About Me

My photo
Fazal Hussain Awan colomnist Daily NAWAI WAQT awan368@yahoo.com 03334215368

Thursday, March 15, 2012

جرمِ ضعیفی

جمعرات ، 15 مارچ ، 2012

جرمِ ضعیفی
فضل حسین اعوان 
کوئٹہ کے ایمل کانسی نے 25جنوری 1993کو ورجینیا میں سی آئی اے کے اہل کاروں پر اے کے 47 سے فائرنگ کی جس میں 68سالہ لانسنگ ایچ بینٹ اور 28سالہ فرینک ڈارلنگ موقع پر دم توڑ گئے جب کہ ان کے تین ساتھی زخمی ہوئے۔ کانسی کے بقول اس کے اس انتہائی اقدام کا باعث مشرق وسطیٰ کے حوالے سے امریکی پالیسی تھی خصوصی طور پر امریکہ کی حمایت سے اسرائیل کے فلسطینیوں پر ڈھائے جانے والے مظالم پر۔ جعلی پاسپورٹ پر امریکہ پہنچنے والا ایمل کانسی وہاں ڈرائیوری کرتا تھا۔ قتل کی واردات کے بعد پاکستان چلا آیا۔ اسے ڈیرہ غازی خان کے ایک ہوٹل سے رات کے اندھیرے میں ایف بی آئی نے پاکستانی ایجنسیوں کے تعاون سے اٹھایا اور دو دن بعد 17جون 1997ءکو سی 141 کارگو طیارے میں بٹھا کر امریکہ پہنچا دیا گیا۔ کانسی کی حوالگی کے دنوں میں نواز شریف دو تہائی اکثریت سے آراستہ وزیر اعظم اور فاروق لغاری 58 ٹو بی کے اختیارات سے پیراستہ صدر تھے۔ ہم اس بحث میں نہیں پڑتے کانسی کی گرفتاری کس کی ایما پر ہوئی۔ امریکہ میں اس کا ٹرائل ورجینیا کی عدالت نے کیا جس نے سزائے موت کے ساتھ ساتھ اسے قید اور 6 لاکھ ڈالر جرمانے کی سزا بھی سنائی۔ سزائے موت پر 14 نومبر 2002ءکو عمل کرکے امریکہ نے نعش پاکستان پہنچا دی۔
کانسی نے جرم کا ارتکاب امریکہ میں کیا تھا اگر اس کا ٹرائل پاکستان میں ہوتا امریکی مدعیان کیس کی پیروی کرتے تو پاکستانی عدالتیں بھی اسے وہی سزا دیتیں جو امریکی جیوری نے دی۔ ایمل کانسی امریکیوں کا قاتل تھا اس لئے امریکہ اسے پاکستان سے لے گیا۔ اس کے بعد پاکستانی حکومت نے اپنے شہری کی اس کو زہر کے ٹیکے کے ساتھ موت سے ہمکنار ہونے تک خبر نہ لی۔ اس کے بعد گزشتہ سال ایسا ہی واقعہ ریمنڈس ڈیوس کے ہاتھوں وقوع پذیر ہوا جس نے دو پاکستانیوں کو قتل کیا۔ وہ پاکستان سے فرار نہیں ہوا تاہم امریکہ حکومت پاکستان پر دباﺅ ڈال کر اس وعدے کے ساتھ کہ اس کے خلاف دو پاکستانیوں کے قتل کا مقدمہ امریکہ میں چلے گا، اسے رہا کرا کے لے گیا اب وہ وہاں آزاد ہے۔عالمی سطح پر انسانی حقوق کے دعویدار امریکہ نے ایک طرح کے معاملے میں دہرے معیار کا رویہ کیوں اپنایا؟ اب اس کا مزید خوفناک رویہ سامنے آیا ہے۔
10مارچ کو قندھار کے سخت پہرے میں گھرے ہوئے فوجی اڈے سے ایک امریکی فوجی رات کے پچھلے پہر باہر نکلا۔ دو نواحی دیہات الخوئی اور نجیبان میں دو گھروں میں گھس کر اندھا دھند فائرنگ کرکے 9خواتین اور 3بچوں سمیت 16 انسانوں کو قتل کیا اور متعدد کی لاشوں کو آگ لگا دی۔ یہ سفاکیت کی انتہا ہے۔ امریکہ نے اس پر افسوس ضرور کیا ساتھ اسے ذہنی خلفشار کا شکار بھی قرار دیا۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ کیا ذہنی معذور لڑ رہے ہیں؟ یقینا اس اقدام کی منظوری اوباما نے دی نہ پینٹا گون نے، لیکن کوئی بھی فوجی دو اڑھائی بجے اپنی مرضی سے فوجی اڈے سے نہیں نکل سکتا۔ اس ذہنی معذور کو اپنے جیسے ذہنی معذور ساتھیوں کا تعاون ضرور حاصل ہو گا۔ ابھی تک بگرام جیل میں امریکی فوجیوں کی طرف سے قرآن کریم کی بے حرمتی پر افغان مشتعل ہیں۔ 16 بے گناہ افراد کی ہلاکت جلتی پر تیل کا کام کرے گی۔ افغانوں نے اعلان کر دیا ہے کہ وہ انتقام میں ہر امریکی فوجی کا سر قلم کر دیں گے۔ بکھرے ہوئے افغانیوں کو مذکورہ دو واقعات نے متحد کر دیا ہے جس کا نتیجہ جلد سامنے آ جائے گا۔ اوپر سے پاکستان کی طرف سے نیٹو رسد کی بحالی کا بھی ہنوز کوئی امکان نہیں۔
افغان پارلیمنٹ نے کہا ہے کہ 16 افراد کے قاتل پر مقدمہ افغانستان میں چلایا جائے۔ پینٹاگون نے افغانوں کی نمائندہ پارلیمنٹ کے مطالبے کو مسترد کر دیا ہے کیس دو اور دو چار کی طرح واضح ہے۔ امریکہ کی مختلف ریاستوں میں قتل کی مختلف سزائیں ہیں۔ کہیں سزائے موت کہیں عمر قید اگر کیس فوجی عدالت میں چلا تو فوجی عدالت شاید اسے ذہنی خلفشار کا نتیجہ قرار دے کر ا سکے علاج کی سفارش کر دے۔
عراق افغانستان اور پاکستان میں امریکہ جو کچھ کر رہا ہے۔ لیبیا میں جو کچھ کر چکا، شام میں جو کچھ کرنے والا ہے اسے پوری مسلم امہ کی بے بسی تناظر میں دیکھا جائے تو اس مصرعے کے مصدق تصویر سامنے آتی ہے۔
ع ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات
دنیا عمومی طور پر مسلم اور نان مسلم دو دھڑوں میں تقسیم ہے۔ نان مسلم امت مسلمہ کے خلاف متحد ہیں۔ ہنود، یہود و نصاریٰ کا گٹھ جوڑ بالکل واضح ہے۔ کمیونزم اور سوشلزم کے دعویدار بھی اس گٹھ جوڑ کے نشانے پر ہیں۔ ہنود، یہود اور نصاریٰ کی اجارہ داری کا خاتمہ صرف مسلمہ امہ کے اپنے اتحاد اور چین و روس کو ساتھ ملانے سے ہی ممکن ہے۔ چین نے عالمی تھانیداری کی کبھی منصوبہ بندی کی نہ وہ کسی کے معاملات میں دخل اندازی کرتا ہے۔ البتہ روس کو اپنے دماغ سے ایک بار پھر پہلے کی طرح سپر پاور بننے کا خنانس نکالنا ہو گا۔ اگر مسلم سوشلسٹ اور کمیونسٹ ممالک نے ہنود و یہود، نصاریٰ کے عالمی اتحاد کے سامنے بند باندھنے کی کوشش نہ کی تو یہ تثلیث ان کی خود مختاری کو بھی تا راج کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھے گی۔


