29-11-12
ووٹ کے مستحق
کالم نگار | فضل حسین اعوان
الیکشن کا سیزن سر پر ہے موسم کی مناسبت سے موسمی پرندے ٹھکانے بدلنے کیلئے پھڑپھڑا رہے ہیں۔ انتخابات کی تاریخ کا اعلان ہوتے ہی اُڑان میں تیزی، سرعت، چُستی قابلِ دید ہو گی۔ بڑی پارٹیوں کی قیادتیں دعوے بھی بڑے بڑے کرتی ہیں لیکن اندر سے سہمی، دبکی اور خوفزدہ سی ہیں, جیتنے کا یقین نہیں۔ اوباما کے انتخابی مہم کے ایڈوازئر ڈیوڈ ایکسل راڈ جیسا انتخابات میں کامیابی کا اعتماد کسی پارٹی کے کسی رہنما کے اندر نہیں ہے اگر ہے تو اس کا اظہار نہیں کیا جا رہا۔ ایکسل راڈ نے انتخابی نتائج سے قبل کہا تھا کہ مٹ رومنی جیتے تو وہ اپنی 40 سال سے پالی ہوئی مونچھیں منڈوا دوں گا۔ ہمارے سیاستدان بھی ایکسل راڈ کی طرح اپنی مونچھیں صاف کرانے کی بات کر سکتے ہیں، ان میں چودھری نثار ہیں، لطیف کھوسہ ہیں بلکہ یہ دونوں تو اپنے اپنے لیڈر کی جیت پر ٹنڈ کرانے کی بھی شرط رکھ سکتے ہیں۔ مونچھ کی شرط تو بلا کسی تردد و تردید کے ہر پارٹی کی مقدسات بھی رکھ دیں تو ان کی مونچھ نیچی نہیں ہو گی۔
اب تو ویسے بھی ماضی کی طرح ہر پارٹی جیتے گی۔ زرداری کی مفاہمتی روح میاں نواز شریف کے جسم میں بھی حلول کرتی نظر آ رہی ہے۔ ان کو اچانک زرداری صاحب پر پیار آیا یا 4 سال قبل کے مفاہمتی شرارے نے محبت و الفت کی شمع روشن کر دی یا زرداری کو وہ قول یاد کرا دیا” اب آپ کی باری پھر ہماری“۔ یہ بات میاں صاحب نے زرداری سے اپنی یاری کے دوران کہی تھی پھر جب مفاہمت کے چراغوں میں روشنی نہ رہی تو میاں شہباز شریف زرداری کو مداری اور نہ جانے کیا کیا خطاب دینے لگے، البتہ اب نواز شریف نے کہا ہے کہ شہباز شریف کو زرداری صاحب کے بارے میں سخت بیان نہیں دینے چاہئیں۔ میاں نواز شریف کہتے ہیں زرداری سے وزیراعظم کا حلف لینے پر اعتراض نہیں ہو گا۔ وہ ان کا بطور منتخب صدر احترام کرتے دکھائی دیتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ حکومت اپنی مدت پوری کرے۔ میاں نواز شریف کے محبت پر مبنی جذبات سے جمہوریت کے پودے کی یقیناً آبیاری ہو گی اور پیپلز پارٹی کے ساتھ مفاہمت کے بند راستے بھی کھلیں گے۔ میاں صاحب کے اس بیان سے ن لیگ اور پی پی کے مابین پائی جانے والی ناگواری اب خوشگواری میں ڈھلتی نظر آ رہی ہے۔ کائر ہ لاہور میںگویا ہوئے کہ نواز شریف کو الیکشن سے آ¶ٹ کرنے کی سوچ احمقانہ ہے۔ یہ بات کائرہ صاحب نے اس لئے کی کہ ان کے لیڈر زرداری کی اہمیت، حیثیت اور اہلیت کوکو ان کے حریفِ شریف
نے تسلیم کر لیا ہے۔ آجکل عمران خان کو ن لیگ اپنے لئے بڑا سیاسی خطرہ سمجھ رہی ہے۔ پیپلز پارٹی کی صفوں میں بھی ہلچل ہے، ہو سکتا ہے ن لیگ اور پی پی آئندہ الیکشن میں سیٹ ایڈجسٹمنٹ بھی کر لیں۔ ویسے بھی ہماری سیاست میں کچھ بھی حرفِ آخر نہیں ہوتا اور ہمیں قدرت نے ایسے سیاستدانوں کی نعمت غیر مترقبہ سے سرفراز فرمایا ہے جو محبت اور جنگ کی طرح سیاست میں بھی ”سب کچھ جائز“ کے قائل ہیں۔
