About Me

My photo
Fazal Hussain Awan colomnist Daily NAWAI WAQT awan368@yahoo.com 03334215368

Monday, September 5, 2011

پاکستان بھارت تعلقات


پیر ، 05 ستمبر ، 2011


پاکستان بھارت تعلقات
فضل حسین اعوان 
جناب عطاءالحق قاسمی کا وہ متنازعہ کالم جس کا جواب نوائے وقت میں جناب سعید آسی نے دیا، اس میں قاسمی صاحب نے یہ بھی لکھا تھا....”وقت کی شدید ترین ضرورت کہ ایک دوسرے کے قریب آیا جائے۔ پاکستان اور ہندوستان کے درمیان ویسے ہی تعلقات قائم ہوں جیسے تعلقات قائد اعظم محمد علی جناح چاہتے تھے۔ ان کی تو خواہش تھی کہ وہ سال میں چند ہفتے بمبئی میں گزارا کریں“.... قاسمی صاحب کے ان خیالات پر بحث کا ایک سلسلہ چل نکلا۔ اس پر سب سے پہلے جناب ڈاکٹر صفدر محمود نے خیال آرائی اور بعد ازاں جناب مجیب الرحمن شامی نے ڈاکٹر صاحب کے خیالات کی نفی میں طبع آزمائی فرمائی۔ آسی صاحب نے پاکستان بھارت تعلقات کے حوالے سے قاسمی صاحب کے 18اگست کے کالم ”میاں نواز شریف، سری پائے اور بھولا ڈنگر“ کا مدلل جواب دیا تھا۔ قاسمی صاحب نے اس کا جواب جناب مجید نظامی صاحب کے نام خط میں دیا۔ ساتھ ہی اصرار بھی کیا کہ اسے نوائے وقت میں پورے ”تزک و احتشام“ کے ساتھ شائع کیا جائے۔ ان کی خواہش پوری کی گئی حالانکہ اس میں انہوں نے بقول ان کے ان کی تربیت کرنے والے پر طعن و تشنیع کے جتنے تیر ان کی ترکش میں تھے برسا دیئے تھے۔ وہ آسی صاحب کے کالم کا جواب اپنے اخبار میں ہی لکھ دیتے تو کافی تھا۔ آسی صاحب نے اپنا کالم جنگ میں شائع کرانے کی خواہش کی نہ درخواست نہ اصرار۔ قاسمی صاحب نے نظامی صاحب کو خط لکھنے کی ضرورت اس لیے محسوس کی کہ بقول ان کے ”مجھے منصور کے پردے میں خدا بولتا نظر آیا“ ضروری نہیں جو آپ دیکھتے ہیں، حقیقت بھی وہی ہو، سبز عینک لگا کر دیکھنے سے خزائیں بہاروں میں نہیں بدل جاتیں۔ آشوبِ چشم سے گلستان سیلابوں میں نہیں بہہ جاتے۔ قاسمی صاحب کو جو نظر آیا اسے سچ جان کے مجید نظامی صاحب کی ہجو فرما دی۔میں سعید آسی صاحب کا کولیگ اور مجید نظامی صاحب کے اسی طرح زیر تربیت ہوں جس طرح قاسمی صاحب 35سال نظامی صاحب کے زیر تربیت رہے۔ جس کا انہوں نے خود اپنے خط میں اعتراف کیا ہے۔ خدا نہ کرے میں حضرت علیؓ کے فرمان”جس پر احسان کرو اس کے شر سے بچو“ کی عملی تصویر بن کر نظامی صاحب کے روبرو ہو جاﺅں۔ منصور کے پردے میں قاسمی صاحب کو خدا بولتا اس لیے نظر آیا کہ ان کے دل کے دروازے ایسی ہی آوازیں سننے کے لئے کھلتے ہیں۔ نظامی صاحب کے کشمیر اور کشمیریوں کے حوالے سے خیالات و جذبات اظہر من الشمس ہیں۔ وہ خود کو بم باندھ کر بھارت پر گرانے کی بات کرتے ہیں تو دراصل وہ کہہ رہے ہوتے ہیںکہ مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے ہمیں جو بھی قربانی دینا پڑے جان کی اور مال کی‘ گریز اور دریغ نہیں کرنا چاہیے‘ اس کا قاسمی صاحب کو بھی مکمل ادراک ہے لیکن کمپےنیئنز کو خوش کرنے کے لیے انتہائی مضحکہ خیزی سے کام لیتے ہوئے فرمایا: 
”آپ اسے میری بزدلی اور مصلحت اندیشی کہہ لیں کہ میں آپ کی طرح اپنی کمر کے ساتھ ایٹم بم باندھ کر انڈیا پر گرنے کی بات نہیں کر سکتا کیونکہ ایک تو لاکھوں انسانوں کو مارنے کے تصور ہی سے میں لرز جاتا ہوں اور دوسرے اس لئے کہ ایٹم بم نابینا ہوتا ہے۔ انڈیا میں 18 کروڑ مسلمان بھی رہتے ہیں سو وہ جب گرے گا تو دوسرے مذاہب کے بے گناہ شہریوں کے علاوہ مسلمان بھی اس کی زد میں آئیں گے۔ لہٰذا میری درخواست ہے کہ خدارا آپ اپنی اس خواہش کو فی الحال عملی جامہ نہ پہنائیں مجھے دوسرے لاکھوں لوگوں کی طرح بلکہ ان سے بھی زیادہ آپ کی زندگی عزیز ہے۔ اللہ تعالیٰ آپ کو عمر خضر عطا فرمائے۔“ اس سلسلے کو آگے بڑھاتے ہوئے لکھتے ہیں:
”محترم نظامی صاحب! جو شخص بادل نخواستہ ادارہ نوائے وقت چھوڑنے پر مجبور ہو جائے تو کیا وہ دائرہ حب الوطنی سے بھی خارج ہو جاتا ہے اور اگر خارج ہو جاتا ہے تو میں تو ابھی تک آپ کی دعوت پر آپ کے زیر اہتمام منعقد ہونے والے یوم اقبال میں باقاعدگی سے شرکت کر رہا ہوں اگر آپ ایسا نہیں سمجھتے تو براہ کرم آپ آئندہ کسی اکھنڈ بھارتی کو اس تقریب میں مدعو نہ کریں۔ میں نے اپنی زندگی کے بہترین 35 سال نوائے وقت کو دئیے اور اب گذشتہ دس برس سے ”جنگ“ سے وابستہ ہوں۔ اس کا مالک اپنی حب الوطنی کا ڈھنڈورا نہیں پیٹتا لیکن سالہا سال سے پاکستان اور جمہوریت کے استحکام کے لئے حکمران طبقوں کے خلاف برسر پیکار ہے اور اب تک اربوں روپے کا نقصان برداشت کر چکا ہے۔ “
بتائیے قاسمی صاحب نے اس شخصیت کے ”احترام“ میں کوئی کسر چھوڑی جس نے ان کو کالم نگاری کی ابجد سکھائی؟ ۔ اب ہو سکتا ہے کہ ان کا دعویٰ ہو کہ وہ پیدائشی کالم نگار تھے۔35 سال نوائے وقت پر انہوں نے احسان کیا‘ نہ اب میں کر رہا ہوں‘ ہر پہلی پر باقاعدگی سے تنخواہ لیتا ہوں‘ یہ نوائے وقت کا مجھ پر احسان ہے۔ میری جناب قاسمی صاحب سے دعا سلام ہے نہ کبھی ملاقات ہوئی۔ اگر وہ میرے نام سے واقف ہیں تو صرف اس لئے کہ میں نوائے وقت میں کالم لکھتا ہوں۔ اگر وہ پہلے واقف نہیں تھے تو اب تعارف ہوگیا۔
اب اصل موضوع کی طرف لوٹتے ہیں۔ پاکستان بھارت تعلقات۔ ڈاکٹر صفدر محمود نے قاسمی صاحب کے خیالات پر آرٹیکل لکھا فرماتے ہیں:
”گزشتہ دنوں ملک کے ممتاز کالم نگار جناب عطاء الحق قاسمی صاحب نے اپنے کالم میں لکھا تھا کہ قیام پاکستان کے بعد”قائد اعظم کی خواہش تھی کہ وہ سال میں چند ہفتے بمبئی میں گزار ا کریں“۔ مجھے یہ بات انہونی سی لگی چنانچہ میں اس تاثر کا کھوج لگانے کی کوشش کرتا رہا۔ بلاشبہ قائد اعظم ہندوستان سے دوستانہ تعلقات کی خواہش رکھتے تھے اور آج بھی پاکستانیوں کی بڑی تعداد ہندوستان سے برابری کی سطح پر دوستانہ تعلقات کی آرزو رکھتی ہے لیکن اس آرزو کے راستے میں جتنی رکاوٹیں ہیں ان کا ہمیں اچھی طرح ادراک ہے۔ اول تو قائد اعظم پاکستان کے گورنرجنرل اور سربراہ مملکت بن کر بمبئی میں ہر سال چند ہفتے گزارنے کی خواہش رکھتے ہوں ناقابل یقین بات لگتی ہے کیونکہ وہ سات اگست1947ءکوپاکستان آئے ا ور چھ اگست کی شام وہ اپنے دوست کے ساتھ اپنی مرحومہ بیوی مریم (رتی) کی قبر پر دیر تک بیٹھے رہے۔ان کی آنکھوں سے آنسو رواں تھے اور انہوں نے اپنے دوست سے کہا کہ میں رتی کو خدا حافظ کہنے آیا ہوں جس کا مطلب یہ تھا کہ وہ دوبارہ بمبئی نہیں آسکیں گے۔ پنجاب میں تو سکھوں نے مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلی تھی لیکن دہلی، سہارن پور، یوپی وغیرہ میں ہندوو¿ں نے جس طرح مسلمانوں کا خون بہایا، عورتوں کی عصمتیں لوٹیں اور مسلمانوں کو گھروں میں جلایا اور یہ سب کچھ حکومتی نگرانی میں ہوا اس نے قائد اعظم پر گہرے اثرات مرتب کئے۔بمبئی میں ہر سال ہفتے گزارنا تو کجا قائد اعظم ہندوستان کی سرزمین پر قدم رکھنا بھی گوارا نہیں کرتے تھے جس کا سب سے بڑا ثبوت ان کا ڈھاکہ کا سرکاری دورہ ہے جب قائد اعظم کو بتایا گیا کہ ان کے طیارے کو ری فیول کے لئے دہلی اترنا پڑے گا تو انہوں نے کہا کہ وہ کسی قیمت پر بھی ہندوستانی سرزمین پر قدم نہیں رکھیں گے، چنانچہ ان کے طیارے کے ساتھ فیول دو اضافی ٹینک لگائے گئے تاکہ وہ ہندوستان رکے بغیر ڈھاکہ پہنچ جائیں۔ اس فیصلے میں خطرات مضمر تھے لیکن قائد اعظم نے ان خطرات کو قبول کیا۔ میری ذاتی رائے میں بمبئی ہفتے گزارنے کا تاثر بے بنیاد اور ہوائی ہے لیکن اگر کوئی صاحب اس ضمن میں ثبوت مہیا کرسکیں تو میں ان کا ممنون ہوں گا۔ “
ڈاکٹر صاحب کی وضاحت ہم جیسے پاکستانیوں کے دل کی آواز ہے۔ انہوں نے فرمایا تھا کہ بمبئی میں چند ہفتے گزارنے کے حوالے سے اگر کوئی صاحب اس ضمن میں ثبوت مہیا کر دیں تومیں انہوں کا ممنون ہوں گا۔ ثبوت جناب مجیب الرحمن شامی دور کی کوڑی کی طرح ڈھونڈ لائے۔ ڈاکٹر صاحب ممنون تو تب ہوں گے اگر ثبوت کو مان بھی جائیں گے۔ جناب شامی صاحب نے یہ ثبوت ڈاکٹر صاحب کو پیش نہیں کئے، قاسمی صاحب کو بھجوائے جنہوں نے انہیں اپنے کالم کا حصہ بنایا۔ تاہم شامی صاحب نے 31اگست کو عید والے دن اپنے اخبار میں بھی ”پاک بھارت تعلقات نواز شریف اور قائد اعظم “کے عنوان سے شائع کیا۔ ملاحظہ فرمائیے:
”کئی کرم فرما دو قومی نظریے کا مطلب یہ سمجھ بیٹھے ہیں کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان جنگ کا محاذ ہمیشہ گرم رہے گا اور ان دونوں ملکوں کے درمیان اچھے تعلقات کی بات ایک طرح سے اس نظریے کی نفی ہے۔ آپ (قاسمی صاحب) نے 18اگست کے روزنامہ”جنگ“ میں اپنے کالم میں اس موضوع پر اظہارخیال کرتے ہوئے لکھا تھا”وقت کی شدید ترین ضرورت ہے کہ ایک دوسرے کے قریب آیا جائے اور پاکستان اور ہندوستان کے درمیان ایسے تعلقات قائم ہوں جیسے تعلقات قائد اعظم محمد علی جناح چاہتے تھے۔ ان کی توخواہش تھی کہ وہ سال میں چند ہفتے بمبئی میں گزارا کریں“۔
میں آپ کی وساطت سے محترم ڈاکٹر صاحب کی خدمت میں پاکستان کے لئے بھارت کے پہلے ہائی کمشنر سری پرکاش کا ایک خط پیش کررہا ہوں جو30جولائی 1948ء کو لکھا گیا تھا۔ قائد اس وقت زیارت میں آرام کررہے تھے۔ اس خط کے مندرجات میں کوئی ابہام نہیں اس میں قائد اعظم کے خیالات بھی واضح طورپر سامنے آجاتے ہیں اور بھارتی حکومت کا وہ رویہ بھی جو اس نے قائد اعظم کی خواہش کے احترام میں اختیار کیا۔ یہ خط حکومت پاکستان کی طرف سے شائع کئے جانے والے ”جناح پیپرز“(جلد ہفتم) میں محفوظ ہے ملاحظہ ہو۔
ڈیئر مسٹر جناح…اس طرح زحمت دینے پر معاف کرئیے گا۔پورے خلوص دل سے مجھے امید ہے کہ اب آپ مکمل طور پر صحت یاب ہوچکے ہوں گے اور جلد ہی ہم آپ کو کراچی میں واپس خوش آمدید کہیں گے اگر آپ کراچی میں موجود ہوتے تو خود حاضر ہو کر اس معاملے کو آپ کے سامنے پیش کرتا چونکہ آپ شہر سے باہر ہیں اس لئے خط لکھ کر زحمت دے رہا ہوں۔ 
1۔ آپ کو شاید یاد ہو کہ 14مئی کو آپ نے میری درخواست پر مجھے انٹرویو دیا تھا۔ اس کے دوران میں نے انڈیا کی حکومت کی طرف سے آپ کی بمبئی والی رہا ئشگاہ قبضے میں لینے کی اجازت مانگی تھی۔ اس کی ضرورت اس لئے پیش آئی کہ بمبئی میں گھروں کی شدید قلت ہے جبکہ یہ رہائش گاہ کئی ماہ سے خالی پڑی تھی آپ نے جواب دیا تھا کہ ایسے گھر میں کوئی شہزادہ رہ سکتا ہے یا کوئی بے حد باذوق کروڑ پتی اور اگر عام لوگوں کو یہ گھر دے دیا گیا تو وہ بس اسے برباد ہی کرسکتے ہیں۔ آپ نے مزید اضافہ کیا کہ لوگوں کے لئے ان کی بمبئی سے محبت کا اندازہ کرنا بے حد مشکل ہے اور جب حالات بہتر ہوجائیں تو کسی دن آپ وہاں واپس جانا پسند کریں گے۔ آپ نے گھر بچانے میں مجھ سے مدد مانگی تھی اور میں نے ہر ممکن کوشش کرنے کا وعدہ کیا تھا۔
2۔میں نے فوراً جواہر لال کو ایک مفصل ٹیلی گرام بھیجا جس میں آپ کے جذبات اور خواہشات بیان کی گئی تھیں۔آپ کی خواہشات کے مدنظر انہوں نے بمبئی کی حکومت کو ہدایات جاری کر دیں اور آپ کے گھر کو ہاتھ بھی نہ لگایا گیا تا ہم ابھی مجھے دوبارہ ان کا پیغام ملا ہے اور میں آپ کو یہ خط اس لئے لکھ رہا ہوں کہ اس وقت بمبئی میں گھروں کی بڑی شدید قلت ہے۔ حکومت بمبئی نے اس مسئلے پر قابو پانے کے لئے بے حد سخت اقدامات کئے ہیں، ایسے میں حکومت کے لئے یہ بڑی پریشانی کی بات ہے کہ شہر میں اتنے بڑے گھر کو خالی پڑا رہنے کی اجازت دے دی جائے۔