Tuesday, March 13, 2012

اب مہران گیٹ کی زد میں کون آئیگا؟

 بدھ ، 14 مارچ ، 2012


اب مہران گیٹ کی زد میں کون آئیگا؟
فضل حسین اعوان ـ 19 گھنٹے 49 منٹ پہلے شائع کی گئی
پاکستان انہونیوں کے لئے زرخیز سرزمین ہے۔ بالا دست طبقات حتیٰ کہ قانون ساز بھی خود کو آئین اور قانون سے بالا تر سمجھتے ہیں۔ ہم نے مغربی طرز جمہوریت کو محض نام کی حد تک ہی اپنایا، جمہوری ادوار میں بھی آمرانہ رویے کار فرما رہے ہیں۔ یہی ہمارے مسائل اور مصائب کا سبب ہیں۔ اقتدار میں آنے والے سیاستدانوں کی آمرانہ سوچ کی کوکھ سے ہی عدلیہ اور فوج سمیت ہر ادارے کو مطیع کرنے کی خواہش جنم لیتی ہے۔ فوج تو کم کم ہی سیاسی حکومتوں کی فرمانبردار رہی ہے البتہ عدلیہ جس جرات کا اظہار آج کر رہی ہے اس کی پوری تاریخ میں مثال خال خال ہی ملتی ہے۔ ایوب، ضیاءاور مشرف کی آمریتوں کو عدلیہ نے سندِ جواز بخشی۔ آج کے جج ان ادوار کے ججوں کی طرح سہمے سہمے نہیں ہیں۔ بڑا فرق ہے اُس دور اور آج کے دور میں۔ جنرل ضیاءالحق نے اپنے ہی ہاتھ سے لگائے ہوئے جمہوریت کے پودے کو تناور تخت بننے سے قبل ہی 29مئی 1988ءکو اکھاڑ پھینکا تو 17اگست 1988ءکو خود بھی راہی ملک عدم ہو گئے۔ محمد خان جونیجو حکومت کی بحالی کی امید لے کر سپریم کورٹ چلے گئے۔ متوقع فیصلے میں مثبت اشارے تھے ۔ جونیجو صاحب کی گاڑی سپریم کورٹ کے باہر لہراتے جھنڈے کے ساتھ کھڑی تھی کہ آرمی چیف جنرل اسلم بیگ کا پیامبر ججوں کو جا کر ملاجنرل اسلم بیگ کے بقول انہوں نے کہا تھا کہ اب چونکہ انتخابات کے انتظامات مکمل ہیں اس لئے حکومت بحال نہ کی جائے۔ آرمی چیف کی چٹ پر فیصلہ بدل دیا گیا۔ آج صورت حال بالکل بدل چکی ہے آرمی چیف ڈی جی آئی ایس آئی اور وزیر اعظم تک کی سپریم کورٹ میں طلبی ہو رہی ہے۔ عدلیہ کا قبلہ تقریباً درست ہو چکا ہے جبکہ سیاستدانوں کی فوج اور عدلیہ کو زیر اثر رکھنے کی خواہش بدستور موجود ہے۔آج مہران بنک سکینڈل کا ایک بار پھر بڑا شہرہ ہے اس کی چاپ 1991ءمیں سنائی دی۔ 1993ءمیں سازش کی صورت میں اس کی شہرت ہوئی 1996ءمیں کیس سپریم کورٹ گیا۔ شروع دن سے ساستدانوں نے اصولوں کی پاسداری اور عدلیہ نے اپنی ذمہ داری ادا کی ہوتی تو فیصلہ کب کا ہو چکا ہوتا۔ مہران بنک سکینڈل اکیس سا ل سے کبھی منظر پر چھا جاتا رہا اور کبھی بارش میں دھول کی طرح بیٹھ جاتا رہا ہے۔ اس دوران آندھی، طوفان اور بگولوں کے اثرات چھوڑ گیا لیکن ہنوز فیصلہ طلب ہے۔ محترمہ بینظیر بھٹو کے وزیر داخلہ نصیر اللہ بابر نے آرمی چیف جنرل وحید کاکڑ سے سکینڈل کے ذمہ داران کے خلاف تحقیقات کی اجازت حاصل کرنے کے بعد کارروائی کیلئے سمری صدر فاروق خان لغاری کو بھجوا دی۔ صدر لغاری نے فوج کے سپریم کمانڈر کی حیثیت سے اجازت دیدی۔ معاملہ سپریم کورٹ میں گیا جسٹس سجاد علی شاہ نے کیس کی پہلی سماعت ہی کی تھی کہ صدر لغاری نے اس کے دو دن بعد 5نومبر 1996ءکو بینظیر بھٹو کی حکومت توڑ دی۔ یہ اسی دور کی بات ہے جب صدر لغاری نے مبینہ طور پر اپنی بنجر زمین پلج کرکے یونس حبیب کے بنک سے کروڑوں روپے وصول کئے تھے۔ اس کے ساتھ ہی کیس بھی نظر انداز ہو گیا۔ میاں نواز شریف دو تہائی اکثریت حاصل کرکے حکومت میں آئے تھے۔ چیف جسٹس سجاد علی شاہ کے ساتھ ٹھنی اس دوران اصغر خان مہران بنک سکینڈل پر فیصلے کیلئے عدالت میں حاضر ہو گئے۔ سجاد علی شاہ نے بند فائل کھول دی۔ اس دوران ان کے ساتھی ججوں نے بغاوت کر دی۔ جسٹس سعید الزمان صدیقی کی سربراہی میں سجاد علی شاہ کے مقابل عدالت لگ گئی۔ نو مبر میں سجاد علی شاہ اور فاروق لغاری دونوں کو گھرجانا پڑا یوں یہ کیس ایک بار پھر بند ہو گیا چیف جسٹس سعید ازمان صدیقی نے اسے ایک بار پھر کھولا۔ اس کی آخری سماعت ہوئی اور فیصلہ محفوظ کر لیا گیا لیکن سنانے کی نوبت نہ آ سکی اگلے روز 12اکتوبر 1999ءکو مشرف نے نواز شریف حکومت پر شب خون مارا اور یہ کیس ایک بار پھر تاریکیوں میں گم ہو گیا۔
کہا جاتا ہے کہ مہران بنک سکینڈل دو حکومتوں کے خاتمے کا باعث بنا۔ اب تیسری حکومت کو ڈبو سکتا ہے۔ موجودہ حکومت نے اپنے خاتمے کے بہت سے دیگر ”انتظامات“ کر رکھے ہیں۔ اسے شاید مہران بنک کیس پر تکیہ نہ کرنا پڑے۔ اب مہران بنک سکینڈل کسی اور کو زد میں لیتا نظر آتا ہے۔ زرداری و گیلانی سرکار کا جو بھی ایجنڈا اب تک تشنہ تکمیل ہے اس کی وجہ اپوزیشن کی عدم حمایت ہے۔ 20ویں ترمیم اپوزیشن کے تعاون سے پاس ہوئی۔ جنرل شجاع پاشا سے جان چھڑانے کیلئے ن لیگ بھی حکومتی ایجنڈے سے متفق تھی۔ جسٹس افتخار محمد چودھری بھی اسی طرح حکومتی ”گڈ بک“ میں شامل ہیں جس طرح جنرل کیانی اور جنرل پاشا۔ خصوصی طور پر میمو گیٹ میں گواہیوں کے بعد۔ مہران بنک سکینڈل کا فیصلہ آیا تو پیپلز پارٹی کیلئے ریلیف نہ بھی ہوا، اس کے نقصان میں تو ہر گز نہیں ہو گا۔ پیپلز پارٹی اس پر غیر جا نبدارانہ فیصلے کی توقع رکھتی ہے لیکن اس کا دوسرا ”کاز“ بہت بڑا ہے۔ جسٹس افتخار محمد چودھری اس کیلئے اتنے ہی ”پسندیدہ“ ہیں جتنے وہ جنرل مشرف کے لئے تھے لیکن موجودہ حکومت ان کا کچھ بگاڑنے کی پوزیشن میں نہیں .... اب ذرا یونس حبیب کے بیانات اور مہران بنک سکینڈل کے حوالے سے تحقیقات پر نظر ڈالیں تو رقوم وصول کرنے والوں کا تعلق پیپلز پارٹی کے سوا تقریباً تمام قابل ذکر پارٹیوں سے ہے۔ حتمی فیصلے تک جو کچھ بھی منظر عام پر آئے گا وہ حقیقت رہی ہو یا افسانہ مذکورہ لوگوں پر کیچڑ تو اچھلے گا۔ اس لئے کوئی بھی نہیں چاہے گا کہ یہ سکینڈل منطقی انجام تک پہنچے۔ اس کیس کو ایک بار پھر تاریکی کی گہرائی میں گرانے کی راہ میں صرف چیف جسٹس ہی رکاوٹ ہیں۔ پیپلز پارٹی کی حکومت اپنے ایجنڈے کی تکمیل کی راہ میں چیف جسٹس کو سنگ گراں سمجھتی ہے۔ اب یہ تمام پارٹیوں کا مشترکہ ایجنڈا بن گیا تو نتیجہ اخذ کرنے کیلئے کسی دانش افلاطون، عقل سقراط اور حکمت بقراط کی ضرورت نہیں۔