پیپلز پارٹی کی حکومت کے پاس الیکشن میں جانے اور عوام کو اپنی حمایت میں پولنگ سٹیشن پر لانے کا اثاثہ کیا ہے؟ آج لوگ حکمرانوں سے ناراض ہی نہیں بلکہ ان کے خلاف غصے سے بھی بھرے بیٹھے ہیں شاید سارا غصہ پولنگ والے دن جا کر نکالیں۔ جہاں مرکز کی طرف سے عوام کیلئے مسائل سے زیادہ مصائب پیدا کئے گئے وہیں کسی صوبائی حکومت نے بھی دودھ اور شہید کی ندی نالے نہیں بہائے۔ لوگ کبھی مسائل سے تنگ آ کر فوج کی طرف دیکھا کرتے تھے تو آج وہ عدلیہ کو امید کی کرن قرار دے رہے ہیں۔شائد اسی بنا پر حکومت عدالتوں کو ٹیڑھی نظر سے دیکھتی ہے --- عوام کے حافظے سے سپریم کورٹ کی طرف سے چینی کی قیمتوں کے تعین کا فیصلہ احترام سے دیکھا جاتا ہے جس کو چینی مافیا نے سبوتاژ کر کے رکھ دیا۔اس ما میں ہر پارٹی کے اکابرین معظم ومحترم شامل ہیں۔ تین ساڑھے تین سال قبل 100 روپے کلو ملنے والی چینی اب 55 روپے میں مل رہی ہے۔ نیٹو ٹرانسپورٹ کیلئے پٹرول 42 روپے، پاکستانیوں کے لئے 102 روپے لیٹر ہے، منافع کی کوئی حد و حساب نہیں۔ سی این جی 92 روپے کلو تھی سپریم کورٹ نے کہا اس کی قیمت 25 جولائی 2012ءکی سطح پر لے آ¶ تو سی این جی مالکان تلملا اُٹھے، اس کے بعد کبھی ہڑتال اور کبھی صارفین کو خوار کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔ سی این جی والوں نے صارفین کو تماشہ بنا دیا۔ اوگرا، وزارتِ پٹرولیم اور ڈاکٹر عاصم تماشائی بنے ہوئے ہیں۔ کہا جا رہا ہے 4 سو سی این جی سٹیشن سیل کریں گے ۔حکومت ان سٹیشنوں کو سیل کر رہی ہے جو منظوری سے زیادہ گیس فروخت کرتے ہیں جو ہڑتال پر ہیں ان کو آشیرباد حاصل ہے۔ نقصان اور خواری کسی کی؟ صارفین کی۔ جن کی تعداد بقول مشیر پٹرولیم ڈاکٹر عاصم حسین 35 لاکھ ہے۔ ان میں بڑی چھوٹی گاڑیوں، ویگنوں، بسوں اور دیہاڑی دار رکشے والے بھی شامل ہیں۔ مہنگائی، بے روزگاری، لاقانونیت، اقربا پروری، کرپشن اور دہشت گردی کے تحفے بھی اس حکومت کے دئیے ہوئے ہیں۔ ملک ریاض نے ڈاکٹر ارسلان افتخار کیس میں سڈل کمشن پر عدم اعتماد کرتے ہوئے اسے فائیو سٹار کمشن قرار دیا۔ تحقیقات اور تفتیش پر عدم اعتماد صرف ملک ریاض نہیں دیگر سپر سٹار بھی کرتے ہیں۔ ارسلان افتخار نے نیب پولیس اور ایف آئی اے پر مشتمل کمیٹی پر عدم اعتماد کیا۔ یوسف رضا گیلانی حج کرپشن کیس میں ایف آئی اے کے ڈائریکٹر حسین اصغر پر عدم اعتماد کر رہے ہیں ۔یہ وہی حسین اصغر ہیں جنہوں نے حج کرپشن کیس میں چھوٹے گیلانی کے خلاف تحقیقات کا آغاز کیا تو باپ وزیراعظم نے ان کو گلگت بلتستان میں آئی جی لگا دیا تھا۔ اب پُتر کے ساتھ ابّے کی تحقیقات بھی اسی حسین اصغر کے پاس ہے۔ یوسف رضا گیلانی کا مقام بدل گیا لیکن ناز انداز نہیں بدلا کہتےہیں اس سے تحقیقات قبول نہیں۔ ایسا صرف فائیو سٹار اور سپر سٹار کلچر میں ہی ہو سکتا ہے۔ کیا عام ملزم کہہ سکتا ہے کہ اسے فلاں کی تحقیقات اور فلاں جج کے سامنے پیش ہونا قبول نہیں۔ ہمارا انتخابی سسٹم جیسا بھی لوگوں کو اپنے اچھے بُرے کی پہچان ہے، ان کا رحمن ملک کے پینترا بدل بیاناتپر بھی دھیان ہے۔ رحمان کی دانست میں پاکستان میں ہر بُرائی طالبان کی زمین و سرزمین میں اُگتی اور پرورش پاتی ہے۔ حامد میر کی کار میں بارود فِٹ ہوا، اس کی ذمہ داری حسب سابق طالبان نے قبول کر لی حالانکہ میر صاحب کسی اور طرف اشارہ کر رہے تھے۔ اگر طالبان حامد میر کے دشمن ہیں تو پاکستان میں اُن کا کوئی سجن نہیں ہو سکتا۔ اِدھر طالبان نے ذمہ داری قبول کی اُدھر رحمن ملک جھٹ سے بولے ؛” کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے ترجمان احسان اللہ احسان بیرونی عناصرکےلئے کام کررہا ہے، جلد عوام کے سامنے حقیقت پیش کرونگا۔ احسان اللہ احسان کا تعلق ٹی ٹی پی سے نہیں بلکہ یہ گروپ ملک میں بیرونی عناصر کیلئے کام کررہا ہے“۔ملالہ معاملے میں طالبان کے خلاف رحمان ملک اور دیگر نے اودھم طالبان کے اسی ترجمان کے ذمہ داری قبول کرنے پر مچایا گیا تھا۔دیکھئے ملک صاحب اپنے اس بیان پر کب تک ثابت قدم رہتے ہیں۔احسان اللہ کن عناصر کیلئے کام کررہے ہیں؟ ان کا تو نام رحمن ملک نے نہیں لیا البتہ اس خبر پر نظر ضرور ڈال لیجئے۔27نومبر 2012ءکو شائع ہونے ولی خبر میں کہا گیاہے ”تحریک طالبان پاکستان کے ترجمان احسان اللہ احسان کے پشاور میں واقع ایک غیر ملکی سفارتی مشن کے سیف ہاﺅس میں مقیم ہیں۔ وہ وہاں سے نہ صرف ملک میں ہونے والی دہشت گردی کے ہر واقعہ کی فوری ذمہ داری قبول کرتا ہے بلکہ غیر ملکی بالخصوص امریکی میڈیا کو بروقت دستیاب رہتا ہے۔ سکیورٹی ذرائع کے مطابق انٹیلی جنس اداروں کے پاس ٹھوس شواہد موجود ہیں۔ ذرائع کا دعویٰ ہے یہ ہاﺅس دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑنے والے صف اول کے ملک کے زیر استعمال ہے اور اس کی سکیورٹی نہ صرف فول پروف ہے بلکہ وہاں کسی بھی پاکستانی سکیورٹی ادارے کو رسائی حاصل نہیں۔ ترجمان کو مواصلاتی رابطے کے جدید الات فراہم کئے گئے ہیں۔ احسان اللہ احسان امریکی میڈیا سے بات چیت کے دوران پاکستان کے خلاف سنگین الزام تراشی کرتے ہیں“۔رحمان ملک سے کوئی پوچھے حکومتی رٹ کس کو کہتے ہی ں اور وہ کہاں ہے۔ یہ سب کچھ عوام کی نظروں کے سامنے عوام کے ساتھ ہو رہا ہے۔ کرنے والے کون ہیں؟ وہی جو چند ماہ بعد ووٹ لینے کیلئے عوام کے در پر ہوں گے۔ کیا عوام ان کو اس بار پھر ووٹ کی بھیک دیں گے؟