جمعرات ,30 اگست ,2012
بادنسیم
30 اگست 2012
”نسیم انور بیگ طویل عرصہ تک اقوام متحدہ کے ادارے یونیسکو کے ساتھ وابستہ رہنے کے بعد ریٹائر ہوئے ۔ اسلام آباد میں ان کی اقامت گاہ پر دانشوروں، سفارتکاروں صحافیوں اور اہل علم کی محفلیں سجی رہتی ہیں۔ ان محفلوں میں پاکستان اور اس کے مستقبل کے حوالے سے بحث و تمحیص کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ جہاں اہل درد پاکستان کے مسائل پر اظہار خیال کرتے ہیں۔ تجزیے کرتے ہیں اور ارباب اختیار کی توجہ ان معاملات کی طرف مبذول کراتے ہیں جن کا پاکستان کے مفادات اور اس کے مستقبل سے گہرا تعلق ہوتاہے۔ خوش قسمت ہیں وہ لوگ جن کی مرزا نسیم انور بیگ سے قربت تعلق اور دوستی رہی۔ آپ سے جو بھی ملا اس نے کچھ حاصل ہی کیا کچھ کھویا نہیں۔ آپ سے فیض حاصل کرنیوالوں کا ایک وسیع حلقہ ہے ملک وقوم اور ملت کے لئے آپ کی خدمات مدتوں یاد رکھی جائیں گی۔
”آج جبکہ وطن عزیز میں نفرتوں، عداوتوں اور کدورتوں کی ہا ہا کار برپا ہے۔ سیاست ذاتی انا اور گروہی مفادات کا روپ اختیار کر چکی ہے۔ اقتدار کے ایوانوں میں عوامی مینڈیٹ ایک خواب پریشان بن کر رہ گیا ہے۔ عدالتیں بے وقعت ہوتی جا رہی ہیں اور انتظامیہ انتقام کی علامت۔ سرسبز و شاداب ملک پر نحوست کے سائے محیط ہیں۔ مخلوق خدا پر رزق کے دروازے بند کئے جا رہے ہیں۔ کلاشنکوف نے شریف شہریوں پر زندگی حرام کر دی ہے انسانی خون ارزاں اور پانی مہنگا ہو گیا ہے۔ آزادی ایک طعنہ اور حکومت جگ ہنسائی بن گئی ہے۔ قبلہ اللہ کے گھر سے تبدیل ہو کر سوئے واشنگٹن ہو گیا ہے گرم و سرد چشیدہ بوڑھے لرزاں ہیں، رعنا جوانوں کو مایوسی اور ناامیدی نے اپنی گرفت میں لے رکھا ہے۔ “
”اس گھٹاٹوپ اندھیرے میں نسیم انور بیگ جیسی شخصیتیں خال خال سہی ہمارے لئے مینارہ نور ہیں ہم ان سے اللہ اور رسول کا اتباع، وطن سے محبت اور باہمی اخوت مودت خلوص قربانی اور روشنی حاصل کر سکتے ہیں“۔
”دھیمہ پن، شائستگی، خلوص، مٹھاس، محبت، شفقت، سلیقہ، نظم و نسق، بے لوث پن، جذبہ پرواز علم و آگہی جیسی خوبیوںکے ساتھ غور و فکر پر اعتمادی، دانشوری، علم پہیم لگن میں آپکا نام منظرعام پہ ایک نامدار اور معتبر ہے۔“
”نسیم انور بیگ مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن میںجناب حمید نظامی مرحوم کے قریبی رفقاءمیں شمار ہوتے تھے وہ ایم ایس ایف کے ان نو جوانوں میں تھے، جن پر قائداعظم بہت اعتماد کرتے قائد کے ساتھ اپنی بعض ملاقاتوں کی یاد آج بھی ان کی بوڑھی آنکھوں میں عجیب سی چمک لے آتی ہے۔ تیس سال تک اقوام متحدہ میں خدمات انجام دینے والے اس پکے مسلمان اور سچے پاکستانی نے اہل مغرب کے قول و فعل کے تضادات کو بہت قریب سے دیکھا اسلام اور عالم اسلام کے متعلق مغرب کا منافقانہ بلکہ معاندانہ طرز عمل اس کی اسلامیت اور پاکستانیت کو مزید پختہ کرنے کا باعث بنا۔