Sunday, March 11, 2012

ضمیرکی موت

اتوار ، 11 مارچ ، 2012

ضمیرکی موت
فضل حسین اعوان ـ 17 گھنٹے 23 منٹ پہلے شائع کی گئی
مہران بنک سکینڈل ایک ارب اڑتالیس کروڑ روپے کی گیم ہے ان میں سے مبینہ طور پر بتیس کروڑ روپے سیاستدانوں مخصوص صحافیوں اور تقسیم کرنے والوں کے عزیز رشتہ داروں اور دوستوں میں تقسیم کئے گئے۔ تقسیم کاروں میں مرکزی کردار آئی ایس آئی کا بتایا جاتا ہے۔ اس وقت آئی ایس آئی کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل اسد درانی تھے۔ ان کے پیٹ میں دیانت داری کا مروڑ اس وقت اٹھا جب ان کی تقسیم شدہ رقوم اپنا رنگ دکھا چکی تھیں۔ یونس حبیب سے حاصل کی گئی رقم آئی جے آئی کی تشکیل کیلئے استعمال ہوئی جس کا مقصد بے نظیر بھٹو کی دوبارہ اقتدار میں آمد کے رستے روکنا تھا۔ 1993ءمیں محترمہ بے نظیر بھٹو اقتدار میں آئیں تو اسد درانی نے پیسے لینے والے سیاستدانوں اور صحافیوں کی فہرست ان کے حوالے کر دی جس پر درانی کو جرمنی کی سفارت سے نواز دیا گیا۔
کسی بھی ادارے یا کمپنی کی کامیابی کا انحصار اس کی انتظامیہ کے ایک دوسرے کے اوپر اعتماد پر بھی ہوتا ہے۔ بہت سے معاملات صیغہ راز کے متقاضی ہوتے ہیں۔ ان کو امانت کا نام دینا زیادہ بہتر ہے۔ مشاہدے میں یہ معاملات آتے رہتے ہیں کہ سرکاری اداروں سے ریٹائر ہونے والے بعض اعلیٰ عہدیدار ایسے راز بھی افشا کر دیتے ہیں جو آئینی و قانونی طور پر ان کی قبریں ان کے ساتھ ہی دفن ہو جانے چاہئیں۔ سیاست میں بھی یہ چلن عام ہو چکا ہے کہ پارٹی بدلنے کے ساتھ ہی ایک دوسرے کا کچا چٹھا کھولنا شروع کر دیا جاتا ہے۔ یہ بلاشبہ بدترین غیر اخلاقی حرکت ہے۔ اس پر اگر کسی طرف سے واہ واہ کی جاتی ہے تو ملامت کرنے والوں کی کمی بھی نہیں ہوتی۔ پرائیویٹ بڑے اور چھوٹے اداروں سے بھی مالکان کے اعتماد کے لوگ ادارہ بدلنے کے بعد اعتماد کرنے والوں کے خلاف پراپیگنڈا کرتے ہوئے ان کے اعتماد کو ٹھیس پہنچاتے ہیں۔ ہم اسے بھی بے اصولی اور بددیانتی کہیں گے۔تاہم پرویز حمید صاحب کہتے ہیں کہ ایسے لوگ اصلی النسل نہیں ہو سکتے۔ 
جنرل درانی نے عدالت کے روبرو گزشتہ روز کہا کہ انہوں نے آرمی چیف جنرل اسلم بیگ کے احکامات پر ذاتی حیثیت میں رقوم تقسیم کیں۔ آئی ایس آئی بطور ادارہ شامل نہیں تھی۔جنرل اسد درانی نے پی ایم اے میں قوم سے وفاداری کا حلف اٹھایا تھا۔ کیا وہ آرمی چیف کا غیر قانونی حکم ماننے کے پابند تھے؟ وہ جرنیل بن گئے تھے۔ فیلڈ مارشل تو بن نہیں سکتے تھے استعفیٰ دے کر گھر چلے آتے۔ راولپنڈی سے میجر ریٹائرڈ نذیر احمد فاروق کا فون آیا وہ کہتے ہیں میجر حمید اصغر قتل ہو گئے۔ ان کو انکوائری افسر مقرر کیا گیا۔ ان پر دباﺅ ڈالا گیا کہ وہ قتل کو حادثاتی موت قرار دے دیں۔ ضمیر دباﺅ کے راستے میں سنگ گراں بن گیا جو حقیقت تھی وہی لکھا۔ اس کی پاداش میں ترقی روک دی گئی۔ ریٹائرمنٹ کے بعد آرمی کو ری جائن کیا تو تقرری د ھمیال کیمپ ہوئی۔ کمانڈنٹ قاسم بیس سے ملحقہ دو سو کنال اراضی پر قبضہ کرنا چاہتے تھے یہ یہاں بھی سدِ راہ بن گئے۔ اس پر ان کو دو سال قبل ریٹائر کر دیا گیا۔ وہ جنرل درانی سے ایسے ہی کردار کی توقع کرتے تھے.... جنرل درانی اگر رقوم کی تقسیم کو جائز سمجھتے ہیں تو پھر ریٹائرمنٹ کے بعد جو راز ان کے ساتھ ہی دفن ہو جانا چاہیے تھا وہ چند سال بھی ہضم نہ کر پائے۔ بادی النظر میں انہوں نے دو مرتبہ اپنے حلف کی خلاف ورزی کی، رقوم تقسیم کرنے میں ملوث ہوئے اور پھر اس راز کو افشا کرکے، ایسے ”باضمیر“ شخص کی گواہی کی کیا ساکھ رہ جاتی ہے۔ یہی کلیہ یونس حبیب کے اوپر بھی لاگو ہوتا ہے انہوں نے اب تک خاموشی کیوں اختیار کئے رکھی؟۔ سچ کہا کسی نے جب انسان کے ضمیر کی موت ہو جائے تو وہ زندگی کے جس مرحلے پر بھی ہو خواہ موت کی دہلیز پر ہی کیوں نہ ہو۔ اسے کسی چیز کی پروا نہیں ہوتی۔ اخلاقیات کی، اصولوں کی، نہ حلف کی پاسداری کی۔
درانی اور یونس حبیب کے سوا مہران بنک سکینڈل کا ہر مبینہ کردار خود کو اس معاملے سے بری الذمہ قرار دیتا ہے جو ذمے داری قبول کر رہے ہیں ان کی تو خبر لے لینی چاہیے۔ 1991-92ءمیں نواز شریف دور میں قومی اسمبلی میں آئی ایس آئی کی طرف سے رقوم کی تقسیم کی باتیں ہونے لگی تھیں۔ برنجو کا نام آنے پر میر حامل بزنجو نے اپنی نشست سے کھڑے ہو کر سپیکر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ بزنجو کوئی نام نہیں۔ یہ قبیلہ ہے جس بزنجو نے پیسے لئے اس کا نام بتائیں۔ میں نے کوئی رقوم وصول نہیں کی۔ اس پر چار پانچ ایم این ایز نے ان سے کہا لعنت بھیجیں اس معاملے پر، دفع کریں، چھوڑیں ان چکروں کو.... آج بڑے بڑے سیاستدانوں کے رقوم کی وصولی کے حوالے سے نام سامنے آ رہے ہیں جن میں سے ہر کسی نے تردید کی ہے۔ دیکھیں کہیں تقسیم کاروں نے کروڑوں روپے بڑے سیاستدانوں اور نامی‘ گرامی صحافیوں کے ناموں سے ملتے جلتے اپنے رشتہ داروں میں تقسیم تو نہیں کر دیئے۔


