About Me

My photo
Fazal Hussain Awan colomnist Daily NAWAI WAQT awan368@yahoo.com 03334215368

Friday, July 27, 2012

خود رہنما ئی


جمعہ ,27 جولائی ,2012

   
خود رہنما ئی

یوں تو ملک میں کوئی بحران اور مصیبت ایسی باقی نہیں رہی جس میں قوم مبتلا نہ ہو‘ مگر بجلی کی لوڈشیڈنگ ایسا عذاب بن کر نازل ہوئی کہ لوگ باں باں کر اٹھے۔ یہ کوئی قدرتی آفت ہے نہ بجلی کی ملک میں کوئی کمی ہے۔ عوام کو حکمرانوں کی بدعملی‘ کرپشن اور ”فرینڈلی“ اپوزیشن کی طرف سے اپنا کردار ادا نہ کرنے کا خمیازہ بھگتنا پڑ رہا ہے۔ ایسے شعبوں اور اداروں کو چلانے والے کسی ”حضور کی خدمت“ کے نتیجے میں منظور نظر ہوئے یا ڈیل کے سبب۔ وزیر ریلوے نے تو اپنے شعبہ کے مسائل کا حل ریلوے کو سرے سے ختم کر دینے میں ہی تلاش کیا ہے۔ میڈیکل ڈاکٹرز‘ وزیر پٹرولیم گیس کی بچت کےلئے اربوں روپے سے گیس پر منتقل ہونےوالی تیس لاکھ گاڑیاں بند کر دینے تجویز پیش کرتے ہیں۔ یورپ اور عرب ممالک میں ایک تو تیل کی بہتات ہے دوسرے وہاں کی فی کس آمدنی پاکستان کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ ہے اس لئے وہاں ٹرانسپورٹ کےلئے گیس کی ضرورت ہی نہیں۔ مغرب میں پلنے، پڑھنے اور بڑھنے والے کل عوام کو روٹی کے بجائے کیک کھانے کا مشورہ دے سکتے ہیں اور کوئی بعید نہیں کہ وہ عوام سے یہ بھی کہہ ڈالیں کہ فلاں برانڈ کی سستی شراب پی لیا کریں‘ ہمارے دیئے ہوئے غم دور ہو جائینگے۔ چونکہ ان کاپاکستانی معاشرے اور اسلامی تہذیب و تمدن اور کلچر سے دور کا تعلق نہیں۔ یہ عام آدمی کے مسائل سے آگاہ ہی نہیں تو اصلاح کی تدبیر کیا خاک کرینگے؟
عوام کے مینڈیٹ کی دھجیاں اڑائی جا رہی ہیں۔ وہ اپنی قسمت پر دانت پیس رہے ہیں۔ بجلی کا بحران جان کو آ گیا ہے رہی سہی کسر قیمتوں میں ہر ماہ پچھلے مہینوں کا فیول ایڈجسٹمنٹ سرچارج کے نام پر بھاری رقم ڈال کر بل میں دو سے تین گنا اضافہ کر دیا جاتا ہے اب تو دیہات‘ قصبات اور شہروں میں یکساں بیس بیس گھنٹے بجلی بند رکھی جاتی ہے۔ وجہ صرف یہ کہ بجلی پیدا کرنے والی کمپنیوں کو ادائیگی نہیں کی جاتی اگر کوئی پلانٹ خراب ہے تو عدم مرمت کی وجہ سے بند پڑا ہے۔ سرکار ی پاور پلانٹس کو تیل کی فراہمی اس لئے بند ہے کہ تیل فراہم کرنے والی کمپنیوں کو حکومت بقایا جات ادا نہیں کرتی۔ حالانکہ عام صارفین سے ہر ماہ بل وصول کئے جاتے ہیں۔ بڑے نادہندگان پر حکومت ہاتھ نہیں ڈالتی جس کے باعث قرضہ جات چار سو ارب روپے تک جا پہنچے ہیں۔ اس کا خمیازہ بھی ایماندار اور بروقت بل ادا کرنے والے صارفین کو بھگتنا پڑتا ہے۔ دو سو ارب روپے کے رینٹل پاور پراجیکٹس محض چند بڑوں کے پیٹ میں اتر گئے۔ یہی سرکلرڈیٹ کےلئے استعمال ہوتے تو آج یہ حالت نہ ہوتی۔ راجہ نے وزیراعظم بنتے ہی وہی باجہ بجایا کہ لوڈشیڈنگ پر جلد قابو پالیں گے‘ ساتھ ہی وعدہ کیا کہ رمضان المبارک میں سحر و افطار کے دوران پورے ملک میں بجلی کی ترسیل جاری رہے گی۔ مگر حسب معمول راجا کا باجہ ‘ باجہ ہی ثابت ہو رہا ہے۔آج لوگ واقعی پریشان اور شدید گرمی میں جھلسی ہوئی زندگی اور ٹھپ ہوئے کاروبار اور بے روزگاری کی وجہ سے مشتعل بھی ہیں۔ وہ سڑکوں پر آ رہے ہیں۔ جلسے جلوس، جلاﺅ گھیراﺅ اور توڑ پھوڑ کر رہے ہیں۔ بسیں، ویگنیں، دکانیں، واپڈا دفاتر اور تنصیبات جلا رہے ہیں۔ گزشتہ دنوں ایک ٹرین نذر آتش کر دی گئی‘ موٹر سائیکلوں اور سائیکلوں کو اٹھا اٹھا کر پھینکا، توڑا اور جلایا گیا۔ یہ وزیروں مشیروں یا صدر کی سواریاں تو ہیں نہیں جن کے جلنے کی انہیں فکرلاحق ہو۔ ان کی بلا سے ملک میں موجود ہر سائیکل، موٹر سائیکل، بس ویگن اور سرکاری دفتر جلا دیئے جائیں انکی حکمرانی پر کوئی زد آئےگی نہ کارکردگی اور کمائی پر۔عوام اپنا مینڈیٹ تو واپس نہیں لے سکتے لیکن سیاستدانوں کو اصلاح پر مجبور کر سکتے ہیں۔ جلاﺅ گھیراﺅ توڑ پھوڑ اور ہنگامہ آرائی و اشتعال سے نہیں بڑے پُرامن طریقے سے۔ کوئی یہ نہیں چاہتا کہ شباب ملی جیسا وہ کام کریں جو شباب ملی نے اپنے شباب کے دوران کیا تھا۔ اب تو بیچاری ”کرائے پر ریلی کےلئے دستیاب“ کا اشتہار اٹھائے پھرتی ہے۔ بہرحال مختصر واقعہ یوں ہے کہ مسجد شہدا کے قریب لوگوں کا ایک جم غفیر تھا جس کے درمیان ایک شخص کا کل لباس ایک کچھا اور ٹائی تھا۔ اسکی ٹنڈ ہوئی تھی کوئی چپت رسید کرتا تو کوئی ٹھاپ مار رہا تھا۔ پتہ چلا کہ حضرت سنسر بورڈ کے چیئرمین ہیں جنہیں ایک فحش فلم کو سنسر شدہ کاسرٹیفکیٹ جاری کرنے پر شباب ملی کے نوجوان دفتر سے گھسیٹ کر میدان حشرمیں لے آئے تھے۔
عوام یہ بھی نہیں چاہتے کہ وہ اپنے منتخب نمائندوں کا وہ حال کریں جس کی ایک جھلک شہباز شریف اور راجہ ریاض کے بیان اور جوابی بیان میں نظر آتی ہے۔افسوس صد افسوس‘ حکمرانوں کو عوام کی حالت زار بدلنے میں حالت جنگ میں ہونا چاہیے تھا مگر وہ تو دست و گریباں ہو کر آپس میں ہی جنگ و جدل میں مصروف ہیں۔ عوام نے حکمرانوں کی بے وفائی اور بے اعتنائی دیکھ لی‘ ان سے مسیحائی کی توقع عبث ہے۔ اپنے مسائل کے حل کا ایک ہی طریقہ ہے کہ کسی راہبر و رہنما اور مسیحا کا انتظار کئے بغیر ہم خود اپنا رہنما اور مسیحا بنیں، اپنے اپنے حلقے کے عوامی نمائندو ںکو گھر سے نکالیں جنہیں انہوں نے بڑی امید سے اپنے مسائل کے حل کیلئے منتخب کیا تھا، ہر چوک کو تحریر سکوائر بنا کریا ”بازار مصر“ لگا کر انہیں اپنے ساتھ بٹھائیں۔ بلا امتیاز اسکی پارٹی وابستگی کے۔ وزیر اعظم، وزرائے اعلیٰ اور تمام وزیر عوامی نمائندے ہیں‘اپوزیشن بھی قطعاً قطعاً ”پوتر“ نہیں۔ ان کو اس وقت تک بٹھائے رکھا جائے‘ جب تک عوام اپنے تمام تر مسائل سوفیصد حل نہ کروا لیں۔ یہی ایک واحد طریقہ اپنے مینڈیٹ کے مطابق حکومت کو راہ راست لانے اور مسائل سے نجات اور گلوخلاصی کا ہے۔ پھر ہمیں یہ کہنے کی ضرورت نہیں پڑےگی کہ کس کے ہاتھ پر اپنا لہو تلاش کروں!

Tuesday, July 24, 2012

”ایلی کوہن“


منگل ,24 جولائی ,2012
     
”ایلی کوہن“
24 جولائی 2012 0

یہ دمشق کے شہدا چوک کی 18مئی1965ءکی 19 مئی میں داخل ہوتی ہوئی رات ہے۔ چوک کا کونہ کونہ روشنیوں سے نہایا ہوا ہے۔ ہزاروں لوگوں کا ہجوم ہے۔ دنیا کے جس صحافی نے بھی یہ منظر دیکھنے کی خواہش کی‘ اسے اجازت دے دی گئی، چوک کے درمیان کی تھوڑی سی جگہ خالی ہے۔ ہجوم کی آنکھیں اسی جگہ پر مرکوز ہےں۔ منظر کشی کےلئے کیمرے فٹ کئے جا چکے ہیں۔ ارد گرد عمارتوں پر مسلح کمانڈوز نے پوزیشنیں سنبھال رکھی ہیں۔ شام کی فضائیہ کو الرٹ کر دیا گیا ہے۔ ہجوم میں مال دار خواتین نے ہیرے جواہرات کے زیورات اور فر کے کوٹ پہن رکھے ہیں۔ رات ڈھلی ایک بجا، دو پھر تین۔ آخر کار وہ لمحہ آ گیا جس کا دل کی بے قابو ہوتی دھڑکنوں کے ساتھ انتظار کیا جارہا تھا۔ 3بجکر 35 منٹ پر اسرائیلی جاسوس ایلی کوہن کو چوک کے وسط میں بنائے گئے عارضی پھانسی گھاٹ پر لا کر پھندا کسا گیا اور آناً فاناً جلاد نے اس کا قصہ تمام کر ڈالا۔
ایلی کوہن نے ایک بزنس مین کی حیثیت سے شام کے تجارتی حلقوں، حساس اداروں اور ایوان صدر تک رسائی حاصل کی ہوئی تھی۔ اسکے صدر کی کابینہ اور جرنیلوں کے ساتھ بھی دوستانہ تعلقات تھے۔ اسکی وزارت دفاع کے دفاتر کے عین سامنے رہائش تھی۔ اپنے مقاصد کے حصول کےلئے پیسہ پانی کی طرح بہاتا تھا۔ صدر امین الحافظ کے وہ اتنا قریب تھا کہ صدر نے اسے وزیر دفاع بنانے کی پیشکش کی جسے وہ ٹال گیا صدر اس کی حب الوطنی، اہلیت اور قابلیت سے اس قدر متاثر تھا کہ اسے اپنا جان نشین بنانے پر بھی غور کیا۔ایلی کوہن کی جاسوسی کے باعث اسرائیل نے محض 6دن میں شام کو شکست سے دو چار کر دیا۔ پھر جب پکڑا گیا تو صدر امین الحافظ نے دنیا کا ہر دباﺅ اور اسرائیل کی اس ایک جاسوس کے بدلے شام اور فلسطین کے جاسوسوں سمیت تمام قیدی رہا کرنے کی پیشکش مسترد کر دی۔ آج مجھے ایلی کوہن کا یہ واقعہ اپنے وزیر دفاع جناب نوید قمر کا یہ بیان پڑھ کر رہ رہ کے یاد آ رہا ہے کہ ڈرون حملوں کے باعث دنیا سے روابط ختم نہیں کر سکتے۔
آج دنیا یقینا گلوبل ویلج بن چکی ہے جتنی ضرورت ہمیں دنیا کی ہے اتنی ہی بلکہ مخصوص حالات اور جغرافیائی محل وقوع کے باعث یاشاید اس سے بھی بڑھ کر دنیا کو پاکستان کی ہے۔ڈرون حملوں میں تین ہزار کے لگ بھگ پاکستانی معصوم بچوں اور گھریلو خواتین سمیت مارے گئے۔ خود امریکی حکام اعتراف کرتے ہیں کہ ان میں مطلوبہ افراد کی تعداد اڑھائی سے تین فیصد ہے۔ باقی 97 فیصد بے گناہ تھے۔ ریمنڈ ڈیوس نے دو پاکستانیوں کو قتل کیا، اس کو دیت کا ڈرامہ رچا کر رہا کر دیا گیا۔ ڈرون حملوں میں مارے جانے والوں کی کوئی داد فریاد اور دیت نہیں۔ اب وزیر دفاع فرماتے ہیں کہ ڈرون حملوں کے باعث دنیا سے تعلقات ختم نہیں کر سکتے۔ یوسف رضا گیلانی نے اپنی وزارت عظمیٰ کے دوران برطانیہ کے دورے کے موقع پر کہا تھا کہ پاکستان 48ممالک کی مخالفت مول نہیں لے سکتا۔ وزیر خارجہ حنا ربانی نے بھی اسی بیان کا اعادہ کر دیا تھا۔ سلالہ حملوں کے چند روز بعد اس وقت کے وزیر دفاع احمد مختار نے کہا تھا کہ امریکہ کی طرف سے معافی مانگنے تک نیٹو سپلائی بحال نہیں ہو گی اور پھر پوری دنیا نے پارلیمنٹ کو نظر انداز اور پارلیمانی کمیٹی کی سفارشات کو سر بازار رسوا و خوار ہوتے دیکھا اور سپلائی بحال ہو گئی یقیناً یہ سپلائی پاکستان کی پارلیمنٹ کے اندر اور باہر کی تمام پارٹیوں کے اتفاق رائے سے بحال ہوئی۔ البتہ جسے قوم کہتے ہیں اس کی رائے کا احترام نہیں کیا گیا۔
ایک نیٹو سپلائی پر ہی موقوف نہیں‘ لگتا ہے کہ ایلی کوہن جیسا کوئی شخص دیگر معاملات بھی اپنی مرضی سے چلا رہا ہے۔ بھارت کی پاکستان دشمنی کبھی ڈھکی چھپی نہیں رہی۔ دشمنی کی وجہ تنازع کشمیر ہے جس پر تین جنگیں ہو چکی ہیں۔ یہ تنازع اپنی جگہ پر بدستور اور ہنوز موجود ہے۔ اسکے باوجود دشمن کے ساتھ تجارت، تعلقات، دوستی اور اب اس کو پسندیدہ ملک قرار دینے کی تڑپ، کیا کسی ایلی کوہن کے کردار کے بغیر ممکن ہے؟ پاک فوج کی طرف سے جن 96 امریکی ٹرینرز کو ملک دشمن کارروائیوں میں ملوث ہونے کی بنا پر ملک بدر کیا گیا ان کی واپسی کی تیاری ہو رہی ہے۔ 
گزشتہ سال یمن میں ڈرون حملوں میں تین افراد کی ہلاکت پر ایک یمنی شہری نصیرالاولاتی نے امریکی وزیر دفاع پینٹا کےخلاف قتل کا مقدمہ درج کروایا، اس کا موقف ہے کہ یمن اور امریکہ کے درمیان جنگ نہیں ہو رہی، پھر ڈرون حملے کیوں؟ پاکستانی تو تین ہزار ایسے حملوں میں مارے گئے۔ مقدمات کا اندراج دور کی بات کبھی سنجیدگی سے احتجاج ہی نہیں کیا گیا۔ ایسا کرنے میں مانع یا رکاوٹ کون ہے؟ کوئی ایلی کوہن، جس نے نوٹوں کی بوریوں کے منہ کھول رکھے ہیں؟ بعض اوقات تو حکومتی شخصیات کے بیانات اعلانات اور اقدامات سے عندیہ ملتاہے کہ ہر تیسرا شخص خود ایلی کوہن ہے۔ اب لگتا ہے حکمرانوں کی دم پر کسی طرف سے پاﺅں رکھ دیا گیا ہے۔ وزیر اعظم راجہ کی تڑپ دیکھنے لائق ہے کل فرمایا تھا جمہوریت کو خطرہ ہوا تو تمام سیاسی قیادت ایک ہو گی۔ آج گویا ہوئے آئین میں واضح ہے ریاستی امور منتخب نمائندے چلائیں گے۔ اس کا مطلب ہے کہ کوئی غیر جمہوری قوت ایکشن میں آ چکی ہے۔ آج عوام مہنگائی بیروزگاری، بجلی و گیس کی قلت، لاقانونیت، کرپشن، سفارش اور اقربا پروری جیسے اقدامات پر پریشان، برہم اور مشتعل ہیں۔ حکومتوں کا کام عوام کو ریلیف دینا ہوتا ہے تکلیف دینا نہیں۔ آخر جمہوری حکومت کس کے اکسانے پر عوام پر جبر کر رہی ہے۔ کیا اسکے پیچھے واقعی کوئی ایلی کوہن ہے؟ حکمرانوں کو سکھ چین چاہیے تو اپنی صفوں میں موجود ایلی کوہن کردار کے لوگوں کو ہجوم کی موجودگی میں چوراہے پر لٹکا دےں، جس طرح امین الحافظ نے کیا تھا تو یقین کیجئے جمہوریت محفوظ، ملک اور ملکی سرحدیں محفوظ ‘ عوام خوش اور خوشحال اور دم پر آیا ہوا پاﺅں بھی اٹھ جائیگا۔
کالم نگار  |  فضل حسین اعوان

Thursday, July 19, 2012

شہباز شریف کا علی بابا



جمعرات ,19 جولائی ,2012
     
شہباز شریف کا علی بابا

”علی بابا چالیس چور“ یہ ایک عرب لکڑ ہارے اور چوروں و ڈاکوﺅں کے درمیان آنکھ مچولی پر مبنی کہانی ہے۔وزیرِ اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف اس کہانی کا بار بار،بار بار تذکرہ کرتے ہیں‘کبھی جوش و خروش سے کبھی لہک کر اور چہک کر ۔ان کے نشانے پرصدر آصف علی زرداری ‘ ان کے ساتھی اور ان کے انجام دیئے گئے کارہائے نمایاں ہوتے ہیں۔محفل اور مجلس جس طرح کی بھی ہو وہ یہ ضرور کہتے ہیں کہ ” علی بابا اور چالیس چوروں کو نہیں چھوڑوں گا“۔آ ج کل خیمہ زنی مہم جاری ہے‘ پنکھا جھلتے ہوئے بھی علی بابا اور چالیس چوروں پر قہر بن کر ٹوٹتے ہیں۔کل نظریہ پاکستان کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا”ملک کو واپس اجالے میں لانے کے لئے اسلام آباد میں براجمان علی بابا اور چالیس چوروں کو بھگانا ہو گا“ میاں شہباز شریف جس انداز میں علی با با اور چالیس چوروں کا ذکر کرتے ہیں اس سے لگتا ہے کہ علی بابا بھی چالیس چوروں کا ساتھی تھا بلکہ سرغنہ تھا۔میاں صاحب نے اپنی طرح کے شریف اور ڈا کوﺅ ں کو اپنی جان کا دشمن بنانےوالے علی بابا کو بھی ڈاکوﺅں کاساتھی بنا دیا ہے وہ زندہ ہوتا تو پٹیشن ضرور داخل کرتا۔
”علی بابا چالیس چور“ ۔یہ بچوں کی کہانی ہے جو آج بڑوں کے کام آ رہی اور بہت بڑوں پر آزمائی جا رہی ہے ۔ اس کہانی کا میاں صاحب کہاں تک درست انطباق کر رہے ہیں؟ ۔ اس کا جواب جاننے کے لئے کہانی پر سرسری سی نظر ڈال لیتے ہیں 
ایک رات علی بابا دن بھر لکڑیاں کاٹ کر واپس اپنے گھر جا رہا تھا۔ چاند کی روشنی میں دیکھا کہ کچھ ڈاکو ایک پہاڑی کے سامنے رُکے ہوئے ہیں اور ان میں سے ایک اپنے گھوڑے سے اتر کر زور سے چِلاّ کر کہہ رہا ہے ک±ھل جا سِم سِم اسکے بعد علی بابا نے جو دیکھا اس سے وہ ہکّا بکّا رہ گیا۔پہاڑی میں سے ایک چٹان گڑ گڑاہٹ کے ساتھ ہٹ گئی اور ایک غار دکھائی دی ۔غار سونے چاندی اور ہیرے جواہرات سے چمک رہی تھی۔ ڈاکوﺅں نے اپنے گھوڑوں سے سامان اتار کر غار میں رکھا غار سے باہر نکلے اور کہابند ہو جا سِم سِم جس پر چٹان واپس اپنی جگہ پہنچ گئی ۔ علی بابا نے ڈاکوﺅں کے دور تک جانے کا انتظار کیا اورغار کے سامنے کھڑے ہوکر زور سے کہا ک±ھل جا سِم سِم...غار کا منہ کھلا اورعلی بابا اندر داخل ہوگیا ۔ اورعلی بابا نے ہیرے جواہرات اور سونے چاندی سے جلدی جلدی اپنی جیبیں بھر لیں اور غار کے دروازے کے سامنے چلاّیا کھل جا سم سم.... علی بابا جب گھر پہنچا تو اس کی اہلیہ ہیرے جواہرات دیکھ کر شاد باغ ہوگئی۔یہ خبر پڑوس میں علی بابا کے بھائی قاسم کو ملی تو علی بابا نے سارا ماجرا کہہ سنایا۔اندھیرا ہوا تو قاسم دو گدھے ساتھ لے کر جنگل میں ڈاکوﺅں کے غار کی طرف چل پڑا۔ اس نے علی بابا کی بتائی ہوئی جگہ پر چٹان کے سامنے کھڑے ہو کر زور سے کہا ”کھل جا سم سم“ اور زبردست گ±ڑگ±ڑاہٹ کے بعد چٹان اپنی جگہ سے ہٹی اور قاسم اپنے گدھوں سمیت چمکتی دمکتی غار میں داخل ہو گیا اور بند ہو جا سم سم کہنے سے غار کا دروازہ بند ہو گیا... اس نے دونوں گدھوں پر سونا چاندی اور ہیرے جواہرات لادنا شروع کردیئے۔ جب اتنا مال جمع ہوگیا کہ اس سے زیادھ گدھوں پر لادنا ناممکن تھا، تو قاسم نے غار کے منہ پر کھڑے ہو کر زور سے کہا ”ک±ھل جا....“ آگے کے وہ الفاظ بھول چکا تھا ۔اتنے میں ڈاکو آ پہنچے اور قاسم کو ہلاک کرکے نعش باہر پھینک دی۔
اگلے دن گھر نہ پہنچنے پر علی بابا اس کی تلاش میں نکلا۔ علی بابا غار کی طرف گیا اور قریب ہی اسے قاسم کی لاش دکھائی دی۔
شام کو ڈاکو واپس غار پر آئے تو وہاں قاسم کی لاش نہ پائی تو انہیں تشویش ہوئی کہ کہیں کسی اور کو ہماری غار اور ہمارے خزانے کے بارے میں علم تو نہیں ہو گیاپھر ڈاکوﺅں نے زمین پر قدموں کے نشان دیکھے۔ انہی قدموں کو دیکھ کر ڈاکو علی بابا کے گھر تک پہنچ گئے ڈاکوﺅں کے سردار نے علی بابا کے دروازے پر ایک سفید دائرہ کا نشان لگا دیا تاکہ رات کے اندھیرے میں آکر علی بابا کا کام تمام کردیں۔اوپرکی کھڑکی سے چُھپ کر علی بابا کی نوکرانی اس کو دیکھ رہی تھی وہ رانا ثناءاللہ کی طرح بڑی سیانی تھی البتہ اس کی مونچھیں نہیں تھیں۔ڈاکو کے جانے کے بعد نوکرانی نے سارے محلے کے دروازوں پر وہی نشان لگادئیے جب رات کو ڈاکو آئے تو ہر دروازے پر سفید دائرہ دیکھا اورانہیں واپس جانا پڑا ۔دوسرے دن ڈاکوﺅں کا سردار ایک ترکیب سے ساتھ علی بابا کے گھر پہنچا اور کہا کہ وہ مسافر تاجر ہے ۔وہ زیتون کے تیل کے چالیس ڈبے تجارت کیلئے لے جارہا ہے۔ علی با با نے اسے اپنے گھرمیں رات گزارنے کی دعوت دے دی.اسی رات علی بابا کی نوکرانی کھانا بنا رہی تھی اورگھر میں تیل نہیں تھا تو اس نے سوچاکہ اس تاجر کے ایک ڈبے میں سے تھوڑا سا تیل نکال لے گی...لیکن جب اس نے ڈبے کا ڈھکن کھولا تو اندر ایک ڈاکو دبک کر تلوار لیے بیٹھا دیکھااس پر نوکرانی نے چپ چاپ پڑوس سے کچھ تیل مانگا اسے خوب گرم کیا اور تھوڑا تھوڑا ہر ڈبے میں انڈیل دیا جس سے تمام ڈاکو مر گئے(ذہن میں رہے کہ یہ بچوں کی کہانی ہے) اسی رات نوکرانی نے ڈاکوﺅں کے سر دار کو بھی نیند میں ہمیشہ کی نیند س±لا دیا۔ 
 یوں علی بابا کے ہاتھوں ڈاکو اپنے انجام کو پہنچ گئے اور خزانہ ....البتہ اس سے یہ ہوا کہ پورے علاقے میں جہاں ڈاکوﺅں نے ” ات چکی“ ہوئی تھی۔ظلم کا بازار گرم کر رکھا تھا۔ لوٹ مار کر رہے تھے اس عذاب سے لوگوں کی جان چھوٹ گئی۔ اس علاقے کے لوگوں کیلئے علی بابا تو ایک ہیرو تھا۔میاں صاحب اس کو بھی ڈاکوﺅں کا ساتھی قرار دے رہے ہیں۔
میاں صاحب کچھ عرصہ قبل تک بڑے سُر اور لے کے ساتھ بڑے جلسوں اور اجتماعات میں حبیب جالب کی نظم ....ع
صبح بے نور کو میں نہیں مانتا 
پڑھا کرتے تھے۔ان کے لواحقین نے نیا فلسفہ ایجاد کیا کہ جو جالب کے افکار پر عمل نہیں کرتا اس کو حق نہیں کہ وہ ان کا کلام سرِ عام گاگا کر سنائے اس کے بعد سے میاں صاحب نے ہر جلسے میں ....ع
ظلم بچے جن رہا ہے کوچہ و بازار میں 
پڑھنا شروع کردیا۔
شوکت علی شاہ صاحب نہ جانے شاعر سے مخاصمت یا شہباز سے مخالفت پر اس شعر کو تکنیکی اعتبار سے غلط قرار دیتے ہیں کہ ظلم مذکر ہے،مذکر بچے نہیں جن سکتا ہے۔ برادرم اجمل نیازی بھی بڑا شاعر ہے اس سے پوچھ لیتے ہیں کہ ظلم کے بجائے کونسا لفظ استعمال ہوکہ تکنیکی خرابی دور ہوجائے۔
سردست میاں صاحب سے درخواست ہے کہ شعر جو بھی جس کا بھی اور جیسے بھی پڑھیں نو پرابلم! علی بابا کو معاف کردیں۔اس شریف آدمی کو ہیرو سے زیرو نہ بنائیں۔چالیس ڈاکوﺅں کے ساتھ جس طرح مرضی ہے نمٹیں۔ سردار علی بابا نہیں ہے!
کالم نگار  |  فضل حسین اعوان

Monday, July 16, 2012

برما میں مسلمانوں پر قیامت آخری قسط


 منگل ، 17 جولائی ، 2012

برما میں مسلمانوں پر قیامت ( آخری قسط)
فضل حسین اعوان ـ 8 گھنٹے 57 منٹ پہلے شائع کی گئی
آج کی طرح برمی مسلمانوں پر 1962ءمیں بھی عرصہ حیات تنگ ہوا تھا۔ جنرل نی ون کے دور میں مسلمانوں پر آزمائش کی گھڑی آئی تھی۔ فوج سے مسلمانوں کو مکمل طور پر نکال باہر کیا گیا‘ انہیں جانوروں کا قاتل قرار دیا گیا اور معاشرے میں ان کیلئے ”کالا“ کا لفظ بول کر ان کی معاشرتی تذلیل و تحقیر کی جانے لگی۔ طالبان دور میں افغانستان کے اندر ”بامیان“ کے مجسموں کے معاملے کے بعد برما میں بدھوں کے بلوے نے مسلمانوں کی مساجد اور کئی بستیاں نذر آتش کیں اور قتل و غارت گری کا بازار گرم کئے رکھا۔ 15 مئی 2001ءکو ایک بار پھر بدھوں نے مسلمانوں کی گیارہ مساجد مسمار کیں‘ چار سو سے زائد گھروں کو آگ لگا دی اور دو سو افراد کو موت کے گھاٹ اتار دیا جن میں سے بیس افراد وہ تھے جو مسجد میں نماز ادا کر رہے تھے۔ بدھوں کا مطالبہ تھا کہ مسلمانوں کی مساجد کو مسمار کر دیا جائے جسے حکومت نے تمام بین الاقوامی قوانین کو بالائے طاق رکھتے ہوئے مان لیا‘ متعدد مساجد زمیں بوس کر دی گئیں اور بعض کو مقفل کر دیا گیا۔ مسلمان اپنے گھروں پر عبادت کیلئے مجبور کئے گئے اور بعض نے ہجرت کر لی۔ اب تک لاکھوں برمی مسلمان ہجرت کر کے بنگلہ دیش اور تھائی لینڈ کی سرحدوں پر خیموں میں زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔ 2009ءمیں تھائی لینڈ کی فوج نے برمی مسلمان مہاجرین کو بے دردی سے مارا پیٹا اور پھر انہیں کشتیوں میں بٹھا کر کھلے سمندر میں دھکیل دیا جہاں بے رحم موجیں ان مسلمانوں کو نگل گئیں اور مشرق سے مغرب تک پوری دنیا خاموش رہی۔ اس دوران حکومت برما اور بین الاقوامی اداروں کے بہت سے وعدے‘ مذاکرات‘ بیانات‘ رپورٹس‘ قراردادیں اور سرویز مگرمچھ کے آنسو وں سے زیادہ ثابت نہ ہوئے۔“
برما کے مسلمانوں پر نئے سرے سے عذاب ایک لڑکی کے قبول اسلام کے بعد ٹوٹا۔ بدھ لڑکی کے قبول اسلام پر اشتعال میں آئے اور اسے 28 مئی 2012ءکو قتل کر کے الزام بھی الٹا مسلمانوں پر اس کے ساتھ اجتماعی زیادتی اور قتل کا دھر دیا۔ 3 جون کو ایک بس روک کر تبلیغی جماعت کے دس افراد کو قتل کر کے ان کے سر مونڈے‘ شکلوں کو بے شناخت کیا اور مشہور کر دیا کہ مسلمانوں نے بدھ رہنما اور اس کے شاگردوں کو قتل کیا ہے۔ اس افواہ کے وبا کی طرح پھیلنے کے بعد برما میں کوئی مسلمان محفوظ نہ رہا۔ ان کو بہیمانہ تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ فوج اور پولیس بھی اس جبر میں شدت پسندوں‘ قاتلوں‘ جلادوں‘ انسانیت کے دشمنوں اور شیطان کے بھائیوں کے ساتھ شامل ہو گئی۔ گویا مسلمانوں کی ایذارسانی اور قتل و غارت گری کو مذہبی فریضہ سمجھ لیا گیا۔ 10 جون کو فوج نے مسلم اکثریتی علاقوں میں کرفیو نافذ کیا اور یہ مظالم عالمی برادری کی نظروں سے اوجھل رکھنے کیلئے میڈیا کو علاقہ بدر کر دیا گیا۔ ہزاروں بستیاں تاراج اور لاکھوں جھونپڑیاں نذر آتش کر دی گئیں۔ برمی مسلمانوں پر ڈھائی جانے والی اس قیامت میں اب تک 20 ہزار اپنی جان سے گزر گئے۔ ہزاروں مسلمان اپنی جانیں بچانے کیلئے پناہ کی خاطر ہمسایہ اور برادر اسلامی ملک بنگلہ دیش کی طرف بھاگے تو حسینہ واجد کی بھارت کی طفیلی حکومت نے واپس ان کو مقتل گاہ میں دھکیل دیا۔ اکثر واپسی پر تاک میں بیٹھے گماشتوں کی بندوقوں کا نشانہ بن گئے۔ برما بنگلہ دیش سرحد پر آباد مسلمانوں کو برما بنگلہ دیشی اور اور بنگلہ دیش برمی قرار دے کر ان کو انسانی حقوق دینے پر تیار نہیں۔
اقوام متحدہ تو ان اقوام کی لونڈی ہے جو مسلمانوں کے کشت و خون میں ملوث ہیں۔ اس سے گلہ کیسا؟ مغرب کی اسلام دشمنی مسلمہ ہے‘ اس سے شکوہ کیا؟ او آئی سی آخر کیوں سوئی ہوئی ہے؟ یہ اہم سوال ہے۔ آج میڈیا بڑا آزاد ہے۔ غیر جانبدار ہے‘ دنیا کے کونے کونے سے پل پل کی خبر نکالتا ہے لیکن برما کے ستم رسیدہ مسلمانوں کی حالت زار کا جائزہ لینے اور ان کے سر پر موت کی لٹکتی تلوار اور ان کے سینے پر تانی بندوق اور پیٹ کی طرف بڑھنے والے خنجر و تیغ کو ہٹانے کیلئے کوئی کردار ادا نہیں کر رہا۔ خصوصی طور پر مسلم اور سب سے بڑھ کر پاکستانی میڈیا کی بے حسی شرمناک اور قابل مذمت ہے۔ کیا او آئی سی‘ اسلامی ممالک انفرادی اور میڈیا اجتماعی طور پر برما میں آخری مسلمان کے بھی ذبح ہونے اور آگ میں جلائے جانے کا منتظر ہے؟ راکھائن کے مکین جنوبی سوڈان اور مشرقی تیمور کی طرح اپنے لئے آزاد ریاست کے قیام کی بات نہیں کرتے وہ تو صرف زندہ رہنے کا حق مانگتے ہیں۔ عام انسانوں کی طرح زندہ رہنے کا‘ اس سے کہیں کم تر جتنا مغرب جانوروں کو حق دیتا ہے۔ ان بے بس و بے کس مسلمانوں کی آواز تو دبائی جا سکتی ہے لیکن مسلمان ممالک کے غیرت مند عوام کے جذبات کا گلا دبانا کسی کے بس میں نہیں۔ سارے بدھ مت شاید دہشت گرد نہ ہوں لیکن جو ہیں وہ یاد رکھیں۔ جہاد اور جہادیوں کیلئے جغرافیائی سرحدیں کوئی حیثیت نہیں رکھتیں۔ جہادی برما میں داخل ہوئے تو مسلمانوں کو ان کے حقوق دلائے بنا واپس نہ لوٹیں گے۔

Thursday, July 12, 2012

”تاپیب “


جمعرات ، 12 جولائی ، 2012

”تاپیب “
فضل حسین اعوان ـ
پاکستان اور بنگلہ دیش کا ایک اور دُکھ سانجھا نکل آیا۔ اس کو بھی گیس کی اسی طرح قلت کا سامنا ہے جس طرح پاکستان کو۔ ہم تو گیس کی کمی کے خاتمے کا کوئی قابلِ عمل حل نہیں نکال سکے بنگلہ دیش کو اس کے لئے ایک ترکیب سوجھی ہے وہ اس معاہدے میں شامل ہونا چاہتا ہے جو کسی اور کو وارے میں نہ ہو امریکہ کے وارے میں ضرور ہے، اس سے کسی کے بھی وارے نیارے ہونے کا کوئی امکان نہیں اس کے باوجود بھی بُزِا خفش کی طرح سر ہلائے چلے جا رہے ہیں۔ 
پاکستان کے پاس گیس کی کمی دور کرنے کا بہترین اور قابلِ عمل طریقہ ایران سے گیس کی درآمد ہے جس کا معاہدہ ہو چکا ہے۔ ایران کی طرف سے لائن تعمیر ہو چکی ہے۔ پاکستان امریکہ کی پابندیوں کی دھمکیوں کے باعث معاہدے کو عملی شکل دینے سے متذبذب ہے۔ کیا امریکہ نے اپنے مفاد کے فیصلے کبھی پاکستان سے پوچھ کر کئے ہیں؟ پابندی کی بات صرف پاکستان کے لئے ہی کیوں؟ آدھی دنیا بھارت اور چین سمیت ایران سے تیل درآمد کر رہی ہے، وہ پابندیوں اور ایران سے درآمدات کے لئے آزاد ہیں۔ ایران نے تو پاکستان کے اندر تک گیس پائپ لائن بچھانے کی پیشکش کر دی ہے لیکن پابندیوں کی دھمکی آڑے آ رہی ہے ع 
ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجات 
کیمرون منٹر کا بیان ملاحظہ فرما یئے‘ ”عمران خان اور نواز شریف نے امریکہ کے حامی ہونے کا یقین دلایا ہے۔“ گویا اسلام آباد کو راستہ واشنگٹن سے ہو کر جاتا ہے۔ آج اسلام آباد میں بیٹھنے والے بھی سوئے واشنگٹن گئے، نہال ہو کر آئے اور کمال کر رہے ہیں۔ اب یہی ان کے زوال اور قوم کے ملال کا سبب ہے۔ ایران سے سستی گیس بجلی اور تیل لینے سے انکار اسی کمال کی نشانی ہے۔ 
امریکہ سرکار کا زور ہے کہ اپنے پڑوس سے نہیں، پاکستان 6 ہزار کلو میٹر دور، ترکمانستان سے گیس برآمد کرے۔ اس معاہدے میں پاکستان کے ساتھ افغانستان اور بھارت کو پرویا گیا ہے۔ اس منصوبے کو ترکمانستان، افغانستان، پاکستان اور انڈیا کے ناموں کی مناسب سے ”تاپی“ کا نام دیا گیا ہے۔ امریکہ کو اس معاہدے سے دلچسپی اس لئے ہے کہ متعدد وسط ایشیائی ممالک کے گیس کنو ¶ں کے ٹھیکے سابق امریکی نائب صدر ڈک چینی کی کمپنی کے پاس ہیں۔ 
اب بنگلہ دیش کو بھی تاپی کا تاپ چڑھ گیا ہے اس نے بھی اس منصوبے میں شامل ہونے کا فیصلہ کیا ہے۔ ایشیائی ترقیاتی بنک بھی اس منصوبے میں دلچسپی لے رہا ہے جس نے معاملات آگے بڑھائے ہیں۔ ترکمانستان حکومت تو ایسی درخواستوں کی منتظر اور ڈک چینی کی گیس کمپنی اپنا بزنس بڑھنے پر ترکمانستان سے بھی زیادہ خوش ہے۔ بنگلہ دیش آج معاہدے میں شامل ہوتا ہے‘ معاہدے کی تکمیل میں اتنی مدت لگے گی کہ معاہدے پر دستخط کرنے والے وزیر کے پوتے ہی شاید اس گیس سے استفادہ کر سکیں گے۔ گیس پائپ لائن افغانستان، پاکستان اور بھارت سے گزر کر بنگلہ دیش پہنچے گی۔ تاپی معاہدہ جو بنگلہ دیش کے اوکھلی میں سر دینے سے تاپیب ہو جائے گا اس پر آج عمل شروع ہو تو پاکستان میں سات سال میں پائپ لائن پایہ تکمل کو پہنچے گی وہ بھی اگر افغانستان میں موجود پاکستان مخالف شرپسندوں کے ہاتھوں سے محفوظ رہے۔ پھر پاکستان اور بھارت سے گزر کر بنگلہ دیش جانے میں کتنی مدت درکار ہو گی؟ بھارت کو بھی اس لائن سے کوئی دلچسپی نہیں وہ صرف پاکستان ایران گیس معاہدہ ختم کرانا چاہتا ہے جس میں وہ کچھ عرصہ پہلے تک خود بھی شامل تھا۔ اوّل تو تاپی یا تاپیب معاہدہ قابلِ عمل ہی نہیں، یہ ہنڈیا بیچ چوراہے پھٹے اور پھوٹے گی۔ اگر معاہدہ تکمیل کے مراحل طے بھی کر لیتا ہے تو مذکورہ ممالک کی گردن ڈک چینی کی امریکی کمپنی یعنی امریکہ کے ہاتھ میں ہو گی جو کسی بھی وقت اس پر دبا ¶ بڑھا سکتا ہے۔ ایسے منصوبے میں شامل ہونے کی ضرورت ہی کیا جس کی شہ رگ اس کے ہاتھ میں ہو جس سے خیر کی توقع عبث ہے۔ ویسے بھی ہماری قومی غیرت اور ملی انا کا تقاضا ہے کہ کشمیر جیسے تنازعات کے ہوتے ہوئے بھارت کے ساتھ کسی بھی منصوبے میں شامل نہ ہوں خواہ وہ کتنا ہی پاکستان کے مفاد میں کیوں نہ ہو۔

Tuesday, July 10, 2012

سپلائی، معذرت معافی اور مک مکا؟


منگل ، 10 جولائی ، 2012

سپلائی، معذرت معافی اور مک مکا؟
فضل حسین اعوان ـ
معافی اور معذرت میں فرق کو سب جانتے اور سمجھتے ہیں ”سوری“ سہو یا نادانستہ غلطی پر کہا جاتا ہے۔ جرم پر سزا ہوتی ہے، جرم کی نوعیت کے مطابق.... خون کا بدلہ خون، کان کے بدلے کان، آنکھ کے بدلے آنکھ --- البتہ درگزر کیا جائے تو صلہ رحمی ہے درگزر تبھی اگر مجرم اپنے کئے پر شرمندہ ہو۔ نیٹو سپلائی کی بحالی کیلئے معافی اور ڈرون حملوں کی بندش آخر میں دو مطالبے رہ گئے تھے۔ اصولی طور پر معانی کیلئے مجرم پارٹی کو ہاتھ جوڑنے چاہئیں۔ ہمارے ہاں اس کے برعکس ہوا ہم بار بار معافی کا تقاضا کرتے رہے اور اتنے مجبور ہوئے کہ معذرت کو معافی کے مقام اولیٰ کا درجہ دے دیا۔ ڈرون سپلائی کی بحالی کے بعد بھی پاکستان کی سرحدوں اور خود مختاری و سالمیت کا مذاق اڑا رہے ہیں۔ فوج شروع دن سے کہہ رہی ہے کہ حملہ دانستہ کیا گیا جس میں 24 فوجی شہید ہوئے۔ اس پر ہلیری کی سوری کام دکھا گئی جو وہ سر محفل انگڑائی و جماہی لینے اور کھنکارنے پر کہہ دیتی ہے۔ یہ سوری ہمارے 24فوجیوں کی شہادت کا بدلہ و دیت ثابت ہوئی۔ کہا جاتا تھا امریکہ کے ساتھ معاملات برابری کی سطح پر طے کریں گے، کونسی اور کیسی برابری؟ محمود و ایاز کے ایک ہی صف میں کھڑے ہونے سے دونوں کا سٹیٹس نہیں بدلتا۔ ایک ہی میز کے گرد ایک جیسی کرسیوں پر بیٹھ جانے کو برابری قرار دیا جا سکتا ہے؟ ایسی برابری میں ہمارے جیسے ممالک کی بربادی ہی بربادی ہے۔
معلوم ہوتا ہے کہ پارلیمنٹ کے اندر اور باہر نیٹو سپلائی کی بحالی کے لئے حالات کے شکنجے میں آئے ہوئے فریق نے کافی کام کیا۔ 18ویں ترمیم کے بعد ہر پارلیمنٹرین کو رام کرنے کی ضرورت نہیں رہی۔ پارٹی قائد کو ”جام“ کر لینا کافی ہے۔ دستی کی استعفے جیسی دھمکی کے بعدپستی اور فیصل صالح کا جوش و خروش سے راجہ کو ووٹ دینے سے انکار اور پھر یگانگت کا اظہار 18ویں ترمیم کے پارٹی سربراہ کو تفویض کئے گئے اختیارات کا ساخشانہ ہے پارٹی قائد کی ایک جنبش ابرو پر رکنیت سگریٹ کے کش کی طرح دھواں بن کر اڑ جاتی ہے۔ 
قومی سلامتی کی پارلیمانی کمیٹی کی دو درجن سفارشات کم ہوتی ہوتی دو اڑھائی، معافی، ڈرون حملوں کی بندش اور 5 ہزار فی کنٹینر فیس پر آ گئی تھیں۔ مسلم لیگ ن نے عافیہ صدیقی کی رہائی کا مطالبہ بھی رکھا تھا یہ تقاضے یہ مطالبے کیا ہوئے اور کیسے ہوئے؟ پارلیمنٹ کے اندر کے کردار، پارلیمنٹ کے باہر کے فنکار، سیاسی و غیر سیاسی صداکار، ریاستی و غیر ریاستی اداکار ایک ہوئے تو سپلائی بحال ہو گئی۔ عافیہ کی رہائی کی شرط واپس لی، پارلیمانی کمیٹی کی سفارشات کو یس کہا، اب ن لیگ کس منہ سے کہتی ہے پارلیمنٹ میں نیٹو سپلائی کی بحالی کی مخالفت کریں گے۔ آج کل بڑے میاں صاحب کے بیانات گیلانی کے بیانات کا پَرتو نظر آتے ہیں۔ کل میاں صاحب نے کہا تھا دوہری شہریت کا قانون دو تین افراد کے لئے لایا جا رہا ہے آج کہہ دیا دوہری شہریت کےخلاف نہیں۔ حکومت بل کی منظوری میں جلد بازی نہ کرے۔ کل کس کو خوش کرنے کیلئے کہا تھا آج کس کی طبع نازک پر پھول و مشک برسار ہے ہیں؟
تھوڑا پیچھے چلے جائیے، سونامی خان اور دفاع پاکستان کونسل کی نامی گرامی خان کہتے تھے نیٹو سپلائی بحال نہیں ہونے دیں گے۔ سڑکوں پر لیٹ کر کنٹینر روکیں گے۔ سپلائی بحال ہوئی تو جلسے، جلوس ہوئے۔ لانگ مارچ اسی طرح رواں دواں ہے جیسے کنٹینر سوئے کابل۔ حکمران تو پہلے دن سے ہی سپلائی کی بحالی پر تیار تھے بحال اس لئے نہ کی کہ عوامی ردعمل عروج پر تھا۔ کہا جاتا ہے سات آٹھ ماہ اس رد عمل پر قابو پانے کے لئے ”کام کیا“ گیا۔ کیا حالات ایسا کئے جانے کی گواہی نہیں دیتے؟ امریکی حکام کا یہاں آنا ایک معمول ہے۔ خان اور شیخ کا سپلائی روکنے کے بلند بانگ دعوﺅں کے باوجود امریکہ جانا معمول نہیں اور پھر کنٹینرز کو بزور روکنے سے گریز سے کیا ظاہر ہوتا ہے۔ حضرات گرامی ڈی چوک کو تحریر سکوائر بنانے کا اعلان کر رہے ہیں کیا کابل جانے والے ٹرک ڈی چوک سے گزریں گے؟ دعویداروں نے افغان بارڈر تک ہر موڑ کو تحریر چوک بنایا ہوتا تو پاکستان سے کوئی بھی ٹرک ہم پاکستانیوں کی موت کا سامان لیکر افغانستان میں داخل نہ ہوتا۔ صاحبان جبہ و دستار اور ان کے چند پرستار، دعا گو ہیں کہ ان کو گرفتار کر لیا جائے۔ فرینڈلی گرفتاریوں سے ان کو ایک محفوظ راستہ مل جائے گا۔ آخر یہ احتجاج کب تک جاری رہے گا دس دن، بیس دن، مہینہ، زیادہ سے زیادہ ڈیڑھ مہینہ‘ پھر ٹھنڈے کمروں میں پریس کانفرنسیں اور بات ختم۔ دفاع پاکستان کونسل سے قوم کی بڑی توقعات ہیں اس میں شامل متعدد شخصیات انتہائی محترم ہیں وہ کوئی مک مکا کر لیں گی، سوچا تک نہیں جا سکتا لیکن ہر کوئی انمول نہیں‘ جن پر کام ہوا۔ ان کے ہاتھوں ایمان افروز لانگ مارج کو یرغمال نہ بننے دیں۔ اسلام آباد میں دھرنے کے بعد سپلائی کے روٹ بند کریں جیسا کہ وعدہ کیا گیا تھا تاکہ کسی کو یہ کہنے کا موقع نہ ملے کہ سپلائی سب سے ”مک مکا “کے بعد بحال ہوئی۔



Sunday, July 8, 2012

خود بدلتے نہیں.......


اتوار ، 08 جولائی ، 2012

خود بدلتے نہیں
فضل حسین اعوان ـ 
بھارتی نژاد خلا نورد سنیتا ولیمز ان امریکی سائنسدانو ں کی ٹیم کا حصہ تھیں جو 2007 میں 195دن بین الاقوامی خلائی اسٹیشن پر مقیم رہی۔یہ ٹیم اٹلانٹس کے ذریعے اسٹیشن پر وقوع پذیر ہونیوالی خرابیاں دور کرنے گئی تھی۔ خلائی سٹیشن سے واپسی پر سنیتا کو جن مظاہرِ عجائب کا مشاہدہ ہوا وہ اس کی زبانی سنیئے۔ ”جب میں نے چاند پر پہنچ کر زمین کی طرف دیکھا تو مجھے زمین پر اندھیرا نظر آیا لیکن دو جگہیں ایسی تھیں جہاں سے روشنی نظر آ رہی تھی۔ ٹیلی سکوپ سے دیکھا تو وہ مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ تھے۔ دوسرا مشاہدہ یہ ہواکہ اس مقام پر ہر فریکوئنسی فیل ہورہی تھی لیکن پھر بھی اذان کی آواز واضح آرہی تھی“۔ ان مشاہدات کے بعد سنیتا نے دین حنیف قبول کرلیا تھا۔سنیتا کے اسلام قبول کرنے پر غیر مسلم متعصب حلقوں نے تو جزبز ہونا ہی تھا کچھ ہمارے اپنے بھی اپنی پلمبرانہ حکمت اور جاہلانہ دانش کا اظہار فرما رہے ہیں۔ وہ اس واقعہ کو بے بنیاد ثابت کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ یہ صرف دورِ حاضر کے بزغمِ خویش محققین کے ہی دماغ میں کیڑا نہیں۔ یہ بیماری صدیوں سے چلی آرہی ہے۔ نبی کریم کی شان تو یہی ہے ....ع
بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر 
حضور کا سایہ نہیں تھا۔ ایک بدلی آپ کے سر پر سایہ فگن رہتی تھی۔ کنکریوں نے آپ کی مٹھی میں کلمہ پڑھا لیکن دیکھنے والے پھر بھی ایمان نہ لائے جن کو اللہ نے ایمان کی دولت سے نوازنا تھا وہ معجزوں کے منتظر اور متمنی نہیں تھے۔ منکرین نبوت اس سب کو سحرکا نتیجہ قرار دیتے تھے۔
معجزے کا تو مطلب ہی ایسے واقعہ کا ظہور ہوتا ہے جو ماورائے عقل ہو۔ اس کی کوئی سائنسی توجیہہ نہیں ہو سکتی۔ اسی لئے مخالفین، اسلام کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں لیکن خدائے بزرگ برتر خود ان کے ذریعے ہی اسلام اور معجزات کی حقانیت ثابت کر دیتا ہے۔ سورة قمر میں چاند کے دو ٹکڑے ہونے کا معجزہ تفصیل کے ساتھ موجود ہے۔ امریکہ نے چاند کے سفر کیلئے 5کھرب ڈالر خرچ کئے واپسی پر خلا نوردوں نے تصویریں جاری کرتے ہوئے اعتراف اور اہل مغرب کیلئے انکشاف کیا کہ چاند کبھی دو ٹکڑے ہوکر جڑا تھا۔آج الیکٹرانک سگنل کھربوں میل دور تک آواز اور تصویر لے جاتے ہیں۔ واقعہ معراج النبی کو اسی تناظر میں لیا جائے تو یہ پھر عقل میں آنیوالا واقعہ بھی بن جاتا ہے۔
افسوس تو اس بات کا ہے کہ خود ہمارے کچھ اکابرین جن کی تعداد آٹے میں نمک سے بھی کم ہے۔ یوں سمجھ لیجئے ایک کروڑ میں ایک۔وہ جب شق القمر جیسے معجزات میں شکوک شہبات پیدا کرنے کی کوشش کریں گے تو اسلام دشمنوں کو دین حنیف پر انگلی اٹھانے کا موقع توملے گا ہی، ساتھ معمولی پڑھے لکھے مسلمان بھی ذہنی خلفشار میں مبتلا ہوسکتے ہیں حالانکہ کروڑ وںعلماءکے ایقان افروز دلائل کے سامنے چند ایک کی خود ساختہ توجیحات کی کوئی اہمیت نہیں۔ آخر ان مخرب الذہن افراد کو ایسے معاملات میں سخن آرائی کی ضرورت ہی کیوں پیش آتی ہے کہ شعائر اسلام کو اپنی ناقص عقل کی کسوٹی پرپرکھنے کی کوشش کریں ان ابنِ ابیوں سے نہ صرف بچنے بلکہ ان کو بے نقاب کرنے کی بھی ضرورت ہے۔ مدینہ سے 35 کلو میٹر دور وادی جن میں آج بھی جنوں کا ڈیرہ اور بسیرا ہے یہ مدینہ النبی کی وجہ سے ہے یا کوئی وجہ ہوسکتی ہے۔اس وادی میں ڈھلوان سے اوپر چڑھتی ہوئی گاڑی کا انجن بند کردیاجائے تو بھی گاڑی اوپر چڑھتی چلی جاتی ہے۔اس کو آج کے اجہل محققین کسی مقناطیسی کشش کا نتیجہ قرار دیتے ہیں لیکن رات کو وہاں جن کسی انسان کو داخل ہی نہیں ہونے دیتے اور وہاں سے جو عجیب و غریب آوازیں آتی ہیں اس کی کوئی وضاحت یہ محققین پیش نہیں کر سکے۔ سوڈان کے معروف عالمِ دین صدیقین ایک مرتبہ دو دیگر علما کے ساتھ اور دوسری مرتبہ رات کے وقت اکیلے ہی اس وادی میں گئے ۔اس مرتبہ وہ مکمل روحانی علوم کی تیاری کے ساتھ یہاں پہنچے تھے۔ ایک مقام پر انہیں ایک اونٹ سوار اپنی جانب آتا ہوا محسوس ہوا۔ انہوں نے اس اونٹ سوار کو اپنے ساتھ گاڑی میں موجود قہوہ پینے کی دعوت دی۔ اس کے جواب میں اونٹ سوار کے بجائے وہ اونٹنی انسانی آواز میں گویا ہوئی کہ وہ انسانوں والے کھانوں سے اجتناب برتتے ہیں، اونٹنی کے اس طرح انسانی آواز میں گویا ہونے پر جب انہوں نے اس شتربان کی طرف دیکھا تو اس نے انہیں بتایا کہ یہ اونٹنی دراصل اس کی بیٹی ہے جو بڑھاپے میں اپنے باپ کو لادے پھرتی ہے ۔
جس طرح کی شیطانی ذہانت، اسلام کی حقانیت میں شک و شبہات پھیلانے کیلئے استعمال کی جاتی رہی ہے ایسی ہی تخریبی دانش پاکستان کو سیکولر ریاست ثابت کرنے کیلئے بروئے کار لائی جارہی ہے۔ قیام پاکستان کو اتفاق اور نہرو، گاندھی کا کارنامہ قرار دینے والوں کی کمی نہیں۔ ایک طبقہ یہ ثابت کرنے کی پوری کوشش کر رہا ہے کہ پاکستان کا رمضان المبار ک میں معرض وجود میں آجانا بھی ایک اتفاق ہے لیکن پاکستان کو مدینہ کے بعد دوسری نظریاتی ریاست قرار دینے والوں کا ایمان ہے کہ خدائے بزرگ برتر نے قیام پاکستان کیلئے ہزار راتوں سے برتر رات اور دنوں کا سردار جمعہ اور پھر جمعتہ الوداع کا انتخاب، اپنی رحمت و برکت کیلئے کیا تھا۔کافی عرصہ سے لوگوں کے اذہان میں اس حوالے سے شکوک پیدا کئے جا رہے ہیں۔کہا جا رہا ہے کہ فلاں دانشور، فلاں محقق فلاں عالم نے اپنی کتاب میں، اپنے خط میں یا اپنے مضمون میں یہ لکھا تو اس سے ثابت ہوتا ہے کہ پاکستان 26 رمضان نہیں بلکہ 29,28 رمضان کو معرضِ وجود میں آیا۔ نوائے وقت کے ریکارڈ روم میں نوائے وقت کے پرچوں کی فائلیں موجود ہیں ۔ میں نے اگست1947 کی فائل منگوائی۔ نوائے وقت کی پیشانی پرشروع سے ہجری کے ساتھ عیسوی مہینے کی تاریخ اور دن درج ہوتا آ رہا ہے۔ نوائے وقت کی پیشانی دیکھنے اور پڑھنے پر واضح ہوگیا کہ جس رات کو قیام پاکستان کی خوشخبری سنائی گئی وہ ستائیسویں کی شب اور جمعہ کی رات تھی۔ 14اگست 1947 کو 26 رمضان المبارک سن ،1366 ہجری تھا۔ پاکستان سے کدورت اور کرودھ رکھنے والے اپنی تاریخ کو درست کریں ....
خود بدلتے نہیں ،قرآں کو بدل دیتے ہیں !
ہوئے کس درجہ فقیہان حرم بے توفیق


