میاں صاحب! شیر بنیں!
لائن آف کنٹرول پر گرماگرمی بڑھتی جا رہی ہے۔ فائرنگ اور گولہ باری کے تبادلے میں شدت کے سات الزامات کی حدت میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ اُدھر سے فائرنگ ہوتی ہے تو اِدھر سے برابر جواب دیا جاتا ہے۔ فوج کو اتنا ہی کرنے کا اختیار ہے۔ وزیراعظم نواز شریف بھارت کے ساتھ ہر صورت تعلقات قائم رکھنا اور تجارت بڑھانا چاہتے ہیں جس کا وہ برملا اظہار ہی نہیں اعلان بھی کرتے ہیں۔ فرماتے ہیں کہ قوم نے انہیں بھارت کے ساتھ اچھے تعلقات اور نیک خواہشات کا مینڈیٹ دیا ہے۔ اگر وہ مینڈیٹ عوام نے عام انتخابات میں دیا تھا تو ضمنی الیکشن میں واپس بھی لے لیا ہے۔ ضمنی الیکشن میںمسلم لیگ ن نے وِن نہیں لوز کیا ہے۔ عام انتخابات میں اس نے 50 فیصد نشستیں حاصل کیں۔ ضمنی الیکشن قومی اسمبلی کی 15 نشستوں پر ہوئے۔ اپنی کامیابی کی شرح برقرار رکھنے کے لئے اسے 8 سے نو سیٹوں پر کامیابی حاصل کرنا چاہئے تھی یہ صرف 5 پر ہی اٹک اور لٹک گئی۔ بالفرض عوام نے بھارت سے دوستی کا مینڈیٹ دیا بھی تھا تو اس کا کیا یہ مطلب ہے کہ وہ آپ کی سالمیت اور سلامتی کو جس طرح چاہے روندتا رہے اور آپ دوستی کا راگ الاپتے اور مذاکرات وملاقات کی بھیک مانگتے رہیں؟
لائن آف کنٹرول پر بھارتی جارحیت کا حساب فوج برابر تو کر رہی ہے لیکن بھارت کی سیاسی اور عسکری قیادت کی زبان سے نکلنے والے شعلوں کا کوئی جواب نہیں دیا جا رہا۔ بھارتی آرمی نے دھمکی دی کہ پاکستان کو سنبھلنے کا موقع نہیں دیں گے۔گزشتہ روز وزیر دفاع اے کے انتھونی بھی دھاڑے کہ اب کوئی گنجائش نہیں رہی، پاکستان اپنی حرکتوں سے باز آجائے، ہمیں انتہائی قدم اٹھانے پر مجبور نہ کیا جائے۔ ایسے بیانات اور الزامات کا ہمارے ہاں نوٹس لیا جاتا ہے نہ جواب دیا جاتا ہے۔ اس عالمی برادری بھارت کو حق بجانب کیوں نہ سمجھے گی ؟ اہم ترین وزارتیں، دفاع اور خارجہ میاں نواز شریف کی آنگن میں سمائی ہوئی ہے۔ ہر دو وزارتوں کی سربراہی پارٹ ٹائم جاب نہیں، اس کے لئے اہلیت قابلیت اور سفارتی میدان میںبامقصد تجربے کی ضرورت ہے۔ میاں صاحب کو دو دن تو لاہور میں گزارنے ہوتے ہیں ۔واپسی پر ایک آدھ دن تھکاوٹ اتارنے میں گزر جاتا ہے۔ بھارتی بھی خوش ہوتے ہوں گے کہ میاں صاحب نے پاکستان کو بھارت "Freindly Enemy" بنادیاہے۔
میاں صاحب کو کچھ لوگ کرنسی میڈ، ایجنسی میڈ اور ایمرجنسی میڈ لیڈر کہتے ہیں بہرحال وہ لیڈر بن گئے۔ اب انہیں خود کو محنت اور لگن سے اس کا اہل بھی ثابت کرنا ہے۔ ان کے پاس آج قوم کا متفقہ لیڈر بننے کا بہترین موقع ہے۔ بھارت کو اس کی زبان میں ہی جواب دیں ورنہ وہ چڑھائی کرتا چلاجائے گا۔ بھارت کو اس کی زبان میں جواب دینے کا مطلب اعلان جنگ نہیں ہے۔ ویسے بھارتی عسکری اور سیاسی قیادت جو کہہ رہی ہے وہ اعلانِ جنگ سے کم نہیں۔ اس کے باوجود بھی جنگ نہیں ہو گی اور کبھی نہیں ہو گی۔ اس کا بندوبست میاں نواز شریف کو اپنی زندگی لگ جانے کی دعا دے کر داعی اجل کو لبیک کہنے والے جنرل ضیاء الحق کر چکے ہیں۔ جب راجیو گاندھی نے اپنی فوجیں پاکستان کے بارڈر پر لگا دی تھیں۔ لگتا تھا جنگ اب چھڑی کہ چھڑی۔ اس دوران پاکستانی ٹیم بھارت میں کرکٹ سیریز کھیل رہی تھی۔ جنرل ضیاء الحق نے چنائی میں میچ دیکھنے کی خواہش کا اظہار کیا۔ آج کل سوشل میڈیا میں راجیو گاندھی کے ایڈوائزر Behramnam کے آرٹیکل کا ایک حصہ گردش کر رہا ہے جو انڈیا ٹوڈے میں شائع ہوا۔ جونیجو کابینہ میں جنرل ضیاء الحق کے مضبوط وزیر ملک نسیم آہیر صاحب نے میل کیا ہے۔ بہرمنم لکھتے ہیں:جنرل ضیاء الحق بغیر دعوت کے میچ دیکھنے چلے آئے۔ وزیراعظم راجیو گاندھی استقبال کے لئے تیار نہ تھے کیونکہ راجستھان سیکٹر میں فوج پاکستان پر حملہ کرنے کے لئے وزیراعظم کے ایک اشارے کی منتظر تھی۔ ان حالات میں پاکستانی صدر سے ملنا مناسب نہیں تھا البتہ راجیو نے کابینہ اور اپوزیشن کے مشورے پر دہلی ائرپورٹ پر جنرل ضیاء الحق کا استقبال کیا۔ راجیو گاندھی نے سردمہری سے جنرل ضیاء الحق کے ساتھ مصافحہ کیا۔ جنرل ضیاء نے دہلی سے چنائی روانگی کے موقع پر راجیو گاندھی سے بڑی رازداری سے کہا جو میں بھی سن رہا تھا’’مسٹر راجیو! آپ پاکستان پر حملہ کرنا چاہتے ہیں ۔بڑی خوشی سے کریں لیکن یہ ذہن میں رکھیں کہ دنیا ہلاکو خان اور چنگیز خان کو بھول کر جنرل ضیاء اور راجیو کو یاد رکھے گی کیونکہ یہ ایک روایتی جنگ نہیں ایٹمی جنگ ہو گی۔ اس میں ہو سکتا ہے پورا پاکستان تباہ ہو جائے لیکن دنیا میں مسلمانوں کا وجود باقی رہے گا مگر بھارت کا وجود مٹا تو ہندوازم کا بھی نام و نشان نہیں رہے گا۔ یہ سن کر راجیو گاندھی کے ماتھے پر پسینہ آ گیا تھا۔ میں نے خود اپنی ریڑھ کی ہڈی میں سنسنی محسوس کی۔ ضیاء الحق کا چہرہ سپاٹ آنکھیں پتھرائی ہوئی تھیں وہ خطرناک لگ رہے تھے۔ پھر یکلخت وہ مسکرائے، راجیو کے ساتھ گرمجوشی سے ہاتھ ملایا اور ان کو مشکل میں ڈال کر ہنستے ہوئے چنائی کے لئے روانہ ہو گئے‘‘ ۔اگلی بات ملک نسیم آہیر نے بتائی ’’میں جونیجو صاحب کی کابینہ کے اجلاس میں موجود تھا کہ جنرل ضیاء الحق نے فوری طور پر طلب کیا۔ ان کے پاس پہنچا تو ان کے ساتھ ڈبلیو جی چودھری (بنگالی) موجود تھے وہ یحییٰ دور میں وزیر خارجہ رہے۔ ضیاء الحق نے ان کو لنچ کے لئے بلا رکھا تھا۔ اس موقع پر جنرل ضیاء نے بتایا کہ چنائی سے واپسی پر راجیو سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے زور دیا کہ ایک دوسرے کی ایٹمی تنصیبات پر حملہ نہ کرنے کا معاہدہ کیا جائے۔ معاہدہ ہوا اور راجیو کے اصرار پر میڈیا بریفنگ مجھے دینا تھی۔ راجیو نے باصرار کہا کہ معاہدے سے آپ میڈیا کو آگاہ کریں۔ بریفنگ ذرا طویل ہوئی تو راجیو پریشان نظر آئے۔ کروٹیں بدلتے ہوئے انہوں نے ایک چٹ پر لکھ کر یاد دلایا۔ میں نے ایک دو منٹ مزید تاخیر کی تو وہ مزید پریشان ہوئے تاہم میں نے اس معاہدے کا تذکرہ کیا تو راجیو پرسکون ہوئے‘‘۔