Thursday, March 8, 2012

پسندیدہ ترین.... کیا پاکستان بھارت رشتوں کی نوعیت بدل گئی؟

جمعرات ، 08 مارچ ، 2012

پسندیدہ ترین.... کیا پاکستان بھارت رشتوں کی نوعیت بدل گئی؟
فضل حسین اعوان 
وقت گزرنے کے ساتھ غاصبانہ مقبوضات کو قانونی حیثیت حاصل نہیں ہو سکتی۔ قائد اعظم کی ناگہانی رحلت کے بعد پاکستانی حکومتوں نے حیدر آباد دکن مناوادر اور جونا گڑھ پر بھارتی جارحیت کو یوں نظر انداز کیا کہ جیسے بھارت کو ان ریاستوں پر قبضے کی سند جواز دیدی گئی ہو۔ اب بھارت مقبوضہ کشمیر‘ سیاچن اور سرکریک میں سٹیٹس کو برقرار رکھ کر ان علاقوں کو بھی تاریخ کی تاریکیوں میں گم کر دینا چاہتا ہے۔ بھارت کے اس ایجنڈے کی آبیاری امریکہ، متعدد یورپی اور چند عرب ممالک بھی کرتے ہیں۔ اب بدقسمتی سے پاکستان کے حکمرانوں نے بھی بھارتی ایجنڈے کی حمایت پر کمر کس لی ہے۔ بھارت کو پسندیدہ ترین ملک قرار دینا اسی ایجنڈے کا حصہ ہے۔ قائد اعظم نے کشمیر کو پاکستان کی شہ رگ قرار دیا۔ وہ اسے ہر صورت بھارت کے پنجہ استبداد سے چھڑانا چاہتے تھے۔ انہوں نے قائم مقام آرمی چیف جنرل گریسی کو حملہ کرکے کشمیر کو آزاد کرانے کا حکم تک دے دیا تھا لیکن قائد کے بعد آنے والے حکمرانوں کی کشمیر پر قائد جیسی کمٹمنٹ نہ رہی یوں مسئلہ کشمیر لٹکتا چلا گیا۔ آج کے حکمرانوں کے طرز عمل سے لگتا ہے کہ یہ کشمیر کو بوجھ سمجھ کر اس سے خلاصی چاہتے ہیں۔ بھارت نے مسئلہ کشمیر اس نہج تک پہنچا دیا کہ اس کا حل جنگ کے سوا ممکن نہیں رہا۔ دوسری طرف پاکستان اسے یوں نظر انداز کر رہا ہے کہ گویا بھارت کو کشمیر پلیٹ میں رکھ کر پیش کیا جا رہا ہے۔ مسئلہ کشمیر اور پاکستان دشمنی کے حوالے سے بنیا حکمرانوں اور ہندو مسلم میڈیا کی سوچ یکساں ہے۔ اس کا اظہار مہاراشٹر سے شائع ہونے والے روزنامہ سہارا میں لکھے گئے ”ہند....پاک تجارتی معاہدہ رشتوں کی نوعیت بدل گئی“ کے عنوان سے کیا گیا ہے۔ اس کا ابتدایہ ملاحظہ فرمائیے جس میں بھارت کو پسندیدہ ملک قرار دینے کی بھارت کے نقطہ نظر سے افادیت اور خوشی کا واضح اظہار دکھائی دیتا ہے۔
”کبھی جنگ، کبھی امن کی باتیں اور پھر جنگ، مختصر سی یہ تاریخ رہی ہے ہندو پاک رشتوں کی۔ ظاہر ہے ان حالات میں اگر یہ سوال اٹھتا ہے کہ کیا ہندو پاک کبھی پرامن ہمسایوں کی طرح رہ سکتے ہیں۔ یہ کوئی غلط سوال تو نہیں ہے لیکن پچھلے ہفتے ہند و پاک کے درمیان جو تجارتی معاہدہ ہوا ہے اس کے بعد ہند و پاک رشتوں کی نوعیت بدل گئی۔ اب اگر یہ کہا جائے کہ ہند و پاک جنگ قصہ پارینہ ہوئی اور اب تو ان دونوں ملکوں کے درمیان امن کا بول بالا ہو گا تو یہ مبالغہ آرائی نہ ہو گی کیونکہ تجارت دو ملکوں کو نہ صرف ایک دوسرے سے قریب لاتی ہے بلکہ ایک دوسرے کے رشتوں کے درمیان ایسے مفاد پیدا کر دیتی ہے کہ پھر جنگ کا سوال ہی نہیں اٹھتا ہے“۔ گویا بھارتیوں کو اپنی دانست میں اب پاکستان بھارت تنازعات پر جنگ کا خدشہ نہیں رہا۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ تجارت کے ذریعے معاشی رشتوں کے بندھن میں بندھ جانے اور سیاسی مسائل کے حل پر یقین بھی ظاہر کرتے ہیں۔ مذکورہ مضمون میں اس خوش فہمی کا اظہار یوں کیا گیا ہے۔ ”الغرض اب ہند وپاک کو معاشی رشتے ایک دوسرے کو آپس میں باندھیں گے۔ جب معاشی رشتے بڑھیں گے تو پھر سیاسی مسائل کے حل ہونے کے راستے خود بخود کھلتے جائیں گے“۔ یقیناً ایسی ہی سوچ ادھر کے حکمرانوں چند مخصوص، سیاستدانوں اور تجارت کے خبط میں مبتلا مٹھی بھر فرزانوں کی بھی ہو سکتی ہے لیکن ملکی آبادی کا معتدبہ حصہ بشمول ایک آدھ گروپ کے سوا پورا پاکستانی میڈیا مسئلہ کشمیر کی موجودگی میں بھارت کے ساتھ تجارت اور دوستی کا قائل نہیں ہے۔
بھارتی اخبار سہارا میں شائع ہونے والے ظفر آغاز کے کالم کے ایک ایک لفظ سے پاکستان دشمنی کی بو آتی ہے۔ پاک فوج کے حوالے سے میاں نواز شریف سے ملاقات کے دوران جو کچھ عطاءاللہ مینگل نے کہا تھا وہی مخصوص ہندو ذہنیت کا پھیلایا ہوا پراپیگنڈا ہے۔ ملاحظہ فرمائیے۔ 
”سوال یہ ہے کہ آخر زرداری حکومت نے ہندو پاک کے درمیان تجارت کے رشتے بڑھانے کا اقدم کیوں اٹھایا اور اس سے پہلے اندرا گاندھی کے وقت سے ہندوستان یہی بات کہتا رہا ہے تو کسی پاکستانی حکومت نے یہ بات کیوں نہیں سنی؟ اس کی وجہ بالکل صاف ہے۔ دراصل جناح صاحب کی موت کے کچھ عرصہ بعد ہی پاکستانی نظام پر پنجابیوں کا قبضہ ہو گیا چونکہ فوج پنجاب کی روایت رہی ہے اس لیے پنجابیوں نے فوجی نظام کو ترجیح دی اور اس طرح پاکستان پر فوج حاوی ہو گئی جس کے ذریعہ پنجابیوں نے پاکستان پر اپنا قبضہ جمائے رکھا جب فوجی نظام ہو گا تو اس فوجی نظام کا کچھ جواز بھی ہونا چاہیے۔ چنانچہ پنجابی پاکستانی نظام نے وہ جواز پیدا کرنے کے لئے ہندوستان کا حوا کھڑا کیا۔ یعنی جو ہندوستان سے آ رہا ہے وہ تو پاکستان پر قابض ہو جائے گا؟ اب پاکستان کو بچایا کیسے جائے۔ جناب پاکستان کو صرف فوج بچا سکتی ہے اور یہ فوج کس کی۔ یہ فوج پنجابیوں کی جوہر ہندوستانی شر کے خلاف نفرت پیدا کرکے فوج کو پاکستانی نظام پر حاوی رکھتی ہے۔ ظاہر ہے کہ وہ فوج اور وہ پنجابی نظام ہندوستان کے ساتھ تجارت کیسے کر سکتا تھا“۔ پاکستان پر 33 سال فوجی آمریت مسلط رہی۔ ایوب، ضیاءاور مشرف تینوں کا تعلق پنجاب سے نہیں تھا مہاجر ضیاءجالندھر سے سیدھے پشاور گئے تھے۔ پاکستان بھارت کے مابین کشمیر تنازع ہے وہ طے ہو جائے تعلقات پر کسی کو اعتراض نہیں ہو گا۔ مسئلہ کشمیر کی موجودگی میں بھارت کے ساتھ تعلقات شہدائے تحریک آزادی 65-48 اور 71ءکی جنگوں کے شہدا اور الحاق پاکستان کی خاطر جان دینے والے کشمیریوں کے خون سے بے وفائی ہے آج یہ بیوفائی ہو رہی ہے۔ فوج پر تنقید کرکے اسے قومی سلامتی کے معاملات سے لاتعلق ہونے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔ مذکورہ کالم کا یہ اقتباس ملاحظہ فرمائیے:
”لیکن زرداری حکومت کے دوران پاکستانی نظام میں تبدیلی پیدا ہوئی۔ آصف علی زرداری نہ خود سندھی ہیں بلکہ انہوں نے پنجابیوں کے خلاف پاکستان کے دیگر صوبوں مثلاً پٹھانوں کے ساتھ مل کر ایک نیا محاذ کھولا ہے۔ ظاہر ہے کہ اس سے پنجابیوں کو خطرہ پیدا ہو گیا ہے لیکن اتنے برس پاکستانی فوج نے عام پاکستانیوں کی زندگی کو اس قدر جہنم بنایا کہ اب عام پاکستانی کو فوج منظور نہیں ہے لیکن پنجابی زرداری کو ہٹانے کو بے چین ہیں۔ یہی سبب ہے کہ زرداری اور فوج و آئی ایس آئی میں آئے دن سرکشی رہتی ہے لیکن زرداری برسر اقتدار رہتے ہوئے ہر وہ کام کر رہے ہیں کہ جس سے پاکستانی فوج کی گرفت پاکستانی نظام پر ڈھیلی ہو جائے۔ ایک جانب تو فوج سے ان کی ٹھنی ہوئی ہے۔ دوسری جانب انہوں نے ہندوستان سے رشتے بہتر کرنے کے تمام راستے کھولنے شروع کر دیئے ہیں۔ ان راستوں میں سے ایک اہم راستہ ہندوپاک تجارت کا ہے۔ چنانچہ فوج کی تمام تر مخالفت کے باوجود زرداری نے ہندوستان کے ساتھ تجارتی معاہدہ کر لیا۔“
حکومت کی طرف سے بھارت کو پسندیدہ ترین ملک قراردینے کا واویلا نقطہ کھولاﺅ پر تھا تو حکومتی ترجمان نے وضاحت کی تھی کہ اس اقدام میں فوج کو اعتماد میں لیا گیا لیکن فوج کی طرف سے اس کی کبھی تصدیق نہیں کی گئی جس اقدام سے مسئلہ کشمیر پر پاکستان کے اصولی موقف سے انحراف ہو اس پر محب وطن حلقے اور فوج کیسے خاموش رہ سکتے ہیں؟
جسٹس افتخار چودھری اور میاں نواز شریف موقع بے موقع کہتے رہے ہیں کہ کوئی ماورائے آئین برداشت نہیں کریں گے۔ فوج شاید ان بیانات کے تناظر میں ہی پانی سر کے اوپر سے گزرتا دیکھ کر بھی خاموش ہے۔ وہ عوامی مطالبات کو بھی کوئی اہمیت نہیں دے رہی یقینا اس کا ایسا ہی کردار ہونا چاہیے لیکن فوج کے اس کردار اور عدلیہ و اپوزیشن کے فوج کے بارے سخت موقف کے باعث حکمرانوں نے خود کو اس قدر آزاد سمجھ لیا کہ قومی مفادات کو تج کر معاہدے کئے جا رہے ہیں۔ اب جسٹس افتخار محمد چودھری اور میاں نواز شریف حکمرانوں کو آئین کے دائرے میں رکھنے اور قائداعظم کے فرمودات خصوصی طور پر کشمیر کو پاکستان کو شہ رگ قرار دینے کے اعلان پر عمل پیرا ہونے پر کاربند کرنے کیلئے کردار ادار کریں۔
پاکستان بھارت رشتوں کی نوعیت قطعی اور کبھی نہیں بدل سکتی۔ بھارت کے ساتھ تعلقات کا اوبال حکومت کی تبدیلی کے ساتھ ساتھ کم یا زیادہ ہوتا رہتا ہے۔ جلد یا بدیر مسئلہ کشمیر کے حل کا فیصلہ کن دن ضرور آئے گا بھارت سے تجارت و تعلقات کا خبط حدوں کو پار کرنے لگا تو شاید سنجیدہ حلقوں کے زور پر پاک فوج کو وہی کچھ کرنا پڑے گا جو دوسری جنگ عظیم میں یوگوسلاویہ کی فوج نے کیا تھا۔ سیاسی حکومت اپنے لوگوں کی خواہشات کے برعکس ہٹلر کی اتحادی تھی۔ اس نے عوامی جذبات پر اپنے اقتدار کو ترجیح دی تو فوج اقتدار سنبھال کر ہٹلر کے مخالف کیمپ میں چلی گئی تھی۔


