About Me

My photo
Fazal Hussain Awan colomnist Daily NAWAI WAQT awan368@yahoo.com 03334215368

Monday, October 31, 2011

( 1) قائد سیکولر یا راسخ العقیدہ مسلمان ....؟




 پیر ، 31 اکتوبر ، 2011






































 پیر ، 31 اکتوبر ، 2011

قائد ؒ سیکولر یا راسخ العقیدہ مسلمان ....؟
فضل حسین اعوان ـ
ایک خواب دنیا دار عالم دین مولانا حسین احمد مدنی کا بھی ملاحظہ فرمایئے جوان کی اپنی کتاب میں درج ہے۔ 1946ءجنرل الیکشن کی ہنگامہ خیزیوں کا زمانہ تھا۔ حضرت مدنیؒ مسلم پارلیمنٹری بورڈ کے امیدواروں کو کامیاب بنانے کیلئے پورے ہندوستان کا طوفانی دورہ کر رہے تھے۔ صوبہ بنگال میں تمام صوبوں کے بعد الیکشن ہوا تھا۔ اس لئے حضرت اواخر فروری میں نواکھالی تشریف لے گئے۔ قافلہ میں مولانا عبدالحلیم صدیقی‘ مولانا نافع گل اور دیگر چار پشاوری طالب علم تھے۔ 3 مارچ کو گوپال پور تھانہ بیگم گنج پہنچے‘ چودھری رازق الحیدر کے دولت کدے پر قیام ہوا۔ دوسرے دن ایک عظیم الشان انتخابی جلسہ میں تقریر کا پروگرام تھا۔ رات میں گیارہ بجے کھانا تناول فرما کر 12 بجے کے قریب آرام فرمانے کےلئے لیٹ گئے۔ میں پاﺅں دباتا رہا۔ کچھ دیر کے بعد نیند آگئی۔ ہم لوگ دوسرے کمرے میں جا کر کچھ ضروری کام کرنے لگے۔ تقریباً دو بجے رات میں مجھ کو اور چودھری محمد مصطفیٰ کو طلب فرمایا۔ ہم دونوں حاضر ہوئے تو ارشاد فرمایا کہ لو بھئی! اصحاب باطن نے ہندوستان کی تقسیم کا فیصلہ کردیا۔ میں نے عرض کیا کہ اب ہم لوگ جو تقسیم کے مخالف ہیں کیا کرینگے؟ آپ نے ارشاد فرمایا کہ ہم لوگ ظاہر کے پابند ہیں جس بات کو حق سمجھتے ہیں‘ اس کیلئے پوری قوت کے ساتھ جدوجہد جاری رکھیں گے۔ دوسرے دن گوپال پور کے عظیم الشان جلسہ میں تقسیم کی مضرتوں پر معرکة الآراءتقریر فرمائی۔ بالآخر 3 جون 1947ءلارڈ ماﺅنٹ بیٹن گورنر جنرل ہند کے غیرمتوقع اعلان سے اس واقعہ کی حرف بحرف تصدیق ہو گئی۔ 
(از مولانا رشید احمد صدیقی کلکتہ) 
(حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی‘ واقعات و کرامات از حضرت مولانا سید رشید الدین حمیدی‘ مکتبہ ندائے شاہی جامع قاسمیہ مراد آباد انڈیا۔)
قائداعظم کے معالج ٹی بی سپیشلسٹ ڈاکٹر ریاض علی شاہ لکھتے ہیں کہ ”ایک بار دوا کے اثرات دیکھنے کیلئے ہم انکے پاس بیٹھے تھے‘ میں نے دیکھا کہ وہ کچھ کہنا چاہتے ہیں‘ لیکن ہم نے ان کو بات چیت سے منع کر رکھا تھا۔ اس لئے الفاظ لبوں پر آکر رک جاتے تھے۔ اسی ذہنی کشمکش سے نجات دلانے کیلئے ہم نے خود انہیں بولنے کی دعوت دی تو وہ بولے۔ ”تم جانتے ہو جب مجھے یہ احساس ہوتا ہے کہ پاکستان بن چکا ہے تو میری روح کو کس قدر اطمینان ہوتا ہے‘ یہ مشکل کام تھا اور میں اکیلا اسے کبھی نہیں کر سکتا تھا‘ میرا ایمان ہے کہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا روحانی فیض ہے کہ پاکستان وجود میں آیا۔ اب یہ پاکستانیوں کا فرض ہے کہ وہ اسے خلافت راشدہ کا نمونہ بنائیں تاکہ خدا اپنا وعدہ پورا کرے اور مسلمانوں کو زمین کی بادشاہت دے۔ پاکستان میں سب کچھ ہے‘ اسکی پہاڑیوں‘ ریگستانوں اور میدانوں میں نباتات بھی ہیں اور معدنیات بھی۔ انہیں تسخیر کرنا پاکستانی قوم کا فرض ہے‘ قومیں نیک نیتی‘ دیانت داری‘ اچھے اعمال اور نظم و ضبط سے بنتی ہیں اور اخلاقی برائیوں‘ منافقت‘ زرپرستی اور خودپسندی سے تباہ ہو جاتی ہیں۔“ 
قائداعظم ایسی ہستی کو سیکولر قرار دینا بہتان‘ الزام اورقائد کے چاہنے والوں کیلئے بدبختوں کی طرف سے دشنام ہے۔ ہم دشنام کا جواب دشنام سے نہیں بلکہ دلیل سے دینے کے قائل ہیں۔ قائداعظم جیسے راسخ العقیدہ مسلمان نے مملکت خداداد کیا دہریت کے فروغ کیلئے حاصل کی تھی؟ قائد کو سیکولر قرار دینے والوں کی اپنی نسلیں مغربی تہذیب میں خلط ملط ہو کر گھر کی رہی ہیں نہ گھاٹ کی۔ خدارا! اپنے ملحدانہ خیالات سے معصوم بچوں کو گمراہ اور انکے ذہنوں کو پراگندہ کرنے کی کوشش تو نہ کریں جو مستقبل میں قائد کے خیالات و افکار کے علمبردار ہو سکتے ہیں۔ (ختم شد)






قا ئد سیکولر یا راسخ العقیدہ مسلمان ....؟

 اکتوبر30 ، 2011
فضل حسین اعوان ـ


بھارت سے محبت‘ اسکے ساتھ تجارت‘ تعلقات کے فروغ اور تقسیم کی لکیر مٹانے
 کے خبط میں مبتلا بزعم خویش دانشور قائداعظم کو سیکولر اور ارضِ پاک کی آزادی کے بعد بھی محب ہند ثابت کرنے پر تلے ہیں۔ کچھ ایسے بھی ہیں جو اپنی ضعف علمی کی بناءپر قائد کو دین سے واجبی سوجھ بوجھ کا حامل مسلمان قرار دیتے ہیں۔ یہی وہ لوگ ہیں جو نظریہ پاکستان کیخلاف اپنے اندر کے خبث کو پردہ اخفا میں رکھنے کے بھی قائل نہیں۔ آزادی اظہار کے نام پر یہ فرزاندانِ اغراض و مفادات تاریخ مسخ کرتے ہوئے نئی نسل کے ذہن میں انتشار، افتراق اور نفرت کے بیج بو رہے ہیں۔ انکے سامنے قائد محترم کی زندگی کا ایک ہی رخ ہے۔ دوسرا انہوں نے کبھی دیکھنے کی کوشش ہی نہیں کی۔ قائداعظم سیکولر تھے نہ دین سے معمولی دلچسپی رکھنے والے مسلمان وہ تو پکے اور راسخ العقیدہ مسلمان تھے تاہم افسوسناک امر ہے کہ آپ کی شخصیت کو اس مومنانہ صفات‘ مذہبی جذبات‘ دینی تاثرات اور اسلامی رجحانات کے آئینہ میں پیش نہیں کیا گیا جس طرح پیش کیا جانا چاہیے تھا۔ آپ کا ہر ارشاد‘ ہر بیان‘ ہر تقریر اسلام کے رنگ میں ڈوبی ہوئی تھی۔ اٹھتے بیٹھے اسلام ہی کو اپنے مخصوص رنگ اور عصری تقاضوں کے مطابق پیش کرتے تھے۔ اگر آپ کی ہر تقریر‘ ارشاد اور عمل کا دیانت دارانہ جائزہ لیا جائے تو وہ اسلام کی کسوٹی پر پورا اتریگا۔ خدا بھلا کرے جناب ڈاکٹر صفدر محمود کا جو تاریخ مسخ کرنے کی کوشش کرنے والوں کو دلیل سے جواب دیتے ہیں۔ آصف بھلی صاحب بھی جواب آں غزل کےلئے ہمہ وقت کمربستہ رہتے ہیں۔ 
پاکستان کے سابق سیکرٹری داخلہ فضل حق راوی ہیں کہ وہ حضرت قائداعظم کی رہائش گاہ پر گئے‘ وہاں مولانا شبیر احمد عثمانی پہلے سے موجود قائد سے ملاقات کے منتظر تھے۔ پتہ چلا کہ قائداعظم‘ وائسرائے سے ملنے جا رہے ہیں۔ تھوڑی دیر بعد دونوں نے ملازموں سے قائد کے کمرے سے باہر آنے میں تاخیر کی وجہ پوچھی تو انہوں نے کہا کہ ہم گھنٹی بجنے پر ہی صاحب کے کمرے میں جا سکتے ہیں۔ مولانا نے مزید تاخیر پر نوجوان فضل حق سے معمولی سے ایک طرف ہٹے پردے سے جھانکنے کو کہا‘ فضل حق نے دیکھا کہ قائداعظم سوٹ میں ملوث سجدہ ریز تھے۔ قائدا کا خدا‘ رسول اور اپنے دین و مذہب پر کتنا کامل یقین تھا۔ 
ایسا ہی ایک واقعہ مولانا حسرت موہانی بیان کرتے ہیں کہ ”ایک روز میں جناح صاحب کی کوٹھی پر صبح ہی صبح نہایت ضروری کام سے پہنچا اور ملازم کو اطلاع کرنے کو کہا‘ ملازم نے کہا‘ اس وقت ہم کو اندر جانے کی اجازت نہیں ہے۔ آپ تشریف رکھیں‘ تھوڑی دیر میں جناح صاحب خود تشریف لے آئیں گے‘ چونکہ مجھے ضروری کام تھا‘ اس لئے مجھے ملازم پر غصہ آیا اور میں خود کمرے میں چلا گیا۔ ایک کمرے سے دوسرے کمرے میں پھر تیسرے کمرے میں پہنچا تو برابر والے کمرے سے مجھے کسی کے بلک بلک کر رونے اور کچھ کہنے کی آواز آئی۔ یہ جناح صاحب کی آواز تھی‘ میں گھبرا گیا اور آہستہ سے پردہ اٹھایا تو کیا دیکھتا ہوں کہ قائداعظم سجدے میں پڑے ہیں اور بہت ہی بیقراری کے ساتھ دعا مانگ رہے ہیں۔ میں دبے پاﺅں وہیں سے واپس آگیا“
قائداعظم نے دین اسلام سے اپنی دلچسپی لگاﺅ اور اس پر عمل پیرا ہونے کا پہلو جان بوجھ کر مخفی رکھا۔ خدا اور اسکے رسول نے محمدعلی جناح کو برصغیر کے مسلمانوں کی رہنمائی کیلئے چنا۔ ہمارے نزدیک یہی قائد کی بزرگی و بزگزیدگی اور اللہ کے حضور بلندی درجات کا ثبوت ہے۔ بندگانِ خدا اپنے محبوب کے ارشادات اور اشاروں کو عقل کی کسوٹی پر نہیں پرکھتے۔ جن کی عقل پر پردہ پڑا ہو وہ واضح نشانیوں کو بھی اپنی ناقص عقل کے باعث مبہم قرار دے دیتے ہیں۔ 
مولف عبدالمجید ایڈووکیٹ کی کتاب ”زیارت نبوی بحالتِ بیداری“ میں ایک واقعہ درج ہے‘ بقول راوی قائداعظم کے ساتھی ملاقات کیلئے حاضر ہوئے تو قائداعظم گہری سوچ میں غرق تھے‘ مجھے دیکھ کر فرمایا: ”کچھ لوگ کہتے ہیں کہ مجھے اقبال نے لندن سے واپس بلایا‘ جبکہ کچھ کا خیال ہے کہ لیاقت علی خان لے کر آئے‘ بے شک ان دونوں حضرات کا بھی کچھ نہ کچھ حصہ ہے لیکن اصل بات جو مجھے یہاں لائی‘ کچھ اور ہے۔ ایک رات میں لندن میں سو رہا تھا کہ جھٹکے سے آنکھ کھل گئی لیکن میں پھر سو گیا۔ دوسرا جھٹکا ذرا تیز تھا۔ میں نے دروازہ کھول کر باہر کا جائزہ لیا اور اطمینان کرکے دوبارہ سو گیا۔ تیسرے جھٹکے نے مجھے جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ میں اٹھ بیٹھا۔ میرا کمرہ خوشبو سے مہک رہا تھا اور میں کسی کی موجودگی محسوس کر رہا تھا۔ آپ کون ہیں؟ میں تمہارا پیغمبر ہوں‘ ہندوستان جاﺅ اور مسلمانوں کی جدوجہد آزادی کی رہنمائی کرو۔ میں تمہارے ساتھ ہوں۔ تم کامیاب رہو گے‘ انشاءاللہ۔ اس کے بعد میں جتنی جلد ہو سکتا تھا‘ ممبئی آگیا۔ 
بیداری کی حالت میں زیارت کی بات چلی ہے تو عاشقانِ رسول اور ختم نبوت پر یقین اکمل و محکم رکھنے والے سن لیں ممتاز قادری بھی اسیری کے دوران اس سعادت بابرکت سے سرفراز ہو چکے ہیں۔ رسالت مآب سے ان کی محبت اور عشق کا اندازہ کیجئے کہ پہلی ملاقات کیلئے لواحقین کو ایک گھنٹے کی ملاقات کا وقت دیا گیا۔ ملاقاتیوں میں ان کا ننھا بیٹا بھی شامل تھا۔ یہ لوگ گئے تو ممتاز کو ہشاش بشاش پایا۔ دنیاوی باتوں کے بجائے ممتاز نے محفلِ ذکر و نعت سجالی‘ ملاقات ختم ہونے میں پندرہ منٹ بچے تو کہا‘ سات آٹھ منٹ مزید ذکر حبیب کرلیں۔ ایک اور ایمان افروز واقعہ ملاحظہ فرمائیے جو علامہ ملک خادم حسین رضوی صاحب نے ایک ریٹائرڈ جسٹس صاحب کے حوالے سے میلاد کی محفل میں سینکڑوں لوگوں کی موجودگی میں سنایا۔ ”خواب میں دیکھا کہ پاک سرزمین پر آسمان سے ایک روشنی اتر رہی ہے‘ منظر واضح ہوا تو ایک بزرگ کے کندھوں پر نوجوان سوار تھا‘ پتہ چلا کہ بزرگ پیرانِ پیر ہیں۔ کئی روز بعد اچانک میڈیا میں ایک واقعہ کا چرچا ہوا‘ میں یہ دیکھ کر دنگ رہ گیا جس نوجوان کو بار بار دکھایا جا رہا تھا‘ وہ وہی تھا جو حضور غوث اعظم کے کندھوں پر سوار تھا۔ غازی ممتاز قادری۔ (جاری ہے)

Thursday, October 27, 2011

عام انتخابات کون کرائے

 جمعرات ، 27 اکتوبر ، 2011

عام انتخابات کون کرائے

فضل حسین اعوان
ہماری سیاست کمالات و جمالات اور خطرات و خدشات سے بھر پور ہونے کے ساتھ ساتھ معجزات و کرامات سے بھی معمور ہے۔ سیاست کی لذت ایسی کہ چھٹتی نہیں ہے منہ کو یہ کافر لگی ہوئی۔ سیاست کے ناقدین اور نکتہ چیں موقع ملنے پر قلزم سیاست میں کودنے سے گریز نہیں کرتے۔ آپ نے سیاست میں آنے والے تو بے شمار دیکھے ہوں گے۔ سیاست کو خیر باد کہنے والا کوئی ایک بھی نہیں۔ ہر شعبہ میں ریٹائرمنٹ کی عمر ہوتی ہے۔ سیاست میں ایسی کوئی پابندی و قدغن نہیں۔ ہمارے ہاں موجودہ پارلیمنٹ دوسری اور آخری گریجوایٹ پارلیمنٹ ہے۔ گو اس میں جعلی ڈگری والوں کی بھی اچھی خاصی تعداد ہے تاہم جعلی ڈگری والوں نے کم از کم میٹرک اور ایف اے تو کیا ہی ہو گا۔ قبل ازیں انگوٹھا چھاپ بھی پارلیمنٹ کا حصہ رہے جن کو صدر پرویز مشرف نے گریجوایشن کی شرط رکھ کے دو انتخابات میں سیاسی اکھاڑے سے باہر بٹھا کر تماشائی بننے پر مجبور کر دیا۔ آئندہ الیکشن میں وہ پھر تعلیم اور تعلیم یافتگان کو ”دندیاں چڑا“ کر پارلیمنٹ میں دھمال اور بھنگڑا ڈالتے نظر آئیں گے۔ لیکن ان کے پارلیمنٹ میں آنے سے قبل بہت کچھ ہونا باقی ہے۔
اگلے سال مارچ میں سینٹ کے الیکشن ہونے ہیں، یہ ایک جمہوری عمل ہے جو جمہوری انداز میں مکمل ہونا چاہیے لیکن آج یہ بحث زوروں پر ہے کہ سینٹ کے الیکشن ہوئے تو اکثریت کس کو ملے گی؟ اسی ایک سوال پر سیاسی پارٹیاں اپنی اپنی حکمت عملی جنگی بنیادوں پر ترتیب دے رہی ہیں۔ حکمران پارٹی الیکشن لڑ کر اور دوسرا گروپ الیکشن سے قبل اسمبلیوں کا گھونٹ بھر کے یہ سنگ میل عبور کرنا چاہتا ہے۔ ایک ایم پی اے نے سینٹ الیکشن سے قبل پنجاب اسمبلی توڑنے کا مشورہ دیا جس کو بڑی اہمیت دی گئی حالانکہ اس ایم پی اے کے بیان اور خود اس کی اپنی حیثیت چھپکلی کے شہتیر کوجپھے سے زیادہ کچھ نہیں تھی۔ مارچ تک سیاستدانوں کی بازیاں اور قلابازیاں کیا رنگ لاتی ہیں۔ اس بارے میں کوئی بھی حتمی رائے قائم نہیں کی جا سکتی۔ البتہ سینٹ کے انتخابات کے بعد ایک نیا طوفان اٹھے گا۔ اپوزیشن یا حکومت سے باہر کی پارٹیاں شدت کے ساتھ نعرہ بلند کریں گی کہ صدر آصف زرداری کی صدارت میں عام انتخابات نامنظور۔ جس کی بازگشت آج بھی سنائی دے رہی ہے۔ آج جمہوریت کی خوفناک اور بھیانک شکل ہمارے سامنے ہے۔ اسی کو لولی لنگڑی جمہوریت کہا جاتا ہے۔ شاید ایسی بدترین جمہوریت کو بہترین آمریت سے بھی اچھا قرار دیا جاتا ہے۔ زرداری صاحب کی مدت صدارت ستمبر2013ءمیں پوری ہو گی۔ اس سے کم از کم چھ ماہ قبل عام انتخابات ہونا ہیں۔ آئین کے مطابق مرکز میں صدر اور صوبوں میں گورنر نگران حکومتیں تشکیل دیں گے۔ آج چونکہ چاروں گورنر صدر زرداری کے زیر اثر ہیں اس لئے تمام صوبوں میں نگران حکومتیں بھی ان کی مرضی کی ہوں گی۔ ہمارے ہاں تو غیر جانبدار مشینری بھی دھونس اور دھاندلی سے پاک الیکشن کرانے سے قاصر ہوتی ہے۔ پیپلز پارٹی کے چیئر مین کی بنائی گئی نگران حکومتیں کیسے شفاف الیکشن کرا دیں گی؟ یہی سوال اپوزیشن کے دل و دماغ میں سانپ بن کر لوٹ رہا ہے۔ ان کے خدشات و تحفظات درست بھی ہوں تو بھی آئینی تقاضوں سے صرف نظر نہیں کیا جا سکتا۔ بھگتیں اس قول زریں کو کہ لولی لنگڑی جمہوریت بھی بہترین آمریت سے اچھی ہوتی ہے لیکن اس حقیقت کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ نگران حکومتیں جتنی بھی جانبدار ہوں اکثریتی رائے کو اقلیت میں تبدیل نہیں کر سکتیں۔ ایسا ہوتا تو مشرف خود صدر اور تمام نگران حکومتیں ان کی کٹھ پتلی اور خوشامدی تھیں۔ ان کا ق لیگ کو فائدہ تو ضرور ہوا لیکن کلین سویپ ہو سکا نہ مرضی کے نتائج حاصل ہو سکے۔ مجموعی نتائج نے مشرف کی حسرتوں کا جنازہ نکال دیا۔ غیر جماعتی انتخابات میں جنرل ضیاءالحق کے پروردہ تقریباً تمام بڑے بڑے سیاست دان اوندھے بل گر گئے تھے۔ صدر آصف علی زرداری کے خسر محترم جناب ذوالفقار علی بھٹو کو گو ایک بدترین ڈکٹیٹر اور جمہوریت کے دشمن نے پھانسی دیدی تھی لیکن بھٹو صاحب کے اس دلدوز انجام کی ابتدا بھی 1977ءکے انتخابات میں مبینہ دھاندلی سے ہوئی تھی۔ اگر اپوزیشن جماعتیں انتخابات کی تاریخ اور صدر آصف زرداری 77ءکی تحریک کو پیش نظر رکھیں تو 2013ءکے متوقع عام انتخابات خوش اسلوبی سے منعقد ہو سکتے ہیں۔



Sunday, October 23, 2011

قذافی ........بر سر کفن


 اتوار ، 23 اکتوبر ، 2011

قذافی ........بر سر کفن
فضل حسین اعوان ـ
کرنل قذافی سر پھرے حکمران تھے۔ ایسے لوگوں کے بارے میں حتمی رائے قائم نہیں کی جا سکتی کہ وہ دل سے سوچتے ہیں، یا دماغ سے۔ بہرحال یہ ہمارے حکمرانوں سے کہیں بہتر ہیں جو سوچنے کے لئے قلب و ذہن کو زحمت نہیں دیتے۔ ان کے سوچنے کی مشینری معدوں میں فٹ ہے۔ جوا اربوں کھربوں روپے ہضم کر جاتے ہیں۔ قذافی نے اپنے ملک میں ستم ڈھائے ہوں گے لیکن جن مظالم کا تذکرہ امریکہ، ان کے اتحادی اور لیبیا میں قذافی کے مخالفین کرتے ہیں، ایسا ہوتا تو لیبیا کے لوگ 41 سال تک قذافی کو برداشت نہ کرتے۔ تیونس میں ابن علی اور مصر میں حسنی مبارک عوامی طوفان کے سامنے ماہ ڈیڑھ ماہ سے زیادہ نہ ٹھہر سکے۔ مٹھی بھر غدارانِ ملت کرنل قذافی کا دہائیوں تک بھی کچھ نہ بگاڑ سکتے تھے۔ ان سے نجات کے لئے صلیبیوں اور صہیونیوں نے جبریل مصطفی کی قیادت میں میر جعفر، میر صادق، مرزا الٰہی بخش اور کمانڈر قمر الدین جمع کرکے قذافی کے مقابل کھڑے کر دیئے پھر ان شکم پروروں کی ڈرامہ بازی پر نیٹو کے ذریعے لیبیا پر بمباری کا سلسلہ شروع کر دیا۔ تا آنکہ سر پر کفن باندھے کرنل قذافی لڑتے ہوئے شہید ہو گئے۔ انہوں نے ”مر جاﺅں گا وطن نہیں چھوڑوں گا“ قول نبھا کے دکھادیا۔ عالمی میڈیا پر شیطنت کی یکطرفہ گرفت ہے۔ کرنل قذافی کے قتل کی من چاہی سٹوری بیان کی جاتی رہے گی۔ ایک بدبخت سے بیان منسوب کیا گیا کہ کرنل قذافی التجا کرتے رہے کہ مجھے گولی مت مارو۔ سونے کے پستول کا ذکر بھی ہو رہا ہے۔ میڈیا پر مناپلی رکھنے والے کل سونے چاندی کے برتن، لعل و یاقوت سے مرصع فرنیچر، جادوئی شبستان،ہیرے جواہرات جڑے جوتے، شراب کے حوض، طلسماتی محلات اور نہ جانے مرحوم لیڈر کو بدنام کرنے کے لئے کیا کیا دکھا دیں گے۔
قذافی کی غلطیوں میں سب سے بڑی غلطی ملکی دفاع سے غفلت تھی۔ گو ہر شہری کے لئے فوجی تربیت لازم تھی لیکن انہوں نے افواج کو عصر نو کے تقاضوں کے مطابق مسلح نہیں کیا۔ قذافی ایٹم بم بنانا چاہتے تھے امریکہ کو خبر ہوئی تو اس کے سامنے سرنڈر کرتے ہوئے ایٹمی ٹیکنالوجی کی تیاری کے لئے جمع کیا ہوا مواد غیر مشروط طور پر امریکہ کے حوالے کرکے پاکستان کو بھی بدنام کیا۔ ان کے اس اقدام کو ملی بے حمیتی سے کم کا نام نہیں دیا جا سکتا۔ ان کے عرب ممالک کے ساتھ دوستانہ تعلقات ہوتے، کھلی منڈی سے جدید ترین اسلحہ خریدا ہوتا تو ہو سکتا ہے کہ نیٹو کو ہوائی حملوں کی جرا ¿ت نہ ہوتی۔
ہے جرمِ ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات
روسی مگ آخر کب تک اور کہاں تک نیٹو کے جدید طیاروں، راکٹوں اور میزائلوں کا مقابلہ کر سکتے تھے۔ 
قذافی جیسے بھی تھے ان کے دل میں عالم اسلام کے لئے ایک درد تھا۔ وہ عالم اسلام کے اتحادکے حامی تھے۔ بھٹو اور شاہ فیصل کی طرح۔ تاہم وہ خوش قسمت رہے کہ بھٹو اور شاہ فیصل جیسے انجام سے بہت بعد میں دو چار ہوئے۔ قذافی پاکستان کے لئے بھی نرم گوشہ رکھتے تھے۔ بھٹو کی رہائی کی کوشش کرتے رہے، کہا جاتا ہے کہ جنرل ضیاءالحق نے بھٹو کو لیبیا کے حوالے کرنے کا وعدہ کیا۔ قذافی کا وزیر اعظم جہاز لے کر پاکستان آیا، تیسرے روز ضیاءالحق نے وزیر اعظم کو خالی ہاتھ لوٹا دیا۔ جس پر قذافی نے شدید رد عمل کا اظہار کیا اور ضیاءالحق سے اربوں روپے کی واپسی کا مطالبہ کیا جو بقول قذافی انہوں نے پاکستان کو ایٹم بم کی تیاری کے لئے دیئے تھے۔ ق لیگ کی حکومت کے دوران چودھری شجاعت لیبیا گئے تو قذافی نے کہا کشمیر کی آزادی کے لئے جتنی رقم چاہیے میں دیتا ہوں، تو آپ کوشش کریں ۔
عمر مختار آزادی کی جنگ لڑتے ہوئے اطالوی فوج کے ہاتھوں گرفتار ہوئے۔ اٹلی کی فوج نے 70 سالہ عمر مختار کو پھانسی دے دی۔ کرنل قذافی نے عمر مختار کو ہیرو کا درجہ دیا۔ ان کی دس ریال کے نوٹ پر تصویر چھاپی اور ہالی وڈ سے صحرا کا شیر Lion of Desert فلم بنوا کر پوری دنیا میں ریلیز کرائی۔ آج کرنل قذافی کو قتل کرکے لاش کو گھسیٹا گیا۔ فی الوقت وہ لاوارث نظر آتے ہیں۔ تاریخ اپنے اوپر قرض نہیں رکھتی۔ نپولین بونا پارٹ کو سینٹ ہیلینا جزیرے میں قید رکھا گیا، وہاں سے فرار ہو کر اس نے دوبارہ فرانس کا تخت حاصل کیا۔ وہ دوبارہ گرفتار ہوا تو جزیرہ ایلبا میں قید کے دوران طبعی موت مرا۔ آج وہ فرانس اور فرانسیسوں کا بلا امتیاز ہیرو ہے۔ لیبیا کی کٹھ پتلی گماشتہ عبوری کونسل اپنے لوگوں کی نہیں سنے گی وہ استعماری طاقتوں کی مانے گی۔ لیبیئن ان سے جلد متنفر ہو کر عمر مختار کی طرح قذافی کو یاد کریں گے اور یقینا فرانسیسوں کے نپولین کی طرح قذافی لیبیائی شہریوں کے بلا امتیاز اور سب سے بڑے ہیرو ہوں گے۔ 
قذافی قفیے میں مسلم امہ کے لئے بھی کوئی سبق، درس اور سامان عبرت ہے کہ نہیں؟ یقینا ہے۔ مغرب عالمی امن اور جمہوریت کے قیام کے نام پر صلیبی جنگ جاری رکھے ہوئے ہے۔ افغانستان، عراق، لیبیا کو تا راج کر دیا، شام پر نظر ہے۔ ایران نشانے پر ہے۔ پاکستان جنگ کے شعلوں کی لپیٹ میں ہے۔ امریکہ کی قیادت میں صلیبیوں اور صہیونیوں کا نشانہ صرف مسلمان ممالک ہی ہیں۔ امہ اب بھی نہ جاگی تو بکھر کر رہ جائے گی۔ الگ الگ رہ کر سر اٹھا کر چلنے کی کوشش کرنے والوں کا انجام صدام اور قذافی سے مختلف نہیں ہو گا۔
چلی ہے رسم کہ کوئی نہ سر اٹھا کے چلے
اس رسم کو توڑنا ہو گا۔ مسلم امہ کو متحد ہونا ہو گا۔ عالمی اسلامی اتحاد کے لئے اسلامی ممالک کی پہلی ایٹمی قوت پاکستان کو اس حوالے سے پیشرفت کرنا ہو گی۔

بھاشا ڈیم۔ تیسرا سنگِ بنیاد


بھاشا ڈیم۔ تیسرا سنگِ بنیاد
فضل حسین اعوان ـ 20 اکتوبر ، 2011









بھاشا ڈیم۔ تیسرا سنگِ بنیاد
فضل حسین اعوان ـ 20 اکتوبر ، 2011

 کسی منصوبے کیلئے خشتِ اوّل ہی اس کی تکمیل کی بنیاد ہوتی ہے۔خشتِ اوّل یعنی سنگِ بنیاد کے بعد منصوبے کی تعمیر کی نیت بھی ہو تبھی منصوبہ تکمیل کے مراحل طے کرتا ہے۔دیا میر بھاشا ڈیم کا پہلی بار سنگِ بنیاد صدر جنرل پرویز مشرف نے اپریل 2006 میں رکھا۔ ان دنوں جنرل مشرف ڈیموں کی تعمیر کے حوالے سے بڑے سنجیدہ اور پرجوش تھے۔ انہوں نے بڑے جذباتی ہوکر کالا باغ ڈیم کی تعمیر کا عزم ظاہر کیا اور سرگرم بھی رہے۔ پھر ان چراغوں میں روشنی نہ رہی۔ پرویز مشرف کے اقتدار کی شمع گُل ہونے تک پرویز مشرف کے اندر کالا باغ ڈیم کی تعمیر کا جذبہ بھی نابود ولاموجود ہوگیاتھا۔ مشرف یک و تنہا اہم فیصلے کرکے ان پر عملدرآمد کرانے کا شہرہ رکھتے تھے۔کالا باغ ڈیم کی تعمیر کے حوالے سے ان کے جذبہ و جذبات میں سرد مہری کیسے آئی یہ ہنو ز سربستہ راز ہے۔
مشرف دعویٰ کرتے تھے کہ انہوں نے مایوس ہونا نہیں سیکھا لیکن کالا باغ ڈیم کی تعمیر کے حوالے سے وہ یقینا مایوس تھے۔اس کا اثر بھاشاڈیم کی قسمت پر بھی پڑا۔ وہ بھاشا ڈیم کی فوری تعمیر چاہتے تھے۔خشتِ اوّل کے بعد اس پر کام شروع ہوجاتا تو یقینا آج پانچ سال بعد ڈیم تکمیل کے آخری مراحل میں ہوتا۔ صدر پرویز مشرف نے کالا باغ ڈیم کی طرح بھاشا ڈیم کی تعمیر کو بھی یوں نظر انداز کیا جیسے یہ منصوبے کبھی ان کی ترجیح پر رہے ہی نہ ہوں۔ شاید وہ تمام معاملات اپنی پروردہ سیاسی حکومت کی صوابدید پر چھوڑ کر خود بے خود اور خوابیدہ ہوگئے ہوں۔ مشرف کی بیگانگی طبیعت اور خوابیدگی کا فائدہ ان کے وزیراعظم شوکت عزیز نے اگلے سال ایک بار پھر بھاشا ڈیم کا سنگِ بنیاد رکھ کر پوائنٹ سکورننگ کی صورت میں اٹھایا۔2007 انتخابات کا سال تھا ۔شوکت عزیز کی طرف سے بھاشا ڈیم کی تعمیر کا سنگ بنیاد سیاسی اور انتخابی شوشہ تھااس لئے خشتِ دوئم کی نوبت کہاں آنا تھی!
اب وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے پرویز مشرف کی طرح بھاشا ڈیم کی تعمیر کا سنگ بنیاد بھی بڑے جوش و خروش اور ولولے کے ساتھ رکھا۔ خدا کرے تیسری مرتبہ سنگِ بنیاد کے بعد اس کی تعمیر بھی شروع ہوجائے۔انتخابات سر پر ہیں بھاشا ڈیم کی تعمیر شروع ہوئی تو تکمیل6سات سال بعد ہوگی۔ہر معاملے میں سیاسی مفادات کے حوالے سے سوچنے والوں کو اس سے کیا فائدہ ہوگا؟ موجودہ حکمران طویل المدتی منصوبہ بندی کے بجائے ہتھیلی پر سرسوں حمانے کے قائل ہیں۔ اِدھر منصوبہ بنا اُدھر تعمیر شروع اور پائے تکمیل کو پہنچا۔ حصہ بقدر حبثہ تقسیم۔پیسہ ہضم بات ختم ۔ آج ملک و قوم شدید ترین بحرانوں سے دوچار ہے۔ بحران نمایاں اور برپا کرنیوالے عیاں ہیں۔ بدعنوانوں اور بے ایمانوں پر ہاتھ ڈالنے کا کوئی عزم و ارادہ کہیں دکھائی نہیں دیتا۔ریلوے،پی آئی اے،سٹیل مل اور پیپکو کی کو ڈبونے والے سب کے سامنے ہیں۔حکمرانوںکی طرف سے کوئی بد نظمی کی سی بد نظمی اور بدعملی کی سی کوئی بدعملی ہے؟۔ پرویز مشرف نے مسلم لیگ ن کی حکومت پر شب خون مارا۔ شریف فیملی کو بد ترین انتقام کا نشانہ بنایا۔پورے خاندان کو ملک بدر کیا۔ جنرل ضیاءالدین کہتے ہیں کہ مشرف نے نواز شریف کو اٹک قلعہ میں پھانسی دینے کی تیاری کی ہوئی تھی۔آج چودھری نثار موجودہ حکمرانوں کا مشرف دور سے موازنہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ صدر زرداری نے بد اعمالیوں میں مشرف کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ایسے حکمرانوں کی طرف سے ملکی مفاد کے منصوبے بھاشا ڈیم کا سنگِ بنیاد واقعی ایک معمہّ ہے۔ ان کا اس منصوبے سے کیا ذاتی مفاد ہوسکتا ہے؟ یہ ہر اس ذی شعور کیلئے سوالیہ نشان ہے جو مقتدر قوت کی سیاست کو تھوڑا بہت سمجھتا ہے۔ حکومت کی طرف سے ڈیم کی تعمیر کے حوالے سے جاری کردہ تفصیل کے ایک پوائنٹ نے اس سوال کا جواب دیدیا کہ حکومت اچانک بھاشا ڈیم کی تعمیر کیلئے کیوں سرگرم ہوگئی۔ وہ پوائنٹ یہ ہے ” انتہائی شفاف طریقے سے متاثرین کو 41ارب روپے کی ادائیگی کا آغاز“ اس میں سے حسبِ سابق و روایت کس کو کتنا کمشن ملے گا؟۔
حکومت اگر واقعی ملک کو اندھیروں سے نکالنے کا عزم رکھتی ہے اور عوام میں اپنی ساکھ بحال کراناچاہتی ہے تو فوری طورپر بھاشا ڈیم کی تعمیر شروع کرنے کے ساتھ ساتھ کالا باغ ڈیم کی تعمیر کا بھی عزم کرے۔ وزیراعظم گیلانی نے کہا ہے کہ بھاشا ڈیم کی تعمیرکا سنگ بنیاد رکھ کر تاریخ میں نام لکھوادیا۔ تاریخ میں نام تختیوں سے نہیں کارناموں سے رقم ہوتا ہے۔اسی مقام پر لگی مشرف اور شوکت عزیز کی تختیاں ٹھوکروںکی زد پر ہیں۔ پاکستانی ان کو جس نام سے یاد کرتے ہیں اور جو کچھ موجودہ حکومت کے بارے میں چودھری نثار نے کہا حکمرانوں کیلئے لمحہ فکریہ ہوناچاہئے۔



دل جلانے کی بات کرتے ہو




دل جلانے کی بات کرتے ہو
فضل حسین اعوان ـ 18 اکتوبر ، 2011









دل جلانے کی بات کرتے ہو
فضل حسین اعوان ـ 18 اکتوبر ، 2011

 آپ نے کوئی کمال کیا ہے تو کسی کو بتانے اور جتانے کیلئے چیخنے چلانے کی ضرورت نہیں۔ آپ کا کردار و عمل لوگوں پر اخلاص، نیک نیتی، دیانت و صداقت واضح کردیتا ہے۔ مسلسل پروپیگنڈے کے ذریعے وقتی طور پر جھوٹ کو سچ کا لبادہ اوڑھایا جاسکتا ہے لیکن اس سے حقیقت تبدیل ہوتی ہے نہ سچائی مفقود اور فتا و نابود۔وزیراعظم گیلانی نے کہا ہے کہ ”چیلنج کرتا ہوں کہ کسی حکومت نے اتنے ترقیاتی کام نہیں کئے جتنے موجودہ حکومت نے کئے“۔ عوام آج مہنگائی، بیروزگاری، بدامنی اور دہشت گردی کے عذاب میں مبتلا ہیں۔ بجلی اور گیس کی لوڈشیڈنگ نے عوام کو سڑکوں پر آکر پرتشدد مظاہروں پر مجبور کردیا۔ بینظیر انکم سپورٹ سکیم کے علاوہ حکومت نے جو ترقیاتی اور عوامی فلاح و بہبود کے کام کئے ہیں انکو دیکھنے کیلئے عوام کو خوردبینیں بھی فراہم کردے۔ ساتھ ہی وزیراعظم نے باور کرایا کہ ”جمہوری حکومت مسائل کے حل اور مشکلات پر قابو پانے کی بھرپور صلاحیت رکھتی ہے“۔ اگر صلاحیت رکھتی ہے تو اسکا ڈھنڈورا پیٹنے کے بجائے اسے بروئے کار لانا چاہئے۔ یہ صلاحیتیں کیا دس پندرہ سال بعد دوبارہ حکومت میں آنے پر استعمال کی جائیں گی؟ پونے چار سال میں اپنی بے پایاں صلاحیتوں کو بروئے کار لانے میں کیا امر مانع تھا؟ یہ فرمان بھی ملاحظہ فرمائیے ”مسئلہ کشمیر پر کوئی اور جماعت پیپلز پارٹی سے زیادہ ٹھوس موقف نہیں رکھتی، پاکستان کے تمام ائرپورٹس پر کشمیر ڈیسک قائم کئے جائینگے“۔ بھارت کو افغانستان تک راہداری دینے کے ساتھ ساتھ اسے پسندیدہ ترین ملک قرار دیا جا رہا ہے۔ سبحان اللہ! کیسا ٹھوس موقف ہے مسئلہ کشمیر پر اور کتنی محبت ہے کشمیر اور کشمیریوں سے! کشمیر ڈیسک ائرپورٹس اور ریلوے سٹیشنوں انہیں لاری اڈوں پر بنانے کی تیاری کریں، ریلوے تو ڈوب چکا، پی آئی اے کا بھی کوئی انگ اور کل سیدھی نہیں، اسکی ناﺅ بھی بھنور میں پھنسی ہے۔ گیلانی حکومت نے مدت پوری کرلی تو پی آئی اے کا بھی خدا حافظ!
حکومت نے اپنے پونے چار سالہ دور میں جو چاند چڑھایا اسکی ضوفشانی سے ملک روشن ہے۔ آئندہ سال سوا سال میں جو کارہائے نمایاں انجام دیگی وہ ہر ذی شعور پر عیاں ہے۔ وزیراعظم گیلانی نجانے کیوں اشتعال میں آئے اور پُرجلال لہجے میں کہہ گزرے کہ قوم بے صبری ہے، معجزے نہیں ہوسکتے.... !اپنے منشور اور پالیسیوں پر عمل کرنے کیلئے تین چار سال کم ہیں تو پھر مزید کتنا عرصہ چاہئے؟ 25، 30 یا 50 سال....؟ قوم ہر ستم سہہ کر بھی خاموش ہے۔ پھر بھی بے صبری کا طعنہ! ملک میں جس طرف نظر اٹھائیں کرپشن، بدنظمی اور بدعملی کے سوا کچھ نظر نہیں آتا۔ معجزے تو وہ ہوئے کہ الیکشن کے اخراجات کیلئے گھر کا آدھا حصہ بیچنے والے آج کئی شہروں میں محل نما کوٹھیوں کے مالک ہیں۔ رینٹل پاور پلانٹس کے 200 ارب روپے میں سے چند ارب کے سوا باقی کس کے پیٹ میں اتر گئے؟ 97 ارب ڈالر سوئس بینکوں میں جمع ہیں۔ پاکستانیوں کے بیرون ممالک اثاثوں کی مالیت 500 ارب ڈالر ہے۔ حکومت ایسا ہی معجزہ عوام کیلئے بھی کر دکھائے۔ عوام کمیشن سے حصہ نہیں مانگتے، وہ آپ سے محض اور محض ایمانداری اور خلوصِ نیت سے اپنے مسائل کے حل کے طلبگار ہیں لیکن وزیراعظم گیلانی ملکی و عوامی مسائل کا ذمہ دار کسی اور کو سمجھتے ہیں۔ لاہور میں ایک تقریب کے دوران فرمایا ”پاکستانی قوم کسی حقیقی زوال میں مبتلا نہیں ہے بلکہ چند افراد یا گروہوں کی بدنیتی، بددیانتی اور بدانتظامی کے نتائج بھگت رہی ہے۔ ہم طے کرلیں کہ اپنے قومی وقار پر آنچ نہیں آنے دیں گے تو غربت، جہالت، بیرونی دباﺅ اور سماجی ناہمواری سمیت تمام عارضی پریشانیاں ختم ہوسکتی ہیں“۔ گیلانی صاحب طے کرنے کی جو بات کی ہے وہ کس نے طے کرنا ہے جس سے قومی وقار پر بھی آنچ نہ آئے اور غربت، جہالت اور بیرونی دباﺅ کا بھی خاتمہ ہوسکے۔ یقیناً عام آدمی نے نہیں یہ حکومت کے کرنے کے کام ہیں، حکومت کیوں نہیں کرتی؟ قوم کو عارضی زوال میں کس نے مبتلا کیا؟ اسکا جواب قوم کے پاس ہے لیکن اگر حکمران ہی جواب دیدیں تو زیادہ مستند ہوتا ہے۔ ایسا جواب آیا بھی ہے۔
حکمران اتحاد میں شامل عوامی نیشنل پارٹی کے ترجمان سنیٹر زاہد خان نے اپنے ساتھی حکمرانوں کو آئینہ دکھایا ہے۔ وہ فرماتے ہیں ”پتہ نہیں قوم بے صبری ہے یا ہم نکمے ہیں، حکومتی پالیسیوں سے عوام کو کوئی فائدہ نہیں پہنچ رہا۔ قصور وار عوام نہیں بلکہ حکمران ہیں۔ یہ 21 ویں صدی کا المیہ ہے کہ ہم قوم کو قصور وار قرار دیتے ہیں۔ قوم کو سچ کا انتظار ہے مگر حکمرانوں نے ہمیشہ قوم سے جھوٹ بولا، جھوٹ کی کوئی بنیاد نہیں اس لئے یہ زیادہ عرصہ نہیں چل سکتا۔ قوم مایوسی کا شکار ہورہی ہے، عوام مشکل میں زندگی گزار رہے ہیں۔ افغان جنگ میں حکمرانوں نے جیبیں بھریں اور عوام کا نقصان ہوا۔ دہشت گردی کیخلاف جنگ میں بھی زیادہ نقصان عوام کا ہورہا ہے۔ سارا قصور حکمرانوں کا ہے جو جیبیں بھرنے میں مصروف ہیں۔ حکومت کی جانب سے بنائی جانیوالی پالیسیوں سے عوام کو فائدے کی بجائے نقصان پہنچ رہا ہے، ہم عوام کو سچ نہیں بتا رہے“
دل جلانے کی بات کرتے ہو آشیانے کی بات کرتے ہو
ساری دنیا کے رنج و غم دے کر مسکرانے کی بات کرتے ہو
٭٭٭










!عوام جاگ گئے

 13-10-  2011
!عوام جاگ گئے

فضل حسین اعوان ـ
 13 اکتوبر ، 2011
 یوں لگتا ہے‘ سیاسی قوتوں نے مارچ 2012ءکو سنگ میل قرار دیا ہوا ہے۔ ایک گروپ سینٹ میں اکثریت حاصل کرنے کے لئے یہ سنگ میل عبور کرنا چاہتا ہے اور دوسرا گروہ اسے ایوان بالا میں اکثریت سے محروم رکھنے کی پلاننگ کر رہا ہے۔ اگر پیپلز پارٹی کو ایوان بالا میں اکثریت حاصل ہو جاتی ہے تو اس سے کوئی قیامت ٹوٹے گی نہ کوئی سیاسی زلزلہ و طوفان آئے گا۔ میاں نواز شریف کو 97ءکے انتخابات میں ہیوی مینڈیٹ ملا۔ قومی اسمبلی میں دو تہائی سے زیادہ اکثریت تھی۔ سینٹ میں معاملہ اس کے برعکس تھا۔ اس کے باوجود ایوان بالا قانون سازی کے راستے میں رکاوٹ نہ بنا۔ جس ایوان میں برسراقتدار پیپلز پارٹی کی آج اکثریت نہیں ہے۔ اسی میں ڈیڑھ دو ماہ قبل حکومت نے جس کو چاہا اپوزیشن لیڈر منتخب کروا لیا۔ اصل اپوزیشن کے امیدوار اسحاق ڈار ہار گئے۔ پاکستان کی سیاست میں کئی پستیوں سے اٹھ کر اوج ثریا تک پہنچے اور بعض کو اوج ثریا سے پستیوں میں گرتے ہوئے بھی دیکھا گیا۔ ضیاءاور مشرف اپنی اپنی اسمبلیوں سے اگلی مدت کے لئے بھاری اکثریت سے صدر چنے گئے تھے۔ ایک کو خدا نے اپنے پاس بلا لیا دوسرے کو دربدر کر دیا۔ میاں محمد نواز شریف بھاری مینڈیٹ کے باوجود آئینی مدت پوری نہ کر سکے۔ مشرف دور میں زرداری صاحب قید میں تھے۔ پھر مشرف دور میں ہی ان کی پیپلز پارٹی اقتدار میں آئی اور مشرف کی کرسی پر زرداری صاحب نے دسترس حاصل کر لی۔ کل مشرف نواز اور شہباز شریف کو پاکستان واپس نہیں آنے دے رہے تھے آج وہ خود دل میں وطن واپسی کی جوت جلائے بے چارگی کی تصویر بنے بیٹھے ہیں۔
حکومت انجانے خوف کا شکار ہے کہ سینٹ الیکشن سے قبل حکومت کے خاتمے کی سازش ہو رہی ہے جسے اتحادیوں سے مل کر ناکام بنانے کا عزم ظاہر کیا جا رہا ہے۔ اسی حکومت کا دعویٰ ہے کہ اسے اسٹیبلشمنٹ کی حمایت حاصل ہے۔ میاں نواز شریف نے گذشتہ ماہ زرداری صاحب کو گلدستہ صحت بھجوایا تھا کل ہی انہوں ایک بار پھر کہا ہے کہ حکومت اپنی مدت پوری کرے۔ فوج کو سینٹ اور قومی اسمبلی میں کسی جماعت کی اقلیت اور اکثریت سے دلچسپی نہیں ہے۔ وہ اپنی آئی پر آجائے تو 111 بریگیڈ کی ایک جیپ اور دو تین ٹرکوں کے راستے میں بھاری اکثریت اور ہیوی مینڈیٹ سمیت کچھ بھی حائل نہیں ہوتا۔ پھر حکومت کے خلاف سازشیں کون کر رہا ہے؟ ویسے جو طرز اور انداز حکمرانی مرکز والوں نے اپنا رکھا ہے ان کے خلاف کسی کو سازش کرنے کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ وہ خود ہی اپنی منزل کھوٹی کر رہے ہیں۔ 
گذشتہ ساڑھے تین سال سے ملک میں ایک سے بڑھ کر ایک بحران مسلط ہے۔ بجلی گیس کی قلت‘ تیل کی قیمتوں میں اضافہ‘ روپے کی بے قدری‘ مہنگائی‘ بیروزگاری‘ بدامنی‘ رشوت ستانی‘ اقربا پروری‘ لاقانونیت عدلیہ کی بے توقیری‘ کراچی و بلوچستان میں ٹارگٹ کلنگ ڈرون حملوں کے خلاف بزدلانہ خاموشی‘ ایسے اقدامات کے خلاف عوام کے اندر نفرت کا الاو دہک رہا ہے۔ یہ کسی بھی وقت حکمرانوں کو اپنی لپیٹ میں لے سکتا ہے۔ جس کی ایک جھلک گذشتہ ہفتے بلاجواز اور طویل ترین لوڈشیڈنگ کے خلاف عوامی ردعمل کی صورت میں پوری دنیا نے دیکھ لی۔ جس کے بعد سے بجلی کی لوڈشیڈنگ نہیں ہوئی۔ یوں لگتا ہے کہ عوام کو اپنے حقوق کے حصول کا گُر آگیا ہے۔ اب شاید ہر مسئلہ کے حل کے لئے عوام کو سڑکوں پر آنا پڑا کرے گا۔ بجلی کی لوڈشیڈنگ کے خلاف عوامی سطح پر جو کچھ ہوا اسے انقلاب کی مہمیز قرار دیا جا سکتا ہے۔ آخر اب بھی بجلی پورے ملک کو بلاتعطل فراہم کی جا رہی ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ قبل ازیں نیتوں میں فتور تھا۔ باقی مسائل اور بحرانوں کے بارے میں بھی یہی کہا جا سکتا ہے۔ وطن عزیز میں حکمرانوں نے حالات اس نہج پر پہنچا دیئے ہیں جس پر فرانس میں پہنچے تو 1789ءمیں انقلاب برپا ہوا خدا نہ کرے کہ پاکستان میں ویسا انقلاب آئے۔ ایسے انقلاب کے راستے میں صرف حکمران ہی بند باندھ سکتے ہیں لیکن ان کو امڈتے ہوئے عوامی جذبات کا احساس نہیں ہے یا ان کے مسائل کا ادراک نہیں ہے۔ 
فرانسیسی بادشاہ لوئی سمیت انقلاب فرانس کے دوران ہزاروں درباریوں اور مصاحبوں کو پھانسی دی گئی اور گلوٹین میں رکھ کر سر قلم کئے گئے۔ ملکہ میری انٹونئے جس نے بھوکے فرانسیسوں کو کہا تھا کہ روٹی نہیں ملتی تو یہ کیک کھائیں۔ اس ملکہ کا سر قلم کرنے سے قبل اس کا سر مونڈ کے بازاروں میں گھمایا گیا تھا۔ ملکہ کے آخری الفاظ تھے ”مجھے معاف کر دو“ شاہ لوئی اور ملکہ میری کی اولاد کا انجام بھی ان جیسا ہی ہوا تھا۔ انقلاب فرانس کے پیچھے اپوزیشن کی سازش تھی اسٹیبلشمنٹ کا ہاتھ تھا اور نہ ہی فوج کا کردار.... یہ بھوکے ننگے اور حکمرانوں کے ستائے ہوئے مسائل اور بحرانوں کا شکار لوگوں کی بغاوت تھی۔ خدا نہ کرے یہاں ویسا خونیں انقلاب آئے۔

Monday, October 10, 2011

حامدکرزئی کے خوفناک عزائم

9 اکتوبر ، 2011


فضل حسین اعوان 
یوں تو ہمارے وزیر تجارت نے اپنے طویل دورہ بھارت کے دوران بھارت نوازی میں کوئی کسر نہیںچھوڑی تھی جبکہ افغان صدر حامد کرزئی اپنے دورے کے دوران قومی و ملی غیرت ہندو بنیئے کے قدموں میں نچھاور کرآئے۔ یوں لگتا ہے،اب ظاہر شاہ کا پاکستان کے بارے میں معاندانہ اور دشمنانہ رویوں پر مبنی دور لوٹ رہا ہے۔کرزئی نے بھارت میں کھڑے ہوکر یہ ضرور کہا کہ پاکستان ہمارا جڑواں بھائی ہے، ساتھ ہی بھارت کو عظیم ترین دوست بھی قرار دیدیا۔مسئلہ کشمیر کے حل تک پاکستان اور بھارت آگ اور پانی کی طرح ہیں۔ ان کا ملاپ ممکن نہیں۔ اس کا کرزئی کو بھی ادراک ہے۔پاکستان کو جڑواں بھائی قرار دینا کرزئی کی منافقت کا شاہکار ہے اصل میں دل بھارت کی محبت سے لبریز ہے۔ایٹمی پاکستان اللہ کے فضل و کرم سے افغانستان کی ہر شعبہ میں بھرپور معاونت کرسکتا ہے۔ اسی سال ہونیوالے عالمی مقابلے میں پاک فوج نے دنیا کی بہترین فوج کا ایوارڈ حاصل کیا۔ حامد کرزئی نے بھارت سے دیگر معاہدوں کے ساتھ افغان فوج کی تربیت کے معاہدے بھی کئے۔ تعلیم کسی بھی قوم کے مزاج اور رویے پر براہِ راست اثر انداز ہوتی ہے۔ بھارت نے افغان طلبا کو سکالر شپس دینے کی بھی پیشکش کی ہے۔ بھارت سے تعلیم حاصل کرنے والے افغان طلبا اپنے مزاج رویوں اور کردار و عمل میں پاکستان کیلئے مکتی باہنی سے کم تر کیوں کر ہونگے۔ اب تو یہ اطلاعات بھی گردش کر رہی ہیں کہ کرزئی نے بھارتی فوج کو افغانستان میں عسکری سرگرمیوں کی اجازت بھی دیدی ہے۔ پاکستان کے ازلی دشمن کی افغانستان میں عسکری سرگرمیاں کس کے خلاف ہوں گی؟
بھارت کے افغانستان میں موجود14 قونصل خانوں کی پاکستان میں شر انگیز سرگرمیوں کا جائزہ لیاجائے،بلوچستان میں را کے ایجنٹوں کا علیحدگی پسندوں کی اسلحہ اور مالی امداد کا تجزیہ کیاجائے فاٹا میں مجاہدین کے بھیس میں لڑتے ہوئے مرنے والے ہندوﺅں کی لاشوں کو دیکھاجائے تو یہ اندازہ کرنا مشکل نہیں کہ بھارتی فوج کی افغانستان میں کیا کیا شیطانی کاروائیاں ہوں گی اور کس کے خلاف ہوں گی۔ ہماری مغربی سرحد قبائلی سپوتوں کی وجہ سے محفوظ تھی۔ ہم نے امریکہ کی جنگ میں کود کر اسے غیر محفوظ بنایا اب کرزئی نے یہاں بھارت کا عمل دخل بڑھا کر اسے خطر ناک حد تک غیر محفوظ بنادیا ہے۔
جنرل کیانی کا کہنا ہے کہ پاکستان کی سرحدیں عبور کرکے حملہ کرنیوالے وہی لوگ ہیں جو باجوڑ اور وزیرستان میں پاک فوج سے لڑتے تھے۔ پاک افغان سرحدوں کے آرپار نظر رکھنے والوں کا کہنا ہے کہ افغان سرحد عبور کرکے پاکستان کی چیک پوسٹوں اور دیہات پر حملہ کرنیوالوں کو افغان انٹیلی جنس کی معاونت حاصل ہے۔ حامد کرزئی کی انٹیلی جنس پاک ایران دوستی میں دراڑیں ڈالنے کیلئے امریکہ کی انگیخت پرکوئٹہ میں ہزارہ قبیلے پر حملے بھی کرا رہی ہے۔پاک ایران گیس معاہدے پر عمل میں پیشرفت ہوتے ہی بلوچستان میں باالعموم اور کوئٹہ میں بالخصوص فرقہ واریت کا عفریت پھن پھیلا لیتا ہے۔
کرزئی ایک طرف تو پاکستان کے خلاف امریکہ کے ایما پر ابلیسی چالیں چلنے میں مصروف ہیں دوسری طرف منموہن کے اس خواب کو تعبیر بھی دیناچاہتے ہیں جو منموہن جاگتی آنکھوں سے امرتسر میں ناشتہ لاہور میں لنچ اور کابل میں ڈنر کی صورت میں دیکھ چکے ہیں۔ کرزئی نے دہلی میں کھلی آنکھوں سےBorder less United State of South Asia کا سپنادیکھا ہے۔وہ کہتے ہیں کہ خطے میں یورپی ممالک جیسے شدید اختلافات نہیں اگر وہ یونین کی لڑی میں پرو گئے ہیں تو ساﺅتھ ایشیا میں ایسا کیوں نہیں ہوسکتا۔ بہت جلد افغانستان کے انگور لاری کے ذریعے دہلی پہنچیں گے اور وہ ویسے ہی تروتازہ ہوں گے جیسے کابل اور قندھار میں دستیاب ہیں۔ کرزئی کا خیال اچھا ہے لیکن اپنے خوابوں کو شرمندہ تعبیر کرنے کیلئے وہ منموہن کو مسئلہ کشمیر کے حل کی راہ پر لائیں۔ مسئلہ کشمیر کے حل تک پاکستانیوں کیلئے یہ انگور کھٹے ہیں۔
آج کرزئی پاکستان کیخلاف امریکہ کے اکسانے پر ایک اور بھیانک، خوفناک، خطرناک اور سب سے بڑھ کر شرمناک چال چل رہے ہیں امریکہ آئی ایس آئی کی کارکردگی سے انتہائی خائف ہے۔ امریکی عسکری و سیاسی قیادت کے آئی ایس آئی کے خلاف بیانات اور حکومت پاکستان سے اس کے خلاف کارروائی کے مطالبات شدت سے سامنے آتے رہے ہیں۔ مولن جاتے جاتے حقانی نیٹ ورک کو آئی ایس آئی کا ونگ قرار دے گئے۔حامد کرزئی نے سابق افغان صدربرہان الدین ربانی کے قتل کا الزام پاکستان پرعائد کیا ہے۔ ساتھ ہی کہا کہ اگر پاکستان نے تحقیقات میں تعاون نہ کیا تو معاملہ اقوام متحدہ میں لے جایاجائیگا۔ افغانستان کی طرف سے تازہ ترین بیان میں یہ کہہ بھی دیا گیا ہے کہ پاکستان تحقیقات میں تعاون نہیں کر رہا۔ یہ سب آئی ایس آئی کے خلاف ایسی سازش ہے جیسی سابق لبنانی وزیراعظم رفیق الحریری کے قتل کی تحقیقات کے نام پرتیار کی گئی تھی۔ رفیق الحریری 14فروری2005کو بیروت میں 22ساتھیوں سمیت بم حملے میں ہلاک ہوئے۔ ان کے حامی امریکہ اور مغربی ممالک نے ان کے قتل کا شبہ شام کی حکومت پر ظاہر کرتے ہوئے اقوامِ متحدہ سے تحقیقات کا مطالبہ کیا۔مغرب کی باندی اقوام متحدہ کی رپورٹ میں حریری کے قتل کا ذمہ دار شام کی انٹیلی جنس کے سربراہ محمد زوہیر الصادق کو قرار دیا گیا۔ابھی اقوام متحدہ کی رپورٹ کو جواز بنا کر زوہیر الصادق کو گرفتار کرکے عالمی عدالت میں پیش کرنے کی تیاری ہورہی تھی کہ وہ اپنے دفتر میں مردہ پائے گئے جس پر کہا گیا کہ انہوں نے خودکشی کرلی ہے۔
اس سے پہلے کہ کرزئی بھی برہان الدین ربانی کے قتل کی اقوام متحدہ سے تحقیقات کی ڈرامہ بازی کریں ہماری سیاسی خصوصی طورپر عسکری قیادت کو پیش بندی کرلینی چاہئے۔



