About Me

My photo
Fazal Hussain Awan colomnist Daily NAWAI WAQT awan368@yahoo.com 03334215368

Tuesday, September 6, 2011

ہندو ذہنیت مسئلہ کشمیر اور پاکستان بھارت تعلقات


 منگل ، 06 ستمبر ، 2011


ہندو ذہنیت مسئلہ کشمیر اور پاکستان بھارت تعلقات
فضل حسین اعوان
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ر ±تیں اور موسم ضرور بدلتے ہیں۔ قانون قدرت اور اصولِ فطرت میں کوئی تبدیلی نہیں آتی۔ اخلاقیات بدلتی ہیں نہ اخلاقی ضوابط و قواعد۔ گزرتا زمانہ کسی کو اس کے حق سے محروم کرتا ہے نہ کسی کے جبر و قہر اور قبضے کو سند استحقاق بخشتا ہے۔ تقسیم ہند کے قواعد کے مطابق پورا کشمیر پاکستان کا حصہ ہے۔ قائد اعظم محمد علی جناح نے اسے پاکستان کی شہ رَگ قرار دیا تھا۔ کوئی بھی ذی ر ±وح شہ رَگ کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا ہے۔ پاکستان کی بقا سلامتی و سا لمیت کا انحصار اپنی شہ رَگ پر ہے۔ جو بدقسمتی سے 64 سال بعد بھی پاکستان کے اَزلی دشمن کے قبضے میں اور اس کے رحم کرم پر ہے۔ کشمیریوں کا شروع سے نعرہ ”کشمیر بنے گا پاکستان“ ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو نے کہا تھا کشمیر پر ہزار سال تک بھی جنگ لڑنا پڑی تو لڑیں گے۔ ان کے جانشین اقتدار کی جنگ میں ا ±لجھ گئے۔ البتہ آزاد کشمیر میں پیپلز پارٹی کے صدر سردار یعقوب نے کہا ہے کہ کشمیری اگلے سو سال تک بھی ”کشمیر بنے گا پاکستان“ کے موقف سے دستبردار نہیں ہوں گے۔ کشمیری ہندو بنیئے کی غلامی سے آزادی کی خاطر اپنی گردنیں کٹوا رہے ہیں۔ شہدائے کشمیر کی تعداد دو لاکھ سے تجاوز کر چکی ہے۔ معذور ہونے والے اس سے د ±گنا ہیں۔ سات لاکھ بھارتی افواج کے ہاتھوں کشمیریوں کی جان و مال محفوظ ہے نہ حرمت و آبرو، وہ الحاق پاکستان کے لئے قربانیاں دیئے جا رہے ہیں۔ کشمیر کے پاکستان بننے کے حسین خواب سجائے، جدید اسلحہ سے لیس اور گولہ بارودمیں بہتات کی حامل بھارتی فوج کے ساتھ برسر پیکار ہیں۔ وہ نہیں تھکے، ہم تھک گئے، ان کے اعصاب اور قویٰ جوان و تنومند ہیں۔ ہمارے اعصاب پر بھارت کے ساتھ دوستی کے شوق میں بڑھاپا طاری ہو گیا۔ قائداعظم انتہائی متحمل مزاج اور سیاست میں جارحیت کے قطعاً قائل نہیں تھے۔ انہوں نے ایک دن بھی جیل جائے بغیر اپنی اہلیت صلاحیت اور اصولی سیاست کے بل بوتے پر عظیم ترین نظریاتی اسلامی مملکت کا حصول ممکن بنا دیا۔ لیکن جب انہوں نے دیکھا کہ کشمیر کی آزادی طاقت کے بغیر ممکن نہیں تو جنرل گریسی کو کشمیر پر قبضے کا حکم دیدیا۔ بوجوہ جنرل گریسی نے حملہ سے گریز کیا۔ قائد اعظم کو زندگی نے مہلت نہ دی۔ قائد چند سال مزید سربراہ ریاست رہتے تو یقینا مسئلہ کشمیر حل ہو جاتا۔ اس کے بعد سے بھارت نے مذاکرات کا ایسا جال بچھایا جس میں ہماری سیاسی اور فوجی حکومتیں و قیادتیں ا ±لجھ کر رہ گئیں۔ بھارت اپنے اٹوٹ انگ کے موقف پر قائم ہے۔ پھر مذاکرات کس بات پر؟ وہ تو 1948ءمیں اقوام متحدہ میں کشمیریوں کے لئے حق استصواب کو تسلیم کرکے آیا تھا۔ اب تک تو استصواب ہو جانا چاہیے تھا۔ بھارت نے اس کے برعکس 1954ءمیں اپنے آئین میں ترمیم کرکے مقبوضہ کشمیر کو بھارتی صوبے کا درجہ دیدیا۔ ہندو بنیا تو اکھنڈ بھارت کے ایجنڈے پر عمل پیرا ہے۔ ہم اس سے مذاکرات کی توقعات لگائے بیٹھے ہیں۔ اس کے ساتھ مذاکرات سے آزادی کشمیر کی توقعات بے سود اور مذاکرات لاحاصل اور فضول ہیں۔ مذاکرات وزرائے اعظم کی سطح پر بھی ہوں۔ کیا کسی بھارتی وزیر اعظم میں یہ جرا ¿ت ہے کہ وہ پارلیمنٹ کو اس آئینی ترمیم کی تنسیخ پر قائل کر لے جس کے تحت مقبوضہ کشمیر کو بھارت کا صوبہ قرار دیا گیا تھا۔ متعصب ہندو پارلیمنٹرین بلا امتیاز حکومتی یا غیر حکومتی ایسی سوچ کا اظہار کرنے والے وزیر اعظم کی تکا بوٹی کر دیں گے۔ میاں نواز شریف کو واجپائی سے مسئلہ کشمیر کے حل کی بڑی امیدیں تھیں۔ وہی واجپائی جو جنرل مشرف کے دورہ بھارت پر مشترکہ اعلامیہ جاری کرنے پر بے بس تھے۔ وہ کشمیر پر اتنا بڑا فیصلہ کرنے کی پوزیشن میں کیوں کر ہو سکتے تھے؟ افسوس کہ ایسے دانشور بھی پیدا ہو گئے جو مسئلہ کشمیر کو پرانا قرار دیکر اس سے جان چھڑانا چاہتے ہیں۔ المیہ یہ بھی ہے کہ پاکستان کی قابل ذکر سیاسی و مذہبی جماعتیں کسی اور مسئلے اور بات پر متفق ہوں نہ ہوں۔ مسئلہ کشمیر کی موجودگی کے باوجود بھارت کے ساتھ تعلقات پر ضرور ایک جیسی سوچ رکھتی ہیں۔ اے این پی، متحدہ قومی موومنٹ، جمعیت علمائے اسلام نے بھارت کے لئے نیک خواہشات کبھی نہیں چھپائیں۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ( ن) کبھی پاکستان اور بھارت کے مابین ویزے کے خاتمے کی اور کبھی سرحدیں ہٹانے کی بات کرتی ہیں۔ آزادی کشمیر کا ذکر گول مول طریقے سے محب وطن پاکستانیوں کے اشتعال سے بچنے کے لئے کر دیا جاتا ہے۔ مستقبل کی امید عمران خان بھی بھارت کے ساتھ اچھے تعلقات کی سوچ کے اسیر ہیں۔ آج بھی بھارت کے ساتھ تجارت جاری ہے۔ وہ بھی خسارے کی۔ گزشتہ مالی سال کے دوران ایک ارب 20 کروڑ روپے کا خسارہ ہوا۔ وفود کے تبادلے ہو رہے ہیں۔ آج بھی 18 پارلیمنٹرین کا وفد بھارت یاترا پر ہے۔ کہا گیا ہے کہ کشمیر پر بھی بات چیت کرے گا۔ مسئلہ کشمیر پر بھارت کی طرف سے مذاکرات منافقت ہے۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ مذاکرات کا کوئی نتیجہ نہیں نکلے گا پھر بھی بھارت کے ساتھ مذاکرات کی میز پر جا بیٹھنا ہی منافقت ہے۔ ہمارے پارلیمنٹرین بھی بھارت جا کر یہی کچھ کر رہے ہیں۔
بھارت کی ثقافتی یلغار کھیل اور فلموں کے ذریعے نئی نسل کو برباد کر رہی ہے۔ اس سے شاید بڑے بوڑھے بھی متاثر ہو گئے ہیں۔ ثقافت کے حوالے سے ان کی سوچ فلموں، گانوں، ڈراموں تک محدود ہو گئی ہے۔ اس لیے ہماری اور ان کی ثقافت کو ایک کہا جا رہا ہے۔ اس سوچ سے نہ صرف میڈیا کے کچھ لوگ متاثر ہیں بلکہ اس کو فروغ بھی دے رہے ہیں۔ یہ بھارتی شردھالو?ں کے بڑے کام آ رہے ہیں بلکہ ان کی راہیں آسان بنا رہے ہیں جو اچھے تعلقات اور نیک خواہشات پہلے تنازعات کے بعد ملنے کی خواہش رکھتے ہیں۔ بھارت کے ساتھ محبتیں بڑھانے اور پیار کی جوت جگانے کی تمنائیں لیے ہوئے دانشور شریعت سے پڑوسیوں کے حقوق کے حوالے ڈھونڈ ڈھونڈ کر لاتے ہیں۔ کیا آپ اس پڑوسی کے گلے میں بانہیں ڈال کر رقصاں ہوں گے امن کی آشا کا گیت گائیں گے جس کے ایک ہاتھ پٹرول کی بوتل دوسرے میں ماچس ہو اور وہ آپ کے آشیاں کو جلانے کے لئے بے قرار ہو؟ آپ اپنے پیاروں کے قاتل ہمسائے کو پیار بھری نظروں سے دیکھنے کی ہمت رکھتے ہیں؟ ہمسایہ، ہمسایہ تو بنے۔ اس میں انسانیت اور انسانی صفات تو ہوں۔ وہ بھی تو حق ہمسائیگی ادا کرنے پر تیار ہو!۔ یکطرقہ اظہار محبت نہ صرف تحریک آزادی کے شہدا بلکہ کشمیر میں پاکستان کی خاطر جانیں قربان کرنے والوں کے خون کی توہین ہے۔ بھارت نہ صرف کشمیر میں مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیل رہا ہے بلکہ اس نے مشرقی پاکستان کی علیحدگی میں بھیانک اور شرمناک کردار ادا کیا۔ پاکستان ایٹمی طاقت نہ ہوتا تو شاید وہ اسے کچا چبا جاتا۔ اب وہ کھل کر جارحیت سے تو اجتناب کر رہا ہے البتہ پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کے لئے اس کی سازشیں جاری ہیں۔ افغانستان میں اس کے قصبوں تک میں قونصل خانے ہیں۔ یہیں سے فاٹا میں دہشت گردی اور بلوچستان میں علیحدگی پسندوں کی مالی اور اسلحی مدد کی جاتی ہے۔ وزیر داخلہ رحمن ملک نے بلوچستان میں بھارتی مداخلت کے کئی بار دعوے کئے ہیں۔ وزیر اعظم گیلانی نے شرم الشیخ میں وزیر اعظم منموہن سنگھ کو بلوچستان میں RAW کے ملوث ہونے کے ثبوت فراہم کئے تھے۔ منموہن نے مداخلت روکنے کی یقین دہانی کرائی تھی لیکن بے سود۔ فاٹا میں بہت سے لوگ فوج کے ساتھ مقابلے میں مارے گئے جن کو شدت پسند قرار دیا گیا۔ پوسٹ مارٹم کیا گیا تو ثابت ہوا کہ وہ ہندو تھے۔ مہران بیس حملے میں مارے جانے والوں کے بارے میں بھی ایسی ہی رپورٹیں ہیں۔ سندھ حکومت کہہ چکی ہے کہ کراچی کی قتل و غارت میں بھارتی اسلحہ اور بھارتی منصوبہ بندی استعمال ہو رہی ہے۔ پکڑے جانے والے دہشت گردوں نے بھارت سے تربیت حاصل کی۔ اس بھارت کے ساتھ ہم تعلقات غیر مشروط طور پر بہتر بنا لیں؟ شرم کا مقام ہے اسی ماہ ہمارے وزیر تجارت بھارت کو بھارت جا کر "The most favourite Nation" کا درجہ دینے کے لئے بے چین ہیں۔
