About Me

My photo
Fazal Hussain Awan colomnist Daily NAWAI WAQT awan368@yahoo.com 03334215368

Thursday, August 29, 2013

میاں صاحب! شیر بنیں

میاں صاحب! شیر بنیں!

کالم نگار  |  فضل حسین اعوان....شفق
29 اگست 20130
Print  
میاں صاحب! شیر بنیں!
لائن آف کنٹرول پر گرماگرمی بڑھتی جا رہی ہے۔ فائرنگ اور گولہ باری کے تبادلے میں شدت کے سات الزامات کی حدت میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ اُدھر سے فائرنگ ہوتی ہے تو اِدھر سے برابر جواب دیا جاتا ہے۔ فوج کو اتنا ہی کرنے کا اختیار ہے۔ وزیراعظم نواز شریف بھارت کے ساتھ ہر صورت تعلقات قائم رکھنا اور تجارت بڑھانا چاہتے ہیں جس کا وہ برملا اظہار ہی نہیں اعلان بھی کرتے ہیں۔ فرماتے ہیں کہ قوم نے انہیں بھارت کے ساتھ اچھے تعلقات اور نیک خواہشات کا مینڈیٹ دیا ہے۔ اگر وہ مینڈیٹ عوام نے عام انتخابات میں دیا تھا تو ضمنی الیکشن میں واپس بھی لے لیا ہے۔ ضمنی الیکشن میںمسلم لیگ ن  نے وِن نہیں لوز کیا ہے۔ عام انتخابات میں اس نے 50 فیصد نشستیں حاصل کیں۔ ضمنی الیکشن قومی اسمبلی کی 15 نشستوں پر ہوئے۔ اپنی کامیابی کی شرح برقرار رکھنے کے لئے اسے 8 سے نو سیٹوں پر کامیابی حاصل کرنا چاہئے تھی یہ صرف 5 پر  ہی اٹک اور لٹک گئی۔ بالفرض عوام نے بھارت سے دوستی کا مینڈیٹ دیا بھی تھا تو اس کا کیا یہ مطلب ہے کہ وہ آپ کی سالمیت اور سلامتی کو جس طرح چاہے روندتا رہے اور آپ دوستی کا راگ الاپتے اور مذاکرات وملاقات کی بھیک مانگتے رہیں؟
لائن آف کنٹرول پر بھارتی جارحیت کا حساب فوج برابر تو کر رہی ہے لیکن بھارت کی سیاسی اور عسکری قیادت کی زبان سے نکلنے والے شعلوں کا کوئی جواب نہیں دیا جا رہا۔ بھارتی آرمی نے دھمکی دی کہ پاکستان کو سنبھلنے کا موقع نہیں دیں گے۔گزشتہ روز وزیر دفاع اے کے انتھونی بھی دھاڑے کہ اب کوئی گنجائش نہیں رہی، پاکستان اپنی حرکتوں سے باز آجائے، ہمیں انتہائی قدم اٹھانے پر مجبور نہ کیا جائے۔ ایسے بیانات اور الزامات کا ہمارے ہاں نوٹس لیا جاتا ہے نہ جواب دیا جاتا ہے۔ اس عالمی برادری  بھارت کو حق بجانب کیوں نہ سمجھے گی ؟ اہم ترین وزارتیں، دفاع اور خارجہ میاں نواز شریف کی آنگن میں سمائی ہوئی ہے۔ ہر دو وزارتوں کی سربراہی پارٹ ٹائم جاب نہیں، اس کے لئے اہلیت قابلیت اور سفارتی میدان میںبامقصد تجربے کی ضرورت ہے۔ میاں صاحب کو دو دن تو لاہور میں گزارنے ہوتے ہیں ۔واپسی پر ایک آدھ دن تھکاوٹ اتارنے میں گزر جاتا ہے۔ بھارتی بھی خوش ہوتے ہوں گے کہ میاں صاحب نے پاکستان کو  بھارت "Freindly Enemy" بنادیاہے۔
 میاں صاحب کو کچھ لوگ کرنسی میڈ، ایجنسی میڈ اور ایمرجنسی میڈ لیڈر کہتے ہیں بہرحال وہ لیڈر بن گئے۔ اب انہیں خود کو محنت اور لگن سے اس کا اہل بھی ثابت کرنا ہے۔ ان کے پاس آج  قوم کا متفقہ لیڈر بننے کا بہترین موقع ہے۔ بھارت کو اس کی زبان میں ہی جواب دیں ورنہ وہ چڑھائی کرتا  چلاجائے گا۔ بھارت کو اس کی زبان میں جواب دینے کا مطلب اعلان جنگ نہیں ہے۔ ویسے بھارتی عسکری اور سیاسی قیادت جو کہہ رہی ہے وہ اعلانِ جنگ سے کم نہیں۔ اس کے باوجود بھی جنگ نہیں ہو گی اور کبھی نہیں ہو گی۔ اس کا بندوبست میاں نواز شریف کو اپنی زندگی لگ جانے کی دعا دے کر داعی اجل کو لبیک کہنے والے جنرل ضیاء الحق کر چکے ہیں۔ جب راجیو گاندھی نے اپنی فوجیں پاکستان کے بارڈر پر لگا دی تھیں۔ لگتا تھا جنگ اب چھڑی کہ چھڑی۔ اس دوران پاکستانی ٹیم بھارت میں کرکٹ سیریز کھیل رہی تھی۔ جنرل ضیاء الحق نے چنائی میں میچ دیکھنے کی خواہش کا اظہار کیا۔ آج کل سوشل میڈیا میں راجیو گاندھی کے ایڈوائزر Behramnam کے آرٹیکل کا ایک حصہ گردش کر رہا ہے جو انڈیا ٹوڈے میں  شائع ہوا۔ جونیجو کابینہ میں جنرل ضیاء الحق کے مضبوط وزیر ملک نسیم آہیر صاحب نے میل کیا ہے۔ بہرمنم لکھتے ہیں:جنرل ضیاء الحق بغیر دعوت کے میچ دیکھنے چلے آئے۔ وزیراعظم راجیو گاندھی استقبال کے لئے تیار نہ تھے کیونکہ راجستھان سیکٹر میں فوج پاکستان پر حملہ کرنے کے لئے وزیراعظم کے ایک اشارے کی منتظر تھی۔ ان حالات میں پاکستانی صدر سے ملنا مناسب نہیں تھا البتہ راجیو نے کابینہ اور اپوزیشن کے مشورے  پر دہلی ائرپورٹ پر جنرل ضیاء الحق کا استقبال کیا۔ راجیو گاندھی نے سردمہری سے جنرل ضیاء الحق کے ساتھ مصافحہ کیا۔ جنرل ضیاء نے دہلی سے چنائی روانگی کے موقع پر راجیو گاندھی سے بڑی رازداری سے کہا جو میں بھی سن رہا تھا’’مسٹر راجیو! آپ پاکستان پر حملہ کرنا چاہتے ہیں ۔بڑی خوشی سے کریں لیکن یہ ذہن میں رکھیں کہ دنیا ہلاکو خان اور چنگیز خان کو بھول کر جنرل ضیاء اور راجیو کو یاد رکھے گی کیونکہ یہ ایک روایتی جنگ نہیں ایٹمی جنگ ہو گی۔ اس میں ہو سکتا ہے پورا پاکستان تباہ ہو جائے لیکن دنیا میں مسلمانوں کا وجود باقی رہے گا مگر بھارت کا وجود مٹا تو ہندوازم کا بھی نام و نشان نہیں رہے گا۔ یہ سن کر راجیو گاندھی کے ماتھے پر پسینہ آ گیا تھا۔ میں نے خود اپنی ریڑھ کی ہڈی میں سنسنی محسوس کی۔ ضیاء الحق کا چہرہ سپاٹ آنکھیں پتھرائی ہوئی تھیں وہ خطرناک لگ رہے تھے۔ پھر یکلخت وہ مسکرائے، راجیو کے ساتھ گرمجوشی سے ہاتھ ملایا اور ان کو مشکل میں ڈال کر ہنستے ہوئے چنائی کے لئے روانہ ہو گئے‘‘ ۔اگلی بات ملک نسیم آہیر نے بتائی ’’میں جونیجو صاحب کی کابینہ کے اجلاس میں موجود تھا کہ جنرل ضیاء الحق نے فوری طور پر طلب کیا۔ ان کے پاس پہنچا تو ان کے ساتھ ڈبلیو جی چودھری (بنگالی) موجود تھے وہ یحییٰ دور میں وزیر خارجہ رہے۔ ضیاء الحق نے ان کو لنچ کے لئے بلا رکھا تھا۔ اس موقع پر جنرل ضیاء نے بتایا کہ چنائی سے واپسی پر راجیو سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے زور دیا کہ ایک دوسرے کی ایٹمی تنصیبات پر حملہ نہ کرنے کا معاہدہ کیا جائے۔ معاہدہ ہوا اور راجیو کے اصرار پر میڈیا بریفنگ مجھے دینا تھی۔ راجیو نے باصرار کہا کہ معاہدے سے آپ میڈیا کو آگاہ کریں۔ بریفنگ ذرا طویل ہوئی تو راجیو پریشان نظر آئے۔ کروٹیں بدلتے ہوئے انہوں نے ایک چٹ پر لکھ کر یاد دلایا۔ میں نے ایک دو منٹ مزید تاخیر کی تو وہ مزید پریشان ہوئے تاہم میں نے اس معاہدے کا تذکرہ کیا تو راجیو پرسکون ہوئے‘‘۔
میاں نواز شریف کو جنرل جیلانی آگے لائے۔ پھر ان پر نظر جنرل ضیاء کی پڑی اور ترقی کے در وا ہوتے چلے گئے ۔ میاں صاحب نے جو ’’اچھا، برا‘‘ کیا اس کا ثواب و عذاب جنرل ضیاء اور جیلانی  کی قبروں پر برستا  رہے گا۔ نواز شریف کو شیر کہلوانے کا شوق توہے ہی اب بن کر بھی دکھائیں۔ اس کے لئے گن اٹھانے کی ضرورت ہے نہ بارڈر پر کھڑے ہو کر دھاڑنے کی۔ ضرورت ہے تو صرف اور صرف جنرل ضیاء الحق کی طرح بھارت کو اپنے پاس موجود ایٹمی صلاحیت باور کرانے کی ہے پھر بنئے کو دیکھیں ،اس کی گیلی دھوتی کو دیکھیں اور ایل او سی پر توپوں کی خاموشی کو دیکھیں۔

فتح مبین کانفرنس

فتح مبین کانفرنس

کالم نگار  |  فضل حسین اعوان....شفق
25 اگست 20131
Print  
فتح مبین کانفرس
 لبنانی نژاد باوقا ر محلے کی رہائشی خاتون پہلی بار دو سال قبل ہمار ے گھر آئیں تو ان کی گفتگو سے پتہ چلا کوئی غیر ملکی ہم پاکستانیوں سے کہیں بڑھ کر محب وطن پاکستانی ہوسکتا ہے۔ محترمہ عالمہ و فاضلہ ہیں۔ نبی اکرم کی دل میں اس قدر چاہت اور زبان پر ذکرکہ رابعہ بصری کی شخصیت کا خاکہ نظروں کے سامنے آگیا۔ عربی ان کی مادری زبان، انگریزی انگریزوں کی طرح روانی سے بولتی ہیں۔ اپنی گفتگو کے دوران قرآنی آیات اور احادیث کا حوالہ دیتی ہیں۔ انہوں نے اپنے بچپن کا روح پرور واقعہ س±نایا۔ ”میری عمر آٹھ نو سال تھی، رات کو خواب میں دیکھتی ہوں کہ بیروت کے بازاروں اور گلیوں میں گ±ھپ اندھیرا ہے۔ اس اندھیرے میں میرے سامنے ایسی روشنی پھیل رہی ہے جس سے میرے لئے چلنا آسان ہو رہاہے، میں بازار میں چلی جا رہی ہوں۔ میرے ذہن میں آیا کہ روشنی کی صورت میں میری رہنمائی حضرت خضرؑ کر رہے ہیں۔ چلتے چلتے سامنے گرجا گھر نظر آیا تو میں دائیں م±ڑ جاتی ہوں۔ یہاں مجھے اللہ اکبر اور لا الہ الا اللہ کی مدہم سی آوازیں سنائی دیتی ہیں۔ میں اسی طرف بڑھتی چلی جارہی ہوں تاآنکہ مجھے نظر آیا کہ سبز پگڑیاں پہنے لوگوں کا ایک پ±رنور ہجوم رواں ہے۔ میں وہیں رک جاتی ہوں۔ ان کے ایک ہاتھ میں سن ریز (دف قسم کا آلہ) ہے، دوسرے سے وہ اس پر چوٹ لگاتے ہیں اور بڑی دلپذیر اور مترنم آواز میں کہے جا رہے ہیں ”اللہ اکبر، لا الہ الا اللہ“ ان کی قیادت ایک خوبرو نوجوان کر رہا ہے۔ میرِ کارواں نے گردن گھما کر میری طرف مسکرا کر دیکھا۔ ایسا خوبصورت اور حسین وجمیل نوجوان میں نے آج تک بھی نہیں دیکھا‘ سبحان اللہ۔ گھنگریالے، سیاہ بال اور ایسی ہی ریش مبارک، کشادہ ونورانی پیشانی، چہرے کا رنگ سرخی مائل سفید، دانت موتیوں کی طرح چٹے سفید اور آنکھیں بادامی رنگ کی۔“
 خاتون نے بات کرتے کرتے ر±ک کر پوچھا ”پتہ ہے وہ نور مجسم شخص کون تھا“؟ خود ہی گویا ہوئیں وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور آپ کی معیت میں اللہ اکبر کے نعرے لگانے والے ایک لاکھ 24 ہزار انبیاءکرامؑ تھے.... آپ کے چہرہ اقدس کے نقوش جو اماں جی نے بتائے وہ بالکل ویسے ہی تھے جیسے پیر مہر علی شاہ صاحب کی معروف پنجابی نعت ”اج سک متراں دی ودھیری “ میں بیان کئے گئے ہیں ....
م±کھ چند بدر شعشانی اے، متھے چمکدی لاٹ نورانی اے
کالی زلف تے اکھ مستانی اے، مخمور اکھیں ہِن مدھ بھریاں
جناب محمد خان قادری نے ”سک متراں دی“ شرح لکھی ہے۔ میں نے خاتون سے پوچھا کہ کیا انہوں نے پیر مہر علی شاہ صاحب کی ”اج سک متراں دی ودھیری“ نعت پڑھی ہے۔ اماں جی نے کہا کہ وہ اردو لکھ پڑھ اور بول سکتی ہیں، پنجابی نہیں آتی۔ پیر مہر علی شاہ صاحب کی نعت میں حضور انور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا چہرہ اقدس اور اماں جی کے بیان کردہ ر±خِ انور کے نقوش میں مماثلت حیران کن ہے۔ اماں جی نے کہا کہ ان کے دل میں ہمیشہ سے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دوبارہ دیکھنے کی حسرت اور تڑپ رہی ہے۔ ”خواب میں مَیں نے صاحبِ لولاک حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھا وہ اتنے حسین ہیں کہ مجھے ان سے دل وجان سے محبت ہو گئی۔ میں نے” شرح سک متراں دی“ کتاب مطالعہ کیلئے بی اماں کو دیدی۔ چند روز قبل وہ اتفاقاً پھر ہمارے گھر چلی آئیں۔ انہوں نے خواب اور کتاب کا ذکرتے ہوئے بتایا کہ جس ہستی کو میں نے خواب میں دیکھا اس کتاب میں انہی کے ایک ایک نقش کی نہایت باریک بینی تصویر کشی کی گئی ہے۔
پیر مہر علی شاہ صاحب نے مذکورہ نعت نبی مرسل کے عشق میں ڈوب کر لکھی ایسا لگتا ہے کہ شاہِ دوجہاں سامنے تشریف فرما ہیں اور پیر صاحب آپ کی مدح کئے جارہے ہیں۔ کسی کے محبوب پر بہتان تو کیا الزام بھی آئے تو محب کی برداشت سے باہر ہوتا ہے۔ رسول کی ناموس پر کوئی انگلی اُٹھائے تو عاشق کیسے برداشت کر سکتا ہے۔ جب فرما دیا ”میں آخری نبی ہوں، میرے بعد کوئی نبی نہیں آئیگا“ تو بھی کوئی نبوت کا دعویٰ کرے توعاشقانِ رسول کی غیرت کیسے گوارہ کر سکتی ہے؟ غلام احمد قادیانی نے ایساکیا تو پیر مہر علی شاہ صاحب کو دلیل کی برہان اورقوت ِایمان کے ساتھ اسکے رد کیلئے کھڑا کردیا گیا۔
پیر مہر علی شاہ صاحبؒ 1890ءمیں حج کیلئے گئے تو حجاز مقدس ہی میں مستقبل قیام کا فیصلہ کیا۔ حرم کعبہ میں حاجی امداد اللہ مہاجر مکیؒ اور دیگر بزرگوں سے ملاقات ہوئی۔ حضرت مہاجر مکیؒ نے پیر صاحب سے اصرار کیا کہ آپ کی ہندوستان میں موجودگی ضروری ہے۔ وہاں ایک فتنہ سر اٹھانے والا ہے جس کو کچلنے کیلئے آپ کو کلیدی کردار ادا کرنا ہے۔ حضرت مہاجر مکیؒ کا کہا ایک سال بعد 1891ءمیں ہی درست ثابت ہوگیا جب مرزا غلام احمد نے پہلے مسیح موعود اور چند سال بعد نبوت کا بھی دعویٰ کردیا۔ پیر صاحب‘ مرزاکے راستے کی دیوار ثابت ہوئے۔ مرزا نے خود پیر صاحب کو مناظرے کی دعوت دی لیکن صرف تحریری مناظرے کی‘ جبکہ پیر صاحب اسکے ساتھ تقریری مناظرہ بھی کرنا چاہتے تھے۔ مرزا صاحب محض تحریری مناظرے پر بضد رہے تو اسے بھی قبول کر لیا گیا۔ 25 اگست 1900ءکو مناظرے کا مقام لاہور کی تاریخی بادشاہی مسجد قرار پایا۔ پورے ہندوستان سے مسلمانوں اور قادیانیوں کے قافلے لاہور پہنچ گئے۔ پیر مہر علی شاہ صاحبؒ بھی لاہور تشریف لے آئے لیکن مرزا تقریری مناظرے کی شرط ختم کرانے کے باوجود لاہور نہ آئے ۔ پیر صاحب 29 اگست تک لاہور میں مرزا کی آمد کے منتظر رہے۔
کسی موقع پرمرزا نے کہا تھا آپ بھی تفسیر لکھیں‘ میں بھی لکھتا ہوں۔ اس پرپیر صاحب نے فرمایا کہ امت میں ایسے خادم بھی موجود ہیں‘ وہ قلم پر نگاہ ڈالیں تو قلم خودبخود تفسیر لکھ دے۔ قادیانیوں کے ایک وفد نے پیر صاحب سے کہا آپ اور مرزا ایک اندھے کی بینائی کیلئے دعا کریں جس کی دعا پوری ہوگی وہ سچا ہوگا۔ پیر صاحب نے فرمایا مرزا کو کہیں وہ آئیں‘ اگر مردے بھی زندہ کرنا پڑیں تو قبول ہے۔
 پیر صاحب نے 25 اگست 1900 کو لاہور کی بادشاہی مسجد میں فتنہ قادیانیت پر جوضرب کاری لگائی اس کی گونج آج بھی پوری دنیا میں سنائی دے رہی ہے۔25 اگست کی اس حوالے سے امت مسلمہ کے ہاں بڑی اہمیت ہے۔ اس تاریخ کو ہر سال مزید تاریخی بنا دیا جاتا ہے ۔ اس میں بھی حضرت پیر مہر علی شاہ کا خانوادہ ہی ہراول دستہ ثابت ہورہا ہے جو اس دن کو تزک احتشام سے مناتا ہے۔
امام المسلمین، مجدد دین و ملت، مامور من الرسول اعلیٰ حضرت پیر سید مہر علی شاہ گیلانیؒ کی 25 اگست 1900ءکو بادشاہی مسجد لاہور میں تاریخ ساز فتح مبین کی یاد میں 113ویں خاتم النبین کانفرنس آج درگاہ عالیہ گولڑہ شریف میں زیرسرپرستی سید غلام معین الحق گیلانی منعقد ہو رہی ہے جس میں دور دراز سے عشاق کے قافلے شرکت کیلئے پہنچ رہے ہیں۔

Thursday, August 22, 2013

جہادیوں کو مصر کا راستہ دکھایا جارہا ہے؟

جہادیوں کو مصر کا راستہ دکھایا جارہا ہے؟

کالم نگار  |  فضل حسین اعوان....شفق
23 اگست 2013 0
مصر کے حالات بدترین صورت اختیار کرتے جا رہے ہیں۔ مرسی سے ملاقات ہوتی تو جنرل السیسی کی احترام سے نظریں جھک اور قدموں سے لپٹ لپٹ جاتی تھیں، پھر کسی نے اکسایا یا عقل بوٹوں میں چلی گئی تو ہمارے جرنیلوں ضیاء اور مشرف کی طرح اپنے محسن کا تختہ الٹ دیا۔ اب حالات ہیں کہ سنبھلتے نظر نہیں آتے۔ دو بڑے آپریشنز میں مظاہرین کو ٹینکوں، بلڈوزروں، گنوں اور بندوقوں سے کچل اور اُڑا کر رکھ دیا گیا۔ تشدد اور گرفتاریوں کا سلسلہ تھمنے کے بجائے بڑھتا ہی جا رہا ہے۔ حسنی مبارک تحریر سکوائر پر کئی ماہ کے دھرنوں اور مظاہروں کے بعد اقتدار سے گئے۔ جنرل السیسی نے تحریر سکوائر میں ہی مرسی کے مخالفین کے 5روزہ مظاہروں اور دھرنوں کو قوم کی آواز سمجھ کر جمہوریت پر شب خون مار دیا۔ اب وہیں اس سے بڑے مظاہرے ہورہے ہیں تو مظاہرین کو خون میں نہلا یا جارہا ہے …عوام میں مرسی کی حمایت اور مخالفت موجود ہے۔ ایک سال قبل مرسی کی اخوان المسلمون کو مصریوں کی اکثریت کی حمایت حاصل تھی، اب کیا صورتحال ہے؟ انتخابات یا ریفرنڈم کے بغیر اس کا فیصلہ ممکن نہیں ہے۔ آج مصری متحد ہونے کے بجائے بٹے ہوئے اور معاملات خانہ جنگی کی طرف گامزن ہیں اور شاید بات خانہ جنگی سے بھی آگے چلی جائے۔ بہت آگے!!
مصر کے حالات پر عالمی برادری بھی مصریوں کی طرح تقسیم ہے۔ مظاہرین پر غضب ڈھانے پر فوجی حکومت کی اکثر ممالک نے مذمت کی تاہم حمایت کرنیوالے ممالک بہت کم سہی لیکن وہ بااثر اور طاقتور ہیں۔ ہمارے ہاں عمومی سوچ موجود ہے کہ السیسی کسی بغاوت کے پیچھے امریکہ اور اسرائیل کا ہاتھ ہے۔ امریکہ نے مصری فوجی حکومت کو مشورہ دیا تھا کہ مرسی کے حامیوں کے مظاہروں میں رکاوٹ نہ ڈالی جائے۔ اس مشورے کو سنجیدگی سے نہیں لیا گیا۔ بدھ اور جمعہ کی قتل و غارت اور اپنے مشورے کو پذیرائی نہ ملنے پر امریکہ ناراض ہے۔ اوباما نے مصر کی فوجی امداد روکنے کی بات کی ہے۔ ہاتھی کے پائوں میں سب کا پائوں، باقی دنیا بھی اس معاملے میں امریکہ کا ساتھ دیگی جو اصولی بھی نظر آتا ہے۔ اگر پوری دنیا اس معاملے میں متحد ہو کر دبائو ڈالے تو السیسی کے پاس مرسی حکومت کی بحالی کے سوا کوئی چارہ نہیں ہوگا جس کا مطالبہ منور حسن کی سربراہی میں جماعت اسلامی پاکستان کے ساتھ مسلم دنیا کی تنظیموں کی طرف سے اور عوامی سطح پر کیا جا رہا ہے۔ دوسری طرف سعودی عرب کی سربراہی میں کچھ ممالک مصری فوجی حکومت کی حمایت کر رہے ہیں۔ شاہ عبداللہ السیسی کی حمایت کا واضح اعلان کر چکے ہیں۔ وزیر داخلہ سعود الفیصل نے یہاں تک کہہ دیا کہ مغربی ممالک نے مصر کی امداد روکی تو تمام عرب اور اسلامی ممالک مصر کی بھرپور مدد کریں گے۔ اقوام متحدہ امریکہ کے اتنی زیر اثر ہے کہ ضمیر جعفری نے کہا تھا…؎
یو ایس اے میں یو امریکہ کا، باقی نو ہی نو ہے
اسی طرح او آئی سی بھی سعودی عرب کے زیر اثر ہے۔ او آئی سی کا ہیڈ کوارٹر سعودی عرب اورعرب لیگ کا مصر میں ہے۔ امریکہ اور سعودی عرب کے تعلقات مثالی رہے ہیں۔ پاکستان کی دونوں سے دوستی ہے بلکہ امریکہ سے ذرا غلامی کا ناطہ اور سعودیہ سے انتہائی احترام کا رشتہ ہے۔ امریکہ اور سعودیہ کی راہیں جدا ہوئیں تو پاکستان آزمائش میں پڑ جائے گا جس نے مصری حکومت کی مرسی مخالف اقدام پر مذمت کی تھی۔ سعودی عرب اور امریکہ کے اختلافات بڑھے تو عالمی سطح پر نئی صف بندی ہوتی نظر آئے گی جو عالمی امن کو تو متاثر کرے گی ہی ، مصر کے لئے تو حالات تباہ کن ہوں گے۔ دہشت گردی سے شدید متاثر ہونے اور بدامنی کی آگ میں جھلسے رہنے کے باوجود پاکستان کی عالمی برادری میں ایک حیثیت اور اہمیت ہے۔ خصوصی طور پر امریکہ اور سعودی عرب پاکستان کی بات یا مشورے کو نظرانداز نہیں کر سکتے ہیں۔مصر کے حوالے سے موجودہ عالمی حالات کے تناظر میں پاکستان کو اپنے کردار کا تعین کرنا ہو گا۔عالمی برادری ایک پیج پر نہ آئی تو مصر اندرونی اور عالمی امن کے لئے آگ کا گولہ ثابت ہو گا۔
 دین کے نام پر ہر مسلمان جان نچھاور کرنے کو سعادت سمجھتا ہے۔ سادہ لوح مسلمانوں کو موٹیویٹ کرکے غلط ہاتھ اپنے مقاصد کے لئے بھی استعمال کر سکتے ہیں۔ اخوان اور اس کی حامی دنیا کی اسلامی تنظیموں میںمصر میں سیاسی اختلافات کو اسلام اور کفر کی جنگ بنا دیا تو حالات کی سنگینی کا اندازہ کرنا مشکل نہیں ہے ۔یہ نہ ہو کہ القاعدہ اپنا رخ مصر کی طرف کر لے۔ جہاں جنرل شاہد عزیز کی کتاب’’ یہ خاموشی کہاں تک ‘‘کا حوالہ دینا برمحل ہو گا کہ دین کے نام پر مسلمان کس عزم سے لڑتے ہیں۔ ایک بار پھر دہرا دیں کہ ضرورت موٹیویشن کی ہے۔ موٹیویٹ کرنے والوں کی نیت کیا ہے اور ان کی پشت پر کون ہے یہ وہ خود جانتے ہیں یا اللہ سبحانہ تعالی کی ذات اقدس کو علم ہے؛’’26 جنوری2002 کو ہماری ایک پلٹن کے تقریباً پچاس لوگ، ان کے ساتھ ایک SSG کی ٹیم، بمعہ چار امریکنوں کے، مگرمچھوں کی تلاش میں ایک گھر پر پہنچے۔ جب گھر پہنچ کر دروازہ کھٹکھٹایا تو ایک شخص نکلا۔ اس سے پوچھا کہ گھر میںکون کون ہے؟ تو اس نے کہا عورتیں اوربچے ہیں۔ کہا ہم تلاشی لیناچاہتے ہیں۔ جواب دیا، ’’ ٹھہریں عورتوں کو پردہ کرنے کا کہہ دوں‘‘۔ یہ کہہ کروہ اندرچلا گیا۔ پھر واپس نہ آیا۔ کافی دیر دروازہ کھٹکھٹانے کے بعد باہر نکلا اور کہا کہ اندرچلے جائیں۔ کچھ لوگ اندرداخل ہوئے۔ جب آنگن میں پہنچے تو وہاں موجود لوگوں نے فائرکھول دیا۔ کچھ تو وہیں گر گئے اور کچھ جو دروازے کے قریب تھے، باہر بھاگ گئے اس تمام کارروائی کی ایک افسر نے کیمرے سے ویڈیو بنالی جو بعد میں سب نے دیکھی۔ پھر سپاہیوں نے گھر کو گھیرا ڈال لیا۔ رات دس بجے تک دونوں جانب سے فائر ہوتا رہا پھر خاموشی ہوگئی۔ فائر بند ہونے کے کچھ دیر بعد یہ غیر ملکی جنگجو گھر سے نکلے اور سپاہیوںکا گھیرا توڑتے ہوئے کامیابی سے فرار ہوگئے۔ ایک سپاہی کی رائفل بھی ہاتھ سے چھین کر لے گئے کوئی ہاتھ نہ آیا۔۔۔SSG کا پہلا آپریشن بھی اسی نوعیت کا رہا کچھ غیر ملکی مجاہدین کو گھیرے میں لے لیا پھر انہیں میگا فون کے ذریعے بہت سمجھایا کہ ہتھیار ڈال دیں انہیں کچھ نہیں کہاجائے گا مگروہ صرف گولیوں سے جواب دیتے۔ آخر دم تک مجاہدین لڑتے رہے اور سب نے جان دیدی۔ ایک نے بھی ہتھیار نہ پھینکا۔ آخری زخمی لمبی گھاس میں چھپ گیا۔ SSG کے گھیرے میں پھنسا، گاہے بگاہے رات تک فائر کرتا رہا۔ صبح اس کی لاش ملی۔ تنخواہ لینے والا سپاہی شہادت کے متلاشی کا سامنا کرتے گھبراتا۔ آمنے سامنے مقابلے میں مجاہدین کا ہاتھ ہمیشہ بھاری رہتا۔‘‘
مصر کوجہادیوں اور القاعدہ کی کارروائیوں سے محفوظ رکھنے کے لئے عالمی برادری متحد نہ ہوئی تو کئی ملک شام اور مصر بن جائیں گے جہاں آج کسی کو نہیں معلوم کہ امن کس چڑیا کا نام ہے۔ 