Thursday, July 5, 2012

سمندل- قُقنُس


انجام
فضل حسین اعوان ـ 8 جون ، 2010

 ہیمبرگ کے ایک ڈیزائنر نے چائے کی کیتلی سے بیزار‘ چائے بنانے اور نوش فرمانے والوں کے لئے کیتلی کے ایک سرے پر بانسری فٹ کر دی ہے جس سے چائے یا قہوے کا پانی گرم ہونے کے ساتھ ساتھ بھاپ سے موسیقی کے سر نکلنا شروع ہو جاتے ہیں۔ یہ کوئی بہت بڑی ایجاد نہیں یوں سمجھ لیجئے باورچیوں اور خانساموں کے لئے ایک تفریح ہے۔ جبکہ اس سے کہیں بڑھ کر ایجادات ہو چکی ہیں۔ انسان جتنا بھی ترقی یافتہ ہو جائے‘ قدرت کاملہ کی تخلیق کی طرز پر تخلیق نہیں کر سکتا۔ وہ اتنا ہی کر سکتا ہے جتنا شعور دیا گیا ہے۔ تان سین کے بارے میں مشہور ہے کہ راگ کے دوران اس کے سروں کے اثر سے آگ لگ جایا کرتی تھی۔ خدا کی قدرت دیکھئے قُقنُس ایک پرندہ ہے۔ خوش رنگ اور خوش آواز۔ اس کی چونچ میں 360 سوراخ ہیں۔ ہر سوراخ سے ایک راگ نکلتا ہے۔ جب مرنے لگتا ہے تو لکڑیاں جمع کرکے اوپر بیٹھ جاتا ہے۔ دیپک راگ الاپنے سے لکڑیوں میں آگ لگتی ہے تو جل مرتا ہے۔ بارش سے اس راکھ سے انڈہ پیدا ہوتا ہے جس سے نیا قُقنُس جنم لیتا ہے۔ اس کی عمر 500 سال بتائی جاتی ہے۔ سمندل کا ذکر بھی ملاحظہ فرمائیے۔ یہ آگ میں پیدا ہونے والا جانور ہے۔ آگ میں ہی زندہ رہ سکتا ہے۔ آگ سے باہر نکلے تو پانی سے باہر آنے والی مچھلی کی طرح زندہ نہیں رہ سکتا۔ اس کے بالوں سے برتن صاف کرنے والی جالی بنتی ہے۔ جالی کو صاف کرنے کے لئے آگ کے اندر رکھنا پڑتا ہے۔ سورج پر کسی بھی مخلوق کے نہ ہونے کا دعویٰ کرنے والوں کو یقین کر لینا چاہئے کہ وہاں اور کچھ ہو نہ ہو سمندل تو ضرور ہوں گے۔قیامت کی نشانیوں میں دابتہ الارض کے ظہور کا بھی ذکر ہے۔ یہ مسجد الحرام کے قریب صفا و مروہ کی پہاڑیوں کے درمیان سے ایک زلزلے سے نمودار ہو گا۔ چوپائے کا قد 60 گز بتایا گیا ہے۔ شکل انسان جیسی‘ پائوں اونٹ‘ گردن گھوڑے‘ سر ہرن‘ سینگ بارہ سنگھے اور ہاتھ بندر جیسے ہوں گے۔ ایک ہاتھ میں حضرت موسیٰؑ کا عصا‘ دوسرے میں حضرت سلمانؑ کی انگشتری ہو گی۔ یہ لوگوں سے باتیں بھی کرے گا۔ قُقنُس کے حوالے سے شاید کچھ لوگوں کے ذہن میں یہ ہو کہ قُقنُس ایک فرضی پرندہ ہے۔ ہما کے بارے میں بھی لوگوں کا شاید یہی خیال ہو لیکن فرضی اور حقیقی کی بحث میں پڑے بغیر غور فرمائیے کیا ایسے جانوروں کو پیدا کرنا خدائے بزرگ و برتر کے لئے ممکن نہیں؟ ذات کبریا کے ایک ’’کن‘‘ سے پوری کائنات تخلیق ہو سکتی ہے‘ اس کائنات میں جو کچھ بھی ہے وہ تمام اس کی دسترس میں ہے وہ اس میں کسی بھی وقت کمی بیشی اور تبدیلی پر قادر ہے۔ ہمارے سامنے جدید دور میں بے شمار مثالیں ہیں۔ شاہوں کو گدا بنتے‘ بادشاہوں کو محلات سے نکل کر جیلوں میں جاتے دیکھا۔ نصیب میں تخت تھا تو تختہ دار بھی مقدر بن گیا۔ ایسے مردِ معقول بھی موجود ہیں جنہوں نے مروجہ سیاست پر اس لئے لعنت بھیج دی کہ قائداعظم کے بعد اس میں جھوٹ کا عنصر غالب آ گیا ہے۔ ایسے بھی ہیں جو راہزن سے راہبر بنے‘ جن سے امید تھی کہ انسان بھی بن جائیں گے لیکن اندر کی راہزنی برقرار ہے۔ ماضی کے کرتوتوں کو سرمایہ سمجھتے ہوئے حال پر نظر‘ مستقبل سے بے خبر ہیں۔ انسان کا مستقبل ایک سانس اور سو سال بھی ہو سکتا ہے۔ سو سال بعد بھی ٹھکانہ دوگز زمین اور کل ملکیت لٹھے کی چادر ہے۔ عوام کے خون پسینے کی کمائی سے قومی خزانہ بھرتا ہے۔ جس میں ملین ملین اور بلین بلین کا ڈاکہ ڈالا جاتا ہے۔ لٹنے والے بے حال اور لوٹنے والے بظاہر خوشحال ہو جاتے ہیں۔ ایک طرف انسان بھوکے مر جاتے ہیں دوسری طرف ناجائز دولت کمانے والوں کے کتے گھوڑے اور کھوتے ائرکنڈیشنر عمارتوں میں انواع و اقسام کے پکوانوں‘ خوراکوں اور چاروں سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ اگر ہمارے سیاستدان اور کاروباری لوگ اپنی جائز ناجائز دولت پاکستان لے آئیں تو تمام قرضے اترنے کے ساتھ ساتھ ملک و قوم خوشحال ہو سکتے ہیں۔ بجٹ میں ایوان صدر اور وزیراعظم ہائوس کے ماہانہ اخراجات 90 کروڑ سے زائد رکھے گئے ہیں۔ اتنے بڑے اخراجات پاکستانی عوام کے ساتھ مذاق ہے۔ صدر‘ وزیراعظم‘ گورنرز‘ وزرائے اعلیٰ‘ تمام بیوروکریٹس‘ وزیر‘ مشیر اور عوامی نمائندے فضولیات سے ہاتھ کھینچ لیں تو ماہانہ کھربوں روپے کی بچت ہو سکتی ہے۔ یہ پیسے ہزاروں بیٹیوں کے ہاتھ پیلے کرنے‘ سینکڑوں بے کسوں کو خودکشی سے بچانے اور لاکھوں بچوں کو زیورِ تعلیم سے آراستہ کرنے کے کام آ سکتے ہیں۔

