر ڈریکولائی پنجے گاڑے ہوئے ہیں۔ غزہ کے لاکھوں محصورین خوراک اور ادویات کے لئے ترس اور تڑپ رہے ہیں۔ اسرائیل نے مظلوم فلسطینیوں کے لئے ان کے اپنے علاقوں کو بے درحصار میں بدل دیا۔ سینکڑوں بچے دودھ، ہزاروں بوڑھے ادویات کی کمی کے باعث لقمہ اُجل بن گئے۔ بچنے والے پیروجواں زندگی و موت کے درمیان معلق ہیں۔ ان کی عید کیسی ہو گی! مقبوضہ کشمیر میں سات لاکھ بھارتی کتوں کی گولیاں اور سنگینیں کشمیریوں کے جگر چیر رہی ہیں۔ ماتم کناں قوم کا جان ومال محفوظ ہے نہ عزت و آبرو، ان کی عید کیسی ہو گی!
وطن عزیز و عظیم کے جسد کارواں رواں بارود سے دھواں دھواں ہے۔ غیروں کی جنگ چنگاری سے شعلہ بنی اب الاﺅ بن کر دہک رہی ہے۔ نصف لاکھ پاکستانی اس جنگ کا ایندھن بن گئے۔ کتنے سہاگ لٹے، کتنے بچے یتیم ہوئے، کتنی مائیں بے سہارا ہوئیں، کتنی بہنوں کی بھائیوں کی راہیں دیکھتے آنکھیں پتھرا گئیں۔ ان کی عید کیسی ہو گی....
ایک جنگ کراچی میں اپنوں کے درمیان جاری ہے۔ گلا کاٹنے والا مسلمان، جس کا گلا کٹ گیا وہ بھی مسلمان۔ قبضے کی جنگ، ایک دوسرے پر فوقیت کے لئے جنگ۔ جہاں دل کے ارمان ہی نہیں جلتے۔ شاخ نازک پہ بنے آشیاں ہی نہیں جلتے۔ زندہ انسان بھی جلائے جاتے ہیں۔ وسائل متحارب کے قبضے میں جانے کا خدشہ ہے۔ دس سالہ لڑکا کچرے سے کاغذ چُن کر پچاس ساٹھ روپے کماتا ہے۔ گھر پر ماں منتظر کہ اس کا لعل چھوٹے بھائی کے لئے دودھ لے کر آئے گا۔ گھر میں اپنے لخت جگر کی گولیوں سے چھلنی لاش آ جائے تو اس قیامت کا اندازہ کیجئے۔ اس معصوم کو ٹارگٹ کرکے متحارب گروپ کے قبضے میں جانے سے کتنے وسائل بچائے گئے؟ صبح گھر سے جانے والا دوپہر کو معدوم و مرحوم اور سہاگن بیوہ بنی ہوتی ہے۔ عیدی کے منتظر بچوں کی بچوں کو یتیمی کا داغ گھائل کر دیتا ہے۔ جن ہاتھوں پر مہندی رچنی اور چوڑیاں سجنی تھیں وہ باپ اور بھائی کی میت پر ماتم کرتے اور سر پیٹتے شل ہو جاتے ہیں۔ ان کی عید کیسی ہو گی! میں کسے اور کیسے کہوں عید مبارک! کلر کوئی بھی ہو وہ اور اس کے پروردہ انسانیت کے دشمن اور بے رحم احتساب کے مستوجب ہیں۔ اپنے مفادات کے لئے قاتلوں کا تحفظ اور پردہ پوشی قتل جیسا ہی جرم ہے۔ ذوالفقار مرزا نے برملا کراچی کے قاتل بڑی جرات سے بے نقاب کر دیئے۔ اب ان پر اگر ہاتھ نہیں ڈالا جاتا تو تاریخ ذمہ داروں کو معاف نہیں کرے گی۔ قرآن کی قسم اٹھانے کی کوئی شرعی حیثیت نہیں۔ رواجاً اپنے سچا ہونے کی دلالت کے لیے قرآن پر قسم اٹھائی جاتی ہے۔ مرزا صاحب نے بھی ایسا ہی کیا ہے۔ ان کی صداقت پر شک نہیں کیا جا سکتا۔ اس کا جواب وہ نہیں جو متحدہ دے رہی ہے۔ ”مرزا کی باتیں شرانگیز، بے بنیاد اور لغو ہیں“۔ آپ بھی اسی طرح قرآن اٹھا کر پوائنٹ ٹو پوائنٹ جواب دیں۔ رحمن ملک بھی ایسا ہی کریں۔ شاید قرآن کی شرم سے وہ سچ بول دیں۔