بھارت کے ایٹمی دھماکوں کے بعد نسیم انور بیگ کا موقف واضح تھا کہ پاکستان کو بھی بلاتاخیر دھماکہ کر دینا چاہئے۔14 مئی1998ءکو ایک بیان میں کہا:
”ایٹم بم یا ہائیڈروجن بم بنانا عوام کا حق ہے جس پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جا سکتا صبروتحمل کا مشورہ دینے والوں نے اپنی آزادی کے تحفظ کیلئے خود دو بڑی جنگیں لڑیں ہماری آزادی کا وقت آیا تو کہا جاتا ہے آزادی اور روٹی میں سے ایک کا انتخاب کر لو پہلے غلامی قبول کریں اور پھر آزادی کی جنگ لڑیں یہ دانائی نہیں، ہمیں آزادی برقرار رکھنا ہو گی۔ ہمارے فیصلوں میں پاکستان کی آزادی کے تحفظ کا عزم ہونا چاہئے۔ “
8جون1998ءکو نسیم انور بیگ صاحب نے ایوان وقت میں گفتگو کرتے ہوئے کہا۔ ”پاکستان ایٹمی دھماکے کر کے، اجتماعی سکیورٹی اور ایٹمی چھاتہ کے جال سے بچ گیا ہے ورنہ نیٹو وسط ایشیا سے ہوتا ہوا، چین کی سرحد تک پہنچ جاتا۔ چین کے متعلق مغرب اور بالخصوص امریکہ کے عزائم ڈھکے چھپے نہیں۔ بھارت، اسرائیل گٹھ جوڑ ایک کھلی حقیقت ہے۔ اسرائیل کے ایٹمی ہتھیاروں کو بھارت کا عقبی سٹور قرار دیا جا سکتا ہے۔ سی ٹی بی ٹی پر دستخطوں کو بھارت سے مشروط کرنے کی بجائے ہمیں اس بارے میں فیصلہ اپنے دفاعی تقاضوں کے مطابق کرنا چاہئے۔ پاکستان نے امریکہ سمیت عالمی طاقتوں کے دباﺅ کے باوجود ایٹمی ٹیسٹ کر کے اپنی حقیقی آزادی اور خود مختاری کا اعلان کیا ہے۔ خود مختاری کا ایک مفہوم اپنے فیصلے خود کرنے اور اپنی تقدیر خود لکھنے کی آزادی ہے۔ پاکستان نے اپنے ٹیسٹ پہاڑوں میں کئے جس میں انسانوں ( بلکہ حیوانوں کو بھی) تابکاری اثرات سے بچانے کیلئے تمام ممکنہ تدابیر اختیار کی گئیں جبکہ امریکہ نے اپنے بم، ہیروشیما اور ناگاساکی میں ٹیسٹ کئے جس میں لاکھوں انسان مارے گئے۔ 8 جون1998ءکو نسیم انور بیگ صاحب نے کہا کہ نوائے وقت اور اسکے مدیر نے ہر اہم قومی مرحلے کی طرح، ایٹمی دھماکوں کے مسئلہ پر بھی جرا¿ت مندانہ کردار ادا کیا۔ مجید نظامی بلاشبہ ہماری قومی آزادی، خود مختاری اور عزت و وقار کے تحفظ کی علامت ہیں۔ ایٹمی دھماکوں کے حوالے سے نوائے وقت کے اداریے صحافتی تاریخ کا ایک عظیم الشان باب ہیں۔