Friday, October 7, 2011

بجلی۔۔۔وافر اور فری

11-10-06


بجلی۔۔۔وافر اور فری
فضل حسین اعوان
چین کے صوبہ شنڈونگ میں ربر ڈیم سے 7 ہزار میگاواٹ بجلی پیدا کی جا رہی تھی۔ حکومت نے پیداوار کی استعداد بڑھانے کے لیے کمپنیوں سے رابطے کئے تو ایک نے پیداوار دس گنا بڑھانے کی پیشکش کی۔ حکومت نے اسے ٹھیکہ دے دیا۔ ربر ڈیم اس ڈیم کو کہتے ہیں جس کی اونچائی کم اور پانی کا پھیلاﺅ زیادہ ہو۔ اس کمپنی نے ڈیم پر وہی مشینری ایک کے بعد ایک دس مقامات پر نصب کر دی جو پہلے صرف ایک جگہ پر تھی۔ اس سے ہر پراجیکٹ سے سات ہزار میگاواٹ پاور پیدا ہونے لگی۔ آج اس ڈیم سے 70 ہزار میگاواٹ بجلی پیدا ہو رہی ہے۔
دو ماہ قبل پاکستانی صحافیوں کا وفد چین کے دورے پر گیا۔ دی نیشن کے ایڈیٹر سلیم بخاری صاحب بھی ساتھ تھے۔ ان کی ملاقات اس کمپنی کے ذمہ داروں سے ہوئی جنہوں نے شنڈونگ میں ڈیم کو اَپ گرڈ کیا تھا۔ ان لوگوں نے بتایا کہ تین سال قبل پاکستان نے بھی ان سے رابطہ کیا جس کے بعد کمپنی تین سال سے پاکستان میں بیس کیمپ بنائے ہوئے ہے۔ اس نے نئے ڈیم تعمیر نہیں کرنے صرف ڈیموں کی صلاحیت و استعداد کو ملٹی پلائی کرنا ہے۔ دس گنا نہ سہی پانچ چھ گنا بھی ہو جائے تو بجلی وافر مقدار میں پیدا ہو سکتی ہے۔ المیہ یہ ہے کہ چین کی مذکورہ کمپنی کو ان پراجیکٹس پر کام کرنے کی اجازت نہیں دی جا رہی جس کے لئے اسے پاکستان بلایا اور لایا گیا تھا۔ وجہ؟ امریکہ سرکار کی اجزت نہیں ہے۔ ایک تو امریکہ نہیں چاہتا کہ پاکستان کسی بھی حوالے سے چین پر مکمل انحصار کرے دوسرے پاکستان میں تیل کی سب سے زیادہ کھپت پاور پراجیکٹس میں ہوئی ہے۔ پاکستان میں تیل کی ترسیل بھی مغربی کمپنیوں کے ذریعے ہوتی ہے۔ سعودی عرب سے تیل بھی امریکی آرامکو کے ذریعے درآمد ہوتا ہے۔ پاکستان جتنے بھی خسارے میں رہے، امریکیوں کو اس سے غرض نہیں۔ وہ محض اپنا مفاد دیکھتے اور اس کا حصول یقینی بناتے ہیں۔ جب تک ہمارے حکمران اپنے قومی مفادات کے بجائے بوجوہ غیروں کے مفادات کی نگرانی و نگہبانی کرتے رہیں گے عوام کا پسماندگی و درماندگی کی حالت سے نکلنا ناممکن ہے۔
آج پاکستان انرجی کے خوفناک بحران میں مبتلا ہے۔ گو اس کی بنیادی وجہ حکومت کی کرپشن نااہلی اور بدانتظامی ہی ہے لیکن اس کے ساتھ امریکی خوف کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا جو حکمرانوں کے کندھوں پر ہمہ وقت سوار رہتا ہے۔ ایران پاکستان کو سستے تیل اور برائے نام قیمت پر ڈیڑھ ہزار میگاواٹ بجلی کی فراہمی کی پیشکش کر چکا ہے۔ گیس فراہم کرنے پر نہ صرف تیار بلکہ اپنی سائیڈ پر اس نے تمام تر انتظامات بھی مکمل کر لئے ہیں۔ ہمارے خوف کے مارے سابق اور موجودہ حکمران پیشرفت میں ہچکچا رہے ہیں۔
پاکستان میں بجلی گو مہنگی پیدا ہو رہی ہے، ضرورت کے عین مطابق ہے لیکن حکومت کی طرف سے بروقت ادائیگیوں میں مجرمانہ غفلت کے باعث پرائیویٹ کمپنیاں پیداوار بند کر دیتی ہیں جس کے باعث عوام کو 16 سے 20 گھنٹے کی ظالمانہ لوڈ شیڈنگ کا شکار ہونا پڑتا ہے۔ کالا باغ ڈیم بن جائے تو کیا کہنے۔ تاہم سستی بجلی کا فوری حل چین کی کمپنی کی خدمات سے استفادہ کرنا ہے جو آپ کے آبی ذخائر کی بجلی کو دس گنا نہیں تو کم از کم 5گنا تو کر سکتی ہے جس کے بعد ایک بھی تیل اور گیس سے چلنے والے ایک بھی پاور پلانٹ کی ضرورت نہیں رہے گا۔ اس کے ساتھ ہی مستقبل کی ضروریات کو مد نظر رکھتے ہوئے کالا باغ اور دیگر ڈیموں کی تعمیر بھی شروع کر دی جائے۔ صرف ایک کالا باغ ڈیم سے بنیادی طور پر چار ہزار میگاواٹ بجلی حاصل کی جا سکتی ہے۔ چینی کمپنی اسے اَپ گریڈ کرکے استعداد میں 5 گنا بھی اضافہ کر دے تو ہمیں نہ صرف بجلی ڈیڑھ دو روپے یونٹ پڑے گی بلکہ ہم بجلی برآمد کرنے کے قابل بھی ہو سکتے ہیں۔ برآمد کی گئی بجلی کا ریلیف عوام کو دیا جائے تو شاید صارفین کو برائے نام 20,25 پیسے فی یونٹ ادائیگی کرنا پڑے جو آج 12 روپے یونٹ ہو چکی ہے لیکن اس کے لئے ہمارے حکمرانوں کو امریکہ سے خلاصی پانا ہو گی۔ اگر وہ اب نہیں کرتے تو پھر عوام کو امریکہ کے غلام ڈرپوک حکمرانوں سے جان چھڑانا ہو گی۔

