About Me

My photo
Fazal Hussain Awan colomnist Daily NAWAI WAQT awan368@yahoo.com 03334215368

Thursday, September 15, 2011

عدلیہ

جمعرات ، 15 ستمبر ، 2011


عدلیہ
فضل حسین اعوان 
دس مارچ2007 کے سانحے، ٹھوکر یا ٹھڈے نے ایک عام اور روایتی جج کو صاحبِ افتخار بنادیا۔ جسٹس افتخار،مشرف کی طرف سے ڈھائی گئی قیامت کے بعد وکلاءکی معیت میں گھر سے باہر نکلے تو عوام ان کے ہم قدم تھے۔ ان کی پہلی بحالی عوامی دباﺅ پر نہیںہوئی مبنی بر انصاف فیصلہ تھا جو مشرف سرکار سے ہضم نہ ہوسکا تو اسی سال 3نومبر کو کئی ساتھی ججوں سمیت ایک اور قیامت سے دوچار کردیا گیا۔ معطلی کے ساتھ ساتھ نظر بندی بھی۔ان حالات میں کئی جج صاحبان کندن بن کر نکلے۔ اب قوم ہر جج سے جسٹس افتخار جیسے کردار کی توقع رکھتی ہے اورجسٹس افتخار سے اس سے بھی زیادہ کی۔
آج کل جسٹس افتخار محمد چودھری انتہائی اہم کیس کی سماعت کراچی میں کر رہے ہیں۔عید سے قبل انہوں نے عہد کیا تھا کہ ضروری ہوا تو عید کی چھٹیوں میں بھی اپنے ہی سوموٹو پر سماعت جاری رکھیں گے۔ کراچی صدر، وزیراعظم کے دوروں کے دوران بھی جلتا رہتا ہے۔اب جسٹس افتخار کی عدالت لگی ہے تو بھی جل رہا ہے۔کراچی کی خونریزی جلد خاتمے کی متقاضی ہے۔لوگ حکومت اور سیاستدانوں سے مایوس، ان کی نظریں اب سپریم کورٹ پر ہیں۔ جس سے نان سٹاپ سماعت کرکے سرعت کے ساتھ فیصلے کی توقع تھی۔ اس سماعت کے دوران چیف جسٹس صاحب کم از کم دومرتبہ لاہور اور نہ جانے کتنی بار اسلام آباد تشریف لائے۔ ان کا بھارتی قانون دان کے ساتھ سٹیج پر بیٹھنے اور امن کی شمع روشن کرنے سے زیادہ زخموں سے چور کراچی کی مرہم پٹی کرنا زیادہ اہم ہے۔جب لاہور میں ان کی طرف سے امن کی شمع جلانے کی بات ہوگی تو اسی سیمینار کی دوسری نشست میں جسٹس تصدق حسین جیلانی کی تقریر کو نظر انداز نہیں کیاجاسکتا۔
” انصاف سب کیلئے، استثنیٰ کسی کو نہیں“ کے موضوع پر سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان کی سپریم کورٹ کے جج نے فرمایا” گلوبلائزیشن کے موجودہ ماحول میں کچھ قوتیں ایک دوسرے کو ملانے اور باہمی ہم آہنگی پیدا کرنے کی کوشش کر رہی ہیں تو کچھ قوتیں مذہب ، کلچر اور سیاست کی بنیاد پر لوگوں کو تقسیم کررہی ہیں، ایسی قوتوں کا راستہ نہ روکا گیا تو عدم استحکام پیدا ہونے کا خدشہ ہے۔ عدم برداشت کا خاتمہ، اداروں کو مضبوط، وسعت نظری پیدا کرتے ہوئے باہمی روابط کے فروغ، مل جل کر اور امن کے ساتھ رہنے کے عمل کو پروان چڑھانا ضروری ہے باہمی امن کی کوششوں کو پروان چڑھانے میں بھارت اور پاکستان کے دو صحافتی اداروں نے ” امن کی آشا“ کے نام سے مثالی کوشش کی ہے۔ پاکستان اور بھارت دونوں نے نو آبادیاتی حکمرا ن سے 63 سال قبل آزادی حاصل کی مگر اب تک وہ غربت کی چکی میں پس رہے ہیں۔علاقائی تنازعوں اور مختلف وجوہات کے باعث خطے کے کروڑوں لوگ متاثر ہیں اگر یورپ میں انسانی تاریخ کی دو بد ترین اور خوں ریز جنگوں کے بعد وہاں یورپی یونین کی صورت میں لوگ امن سے رہنا سیکھ سکتے ہیں تو پھر ہم باہمی تنازعات کو کیوں طے نہیں کرسکتے اور ہم اپنے وسائل کو امن کے فروغ اور لوگوں کی معاشی ترقی کیلئے کیونکر استعمال نہیں کرسکتے۔“