پسندیدہ ترین.... کیا پاکستان بھارت رشتوں کی نوعیت بدل گئی؟

جمعرات ، 08 مارچ ، 2012

پسندیدہ ترین.... کیا پاکستان بھارت رشتوں کی نوعیت بدل گئی؟
فضل حسین اعوان 
وقت گزرنے کے ساتھ غاصبانہ مقبوضات کو قانونی حیثیت حاصل نہیں ہو سکتی۔ قائد اعظم کی ناگہانی رحلت کے بعد پاکستانی حکومتوں نے حیدر آباد دکن مناوادر اور جونا گڑھ پر بھارتی جارحیت کو یوں نظر انداز کیا کہ جیسے بھارت کو ان ریاستوں پر قبضے کی سند جواز دیدی گئی ہو۔ اب بھارت مقبوضہ کشمیر‘ سیاچن اور سرکریک میں سٹیٹس کو برقرار رکھ کر ان علاقوں کو بھی تاریخ کی تاریکیوں میں گم کر دینا چاہتا ہے۔ بھارت کے اس ایجنڈے کی آبیاری امریکہ، متعدد یورپی اور چند عرب ممالک بھی کرتے ہیں۔ اب بدقسمتی سے پاکستان کے حکمرانوں نے بھی بھارتی ایجنڈے کی حمایت پر کمر کس لی ہے۔ بھارت کو پسندیدہ ترین ملک قرار دینا اسی ایجنڈے کا حصہ ہے۔ قائد اعظم نے کشمیر کو پاکستان کی شہ رگ قرار دیا۔ وہ اسے ہر صورت بھارت کے پنجہ استبداد سے چھڑانا چاہتے تھے۔ انہوں نے قائم مقام آرمی چیف جنرل گریسی کو حملہ کرکے کشمیر کو آزاد کرانے کا حکم تک دے دیا تھا لیکن قائد کے بعد آنے والے حکمرانوں کی کشمیر پر قائد جیسی کمٹمنٹ نہ رہی یوں مسئلہ کشمیر لٹکتا چلا گیا۔ آج کے حکمرانوں کے طرز عمل سے لگتا ہے کہ یہ کشمیر کو بوجھ سمجھ کر اس سے خلاصی چاہتے ہیں۔ بھارت نے مسئلہ کشمیر اس نہج تک پہنچا دیا کہ اس کا حل جنگ کے سوا ممکن نہیں رہا۔ دوسری طرف پاکستان اسے یوں نظر انداز کر رہا ہے کہ گویا بھارت کو کشمیر پلیٹ میں رکھ کر پیش کیا جا رہا ہے۔ مسئلہ کشمیر اور پاکستان دشمنی کے حوالے سے بنیا حکمرانوں اور ہندو مسلم میڈیا کی سوچ یکساں ہے۔ اس کا اظہار مہاراشٹر سے شائع ہونے والے روزنامہ سہارا میں لکھے گئے ”ہند....پاک تجارتی معاہدہ رشتوں کی نوعیت بدل گئی“ کے عنوان سے کیا گیا ہے۔ اس کا ابتدایہ ملاحظہ فرمائیے جس میں بھارت کو پسندیدہ ملک قرار دینے کی بھارت کے نقطہ نظر سے افادیت اور خوشی کا واضح اظہار دکھائی دیتا ہے۔
”کبھی جنگ، کبھی امن کی باتیں اور پھر جنگ، مختصر سی یہ تاریخ رہی ہے ہندو پاک رشتوں کی۔ ظاہر ہے ان حالات میں اگر یہ سوال اٹھتا ہے کہ کیا ہندو پاک کبھی پرامن ہمسایوں کی طرح رہ سکتے ہیں۔ یہ کوئی غلط سوال تو نہیں ہے لیکن پچھلے ہفتے ہند و پاک کے درمیان جو تجارتی معاہدہ ہوا ہے اس کے بعد ہند و پاک رشتوں کی نوعیت بدل گئی۔ اب اگر یہ کہا جائے کہ ہند و پاک جنگ قصہ پارینہ ہوئی اور اب تو ان دونوں ملکوں کے درمیان امن کا بول بالا ہو گا تو یہ مبالغہ آرائی نہ ہو گی کیونکہ تجارت دو ملکوں کو نہ صرف ایک دوسرے سے قریب لاتی ہے بلکہ ایک دوسرے کے رشتوں کے درمیان ایسے مفاد پیدا کر دیتی ہے کہ پھر جنگ کا سوال ہی نہیں اٹھتا ہے“۔ گویا بھارتیوں کو اپنی دانست میں اب پاکستان بھارت تنازعات پر جنگ کا خدشہ نہیں رہا۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ تجارت کے ذریعے معاشی رشتوں کے بندھن میں بندھ جانے اور سیاسی مسائل کے حل پر یقین بھی ظاہر کرتے ہیں۔ مذکورہ مضمون میں اس خوش فہمی کا اظہار یوں کیا گیا ہے۔ ”الغرض اب ہند وپاک کو معاشی رشتے ایک دوسرے کو آپس میں باندھیں گے۔ جب معاشی رشتے بڑھیں گے تو پھر سیاسی مسائل کے حل ہونے کے راستے خود بخود کھلتے جائیں گے“۔ یقیناً ایسی ہی سوچ ادھر کے حکمرانوں چند مخصوص، سیاستدانوں اور تجارت کے خبط میں مبتلا مٹھی بھر فرزانوں کی بھی ہو سکتی ہے لیکن ملکی آبادی کا معتدبہ حصہ بشمول ایک آدھ گروپ کے سوا پورا پاکستانی میڈیا مسئلہ کشمیر کی موجودگی میں بھارت کے ساتھ تجارت اور دوستی کا قائل نہیں ہے۔
بھارتی اخبار سہارا میں شائع ہونے والے ظفر آغاز کے کالم کے ایک ایک لفظ سے پاکستان دشمنی کی بو آتی ہے۔ پاک فوج کے حوالے سے میاں نواز شریف سے ملاقات کے دوران جو کچھ عطاءاللہ مینگل نے کہا تھا وہی مخصوص ہندو ذہنیت کا پھیلایا ہوا پراپیگنڈا ہے۔ ملاحظہ فرمائیے۔ 
”سوال یہ ہے کہ آخر زرداری حکومت نے ہندو پاک کے درمیان تجارت کے رشتے بڑھانے کا اقدم کیوں اٹھایا اور اس سے پہلے اندرا گاندھی کے وقت سے ہندوستان یہی بات کہتا رہا ہے تو کسی پاکستانی حکومت نے یہ بات کیوں نہیں سنی؟ اس کی وجہ بالکل صاف ہے۔ دراصل جناح صاحب کی موت کے کچھ عرصہ بعد ہی پاکستانی نظام پر پنجابیوں کا قبضہ ہو گیا چونکہ فوج پنجاب کی روایت رہی ہے اس لیے پنجابیوں نے فوجی نظام کو ترجیح دی اور اس طرح پاکستان پر فوج حاوی ہو گئی جس کے ذریعہ پنجابیوں نے پاکستان پر اپنا قبضہ جمائے رکھا جب فوجی نظام ہو گا تو اس فوجی نظام کا کچھ جواز بھی ہونا چاہیے۔ چنانچہ پنجابی پاکستانی نظام نے وہ جواز پیدا کرنے کے لئے ہندوستان کا حوا کھڑا کیا۔ یعنی جو ہندوستان سے آ رہا ہے وہ تو پاکستان پر قابض ہو جائے گا؟ اب پاکستان کو بچایا کیسے جائے۔ جناب پاکستان کو صرف فوج بچا سکتی ہے اور یہ فوج کس کی۔ یہ فوج پنجابیوں کی جوہر ہندوستانی شر کے خلاف نفرت پیدا کرکے فوج کو پاکستانی نظام پر حاوی رکھتی ہے۔ ظاہر ہے کہ وہ فوج اور وہ پنجابی نظام ہندوستان کے ساتھ تجارت کیسے کر سکتا تھا“۔ پاکستان پر 33 سال فوجی آمریت مسلط رہی۔ ایوب، ضیاءاور مشرف تینوں کا تعلق پنجاب سے نہیں تھا مہاجر ضیاءجالندھر سے سیدھے پشاور گئے تھے۔ پاکستان بھارت کے مابین کشمیر تنازع ہے وہ طے ہو جائے تعلقات پر کسی کو اعتراض نہیں ہو گا۔ مسئلہ کشمیر کی موجودگی میں بھارت کے ساتھ تعلقات شہدائے تحریک آزادی 65-48 اور 71ءکی جنگوں کے شہدا اور الحاق پاکستان کی خاطر جان دینے والے کشمیریوں کے خون سے بے وفائی ہے آج یہ بیوفائی ہو رہی ہے۔ فوج پر تنقید کرکے اسے قومی سلامتی کے معاملات سے لاتعلق ہونے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔ مذکورہ کالم کا یہ اقتباس ملاحظہ فرمائیے:
”لیکن زرداری حکومت کے دوران پاکستانی نظام میں تبدیلی پیدا ہوئی۔ آصف علی زرداری نہ خود سندھی ہیں بلکہ انہوں نے پنجابیوں کے خلاف پاکستان کے دیگر صوبوں مثلاً پٹھانوں کے ساتھ مل کر ایک نیا محاذ کھولا ہے۔ ظاہر ہے کہ اس سے پنجابیوں کو خطرہ پیدا ہو گیا ہے لیکن اتنے برس پاکستانی فوج نے عام پاکستانیوں کی زندگی کو اس قدر جہنم بنایا کہ اب عام پاکستانی کو فوج منظور نہیں ہے لیکن پنجابی زرداری کو ہٹانے کو بے چین ہیں۔ یہی سبب ہے کہ زرداری اور فوج و آئی ایس آئی میں آئے دن سرکشی رہتی ہے لیکن زرداری برسر اقتدار رہتے ہوئے ہر وہ کام کر رہے ہیں کہ جس سے پاکستانی فوج کی گرفت پاکستانی نظام پر ڈھیلی ہو جائے۔ ایک جانب تو فوج سے ان کی ٹھنی ہوئی ہے۔ دوسری جانب انہوں نے ہندوستان سے رشتے بہتر کرنے کے تمام راستے کھولنے شروع کر دیئے ہیں۔ ان راستوں میں سے ایک اہم راستہ ہندوپاک تجارت کا ہے۔ چنانچہ فوج کی تمام تر مخالفت کے باوجود زرداری نے ہندوستان کے ساتھ تجارتی معاہدہ کر لیا۔“
حکومت کی طرف سے بھارت کو پسندیدہ ترین ملک قراردینے کا واویلا نقطہ کھولاﺅ پر تھا تو حکومتی ترجمان نے وضاحت کی تھی کہ اس اقدام میں فوج کو اعتماد میں لیا گیا لیکن فوج کی طرف سے اس کی کبھی تصدیق نہیں کی گئی جس اقدام سے مسئلہ کشمیر پر پاکستان کے اصولی موقف سے انحراف ہو اس پر محب وطن حلقے اور فوج کیسے خاموش رہ سکتے ہیں؟
جسٹس افتخار چودھری اور میاں نواز شریف موقع بے موقع کہتے رہے ہیں کہ کوئی ماورائے آئین برداشت نہیں کریں گے۔ فوج شاید ان بیانات کے تناظر میں ہی پانی سر کے اوپر سے گزرتا دیکھ کر بھی خاموش ہے۔ وہ عوامی مطالبات کو بھی کوئی اہمیت نہیں دے رہی یقینا اس کا ایسا ہی کردار ہونا چاہیے لیکن فوج کے اس کردار اور عدلیہ و اپوزیشن کے فوج کے بارے سخت موقف کے باعث حکمرانوں نے خود کو اس قدر آزاد سمجھ لیا کہ قومی مفادات کو تج کر معاہدے کئے جا رہے ہیں۔ اب جسٹس افتخار محمد چودھری اور میاں نواز شریف حکمرانوں کو آئین کے دائرے میں رکھنے اور قائداعظم کے فرمودات خصوصی طور پر کشمیر کو پاکستان کو شہ رگ قرار دینے کے اعلان پر عمل پیرا ہونے پر کاربند کرنے کیلئے کردار ادار کریں۔
پاکستان بھارت رشتوں کی نوعیت قطعی اور کبھی نہیں بدل سکتی۔ بھارت کے ساتھ تعلقات کا اوبال حکومت کی تبدیلی کے ساتھ ساتھ کم یا زیادہ ہوتا رہتا ہے۔ جلد یا بدیر مسئلہ کشمیر کے حل کا فیصلہ کن دن ضرور آئے گا بھارت سے تجارت و تعلقات کا خبط حدوں کو پار کرنے لگا تو شاید سنجیدہ حلقوں کے زور پر پاک فوج کو وہی کچھ کرنا پڑے گا جو دوسری جنگ عظیم میں یوگوسلاویہ کی فوج نے کیا تھا۔ سیاسی حکومت اپنے لوگوں کی خواہشات کے برعکس ہٹلر کی اتحادی تھی۔ اس نے عوامی جذبات پر اپنے اقتدار کو ترجیح دی تو فوج اقتدار سنبھال کر ہٹلر کے مخالف کیمپ میں چلی گئی تھی۔


