جمعرات ، 29 دسمبر ، 2011
صدر کا خطاب.... حسرتیں، نصیحتیں، وضاحتیں....
فضل حسین اعوان ـ
صدر آصف علی زرداری کا اپنی اہلیہ محترمہ کی برسی پر گزشتہ برسوں کے برعکس لہجہ دھیما تھا۔ وہ دھیرے انداز میں بھی بہت کچھ کہہ گئے، ان کے خطاب میں ”کاش عدلیہ میرے ماتحت ہوتی“ جیسی حسرتیں۔ ”بلوچ لڑائی ہم سے سیکھیں“ جیسی نصیحتیں۔ ”ٹیلر جمہوریت نہیں چلنے دیں گے“ جیسی قسمیں۔ ”جس سے چاہیں تجارت کریں گے“ جیسی دشمن سے محبتیں۔ جسٹس افتخار سے پوچھتا ہوں، بینظیر کیس کا کیا بنا، جیسے طعنے۔ سب کو دوست قرار دینے جیسی الفتیں ”میرا بھی مسل پُل ہوا“ جیسی شرارتیں، شامل تھیں۔ صدر صاحب کا کہنا کہ پاکستان نے فیصلہ کر لیا ہے کہ ہم سب کے دوست ہیں، کسی کے دشمن نہیں، جس سے چاہیں گے کاروبار کریں گے.... بلاشبہ دنیا گلوبل ولیج بن چکی ہے، جس میں کوئی ملک اکیلا نہیں چل سکتا، مگر سب کے ساتھ یکساں دوستی ہو سکتی ہے، نہ سب کو مخالف بنایا جا سکتا ہے۔ لیکن جس کے ساتھ دشمنی ہے، دشمنی کی وجوہات ختم کیے بغیر، اس سے دوستی ہونا تو درکنار، اس ے دشمنی بھی کم نہیں ہو سکتی۔ صدر صاحب نے فرمایا کہ جس سے چاہیں گے گیس لیں گے، صدر کے اس فرمان کا روئے سخن اگر امریکہ کی طرف ہے تو خوش آمدید۔ امریکہ یہی چاہتا ہے کہ پاکستان ایران سے گیس نہ لے، اس کی بجائے چھ ہزار کلو میٹر دور ترکمانستان سے لائن بچھا کر درآمد کرے۔ جس میں کئی سال لگ سکتے ہیں۔ ایران سے معاہدے کے مطابق گیس کا حصول مہینوں نہیں دنوں کی بات ہے۔ سب سے دوستی کی بات شاید صدر نے نادانستگی میں یا سرسری انداز میںکر دی ہو۔ انہوں نے دوستوں کی صف میں بھارت کو شامل نہ کیا ہو۔ اگر وہ بھارت کو بھی دوستوں کی صف میں شمار کرتے ہیں تو صدر پاکستان کی طرف سے قوم کے ساتھ اس سے بڑھ کر ظلم نہیں ہو سکتا۔ ایک طرف آپ فوج کے کندھے کے ساتھ کندھا ملا کر امریکہ کے سامنے ڈٹے ہوئے ہیں، تو دوسری طرف اسی امریکہ کے دباﺅ پر بھارت کو خطے میں تھانیدار بنانے کی پالیسیوں کو فروغ دے رہے ہیں۔ پوری دنیا سے تجارت کریں، کاروبار کریں، سوائے آپ کی نسلوں کے دشمن بھارت سے۔ اس وقت تک جب تک وہ پاکستان کی شہ رگ سے انگوٹھا اٹھا نہیں لیتا۔ خارجہ پالیسی کو مروجہ سیاست پر منطبق نہ کریں، جس میں کوئی بات حرف آخر نہیں ہوتی۔ یہاں قاتلوں کو اپنی طاقت بڑھانے یا کسی کو نیچا دکھانے کیلئے گلے لگا لیا جاتا ہے۔ ہندو لاکھوں مسلمانوں کا قاتل ہے، اس نے قتل و غارت گری کا سلسلہ ہنوز اور بدستور جاری رکھا ہوا ہے۔
عجیب اتفاق ہے کہ محترمہ بینظیر بھٹو کے قتل کی تحقیقات کے حوالے سے صدر زرداری اور چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے ایک ہی سوال پوچھا ہے۔ جسٹس افتخار کہتے ہیں بینظیر بھٹو اتنی بڑی لیڈر تھیں، ان کے قتل کی اب تک کیا تحقیقات ہوئی۔ صدر صاحب کہتے ہیں چیف جسٹس سے پوچھتا ہوں، بینظیر کیس کا کیا بنا؟ چیف جسٹس کا سوال حکومت سے۔ صدر کا براہ راست چیف جسٹس سے ہے۔ محترمہ کا کیس روٹین میں چل رہا ہے۔