میاں نواز شریف کو جنرل جیلانی آگے لائے۔ پھر ان پر نظر جنرل ضیاء کی پڑی اور ترقی کے در وا ہوتے چلے گئے ۔ میاں صاحب نے جو ’’اچھا، برا‘‘ کیا اس کا ثواب و عذاب جنرل ضیاء اور جیلانی کی قبروں پر برستا رہے گا۔ نواز شریف کو شیر کہلوانے کا شوق توہے ہی اب بن کر بھی دکھائیں۔ اس کے لئے گن اٹھانے کی ضرورت ہے نہ بارڈر پر کھڑے ہو کر دھاڑنے کی۔ ضرورت ہے تو صرف اور صرف جنرل ضیاء الحق کی طرح بھارت کو اپنے پاس موجود ایٹمی صلاحیت باور کرانے کی ہے پھر بنئے کو دیکھیں ،اس کی گیلی دھوتی کو دیکھیں اور ایل او سی پر توپوں کی خاموشی کو دیکھیں۔
لائن آف کنٹرول پر بھارتی جارحیت کا حساب فوج برابر تو کر رہی ہے لیکن بھارت کی سیاسی اور عسکری قیادت کی زبان سے نکلنے والے شعلوں کا کوئی جواب نہیں دیا جا رہا۔ بھارتی آرمی نے دھمکی دی کہ پاکستان کو سنبھلنے کا موقع نہیں دیں گے۔گزشتہ روز وزیر دفاع اے کے انتھونی بھی دھاڑے کہ اب کوئی گنجائش نہیں رہی، پاکستان اپنی حرکتوں سے باز آجائے، ہمیں انتہائی قدم اٹھانے پر مجبور نہ کیا جائے۔ ایسے بیانات اور الزامات کا ہمارے ہاں نوٹس لیا جاتا ہے نہ جواب دیا جاتا ہے۔ اس عالمی برادری بھارت کو حق بجانب کیوں نہ سمجھے گی ؟ اہم ترین وزارتیں، دفاع اور خارجہ میاں نواز شریف کی آنگن میں سمائی ہوئی ہے۔ ہر دو وزارتوں کی سربراہی پارٹ ٹائم جاب نہیں، اس کے لئے اہلیت قابلیت اور سفارتی میدان میںبامقصد تجربے کی ضرورت ہے۔ میاں صاحب کو دو دن تو لاہور میں گزارنے ہوتے ہیں ۔واپسی پر ایک آدھ دن تھکاوٹ اتارنے میں گزر جاتا ہے۔ بھارتی بھی خوش ہوتے ہوں گے کہ میاں صاحب نے پاکستان کو بھارت "Freindly Enemy" بنادیاہے۔
میاں صاحب کو کچھ لوگ کرنسی میڈ، ایجنسی میڈ اور ایمرجنسی میڈ لیڈر کہتے ہیں بہرحال وہ لیڈر بن گئے۔ اب انہیں خود کو محنت اور لگن سے اس کا اہل بھی ثابت کرنا ہے۔ ان کے پاس آج قوم کا متفقہ لیڈر بننے کا بہترین موقع ہے۔ بھارت کو اس کی زبان میں ہی جواب دیں ورنہ وہ چڑھائی کرتا چلاجائے گا۔ بھارت کو اس کی زبان میں جواب دینے کا مطلب اعلان جنگ نہیں ہے۔ ویسے بھارتی عسکری اور سیاسی قیادت جو کہہ رہی ہے وہ اعلانِ جنگ سے کم نہیں۔ اس کے باوجود بھی جنگ نہیں ہو گی اور کبھی نہیں ہو گی۔ اس کا بندوبست میاں نواز شریف کو اپنی زندگی لگ جانے کی دعا دے کر داعی اجل کو لبیک کہنے والے جنرل ضیاء الحق کر چکے ہیں۔ جب راجیو گاندھی نے اپنی فوجیں پاکستان کے بارڈر پر لگا دی تھیں۔ لگتا تھا جنگ اب چھڑی کہ چھڑی۔ اس دوران پاکستانی ٹیم بھارت میں کرکٹ سیریز کھیل رہی تھی۔ جنرل ضیاء الحق نے چنائی میں میچ دیکھنے کی خواہش کا اظہار کیا۔ آج کل سوشل میڈیا میں راجیو گاندھی کے ایڈوائزر Behramnam کے آرٹیکل کا ایک حصہ گردش کر رہا ہے جو انڈیا ٹوڈے میں شائع ہوا۔ جونیجو کابینہ میں جنرل ضیاء الحق کے مضبوط وزیر ملک نسیم آہیر صاحب نے میل کیا ہے۔ بہرمنم لکھتے ہیں:جنرل ضیاء الحق بغیر دعوت کے میچ دیکھنے چلے آئے۔ وزیراعظم راجیو گاندھی استقبال کے لئے تیار نہ تھے کیونکہ راجستھان سیکٹر میں فوج پاکستان پر حملہ کرنے کے لئے وزیراعظم کے ایک اشارے کی منتظر تھی۔ ان حالات میں پاکستانی صدر سے ملنا مناسب نہیں تھا البتہ راجیو نے کابینہ اور اپوزیشن کے مشورے پر دہلی ائرپورٹ پر جنرل ضیاء الحق کا استقبال کیا۔ راجیو گاندھی نے سردمہری سے جنرل ضیاء الحق کے ساتھ مصافحہ کیا۔ جنرل ضیاء نے دہلی سے چنائی روانگی کے موقع پر راجیو گاندھی سے بڑی رازداری سے کہا جو میں بھی سن رہا تھا’’مسٹر راجیو! آپ پاکستان پر حملہ کرنا چاہتے ہیں ۔بڑی خوشی سے کریں لیکن یہ ذہن میں رکھیں کہ دنیا ہلاکو خان اور چنگیز خان کو بھول کر جنرل ضیاء اور راجیو کو یاد رکھے گی کیونکہ یہ ایک روایتی جنگ نہیں ایٹمی جنگ ہو گی۔ اس میں ہو سکتا ہے پورا پاکستان تباہ ہو جائے لیکن دنیا میں مسلمانوں کا وجود باقی رہے گا مگر بھارت کا وجود مٹا تو ہندوازم کا بھی نام و نشان نہیں رہے گا۔ یہ سن کر راجیو گاندھی کے ماتھے پر پسینہ آ گیا تھا۔ میں نے خود اپنی ریڑھ کی ہڈی میں سنسنی محسوس کی۔ ضیاء الحق کا چہرہ سپاٹ آنکھیں پتھرائی ہوئی تھیں وہ خطرناک لگ رہے تھے۔ پھر یکلخت وہ مسکرائے، راجیو کے ساتھ گرمجوشی سے ہاتھ ملایا اور ان کو مشکل میں ڈال کر ہنستے ہوئے چنائی کے لئے روانہ ہو گئے‘‘ ۔اگلی بات ملک نسیم آہیر نے بتائی ’’میں جونیجو صاحب کی کابینہ کے اجلاس میں موجود تھا کہ جنرل ضیاء الحق نے فوری طور پر طلب کیا۔ ان کے پاس پہنچا تو ان کے ساتھ ڈبلیو جی چودھری (بنگالی) موجود تھے وہ یحییٰ دور میں وزیر خارجہ رہے۔ ضیاء الحق نے ان کو لنچ کے لئے بلا رکھا تھا۔ اس موقع پر جنرل ضیاء نے بتایا کہ چنائی سے واپسی پر راجیو سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے زور دیا کہ ایک دوسرے کی ایٹمی تنصیبات پر حملہ نہ کرنے کا معاہدہ کیا جائے۔ معاہدہ ہوا اور راجیو کے اصرار پر میڈیا بریفنگ مجھے دینا تھی۔ راجیو نے باصرار کہا کہ معاہدے سے آپ میڈیا کو آگاہ کریں۔ بریفنگ ذرا طویل ہوئی تو راجیو پریشان نظر آئے۔ کروٹیں بدلتے ہوئے انہوں نے ایک چٹ پر لکھ کر یاد دلایا۔ میں نے ایک دو منٹ مزید تاخیر کی تو وہ مزید پریشان ہوئے تاہم میں نے اس معاہدے کا تذکرہ کیا تو راجیو پرسکون ہوئے‘‘۔
میاں نواز شریف کو جنرل جیلانی آگے لائے۔ پھر ان پر نظر جنرل ضیاء کی پڑی اور ترقی کے در وا ہوتے چلے گئے ۔ میاں صاحب نے جو ’’اچھا، برا‘‘ کیا اس کا ثواب و عذاب جنرل ضیاء اور جیلانی کی قبروں پر برستا رہے گا۔ نواز شریف کو شیر کہلوانے کا شوق توہے ہی اب بن کر بھی دکھائیں۔ اس کے لئے گن اٹھانے کی ضرورت ہے نہ بارڈر پر کھڑے ہو کر دھاڑنے کی۔ ضرورت ہے تو صرف اور صرف جنرل ضیاء الحق کی طرح بھارت کو اپنے پاس موجود ایٹمی صلاحیت باور کرانے کی ہے پھر بنئے کو دیکھیں ،اس کی گیلی دھوتی کو دیکھیں اور ایل او سی پر توپوں کی خاموشی کو دیکھیں۔