پہلا خطاب اور ضمنی انتخاب

21.8.13
کالم نگار  |  فضل حسین اعوان





 میاں نوازشریف نے سرپر اقتدار کا تاج سجانے کے ڈیڑھ ماہ بعد تاسف کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا ” مسائل اتنے گھمبیر ہیں کہ سمجھتے سمجھتے یہ دن آگیا۔ کہنے کو کچھ ہوگا تو پھر قوم سے خطاب کرونگا، پہلے تمام ایشوزکو سمجھناچاہتا ہوں“۔ دو تین روز قبل قوم سے خطاب کا اعلان ہوا تو بہت سے لوگوں نے سوچا کہ نواز شریف کے پاس اب قوم سے کہنے کیلئے بہت کچھ ہوگا۔ بڑی خوشخبریاں، عظیم منصوبے اور بادِ صبا کے جھونکے ہونگے۔ تمام ایشوز کو بھی سمجھ لیا ہوگا لیکن تقریر پرانی بوتل، پرانا لیبل اور باسی مشروب ثابت ہوئی۔ نواز شریف کا پرانے سپیچ رائٹر تعلیم سے ماورا بازی گر تھا تو نئے تقریر نویس الفاظ کے جادو گر ہیں ۔ لیکن الفاظ کا جادو سر چڑھ کر نہ بول سکا ۔ میاں صاحب پیشروﺅں کی پالیسیوں و کارکردگی کا ماتم اور اپنی اہلیت کو چوراہے میں بے لباس کرتے نظر آئے۔ اس جملے سے اہلیت، صلاحیت، قابلیت، وژن اور سیاسی بلوغت ساتویں آسمان پر نظر آئی کہ ”معاملات کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا تو حالات میرے اندازوں سے کہیں زیادہ خراب تھے “ لوگ تو یہ سوچ رہے تھے کہ اپوزیشن میں رہتے ہوئے مسلم لیگ(ن) نے مسائل کا جائزہ لیا اور ان پرقابو پانے کی حکمت عملی طے ہوگی لیکن نظر آیا کہ وہ اتنے ہی سادہ لوح ہیں جتنا ان کو سمجھاجاتا ہے ۔مسائل اور مشکلات پر کڑھنا اور ان سے نجات کیلئے عزم الگ اور اہلیت و قابلیت الگ چیز ہے۔ موخر الذکر سے تہی دامنی یہ کہہ کر واضح کردی” حالات اندازوں سے کہیں زیادہ خراب ہیں“۔
 یہ داغ داغ اجالا، یہ شب گزیدہ سحر
 وہ انتظار تھا جس کا، یہ وہ سحر تو نہیں
یہ وہ سحر تو نہیں، جس کی آرزو لے کر
 چلے تھے یار کہ مل جائے گی کہیں نہ کہیں
 فلک کے دشت تاروں میں آخری منزل
کہیں تو ہوگا شب سست موج کا ساحل
کہیں تو جاکے رُکے گا سفینہ¿ غم دل
 جب میاں صاحب کے پاس اب بھی کہنے کو کچھ نہیں تھا اور جس کی امید تھی انہوں نے ایسا کچھ کہا بھی نہیں تو پھر قوم سے خطاب کا تکلف کیوں؟ باخبر حلقے کہتے ہیں ضمنی انتخابات میں ووٹر اور سپورٹر کا حوصلہ بڑھانے کیلئے۔۔۔نوجوان سے انتخابات میں کئے وعدے ایفا کرنے کی یقین دہانی اور بے گھروں کو سر کی چھت مہیا کرنے کے وعدے۔



۔پیپلزپارٹی کی رہنما ساجدہ میر نے ن لیگ کے ارادے بھانپ کر الیکشن کمیشن سے خطاب روکنے کی درخواست کی۔ عمران کی پارٹی نے ایسا کیا ہوتا تو الیکشن کمیشن کیلئے اس کا مطالبہ ردّ کرنا آسان نہ ہوتا۔ مسلم لیگ ن کی حکومت عوامی توقعات پر کہاں تک پورا اتری اس کا اندازہ ضمنی الیکشن میں ہوجائیگا۔ مقبولیت کا اندازہ عام انتخابات کے مقابلے میں مارجن سے ہوگا۔ ن لیگ سہمی ہوئی ہے اسکے اندر سے پی ٹی آئی کی عوام میں پذیرائی کا خوف جاگزیں ہے ۔بلدیاتی الیکشن اسی لئے جنرل ضیاءکے عام انتخابات کی طرز پر غیر جماعتی کروانے کیلئے قانون سازی کی جارہی ہے تاکہ جیتنے والوں کو آسانی سے ہمنوا بنایاجاسکے۔ عجب اتفاق ہے بلدیاتی الیکشن 17اگست کو غیر جماعتی کرانے کا اعلان کیا گیا۔ جب غیر جماعتی الیکشن کے بانی جنرل محمد ضیاءالحق کی برسی منائی جارہی تھی۔ لگتا ہے رانا ثناءاللہ کے اندر ضیاءکی روح حلول کر گئی۔ پی ٹی آئی نے پنجاب میں غیر جماعتی الیکشن کی مخالفت کرتے ہوئے خیبر پی کے میں جماعی بنیادوںپر الیکشن کرانے کا اعلان کیا ہے ۔وہ ضمنی انتخاب کی تیاری بھی کر رہی ہے لیکن اس کا پارٹی کے سیاسی وژن کی مقدار اتنی ہی ہے جتنی تعداد اس کے پاس سیاسی دانشوروں کی ۔ انقلاب کے دعوے توسب کرتے ہیں لیکن انقلاب کے شعلے لیڈروں میں کم کم ہی پائے جاتے ہیں۔ قیوم نظامی صاحب سے ملاقات ہوئی وہ پرانے جیالے اور آج کل پیپلز پارٹی سے لا تعلق ہیں۔ وہ بھٹو کے ساتھی رہے ہیں ان کے اندر اب بھی انقلاب کے شرارے موجود ہیں ان کی نظرمیں تحریک انصاف کے پاس سکندر ڈرامے سے فائدہ اٹھا کر ضمنی الیکشن میں کامیابی کا یقینی موقع تھا لیکن پی ٹی آئی کے انقلابی شاید مون سون میں ہنی مون منانے اور برسات کی نسبت سے پوڑے ، پکوڑے بنانے اورکھانے میں مصروف رہے۔ مونس الٰہی کی چھوڑی ہوئی سیٹ پر تحریک انصاف کے مقابلے میں ق اور ن لیگ متحد ہیں۔ خیبر پی کے میں اے این پی ،جے یو آئی اور پیپلز پارٹی پی ٹی آئی سے نبرد آزما ہے۔ گویا تمام پارٹیوں نے عمران کو بڑا سیاسی پہلوان مان لیا ہے۔ تحریک انصاف شاید اس سٹیٹس کیلئے ذہنی طورپر تیار نہیں۔ عمران خان نا ن ایشو ز میں پڑ گئے ہیں۔ مولانا فضل الرحمن نے یہودی ایجنٹ کہا تو ان کو عدالت میں لے گئے۔ قبل ازیں عدالت نے توہین عدالت کیس میں طلب کیا تھا ،اس کیس میں وہ عدالت کے سامنے اکڑے اور اڑے ہوئے ہیں۔ کچھ حلقے ان کو نا ایشوز میں الجھا کر ان کی سیاسی قوت کا ڈنگ نکالناچاہتے ہیں، جس میں وہ فی الوقت کامیاب ہیں۔ اے این پی کو اور مولانا فضل الرحمن کو کیا کچھ نہیں کہاجاتا۔شریف برادران کو ایم کیو ایم نے کیا کچھ نہیں کہا اور جواب میںسنا۔ بھٹو کو کس کس نام سے پکارا گیا تھاقائداعظم کو کافرِ اعظم بھی کہا گیا لیکن ان پر لوگوں نے عدالتوں میں جاکر اپنا وقت برباد نہیں کیا۔ کپتان خان ہوش کے ناخن لیں۔ انکے کردار و عمل سے خیبر پی کے ان کیلئے سیاسی گلستان یا قبرستان بن سکتا ہے ان کا پنجاب پر بالواسطہ احسان بھی ہے کہ میٹرو چلوادی، طلبا میں لیپ ٹاپ اور سولر لیمپ تقسیم کروادئیے ۔عمران کا خوف نہ ہوتا تو ن لیگ ایسے انقلابی اقدامات نہ کرتی۔ عدالت میں عمران خان ہی نہیں مولانا بھی خجل خراب ہوں گے۔ سیاستدان پوتڑے سربازار دھوئیں گے تو پوری دنیا دیکھے گی اور بدبو بھی اٹھے گی۔ مولانا ہی سیاسی وژن کا مظاہرہ کریں عمران نے 50کروڑ ہر جانے کا دعویٰ کیا وہ ان کو عدالت سے باہر ہی پکڑا کر معاملہ رفع دفع کردیں۔ خان اتنا بھی گیا گزرا نہیں کہ نوٹوں کا تھیلا اٹھا کر چلتا بنے۔ فضل الرحمن نے ایک بار نہیں کئی بار عمران کو یہودیوں کا ایجنٹ قرار دیا عمران نے جواب میں کہا کہ مولانا کے ہوتے ہوئے یہودیوں کو کسی ایجنٹ کی ضرورت نہیں۔ انتخابی نتائج سے اندازہ لگالیں کہ عوام نے کس کی بات پر اعتبار کیا۔