3۔لہٰذا میں ایک مرتبہ پھر آپ سے درخواست کر رہا ہوں کہ براہ مہربائی بمبئی حکومت کو اپنی رہائش گاہ کسی غیر ملکی قونصلیٹ کو الاٹ کرنے کی اجازت دے دیجئے۔ یہ لوگ گھر کی اچھی طرح دیکھ بھال کریں گے اور اس کے غلط استعمال کا خطرہ نہ ہو گا۔ اس سے آپ کو اس بات کی تسلی بھی رہے گی کہ غیر متعلقہ افراد گھر استعمال نہیں کر رہے۔ حکومت انڈیا نے مجھے اس بات کی یقین دہانی بھی کرائی ہے کہ جب یہ گھر الاٹ کیا جائے گا تو قونصلیٹ پر پابندی ہو گی کہ جب آپ کو ذاتی استعمال کیلئے اس کی ضرورت ہو تو ایک مناسب نوٹس پیریڈ پر وہ اسے خالی کر دے۔ مجھے یہ اضافہ کرنے کی اجازت بھی دیجئے کہ مجھے یہ جان کر بے حد مسرت ہوئی کہ آپ واپس بمبئی جانے کی خواہش رکھتے ہیں۔ یہ شہر آپ کا قرض دار ہے۔ مجھے یقین ہے کہ وہاں کے شہری آپ کا استقبال دوبارہ بڑی گرمجوشی سے کریں گے۔
4۔اگر آپ کی اجازت ہو تو میں تجویز کروں گا کہ آپ بمبئی کے حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے خود ہی اپنی رہائش گاہ کسی غیر ملکی قونصلیٹ کو دینے کی پیشکش کر دیں۔ آپ کی عین نوازش ہو گی۔ اس سے آپ کی طرف سے ظاہر کیا جانے والا خدشہ زائل ہو جائے گا کہ آپ کی رہائش گاہ کو قبضے میں لینے سے انڈین مسلمانوں کے دماغوں میں تلخی پھیلے گی کہ وہ اس حکومتی اقدام کی بے حد مختلف تشریح کر سکتے ہیں۔ انہیں جب معلوم ہو گا کہ آپ نے حکومت کی ضروریات کو دیکھتے ہوئے رضاکارانہ طور پر یہ پیشکش کی ہے، تو کوئی منفی جذبات سر نہیں ابھاریں گے اور یہ اقدام بجا طور پر آپ کی فراخدلی کا ثبوت ہو گا۔ یہ بات کرنے کے لئے معذرت چاہتا ہوں لیکن براہ مہربانی ہو سکے تو اپنی توقع کے مطابق کرائے کے لئے کوئی مناسب رقم تجویز کر دیجئے۔ حکومت انڈیا کی اس سلسلے میں مدد ہو جائے گی اور متعلقہ قونصلیٹ کو بھی مطلع کر دیا جائے گا۔ 5۔آخر میں مجھے اضافہ کرنے کی اجازت دیجئے کہ میں نے ذاتی اور غیر سرکاری طور پر اچھی طرح تحقیقات کی ہیں، میں آپ کو یقین دلانا چاہوں گا کہ آپ نے اس ساری کارروائی کے پیچھے جس شخص کے ملوث ہونے کا خدشہ ظاہر کیا تھا، اس کا اس معاملے سے کوئی تعلق نہیں۔ کسی بھی حال میں یہ گھر اس کے لئے بے حد چھوٹا ہوتا، جیسے کہ آپ کا بھی خیال تھا۔ اس کا خاندان بہت بڑا ہے اور ویسے بھی وہ بیکانیر (BIKANER) میں رہائش اختیار کر رہا ہے اور بمبئی سے اس کا کوئی خاطر خواہ تعلق نہیں۔آپ کو تکلیف دینے پر ایک مرتبہ پھر معذرت خواہ ہوں۔
آپ کا انتہائی احترام آمیز، جذبات کیساتھ سری پرکاش۔
1۔ یاد رکھا جائے کہ یہ خط جولائی 1948ء میں لکھا گیا اور اس میں سری پرکاش سے قائداعظم کی جس ملاقات کا احوال بیان کیا گیا ہے وہ بھی 14مئی 1948ء کو ہوئی 