Tuesday, March 6, 2012

!گنجائش

منگل ، 06 مارچ ، 2012

گنجائش!
فضل حسین اعوان ـ 15 گھنٹے 26 منٹ پہلے شائع کی گئی
سینٹ الیکشن میں متوقع کامیابی پر وزیراعظم گیلانی کا غیرمتوقع ردعمل ماورائے دانش ہونے کے ساتھ ساتھ پنجابی فلموں کی بے مقصد بڑھکوں جیسا تھا۔ اس سے وہ بہت کچھ بھی نظروں کے سامنے گھوم گیا جو ماضی کے خود کو طاقت کا سرچشمہ سمجھنے حکمران کہتے رہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کی لاش سے گزر کر ضیاءالحق حکومت میں آئے اور بھٹو کی قبر پر ہی ضیاءحکومت کا محل تعمیر ہوا جس کی ایک اینٹ محترم یوسف رضا گیلانی بھی تھے۔ بھٹو صاحب نے ٹی وی پر اپنی تقریر کے دوران اپنی کرسی کی مضبوطی کا دعویٰ کیا تھا۔ ضیاءالحق آئین کو کاغذ کا پرزہ سمجھتے اور اپنی اتھارٹی کے دعویدارتھا۔ نواز شریف برملا بھاری مینڈیٹ کو اپنے اقتدار کا استحکام قرار دیتے تھے۔ مشرف کا قول ”ڈرتا ورتا کسی سے نہیں ہوں“۔ آج کے بچے بچے کو یاد ہے۔ مذکورین جس انجام دے دوچار ہوئے وہ دہرانے کی ضرورت نہیں۔ کورٹ اور زرداری کے درمیان معلق وزیراعظم گیلانی کی کیفیت Between fire and big wall کی سی ہے۔ وہ آگ میں کود سکتے ہیں‘ نہ دیوار کو پھاڑ یا پھلانگ سکتے ہیں۔ پائے رفتن نہ جائے ماندن۔ وزارت عظمیٰ ان کے لئے تنی ہوئی رسی بن چکی ہے۔ عدلیہ کی ہلکی سی جنبش ان کو سیاست کی تاریک اور عمیق گہرائیوں کا مکین بنا سکتی ہے۔ پیپلز پارٹی یوسف رضا گیلانی کا نام نہیں‘ یہ پہلے بھٹو خاندان کی ملکیت تھی‘ اب زرداری خاندان کو وراثت میں مل گئی۔ لیکن بھٹو کے لاحقہ کیساتھ! 2008ءکے انتخابات کے بعد زرداری صاحب کو ڈیڑھ سو پارٹی ایم این ایز میں سے ایک کو وزیراعظم بنانا مقصود تھا۔ سو قرعہ ملتان کے مخدوم کے نام پر نکلا۔ خود اس لئے نہیں بن سکتے تھے کہ انکی اہلیہ محترمہ نے شوہر نامدار کو ٹکٹ نہیں دیا تھا۔ شاید وجہ ان کا نان گریجوایٹ ہونا تھا۔ عبدالحمید ڈوگر نے گریجوایٹ کی شرط ختم کرکے زرداری صاحب کیلئے اس عہدے کا دروا کردیا جس کا کوئی بھی ایم این اے اور سینیٹر خواب ہی دیکھ سکتا ہے لیکن وہ باہر نہیں نکل سکتے اور وزیراعظم کو باہر نکلنا پڑتا ہے۔ اس لئے ایوان صدارت کو ہی ترجیح دی جہاں وہ ازخود نظر بند ہیں۔ آصف زرداری پارٹی کے چیئرمین بھی ہیں۔ 18ویں ترمیم نے وزیراعظم سمیت ہر پارٹی ممبر بشمول سینیٹرز اور ایم این ایز کا سیاسی مستقبل پارٹی سربراہ کی مٹھی میں بند کر دیا۔ پارٹی کارکن کی حیثیت سے گیلانی صاحب کو سینٹ الیکشن جیتنے پر جشن منانے کا حق حاصل ہے لیکن وہ جو کچھ کہہ رہے ہیں‘ یقیناً اپنی حیثیت سے بڑھ کر ہے اور حقائق کے منافی بھی۔ ”ہم نے اگلی مدت کیلئے آدھی حکومت بنالی۔ اب وزیراعظم اوپر جا رہا ہے نہ اندر نہ باہر۔ مضبوط ترین وزیراعظم ہوں کوئی کیئر ٹیکر آئیگا نہ چیئرٹیکر۔ حکومتیں توڑی نہیں جا سکیں گی۔“ سینٹ الیکشن میں کامیابی پر تو حکمرانوں کو سجدہ شکر اور جو کچھ چار سال میں کیا‘ اس پر سجدہ سہو ادا کرنا چاہئے تھا۔ جبکہ وہ اسکے برعکس تکبر تفاخر اور نخوت کا اظہار کر رہے ہیں۔ کڑا احتساب ہوا تو اندر جانا پڑےگا۔ اوپر جانے سے انکار نہ جانے کس برتے پر فرما رہے ہیں۔ موت تو اٹل حقیقت ہے‘ ہر کسی کو جانا پڑیگا۔ خواہ اسکی کرسی کتنی ہی مضبوط کیوں نہ ہو۔ اگرچہ بھٹو صاحب اوپر جا کر نیچے آئے اور پھر اوپر گئے۔ امریکہ کی ایک کال پر ٹانگیں لرزتی ہیں۔ فوج کی ”وضاحت“ پر زبان میں لکنت آجاتی ہے۔“ عوام پر عتاب اور عذاب بن کر نازل ہونا ایک ”مضبوط ترین وزیراعظم“ کی نشانی ہے تو مان لیا کہ گیلانی صاحب مضبوط ترین وزیراعظم ہیں۔ وزیراعظم گیلانی کو اپنے گرائیں شاہ محمود قریشی کی بے وفائی کا گلہ بھی ہے‘ فرماتے ہیں‘ ان کو کوئی نہیں جانتا تھا‘ میں نے ان کو حلقے میں روشناس کرایا۔ ایک وزارت کی خاطر انہوں نے اپنے محسنوں سے آنکھیں پھیر لیں۔“ لوگ تو یہ جانتے ہیں کہ شاہ محمود قریشی کے والد محترم سجاد حسین قریشی جس جنرل ضیاءکے گورنر تھے‘ اسی جنرل ضیاءکی کابینہ میں گیلانی بھی وزیر تھے۔ سیاست میں گیلانی صاحب کو جس جرنیل نے روشناس کرایا‘ کیا یہ ان کو آج بھی محترم سمجھتے ہیں؟ اگر نہیں تو اسے احسان مندی کا کونسا درجہ دیا جا سکتا ہے۔ مزید فرماتے ہیں کہ پیپلز پارٹی والے فصلی بٹیروں کی طرح بکتے ہیں نہ جھکتے ہیں۔ اس قول کے جواب میں پیٹریاٹ گروپ کا تذکرہ لاحاصل سہی البتہ کل ہی پنجاب میں اسلم گل سینٹ کا الیکشن ہار گئے‘ زرداری صاحب کا کہنا ہے کہ پنجاب میں بدترین ہارس ٹریڈنگ ہوئی۔ وفاداریاں بدلنے والوں کو سامنے لائینگے۔ یہ وفاداریاں بدلنے والے کیا بکے بھی نہیں اور جھکے بھی نہیں؟ اگر ایسا ہے ہی تو پھر بکنا اور جھکنا کس کو کہتے ہیں۔ آج پیپلز پارٹی کے پلیٹ فارم سے وزیراعظم بننے والے جھکنے اور نہ بکنے کی اپنی طرز کی تعریف کرنیوالے یوسف رضا گیلانی کل ضرورت پڑنے پر 88ءوالی اپنی ہی تاریخ دہرانے کی گنجائش تو نہیں نکال رہے؟