” کچھ عرصہ قبل شہاب نامہ پڑھنے کااتفاق ہوا۔اس میں دو قابلِ ذکر نام نظر سے گزرے۔ جن کی قدرت اللہ شہاب نے بڑی تعریف فرمائی ہے۔ ایک تو فلسطینی جوان مصطفی اور دوسری دورِ حاضر کی نامور شخصیت جناب نسیم انور بیگ ہیں۔ شہاب نامہ سے مجھے پتہ چلا کہ آپ کا تعلق یو این سے رہا ہے لیکن ایک رسالے میں آپ کے تعلیمی ریکارڈ کے بارے میں پڑھ کر بڑی حیرانی ہوئی۔ اس سے بھی زیادہ حیرانی آج بھی ہے کہ میں نے آپ سے کبھی ایسی بات نہیں سنی جسے خود ستائی کہا جا سکے۔ آپ کی اصل خوبصورتی تو انسانی ہمدردی، حب الوطنی، خوش اخلاقی، مہمان نوازی، احترامِ انسانیت اور ان سب خصوصیات سے بڑھ کر آپ میں عشقِ رسول کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے۔ آپ ہر بات کا آغاز اور اختتام رسول پاک کی ذات سے کرتے ہیں.... تیس سال پیرس میں رہنے کے باوجود آپ میں بلا کی سادگی ہے۔ میں اتنی جلدی مرعوب ہونیوالوں میں سے نہیں ہوں لیکن آپ کی شخصیت میں ایک مقناطیسی کشش ہے۔ اسی وجہ سے لوگ آپ سے بے حد مانوس ہیں۔ آپ سے ملنے کے بعد مجھے پتہ چلا کہ عاجزی صرف عادات سے ظاہر نہیں ہوتی بلکہ یہ آواز میں چال میں، گفتگو میں اور انسان کے رگ و پے میں بسی ہوئی بھی ہو سکتی ہے۔ حضرت خواجہ نظام الدین اولیا کا دستر خوان بہت وسیع ہوا کرتا تھا اسی طرح نسیم انور بیگ صاحب کا دستر خوان بھی بہت وسیع ہے۔ جس کی اپنی خصوصیت ہے کہ ہر روز نئے مہمان نئے تصورات اور فلسفے اور اپنی پریشانیاں لیکر آتے ہیں اور واپسی پُر سکون اور امید لیکرجاتے ہیں“
درج بالا آخری اقتباس نوشین اعجاز کے نوائے وقت میں 23 دسمبر 1999ءکو شائع ہونے والے کالم کا ہے۔ اس کالم کو نوشین اعجاز کے والد محترم سابق جج سپریم کورٹ چودھری اعجاز احمد صاحب نے باد نسیم کے نام سے مرتب کردہ کتاب کا حصہ بنایا ہے۔ جج صاحب نے باد نسیم جناب نسیم انور بیگ کی اجازت سے لکھی جو آپ کی زندگی میں ہی شائع ہوئی کالم کے شروع میں دئیے گئے اقتباسات بھی باد نسیم میں موجود کالموں سے لئے گئے ہیں۔ اس کتاب کی اشاعت کے ایک ہفتہ بعد نسیم انور بیگ صاحب خالقِ حقیقی سے جاملے۔
”باد نسیم میں نسیم انور مرزا کی شخصیت پر مختلف جرائد میں شائع ہونے والے 60 کے قریب کالم شامل کیے گئے ہیں۔ سب سے زیادہ اجمل نیازی کے 14 کالم ہیں۔ تنویر اعوان5‘ بیگ راج 4‘ پرویز حمید‘ اوریا مقبول جان اور پروفیسر نعیم قاسم کے تین تین‘ عائشہ مسعود کے دو اور باقی لکھنے والے رﺅف طاہر‘ عبدالقادر حسن ایس ایم ظفر‘ ہارون رشید‘ محمد زابر سعید‘ حجاب امتیاز علی، زارا جعفری‘ مظہر برلاس‘ طلعت عباس خان‘ ایم اے صوفی‘ جاوید چودھری‘ عاسل ڈوگر ابو اعزاز بخاری اور انصاری کا ایک ایک کالم موجود ہے۔ مرزا نسیم انور بیگ کے خطابات‘ انٹرویو‘ آپ کے حوالے سے خبریں‘ آپ سے ملاقاتوں کا احوال‘ آپ کے معروف شخصیات کو لکھے گئے خطوط بھی کتاب کا حصہ ہیں۔ آخر میں نادر تصاویر سے پہلے 19 صفحات آپ کے اقوالِ زریں کیلئے مختص ہیں پہلا سنہری قول جو دریا تنگ ہوتے ہیں وہ پھیلتے نہیں‘ سیراب نہیں کرتے۔ آخری قول‘ اصلی پانی کیا ہے؟ صاف‘ شفاف پاکیزہ پانی اصلی پانی ہے۔کتاب کے آخر میں نادر رنگین تصاویر دی گئی ہیں جن میں سے ایک آپ کی تحریک پاکستان کے دوران لاہور جیل میں قید کے دوران کی ہے جج صاحب کے بقول ان تصاویر کی خود نسیم انور بیگ صاحب نے اپروول دی تھی۔ اعجاز احمد چودھری صاحب سے فون پر بات ہوئی تو جج صاحب نے نسیم انور بیگ صاحب کے ساتھ اپنے تعلقات اور آپ کے والہانہ پن کے حوالے سے بڑی روح پرور معلومات سے بھی مستفید فرمایا۔ چودھری صاحب کے بقول ”میری لاہور میں 1986 میں بیدار ملک صاحب کے توسط سے مرزا نسیم انور بیگ صاحب سے قربت ہوئی۔ اس کے بعد آپ کی زندگی میں سوائے 23 جون 2012ءآپ کی رحلت سے ایک روز قبل کے سوا ہر روز آپ سے فون پر بات ہوتی رہی صرف اس دن فون پر بات نہیں ہوئی جب آپ کی خدمت میں اسلام آباد میں پیش ہوا ہوتا یا وہ لاہور تشریف لائے ہوتے۔ میں اور میری فیملی جب بھی پنڈی گئے ہمیں آپ کی طرف سے کہیں اور ٹھہرنے کی اجازت نہیں تھی آپ کی محبت اور شفقت ہماری زندگی کا سرمایہ ہے۔ میں نے کتاب آپ کو پیش کی اور اس کی رونمائی کے حوالے سے عرض کی تو فرمایا کہ اوریا مقبول جان صاحب اس حوالے سے مجید نظامی صاحب سے بات کر لیں گے۔
نسیم انور بیگ صاحب کی وفات ہم جیسے ان کے پروانوں کیلئے دل و جان اور روئیں روئیں میں اتر جانے والا صدمہ ہے۔ آپ نے 24 جون کو پردہ فرمایا یہ شدید گرمی کا موسم ہوا کرتا ہے لیکن اُس دن اسلام آباد اور پھر اجوالا فتح جنگ جہاں آپ کو سپرد خاک کیا گیا واقعی باد نسیم چل رہی تھی۔ قبر کھودنے والوں کا کہنا ہے کہ وہ عموماً8 سے دس گھنٹے میں قبر کھودتے ہیں۔ اس مردِ با صفا کی آخری آرامگاہ محض تین گھنٹے میں مکمل طورپر تیار ہو چکی تھی۔ ”باد نسیم“ کی تقریب رونمائی بھی خوب رہی۔ میں نے 500 کتابیں قل خوانی کے موقع پر شرکاءمیں تقسیم کیں۔ یہی کتاب کی تقریب رونمائی تھی۔کتاب کے شروع میں قول، ”مہرو و وفا نسیم وقت کیسے گزرا، کون پوچھے گا“ نسیم انور بیگ صاحب کا ہی ہے۔ چودھری اعجاز احمد بادِ نسیم کا انگلش ورژن شائع کر نے کا بھی ارادہ رکھتے ہیں۔ بادِ نسیم کیلئے جج صاحب کیلئے مشورہ ہے کہ نسیم انور بیگ کی وفات حسرت آیات کے بعد بھی بہت سے مضامین لکھے گئے بادِ نسیم کے دوسرے ایڈیشن میں ان کو بھی شامل کیا جا سکتا ہے۔ مزید برآں بعض مضامین کے آخر میں تاریخ اشاعت نہیں دی گئی اس کمی کو بھی دور کرنا چاہئے۔ 450 صفحات پر مشتمل باد نسیم کتاب ملٹی لائن بکس ریگل چوک مال روڈ لاہور 04237210089 سے 700 روپے میں دستیاب ہے۔