تھی۔ اس وقت تک فسادات ہو چکے تھے، خون کے دریا بہائے جا چکے تھے، مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلی جا چکی تھی اور پنجاب کے دونوں حصوں سے علی الترتیب مسلمان اور ان کے حریف ( ہندو اور سکھ ) نقل مکانی کر چکے تھے۔ اس لئے کشت وخون نے قائداعظم پر جو بھی گہرے اثرات مرتب کئے ہوں، ان کے وژن کو بہرحال متاثر نہیں کیا تھا۔2۔اس خط سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ قائد اعظم اور بھارتی حکومت کسی کا بھی خیال نہیں تھا کہ دونوں ملکوں سے نقل مکانی کرنے والوں کی جائیدادوں پر قبضہ کیا جائے۔ بمبئی کے مکان پر قائد اعظم کے حق ملکیت کو تسلیم کیا جا رہا تھا اور قائداعظم کے ذہن میں بھی یہ بات نہیں تھی کہ پاکستان آنے سے یہ مکان ان کا نہیں رہا۔
3۔مکان کرایہ پر دینے کی بات ہو رہی تھی اور وہ کرایہ ظاہر ہے قائداعظم کو ملنا تھا اسی لئے تو ان سے تجویز مانگی جارہی تھی۔ قائد اعظم کے ذہن میں یہ نہیں تھا کہ اب وہ کبھی بھارت نہیں جائیں گے۔ ان کا خیال یہی تھا کہ دونوں ملکوں کے شہری آزادانہ ایک دوسرے ملک میں آ جا سکیں گے اور اپنی اپنی جائیدادوں کی دیکھ بھال کرسکےں گے۔ قائد اعظم کے دل میں بمبئی کی محبت جاگزیں تھی اور وہ اس سے رابطہ نہیں توڑنا چاہتے تھے۔
جہاں تک ڈاکٹر صاحب کے اس استدلال کا تعلق ہے کہ انہوں نے مرحومہ بیوی مریم (رتی) کی قبر پر دیر تک بیٹھ کر آنسو بہائے اور اسے خدا حافظ کہا، تو ان کی خدمت میں عرض ہے کہ جب ایک شخص ایک دوسرے ملک کا شہری بن رہا ہو تو ظاہر ہے پہلے ملک سے اس کا تعلق متاثر ہوتا ہے۔ قائداعظم بھی نئے وطن میں جا رہے تھے ،بھارتی سے پاکستانی بن رہے تھے تو اپنے سابقہ وطن کے رہنے والوں کو خدا حافظ کہنا غیر منطقی نہیں تھا۔ اس سے یہ کہاں ثابت ہوتا ہے کہ سابقہ وطن سے کوئی تعلق نہیں رہے گا، اور اس کی طرف مڑ کر دیکھنا بھی ممنوع قرار پائے گا۔جہاں تک ڈھاکہ جاتے ہوئے بھارت کی سرزمین پر قدم نہ رکھنے کا فیصلہ تھا تو یہ ایک لمحاتی فیصلہ ہو سکتا ہے۔ قائد اعظم کا جہاز بھارت کی فضاو¿ں سے گزر کر ہی مشرقی بنگال پہنچا تھا اور وہ بخوبی جانتے تھے کہ مغربی حصے سے مشرقی بنگال جانے کے لئے بھارت کی فضا میں قدم رکھنا پڑے گا۔ فضا میں قدم رکھنے والے کے لئے زمین پر قدم رکھنا کس طرح (ہر حالت میں اور ہر وقت ) ناقابل برداشت ہو سکتا ہے۔پاکستان اور بھارت کے درمیان گزشتہ ساٹھ سال میں جو کچھ ہوتا رہا ہے اس کی ذمہ داری بھارت پر کہیں زیادہ ہے۔ اس نے اول روز ہی سے پاکستان کو نیچا دکھانے کی خواہش پال لی تھی۔ اس سے جنوبی ایشیا کی مجموعی فضا گدلی ہوئی لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ پاکستان کی کسی حکومت سے کوئی غلطی ہی نہیں ہوئی اور معاملات کے بگاڑ میں اس کا کوئی ہاتھ ہی نہیں ہے۔ یہ موضوعات الگ بحث کا تقاضا کرتے ہیں اس لئے اسے کسی اور موقع کے لئے اٹھا رکھتے ہوئے اجازت چاہتا ہوں۔اللہ تعالیٰ ہمیں تاریخی حقائق کو ان کے صحیح سیاق و سباق میں سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے۔“