Monday, March 5, 2012

ایوارڈ

 مارچ,4, 2012


ایوارڈ
فضل حسین اعوان 
تقلید اور نقالی میں اتنا ہی فرق ہے جتنا رشک اور حسد میں۔ جس طرح غصہ عقل کو کھا جاتا ہے اسی طرح حسد اہلیت اور صلاحیت کو جلا ڈالتا ہے جبکہ رشک ان کو جِلا بخشتا ہے۔ تقلید تخلیق کی نئی راہیں کھولتی اور ترقی کے در وا کرتی ہے جبکہ نقالی کسی کے کام کو اپنے نام کرکے بدنامی کے دوام کا نام ہے۔ نقالی اور بھیڑ چال اپنے طرزعمل کے حوالے سے تقریباً ہم نام ہیں۔ مٹھائی کا آئٹم ڈھوڈا خوشاب کی سوغات ہے۔ یہ شاید کسی امین نامی مٹھائی والے کی ایجاد ہے۔ اس کا کاروبار کیا خوب چلا۔ ایک موقع تھا 20، 25 سال قبل خوشاب کے ایک ہی بازار میں ”امین کا خالص ڈھوڈا“ کے نام سے درجن بھر دکانیں تھیں۔ خالص دکان کونسی تھی اسکا اجنبی کو اندازہ نہیں ہوسکتا۔ ملتان میں ”حافظ کا سوہن حلوہ“ اسکے اصل اور خالص کی پہچان بھی ناممکن ہے۔ دیگر مصنوعات میں نقالی اور بھیڑچال کی بہت سی مثالیں موجود ہیں۔ فلموں میں ایک موضوع پر کوئی فلم ہٹ ہوجائے تو فلم ساز ایسے ہی موضوع پر فلم بنانے کیلئے پلٹ کر جھپٹتے اور جھپٹ کر پلٹتے ہیں۔ شیدا ککڑ، بس کر گجرجیسے نام رکھ کر تہلکہ مچا دیا جاتا ہے۔شرمین عبید چنائے کی فلم ”سیونگ فیس“ کوئی فیچر فلم نہیں ہے۔ وہ چند منٹ کی دستاویزی فلم ہے۔ اسے آسکر ایوارڈ ملا۔ برادرم اجمل نیازی اسے پاکستان کیخلاف امریکہ کی پروپیگنڈہ مہم قرار دیتے ہیں جس میں دنیا کو پاکستان کا اجلا چہرہ دکھانے کے بجائے اسے بدنام کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ کس طرح پاکستان میں عورتوں کے چہرے پر تیزاب پھینک کر مظالم ہوتے ہیں۔ بہرحال شرمین ایک باصلاحیت خاتون ہے جس نے افغان جنگ کے حوالے سے بھی کام کیا ہے۔ سیونگ فیس ایوارڈ ملنے سے وہ شہرت کی بلندیوں کو چھونے لگیں، انکی بھرپور پذیرائی ہورہی ہے۔ ایسے میں نقال بھی میدانِ عمل میں نکل آئے۔ شرمین عبید چنائے کو آج روایتی فلم سازوں کی طرف سے ہدایتکاری کیلئے بڑی بڑی اور بھاری بھاری پیشکشیں ہورہی ہیں حالانکہ سینماﺅں میں چلنے والی فیچر فلمیں انکی فیلڈ نہیں ہے۔
اجمل نیازی کا سیونگ فیس کو امریکہ کا پروپیگنڈہ اور پاکستان کو بدنام کرنے کی کوشش قرار دینے کے پس پردہ ایک طویل داستان ہے۔ یقیناً امریکہ اور مغرب پاکستان اور اسلام کیلئے نرم گوشہ نہیں رکھتے۔ رابندر ناتھ ٹیگور علامہ اقبالؒ سے پہلے پیدا ہوا اور بعد میں مرا۔ اسے 1913ءمیں ادب کا نوبل انعام ملا۔ علامہ اور ٹیگور کے قد کاٹھ، صلاحیتوں اور ادب میں خدمات میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ علامہ کو نظرانداز کرنا مغرب کے اسی خبث کا شاخسانہ ہے جس کی نشاندہی نیازی صاحب نے کی ہے۔ پاکستان میں ثمر مبارک مند، ڈاکٹر عبدالقدیر خان اور منیر احمد خان جیسے عالمی شہرت کے حامل سائنسدانوں کی کمی نہیں لیکن نوبل انعام کیلئے انکی نظر صرف ڈاکٹر عبدالسلام پر پڑی.... کیوں؟ اس لئے کہ ڈاکٹر عبدالسلام کا تعلق ایک مخصوص فرقے کے ساتھ تھا۔ فاٹا میں خاتون پر کوڑوں کی فلم سامنے آئی تو مغرب نے اسے زندگی و موت کے مسئلے کی طرح پیش کیا۔ ڈرامہ بازی ثابت ہوئی تو چپ سادھ لی۔ قبل الذکر واقعہ سے پاکستان کی بدنامی مقصود تھی اس لئے اسے اچھالا۔ نیک نامی ثابت ہونے پر خاموشی انکے اندر کا کرودھ بغض اور کینہ تھا۔ امریکہ نے تو ڈاکٹر شکیل آفریدی کو اسکی اپنی قوم و ملت سے غداری پر آسکر سے بڑا ایوارڈ و اعزاز اور شہرت تک دیدی ہے۔ دستاویزی فلمیں تو افغانستان میں امریکی مظالم پر بھی بنی ہیں۔ کشمیر میں بھارتی مظالم اور ڈرون حملوں میں مارے جانیوالوں کی حالت زار پر بھی۔ کیا کوئی سوچ سکتا ہے کہ انکو بھی آسکر ایوارڈ مل سکتاہے؟ نہیں، کبھی نہیں، قطعی نہیں.... آسکر ایوارڈ کے حصول کا ایک آسان فارمولا بھی ہے۔ اس کیلئے ضمیر کو سلانا اور شکیل آفریدی کا کردار اپنانا پڑتا ہے۔ آپ امن کی آشا پر ڈاکومنٹری بنائیں، پاک امریکہ تعلقات پر اپنی صلاحیتیں آزمائیں، مقبوضہ کشمیر میں پاکستان کی مداخلت ثابت کریں، بلوچستان میں مظالم دکھا کر حربیار مری اور براہمداغ بگتی کو ہیرو بنا دیں، امریکی ایوارڈ اور اعزازات اور شہرت آپکے قدموں میں ہوگی۔ شرمین کو چاہئے سیونگ فیس کی طرح اپنی صلاحیتیں کشمیر میں بھارتی مظالم، ڈرون حملوں کے متاثرین کی حالت زار جیسے موضوعات پر بھی آزمائیں۔ ان فلموں کو بھی آسکر ایوارڈ کیلئے بھجوائیں۔ پھر اسکا جو نتیجہ ہوگا، اس کا اندازہ ہے لیکن شرمین کیلئے اشکوں، آہوں اور سسکیوں کے ساتھ متاثرین کی دعائیں آسکر سے بھی بڑا ایوارڈ ہوگا۔



