About Me

My photo
Fazal Hussain Awan colomnist Daily NAWAI WAQT awan368@yahoo.com 03334215368

Monday, August 29, 2011

ایثار..............2011-8-28





ایثار














کراچی میں قیام امن کا آسان نسخہ وہاں کی سیاسی قوتوں کے 

اتمیں ہے۔ اپنے اپنے عسکری ونگ ختم کر دیں تو کراچی ایک دن میں امن کا گہوارہ اور پھر سے روشنیوں کا شہر بن سکتا ہے۔ وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے کہا ہے کہ کراچی کے موجودہ حالات کی ذمہ دار پیپلز پارٹی، متحدہ اور اے این پی ہیں۔ میاں صاحب نے کوئی نئی بات نہیں کی۔ یہ پارٹیاں خود بھی ایک دوسری کو کراچی میں قتل و غارت گری کا ذمہ دار قرار دیتی ہیں۔۔ تینوں حکومت میں بھی ہیں لیکن ایک دوسرے کو برداشت کرنے پر تیار نہیں۔تمام قومیتوں پر مشتمل آبادی ایک ٹھوس حقیقت ہے۔ خونریزی جلاﺅ گھیراﺅ فائرنگ بم دھماکوں اور راکٹ باری سے کراچی مہاجروں سے خالی ہو گا نہ سندھیوں، پنجابیوں، پٹھانوں اور بلوچوں سے۔ البتہ کاروباری طبقہ اپنا سرمایہ دوسرے علاقوں یا ممالک ضرور منتقل کر رہا ہے۔ گزشتہ تین برس میں 25 ارب ڈالر بیرون ممالک منتقل ہو چکے ہیں۔ کراچی میں ایک طرف لسانی و نسلی فسادات دوسری طرف بدمعاشی و غنڈہ گردی نے بیروزگاری کے منحوس سائے پھیلا دیئے ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق چند سال سے یہ رجحان سامنے آیا ہے کہ حکومتی ذمہ دار سرمایہ کاروں کو بلاتے ہیں۔ ان سے کاروبار میں شراکت کا مطالبہ کیا جاتا ہے انکار پر ان کو باقیوں کے لیے عبرت کا نشان بنا دیا جاتا ہے۔ حالات ایسے ہی رہے تو شہر میں بھوک ننگ اور قحط کا سماں ہو گا۔ لوگ ایک دوسرے کو کھانے کو دوڑیں گے۔کوئی بھی گروہ پسپائی پر تیار نہیں۔ ایسے میں کوئی ایکشن ہونا چاہئے۔ کوئی کارروائی ہونی چاہئے۔ جو حکومت کی کمٹمنٹ اور عزم و ارادے کے بغیر ممکن نہیں۔ افسوس کہ صوبائی اور مرکزی حکومتیں کراچی کے حالات میں بہتری کے لئے ہر گز ہر گز کمٹڈ نہیں ہیں۔ بلا امتیاز آپریشن کی باتیں ضرور ہوتی ہیں لیکن عملاً ایسا ہو نہیں رہا۔ رینجرز کو مکمل اختیارات سونپنے کا اعلان کیا گیا۔ شرپسندوں کو گولی مارنے کی بھی اجازت دے دی گئی۔ اسی رینجرز کے لیاری میں داخل ہونے کے راستے مسدود کر دیئے گئے۔ کہا گیا رینجرز کو فری ہینڈ دے دیا گیا ہے۔ یہ فری ہینڈ نہیں۔ حکومت کے زیر سایہ پلنے والے بدمعاشوں اور سیکورٹی اداروں کو آپس میں لڑانے کی سازش ہے۔ حکمرانوں کی کراچی کو امن کے راستے پر لانے کی کمٹمنٹ کا اندازہ کیجئے۔ وزیراعظم گیلانی فرماتے ہیں ”کراچی میں 85ءسے نعشیں گر رہی ہیں، بُرے حالات نئی بات نہیں“۔ رحمن ملک کی سنیئے ”پنجاب میں بھی ٹارگٹ کلنگ ہوتی ہے، صرف سندھ کا معاملہ اچھالا جاتا ہے“۔ چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے جنہوں نے کراچی کے حالات کا از خود نوٹس لے رکھا ہے، کہا ہے کہ وہ 29اگست کو کراچی میں عدالت لگائیں گے، اس پر ایڈووکیٹ جنرل سندھ کی مضحکہ خیزی ملاحظہ فرمائیے ”چیف جسٹس کی کراچی آمد پر 12مئی 2007ءجیسا سانحہ رونما ہو سکتا ہے“ جہاں ایسی بے حسی ہو۔ اعلیٰ سطح پر ایسی سوچ اور بیان بازی ہو۔ وہاں اصلاحِ احوال کی کوئی توقع کی جا سکتی ہے؟ جاوید ہاشمی صاحب کی بھی مت ماری گئی ہے، فرماتے ہیں پنجاب میں پانی کے تنازع پر کراچی سے زیادہ افراد قتل کر دیئے جاتے ہیں۔

کراچی میں فوج کو بلانے کے مطالبات ہو رہے ہیں۔ ایم کیو ایم، اے این پی اور پیپلز پارٹی کا ایک بڑا حلقہ بھی کراچی میں قیام امن کے لئے فوج سے کردار ادا کرنے کو کہہ رہا ہے۔ ایسے لوگوں کی بھی کمی نہیں جو فوج کو کراچی کے معاملات میں الجھانے کی مخالفت کر رہے ہیں۔ موجودہ صورت حال میں کراچی کے حالات کا ایک ہی حل ہے۔ جنرل کیانی 2008ءکے انتخابات جیسا طرز عمل اختیار کریں۔ ان میں صدر جنرل (ر) پرویز مشرف (ق) لیگ کو جتانے کےلئے اپنے ریفرنڈم جیسے نتائج برآمد کرنا چاہتے تھے۔ جنرل کیانی نے نہ صرف مشرف کا مہرہ بننے سے انکار کیا بلکہ شفاف انتخابات کے انعقاد کا بھی اہتمام کیا۔ حکومت نے رینجرز کو فری ہینڈ دینے کا اعلان کیا ہے۔ جنرل کیانی رینجرز کے آپریشن میں سیاسی مداخلت ختم کرا دیں۔ بلا امتیاز اور غیر جانبدارانہ آپریشن کو یقینی بنا دیں۔ کوئی گروپ یا گروہ الزام یا دشنام دیتا ہے تو اسے خاطر میں نہ لائیں۔ رینجر کراچی کو امن کی راہ پر گامزن کرنے کی مکمل صلاحیت رکھتی ہے۔ رینجرز کےلئے فری ہینڈ کو حقیقتاً فری ہینڈ بنا دیا جائے۔ تمام معاملات درست سمت میں آ جائیں گے۔ لیکن یہ کراچی کے مسئلے کا مستقل حل نہیں۔ جب تک معاملات رینجرز کے کنٹرول میں ہوں گے، امن رہے گا۔ رینجرز آخر کب تک سول آبادی میں بندوق اٹھائے گھومتے پھریں گے۔ مستقل حل ایک ہی ہے۔ لسانیت کے بتوں کو پاش پاش کرکے انسانیت کی سوچ اپنائی جائے‘ علاقائیت کو چھوڑ کر پاکستانیت کو فروغ دیا جائے۔ ایک دوسرے کےلئے برداشت اور تحمل کا جذبہ خود بخود پیدا ہو جائے گا۔ ساتھ اگر ایثار بھی ہو جائے تو کراچی جنت نگار بن سکتا ہے۔