”شامی صاحب نے فرمایا کہ اس سے کہاں ثابت ہوتا ہے کہ سابقہ وطن سے کوئی تعلق نہیں رہے گا۔ بالکل اسی طرح سری پرکاش کے خط سے بھی کہیں ثابت نہیں ہوتا کہ قائد اعظم نے سال میں چند ہفتے بمبئی میں گزارنے کا عہد کیا یا عندیہ دیا تھا۔ مزید فرماتے ہیں اس وقت تک فسادات ہو چکے تھے خون کے دریا بہائے جا چکے تھے“۔ یہاں شامی صاحب نے صرف نظر فرمایا یا بھول گئے کہ فسادات کا سلسلہ تقسیم ہند کے بعد کبھی نہیں رُکا۔ بقول قائداعظمؒ پاکستان کی شہ رگ مقبوضہ کشمیر تقسیم ہند کے اصول و ضوابط کے مطابق پاکستان کا حصہ ہے جس پر بھارت نے نہ صرف غاصبانہ اور جارحانہ قبضہ کیا ہوا ہے بلکہ خونریزی کا سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ سری پرکاش نے اپنے خط میں یہ لکھا ” جب حالات بہتر ہو جائیں تو کسی دن آپ وہاں واپس جانا پسند کریں گے“۔ قائد اعظم کی زندگی میں کیا اب تک بھی حالات بہتر نہیں ہوئے۔ قائد اعظم نے تو جنرل گریسی کو حملہ کرکے مقبوضہ وادی کو آزاد کرانے کا حکم دیا تھا۔ کیا یہ حالات میں بہتری تھی یا مزید ابتری؟ 
بھارت اور پاکستان نے برطانیہ سے آزادی حاصل کی۔ اب دونوں آزاد ممالک کے برطانیہ کے ساتھ بہتر تعلقات ہیں۔ اس لیے کہ برطانیہ کے ساتھ دونوں کا کوئی تنازع نہیں۔ پاکستان اور بھارت کے تعلقاب بھی بعینہ بہتر ہو سکتے ہیں اگر ان کے درمیان بھی تنازع نہ رہے۔ سب سے بڑا تنازع مسئلہ کشمیر کی صورت میں موجود ہئے۔ اس کے ہوتے ہوئے بھارت کے ساتھ کیسے دوستی ہوسکتی ہے؟ قائد اعظم اصول عزم استقلال اور غیرت و حمیت کا مجسمہ تھے۔ ان کے کردار و عمل اور افکار و اقوال کی روشنی میں پورے یقین کے ساتھ کہا جا سکتا ہے کہ مسئلہ کشمیر کی موجودگی باالخصوص کشمیر میں بھارتی افواج کے مظالم اور خون کی ندیاں بہائے جانے کے باعث قائد اعظم کبھی بھارت کا رُخ نہ کرتے۔ اس کا اظہار اس سے بھی ہوتا ہے کہ وہ قیام پاکستان کے بعد اپنی زندگی کے پہلے سال چند ہفتے کیا ایک دن کے لئے بھی بمبئی نہیں گئے۔ شامی صاحب اور قاسمی صاحب سے درخواست ہے کہ یہ بھی فرما دیں کہ بھارت کے ساتھ ان حالات میں دوستی ہو سکتی ہے کہ بھارت کی کشمیر میں لاکھوں فوجیوں کے ہاتھوں کشمیریوں کی قبا محفوظ ہے نہ عزت مآب خواتین کی عبا اور ردا۔ بھارتی فوجی انکی نوجوان نسل کے خاتمے پر تلے ہیں بچوں تک کو ذبح کر دیا جاتا ہے۔کیا فرماتے ہیں بھارتی شردھالو بیچ اس مسئلہ کے؟



No comments:

Post a Comment