ذوالفقار مرزا ایم کیو ایم پر برسے بلکہ انگارے برسائے۔ چند روز قبل ایم کیو ایم کو دھمکایا تو اسی روز 15 لاشیں گرا دی گئیں۔ اب تو انہوں نے انتہا کر دی لیکن کراچی میں امن رہا۔ متحدہ اپنا ہو یا پرایا ادھار نہیں رکھتی اب خاموش ہے۔اس میں ان کی اور قوم و ملک کی بھی بھلائی ہے۔ ذوالفقار مرزا اپنی جرات اظہار پر اپنی زندگی کو خطرے میں بھی سمجھتے ہیں۔ انہوں نے کہا ہے کہ میں مارا گیا تو وہی ذمہ دار ہوں گے جنہوں نے عمران فاروق کو قتل کیا ہے۔ عمران فاروق کو کس نے قتل کیا؟ چند روز قبل نوائے وقت میں ایک رپورٹ شائع ہوئی۔ اس کے مطابق حساس اداروں نے عمران فاروق کے قتل کیس کے ماسٹر مائنڈ خالد شمیم سمیت تین افراد کو حراست میں لے لیا۔ دیگر دو نوجوانوں کا تعلق پاکستان متحدہ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن سے ہے جنہیں سٹوڈنٹ ویزے پر برطانیہ بھجوایا گیا تھا۔ وہ اپنے مشن کے بعد کولمبو پہنچے، انہیں راستے سے ہٹانے اور قتل کے تمام نشان مٹانے کے لیے کراچی بلایا گیا جہاں ایئر پورٹ سے یہ پکڑے گئے۔ اس کے بعد بڑی مشکل سے متحدہ کو خالد شمیم کی حوالگی کے لئے آمادہ کیا گیا۔اس خبر کے سچ ہونے میں اس لئے شک نہیں ہے کہ عبدالرحمن ملک نے کہا ہے کہ ایئر پورٹ سے کسی کو گرفتار نہیں کیا گیا۔ اس کے بعد اسی خبر کے بطن سے ان افواہوں نے جنم لیا کہ الطاف حسین برطانیہ میں زیر حراست ہیں۔ ذوالفقار مرزا کہتے ہیں الطاف حسین جنوبی افریقہ بھاگ رہے تھے کہ ان کو حراست میں لے لیا گیا۔ مرزا صاحب نے یہ بات قرآن اٹھا کے نہیں بتائی ۔ رابطہ کمیٹی کا کہنا ہے کہ الطاف بھائی ایک ہفتہ سے ہسپتال میں داخل ہیں۔ برطانیہ کے ہائی کمشنر نے کہا ہے کہ الطاف حسین کی گرفتاری کی خبر بے بنیاد ہے۔ ساتھ یہ بھی کہہ دیا کہ ٹونی بلیئر کو لکھے گئے کسی خط کا علم نہیں۔ دیکھئے صاحب بہادر نے کونسی بات رحمن ملک کے انداز میں کی ہے۔
بعض حلقوں کی طرف سے مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ مرزا صاحب کے انکشافات اور الزامات کی صداقت کے لئے ایک بااختیار کمشن بنایا جائے۔ اس کی اس لیے ضرورت نہیں کہ جسٹس افتخار محمد چودھری کی سربراہی میں سپریم کورٹ کا بنچ کراچی کے حالات کی تہہ تک پہنچنے کیلئے کراچی میں ہی نان سٹاپ سماعت کر رہا ہے۔ یہی بنچ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کر دے گا۔ ہمارے سیاستدان سپریم کورٹ کے ججوں کے جذبے اور کمنٹمنٹ سے سبق سیکھیں!
لیکن کیا کیا جائے صدر مملکت جن کے دستخط اور منظوری سے یہ کام ہونا وہ آج چین چلے گئے آج عید ہے۔ اس کے بعد انہوں کسی اور ملک کے دورے پر وہاں سے روانہ ہونا ہے اور پھر کہیں اور۔ کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی!