20-6-12ندائے ملت
اقتدار کے مہرے
فضل حسین اعوان
صدر زرداری اور وزیراعظم گیلانی تواتر سے کہہ رہے ہیں کہ ڈاکٹر ارسلان کیس کا حکومت سے کوئی تعلق نہیں۔گیلانی صاحب نے اس حوالے سے فوج کو بھی یہ کہتے ہوئے کلیئر کردیا کہ اس کا بھی ڈاکٹر ارسلان کیس میںکوئی کردار نہیں۔ حکومتی اکابرین کو رس کی صورت میں نغمہ زن رہتے ہیں کہ وہ عدلیہ کے فیصلوں کا احترام اور ان پر عمل کرتے ہیں۔ اس پر عام آدمی کو اتنا ہی یقین ہے جتنا وزیراعظم کے اس فرمان پر کہ ان کے 4 سالہ دورِ اقتدار میں ریکارڈ ترقیاتی کام ہوئے، ایسے بیانات عوام کے زخموں پر مرہم کیلئے ہیں یا نمک چھڑکنے کیلئے ؟ حکمرانوں کی ستم شعاری اور عوام کے بدن میں نفرت کی شعلہ بنتی ہوئی چنگاری سے کون بے خبر ہے؟ ایسے ستمگر لوگوں کے ہاتھ میں اقتدار کی لگام پہلی مرتبہ نہیں آئی۔ ان جیسے حکمران تاریخ میں کم از کم دو مرتبہ تو گزرے ہیں۔ایک وہ نامعلوم جس کو بادشاہ کی موت پر صبح سویرے سب سے پہلے شہر میں داخل ہونے پر بادشاہ چن لیا گیا تھا۔وہ کسی مزار کا مجاور، متولی تھا۔ اس کو کھانے پینے سے ہی فرصت نہ ملتی تھی۔مصاحبین نے دشمن کی چڑھائی پر ”مجاور شاہ“ کو آگاہ کیا تو فرمانِ ظلِ الٰہی تھا کہ دستر خوان بچھاﺅ۔ دشمن کے شہر کے قریب آنے پر درباریوں نے پھر آہ وزاری کہ تو بھی حکم ہوا ھل من مزید۔ دشمن قلعہ میں داخل ہونے لگا تو بادشاہ سلامت نے مجاوری پہناوا اوڑھا اور قلعہ سے باہر نکل گیا۔اس بادشاہ کا نام کیا تھا۔سلطنت کونسی تھی۔اس کی مجاور سے بادشاہ اور پھر بادشاہت سے مجاوری کی کب کب جون بدلی اس کا تاریخ میں کوئی ذکر نہیں دوسرے ”ہنوز دلی دور است“ والے تھے جن کا باقاعدہ تاریخ میں تفصیل کے ساتھ ذکر ہے۔
1739ءمیں دلی پر حملے کے وقت وہاں کا حاکم محمد شاہ رنگیلا تھا وہ اتنا کمزور تھا کہ نادر شاہ کا حملہ نہ سہہ سکا اور اس کی غفلت کا یہ عالم تھا کہ جس وقت نادر شاہ دلی کے دروازے پر تقریباً تقریباً پہنچ چکا تھا تو وہ اس وقت بھی نشے میں دھت تھا اور شراب و کباب کی محافل میں مصروف تھا جب اس کے درباریوں نے اسے مطلع کیا کہ حضور نادر شاہ کی فوجوں کے گھوڑوں کے ٹاپوں کی آوازیں آرہی ہیںتو کمال بے نیازی سے وہ کہہ اٹھا کہ فکر نہ کرو” ہنوز دلی دوراست“پھر تاریخ میں محمد شاہ رنگیلا کی جو رسوائی ہوئی وہ الگ موضوع ہے۔
ملتانی مرشد گفتار کے غازی ہیں۔ کردار، چونکہ ہمارا موضوع نہیں اس لیے یہ زیربحث بھی نہیں۔ اردو، پنجابی،سرائیکی اور انگلش زبانوں میں خطبات اور خطابات پر مکمل عبور حاصل ہے۔ ساری زندگی پڑھنے لکھنے میں گزاردی۔بزرگوں کی مجلس میں کچھ وقت گزارا ہوتا تو اس پر فخر نہ کرتے کہ ”غوث اعظم کی اولاد ہوں“ بلکہ ان جیسا بننے کی کوشش کرتے۔
