About Me

My photo
Fazal Hussain Awan colomnist Daily NAWAI WAQT awan368@yahoo.com 03334215368

Thursday, September 1, 2011

کیسے کہوں عید مبارک


31-8-2011


کیسے کہوں عید مبارک!
فضل حسین اعوان 
کئی برسوں کی طرح 1432 ہجری کی عید الفطر میں بھی ہمارے لیے پیغام مسرت ہے نہ نوید راحت و فرحت۔ اُمہ پر بدستور مایوسیوں کے سائے اور تاریکیوں کے سائبان تنے ہیں۔ جہاں اس کا سبب ہنود، یہود و نصاریٰ کا گٹھ جوڑ ہے وہیں اسلامی ممالک کے حکمرانوں کی منافقت کی سی مصلحت بھی کار فرما ہے۔ افغانستان اور عراق میں انسانیت سسک اور بلک رہی ہے۔جو جنگ کا ایندھن بنے، ان کے لواحقین کی تعداد کروڑوں میں ہے۔ ان کی عید کیسی ہو گی! فلسطین میں صہونیت نے مسلمانوں کی گردن پر ڈریکولائی پنجے گاڑے ہوئے ہیں۔ غزہ کے لاکھوں محصورین خوراک اور ادویات کے لئے ترس اور تڑپ رہے ہیں۔ اسرائیل نے مظلوم فلسطینیوں کے لئے ان کے اپنے علاقوں کو بے درحصار میں بدل دیا۔ سینکڑوں بچے دودھ، ہزاروں بوڑھے ادویات کی کمی کے باعث لقمہ اُجل بن گئے۔ بچنے والے پیروجواں زندگی و موت کے درمیان معلق ہیں۔ ان کی عید کیسی ہو گی! مقبوضہ کشمیر میں سات لاکھ بھارتی کتوں کی گولیاں اور سنگینیں کشمیریوں کے جگر چیر رہی ہیں۔ ماتم کناں قوم کا جان ومال محفوظ ہے نہ عزت و آبرو، ان کی عید کیسی ہو گی!
وطن عزیز و عظیم کے جسد کارواں رواں بارود سے دھواں دھواں ہے۔ غیروں کی جنگ چنگاری سے شعلہ بنی اب الاﺅ بن کر دہک رہی ہے۔ نصف لاکھ پاکستانی اس جنگ کا ایندھن بن گئے۔ کتنے سہاگ لٹے، کتنے بچے یتیم ہوئے، کتنی مائیں بے سہارا ہوئیں، کتنی بہنوں کی بھائیوں کی راہیں دیکھتے آنکھیں پتھرا گئیں۔ ان کی عید کیسی ہو گی....
ایک جنگ کراچی میں اپنوں کے درمیان جاری ہے۔ گلا کاٹنے والا مسلمان، جس کا گلا کٹ گیا وہ بھی مسلمان۔ قبضے کی جنگ، ایک دوسرے پر فوقیت کے لئے جنگ۔ جہاں دل کے ارمان ہی نہیں جلتے۔ شاخ نازک پہ بنے آشیاں ہی نہیں جلتے۔ زندہ انسان بھی جلائے جاتے ہیں۔ وسائل متحارب کے قبضے میں جانے کا خدشہ ہے۔ دس سالہ لڑکا کچرے سے کاغذ چُن کر پچاس ساٹھ روپے کماتا ہے۔ گھر پر ماں منتظر کہ اس کا لعل چھوٹے بھائی کے لئے دودھ لے کر آئے گا۔ گھر میں اپنے لخت جگر کی گولیوں سے چھلنی لاش آ جائے تو اس قیامت کا اندازہ کیجئے۔ اس معصوم کو ٹارگٹ کرکے متحارب گروپ کے قبضے میں جانے سے کتنے وسائل بچائے گئے؟ صبح گھر سے جانے والا دوپہر کو معدوم و مرحوم اور سہاگن بیوہ بنی ہوتی ہے۔ عیدی کے منتظر بچوں کی بچوں کو یتیمی کا داغ گھائل کر دیتا ہے۔ جن ہاتھوں پر مہندی رچنی اور چوڑیاں سجنی تھیں وہ باپ اور بھائی کی میت پر ماتم کرتے اور سر پیٹتے شل ہو جاتے ہیں۔ ان کی عید کیسی ہو گی! میں کسے اور کیسے کہوں عید مبارک! کلر کوئی بھی ہو وہ اور اس کے پروردہ انسانیت کے دشمن اور بے رحم احتساب کے مستوجب ہیں۔ اپنے مفادات کے لئے قاتلوں کا تحفظ اور پردہ پوشی قتل جیسا ہی جرم ہے۔ ذوالفقار مرزا نے برملا کراچی کے قاتل بڑی جرات سے بے نقاب کر دیئے۔ اب ان پر اگر ہاتھ نہیں ڈالا جاتا تو تاریخ ذمہ داروں کو معاف نہیں کرے گی۔ قرآن کی قسم اٹھانے کی کوئی شرعی حیثیت نہیں۔ رواجاً اپنے سچا ہونے کی دلالت کے لیے قرآن پر قسم اٹھائی جاتی ہے۔ مرزا صاحب نے بھی ایسا ہی کیا ہے۔ ان کی صداقت پر شک نہیں کیا جا سکتا۔ اس کا جواب وہ نہیں جو متحدہ دے رہی ہے۔ ”مرزا کی باتیں شرانگیز، بے بنیاد اور لغو ہیں“۔ آپ بھی اسی طرح قرآن اٹھا کر پوائنٹ ٹو پوائنٹ جواب دیں۔ رحمن ملک بھی ایسا ہی کریں۔ شاید قرآن کی شرم سے وہ سچ بول دیں۔