Wednesday, July 4, 2012

ججوں کی چھٹیاں


جمعرات ، 05 جولائی ، 2012
۔
ججوں کی چھٹیاں
فضل حسین اعوان 
بجلی کی لوڈ شیڈنگ کی وجہ سے چھٹی کا اشتیاق عام آدمی کےلئے کچھ گہنا سا گیا ہے۔ خاص طور پر جن سرکاری اور غیرسرکاری ملازمین کو ڈیوٹی کی جگہ پر اے سی کی سہولت حاصل ہے۔ ان میں سے اکثر جن کو کام موت دکھائی دیتا تھا ‘اب بنا بجلی کے گھر میں ہفتہ وار چھٹی اپنی فیملی کے ساتھ گزارتے ہوئے کوفت ہوتی ہے چونکہ چھٹی لازم ہے اس لئے چھٹی کا دن گھر پر گزارنے پر مجبور ہیں۔ اسی سے ملتی جلتی مجبوری ”پڑھاکو“ طلباءو طالبات کو بھی درپیش ہے۔ گرمیوں کی چھٹیاں ان کےلئے لازم ہیں۔ ان کو مجبوراً دو تین مہینے کتابوں سے لاتعلق رہنا یا اکیڈیمیز کی اوکھلی میں سر دینا پڑتا ہے۔ ایسی لازم چھٹیاں عدالتوں میں بھی ہوتی ہیں۔ نہ صرف گرمیوں میں بلکہ سردیوں میں بھی ۔سپریم کورٹ میں نہیں ہوتیں۔ ہائیکورٹ میں دو ماہ گرمیوں، 20 دن سردیوں میں‘ لوئر کورٹس میں بالترتیب ایک ماہ اور ایک ہفتہ ہوتی ہیں۔ ہائیکورٹ اور ماتحت عدالتوں کے جج سوائے چند ایک کے جو شاید ہنگامی ضمانتوں وغیرہ کےلئے بیٹھتے ہیں۔ باقی سب چھٹی پر ہوتے ہیں۔ پاکستان میں تعلیمی اداروں اور عدلیہ کے سوا کوئی تیسرا ادارہ محکمہ یا شعبہ نہیں ہے۔ جہاں بیک وقت سارا سٹاف چھٹیوں پر ہو۔ فوج میں ڈیڑھ دو ماہ کی چھٹیوں کی سہولت ہے لیکن بیک وقت نہیں۔ ڈاکٹروں سمیت دیگر سرکاری ملازمین کو بھی ایک مخصوص تعداد میں چھٹی مل جاتی ہے۔ ان کو ایک دوسرے کی سہولت کےمطابق ایڈجسٹمنٹ کرنا ہوتی ہے۔ تعلیمی اداروں میں ہمارے جیسے تعلیمی پسماندگی کی دلدل میں دھنسے معاشرے میں سال میں ایک تہائی چھٹیاں کرنا ظلم ہے۔ پرائمری تک کے بچے واقعی پھولوں‘ نوخیز کلیوں اور کونپلوں کی مانند ہوتے ہیں۔ ان کےلئے گرمیوں کی چھٹیاں لازم ہیں۔ باقی کو تعلیم اجاڑنے کے مترادف ہے۔ میڈیا میں سب سے کم 6چھٹیاں 2,2عیدین، ایک عید میلاد النبی اور ایک یومِ عاشورہ کو کی جاتی ہے۔دیگر ادارے اس کی تقلید کریں تو اچھا ہے۔
گذشتہ دنوں قیوم نظامی صاحب نے اپنے کالم میں جناب خلیل الرحمن رمدے کے حوالے سے لکھا تھا کہ وہ جاپان گئے تو ان کے عدالتی سسٹم کا جائزہ بھی لینا چاہا۔ ان کو اکثر کورٹ رومز خالی ملے۔ ایک آدھ میں کیس کی سماعت ہو رہی تھی۔ (باقی عدالتوں کے جج شاید اسی طرح کے سائل کے انتظار میں ہوں گے جس طرح ہمارے ہاں کرسی میز اور ساتھ کھڑی موٹر سائیکل پر مشتمل چیمبر کے وکلا کلائنٹ کے انتظار میں ہوتے ہیں)۔ جسٹس رمدے صاحب کو بتایا گیا کہ مقدمات کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ججوں کی چھٹیوں کی روایت سوا صدی پرانی ہے۔ اس وقت انگریز راج مضبوط تھا۔ مقدمات کی بھی صورتحال شاید وہ نہ ہو جو آج ہے۔ انگریز جج گرمی کی وجہ سے اپنے ملک لوٹ جاتے ہونگے۔ آج جو حالات اور صورتحال ہے ہمارے اوپر کسی بھی دور سے زیادہ قائداعظم کا فرمان کام کام اور صرف کام لاگو ہوتا ہے۔ آج اس روایت سے منہ موڑنے اور اسے توڑنے کی اس لئے بھی ضرورت ہے کہ سائل انصاف کی تلاش میں سرگرداں ہیں۔ جاپان کی طرح مقدمات یقیناً معاشرے کے صالح بننے سے ہی نہ ہونے کے برابر ہو سکتے ہیں۔ فاضل جج حضرات مقدمات کو اپنی محنت اور کاوش سے جاپان جیسی سطح پر لے آئیں تو پھر چھٹیاں ہی چھٹیاں ہیں۔ ویسے بھی مراعات، گھروں اور دفاتر میں بجلی کی نان سٹاپ آمد اور ائرکنڈیشنڈ ماحول، شدید گرمی میں بھی یورپ جیسا سماں پیدا کر دیتا ہے۔ کچھ جج حضرات اور اعلیٰ پائے کے وکلاءیورپ یا پرفضا مقام پر چھٹیاں گزارنے چلے جاتے ہوں گے۔ ایسے وکلا کی تعداد لاکھوں میں ہو گی جو چھٹیوں کا ایک ایک دن گن کر گزارتے ہیں اور ان وکلا سے کئی گنا زیادہ سائل مقدمات کی طوالت پر کڑھتے ہیں۔ چیمبر بردوش و بردو چرخ وکلاءروزانہ کی بنیاد پر روزی کو” کڑکّی اور پھاہی “لگاتے ہیں۔ انکی یہ چھٹیاں کیسی گزرتی ہیں، یہ وہی جانتے ہیں یا ان کے اہل خانہ۔گزشتہ سال 5 مارچ کو چیف جسٹس صاحب نے کراچی بار ایسوسی ایشن کی تقریب حلف برداری میں خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ عدالتوں میں 25 لاکھ مقدمات زیر التواءہیں‘ ان میں سے 10 فیصد سپریم کورٹ اور ہائیکورٹس میں ،باقی ماتحت عدلیہ میں ہیں۔ اسکی وجہ ججوں کی کمی‘ پولیس کا عدم تعاون اور دیگر معاملات بھی ہو سکتے ہیں۔ یکم جون2009ءکو قومی جوڈیشل پالیسی کے نفاذ کے بعد مقدمات تیزی سے نمٹانے کی کوششیں کی گئی تھیں‘ اسکے باوجود آج بھی زیر التواءمقدمات کی تعداد لاکھوں میں ہے۔یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اکثر جج حضرات چھٹیوں کو اپنے اوپر جبر سمجھتے ہوں۔ جج صاحبان کا مقررہ اوقات کے دوران کام کرنا فرائض کی ”ادائی “ہے۔ مقدمات کو انجام تک پہنچانے کےلئے جسٹس افتخار محمد چودھری کی طرح رات گئے تک بیٹھے رہنا انسانیت کی خدمت اور مسیحائی ہے۔ اس میں ملک و قوم کی بھلائی اور عوام کی طرف سے ججوں کی پذیرائی ہے۔ لاکھوں مقدمات زیرالتوا ہوں اور جج حضرات چھٹیاں منائیں، یقین جانئے یہ جگ ہنسائی ہے۔ چیف جسٹس افتخار محمد چودھری اگر 125سال پرانی روایت توڑنے میں متذبذب ہیں تو وکلاءاور ججوں سے رائے لے کر اس جبر کا خاتمہ فرما دیں۔


Tuesday, July 3, 2012

بغلول اعظم کون؟


منگل ، 03 جولائی ، 2012

بغلول اعظم کون؟
فضل حسین اعوان ـ
قدرت نے چھوٹے سر اور بڑے قد و قامت والے کو بڑا آدمی بننے کا موقع دیا تو یہ موقع اس نے محض ایک شخصیت کے مفادات کا نگہباں بن کر گنوا دیا۔ وزارت عظمیٰ کے عظیم منصب پر بٹھانے کے احسان کی ممنونیت کے سامنے ریاست‘ آئین اور عدلیہ ہیچ ٹھہرے۔ اقتدار کے دوران اپنے اختیارات کا منبع اور طاقتور ہونے کا زعم تو تھا ہی اب نااہلی کے بعد سقراطیت کے دورے پڑ رہے ہیں۔ سقراط نے کیا ایسے ہی کارناموں پر زہر کا پیالا پیا تھا۔ جو موصوف دکھا گئے؟
20 گھنٹے تک بجلی کی بندش‘ گیس ناپید‘ پٹرولیم کی قیمتیں آسمان پر‘ مہنگائی بیروزگاری انتہا پر‘ ڈرون حملوں پر خاموشی‘ کشمیر پالیسی دشمن کے لئے من چاہی پسندیدہ قوم کے ٹائٹل کے پیچھے غائب‘ وہ جس طرح کے مبہم‘ بے معنی‘ لایعنی اور حقائق سے دور بیانات دیتے رہے ان کا سلسلہ بدستور جاری ہے۔ لاہور میں ایک تقریب کے دوران مزید فرمایا ”یہاں وزرائے اعظم کے ساتھ جو ہوتا رہا وہ کسی سے پوشیدہ نہیں کوئی اوپر گیا کوئی باہر گیا‘ میں واحد وزیراعظم ہوں جو ملک میں ہے۔ نواز شریف صاحب یقیناً باہر گئے۔ بھٹو صاحب تختہ دار پر محترمہ اپنوں کے ہاتھوں شہادت کے مقام پر پہنچیں۔ محمد خان جونیجو ملک میں رہے۔ نگرانوں کی بات نہ بھی کریں‘ ظفر اللہ خان جمالی اور چودھری شجاعت حسین پاکستان ہی میں موجود ہیں۔ وہ تاریخ میں اپنی نااہلی کے فیصلے کو بھٹو کی پھانسی کے فیصلے جیسا سمجھتے ہیں۔ انہوں نے اسی تقریب میں ججوں کی ”شان“ میںایک نظم بھی پڑھی اس سے ظاہر ہو جاتا ہے کہ انہوں نے نااہلی کے فیصلے پر وزارت عظمیٰ چھوڑنے پر احتجاج نہیں کیا۔ یہ اشعار چونکہ شردھالو ¶ں کی مجلس نامعقولاں میں پڑھے گئے اس لئے واہ واہ ہونا لازم تھا۔ گیلانی صاحب نے ملک اور اپنے خاندان میں کرپشن کو فروغ نہ دیا ہوتا جس سے عام آدمی کی زندگی عذاب بنی تو ان کی رخصتی کے موقع پر پوری قوم ماتم کناں ہوتی لیکن کسی طرف سے بھی افسوس نہ ہوا۔ خود ان کے پارلیمنٹیرین ساتھیوں نے ایک لمحہ میں اپنا قبلہ تبدیل کر لیا۔ ویسے ایک بات کا تو سب کو خیال رکھنا چاہئے کہ جو شخص کل تک ملک و قوم کے سیاہ و سفید کا مالک تھا شاہ سے بے نوا بن گیا ہے تو اس کے کڑوے کسیلے بیانات کا بُرا نہیں منانا چاہئے۔ انہوں نے عوام کے ساتھ چار سال میں جو کچھ کیاوزارت عظمیٰ سے رخصتی اس کے بدلے میں کافی ہے لیکن انصاف تو بہرحال ہونا ہے۔ وہ توہین عدالت کی سزا پا گئے۔ لوٹ مار کا حساب باقی ہے۔ انہوں نے قوم پر ایک ستم یہ بھی ڈھایا کہ اپنے اقربا کی کرپشن کو تحفظ دینے کی پوری کوشش کی۔ اب جبکہ وہ وزیراعظم نہیں رہے تو ان کے فرزند ارجمند کے سرچ وارنٹ جاری ہو چکے ہیں۔ اگر وہ ایفڈرین کیس میں ملوث ہوئے تو ممکن نہیں کہ اے این ایف کو چکر دینے میں کامیاب ہو سکیں‘ قوم کا حافظہ کمزور سہی لیکن کچھ چیزیں مدتوں یاد رہتی ہیں ۔ رحمت شاہ آفریدی اور منور منج کے کیسز کی تحقیقات بھی اے این ایف نے کی تھی۔ دونوں کو سزائے موت سنائی گئی۔ عمل درآمد نہ ہونا ایک الگ ایشو ہے تاہم دونوں طویل عرصہ جیل میں رہے۔ وہی اے این ایف جس کا کنٹرول فوجیوں کے پاس ہے‘ جن کو موسیٰ گیلانی کیس کی تحقیقات کرنے پر بڑے گیلانی صاحب ڈراتے دھمکاتے رہے۔ کسی کو معطل کسی کا تبادلہ کیا۔ موسیٰ گیلانی کا کیس اسی اے این ایف کے پاس ہے۔ اگر اٹارنی جنرل عرفان قادر کے بس میں ہوتا تو یہ معاملہ رفع دفع کرانے کے لئے نیب کو بھجوا دیتے۔ وہاں بھی ایک سابق ایڈمرل حکمرانوں سے گیلانی کی طرح اپنی وفاداری نبھا رہے ہیں۔ وہ زبان سے تو کہتے ہیں کہ زندگی اور موت اللہ کے ہاتھ میں ہے لیکن ان کا عمل ایسا ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اپنی تقدیر کا مالک ان لوگوں کو سمجھتے ہیں‘ جنہوں نے ان کو کوئلوں کا سوداگر بنایا۔ ڈاکٹر ارسلان کیس کی جزیات تک سے لوگ خصوصاً میڈیا واقف ہے۔ سپریم کورٹ نے اٹارنی جنرل کو اس کیس میں ملک ریاض‘ ان کے داماد اور ڈاکٹر ارسلان سے سخت تفتیش کرنے کی ہدایت کی اس روز چیئرمین نیب نے فرمایا تھا کہ یہ نیب کا کیس نہیں ہے۔ اب وہ تحقیقات کے لئے ٹیم بنا رہے ہیں۔ گذشتہ روز انہوں نے میڈیا سے گفتگو کے دوران کہا کہ ڈاکٹر ارسلان کے وکیل کی طرف سے لکھا گیا خط دھمکی آمیز ہے جو توہین عدالت بھی ہے۔ عدالت نے تحقیقات کے لئے نہیں‘ اٹارنی جنرل نے کہا ہے۔ پھر توہین عدالت کیسی؟ اٹارنی جنرل کے مفادات اور احسانات کا منبع و ملجا بھی وہی ہے جو چیئرمین نیب کاہے‘ اسی پریس کانفرنس میں جناب ایڈمرل صاحب نے کہا کہ نیب بنیادی طور پر چوری اور ہیرا پھیری سے قومی خزانہ کو لوٹنے والوں سے پیسہ واپس لینے کے لئے تشکیل دیا گیا تھا یہ کوئی پراسیکیوننگ ریجن نہیں ہے۔ ارسلان کیس کا قومی دولت کی چوری یا لوٹ مار سے تعلق ہی نہیں ہے یہ دو افراد کے مابین لین دین یا مبینہ طور پر رشوت لینے دینے کا معاملہ ہے۔ پھر نیب کس خوشی میں تحقیقات کر رہا ہے؟ 
سابق وزیراعظم اور موجودہ چیئرمین نیب کی طرح رحمن ملک بھی بزعم خویش بقدر جثہ بڑے دانشور ہیں۔ آج فرمایا سرجیت سنگھ کے جاسوس ہونے پر بھارت معافی مانگے۔ کیا کہنے! کیا سرجیت فرار ہوکے واپس چلا گیا؟ آپ نے خود چھوڑا‘ جاسوس کو چھوڑنے والوں پر کیس ہونا چاہیے ۔ ملک صاحب کے بے معنی بیانات و اعلانات کی ایک طویل فہرست ہے‘ ان جیسے کئی دیگر ہم جماعت بھی ایسی بولیاں بولتے رہتے ہیں۔اپنی محدود عقل دانی سے یہ لوگ کیا سمجھتے ہیں کہ ان کے لغو بیانات کی حیثیت سے قوم واقف نہیں؟ آخر یہ دوسروں کو اپنے جیسا بغلول کیوں سمجھتے ہیں؟ عوام اور میڈیا کو حالات و واقعات‘ بیانات و اعلانات اور لغویات و فریبیات کا سنجیدگی سے جائزہ لے کر بغلول اعظم کا تعین کر دینا چاہئے۔ اپنے جیسوں کے لئے عرض ہے کہ بغلول کا لغاتی مطلب بے وقوف‘ احمق‘ سادہ ‘ کو دن بدھو اور چھچھورا ہے۔