مقدر کے سکندر

18-8-13
کالم نگار  |  فضل حسین اعوان....شفق





مشرف اپنے اقتدار اور نواز شرف کی جلا وطنی کے دوران کہا کرتے تھے۔” عزت اور ذلت اللہ کے ہاتھ میں ہے ۔ اللہ نے مجھے عزت دی ہے“۔اگر اقتدار میں آنا عزت اور جیل و جلاوطنی ذلت ہے تو آج نواز شریف عزت سے ہمکنار اور مشرف ذلت سے دوچار نظر آتے ہیں۔ اقتدار کو آزمائش کہا جائے اس پر مشرف پورا اترے،نہ نواز ‘بینظیر زرداری اور جنرل محمد ضیاءالحق ہی عوام کے دل میں اپنی جگہ بنا سکے۔ کسی کوحالات، کسی کو جذبات اور کسی کو اسکے اپنے کمالات نے مقدر کا سکندر بنایا لیکن یہ لوگ اپنے اعمال ِ کے باعث دھماکے سے پھٹا گیس سلنڈر اور بپھرا ہوا سمندر ثابت ہوئے جس میں قوم کے ساتھ ساتھ خود بھی جھلسے اور ڈوبے۔ مشرف کی تاریخ پیدائش11اور ضیاءالحق کی 12 اگست ہے ۔ انکی سالگرہ ہرسال خاموشی سے گزر جاتی ہے۔17اگست 1988ءکو صدر جنرل ضیاءالحق وردی میں ایوانِ صدر سے بہاولپور روانہ ہوئے اور واپسی پر جہاز ہی میںراہی ¿ ملکِ عدم ہوگئے۔ آج ملک پر نواز شریف کی حکمرانی ہے ۔یہ پودا ضیا ءالحق ہی نے لگایا تھا ۔انہو ں نواز شریف کی کو اپنی زندگی لگ جانے کی دعا دی تھی۔ ضیاءشاید جھوٹی ق±سم کھانے پر اپنی جاں اور دنیا و جہاں سے گئے اور انکی زندگی نواز شریف کو لگ گئی ۔ ایک وقت تھا جب نواز شریف جنرل ضیاءکا مشن جاری رکھنے کا عہد کیا کرتے تھے‘ لیکن آج ان کے ”مزار“ پر فاتحہ پڑھنے بھی نہیں جاتے۔”مرے تھے جن کیلئے....“ اقتدار میں آئے ہوئے نواز شریف کو دو ماہ ہو گئے ۔انہوں نے ابھی تک قوم سے خطاب کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ فرماتے ہیں کہ قوم سے کہنے کو انکے پاس کچھ نہیں۔خبر شائع ہوئی کہ وہ پیر 19اگست کو قوم سے خطاب کریں گے۔اس دوران جناح ایونیو اسلام آباد کا واقعہ پیش آگیا ۔ سکندر نے دو گنیں اٹھا کر پورے ملک میںسراسیمگی پھیلا دی۔ وفاقی دارالحکومت کے حساس علاقے میں ساڑھے 5 گھنٹے تک انتظامیہ کو گھما کر رکھ دیا۔ جب بظاہر پولیس بے بس نظر آئی تو زمرد خان نے بے باکی سے سکندر کو دبوچنے کی کوشش کی اور گھنٹوں پر محیط اس کی گرفتاری کا اپریشن دس سیکنڈ میں انجام کو پہنچا دیا۔ ان حالات میں جان بچ جانے پرنہ صرف سکندر بلکہ زمرد خان بھی مقدر کا سکندر ثابت ہوئے۔اس میں میڈیا کا کردار قابل تحسین ہے جس نے جان ہتھیلی پر رکھ کر کوریج کی اور عوام کو لمحہ لمحہ کی خبر سے باخبر رکھا۔
زمرد خان کوہرکوئی اپنی عینک سے دیکھ رہا ہے۔ کوئی انہیںبہادر اور کوئی احمق کا خطاب دے رہا ہے۔ رانا ثناءاللہ نے انہیں نواز لیگی عینک سے دیکھا جبکہ شہباز شریف نے تعصب کی عینک اتار کر انہیںشاباش دی۔ البتہ یہ سوال بڑا اہم ہے کہ زمرد کو سکندر تک رسائی کی اجازت کس نے دی؟ چودھری نثار علی خان نے سکندر کی زندہ گرفتاری کا حکم دیا۔ وہ اپریشن کوئی گولی چلائے حتیٰ کہ تنکا ہلائے بغیر کرنا چاہتے تھے لیکن پولیس کی بے تدبیری نے اس پرپانی پھیردیا۔ یہی کچھ ڈرامے کے شروع کے دس پندرہ منٹ میں ہو جاتا تو ملک بدنامی سے بچ جاتا۔ بڑوں کی کوآرڈی نیشن ملاحظہ فرمائیے‘ وزیراعظم نے سیکرٹری داخلہ کو حکم دیا کہ وہ تحقیقات کرکے بتائیں کہ اپریشن میں تاخیر کیوں ہوئی۔ چودھری نثار کہتے ہیں‘ اس کا ذمہ دار میں ہوں۔
 وزیراعظم نواز شریف بھی کل قوم سے خطاب کا پیغام دے چکے ہیں۔ نواز شریف سب کے وزیراعظم ہیں بلاامتیاز اس کے کہ ان کی پارٹی کو کسی نے ووٹ دئیے یا نہیں دئیے اس لئے ہر پاکستانی یہ جاننے کا حق اور میاں صاحب سے اپنے متوقع خطاب میں بتانے کی امید رکھتا ہے کہ انہوں نے تو قوم کو ریلیف دینے کے جو وعدے کئے تھے لیکن ٹیکسوں کی بھرمار، مہنگائی کے طومار اور لاقانونیت کے انبار لگا کر عوام کو مزیدتکلیف میں مبتلا کردیا۔ نام لے کر کہا گیا کہ ” ان سے“ قومی خزانے سے لوٹی گئی پائی پائی وصول کریں گے ،ہنوز کوئی پیش رفت دکھائی نہیں دیتی۔ سی این جی سٹیشنوں پر لگی لائنوں کو دیکھ کر میاں صاحب دل گرفتہ تھے۔ یہ لائنیں اب مزید طویل ہو گئی ہیں۔ سرکولر ڈیٹ کی ادائیگی کے باوجود بجلی کبھی کبھی اپنا دیدار کرانے آتی ہے اوربجلی کی سی تیزی سے واپس لوٹ جاتی ہے۔ میرٹ کا بڑا چرچا تھا۔ 8 کروڑ میں سے ایک بھی گورنری کے معیار پر پورا نہیں اترا؟ دہری شہریت والوں پر نوازشات؟ خواجہ آصف نے وزیر بنتے ہی کہا کہ تمام سی این جی سٹیشن مالکان گیس چور ہیں۔ میاں صاحب ان چوروں کو اندر کریں اگر یہ بے بنیاد الزام تھا تو خواجہ کو کابینہ سے باہر۔فرمایا تھا کہ عوام میں رہوں گا، وزیراعظم ہاﺅس میں نہیں بیٹھوں گا لیکن ایک کے بجائے دو وزیراعظم ہاﺅس بنا لئے گئے۔ ہفتہ میں کم از کم دو دن وزارت عظمیٰ عمرہ جاتی میں آتی ہے۔ نوازشریف اسلام آباد کا ”کھیڑا “چھوڑیں، خود خلیفہ بنیں اور لاہور کو دارالخلافہ بنا لیں۔




نواز حکومت نے اپنے اپنے شعبہ میں خدمات پر ایوارڈ زکا بھی اعلان کیا ہے۔ کچھ نام دیکھ کر احترام سے سر جھک جاتا ہے ان میں شہید سرفہرست ہیں اور کچھ نام تو حکومت پر الزام اور کارکردگی پر بہتان ہیں۔ کچھ ایوارڈز وصول کرنے والوں کیلئے اعزاز اور کچھ وصول کرنیوالی ہستیوں کا ایوارڈ وصول کرنا ایوارڈ کے اعزاز ہوتا ہے۔ ہلال امتیاز کیلئے عطاءالحق قاسمی اور عرفان صدیقی صاحب بھی مقدر کے سکندر ٹھہرے،ان کا دوسری کیٹگری میں شمار ہوتا ہے۔ وہ شہرت اور احترام کے اس مقام پر ہیں کہ انکے سامنے ہر ایوارڈ ہیچ ہے، سوائے نشان حیدر کے۔ چہ میگوئیاں ہو رہی ہیں کہ ان کو شریف زادوں کی قصیدہ جوئی اور مخالفین کی ہجو گوئی پر ایوارڈ کا حقدار گردانا گیا۔ ان حضرات کی سیاسی جانبداری اگر مسلمہ نہ بھی ہو ان کا نواز شریف سے گہرا تعلق تو کسی سے پوشیدہ نہیںہے۔ آج کالیا ہوا ایوارڈ تاریخ میں رقم ہو گا۔ انکے کالم اور کردار بھی تاریخ کا حصہ ہیں اور رہیں گے۔ 100 دو سو سال بعد ان کے پڑپوتے لکڑپوتے اور پھر آگے کی نسل ایوارڈ اور کالمز کو یکجا کرکے دیکھے گی تو وہ بھی آج کے انصاف پر دھمال نہیں ڈالے گی۔

پرنالہ

پرنالہ

کالم نگار  |  فضل حسین اعوان....شفق
15 اگست 2013 0
 یوم آزادی اور عید سعید ساتھ ساتھ، قوم کیلئے جشن شادمانی مسرت اور اللہ کا شکرادا کرنے کا پیغام لائے ۔ اسلام آباد کنونشن سنٹر میں پرچم کشائی کی دلکش تقریب میں وزیراعظم میاں نواز شریف نے پرچم لہرایا۔ مترنم ترانے نے جذبات میں ترنگ پیدا کردی۔ بان کی مون کیساتھ اپوزیشن کی شمولیت سے تقریب میں عالمی اور قومی یکجہتی کا رنگ نمایاں ہوا۔ قائداعظم کے مزار پر گارڈز کی پُر وقار انداز میں تبدیلی و سلامی نے سماں باندھ دیا۔ واہگہ بارڈر پر پرچم کشائی ہمیشہ سے جوش اور ولولے کا مظہررہی ہے۔ عید کی طرح یوم آزادی بھی ہمارے لئے مذہبی تہوار سے کم نہیں۔ آزادی کیلئے 14اگست کا دن جس نے بھی متعین کیا، وہ اپنی جگہ لیکن قدرت کاملہ کی اپنی پلاننگ تھی۔ یہ رمضان المبارک میں لیلة القدر اور جمعتہ الوداع کا دن تھا۔ ہر مسلمان کیلئے سب سے زیادہ عبادت اور سعادت کا دن اور رات۔قیام پاکستان کے مقاصد حاصل کرلئے گئے ہوتے جن میں ملک کو اسلامی اور فلاحی ریاست بنانا شامل تھا۔ جہاں معاشرہ تعلیم سے معمور اور بیماریوں سے دور ہوتا۔ قائداعظم کی خواہش کے مطابق پاکستان اسلام کی تجربہ گاہ بن چکا اور کشمیر آزاد ہوگیا ہوتا تو ہر دن ہماری زندگی میں رنگ و نور کی برکھا برساتا۔
ہماری عید خون میں نہائی تو یوم آزادی پر بارشوں اور سیلاب نے تباہی مچائی۔ عید اور یوم آزادی پر ہمسایہ بھارت نے لائن آف کنٹرول پر گرما گرمی پیدا کردی۔ کچھ لوگ بھارت کی لائن آف کنٹرول پر گولہ باری، دلی میں شدت پسند ہندوﺅں کے پاکستانی ہائی کمشن پر حملے، امرتسر میں دوستی بس پر دھاوے، بھارتی میڈیا، سیاستدانوں اور جرنیلوں کی طرف سے دھمکیوں کو جنگ کا پیش خیمہ قرار دے رہے ہیں۔ پاکستان کی طرف سے بھی جواب آں غزل جاری ہے لیکن ہوگا کچھ بھی نہیں! یہ سب بھارت کا الیکشن سٹنٹ ہے۔ اگلے سال مئی میں انتخابات کے بعد بھارتی سیاستدانوں کی اڑائی دھول بیٹھ جائے گی۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان اور بھارت جنگ کے متحمل ہی نہیں ہوسکتے۔ ایٹمی قوتوں کی جنگ میں فتح و شکست دیکھنے کیلئے کوئی بچتا ہی نہیں ہے۔ ویسے بھی وہاں بنیا حکمران ہے تو یہاں دکاندار، دونوں ایسے کاروبار سے بدکتے ہیں جس میں خسارے کا ہلکا سا بھی شائبہ ہو۔ بھارت صرف اسی صورت پاکستان پر جنگ مسلط کرسکتا ہے جب اسے پاکستان کے ایٹمی اثاثوں کو بے اثر یا فروخت کرنیوالے والے میر جعفر و صادق مل جائیں۔ وطن کے نگہبانوں اور پاسبانوں کی نظر ایٹمی اثاثوں ہی کی طرح ایسے لوگوں پر ہونی چاہئے جن کے اندر غداری کے جراثیم پائے جاتے ہیں۔
پاکستان آج ترقی و خوشحالی کی منزل کا راہ نورد ہے۔ بلاشبہ پاکستان سیاستدانوں نے بنایا اور اسے ترقی کی منزل کی طرف لے جارہے ہیں۔ قائداعظم مزید چند سال حیات اور برسر اقتدار رہتے تو پاکستان کو ترقی کی معراج پر پہنچا دیتے۔ پاکستان کے دفاع کو سیاستدانوں ہی نے ایٹم بنا کر ناقابل تسخیر بنایا۔ سیاستدانوں کے کریڈٹ پر بہت کچھ ہے لیکن پاکستان کو مشکلات کے سمندر میں پھنسانے میں بھی سیاستدانوں ہی کا ہاتھ ہے۔ 33سال مارشلاﺅں کی نذر ہوئے۔ مارشل لا لگوانے اور پھر اسے کامیاب کرانے میں بھی سیاستدان حصہ دار رہے ہیں۔
بارانِ رحمت اگر عذاب بن جائے تو اس میں بھی حکومتیں قصور وار ہیں۔ عموماً کہا جاتا ہے کہ اس سیلاب سے اتنے سال کا ریکارڈ ٹوٹ گیا۔ جب پہلا سیلاب آیا تو اسکی تباہیوں سے سبق کیوں نہ سیکھا گیا؟ سیلابی پانی کو سیرابی اور شادابی کیلئے استعما ل نہ کرنے کے باعث بربادی ہوتی رہی ہے۔ شہری ہر سال ڈوبتے ہیں، نالہ لئی انسانوں کی جان لے لیتا ہے ۔ کراچی کی شاہراہیں دریا بنتی ہیں۔ہر شہر وینس بنا نظر آتا ہے۔ لاہور کا لکشمی چوک رواں مون سون میں تیسری بار ڈوب گیا۔ اپنے پہلے دور میں پائینچے” ٹُنگ“ کے شہباز شریف نے پانی میں اتر کر متعلقہ حکام کی خبر لی تھی۔ لیکن ”خانہ ٹُنگ“ حکام نے اسکی پروا نہ کی۔ 18سال بعد گذشتہ دنوں حمزہ شہباز بھی اسی جگہ اپنے والد کی طرح پانی میں کھڑے حکام کو جھاڑ رہے تھے۔ لاہوریوں کو شاید اٹھارہ سال بعد شہباز شریف کا پوتا اسی جگہ یہی کچھ کرتا نظر آئے۔
 پرنالے کے نیچے اینٹ، روڑے پتھر یا ٹھیکریاں نہ رکھی جائیں تو گڑھا پڑیگا۔ پرنالہ بند ہوجائے تو چھت بیٹھ جائیگی۔ پرنالہ بند ہونے کا الزام بھی ہم قدرت کو دیدیتے ہیں۔ ایک بڑے نے اپنی صلاحیتوں پر اندھا اعتماد کرتے ہوئے محل نما کوٹھی خود ہی نقشہ بنا کر تیار کرالی۔ ضرورت کے مطابق بیڈرومز فرنشڈ ڈرائنگ روم اور بہترین ٹی وی لاﺅنج۔ وہاں شفٹ ہونے سے قبل رشتہ داروں کی دعوت کی۔ ہوٹل اور بیکری سے سامانِ خورو نوش منگوایا۔ جشن شروع ہوا تو کسی نے واش روم جانے کی ضرورت محسوس کی۔ صاحب ِخانہ نے سر پکڑلیا، وہ واش روم اور کچن بنانا بھول گئے تھے۔ ملک بسانے والوں نے پرنالہ لگایا اسکو کھلا رکھنا تو اسکے گھر کے باسیوں کی ذمہ داری ہے۔ لگتا ہے بعد میں آنیوالے پرنالہ لگانا ہی بھول گئے۔
 قوم نے عید اور یوم آزادی دہشت گردی، فرقہ واریت اور لاقانونیت کی بھڑکتی ہوئی آگ کے دوران منائی۔ ان خرافات کا کوئی سدباب ہوتا نظر نہیں آرہا۔ وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان، قومی سکیورٹی پالیسی لانے اور اسکے خالق ہونے کے دعویدار ہیں ساتھ ہی وہ قوم کو متحد کرنے کا بھی عزم کر رہے ہیں۔ دہشت گردی اور فرقہ واریت کے خاتمے کیلئے قوم کا اتحاد ناگزیر ہے۔ وزیر داخلہ عسکریت پسندوں سے بلاشبہ تمام سیاسی و غیر سیاسی جماعتوں گروہوں اور گروپوں جن میں پی پی پی، اے این پی اور ایم کیو ایم کے بالمقابل جماعت اسلامی، جماعت الدعوة، جمعیت علمائے اسلام جیسی پارٹیاں بھی ہوں گی کو ایک جگہ تو بٹھا سکتے ہیں۔ کیا ان کو ایک دہشت گردی پر قابو پانے کے ایک رائے اور سوچ پر متفق و آمادہ کر سکتے ہیں؟ اگر ایسا کرلیں تو یہی قوم کا اتحاد اتفاق اور دہشت گردی و فرقہ واردیت پر قابو پانے کی کلید بھی ہوگی۔ اس سے بند پرنالہ یقیناً کھل جائے گا۔

Wednesday, August 14, 2013

خوشحالی.بھارتی انتخابات‘ پاکستان سے نفرت کی قیمت پر

بھارتی انتخابات‘ پاکستان سے نفرت کی قیمت پر!