Thursday, August 25, 2011

پکار


جمعرات ، 25 اگست ، 2011


پکار
فضل حسین اعوان
آج کی حکومت اور حکومتی پارٹی میں ایک سے بڑھ کر ایک شیر پایا جاتا ہے لیکن ہر شیر کسی ببر شیر کے سامنے راکھ اور خاک کا ڈھیر ہے۔ ذوالفقار مرزا کراچی میں وزیر اعظم گیلانی کی موجودگی میں رحمن ملک پر دھاڑے۔ چند روز قبل رحمن ملک نے قومی اسمبلی کے اجلاس کے دوران اپنے وزیر اعظم کو ڈانٹ پلا دی تھی۔ وزیر اعظم گیلانی کا عدلیہ پر گرجنا اور اپوزیشن پر برسنا معمول ہے۔ صدر آصف علی زرداری عموماً خاموش رہتے ہیں لیکن جب لپکتے اور جھپٹتے ہیں تو اگلی پچھلی کسر نکال دیتے ہیں، ان کا شکار اپوزیشن ہی ہوتی ہے۔ جوش اور جذبات میں آپے سے باہر ہونے والے اپنی حدود، قیود اور اوقات سے باہر نہیں ہوتے۔ اس سے خوب واقف ہیں۔ یہی ان کی کامیابی کی کلید اور اقتدار کے ایوانوں میں موجود رہنے کا گُر ہے۔
بینظیر بھٹو وزیر اعظم ہوتیں تو ان کے کسی وزیر کو اونچا سانس لینے کی مجال ہوتی! اور پھر ان کی موجودگی میں ایک صوبائی وزیر مرکزی وزیر داخلہ کی ”لاہ پاہ“ کر دیتا؟ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا لیکن محترمہ ہوتیں تو یہ بابا وزیر داخلہ ہی کیوں ہوتا! آج وزیر اعظم اور وزرائے کرام حکومت نہیں، نوکری کر رہے ہیں۔ رحمن ملک گیلانی کابینہ کا حصہ ہے۔ درحقیقت یہ وزیر ہے کسی اور کا اسے پالتا کوئی اور ہے۔ سنا ہے گیلانی اور عبدالرحمن کی نہیں بنتی۔ لیکن اصلی دستِ اقتدارِ سے دونوں کی بنتی ہے۔ عام الیکشن اس سال ہوں، اگلے سال یا پارلیمنٹ کی آئینی مدت پوری ہونے پر۔ اگر پیپلز پارٹی جیتتی ہے تو گیلانی صاحب ہی وزیر اعظم ہوں گے۔ کیونکہ ان میں فاروق لغاری جیسا ایک بھی مائل بہ بغاوت جرثومہ نہیں پایا جاتا۔ گیلانی صاحب نے وزارت عظمیٰ کا مرتبہ پانے اور اسے برقرار رکھنے کے لئے اپنی ہستی مٹا دی ہے۔ اب ان کی سوچ اپنی ہے نہ پالیسی اورنہ کارکردگی۔ رحمن ملک ان سے بڑھ کر اوصاف حمیدہ رکھتے ہیں۔ وزارت داخلہ کا قلمدان ان سے کوئی نہیں چھین سکتا۔ وہ وزیر اعظم بھی بن سکتے ہیں۔ ان کے ہاتھ بہت لمبے ہیں۔ اہل وطن کی سوچ سے بھی لمبے۔ جولائی 2008ءمیں وزیر اعظم گیلانی کے ساتھ امریکہ گئے بش ملاقات میں باتیں گیلانی سے کر رہے تھے تھپکیاں رحمن ملک کو دیتے رہے۔ پھر اولمپکس کی افتتاحی تقریب میں شرکت کے لئے بلاول، پارٹی رہنماﺅں کے ساتھ چین گئے، صدر بش بھی آئے ہوئے تھے۔ وفد کے ساتھ ملاقات میں صدر بش نے رحمن ملک کے کندھے پر ہاتھ رکھا اور ایک کونے میں جا کر راز داری کرتے رہے۔ پاکستان میں بلیک واٹر کی عدم موجودگی کی وہ امریکہ سے بڑھ کروکالت کرتے ہیں آج موجودہ حکومت میں سب سے زیادہ تنقید ان پر ہی ہوتی ہے۔ ان کی وزارت کی کارکردگی عیاں ہے۔ ان کی پارٹی کے صوبائی وزیران کو کراچی میں فساد کی جڑ سمجھتے ہیں لیکن وہ اپنے عہدے پر موجو د ہیں۔ لیکن انہوں نے کراچی میں براجمان رہنے کا اعلان کر دیا ہے۔ مرزا صاحب بے شک دھاڑتے رہیں، زرداری صاحب بلا کر خواہ کچھ کہیں لیکن خبر چھپے گی تصویر کے ساتھ کہ جپھی ڈلوا دی ہے۔ یہ ہماری شامتِ اعمال ہے، کسی کی بدعاﺅں کا نتیجہ ، یا حکمرانوں کے کرموں کا پھل، قوم کا ستارہ گردش میں ہے۔ ہمیں ہر دکھ درد مصیبت اور عذاب کا سامنا ہے۔ جن پر مسائل کے حل کی ذمہ داری ہے وہ احساس و ادراک سے تہی ہیں۔ یہاں مشرقی پاکستان میں سینڈوپ (Sandwip) جزیرے کی تباہی کے واقعات سامنے آ کھڑے ہوئے۔ چٹاگانگ کے سینڈوپ ڈویژن میں 12نومبر1971ءکی رات سمندری طوفان نے تباہی مچا دی۔ لیکن سول ایڈمنسٹریشن نے مرکز یا فوج سے مدد طلب نہ کی۔ دو دن بعد پتہ چلا کہ سول ایڈمنسٹریشن پوری کی پوری ڈوب گئی تھی۔ مدد کے لئے پکارنے والے صفحہ ہستی سے مٹ چکے تھے۔ آج پاکستان میں بدامنی کی آگ میں جھلسنے، اپنے پیاروں کی لاشیں اٹھانے اور کٹے اعضا سنبھالنے والے سسکتے بلکتے، روتے پیٹتے اور چیختے چلاتے انسان مدد کے لئے پکار رہے ہیں۔ لیکن کوئی سن نہیں رہا۔ شاید عوامی جان و مال کے تحفظ کے ذمہ داروں کے ضمیر عیش و نشاط کے سمندر میں ڈوب کر مردہ ہو گئے ہیں۔ سینڈوپ ڈویژن کی سول ایڈمنسٹریشن کے طوفان میں مارے جانے کی طرح۔ وہ ایڈمنسٹریشن مدد کے لئے پکارنے کے قابل نہ رہی تھی، یہ پکار سننے سے قاصر ہیں۔


Sunday, August 21, 2011

نشان پاکستان اور بانیئ پاکستان



20-8-11























































 20 اگست ، 2011
نشانِ پاکستان اور بانی ¿پاکستان
فضل حسین اعوان 

 آمریت ہو یا جمہوریت ہمارے صاحبان اقتدار و ذی وقار، اختیاراتِ بے حصار کیلئے سرگرم رہے ہیں۔ پھر جن کو موقع ملا اختیارات سمیٹنے اور استعمال کرنے میں کسی نے بخل سے کام نہیں لیا۔ اگر یہ اختیارات ملکی اور قومی مفادات کیلئے استعمال ہوں تو بسم اللہ، دوسری صورت میں لعنت اللہ! قائداعظمؒ کے بعد فوجی اور جمہوری آمر آتے رہے۔ کالا باغ ڈیم نصف صدی کا قصہ ہے۔ کسی کو اس کی خشتِ اول رکھنے کی توفیق نہیں ہوئی۔ اتفاق رائے کی بات ہوتی ہے، کیا باقی سب کام اتفاق رائے سے ہوئے؟ چار جرنیلوں کی مہم جوئی Consensus سے ہوئی؟ ایوب نے امریکہ کو بڈبیر اڈا اور مشرف نے امریکہ کو ضرورت کے مطابق استعمال کرنے کیلئے ہوائی اڈے قومی و اتفاق رائے سے دیئے تھے؟ بھٹو نے ایٹمی پروگرام کی بنیاد اور ضیاءالحق نے اس کی تکمیل کیلئے Consensus کی ضرورت محسوس کی تھی؟ اگر ایسا کرتے تو کالا باغ ڈیم کے مخالفین ایٹمی پروگرام کی بھی مخالفت کرتے۔ کالا باغ ڈیم کی مخالفت کی جڑیں واشنگٹن، تل ابیب اور دلی تک پھیلی ہوئی ہیں۔ ان کے کٹنے تک کالا باغ ڈیم کی تعمیر ناممکن ہے۔ آج اگر کوئی ان جڑوں کو کاٹ سکتا ہے تو صدر آصف علی زرداری ہیں۔ یہ کام وہ اپنی شیریں سخنی یا میٹھی آری سے بخوبی کر سکتے ہیں۔ آج ان کے پاس اختیارات کا بحرِ بیکراں ہے۔ یہاں تک کہ جس کو چاہیں خلعتِ فاخرہ عطا فرما دیں جسے چاہیں خلعتِ اکیس پارچہ پہنا دیں۔ ان کی حکومت نے یوم آزادی پر 185 اکابرین‘ عمائدین‘ معززین و حویدین کو اعزازات سے سرفراز فرمایا ہے۔ اکثر کے بارے میں عوامی سطح پر تحفظات ظاہر اور اعتراضات وارد ہو رہے ہیں۔ اعزازات واقعتاً اعلیٰ منفرد اور امتیازی کارکردگی کے حاملین کو ہی دیئے جاتے ہیں۔ اب جن کے نام یہ ہو چکے ہیں وہ خود احتسابی سے کام لیں، دیکھیں یہ واقعی اعزاز کے حقدار و سزاوار ہیں؟ اگر نہیں تو خود کو اس کا حقدار ثابت کرنے کیلئے جان لڑا دیں۔ قوم و ملک کیلئے کوئی عظیم کارنامہ انجام دینے کیلئے دن رات ایک کر دیں۔ پاکستان میں ہر شعبے میں نام پیدا کرنے کے بیشمار مواقع ہیں۔ 
ہمارے حکمرانوں نے کسی اور محاذ پر کچھ کیا یا نہیں کیا۔ ایوارڈز کے معاملے میں دریا دلی کا مظاہرہ ضرور کیا۔ ایسی فیاضی اور فراخدلی بھی دیکھنے میں آئی کہ قومی غیرت و حمیت تک شرما گئی۔ پاکستان کا سب سے بڑا اعزاز نشانِ پاکستان ہے جو اب تک 3 پاکستانی اور 79 غیر ملکی شخصیات کو دیا جا چکا ہے۔ ان میں بھارتی وزیراعظم مرار جی ڈیسائی اور مسلم ہندو کلچر کا ملغوبہ اداکار دلیپ کمار بھی شامل ہیں۔ مرار جی ڈیسائی کی ایک ”وجہ شہرت“ یورین تھراپی بھی تھے۔ وہ بڑے فخر و انبساط اور ذوق و شوق سے اپنا پیشاب پیا کرتے تھے۔ اس پر کوئی ایوارڈ اگر دیا جانا تھا تو ان کی حکومت یا کوئی عالمی ادارہ دیتا۔ اس نے کونسا کشمیر کی آزادی میں کوئی کردار ادا کیا تھا کہ پاکستان کے سب سے بڑے سول اعزاز کا حقدارٹھہرا! دلیپ کمار پشاور میں پیدا ہوئے۔ یہ ایسا کارنامہ ہے جس میں اس کا اپنا کوئی کردار نہیں۔ ماں باپ نے نام یوسف خان رکھا وہ دلیپ کمار بن بیٹھا۔ اگر بھارت میں کسی کو ایوارڈ دینا ناگزیر تھا تو وہ محمد رفیع ہیں جنہوں نے خانہ¿ خدا اور روضہ¿ رسول پر حاضری کے بعد بھجن کی ریکارڈنگ نہ کرانے کا عہد کیا۔ اس پر لتا منگیشکر نے شدید ردعمل ظاہر کیا، جزبز، سیخ پا ہوئیں اور محمد رفیع کے ساتھ کسی بھی قسم کی ریکارڈنگ نہ کرنے کا اعلان کر دیا۔ الحاج محمد رفیع اپنے عہد پر تادم آخر قائم رہے۔
بھارت کا سب سے بڑا سول ایوارڈ ”بھارت رتن“ ہے جو اب تک 42 شخصیات کو دیا گیا جس میں صرف نیلسن منڈیلا اور سرحدی گاندھی خان عبدالغفار خان غیر ملکی ہیں جنہیں اس سے نوازا گیا، باقی تمام ایوارڈ بھارتیوں کو ملے۔ ان بھارتیوں میں 6 سربراہان مملکت، 6 وزرائے اعظم، 4 وزرائے اعلیٰ، 4 وزرائ، 6 سماجی و تحریک آزادی کے کارکن، 5 موسیقار، ادیب، سول انجینئر، ماہر طبیعات شامل ہیں۔ دوسری طرف پاکستان یا پاکستان سے باہر کسی سیاست دان، موسیقار، ماہر تعلیم یا ادیب کو اس قابل نہیں سمجھا گیا جسے یہ اعزاز دیا جاتا۔ یہاں چند ماہ قبل شائع ہونے والی بی بی سی کی چشم کشا رپورٹ کا حوالہ دینا بھی ضروری ہے جس میں بتایا گیا ہے ”نشان پاکستان سے صرف 3 پاکستانیوں سابق گورنر جنرل و وزیراعظم خواجہ ناظم الدین، نشان پاکستان کا اجراءکرنے والے سابق صدر سکندر مرزا اور ان کا تختہ الٹنے والے جنرل ایوب خان کو نوازا گیا۔ یہ ایوارڈ بعد از مرگ دینے پر کوئی پابندی نہیں۔ قائداعظم محمد علی جناحؒ کو پاکستان بنانے کے باوجود نشان پاکستان تو درکنار پرائیڈ آف پرفارمنس تک نہیں دیا گیا“۔!!








Wednesday, August 17, 2011

سانحہ بہاولپور۔ تحقیقات؟



17-8-2011
ISLAM ABAD


سانحہ بہاولپور۔ تحقیقات؟ 
فضل حسین اعوان
جنرل محمد ضیاءالحق نے جمہوری حکومت پر شب خون مارا۔ کہا جاتا ہے کہ انہوں نے عوامی مقبولیت کے حامل اور امریکہ کے دل میں کھٹکنے والے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کو تختہ دار تک پہنچانے میں اپنا جرنیلی اور صدارتی کردار اور اختیار استعمال کیا۔ پھر وہ موقع بھی آیا کہ جنرل محمد ضیاءالحق بھی بہت سے معاملات میں ذوالفقار علی بھٹو کی پالیسیوں پر عمل پیرا رہے تو امریکہ کے دل میں کانٹا بن گئے۔ جنرل ضیا کی فوج، سیاسی معاملات اور اپنے طرز کی غیر جماعتی جمہوریت پر مکمل گرفت تھی۔ اس لئے ضیاءالحق کو بھٹو جیسے انجام سے دوچار کرنے کے لئے امریکہ کو کوئی دوسرا ”ضیاءالحق“ نہ ملا تو اپنے ایک جرنیل اور سفیر کو صدر پاکستان کی معیت میں سی ون 130 میں سوار کرا کے مصیبت سے جان چھُڑا لی۔ 
جنرل ضیاءالحق کے جمہوریت کے قتل کے اقدام کی کوئی توجیح پیش کی جا سکتی ہے کوئی جواز نہ عذر۔ ان کا اقدام بطور فوجی ان کے حلف اور قسم کی صریح خلاف ورزی تھا۔ جنرل محمد ضیاءالحق کے اس اقدام سے جمہوریت ایسی ڈی ریل ہوئی کہ آج تک پٹڑی پر نہ چڑھ سکی۔ 4 جولائی 1977ءکو جمہوریت کا ”گھٹ بھرے“ جانے کے سبب ہی آج ملک میں افراتفری، لاقانونیت، بدامنی، عدم استحکام، کرپشن، اقربا پروری، مہنگائی بے روزگاری اور دیگر بہت سی آفات و بلیات کا دور دورہ ہے۔ جنرل ضیاءنے جمہوریت کے پودے کو شاخیں اور کونپلیں نکالتے ہی جڑ سے اکھاڑا اور مسل کر پھینک دیا۔ اس سب کے باوجود بھی جنرل ضیاءالحق کا 11 سالہ دور ایک حقیقت ہے۔ اس دور میں روس کو شکستِ فاش سے دوچار کر کے اس کے ٹوٹنے کی بنیاد رکھ دی گئی۔ روس کا افغانستان میں قبرستان بنانے میں امریکہ، اس کی پالیسیوں، اسلحہ و ڈالروں نے اہم کردار ادا کیا لیکن جنرل ضیاءالحق نے اسے سر نہیں چڑھایا۔ امریکی براہِ راست مجاہدین لیڈروں سے رابطے رکھ سکتے تھے نہ ملاقاتیں کر سکتے تھے۔ ایک مرتبہ تو امریکی سفیر کی خیرآباد پل سے گاڑی جبری اسلام آباد کی طرف واپس کرا دی گئی۔ مشرف کی طرح ضیاءالحق اور آج کے جمہوری حکمرانوں کی طرح ذوالفقار علی بھٹو نے امریکہ کے سامنے کبھی بزدلی کا مظاہرہ نہیں کیا۔ ذوالفقار علی بھٹو نے ہنری کسنجر کا وہ خط راولپنڈی میں سرِ بازار لہرا دیا جس میں ایٹمی پروگرام جاری رکھنے کی صورت میں عبرت کا نشان بنانے کی دھمکی دی گئی تھی۔ جنرل ضیاءالحق امریکی خواہشات اور احکامات کے برعکس صدام کے مقابلے میں ایران کی مدد کرتے رہے۔ جنگ میں ایرانی پائلٹوں کو تربیت دی گئی۔ ایران کی انقلابی حکومت کو تسلیم کیا۔ ذوالفقار علی بھٹو نے ایٹمی پروگرام جس جوش و خروش سے شروع کیا تھا جنرل ضیاءالحق نے اپنے دور میں اسے مزید جانفشانی سے امریکہ کو چکر دے کر جاری رکھا۔ یہ پروگرام 1984ءکو پایہ تکمیل کو پہنچ چکا تھا۔ افغان وار کے باعث شاید امریکہ نے بھی چشم پوشی سے کام لیا ہو تاہم اس کی بارگاہ میں ایسے کام کرنے والے لوگ قابلِ معافی نہیں ہوتے۔ 
ذوالفقار علی بھٹو ضیاءالحق کے ہاتھوں شہید ہوئے۔ صدرِ پاکستان آرمی چیف جنرل ضیاءالحق، مسلح افواج کے سربراہ اختر عبدالرحمن اور ساتھی کس کے ہاتھوں شہید ہوئے؟ سانحہ بہاولپور کے حقائق کیا تھے؟ یہ ہنوز اور بدستور ایک معمہ‘ اسرار اور راز ہے۔ فوج میں ایک گولی بھی گم ہو جائے تو کورٹ مارشل کی روایت ہے۔ جہاں 17 اگست 1988ءکو تقریباً پوری فوجی قیادت ختم کر دی گئی لیکن سربستہ راز سے پردہ نہیں اٹھایا گیا۔ پھر دو مرتبہ میاں نوازشریف پاکستان کے وزیراعظم بنے۔ ضیاءالحق نے ان کو اپنی عمر لگ جانے کی دعا دی تھی۔ وہ شاید قبول بھی ہو گئی۔ جنرل ضیاءالحق کے پوت اور اختر عبدالرحمن کے سپوت کئی بار انتخابات میں کامیاب ہوئے۔ اعلیٰ عہدے ان کی گردپا بنے۔ لیکن کبھی اپنے باپ کے قاتلوں کی گرد تک نہ پہنچ سکے۔ والد کے قتل کا درد سا کوئی درد نہیں ہو سکتا۔ انہوں نے بھی تحقیقات کرانے کے ہزار جتن کئے لیکن یہ بے بس اور جن کے بس میں بہت تھا وہ بے حس ٹھہرے۔ کتنا طاقتور ہے قاتل جس کے سامنے اپنے صدر اور فوجی قیادت کے قتل کی تحقیقات کے لئے پوری ملکی مشینری مجبور‘ معذور اور اپاہج و لاچار ہے۔ شاید بھٹو، ضیاءالحق اور ساتھیوں کے انجام سے عبرت پکڑی ہو۔ بہرحال لوگوں کے دلوں میں کسی کے لئے محبت اور کسی کے لئے نفرت راسخ ہے۔ آج بھی کسی کے دل میں بھٹو اور کسی کے دل میں جنرل ضیاءالحق کی محبت اور عقیدت کے دیپ جل رہے ہیں۔ 