Sunday, July 1, 2012

سیاسی کلچر


اتوار ، 01 جولائی ، 2012

سیاسی کلچر

دنگا فساد، دھینگا مشتی،ہلا گلا،لڑائی جھگڑا،گریباں چاک، جلاﺅ گھیراﺅ ،مارکٹائی کبھی ایک مخصوص سیاسی پارٹی کا طرہ امتیاز ہوا کرتا تھا۔آج یہ باقاعدہ سیاسی کلچر کا روپ دھار چکا ہے۔۔قومی اسمبلی، سینٹ،صوبائی اسمبلیوں میں احتجاج کے نام پر جو ہوتا ہے وہ تہذیب اور اخلاقیات کی حدود سے دورہے۔ وکلا حضرات نے بھی شاید اپنے پارلیمنٹرین کو ہی آئیڈیل بنا لیا کہ کورٹس میں نہ صرف پولیس سے ہاتھا پائی کے واقعات ہوتے نظر آتے ہیں بلکہ ججوں تک کو تشدد کا نشانہ بنایاجاتا ہے۔ اٹارنی جنرل عرفان قادر نے،اپنے نوجوان وکلا کی تقلید کی یا سیاسی کلچر کا جادو ان کے سر چڑھ کر بولا 14جون کو سپریم کورٹ میں سپیکر رولنگ کیس کے دوران، اودھم مچا کر اپنا نام” نیک ناموں“ میں رقم کروالیا۔ قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں پیپلزپارٹی اور ن لیگ کے دست و گریبان اور جوتم جوتا ہونے کے واقعات حال ہی میں سامنے آئے ہیں۔ پگڑی اچھالنے دوپٹے اتارنے‘ کپڑے پھاڑنے کی تو دونوں پارٹیوں کی ایک تاریخ ہے۔ دونوں کاامریکہ،انڈیا اور کشمیر پر موقف بھی ایک جیسا ہے۔مار کٹائی کلچر میں MQM, ,ANP, PTI جیسی دیگر سیاسی پارٹیاں بھی ان دو بڑی جماعتوں کے ہم پلہ ہیں۔ تحریک انصاف کے حوالے سے ایک نیارجحان سامنے آیا ہے، جلسے کے بعد اپنی اپنی کرسی اور سٹیج سے جو ہاتھ لگا اُٹھا کر چلتے بننا پہلے کبھی نہیں دیکھا گیا۔ پی ٹی آئی کے جن جلسوں میں یہ سب کچھ ہوا اس پر جلسہ کی انتظامیہ نے بھی کوئی خاص بُرا نہیں منایا۔شایدپارٹی کے امیر کبیر لیڈر اس کو بھی کارِ خیر اور عوام کی خدمت سمجھتے ہوں۔تحریک انصاف کے حوالے سے ایک انوکھا تجربہ مجھے بھی ہوا‘ اس کو سمجھنے کیلئے ذیل کی معلومات سے آگاہ ہونا ضروری ہے۔ہمارے پرائمری سکول کے استاد محترم نے بھینسیں پال رکھی تھیں، جن کے چارے اور پس افنگندہ یعنی ”گوئے کوڑے“کا بندوبست ہم طلبہ نے کرنا ہوتا تھا۔ وہ گھاس لانے کو کہتے تو35,30 لڑکے بھاگ کے قریبی کھیتوں سے گھاس کی دو دو مٹھیاں بھی لے آتے تو ایک گھٹڑی بن جاتی۔ سکول کے اردگرد کھیتوں میں ہم جیسے ہی داخل ہوتے ایک کی مالکہ خاتون دوسرے کا مالک ایک بابا، گالیوں کی بوچھاڑ کردیتے۔ تقسیم ہند سے قبل ہمارے گالم کار دونوں ان علاقوں میں پلے بڑھے ،جہاں سکھ اور ہندو آباد تھے۔ گویا ہندو اور سکھ معاشرے میں جو خرافات سکہ رائج الوقت تھیں، ان کوازبر تھیں۔ وہ تما م کی تمام ہر روز ہم گھاس کھودوں پر آزماتے تھے۔یوں بچپن میں ہی ہم پرہر زنانہ اور مردانہ مندابول ان جنت نصیبوں نے آزمایا تھا۔میں کراچی میں مقیم رہا یہاں اردو سپیکر ایک دوسرے سے لڑتے تو پنجابی گالیوں کا ترجمہ بڑے نستعلیق اندازمیں کیا ہوا محسو س ہوتا۔ صوبہ سرحد اور بلوچستان میں کچھ عرصہ گزارنے کا موقع ملا، پشتو سپیکر آپس میں کوئی بات کرتے ہیں تو سمجھتاہوں کہ مجھے دشنام دے رہے ہیں،بلوچستان میں بولی جانے والی تقریباً تمام زبانوں کی بد کلامی بھی سمجھ آجاتی ہے۔ سندھی،سرائیکی اور پنجاب کی ”سخن طراری“ میں کوئی خاص فرق نہیں ۔جس نے ”مسلنوں“ کو لڑائی کے دوران مردانہ انداز میں بے نقط سناتے نہیں سنا ،دنیا میں آنے کے باوجود اس کی کیفیت لاہور نہ دیکھنے کے مترادف ہے۔میں نے لاہور ایسے بھی دیکھا ویسے بھی دیکھا۔
گزشتہ سال بھارت سے تعلقات اور تجارت کی حمایت میں عمران خان کے بیان پر میں نے کالم لکھا تو اگلے روز ایک ای میل مجھے موصول ہوئی اس جیسی بہت سی ای میلز ملنے کا تذکرہ عطاءالحق قاسمی صاحب متعدد بار کرچکے ہیںجو ای میل مذکورہ کالم کے بعد موصول ہوئی اس میں بہت سی نئی گوہر افشانیوں کے درو ا ہوئے تھے۔شاعر سخن واہیات نے نہ جانے کہاں سے ”مجموعہ گلام“ مرتب کیا تھایہ طوفان چونکہ عمران خان کی شان میں لکھے گئے کالم کے بعد آیا۔اس کا تذکرہ تحریک انصاف کے حامیوں سے کیا تو ان کا کہنا تھا کہ یہ PTIکی مقبولیت سے خائف لوگوں کا کام ہے۔انہوں نے ساراملبہ ن لیگ پر ڈال دیا جبکہ ن لیگ والوں کے پاس تو اسکی قیادت پر لگائے گئے الزامات کی صفائی میں کچھ کہنے کا بھی وقت نہیں۔ اگر یہ کام پی ٹی آئی والوں کا ہے تو یوں سمجھئے شادی کی شام دلہن بیوہ ہوگئی۔بطور پاکستانی ہمیں عظیم قوم ہونے کا دعویٰ ہے یہ عظمت اور وقار ہمارے رویے سے بھی نمایاں ہوناچاہئے ہم خواہ پارلیمنٹرین ہوں،وکیل ، جج، جرنیل جرنلسٹ،طالب علم، ڈاکٹر ،تاجر، بیورو کریٹ مزدور یا کسی بھی شعبے سے متعلق ہوں، شائستگی لازم ہے۔