کالم نگار  |  فضل حسین اعوان....شفق
13 اگست 2013 1
بھارت کی 15ویں لوک سبھا اپنی مدت اگلے سال مئی میں پوری کر رہی ہے۔ 16ویں لوک سبھا(قومی اسمبلی) کے الیکشن کرانے کیلئے ہماری طرح کوئی نگران حکومت نہیں بنے گی۔ مرکز میں یہی کانگریس کی حکومت رہے گی اور صوبوں میںجو بھی پارٹی اقتدار میں ہے‘ انتخابات کرائے گی۔ یہ انتخابات موجودہ پارلیمان کی آئینی مدت کے دوران مکمل ہو جائینگے۔ مرحلہ وار انتخابات کا آغاز اپریل میں ہو جاتا ہے۔ اس سے بہت عرصہ قبل سیاستدان انتخابی سرگرمیاں شروع کر دیتے ہیں جو بتدریج عروج پکڑتی چلی جاتی ہیں۔
پاکستان کی سیاست اور جمہوریت میں بھارت کے ساتھ تعلقات کا کوئی عمل دخل نہیں جبکہ بھارت میںپاکستان کیساتھ تعلقات کسی بھی پارٹی کی ہار جیت میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ ہمارے ہاں 90ء کی دہائی میں چار الیکشن انٹی بھٹو اور پرو بھٹو کی بنیاد پر لڑے گئے۔ بے نظیر بھٹو تو ذوالفقار علی بھٹو کی سیاسی جاں نشیں اور وارث تھیں ہی، نواز شریف نے خود کو سب سے بڑا بھٹو مخالف ثابت کرکے دو مرتبہ میدان مارا۔میاں نواز شریف اور بے نظیر بھٹو نے حالات سے مجبور ہو کر میثاق جمہوریت پر دستخط کئے اور سیاسی بھائی بہن بنے تو لوگوں کے ذہن سے بھٹو کی محبت کا سحر اور دلوں سے نفرت کا زہر نکل گیا۔ 2002ء اور 2008ء کے بعد 2013ء میں بھی انٹی بھٹو اور پرو بھٹو عنصر کہیں نظر نہیں آیا ۔اب پارٹیوں کی کامیابی کا انحصار کارکردگی اور سبز باغ دکھا کر عوام کو بیوقوف بنانے پر ہے۔ بھارت میں انتخابات انٹی پاکستان اورصرف انٹی پاکستان کی بنیاد پر ہوتے چلے آرہے۔ جو پارٹی بھی خود کو پاکستان کا سب سے بڑا دشمن ثابت کردیتی ہے وہ آسانی سے انتخابی معرکہ مار لیتی ہے۔
بھارت کے 2009ء کے انتخابات سے قبل 26 نومبر 2008ء کو ممبئی حملوں کی صورت میں بربریت اور سفاکیت کا کھیل کھیلا گیا۔ حملے کئی روز جاری رہے۔ پہلا فائر ہوتے ہی بھارتی سیاستدان اور میڈیا پاکستان کیخلاف پھٹ پڑے، کوئی تحقیق نہ تفتیش۔ الزامات لگا نیوالوںکے منہ سے کف اڑ رہی ۔ کانگریس اور بی جے پی نے اسے انتخابی ایشو بنا لیا۔ پاکستان کے ساتھ جاری مذاکرات ڈرامہ بند کردیا اور وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کو نام نہادجامع مذاکرات کا دورہ ادھورا چھوڑ کرپاکستان لوٹنا پڑا۔ اس موقع پر وزیراعظم گیلانی ذرا زیادہ ہی جذباتی ہوگئے ، ڈی جی، آئی ایس آئی کو دہلی بھجوانے یا بھارت کے حوالے کرنے کا اعلان کر دیا۔ بھارت آئی ایس آئی پر ہی اس بربریت کا الزام لگا رہا تھا۔ بالآخر اس ڈرامے کا پردہ گذشتہ دنوں سابق بھارتی نائب سیکرٹری آر وی ایس مانی نے یہ انکشاف کر کے چاک کردیا ہے کہ بھارتی پارلیمنٹ اور ممبئی حملے خود بھارت کی حکومت نے خود کرائے اور اس کا الزام پاکستان پر لگا دیا۔ سابق نائب سیکرٹری آر وی ایس مانی نے عشرت جہاں جعلی مقابلہ کیس میں عدالت میں جمع کرائے گئے‘ بیان میں کہا کہ سی بی آئی اور ایس آئی ٹی کی تحقیقاتی ٹیم میں شامل ستیش ورما نے انہیں بتایا کہ نئی دہلی میں پارلیمنٹ اور ممبئی کے دہشت گرد حملے طے شدہ تھے ۔
 ایک مرتبہ پھر بھارت میں انتخابات ہونے جا رہے ہیں۔ بھارتی سیاستدانوں کو انتخابی مہم اور اپنی کامیابی کیلئے ایک اور ڈرامے کی ضرورت تھی جو اس نے 6 اگست کو لائن آف کنٹرول کے 6 میل اندر پونچھ سیکٹر میں رچا لیا۔ پاک فوج پر الزام لگایا کہ اس نے 5 بھارتی فوجیوں کو گھات لگا کر قتل کر دیا۔ اس پر بھارتی میڈیا اور سیاستدانوں کے منہ سے پاکستان پر الزامات لگاتے جھاگ بہہ رہی تھی۔ بھارتی وزیر داخلہ اور وزیر دفاع نے ایک بار تو اس واقعہ میں پاک فوج ملوث ہونے کی تردید کی پھر میڈیا اور سیاستدانوں کی غضبناکی دیکھ کر تردید کی تردید کر دی۔ اسکے ساتھ ہی بھارت میں پاکستان کیخلاف نفرت اور غنڈہ گردی کی ایک لہر اٹھ کھڑی ہوئی۔ شدت پسندوں نے دہلی میں پاکستانی ہائی کمیشن پر دھاوا بو ل دیا۔ امرتسر کے قریب عید سے قبل پاکستان آنیوالی دوستی بس کو روک کر پاکستان کیخلاف زہر اگلا گیا اور سب سے بڑھ کر بھارتی فوج نے سیالکوٹ اور کنٹرول لائن کے متعدد سیکٹرز پر فائرنگ اور گولہ باری کی۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ بھارت نے پاکستان پر حملہ کر دیا۔
 بھارت میں انتخابات اپریل میں ہونا ہیں۔ یہ سب کچھ اس میں اپنی جیت کو یقینی بنانے کیلئے ہو رہا ہے۔ کانگریس‘ بی جے پی اور وہ پارٹیاں جو تین میں ہیں نہ تیرہ میں پاکستان کیخلاف انکی زبانیں انگارے برسا رہی ہیں۔۔ لوک سبھا اور راجیہ سبھا میں بھی نفرت کا الاؤ نظر آیا۔ انتخابات کی تکمیل تک پاکستان کیخلاف زہر ناکی اور ڈرامہ بازی میں تیزی آتی چلی جائیگی۔
پاکستان کے سیکرٹری خارجہ جلیل عباسی جیلانی کہتے ہیں کہ بعض قوتیں پاکستان بھارت وزرائے اعظم ملاقات کو سبوتاژ کرنا چاہتی ہیں۔ جیلانی صاحب قوم بتا دیں کہ وہ کونسی قوتیں ہیں؟ اگلے ماہ نیو یارک میں دنیا کے تمام سربراہان اکٹھے ہونگے۔ وہاں ہر کوئی دوسرے سے ہاتھ ملائے گا۔ نواز شریف اور منموہن بھی ہاتھ ملا لیتے اور ایک دوسرے کی خیریت پوچھ لیتے ہیں تو اس سے پاکستان میں توکوئی قیامت نہیں ٹوٹے گی البتہ بھارت میں کانگریس اور بی جے پی طوفان اُٹھا دیں گی جس کا متحمل منموہن کا منحنی سا بدن نہیں ہو سکتا اس لئے اس ملاقات کے انجام کے پیش نظر کوئی اہتمام نظر نہیں آتا۔
پاکستان کی طرف سے جامع مذاکرات کی خواہش کا اظہار ہوتا رہتا ہے۔ پاکستان بھارت مذاکرات منافقت اور جامع مذاکرات مہا منافقت ہے۔ اسکے ساتھ ساتھ بیک چینل ڈپلومیسی اور ٹریک ٹو سفارتکاری منافقت کے بچونگڑے اور ان سے سیرو سیاحت کرنے اور ذاتی مفادات اٹھانے والے شتونگڑے ہیں۔ جب بھارت مقبوضہ کشمیر کو متنازع ہی قرار نہیں دیتا۔ اسے اپنا اٹوٹ سمجھتا اور آئین میں ترمیم کرکے اسے اپنی ریاست ڈیکلر کر لیا تو پھر اسکی طرف سے پاکستانی حکمرانوں کو مذاکرات کی چوسنی دینے کی تو سمجھ آتی ہے لیکن ہمارے حکمرانوں کی مذاکرات کیلئے بے قراری کیوں؟ اعتماد سازی کیلئے ضروری ہے کہ بھارت مقبوضہ کشمیر کو متنازع تسلیم کرے اور اٹوٹ انگ کی رٹ چھوڑے۔ کیا ہمارے حکمران بھارت کو آمادہ کر سکتے ہیں کہ وہ کشمیر کو بھارتی ریاست قرار دینے کا سٹیٹس واپس لے لے؟
بھارتی سیاستدانوں نے پاکستان سے دشمنی کو اپنی انتخابی کامیابی کی ضمانت سمجھ رکھا ہے اور اس دشمنی کی بنیاد مسئلہ کشمیر ہے جو بھارت قیامت تک کم از کم مذاکرات کے ذریعے حل کرنے پر آمادہ نہیں ہو گا۔