گفتگو میں جوش کو لازم گردانتے اور ہوش کو ملزوم نہیں مانتے۔ ایک لمحے جرنیلوں کو آئین شکن ہونے کا طعنہ دیتے ہیں دوسرے ثانیے محب وطن ہونے کا سر ٹیفکیٹ جاری کردیتے ہیں۔لطیف موضوعات کو اپنی ” دانشوری“ سے کثیف بنانے پر ملکہ حاصل ہے۔ سی این این کی صحافی بیکی انڈرسن نے سوال ستم رسیدہ پاکستانیوں کا کیا کہ 30فیصد ملک چھوڑنا چاہتے ہیں مرشد کا جواب تھا کس نے روکا ہے۔چلے جائیں۔اپنی ہی بات کے حق میں ایسی دلیل دیں گے جو ان کے خیالات کی تردید ہوتی ہے بلکہ کبھی تو لطیفہ بن جاتی ہے۔ایسا کچھ ملتانی پیر نے اپنی طرف سے طنزاً فرمایا۔
نواز شریف ہر گیٹ سے عدلیہ میں گئے،ڈاکٹر ارسلان کیس میں عدالت جا کر پارٹی کیوں نہیں بنتے؟ ملک ریاض کے صرف رحمن ملک کے ساتھ ہی نہیں،نواز شریف سمیت تمام سیاسی رہنماﺅں سے اچھے تعلقات ہیں۔چیف جسٹس ڈاکٹر ارسلان کا کیس نہیں سن سکتے تو میرے بیٹے علی موسیٰ گیلانی کو اپنا بیٹا سمجھتے ہوئے اسکا کیس خود سنیں اور سپریم کورٹ سے اسکی تحقیقات کرائیں،جس پر کوئی الزام ثابت نہیں ہورہا محض مشہوری ہورہی ہے۔مجھے چیف جسٹس پر اعتماد ہے میں بیٹوں کے معاملے پر چار سال سے میڈیا کو بھگت رہا ہوں، چیف جسٹس کو تو ابھی چار دن ہوئے ہیں۔ چونکہ ملک ریاض کے تعلقات سب کے ساتھ ہیں اس لئے نواز شریف فریق نہیں بن رہے۔ارسلان افتخار سکینڈل سے فوج اور حکومت کا فائدہ ہے نہ تعلق، چیف جسٹس کو بیٹے کے سکینڈل پر مستعفی ہوچاہئے یا نہیں،رائے نہیں دے سکتا۔
وزیراعظم کا چند فقرات پر مشتمل یہ فرمان تضادات سے بھرپور ہے۔ ایک طرف وہ چیف جسٹس پر اعتماد کا اظہار کرتے ہیں تو دوسری طرف چیف جسٹس کو استعفیٰ دینا چاہئے یا نہیں اس پر کوئی رائے نہ دینے کا مطلب ہی وہ ہے جو پیپلز پارٹی کی دوسرے اور تیسرے درجے کی قیادت کہہ رہی ہے جس کی ترجمانی گورنر لطیف کھوسہ کرتے ہیں کہ جسٹس افتخار کو بیٹے کے فیصلے تک عہدہ چھوڑ دیناچاہئے۔این آر او کیس پر زرداری صاحب توہین عدالت کیس میں سزا یافتگی پر گیلانی صاحب نے استعفیٰ دیا ہوتا تو جسٹس افتخار کے استعفے سے طلبگاروں کی بات میں کوئی وزن ہوتا۔ گیلانی صاحب کے بیٹوں پر کرپشن کیسز بنے تو بھی کسی طرف سے یہ آواز نہیں آئی کہ گیلانی صاحب فیصلوں تک مستعفی ہوجائیں۔
گیلانی کے صاحبزادوں پر کرپشن کے الزامات لگے تو گیلانی صاحب نے کیا بچوں کو بے گناہ ثابت کرنے کیلئے ایسا ہی کیا جو کچھ افتخار محمد چودھری نے الزامات کی دھول اڑانے پر ہی نوٹس لے کر کیا ہے؟ گیلانی صاحب تو اب تک اپنی اولاد کے کئے دھرے کی پردہ پوشی کر رہے ہیں۔ وہ اپنے بچوں کو عدالتی کٹہرے سے دور کہیں دور لے جانے کے جتن کر رہے ہیں۔فرماتے ہیں پارلیمانی کمیٹی نے بیٹے کو بے گناہ قرار دے دیا ہے تومزیدتحقیق کی ضرورت نہیں۔پھر اے این ایف کے ڈی جی میجر جنرل شکیل حسین کو محض بیٹے کوتحقیقات سے بچانے کیلئے عہدے سے ہٹا دیا۔ دیگر تفتیشوں کے تبادلے بھی کیے گئے بریگیڈئر فہیم کو اوقات یاد دلائی کہ تمہیں فوج سے ادھار لیا ہے۔ وہ ملزم بچوں کو بچانے کیلئے دھونس ، دھپہ اور دھمکیاں کیا کچھ نہیں کر رہے ! ایک طرف پیشکش کر رہے ہیں کہ میرے بیٹے کا کیس سن لیں۔ساتھ ہی فرما دیا اس پر کوئی الزام ثابت نہیں ہوا۔حالانکہ کیس کا فیصلہ ابھی سامنے نہیں آیا۔