Sunday, August 14, 2011

ہم نے پاکستان کو کیا دیا؟



 اتوار ، 14 اگست ، 2011




 اتوار ، 14 اگست ، 2011

ہم نے پاکستان کو کیا دیا؟
فضل حسین اعوان 
آج ہماری آن بان، رفعت و حرمت، جاہ و حشم، منصب و منزلت، شان و شوکت، سب پاکستان کی مرہون منت ہے۔ بھارت میں پاکستان سے زیادہ مسلمان بستے ہیں۔ ان کا فاقوں سے مرن اور ہر نعمتِ خداوندی سے سرفراز اپنا بانکپن دیکھئے۔ ہم میں سے بہت سے شکوہ سنج رہتے ہیں کہ پاکستان نے ہمیں کیا دیا؟ ان کے ایک سوال کے جواب میں دو سوال ہیں۔ پاکستان نے ہمیں کیا نہیں دیا؟ اور ہم نے پاکستان کو کیا دیا؟ پاکستان نے ہمیں پاکستانیت، ایک عظیم پہچان دی۔ آزادی کی نعمت سے ہمکنار کیا۔ عزت و آبرو دی اور سب سے بڑھ کر جان و مال کا تحفظ دیا۔ بھارت میں کتنے جج اور جرنیل مسلمان ہیں۔ کبھی کسی مسلمان کو آرمی، فضائیہ اور بحریہ کا چیف بنتے دیکھا یا سنا ہے؟ کتنے مسلمان انڈین سپریم کورٹ کے چیف جسٹس بنے۔ ہمارے سابق وزرائے اعظم کا شمار قطار نہیں بھارت میں ایک بھی مسلمان وزیراعظم نہیں بنا۔ ابوالکلام آزاد کانگریس کے سربراہ اور عبدالکلام آزاد بھارت کے صدر ضرور بنے۔ کیا ان کی حیثیت اہمیت اور انفرادیت جناب آصف علی زرداری جیسے پارٹی سربراہ اور صدر مملکت جیسی رہی تھی؟ دونوں آزادوں کو ہندو کی غلامی کے باعث نمائشی عہدے دئیے گئے تھے۔ دنیا کو دکھانے اور جعل سازی سے باور کرانے کے لئے کہ بھارت میں مسلمانوں سمیت اقلیتوں کو مساوی حقوق حاصل ہیں۔ دنیا کشمیر پر نظر دوڑائے یہاں سات لاکھ بھارتی سفاک سپاہ مسلمانوں کا بے دردی سے خون بہا رہی ہیں۔ صرف 1990ءسے چالیس ہزار مسلمانوں کو قتل کر چکی ہے۔ جہاں اکابرین مسلم کی قبائیں محفوظ ہیں نہ کشمیر کی بیٹیوں کے آنچل، عبایائیں اور ردائیں۔ یہ کہنے والے ”پاکستان نے ہمیں کیا دیا“ ذرا غور فرمائیں، تصور میں لائیں بھارت میں ہوتے تو کوئی گجرات کے فسادات میں مر رہا ہوتا کوئی انتہا پسند متعصب اور روسیاہ ہندوﺅں کی لگائی آگ میں جل رہا ہوتا۔ آج جو لوگ ریلوے کی وزارت تک پہنچے، چیئرمین جی ایم بنے ڈائریکٹر لگے ہوئے ہیں ان میں سے کوئی قلی ہوتا کوئی ٹی ٹی کوئی بوگیاں چمکانے اور کوئی انجنوں کو دھکا لگانے والا ہوتا۔ پاکستان کی بدولت جج اور جرنیل بننے والوں میں سے کئی ہرکارے اور اردلی ہوتے۔ کہاں ہوتے آج پاکستان کے بڑے بزنس مین، پہلے دوسرے تیسرے نمبر پر آنے والے امیر ترین؟
پاکستان یقیناً نظیر کمالِ جنت، تنویر جمال عظمت اور تصویر مثالِ رفعت ہے۔ پاکستان نے تو ہمیں سب کچھ دیا۔ اگر کچھ محرومیاں، بے انصافیاں، وبال و زوال مسائل اور مصائب ہیں تو وہ پاکستان کے دئیے ہوئے نہیں، پاکستان کی بدولت تختِ شاہی تک پہنچنے والوں کے دئیے ہوئے ہیں۔ جو خود کو منزہ عن الخطا سمجھتے ہیں۔ دراصل یہی وجہ ہر وبائ، ابتلا اور کرب و بلا ہیں۔ جو ہمارے ہی ہاتھوں کے تراشے ہوئے صنم ہیں۔ 