Sunday, October 2, 2011

امریکہ اور اس کے غلاموں سے وقتِ نجات

یکم اکتوبر 2011


امریکہ اور اس کے غلاموں سے وقتِ نجات
 فضل حسین اعوان

 ہم پاکستانی عذاب میں مبتلا،مصائب کا شکار اور کرب و الم کی سولی پر چڑھے ہیں تو اس کا سبب پاکستان میں امریکہ کی جارحانہ پالیسیاں اور اس کے غلاموں کی حکمرانی ہے۔ پاکستان کی ترقی و خوشحالی کیلئے امریکی پالیسیوں اور اس کے غلام حکمرانوں سے نجات ضروری ہی نہیں،ناگزیر بھی ہے۔دونوں سے نجات جس قدر جلد ممکن ہو، ہوجانی چاہئے ورنہ قوم کے مقدر میں پچھتاوے کے سوا کچھ نہیں آئیگا۔
 حکومت نے ساڑھے تین سال مکمل کرلیے۔ اس کے اعمال کے لمحے لمحے کا حساب موجود ہے۔ اس میں سے محض دس منٹ نکال کر دکھا دیجئے کہ اس حکومت نے انسانیت کی خدمت کی ہو۔انسانوں کی خدمت کی ہو۔ پاکستان کی خدمت کی ہو۔ پاکستانیوں کی خدمت کی ہو۔ان کے ایجنڈے میں قومی و عوامی خدمت شامل ہی نہیں۔ ان کا ایجنڈہ ہی کچھ اور ہے۔ انگریز کے بارے میں مشہور تھا ڈیوائڈ اینڈ رول، ہمارے جمہوری حکمرانوں نے مقولہ اپنا لیا یونائٹ اینڈ لوٹ۔ان کی کہانی لوٹ مار سے شروع ہوکر لوٹ مار پہ ختم ہوتی ہے۔وطنِ عزیز میں گورننس کہاں نظر آتی ہے؟۔ حکومت کی کہیں پریزنٹیشن ہے نہ ری پریزنٹیشن! قرضوں میں اضافہ ہورہا ہے۔ خزانہ خالی، ٹیکسوں کی بھر مار، مہنگائی کا طوفان، بجلی موجود نہ گیس، ذاتی اکاﺅنٹس بھرے جارہے ہیں۔سات نسلیں سونے کے لقمے بھی کھاتی رہیں تو دولت ختم ہونے میں نہ آئے۔ پھر بھی بس نہیں۔ مزید حرص اور طمع، عوام کے منہ سے روکھا سوکھا نوالہ بھی اچکنے کی پھرتیاں۔ لوٹ مار پہ ہی اکتفا کیا ہوتا تو قوم کو کسی قدر قرار آجاتا جہاںتو قومی خود مختاری کو بھی تیاگ دیا گیا۔ امریکی پالیسیوں کے نفاذ کی راہ ہموار کی جاتی ہے۔ایسی لیڈر شپ کبھی دیکھی نہ سنی۔ قیادتیں قوموں کو لیڈ کرتی ہیں۔ ہماری قیادت فوج کی طرف دیکھتی ہے، امریکہ کے خلاف جنرل کیانی گرجتے ہیں تو وزیراعظم گیلانی ان کی تان پر برستے ہیں۔ کیانی نرم لہجے میں بات کرتے ہیں وزیراعظم امریکہ کے آگے بچھے بچھے جاتے ہیں۔ حقانی نیٹ ورک کے حوالے سے امریکیوں نے الزامات اور دھمکیوں کی یلغار کی تو فوجی قیادت نے سخت لب و لہجہ اختیار کیا، وزیراعظم گیلانی نے دہلی پر جھنڈا لہرانے اور لنکا ڈھانے کے انداز میں تمام سیاستدانوں کو فون کیا۔ وزیر خارجہ حنا ربانی کھر کو امریکہ سے فوری وطن واپسی کی کال دی لیکن اگلے ہی لمحے پیں اور چیں بول گئی۔ کیا ان میں وہ قائدانہ خوبیوں کی پرچھائیں بھی نظر آتی ہے جن کا تذکرہ اقبال نے لیڈر شپ کیلئے کیا ہے ۔
نگہ بلند، سخن دلنواز،جاں پرسوز
یہی ہے رختِ سفر میر کارواں کے لئے
 امریکہ کی جنگ لڑتے لڑتے پاکستان تباہی کے دہانے پر پہنچ گیا۔ قوم و ملک ہر قسم کے بحران مسلط ہیں۔ اس پر ہمارے حکمرانوں کا ماتھا کبھی شکن آلود ہوا نہ اس پر عرقِ ندامت کی لکیر نمودار ہوئی۔ان کے سات آٹھ لاکھ کے سوٹ پر سلوٹ پڑی نہ ٹائی ڈھیلی ہوئی۔ اگر کسی میدان میں آگے ہیں تو بیان بازی، اچھل کود اور ایک ٹہنی سے دوسری ٹہنی پر چھلانگیں لگانے میں۔کوئی ٹھوس پالیسی نہ حکمتِ عملی۔ چین اور ایران مخلص دوست بن کر شانے سے شانہ ملا رہے ہیں۔ ان کی طرف سے حوصلہ بڑھانے پر تھوڑی ہمت پکڑتے ہیں لیکن ساتھ ہی حوصلہ چھوڑ دیتے ہیں۔ یہ امریکہ کا خوف ہے یا ڈالروں کا خمار، یا دونوںکا اثر، زباں پر جعلی جرا ¿ت اظہار اور سرتسلیم خم۔ایسے حکمرانوں سے بعید نہیں ایران اور چین پر بھی ڈرون برسوا دیں۔ معرکہ حق و باطل کی بات کی جاتی ہے۔ خدا نہ کرے موجودہ حکمرانوں کے دور میں ایسا ہو۔یہ تو دشمن کے ہاتھ اپنا اسلحہ بھی فروخت کرنے سے گریز نہیں کریں گے۔ان کا تو ایجنڈا ہی مال بنانا ہے۔ جیسے بھی ہو۔ ان کا ضمیر زندہ ہوتا غیر ت کی کوئی رمق ہوتی تو بے گناہ عافیہ صدیقی یونہی امریکہ کی جیل میں نہ پڑی رہتی۔
 ساڑھے تین سال میں آخر اس حکومت نے کونسا کام کیا جس کی تحسین کی جائے۔ گیس کی لوڈشیڈنگ اس حکومت کا دیا ہوا نیا تحفہ ہے۔2کھرب روپے کے رینٹل پاور پلانٹ کس کس کے پیٹ میں اتر گئے؟۔ کوئی حساب کتاب نہیں۔ وزیراعظم صاحب نے نیا فلسفہ بگھارا پرویز اشرف کو کہا سیاست میں ڈیڈ لائن نہیں دیتے ۔خود اپنی حکومت کی پانچ سالہ ڈیڈ لائن پر جمے ہوئے ہیں۔ نیت میں فتور نہ ہو، نیت نیک ہوتو ہر مشکل اور بحران گردِ راہ ثابت ہوسکتا ہے لیکن ان کا تو ایجنڈا ہی کچھ اور ہے جس کی کامیابی سے تکمیل جاری ہے۔آخر کب تک؟
 کسی کو تو قدم بڑھانا ہوگا۔جمہوریت بڑی اہم ہے لیکن جمہوریت کو ناسور بنانے والے قابل معافی ہیں؟۔پارلیمنٹ کی بالادستی کے زمزمے الاپنے والوں کو کیا پارلیمنٹ کی ڈرون حملوں کے خلاف قراردادیں بھول گئی ہیں۔ ان قرار دادوں کی موجودگی کے باوجود ڈرون حملے جاری ہیں۔ ایسی بے توقیری پر پارلیمنٹرین خاموش ہیں۔ جرنیل کئی بار کہہ چکے کہ اب ایسی کارروائی ہوئی تو جواب دیں گے۔کب؟۔ اے پی سی مزید ایک سو بلا لیں ان کا کوئی فائدہ نہیں۔ ٹھوس فارن پالیسی بنائیں ۔ امریکی الزامات اور دھمکیوں پر باسی کڑی میں اُبال اور چائے کی پیالی میں طوفان جیسے بیانات پالیسی نہیں۔ اب اس روش کو چھوڑنا ہوگا۔ سیاسی قیادت تو امریکہ کے سامنے ہتھیار پھینک چکی۔ فوج سے امید ہے سرنڈر نہیں کرے گی۔ قوم ساتھ ہے فوج عوامی امنگوں کے مطابق پالیسی ترتیب دے۔اس کا تو ماٹو ہی جہاد فی سبیل اللہ ہے۔دشمن کے خلاف جہاد۔اب جہاد کا وقت آنہیں گیا؟۔ امریکہ کھلا اعلان جنگ کر رہا ہے۔اگر وہ اپنے قدم آگے بڑھاتا ہے تو پاک فوج بھی پیش قدمی کرے....
 قدوگیسو میں قیس و کوہکن کی آزمائش ہے
جہاں ہم ہیں ،وہاں دارورسن کی آزمائش ہے
نسیمِ مصر کو کیا پیرِ کنعان کی ہوا خواہی
اسکے یوسف کی بوئے پیرہن کی آزمائش ہے