        خوشحالی

کالم نگار  |  فضل حسین اعوان....شفق
01 اگست 2013 0



امریکی صنعتکار نے پاکستانی دوستوں کی توجہ سی سی ٹی وی سکرین کی طرف مبذول کرائی، فرم کے گیٹ پر جدید ماڈل کی بڑی گاڑی کی سپیڈ دھیمی ہوئی۔ گیٹ کھلا اور ساتھ ہی پارکنگ میں لشکارے مارتی گاڑی پارک ہو گئی۔ پاکستانی کلچر سے کافی حد تک شناسا امریکی میزبان نے پوچھا ” آپ کے خیال میں یہ گاڑی کس کی ہو سکتی ہے“؟ ۔۔۔ ”کمپنی کے چیف ایگزیکٹو کی یا اس کے خاندان کے کسی فرد کی۔ اگر اس پر کمپنی کا سٹکر نمایاں نہ ہوتا تو ہم کہتے آپ کی طرح کے کسی بڑی کمپنی کے مالک کی“ گاڑی کی قدر و قیمت سے واقف مہمانوں نے اپنا اندازہ لگایا۔ ”یہ گاڑی میری کمپنی کے کلاس فور ملازم عمانویل کی ہے، وہ سب سے نچلے درجے کا ملازم ہے ، اس کی گاڑی میرے سمیت کمپنی میں کام کرنے والے کسی بھی شخص کی گاڑی سے مہنگی ہے“،میزبان نے مہمانوں کوورطہ¿ حیرت میں ڈال دیا ۔ مہمانوں نے حیرت سے آنکھیں پھاڑتے ہوئے پوچھا ” کیا اس نے گاڑی ابھی خریدی ہے اور آپ اسے کب نوکری سے نکال رہے ہیں“؟ ” اچھی گاڑی رکھنا اس کا شوق ہے۔ نوکری سے اسے کیوں نکالوں۔ جس کام کے لئے اسے رکھا گیا ہے وہ دلجمعی اور دیانتداری سے کرتا ہے“ فیکٹری مالک نے جواب دیا۔” یہ گاڑی کیسے افورڈ کر سکتا ہے“؟ پاکستان سے نئے نئے جانے والوں کا اپنے کلچر کے پیش نظر سوال بجا تھا ۔” اس کی تنخواہ اتنی ہے کہ گاڑی آسانی سے افورڈ کر سکتا ہے“میزبان نے جواب دیا ۔ ان پاکستانیوں کو اکثر پاکستانیوں کی طرح شاید پی آئی اے کے ملازمین کی مراعات کا اندازہ نہیں تھا۔ خاکروب کی تنخواہ ستر اسی ہزار سے کم نہیں۔ اوپر کے درجے والے لاکھوں میں لیتے ہیں۔ یونین میں ہوں تو کام بھی نہیں کرنا پڑتا ۔کام کنٹریکٹ پر رکھے ملازم کرتے ہیں۔ 24 جہاز اڑانے کے لئے ہزاروں ملازمین ہیں ہر ایک کو سال میں بچوں کی سیرو سیاحت کی کسی بھی ملک میں ایک سے زیادہ مرتبہ سہولت بھی ہے اس کے علاوہ مزید کئی سہولیات بھی ہیں ۔ خدا کرے ایسی مراعات پاکستان کے ہر سرکاری اور نجی ادارے کے ملازم کو بھی نصیب ہو جائیں جو ناممکن نہیں لیکن حال پی آئی اے جیسا نہ ہو ۔ ہمارے ہاں درمیانے اور نچلے درجے کے سرکاری و نجی اداروں کے ملازمین کی عمومی حالت قابل رحم ہے ۔ درمیانہ طبقہ سفید پوشی کا بھرم رکھنے سے محروم ہو رہا ہے۔ نچلے درجے کے ملازمین کا کوئی بھرم ہے ہی نہیں جو قائم رہ سکے۔ البتہ چند ایک ایسے تیسے خودداری برقرار رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔حالات نے نچلے درجے کے اکثر ملازمین کوبھکاری سا بنا دیا ہے۔ جو بھیک نہیں مانگتے وہ آمدن میں اضافے کے لئے جائز ناجائز کرنے پر مجبور ہیں۔ گذشتہ دنوں ایک بڑے سرکاری ہسپتال سے ”واہ“ پڑا۔” انتظامات“ دیکھ کر واہ واہ کر اٹھا۔ گیٹ پر سکیورٹی اداروں کی طرح انٹرنس پر بیرئیر لگے تھے کہ ٹینک کا گزرنا بھی ناممکن تھا۔ موجودہ حالات میں ایسی سیکورٹی مجبوری اور ضرورت ہے۔ بیریئر کو کراس کیا اور واپسی ہوئی تو پتا چلا ان کا سکیورٹی سے کوئی لینا دینا نہیں۔ یہ گاڑی والوں کو ٹوکن دینے اور واپسی پر 20 روپے وصولی کے لئے لگائے گئے ہیں۔ موٹر سائیکل کی پارکنگ فیس 10 روپے ہے۔ شہباز شریف کے گذشتہ دور کے اختتام تک پارکوں اور ہسپتالوں کی پارکنگ فیس ختم کردی گئی نگران سیٹھی ہسپتالوں میں پارکنگ فیس بحال فرما گئے۔اب شہباز شریف شاید یہ رقم انرجی بحران کے خاتمے پر صرف کریں گے ۔ہسپتال کی سکیورٹی کا یہ حال ہے کہ اسلحہ و گولہ بارود گاڑی میں تو کیا، کوئی گٹھڑی یا ٹوکری میں رکھ کر لے جائے تو بھی کسی کو اعتراض نہیں۔ ہسپتال کے اندر ایک اژدھام تھا۔ لگتا تھا آدھی قوم بیمار اور آدھی تیمار دار ہے۔ عملے کا موڈ خوشگوار کم ناگوار زیادہ تھا۔ شعبہ گائنی کے عملے کا کردار دور سے اور مریضوں کی ہوہا کار قریب سے دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ معصوم فرشتوں کی آمد کا سلسلہ جاری تھا۔ کسی کی جھولی میں خدا کی نعمت اور کسی کے دامن میں رحمت اتر رہی تھی۔ عملہ اس رحمت و نعمت کی ترسیل کاایک ذریعہ تھا۔ مریض اور لواحقین ان کے عمومی طرز عمل سے شاکی تھے ۔رش زیادہ تھا جس پر ڈاکٹر‘ نرسیں اور سٹاف کے دیگر لوگ جھنجھلا رہے تھے۔ مریضوں اور لواحقین کی طرف سے عملے سے تعاون کا بھی فقدان تھا۔ اب بچے بدلنے ، غائب اور اغوا ہونے کا نظام تو بہتر ہے لیکن عملہ کئی ”امراض“ میں مبتلا ہے۔بچے کی پیدائش پر لواحقین کو مبارکبادیں دے کران کی جیب پر نظر اور کوئی انکار کرے تو ہاتھ گریباں کی طرف آتا محسوس ہوتا ہے۔ ڈاکٹر اور نرسیں ایسے معاملات سے لاتعلق چھوٹا عملہ بہت آگے ہے ۔جناح کی طرح دیگر ہسپتالوں میں بھی کم وبیش ایسے ہی گل کھلتے ہیں۔پولیس کی کارکردگی اورکارناموں پر دو رائے نہیں ہیں۔ کورٹ کچہری میںجج کی موجودگی میں عملہ سائلوں سے وصولیاں کرتا ہے۔پٹواری تو زرداری پر بھی بھاری دکھائی دیتا ہے ۔ایف آئی اے، امیگریشن، کسٹم ،انکم ٹیکس،ریلوے، واپڈا، پاسپورٹ،تعلیم نیز کسی بھی سرکاری محکمے میں” گرجیں“ صارفین اور سائلین کا گوشت نوچنے سے گریز اور دریغ نہیں کرتیں۔نجی اداروں میں پبلک ڈیلنگ پر مامور ملازم بھی دہاڑی لگانے سے نہیں کتراتے ۔کچھ عرصہ نٹنگ کے کاروبار سے وابستگی کے دوران مشاہدے میں آیا کہ عموماً بڑی فیکٹریوں کے منیجراور سٹاف کے لوگ نٹنگ کر نیوالوں سے انڈر ہینڈ کمشن بٹورتے ہیں ۔نجی اور سرکاری اداروں میں تنخواہیں معقول ہوں تو جہاں ملازمین کے معاشی مسائل حل ہو جائیں وہیں کا فی حد تک رشوت کا خاتمہ بھی ہو سکتا ہے ۔ملک میں وسائل کی کمی ہے نہ قومی خزانہ خالی ہے۔ججوں فوج اور ڈاکٹروں کی تنخواہیں بڑھ سکتی ہیں تو دیگر اداروں کی کیوں نہیں؟ پی آئی اے کی طرح دیگر اداروں کے ملازمین کی مراعات کیوں نہیں ہو سکتیں؟۔پی آئی اے ، سٹیل مل اور ریلوے جیسے ادارے بڑی تنخواہوں کی وجہ سے نہیں چند بڑوں کی اربوں کھربوں کی لوٹ مار سے ڈوبتے ہیں۔کرپشن کنٹرول کر کے سرکاری اور نجی ادارے ترقی کی معراج پر پہنچ سکتے ہیں جوملازمین کو اچھا پیکج دینے کی پوزیشن میں ہونگے ۔ پھر ممکن ہے کہ سائلین اور صارفین کی جیبوں پر نظر رکھنے والوں کے پا س حق حلال کی کمائی سے عمانویل کی طرح گاڑی ہو۔


گدھ-معرکی-تعلیم اور صحت-



صدارتی ”معرکی“

کالم نگار  |  فضل حسین اعوان....شفق
28 جولائی 2013 0
واپڈا کا لائن سپرنٹنڈنٹ ریٹائر ہوا تو اس نے اپنی جگہ بیٹے کو لائن مین بھرتی کرا دیا۔ کرنل صاحب ریٹائر ہو کرنئے تعمیر شدہ بنگلے میں منتقل ہوئے تو دوسرے روز خدا بخش دھوبی اپنے میٹرک پاس بیٹے کو لےکر حاضر ہوا اور عرض کی کہ اسے اپنی جگہ بھرتی کرا دیں‘ رحمے جِھیر نے اپنے بیٹے کو ایف اے کرایا، سرکاری نوکری تو نہ ملی البتہ چودھری نے شہر میںایک پراپرٹی ڈیلر کے پاس چوکیدار چپڑاسی کم خانساماں رکھوا دیا۔ جھورا پڑھا لکھا تھا جلد پراپرٹی کے معاملات سے آگاہ ہو کر ڈیلر کا دست راست بن گیا۔ اچھی خاصی ماہانہ آمدن ہونے لگی تو گھر میں جدید اشیا کی آمد شروع ہو گئی۔ فریج گھر میں آئی تو دادے نے پوچھا اس کا فائدہ؟ جواب دیا جو چیز بھی رکھو خراب نہیں ہوتی۔ بابے نے رات کو حقہ تازہ کیا دو چار کش لئے اور سلگتی ہوئی چلم فریج میں رکھ دی۔۔۔ پوتا تھرموس گھر لے گیا۔ بزرگ نے افادیت پوچھی تو بتایا اس میں ٹھنڈی چیز ڈالو تو ٹھنڈی، گرم ڈالو تو گرم رہتی ہے۔ اگلے دن بڑا بھائی فیکٹری جانے لگا تو پونے میں روٹی باندھی تھرموس میں دو گلاس گھڑے سے پانی کے اور ایک چائے کا کپ ڈال کر ساتھ لے گیا۔ ہمارا دوست اخباری لائن میں آنے کے بعد پہلی بار گھر گیا تو دادی نے پوچھا، کی نوکری ملی؟ بتایا اخبار کی، کم کی اے۔ بتایا خبریں اور سرخیاں بناتا بھی ہوں لگاتا بھی ہوں۔ وہ دوسری سرخی سمجھ بیٹھی اور جھٹ سے بولی پھٹے منہ، کھسرا!۔ ساتھ پھوپھی بیٹھی تھی اس نے پوچھا رات کہاں رہتے ہو۔ بتایا رات کو ڈیوٹی ہوتی ہے صبح تین بجے تک۔ اس نے کہا چوروں والی نوکری ہے۔ ہمارے ملک کی کم و بیش ستر فیصد آبادی ایسے ہی سادہ لوح لوگوں پر مشتمل ہے جو سیاست اور جمہوریت کی الف بے سے بھی واقف نہیں۔ ہمارے شاطر سیاستدان ان کی سادگی سے فائدہ اُٹھا کر ان کی ہمدردیاں اور ووٹ سمیٹ لیتے ہیں جو سیاستدانوں کی چالوں کو سمجھتے ہیں ان کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے ان میں بھی کئی مصلحتوں اور کئی اپنے مفادات کے اسیر ہو کر سیاہ کو سفید اور سفید کو سیاہ بنا کر دکھانے کے فن میں یدِ طولیٰ رکھتے ہیں۔ یوں قوم کے سیاہ و سفید کے مالکوں کا اصل چہرہ سادہ لوح اکثریتی آبادی کے سامنے کبھی نہیں آتا۔ کوئی جتنا بھی سادہ ہو اسے بجلی کی بندش کے عذاب کا توبہر حال سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اسے بتایا جاتا ہے کہ بجلی زرداری نے بیچ دی تو وہ پیپلز پارٹی نفرت کا گولہ بن جاتا ہے۔ اب وہ اچانک بجلی کے عذاب کے ساتھ مہنگائی کے تھپیڑے کھا رہا تو وہ اس کا ذمہ دار نواز لیگ کو سمجھتا ہے جب موقع ملے گا تو اس سے نفرت کا اظہار کر دیگا۔ اس سے زیادہ کی اس کے پاس سیاست کو سمجھنے کی صلاحیت نہیں اور شاید ضرورت بھی نہیںہے۔ زرداری صاحب کا یہ قول تاریخی حیثیت اختیار کر گیا کہ معاہدے اور وعدے قرآن و حدیث نہیں ہوتے دیگر سیاستدانوں کے کردار سے ایسے ہی رویوں کا اظہار ہوتا ہے۔ اب تک پاکستان میں کتنے اتحاد بن چکے ہیں۔ ان اتحادوں میں پارٹیاں بدلتی ہیں نہ چہرے البتہ تعداد ذرا مختلف ہوتی ہے۔ یہ پارٹیاں کبھی حکومتی اتحاد میں گھستی ہیں تو کبھی حکومت کو الٹا کر اپنے اقتدار کی راہ ہموار کرتی ہیں۔آج صدارتی ریس جاری ہے۔ نواز لیگ ممنون حسین کو سامنے لائی، تحریک انصاف نے وجیہہ الدین کو پیش کیا اور پی پی پی نے رضا ربانی کو آگے بڑھا کر پیچھے ہٹا لیا۔ الیکشن کمشن نے 6 اگست کو الیکشن کرانے کا اعلان کیا۔ نواز لیگ کواس شیڈول پر یاد آیا اس روز تو ستائیسویں اٹھائیسویںہو گی۔ میاں نوازشریف نے عمرے پر جانا ہے۔ ن لیگ نے سپریم کورٹ میں 30 جولائی کو الیکشن کرانے کی درخواست دائر کر دی۔ مسلم لیگ ن نے جو مانگا سپریم کورٹ نے عطا کر دیا ۔۔۔ عمرہ پورا سال ہوتا ہے۔ ن لیگ کی عبادت گزار قیادت اپنا شیڈول صدارتی الیکشن کے تناظر میں طے کر سکتی تھی۔ سیاستدانوں کی شب بیداری کی فطرت اور اعتکاف کی عادت سے دنیا واقف ہے۔۔۔ شریف برادران جاتی عمرہ میں شہر اعتکاف بسا دیں تو وضو کے طریقے سے بھی نابلد ایم این اے اور ایم پی اے جوق در جوق سر پر بستر اُٹھائے اور گلے میں لوٹا لٹکائے امڈ آئیں گے۔ پی پی پی نے انتخاب کا یہ کہہ کر بائیکاٹ کیا کہ سپریم کورٹ نے اس کی رائے نہیں لی۔ مزید براں اسے مہم چلانے اور پارلیمنٹیرین سے رابطوں کا وقت محدود ہو گیا۔ پارلیمنٹ میں کم و بیش بیس پارٹیاں اور لاتعداد آزاد امیدوار ہیں وہ کس کس کو پوچھتی؟ رابطوں کےلئے وقت 6 اگست تک سب کےلئے لامحدود وقت تھا۔ یہ 30 جولائی تک محدود ہوا ہے تو بھی سب کےلئے۔ پی پی پی کےلئے ہار تو نوشتہ دیوار تھی۔ بائیکاٹ سے بہتر تھا کہ پی پی پی ن لیگ کے امیدوار کو سپورٹ کر کے سیاست میں مفاہمت کا ایک مزید باب رقم کر دیتی جس سے ن لیگ مراعات کے حصول کے عادیوں کی بلیک میلنگ سے بھی محفوظ رہتی۔ تحریک انصاف کو بھی پی پی پی جیسے ہی تحفظات تھے۔ الیکشن کا بائیکاٹ غیر جمہوری رویہ تو نہیں لیکن موجودہ حالات کے تناظر میں پسندیدہ بھی نہیں ہے۔ عمران خان نے بائیکاٹ نہ کر کے بہتر جمہوری رویے کا اظہار کیا۔  صدارتی مہم سے پارٹیوں کی قیادت کی سیاسی بلوغت اور وژن کا تعین کیا جا سکتا ہے۔ ق لیگ اور اے این پی نے اصولی طور پر پی پی پی کے ساتھ جانے کا اعلان کیا۔ پی پی پی کی طرف سے بائیکاٹ کو سیاسی بالغ نظری قرار نہیں دیا جا سکتا۔ اس سے اداروں کے درمیان چپقلش بڑھ سکتی ہے ۔ رضا ربانی کا یہ کہنا معنی خیز ہے کہ 3 قوتوں کا گٹھ جوڑ ون یونٹ کی طرف دھکیل رہا ہے۔ ایم کیو ایم نے حسب سابق فیصلہ اپنے بہترین سیاسی مفادات کے حصول کےلئے کیا۔ ان کا گورنر موجود رہے گا، مرکز میں حکومت میں شمولیت کی راہ ہموار ہو گی اور برطانیہ میں ہاتھ سے نکلتے معاملات بھی سنبھل سکتے ہیں۔ نوازشریف کو گلا ہے کہ انہوں نے زرداری حکومت کا پانچ سال ساتھ دیا۔ فرینڈلی اپوزیشن کے طعنے برداشت کئے اب وہ الیکشن کا بائیکاٹ کر رہی ہے۔۔۔ باری کے کھیل کا انکشاف زرداری صاحب نے کیا تھا۔ انہوں نے باری میاں صاحب کو دیدی اب پانچ سال آپ اپنی حکمت اور مفاہمت سے پورے کریں۔ پی پی پی سے توقع نہ رکھیں کہ وہ آئینی مدت کا دریا عبور کرا دے گی۔ اب چوسنی سیاست نہیں چل سکتی ۔کچھ حلقے میاں صاحب کو سیاسی طور پر بالغ سمجھتے ہیں وہ خود کو ایسا ثابت کریں۔ الیکشن کی تاریخ بدلوانے کےلئے سپریم کورٹ جانے سے قبل پی پی اور تحریک انصاف سے مشورہ کرنے میں کیا حرج تھا؟۔ اور پھر ایم کیو ایم کے در پر حاضری اپنے ہی اصولوں، وعدوں اور معاہدوں کی دھول اڑاتی نظر آتی ہے۔ سیاسی بصارت ملاحظہ فرمایئے کہ فنکشنل لیگ کو بھی اعتماد میں نہیں لیا گیا۔ ایم کیو ایم سمیت کسی بھی پارٹی سے رابطوں میں کوئی حرج نہیں۔ رابطے سیاست اور جمہوریت کا حصہ ہیں۔ میاں نوازشریف، ایم کیو ایم کے پاس وفد بھیجنے سے قبل 7 اور 8 جولائی 2007ءکی 34 جماعتوں کی لندن میں اے پی سی کا اعلامیہ بھول گئے یا اسے زرداری صاحب کی طرح سمجھ لیا کہ معاہدے اور وعدے قرآن و حدیث نہیں ہوتے۔ مختصر ملاحظہ فرمائیے وہ اعلامیہ جو میاںصاحب نے پڑھا اور اس پر ہمارے اکابرین سیاست نے دستخط کئے۔ اس اے پی سی میں محترمہ بینظیر بھٹو نے شرکت نہیں کی تھی کیونکہ ان کے 28 جولائی کو دبئی میں مشرف سے ملاقات کے معاملات طے ہو رہے تھے۔”۔۔کراچی میں بارہ مئی کے قتل عام کے ذمہ دار جنرل مشرف‘ گورنر سندھ (عشرت العباد) وزیراعلیٰ سندھ‘ صوبائی وزراءاور ایم کیو ایم ہیں‘ اس سلسلے میں سپریم کورٹ میں مشترکہ درخواست کی جائیگی۔ پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات میں الطاف حسین کے مبینہ کردار کے حوالے سے ضروری قانونی کارروائی شروع کرنے کیلئے برطانوی حکومت کو مشترکہ یادداشت بھجوائی جائیگی جبکہ کوئی بھی جماعت مستقبل میں ایم کیو ایم کے ساتھ انتخابی اتحاد نہیں کریگی اور اسے حکومت میں شامل نہیں کیا جائیگا“۔ اعلامیہ میاں نوازشریف نے خود پڑھا جس پر آمین کہنے والوں میںعمران خان، مولانا فضل الرحمان‘ قاضی حسین احمد‘ اسفند یار ولی، علامہ ساجد نقوی، میاں شہباز شریف، اسحٰق ڈار، چودھری نثار، احسن اقبال‘ حاصل بزنجو‘ مخدوم امین فہیم‘ شیری رحمان‘ محمود خان اچکزئی‘ پروفیسر ساجد میر اور دیگر بہت سے رہنما شامل تھے۔ یہ اے پی سی اس موقع پر ہوئی جب لال مسجد اپریشن شروع ہو چکا تھا اور دنیا کے کونے کونے میں معصوم محصورین لال مسجد کی چیخیں گونج رہی تھیں۔ 