طنز اور طعنہ ملاحظہ فرمائیے میں بیٹوں کے معاملے پر 4سال سے میڈیا کو بھگت رہا ہوں۔ چیف جسٹس کو تو ابھی چار دن ہوئے ہیں.... جناب تو چار سال سے ہی چیخ و پکار کر رہے ہیں۔ چیف جسٹس تو حوصلہ مندی سے بیٹے کو عدالت میں لے آئے اور بنچ سے الگ ہوکر معاملہ دوسرے ججوں کے صوابدید پر چھوڑ دیا۔ جنہوں نے ڈاکٹر ارسلان، ملک ریاض اور ان کے داماد سلمان کے خلاف اٹارنی جنرل کو سخت کارروائی کرنے کا حکم دیدیا۔
وزیراعظم گیلانی ہوش سے خالی جوش خطابت میں فرما گئے کہ ملک ریاض کے صرف رحمن ملک سے ہی نہیں نواز شریف اور شہباز شریف سمیت تمام سیاستدانوں سے اچھے تعلقات ہیں۔ تمام سیاستدانوں سے اچھے تعلقات کا مطلب خود ان سے بھی اور ان کی پارٹی کے سربراہ صدر آصف علی زرداری سے بھی ہے۔ اس میں کسی شبہ کی گنجائش بھی نہیں ہے۔ملک ریاض کے رشوت دینے کے حوالے سے میڈیا میں آنے والے بیانات پر اکثر سیاستدان گویا نہیں ہوئے۔ صرف چودھری نثار اور عمران خان نے شدید ردعمل کا اظہار کیا۔ نواز شریف اور شہباز شریف نے جسٹس افتخار کی حمایت میں تو بات کی ہے لیکن بات بڑھانے اور بگاڑنے والے سے شاید الفت و عقیدت اتنی ہے کہ اس کا نام زبان پہ نہیں لائے۔ ملک ریاض کے صرف ” تمام“ سیاستدانوں کے ساتھ ہی اچھے مراسم نہیں خود کو بادشاہ گر سمجھنے والے جرنلسٹوں سے بھی ہیں۔ کئی ریٹائرڈ جرنیل تو ملک صاحب کی آغوش ملازمت میں پناہ لئے ہوئے ہیں حاضر سروس جرنیلوں سے بھی گاڑھی چھنتی ہے۔ ملک ریاض کے ساتھ یارانے اور قربت کے دعویدار، ایک اینکر اور کالم نگار نے ملک ریاض کے ساتھ بڑے بڑوں کی دوستی سے نقاب اٹھایا ہے۔ ملک ریاض کے دوست اس جرنلسٹ کا دعویٰ ہے کہ” ملک ریاض سے دوستی آج تک قائم ہے،میں نے سولہ برس سے ملک ریاض کے تقریباً تمام پہلو دیکھے ان کی زندگی کا شاید ہی کوئی اینگل ہو جو میری نظروں سے پوشیدہ ہو۔کالم نگار ملک ریاض کی یارسائی کا دعویٰ کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔
”یہ اقتدار کے تمام مہروں کو اپنی جیب میں رکھتا ہے پاکستان میں جو بھی شخص اقتدار کی شطرنج پر پہنچتا ہے ملک ریاض اس تک پہنچ جاتا ہے اور وہ شخص چند دن بعد ملک ریاض کا محتاج ہوجاتا ہے۔یہ صدر جنرل مشرف کا بھی انتہائی قریبی ساتھی تھا،یہ چوہدری برادران کا بھی بھائی تھا،یہ شوکت عزیز کے بھی قریب تھا اور یہ جلا وطن میاں صاحبان کے رابطے میں بھی تھا۔یہ حمزہ شہباز اور سلیمان شہباز کو کاروباری مدد بھی دے رہا ہے اور یہ آصف علی زرداری،بینظیر بھٹو اور رحمان ملک کا ساتھی بھی تھا آپ2008ءکے الیکشن کو دیکھ لیجئے، یہ جنرل پرویز مشرف کو بھی سپورٹ کر رہا تھا، یہ چوہدری پرویز الٰہی کا ساتھ بھی دے رہا تھا،یہ آصف علی زرداری کا بھی انتہائی قریبی ساتھی تھا اور اس نے میاں برادران کی الیکشن مہم کو بھی سپورٹ کی، میاں برادران2008ءکے الیکشنز میں ٹیلی ویژن چینلز اور اخبارات میں اشتہارات دیناچاہئے تھے اشتہارات کے ریٹس زیادہ تھے ملک ریاض میڈیا کا ” بلک بائر“ ہے،حمزہ شہباز شریف اور پرویز رشید ملک ریاض کے پاس گئے اور ملک ریاض نے 70فیصد رعایت پر پاکستان مسلم لیگ ن کے اشتہارات ریلیز کرادئیے، میں نے اس کے گھر میں یہ منظر بھی دیکھا کہ ایک کمرے میں شیخ رشید بیٹھا ہے اور دوسرے کمرے میں حنیف عباسی ہے اور دونوں کو ایک دوسرے کی خبر نہیں۔ ملک ریاض فوجی اسٹیبلشمنٹ کے بھی بہت قریب ہے جنرل حمید گل سے لیکر جنرل پاشا تک تمام ڈی جی آئی ایس آئی بھی ملک ریاض کے دوست تھے۔ یہ میڈیا کی طرف نکلا تو اس نے پاکستان کے تمام میڈیا ٹائی کونز کو بھی اپنا دوست بنالیا۔ پاکستان میںکوئی بھی سیاسی تبدیلی ہو، یہ خواہ آصف علی زرداری کے درمیان میثاق مری ہو،میاں برادران اور آصف علی زرداری کے درمیان خفیہ معاہدے ہوں،آصف علی زرداری اور جنرل پرویز مشرف کے درمیان سمجھوتہ ہو،چیف جسٹس کی بحالی ہو،پنجاب حکومت کی واپسی ہو، ایم کیو ایم اور پاکستان پیپلز پارٹی کے درمیان معاہدے ہوں،چوہدری برادران اور آصف علی زرداری کے درمیان ہو، عمران خان کی لانچنگ ہو،ڈاکٹر بابر اعوان کی فراغت ہو، جنرل کیانی اور جنرل پاشا کی ایکسٹنشن ہو، حمزہ شہباز اور عائشہ احد کا تنازعہ ہو، مونس الٰہی کا مسئلہ ہو، چودھری اعتزاز احسن کی پارٹی میں واپسی ہو،چیئر مین نیب کی تقرری ہو، وزیراعظم کے صاحبزادوں کا ایشو ہو، ریمنڈ ڈیوس کا معاملہ ہو اور اب نیٹو سپلائی کا ایشو ہو،ملک ریاض ہر قسم کے جوڑ تو ڑ کا مرکزی کردار تھا اور ہے لیکن اس سارے کھیل میں صرف ایک شخص اس کے قابو نہیں آیا وہ شیخ چوہدری نثار ہے۔
مذکورہ کالم ہفتہ قبل شائع ہوا،اس میں اگلے گئے راز اور انکشافات مذکورہ شخصیات کی طرف سے ہنوز ہضم کئے ہوئے دکھائی دیتے ہیں اس کا مطلب ہے جس کے بارے میں جو کہا گیا وہ درست ہے۔ البتہ چودھری نثار کے ساتھ دیگر بہت سے لوگ پاکستان میں موجود ہیں جو اب تک انمول ہیں جن کی کوئی قیمت نہیں لگا سکا۔ ان میں سے ایک تو جسٹس افتخار محمد چودھری بھی ہیں۔ وہ بھی بک گئے ہوتے تو آج ان کا بیٹا جھوٹے اور سچے الزامات پر عدالت کے کٹہرے سے ہوتا ہوا تفتیش کے مراحل سے نہ گزر رہا ہوتا۔ ان کے تنخواہ دار نے یہ تو کہا کہ ملک ریاض اقتدار کے تمام مہروں کو اپنی جیب میں رکھتا ہے۔ کیا وہ اقتدار کے مہروں کے ذریعے انصاف بھی خرید لے گا؟ اُن کا زور ہے کہ رشوت ان کے داماد نے دی ہو گی ان کو بلیک میل کیا گیا۔ وہ کونسی کمزوری ہے جو ڈاکٹر ارسلان کے ہاتھ لگی اور وہ پاکستان کے ہر بڑے فیصلے میں کردار ادا کرنے والا پراپرٹی ٹائیکون بلیک میل ہو گیا؟ ڈاکٹر ارسلان نے اعتراف کیا ہے کہ بحریہ ٹاﺅن کی طرف سے ادائیگیاں کی گئیں اس سے لاعلم تھے۔ اس کا یہ اعتراف بھی شرمناک ہے ان کو کچھ بھی کرنے سے قبل یہ تو سوچ لینا چاہئے تھا کہ کس باپ کے بیٹے ہیں اور کیا کر رہے ہیں۔ ملک ریاض کہتے ہیں میرے پراجیکٹ کو کچھ ہوا تو ذمہ دار سپریم کورٹ ہو گی۔ پراجیکٹ اگر ڈوبتا ہے تو اس کے ذمہ دار خود ملک صاحب ہی ہوں گے جو اتنا over confidence ہوئے کہ بم کو لات مار دی۔