ہماری بدقسمتی ہے کہ حضرت قائداعظم سے زندگی اور ان کے بعد قائد کے جاں نشینوں نے ان کے مشن سے وفا نہ کی۔ قائداعظم چند سال مزید زندہ رہ جاتے یا ان کے ساتھی قائد کے نقشِ قدم پر چلتے تو پاکستان یقیناً قیام کے چند سال بعد ہی ترقی یافتہ قوموں کی صف میں شامل ہو جاتا۔ بعد میں آنے والے قرض کرپشن دھن دولت سینتنے اور سمیٹنے میں ایسے مگن ہوئے کہ قوم و ملک کے لئے جبر، قہر اور جفا بن گئے۔ 
قیامِ پاکستان کی پہلی سالگرہ پر قوم سے خطاب کرتے ہوئے قائداعظم نے فرمایا تھا ”ہم نے سال بھر کے حوادث کا مقابلہ بڑے عزم و حوصلہ سے کیا ہے۔ دشمن کی کارروائیوں، بالخصوص مسلمانوں کو بحیثیت قوم ختم کرنے کی منظم سازشوں کے خلاف جو کامیابی ہم نے حاصل کی، وہ حیرت انگیز ہے.... اس نوزائیدہ مملکت کا پیدا ہوتے ہی دیگر طریقوں سے گلا گھونٹنے کی ناکام کوشش میں ہمارے دشمنوں کو یہ اُمید تھی کہ اُن کی دلی خواہشات اقتصادی چالبازیوں سے پوری ہو جائیں گی، پاکستان دیوالیہ ہو جائے گا اور دشمن کی آتش و شمشیر جو مقصد حاصل نہیں کر سکیں وہ مملکت پاکستان کی مالی تباہی سے حاصل ہو جائے گا لیکن ہماری برائی چاہنے والے نجومیوں کی تمام پیش گوئیاں جھوٹی ثابت ہوئیں اور ہمارے پہلے ہی بجٹ میں تجارت کا توازن ہمارے حق میں تھا، بچت ہوئی اور اقتصادی میدان میں ترقی کا رجحان شروع ہوا“۔ قائداعظم نے جس عزم کا اظہار کیا تھا کیا ہم اس پر کاربند رہے؟ ان کی شروع کی ہوئی کامیابیوں کو اسی ٹریک پر اُسی سپیڈ کے ساتھ جاری رکھ سکے؟ نہیں باالکل نہیں!
قائداعظمؒ نے فروری 1948ءمیں افواج پاکستان سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا ”ہم نے پاکستان کی آزادی کی جنگ جیت لی ہے مگر اُسے برقرار رکھنے کیلئے اور مضبوط و مستحکم بنیادوں پر قائم رکھنے کی سنگین ترین جنگ ابھی جاری ہے۔ اگر ہمیں ایک بڑی قوم کی حیثیت سے زندہ رہنا ہے تو اس جنگ میں کامیابی حاصل کرنی ہو گی کیونکہ فطرت کا اٹل قانون یہی ہے کہ برائے اصلاح، ہمیں خود کو اس نئی آزادی کا اہل ثابت کرنا ہو گا“۔ 
پاکستان کو مضبوط و مستحکم بنیادوں پر قائم رکھنے کے لئے قائد محترم نے جس سنگین جنگ کو جاری رکھنے اور اس میں کامیابی حاصل کرنے پر زور دیا۔ وہ جنگ ہم ہار گئے۔ ہم نے سرینڈر کر دیا۔ پاکستان کے اس حصے کی حفاظت نہ کر سکے جہاں سے مسلم لیگ کے قیام کی صورت میں پاکستان کا خمیر اٹھا۔ پاکستان چونکہ مملکتِ خداداد ہے اس لئے قائم ہے اور انشاءاللہ تاقیامت رہے گا۔ ورنہ ہماری قیادتوں نے خواہ وہ جمہوریت کی گود میں پھلی پھولی ہوں، آمریت کی آغوش میں پلی بڑھی ہوں یا مجسم آمریت ہوں خود کو آزادی کا اہل ثابت نہیں کیا۔