 

کالم نگار  |  فضل حسین اعوان




1994ءمیں سوڈان میں بدترین قحط پڑا تو جنوبی افریقہ کا پاپا رازی فوٹو گرافر، امدادی ٹیم کے ساتھ وہاں گیا۔ اس نے یہ شاہکار تصور بنائی جس میں گِدھ بھوک سے نڈھال تین چار سال کی بچی کے مرنے کا انتظار کر رہا ہے کیونکہ گِدھ کی فطرت میں زندہ انسانوں کا گوشت کھانا شامل نہیں۔ اس شاہکار تصویر پر کیون کارٹر کو پُلٹرز انعام دیا گیا۔ کیون کارٹر کی شاہکار تصویر نے دنیا میں تہلکہ مچا دیا ساتھ ہی اس پر لعن طعن بھی شروع ہو گی کہ اس نے تصویر کے بعد بچی کو مرنے اور گِدھ کی خوراک بننے کیلئے کیوں چھوڑ دیا!ایسی تنقید کیون کے ضمیر پر کوڑے برسانے اور اپنی خود غرضی ستانے لگی کہ انعام ملنے کے 3 ماہ بعد خودکشی کر لی۔ اسکی ڈائری سے یہ تحریر ملی ”میرے خدا میں وعدہ کرتا ہوں کبھی خوراک ضائع نہیں کروں گا خواہ کتنی ہی بدذائقہ کیوں نہ ہو اور میں کتنا ہی سیر کیوں نہ ہو جاﺅں۔“
اوپر دیا گیا اقتباس ایک بار پھر نقل کرنے کی ضرورت ملک میں بڑوں کی شان و شوکت، آسمان کو چھوتے ہوئے دولت کے انبار اور دوسری طرف سسکتی، بلکتی اور ایک ایک نوالے کو ترستی انسانیت دیکھ کر پیش آئی۔ کراچی میں رمضان کے آغاز میں صدقہ و زکوٰة پر جھپٹتی درجنوں خواتین میں سے 4 بھگدڑ میں کچل کر ماری گئیں۔ 2009ءمیں 19 ایسے واقعہ میں لقمہ اجل بنی تھیں۔ لاہور میں بھی دو تین سال قبل ہلال احمر کی خیرات پر بھوکے ٹوٹ پڑے اور کئی جان سے گئے۔ ”بھوکوں کو زکوٰة، خیرات اور صدقات وصول کرنے کی بھی تمیز نہیں“ یہ عام سا جملہ کہہ دینا بڑا آسان ہے۔ بھوک دنیا کی ظالم ترین چیز ہے۔ اس جبر سے تنگ انسان اپنی انا کو فنا اور عزت و غیرت کو نیلام کرنے پر بھی مائل ہو جاتا ہے، جو بھوکے ایسا نہیں کرتے وہ اپنے سمیت پورے خاندان کی جان لے لیتے ہیں۔ پاکستان میں آدھی سے زیادہ آبادی خطِ غربت سے نیچے زندگی بسر کر رہی ہے( خط غربت سے مراد آمدن کی وہ حد ہے کہ جس سے نیچے کوئی فرد ، زندگی کے لیے درکار بنیادی ضروریات تک رسائی حاصل نہیں کر سکتا یا یوں کہہ سکتے ہیں کہ خرید نہیں سکتا۔ورلڈ بنک کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کی 60 فیصد آبادی خطِ غربت سے نیچے زندگی گزار رہی ہے جن کی یومیہ آمدنی 2 ڈالر کے برابر ہے جبکہ 21 فیصد انتہائی غریب ہے انکی یومیہ اجرت سوا ڈالر سے بھی کم ہے۔ ایک تجزیے کے مطابق پاکستان میں 5 سال سے کم عمر 21 فیصد بچے غذائی قلت کا شکار ہیں) بھوکے سونے والوں کی تعداد تو شاید بہت زیادہ نہ ہو البتہ ایسے لوگ ضرور موجود ہیں جو پیٹ بھر کر کھانے سے قاصر ہیں۔۔۔ صرف روٹی ہی ان کی ضرورت نہیں، ان کو لباس، تعلیم اور صحت کی سہولتیں بھی درکار ہیں۔
اتنی بڑی آبادی کو خطِ غربت سے نیچے پھینکنے کا ذمہ دار کون ہے؟ 60 فیصد آبادی کی محرومیوں کا کوئی تو ذمہ دار ہے۔ کسی حد تک یہ لوگ خود بھی ہو سکتے ہیں لیکن بلاشبہ سب سے زیادہ وہی لوگ ہیں جو شان و شوکت سے زندگی گزارتے ہیں جن کا پُرشکوہ محلات میں بسیرا ہے، دھن دولت بے کنار ہے۔ محنت اور خون پسینے کی کمائی سے سیم و زر کے ہمالہ کھڑے کرنے صاحبانِ جائیداد معزز و محترم ہیں جن کے محلات کی بنیاد میں عوام بلکہ غریب کی رگوں سے نُچڑا ہوا خون کا ایک بھی قطرہ موجود ہے وہ بھی گِدھ ہے۔
آگے چلنے سے قبل محترمہ بانو قدسیہ کے ناول ”راجہ گِدھ“ کا ایک اقتباس ملاحظہ فرمائیے۔
"باوجود یہ کہ رزق حرام ہی سے راجہ گدھ میں دیوانگی کے آثار پیدا ہوئے ہیں لیکن مسئلہ دراصل سرشت کا ہے۔۔۔۔ اگر راجہ گدھ کی سرشت میں حرام کھانا لکھا ہے تو پھر اس کیلئے حرام گناہ نہیں عین ثواب ہے۔۔۔ لیکن اگر اس نے اپنی عقل سے رزق حرام کھانا سیکھا ہے تو پھر یہ ضروری اس کے لہو پر اثر انداز ہوگا اور دیوانگی پیدا کرے گا۔۔۔ طے یہ کرنا ہے کہ کیا رزق حرام گدھ کی سرشت کا حصہ ہے کہ اس کی اپنی تجویز کا ردعمل "۔۔۔
 گِدھ کی فطرت میں زندہ انسانوں کا گوشت کھانا شامل نہیں۔ ہمیں جن سے پالا پڑا ہے وہ زندہ انسانوں کا گوشت کھانے سے بھی دریغ نہیں کرتے آج ہمیں ہر طرف گِدھ ہی گِدھ نظر آتے ہیں۔ راجہ، گیلانی، زرداری، نواز، شہباز، مولانا، مخدوم، بلور اور۔۔ اور بہت سے وغیرہ وغیرہ --- اگر انکی جائیدادوں میں کرپشن، کمیشن اور دو نمبر آمدن کی آمیزش نہیں تو یہ محترم و مکرم ہیں دوسری صورت میں گِدھ۔ کہا جا رہا ہے کہ صدارتی الیکشن کا شیڈول تبدیل کرلیا جائے کیونکہ 6 اگست کو کئی ارکان عمرہ اور اعتکاف میں مصروف ہونگے۔ دیکھا جائے کہ ان میں سے کتنے گدھ نہیں ہیں۔ مسلم لیگ (ن) کو پورے پنجاب سے گورنر کیلئے ایک بھی امیدوار میسر نہیںآیا کہ لندن سے دہری شہریت چھڑوا کر ایک شخص درآمد کرنا پڑا۔ خدا کرے کہ وہ گدھ صفت نہ ہو۔ (

گِدھ .... (آخری قسط)