محترمہ کے قتل کو پانچواں سال شروع ہو گیا، ان کے قتل کے تین ماہ کے اندر پیپلز پارٹی اقتدار میں آ گئی تھی۔ اس کا جتنا زور این آر او فیصلے سے راہ فرار اختیار کرنے اور استثنیٰ پر رہا، اس سے آدھا اپنی عظیم قائد کی تحقیقات پر ہوتا تو آج بینظیر بھٹو کے قاتل بے نقاب ہو چکے ہوتے۔ یہ کیس ابھی ابتدائی سٹیج خصوصی عدالت میں ہے۔ جسٹس افتخار کی عدالت میں پہنچنے تک کئی مراحل ہیں۔ وہ جواب تو تب دیں، جب کیس ان کی عدالت میں ہو، یہ کیس اسی سست روی سے آگے بڑھتا رہا تو ہو سکتا ہے فیصلے کے وقت نہ یہ حکومت ہو اور نہ ہی سپریم کورٹ میں افتخار محمد چودھری موجود ہوں۔ دونوں کی آئینی مدت 2013ءمیں ختم ہو رہی ہے۔
بینظیر قتل کیس میں مشرف اشتہاری ہیں، ان کو پاکستان لانا کس کی ذمہ داری ہے، کیا حکومت نے انٹر پول سے رابطہ کیا؟ صدر زرداری کہہ چکے ہیں، ان کو قاتلوں کا پتہ ہے۔ پھر نامزد کیوں نہیں کرتے۔ وزیر داخلہ رحمن ملک کہتے ہیں، قاتل پکڑ لیے ہیں، قیادت نے نام بتانے سے روک رکھا ہے۔ قتل کی سازش تیار کرنے والوں تک پہنچ چکے ہیں۔ وزیر اعظم گیلانی نے کل کہا کہ بینظیر قتل کیس کی تحقیقات مکمل لیں۔ زرداری خود کہتے ہیں قاتلوں کو جانتا ہوں، ایسا ہے تو ملبہ چیف جسٹس پر کیوں؟
خود پارٹی کے اندر سے پارٹی رہنماﺅں پر قتل کا شبہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔ یہاں لمبی چوڑی بحث کے بجائے بینظیر بھٹو کے ڈرائیور کا بیان ملاحظہ کیجئے۔ یہ بی بی کا دوسرا ڈرائیور تھا، جو ان کے آگے گاڑی لے جا رہا تھا۔ اس گاڑی میں رحمن ملک اور بابر اعوان بیٹھے تھے۔ ڈرائیور کا کہنا ہے کہ جب بلاسٹ ہوا تو رحمن ملک نے کہا، گاڑی دوڑاﺅ، ڈرائیور نے کہا، بی بی پچھلی گاڑی میں ہے۔ رحمن ملک نے کہا ”تمہیں جو کہہ رہا ہوں کرو، کچھ آگے جا کر گاڑی روک دی اور کہا بی بی کی گاڑی نظر نہیں آ رہی، رحمن ملک نے کہا میں تمہیں کہہ رہا ہوں، گاڑی بھگاﺅ، وہ گاڑی چلاتے ہوئے فیض آباد پہنچا تو گاڑی پھر روک دی تو اس پر ملک صاحب نے بہت سختی سے ڈانٹا کہ تم گاڑی چلاﺅ اور اسے زرداری ہاﺅس لے چلو۔ پیپلز پارٹی کے رہنما عبدالقادر شاہین کا کہنا ہے کہ بابر اعوان اور رحمن ملک نے بی بی کے ڈرائےور کو تھپڑ مارے۔رحمن ملک اور بابر اعوان بار بار کہتے ہیں، ہم موت سے نہیں ڈرتے، ہم شہادتوں سے نہیںگھبراتے، کیا ان کے کہنے کا مطلب ہوتا ہے کہ بھٹو خاندان موت اور شہادت سے نہیں ڈرتا۔ اگر یہ موت اور شہادت سے نہیں ڈرتے تو گاڑی بھگا کر کیوں لے گئے۔ ان کو تسلیم کرنا ہو گا کہ وہ جان بچا کر بھاگے تھے، نہیں تو پارٹی کے اندر سے اٹھنے والی آوازوں میں وزن ہے کہ محترمہ کے ساتھی بھی ان کے قتل میں ملوث تھے۔
آصف زرداری کی یہ حسرت کہ کاش عدالتیں ان کے ماتحت ہوتیں، ایسا ہوتا تو آج این آر او جائز ہوتا۔ سٹیل مل، ریلوے اور پی آئی اے بک چکے ہوتے۔ نواز شریف، شہباز شریف اندر، پنجاب میں پیپلز پا رٹی کی حکومت ہوتی۔ میمو اپنی موت مر گیا ہوتا۔