ذوالفقار مرزا ایم کیو ایم پر برسے بلکہ انگارے برسائے۔ چند روز قبل ایم کیو ایم کو دھمکایا تو اسی روز 15 لاشیں گرا دی گئیں۔ اب تو انہوں نے انتہا کر دی لیکن کراچی میں امن رہا۔ متحدہ اپنا ہو یا پرایا ادھار نہیں رکھتی اب خاموش ہے۔اس میں ان کی اور قوم و ملک کی بھی بھلائی ہے۔ ذوالفقار مرزا اپنی جرات اظہار پر اپنی زندگی کو خطرے میں بھی سمجھتے ہیں۔ انہوں نے کہا ہے کہ میں مارا گیا تو وہی ذمہ دار ہوں گے جنہوں نے عمران فاروق کو قتل کیا ہے۔ عمران فاروق کو کس نے قتل کیا؟ چند روز قبل نوائے وقت میں ایک رپورٹ شائع ہوئی۔ اس کے مطابق حساس اداروں نے عمران فاروق کے قتل کیس کے ماسٹر مائنڈ خالد شمیم سمیت تین افراد کو حراست میں لے لیا۔ دیگر دو نوجوانوں کا تعلق پاکستان متحدہ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن سے ہے جنہیں سٹوڈنٹ ویزے پر برطانیہ بھجوایا گیا تھا۔ وہ اپنے مشن کے بعد کولمبو پہنچے، انہیں راستے سے ہٹانے اور قتل کے تمام نشان مٹانے کے لیے کراچی بلایا گیا جہاں ایئر پورٹ سے یہ پکڑے گئے۔ اس کے بعد بڑی مشکل سے متحدہ کو خالد شمیم کی حوالگی کے لئے آمادہ کیا گیا۔اس خبر کے سچ ہونے میں اس لئے شک نہیں ہے کہ عبدالرحمن ملک نے کہا ہے کہ ایئر پورٹ سے کسی کو گرفتار نہیں کیا گیا۔ اس کے بعد اسی خبر کے بطن سے ان افواہوں نے جنم لیا کہ الطاف حسین برطانیہ میں زیر حراست ہیں۔ ذوالفقار مرزا کہتے ہیں الطاف حسین جنوبی افریقہ بھاگ رہے تھے کہ ان کو حراست میں لے لیا گیا۔ مرزا صاحب نے یہ بات قرآن اٹھا کے نہیں بتائی ۔ رابطہ کمیٹی کا کہنا ہے کہ الطاف بھائی ایک ہفتہ سے ہسپتال میں داخل ہیں۔ برطانیہ کے ہائی کمشنر نے کہا ہے کہ الطاف حسین کی گرفتاری کی خبر بے بنیاد ہے۔ ساتھ یہ بھی کہہ دیا کہ ٹونی بلیئر کو لکھے گئے کسی خط کا علم نہیں۔ دیکھئے صاحب بہادر نے کونسی بات رحمن ملک کے انداز میں کی ہے۔
بعض حلقوں کی طرف سے مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ مرزا صاحب کے انکشافات اور الزامات کی صداقت کے لئے ایک بااختیار کمشن بنایا جائے۔ اس کی اس لیے ضرورت نہیں کہ جسٹس افتخار محمد چودھری کی سربراہی میں سپریم کورٹ کا بنچ کراچی کے حالات کی تہہ تک پہنچنے کیلئے کراچی میں ہی نان سٹاپ سماعت کر رہا ہے۔ یہی بنچ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کر دے گا۔ ہمارے سیاستدان سپریم کورٹ کے ججوں کے جذبے اور کمنٹمنٹ سے سبق سیکھیں!
لیکن کیا کیا جائے صدر مملکت جن کے دستخط اور منظوری سے یہ کام ہونا وہ آج چین چلے گئے آج عید ہے۔ اس کے بعد انہوں کسی اور ملک کے دورے پر وہاں سے روانہ ہونا ہے اور پھر کہیں اور۔ کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی!


No comments:

Post a Comment