کالم نگار  |  فضل حسین اعوان....شفق
23 جولائی 2013 0
ای او بی آئی کے سابق چیئرمین ظفر گوندل پر 40 ارب کی بے بطگیوںکا الزام ہے سپریم کورٹ نے انکی جائیداد کی ضبطی کا حکم دیدیا گیا۔ راجہ پرویز اشرف نے اپنی وزارتِ عظمیٰ کے آخری روز 15 ارب روپے قومی خزانے سے نکلوا لئے، ان پر مزید اربوں کی کرپشن کے الزامات ہیں، گیلانی کے دور سے ہر ادارہ کرپشن میں ڈوبا ہوا نظر آیا انکے خاندان کے تمام افراد لوٹ مار میں مصروف رہے‘ اب وہ فرما رہے ہیں کہ ان کو استثنیٰ حاصل ہے لہٰذا وہ کسی کورٹ اور تفتیشی ادارے کو جوابدہ نہیں ،جس نے جو کرنا ہے کر لے۔ ایسی سینہ زوری سیاسی شہید کا درجہ پانے کی بے پاپاں خواہش دکھائی دیتی ہے۔ زرداری صاحب پاکستان کے دوسرے امیر ترین آدمی کے درجے پر فائز ہیں ان کو مسٹر ٹین پرسنٹ کہا جاتا رہا۔ انہوں نے موبائل پر ٹیکس لگایا تو کسی نے اسے زرداری ٹیکس اور کسی نے جگا ٹیکس قرار دیا۔ اب شریف حکومت نے اس میں دگنا اضافہ کر دیا‘ اسے ڈھگا ٹیکس قرار دینا چاہئے۔ یہ آپ کی صوابدید پر ہے کہ ٹیکس لگانے والا ڈھگا ہے یا خاموشی سے برداشت کرنے والا طبقہ ڈھگا ہے۔
زرداری کے زمانے میں انکے حریفوں بلکہ شریفوں نے بڑے نعرے لگائے اور دعوے کئے کہ حکومت میں آ کر قومی خزانے سے لوٹی گئی پائی پائی کا حساب لیں گے اقتدار میں آنے کے بعد مکمل خاموشی ہے۔ ایسے لوگ جو کہ کرپشن اور 60 فیصد عوام کو خطِ غربت سے نیچے زندگی گزرانے پر مجبور کرنے والوں کے گریبان پر ہاتھ نہیں ڈالتے۔اتنی بڑی کرپشن سے چشم پوشی کرنے والوں کے کردا ر کو کیا کہاجائے؟ کوئی کہیں بھی بیٹھا ہے صحافت کے چبوترے پر، مذہب کے منبر پر، سیاست کے آسمان پر قضاة کے منصب پریا بیورو کریسی کے آشیاں پر اگر اسکی کمائی میں ایک پیسہ بھی ناجائز ذرائع سے جمع ہو رہا ہے‘ وہ گِدھ ہی نہیں راج گدھ ہے ۔گِدھ اس حوالے سے ماحول دوست ہے کہ مردہ جانور کے تعفن زدہ ہونے سے قبل اس کو کھا جاتا۔ کہا جاتا ہے کہ پاکستان میں گِدھ نسل ختم ہورہی ہے جس پر اقوام متحدہ کے متعلقہ ادارے نے پاکستان میں گدھ کی تیزی سے ختم ہونے والی نسل کو بچانے کے لیے اقدامات شروع کیے ہیں۔ اسکے تحفظ کے لیے سندھ کے صحرائی علاقے ننگرپارکر میں ایک گدھ ریسٹورنٹ قائم کیا جا رہا ہے جہاں تنظیم کے مطابق سال بھر گدھوں کو آلودگی سے پاک گوشت فراہم کیا جائے گا تاکہ ان کی شرح اموات کم ہوسکے۔۔۔اقوام متحدہ کے ایسے اقدامات کا کوئی فائدہ نہیں، گِدھ کی نسل نایاب نہیں ہورہی بلکہ گِدھ انسانی روپ میںنمودار ہوکر پہلے سے بھی بہتر ”کارکردگی“ دکھاتے ہوئے زندہ انسانوں کو بھی نوچ رہے ہیں۔
حکمرانو ں اور سیاستدانوں کے عوام کُش اقدامات کو نظر انداز کر کے ان کی تعریفوں کے پل باندھنے والے بھی ایک قسم کے گِدھ ہی ہیں۔ مقبوضہ کشمیر میں حکومت بنتی اور اپنی مدت پوری کر لیتی ہے۔ آزاد کشمیر میں حکومت کی بقا ءکا دارومدار پاکستان میںآنے اور جانیوالی حکومت پر ہوتا ہے۔ آج پھر مقبوضہ کشمیر میں گدھ حکومت کا تختہ الٹنے کےلئے سرگرم ہیں۔وہاں عموماً گدھ ہی اقتدار میں رہ کے وسائل پر ہاتھ صاف کرتے رہے ہیں ۔اُ وڑی کے پار سری نگر تک مضبوط اور بہترین سڑک دہائیوں پہلے بنی اپنی ابتدائی شکل میں موجود ہے جبکہ اُڑی کے آر مظفر آباد تک تباہ حال سڑک اس کے وزارت کشمیر کے ماتحت حکمرانوں کی لوٹ مار کی داستان بنی رہتی ہے۔
 روزانہ 14 ارب روپے کی سرکاری سطح پر کرپشن ہوتی ہے۔ سیاستدان، بیورو کریٹ بڑے افسر چھوٹے اہلکاروں کی طرف سے نوچی ہوئی جائیدادوںاور بنک اکاﺅنٹس کی مالیت بلاشبہ کھربوں کھربوں اور کھربوں میں ہے یہ قومی خزانے میں آ جائے تو یقیناً ملکی ترقی و خوشحالی کے در کھل سکتے ہیں۔ یہ رقم غریبوں میں تقسیم کرنے کی ضرورت نہیں اس سے توانائی کا بحران ختم ہو سکتا ہے۔ ترقیاتی کاموں کی رفتار تیز ہو سکتی ہے۔ صنعتوں اور کاروبار کا پہیہ رواں ہو سکتا ہے۔ حکومت پسماندہ علاقوں کی پسماندگی دور کر سکتی ہے۔ اس سب کیلئے گِدھوں سے نجات ضروری ہے اور حقیقت ہے کہ گدھ گِدھوں کا احتساب کر سکتے ہیں نہ ان سے نجات دلا سکتے ہیں۔
 آخر میںاحمد ندیم قاسمی صاحب کے اشعار کی صورت میں دعا ہے :
 خدا کرے کہ مری ارض پاک پر اترے
وہ فصلِ گل جسے اندیشہ زوال نہ ہو
یہاں جو پھول کھلے وہ کِھلا رہے برسوں
یہاں خزاں کو گزرنے کی بھی مجال نہ ہو
یہاں جو سبزہ ا±گے وہ ہمیشہ سبز رہے
اور ایسا سبز کہ جس کی کوئی مثال نہ ہو

تعلیم اور صحت

کالم نگار  |  فضل حسین اعوان....شفق
16 جولائی 2013 0
مختصر سی تقریب کے شرکاءکی تعداد بھی مختصر تھی۔ میزبانوں نے سات بجے کا وقت دیا تھا۔ چلنے سے قبل فون کیا تو بتایا گیا ساڑھے سات بج جائیں گے۔ احتیاطًا دس منٹ دیر کی تو بھی اپنے علاوہ کسی مہمان کو موجود نہ پایا۔ سوا آٹھ بجے تک اتنے معززین تشریف لے آئے جس سے گیدرنگ کا منہ سر بن گیا۔ رونق افروز ہونے والوں میں ارشاد عارف، عطاءالرحمن، رﺅف طاہر، سجاد میر، سعداللہ شاہ، محمد طاہر،ڈاکٹر امان اللہ ملک ، عمرانہ مشتاق کے علاوہ ایک خاتون سمیت مزیدپانچ چھ حضرات موجود تھے۔ میری نالائقی کہ میں ان کے ناموں سے ناشناسا تھا۔میزبان تعارف کرادیتے تو بہتر تھا۔ شرکاءمیںچند ایک ایکدوسرے کے ہمنوا اور ہم توا تھے جو وہاں موجود اور لاموجود صحافیوں کا توا لگاتے رہے۔
 ”خوش قسمت“ ہیں وہ صحافی جن کا تذکرہ ان کی عدم موجودگی میں بھی ہوتا رہا۔ جہاں عطاءالحق قاسمی کے اس کالم کا ذکر ہوا جس میں انہوں نے نام لئے بغیر اجمل نیازی اور توفیق بٹ کے کالموں میں اپنے ”ذکر خیر“ کی خبر لی تھی۔ میں قاسمی صاحب کے مذکورہ کالم کی تلاش میں ان کا ”صاحب اور اس کا ڈرائیور“ کے عنوان سے پورا کالم پڑھ بیٹھا جو ایک افسانہ تھا۔ اس پر ماتھا ٹھنکا کہ قاسمی صاحب کا ترکش عمران خان کی ملامت کے تیروں اور زنبیل نوازشریف کی صاحب‘ سلامت اور لوڈشیڈنگ کی حمایت میں دلائل سے خالی ہو چکی ہے کہ نوبت افسانہ طرازی پر آ گئی۔ کسی نے یہ بھی کہا کہ نظامی صاحب کا نام لئے بغیر ان کے خلاف زہر اُگلا گیا ہے۔ کالم پڑھنے پر یہ تاثر یکسر غلط ثابت ہوا۔ مجیب الرحمن شامی صاحب کا بھی قاسمی صاحب کے کالم میں بھلاذکر ہے۔ یار لوگوں نے ان کا تذکرہ قومے ہٹا کر کے محرم سے مجرم بنا دیا۔ شامی صاحب کی اس تقریب میں شمولیت کا تذکرہ بڑے دلچسپ پیرائے میں عینی شاہدین نے سنایا جس میں جنوبی پنجاب کی وہ خاتون بھی موجود تھی جس کو نواز لیگ کی قیادت نے ماورائے عقل فیصلہ کرتے ہوئے پنجاب اسمبلی کی رکن بنا دیا ۔یہ مزدور خاتون تعلیم سے کوری ہیں۔ تقریب کے بعدچائے پینے کے دوران انہوں نے ساتھ بیٹھی خاتون سے شامی صاحب کی طرف اشارہ کر کے پوچھا یہ کون ہیں؟ دوسری خاتون نے حیرانی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ” ہائے تم ان کو نہیں جانتی ہو، یہ بڑے مشہور صحافی خبریں اخبار کے مالک ضیاءشاہد ہیں“۔
 عطاءالرحمن صاحب نے اپنے اخبار کی اے بی سی کی راہ میں رکاوٹوں کی روداد سنانا شروع کی تو ہم نوا گروپ نے توا لگانے کی کوشش کی۔ عطا صاحب نے بڑے تدبر، ذہانت سے دانش سے یہ توا ان کی طرف لوٹا دیا۔ اس گپ شپ میںہم لوگ اپنی آمد کا مقصد فراموش کئے ہوئے تھے کہ میزبان نے کہا اگر اجازت ہو تو تقریب کا باقاعدہ آغاز کریں۔ اس پر غزالی ایجوکیشن ٹرسٹ کے نمائندے وقاص جعفری نے غزالی ایجوکیشن سسٹم کے حوالے سے مختصر سی بریفنگ دی۔ پاکستان میں 70 لاکھ بچے تعلیم سے محروم ہیں ان میں سے زیادہ کا تعلق دیہات سے ہے۔ غزالی ٹرسٹ دیہات میں تعلیم نام کی چیز سے نابلد بچوں کی تعلیم پر توجہ دے رہا ہے۔ پنجاب، خیبر پی کے اور بلوچستان کے 35 اضلاع میں 325 سکولوں میں 50 ہزار طلبہ و طالبات زیر تعلیم ہیں۔ کوئی بھی قوم تعلیم کے بغیر ترقی کر سکتی ہے نہ صحت مند معاشرہ وجود میں آ سکتا ہے۔ نپولین بوناپاٹ نے کہا تھا ”تم مجھے پڑھی لکھی مائیں دو میں تمہیں بہترین قوم دوں گا“۔ غزالی ٹرسٹ بہترین قوم کی تشکیل کیلئے اپنے وسائل کے مطابق کوشش کر رہا ہے۔ شہری آبادیوں سے دور بہت دور غزالی ٹرسٹ کے 325 سکول مخیر حضرات کے صدقات، زکوٰة اور عطیات پر چل رہے ہیں۔ والدین اپنی مرضی سے جو بھی فیس مقرر کر لیں یہ ان کو آپشن ہے۔ بہت سے بچے بغیر فیس کے پڑھتے ہیں۔جن کا دنیا میں کوئی نہیں ان کا بھی یہ ٹرسٹ سہارا بنتا ہے۔ معذور بچے بھی غزالی ایجوکیشن سسٹم کی نظروں سے اوجھل نہیں رہے۔ 50 ہزار طلبہ و طالبات اور 2400 اساتذہ کے ساتھ غزالی ٹرسٹ تعلیم کے میدان میں اپنی پوری صلاحیتیں بروئے کار لا رہا ہے۔ اس کا یہ سلسلہ زکوٰة صدقات اور عطیات پر چل رہا ہے۔ اس کے اکثر اساتذہ اور طلبہ و طالبات بھی ڈونر ہیں۔ دو سال قبل انہوں نے 34 لاکھ اگلے سال 42 اور رواں سال 48 لاکھ روپے ٹرسٹ کے حوالے کئے لیکن سالانہ اخراجات کروڑوں میں ہیں۔ ہماری جیب سے کسی کی بھلائی کیلئے استعمال ہونے والا ایک روپیہ بھی رائیگاں نہیں جاتا۔
گذشتہ دنوں شوکت خانم میموریل ہسپتال میں فنڈ ریزنگ تقریب ہوئی۔ عمران خان تو بیرون ملک تھے۔ ہسپتال کے سی ای او فیصل سلطان نے انکی نمائندگی کی کراچی سے بہروز سبزواری اس میں خصوصی شرکت کیلئے آئے۔ ٹارگٹ پانچ کروڑ تھا۔ ڈونرز نے 6 کروڑ کے جمع کرا دئیے۔ پشاور میں بھی کینسر ہسپتال کی تعمیر شروع ہو چکی ہے جو دو سال میں مکمل ہو جائیگا۔ کراچی میں تعمیر کی بھی کوششیں ہو رہی ہیں۔ شوکت خانم ہسپتال میں 75 فیصد مریضوں کا علاج عطیات سے جبکہ 25 فیصد مریض خود ادائیگی کرتے ہیں۔ شوکت خانم ہسپتال کو سالانہ 5 ارب روپے کی ضرورت ہوتی ہے ان میں سے نصف زکوٰة صدقات اور عطیات سے اکٹھے ہوتے ہیں۔
تعلیم اور صحت کی سہولتیں فراہم کرنا ریاست کی ذمہ داری ہے جب ریاست ایسا کرنے سے قاصر ہو تو دردِ دل رکھنے والے لوگ آگے آ کر حکومت کے دست و بازو اور غرباءکا سہارا بن جاتے ہیں ۔ملک میں بہت سے فلاحی ادارے کام کر رہے ہیں جو عطیات پر چلتے ہیں۔ زکوٰة صدقات اور عطیات دیتے ہوئے تھوڑی سی جانچ پرکھ کر لیں کہ آپ کے دئیے ہوئے پیسے کا مصرف انسانیت کی خدمت کیلئے ہی ہو رہا ہے۔ غزالی ٹرسٹ سے رابطے کیلئے نمبر ہے 04235222702-05 ای میل info@get.org.pk