بھارت کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے میاں نواز شریف کے 14اگست کو سیفما کے اجلاس میں خطاب کے دوران سامنے آنے والے خیالات کے بعد جہاں جہاں وسیع پیمانے پر میڈیا میں ناپسندیدگی کا اظہار ہوا وہیں ا ±ن کی حمایت میں بلاتکان لکھنے والوں کے قلم بھی خاموش رہے۔ سوائے ایک آدھ کے۔ تاہم چند ایک کو میاں نواز شریف کے خیالات کی آڑ میں پاکستان بھارت تعلقات کے پرچار کا موقع ضرور مل گیا۔ کچھ کے ایسے نظریات بدلے کہ ان کو نظریہ پاکستان اور دو قومی نظریہ بھی متنازعہ نظر آنے لگا۔ ایک نے فرمایا: کوئی بھی جنگ نہیں چاہتا، حتیٰ کہ کشمیر کی آزادی اور پانی کے ذرائع کو محفوظ بنانے کے لئے بھی۔ اس دور میں ایٹمی ہتھیار کو استعمال کرنے کی پالیسی کے بارے میں سوچا ہی نہیں جا سکتا۔ ہر کسی کو معلوم ہے کہ کسی بھی طرف سے ایسا ہواتو دونوں کی تباہی یقینی ہے۔ شاید آگے بڑھنے کا واحد راستہ ہٹ دھرم ہمسایہ کے ساتھ تنازعات پر بات چیت ہے۔
اب بات چیت یا مذاکرات کے لئے مزید کتنا عرصہ چاہئے۔ 63 سال کیا مذاکرات کے نام پر بیوقوف بننے کے لئے کافی نہیں۔ مسئلہ کشمیر حل نہ ہوا تو اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ کی شہ رَگ پر بدستور دشمن کا انگوٹھا رہے گا۔ جو 2020ئ میں پاکستان کے حصے کے پانی کا ہر قطرہ روکنے کی صلاحیت حاصل کر لے گا۔ سندھ طاس معاہدے کے مطابق بھارت کو بھیجے جانے والے دریائے راوی، دریائے ستلح اور بیاس میں آج ریت اڑتی ہے۔ 2020ئ کے بعد دریائے سندھ، چناب اور جہلم بھی خشک ہوئے تو پاکستان کو تباہ کرنے کے لئے بھارت کو ایٹمی جارحیت کی ضرورت نہیں رہے گی۔ اس کی آبی دہشت گردی ہی ہمارے لئے ایٹم بم ثابت ہو گی۔ امن کے پجاری جتنا زور پاکستان پر بھارت کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے پر دے رہے ہیں۔ اپنے بھارتی دوستوں کے ساتھ مل کر بھارتی حکومت پر بھی دیں تو شاید پاکستان اور بھارت کے درمیان واحد اور بڑے تنازع ”مسئلہ کشمیر“ کے حل کی راہیں نکل آئیں۔ پاکستان کی موجودہ سیاست کے تناظر میں تو مسئلہ کشمیر کے حل کی کوئی تدبیر نظر نہیں آتی۔ پاکستان کی سیاست میں کبھی ٹھہرا? نہیں رہا۔ کچھ بھی یقینی نہیں ہے۔ حالات بدلتے دیر نہیں لگتی۔ مسئلہ کشمیر پر ہماری گزشتہ حکومتیں کمیٹڈ تھیں نہ آج کی حکومت ہے۔ امید رکھتی اور دعا کرنی چاہیے کہ ایسے حالات ہوں، ایسی حکومت اور حکمران آئے جو کشمیر کے حوالے سے کمیٹڈ ہو۔ مسئلہ کشمیر مذاکرات سے حل کرا دے یا قائد اعظم کی پیروی کرتے ہوئے آزادی کشمیر کا معاملہ فوج کے سپرد کر دے۔ آخری آپشن ایٹمی قوت کا استعمال ہے۔ یہ بھی کرنا پڑے تو گریز نہ کرے۔ بھوک اور پیاس سے ایڑیاں رگڑ کر مرنے سے بہتر ہے دشمن سے لڑ کر مر جائے۔ آئندہ نسلوں کی بقا کے لیے، یہ سودا مہنگا نہیں ہے۔ مسلمان مرنے سے نہیں ڈرتا۔ شہادت تو مردِ مومن کا مقصود ہے۔ شہادت کی موت اس کی محبوبہ ہے۔ ہندوجنگ اورموت دونوں سے بدکتا ہے اب مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے ایٹم بم نکالیں تو سہی۔ اس کی جھلک ہی بنیئے کی دھوتی گیلی کرنے کے لئے کافی ہو گی۔ چلانے کی نوبت نہیں آئے گی۔

No comments:

Post a Comment