ایثار
کراچی میں قیام امن کا آسان نسخہ وہاں کی سیاسی قوتوں کے
اتمیں ہے۔ اپنے اپنے عسکری ونگ ختم کر دیں تو کراچی ایک دن میں امن کا گہوارہ اور پھر سے روشنیوں کا شہر بن سکتا ہے۔ وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے کہا ہے کہ کراچی کے موجودہ حالات کی ذمہ دار پیپلز پارٹی، متحدہ اور اے این پی ہیں۔ میاں صاحب نے کوئی نئی بات نہیں کی۔ یہ پارٹیاں خود بھی ایک دوسری کو کراچی میں قتل و غارت گری کا ذمہ دار قرار دیتی ہیں۔۔ تینوں حکومت میں بھی ہیں لیکن ایک دوسرے کو برداشت کرنے پر تیار نہیں۔تمام قومیتوں پر مشتمل آبادی ایک ٹھوس حقیقت ہے۔ خونریزی جلاﺅ گھیراﺅ فائرنگ بم دھماکوں اور راکٹ باری سے کراچی مہاجروں سے خالی ہو گا نہ سندھیوں، پنجابیوں، پٹھانوں اور بلوچوں سے۔ البتہ کاروباری طبقہ اپنا سرمایہ دوسرے علاقوں یا ممالک ضرور منتقل کر رہا ہے۔ گزشتہ تین برس میں 25 ارب ڈالر بیرون ممالک منتقل ہو چکے ہیں۔ کراچی میں ایک طرف لسانی و نسلی فسادات دوسری طرف بدمعاشی و غنڈہ گردی نے بیروزگاری کے منحوس سائے پھیلا دیئے ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق چند سال سے یہ رجحان سامنے آیا ہے کہ حکومتی ذمہ دار سرمایہ کاروں کو بلاتے ہیں۔ ان سے کاروبار میں شراکت کا مطالبہ کیا جاتا ہے انکار پر ان کو باقیوں کے لیے عبرت کا نشان بنا دیا جاتا ہے۔ حالات ایسے ہی رہے تو شہر میں بھوک ننگ اور قحط کا سماں ہو گا۔ لوگ ایک دوسرے کو کھانے کو دوڑیں گے۔کوئی بھی گروہ پسپائی پر تیار نہیں۔ ایسے میں کوئی ایکشن ہونا چاہئے۔ کوئی کارروائی ہونی چاہئے۔ جو حکومت کی کمٹمنٹ اور عزم و ارادے کے بغیر ممکن نہیں۔ افسوس کہ صوبائی اور مرکزی حکومتیں کراچی کے حالات میں بہتری کے لئے ہر گز ہر گز کمٹڈ نہیں ہیں۔ بلا امتیاز آپریشن کی باتیں ضرور ہوتی ہیں لیکن عملاً ایسا ہو نہیں رہا۔ رینجرز کو مکمل اختیارات سونپنے کا اعلان کیا گیا۔ شرپسندوں کو گولی مارنے کی بھی اجازت دے دی گئی۔ اسی رینجرز کے لیاری میں داخل ہونے کے راستے مسدود کر دیئے گئے۔ کہا گیا رینجرز کو فری ہینڈ دے دیا گیا ہے۔ یہ فری ہینڈ نہیں۔ حکومت کے زیر سایہ پلنے والے بدمعاشوں اور سیکورٹی اداروں کو آپس میں لڑانے کی سازش ہے۔ حکمرانوں کی کراچی کو امن کے راستے پر لانے کی کمٹمنٹ کا اندازہ کیجئے۔ وزیراعظم گیلانی فرماتے ہیں ”کراچی میں 85ءسے نعشیں گر رہی ہیں، بُرے حالات نئی بات نہیں“۔ رحمن ملک کی سنیئے ”پنجاب میں بھی ٹارگٹ کلنگ ہوتی ہے، صرف سندھ کا معاملہ اچھالا جاتا ہے“۔ چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے جنہوں نے کراچی کے حالات کا از خود نوٹس لے رکھا ہے، کہا ہے کہ وہ 29اگست کو کراچی میں عدالت لگائیں گے، اس پر ایڈووکیٹ جنرل سندھ کی مضحکہ خیزی ملاحظہ فرمائیے ”چیف جسٹس کی کراچی آمد پر 12مئی 2007ءجیسا سانحہ رونما ہو سکتا ہے“ جہاں ایسی بے حسی ہو۔ اعلیٰ سطح پر ایسی سوچ اور بیان بازی ہو۔ وہاں اصلاحِ احوال کی کوئی توقع کی جا سکتی ہے؟ جاوید ہاشمی صاحب کی بھی مت ماری گئی ہے، فرماتے ہیں پنجاب میں پانی کے تنازع پر کراچی سے زیادہ افراد قتل کر دیئے جاتے ہیں۔