Friday, March 2, 2012

تھپڑکے بدلے

جمعۃالمبارک ، 02 مارچ ، 2012

تھپڑکے بدلے....!
فضل حسین اعوان ـ 16 گھنٹے 59 منٹ پہلے شائع کی گئی
ایران کے شہر قم کی سیاحت کرنیوالے بتاتے ہیں کہ ایک سڑک کے کنارے بلند و بالا عمارتوں کے درمیان ایک عمارت کھنڈرات کا ڈھیر بنی ہوئی ہے۔ جیسے زلزلے میں بکھر گئی یا بم سے اڑا دی گئی ہے۔ دیکھنے والے کو اسکی حقیقت جاننے کا تجسس ہوتا ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ انقلاب کے بعد یہ عمارت مدرسے یا سکول کیلئے تعمیر کرائی گئی تھی۔ اس میں کلاسیں شروع ہوئیں۔ چند ماہ بعد عمارت میں دراڑیں پڑ گئیں تو پرنسپل نے حکام کو آگاہ کردیا۔ اطلاع امام خمینی تک پہنچی تو وہ خود چلے آئے۔ تعمیر کے دوران نگران انجینئر کو طلب کیا گیا۔ اس سے دراڑوں کی وجہ پوچھی تو اس نے ناقص میٹریل کی نشاندہی کرتے ہوئے ٹھیکیدار کی طرف انگلی اٹھا دی.... ”ٹھیکیدار کو غیرمعیاری میٹریل کے استعمال سے روکنا کس کی ذمہ داری تھی؟“.... اس سوال پر انجینئر نے سر جھکالیا۔ پوچھا گیا کہ ”عمارت کتنے سال نکال سکتی ہے؟“.... جواب تھا ”چار پانچ سال اس کو کچھ نہیں ہوگا“.... ”اسکا مطلب کہ اس عرصہ کے بعد عمارت 1500 بچوں پر گرے گی! ہمیں اس عمارت کی ضرورت نہ اسے تعمیر کرانے والوں کی“ اسکے ساتھ ہی انجینئر کو عمارت کے وسط میں کھڑا کرکے اوپر بم پھنکوا دیا گیا۔ تحقیق، تفتیش، کیس کی سماعت، فیصلہ سنانے اور اس پر عملدرآمد میں محض تین گھنٹے لگے۔ ملبہ اور لاش عبرت کیلئے آج بھی پہلے دن کی طرح موجود ہے۔آج ہمارے دو ہی مسائل ہیں، کرپشن اور لاقانونیت.... تمام بحران، آلام اور مصائب، کرپشن اور لاقانونیت نے ہی پیدا کئے ہیں۔ ایران میں رضا شاہ پہلوی کے دور میں مغرب اور یورپ جیسی خرافات اور خرابات موجود تھیں۔ ایک مردِ درویش کی کاوش سے ایرانی معاشرہ مغرب کی اخلاق باختہ چکاچوند سے نکل کر دین کی پاکیزہ روشنی سے منور ہوگیا۔ افغان اسلحہ کو اپنا زیور اور افیون و پوست کی کاشت کو روٹی روزی کا وسیلہ سمجھتے تھے۔ ملا عمر نے دونوں کے خاتمے کا اعلان کیا تو افغانوں نے برضا و رغبت اس پر عمل کیا۔ افغانستان میں طالبان دور کے شروع میں صرف ایک ہی قتل ہوا۔ خون کے بدلے خون کے فیصلے پر عمل ہوا۔ قاتل کی لاش چوک میں کئی روز تک دیدہ ¿ عبرت بنی رہی۔ کابل کا نظم و نسق چلانے کیلئے چند ایک پولیس والے تھے۔
وزیراعلیٰ پنجاب شہبازشریف نے کہا ہے کہ اغوا برائے تاوان کی لعنت ختم کرنے کیلئے آخری دم تک لڑونگا۔ ڈاکوﺅں کو نکیل نہ ڈال سکا تو مجھے خادمِ پنجاب کہلانے کا حق نہیں.... اغوا، ڈکیتی، چوری، رہزنی اور قتل و غارت گری کی وارداتوں سے کوئی صوبہ محفوظ نہیں۔ کسی میں کم اور کسی میں زیادہ ہوتی ہیں۔ اسکا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ صوبائی حکومتیں ایسی گھناﺅنی وارداتوں پر آنکھیں بند کئے ہوئے ہیں۔ اصل میں قانون کی عملداری نہ ہونے کے باعث لاقانونیت اپنے بچے جنے جا رہی ہے۔ اغوا تاوان کیلئے ہو یا اور مقاصد کیلئے، مغوی کے لوٹنے تک اہل خانہ اذیت کی پل صراط پر ہوتے ہیں۔ اس سے بھی بڑا ظلم جسے انسانیت کے ساتھ جرم قرار دیا جاسکتا ہے۔ تیزاب پھینک کر چہرہ بگاڑ دینا ہے، تیزاب پھینکنے سے ایک حد سے زیادہ جسم جل جائے تو موت واقع ہوجاتی ہے۔ جو بچ جاتے ہیں ان کو ہر لمحہ مرنا پڑتا ہے۔ گویا موت سے بھی بڑی اذیت کا سامنا ہوتا ہے۔ اس جرم کی سزا کتنی ہے، شاید سات سال قید! اس جرم پر یہ بھی نہیں ہونی چاہئے۔
ٹنڈو محمد خان میں 25 فروری کو وحیدہ شاہ کے خاتون اسسٹنٹ پریذائیڈنگ افسر اور مخالف امیدوار کی خاتون ایجنٹ کو تھپڑ مارنے کے واقعہ کا سپریم کورٹ نے نوٹس لے لیا ہے۔ سپریم کورٹ میں ہی وحیدہ شاہ کو تاحیات نااہل قرار دینے کی درخواست بھی دائر کی گئی ہے۔ وحیدہ شاہ کا نتیجہ الیکشن کمیشن نے روک رکھا ہے۔ چیف الیکشن کمشنر حامد علی مرزا صاحب رونا رو رہے ہیں کہ ان سے مشورہ کیوں نہیں کیا گیا؟ جاگیردار کی حویلی جل رہی تھی تو منشی سے اسکی آہ و بکا کا سبب پوچھا، اس نے جواب دیا میری ڈائری بھی جل گئی جس میں 500 کا نوٹ تھا۔ وحیدہ شاہ عوامی ووٹوں سے منتخب کی گئی رکن ہے۔ اس پر تاحیات پابندی کا کوئی جواز نہیں، یہ انکو منتخب کرنیوالوں کی توہین ہے البتہ ایسا وقوعہ دوبارہ نہ ہو، اسکا سدباب ہونا چاہئے.... کیسے؟ یہ ہم پر 1400 سال قبل واضح کردیا گیا تھا۔ خون کا بدلہ خون، ہاتھ کے بدلے ہاتھ، کان کے بدلے کان، آنکھ کے بدلے آنکھ۔ 1400 سال قبل دیا گیا ضابطہ حیات اب بھی پہلے روز کی طرح قابل عمل ہے۔ تیزاب کے بدلے تیزاب (جس کے جسم پر جتنا تیزاب پھینکا گیا، اسی طریقے سے مجرم پر بھی ڈال دیا جائے) گریبان چاک کرنے کے بدلے میں گریبان چاک، خون کے بدلے خون، ڈاکوﺅں، چوروں، رہزنوں کے ہاتھ قلم۔ تھپڑ کے بدلے، اسی مقام پر میڈیا کے سامنے تھپڑ.... ذرا یہ کرکے دیکھ لیجئے ملک میں کیسے کرپشن اور لاقانونیت کا خاتمہ ہوتا ہے۔
....٭....٭....