ایک نظریہ کی بنیاد پر قائم ہونے والے پاکستان کی سپریم کورٹ کے جج کے ایسے ریمارکس جن کا موضوع کے ساتھ تعلق تھا نہ قانون یا اس کی تشریح کے ساتھ، اکثر اہل وطن کے دلوں کو گھائل کرگیا۔اس پر امن کی آشا کے علمبردار آٹے میں نمک کی مقدار اور تعداد رکھنے والے طبقے نے تو ضرورشادیانے بجائے ہوں گے۔ شاید جج صاحب کا مدعا بھی یہی تھا۔ بڑے لوگوں کے بدن پر جو جبہ اور سروں پر دستار سجی ہے وہ آزاد پاکستان کی بدولت ہی ہے۔ اسی سیمینار میں مسٹر جسٹس تصدق حسین جیلانی نے بھارتی شاعر جاوید اختر کی نظم بھی پڑھ کر سنائی جس میں سرحدوں کی نفی کا تصور پیش کیا گیا ہے....
”پنچھی، ندیاں اور پون کے جھونکے “
”کوئی سرحد انہیں نہ روکے“
”سرحدیں تو انسانوں کے لئے ہیں“
” سوچو تم نے اور میں نے کیا پایا انسان ہوکے“
لوگ فون پر اعتراض اور احتجاج کر رہے ہیں۔ ان کو سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں کہ یہ جج صاحب کے ذاتی خیالات ہیں جواب آتا ہے ایسے ذاتی خیالات اپنی ذات تک محدود رکھیں پاکستان کی شہ رگ بھارت کے پنجہ استبداد میں ہونے اور اس کی سفاک سپاہ کی طرف سے کشمیریوں کا خون بہانے تک امن کی آشا چہ معنی دارد۔ علامہ ملک خادم حسین رضوی نے رنجیدہ لہجے میں مختصر سا تبصرہ کیا۔کڑ کڑ کتھے، انڈے کتھے۔ بھارت سے پیار کرنے والے وہیں جابسیں۔ 
جسٹس افتخار محمد چودھری نے نئے قومی عدالتی سال کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے یہ کہہ کر کئی لوگوں کے سنہرے مستقبل کے خواب چکنا چور کردئیے کہ ریٹائرڈ جج2سال تک سرکاری ملازمت قبول نہ کریں۔قانون اور آئین کے ماہرین کی بھی یہی رائے ہے۔چیف جسٹس صاحب کا روئے سخن غالباً جسٹس(ر) جاوید اقبال کی طرف ہے۔ جسٹس جاوید اقبال 10مارچ2007 کے بعد تھوڑا لڑ کھڑائے،ڈگمگائے پھر سنبھلے اور بالآخر ثابت قدمی سے جسٹس افتخار کے شانہ بشانہ ہوگئے۔وہ تیس جولائی 2011کو ریٹائر ہوئے پہلا بیان ہی حکومت کی حمایت میں دیدیا۔پنجاب بار کونسل کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا”حکومت اور عدلیہ میں کوئی محاذ آرائی نہیں یہ بات صر ف میڈیا تک ہے، عدالتی فیصلوں پر عمل درآمد میں تاخیر ضرور ہوئی ہے لیکن حکومت بیشتر عدالتی فیصلوںپر عمل درآمد کر رہی ہے۔حکومت نے سپریم کورٹ کے کسی فیصلے کو رد نہیں کیا،یہ تاثر غلط ہے کہ حکومت سپریم کورٹ کے فیصلوں کو نہیں مانتی۔“
شاید اسی بیان کے پیش نظر حکومت نے ان کو چیئر مین نیب بنانے پر کمر کس لی۔ جج صاحب پھر ڈگمگاتے نظر آتے ہیں شاید اپنے ساتھی کے مشورے پر سنبھل جائیں۔
آج ہمیں عدلیہ آزاد اور غیر جانبدار نظر آرہی ہے۔خدا کرے ہمیشہ ایسی رہے۔لیکن ایک کھٹکا سا لگا رہتا ہے کہ عدلیہ کی آزادی،غیر جانبداری اور جرات رندانہ جسٹس افتخار کی ریٹائرمنٹ کے ساتھ ہی معدوم نہ ہوجائے!



No comments:

Post a Comment