Saturday, August 13, 2011

جہاںسورج غروب ہی نہیں ہوتا۔ وہاں صوم و صلٰوة؟


 ہفتہ ، 13 اگست ، 2011


جہاںسورج غروب ہی نہیں ہوتا۔ وہاں صوم و صلٰوة؟
فضل حسین اعوان ـ 13 گھنٹے 52 منٹ پہلے شائع کی گئی
دنیا چاند پر پہنچ گئی ہم ابھی تک جدید دور میں جدید ترین آلات کی موجودگی میں بھی چاند کی رویت پر متفق نہیں ہو سکے۔ ہر سال عیدالفطر کا چاند دیکھنے پر اختلافات ضرور سامنے آتے ہیں۔ جس کے باعث دو عیدیں تو ضرور ہوتی ہیں کبھی تین بھی ہو جاتی ہیں۔ جیسے گذشتہ سال 1431 ہجری بمطابق 2010ءکو ہوا۔ امسال تو رمضان کا آغاز بھی متنازع بنا دیا گیا۔ صوبہ خیبر پختونخوا کے کئی شہروں میں رویت کی شہادت پر رمضان المبارک کا آغاز پیر یکم اگست کو ہوا۔ جس روز چاند دیکھا گیا یہ شعبان کی 28 تھی۔ جن علاقوں سے چاند دیکھنے کی شہادتیں موصول ہوئیں وہ کراچی کی نسبت کہیں اونچائی پر واقع ہیں۔ ہم جس کو 28 شعبان سمجھتے ہیں ہو سکتا ہے دراصل اس روز شعبان کی 29 ہو۔ خیبر پختونخوا کے جن علاقوں میں پیر کو روزہ رکھا گیا وہاں کے علما نے شہادتوں کو معتبر قرار دیا تھا۔ ہماری مرکزی رویت ہلال کمیٹی عموماً خیبر پختونخوا سے ملنے والی شہادتوں کو رد کر دیتی ہے۔ وہاں کے علما تسلیم کر لیتے ہیں۔ عموماً صوبائی حکومت اپنے علما کا ساتھ دیتی ہے۔ پورے ملک میں خدا کرے اس سال عیدالفطر ایک ہی روز ہو۔ یہ اسی صورت ممکن جب خیر پختونخوا میں چاند ان کے حساب سے تیس کا اور مرکزی رویت ہلال کمیٹی کے حساب سے 29 کا ہو۔ اکثر پاکستانیوں کی رائے ہے کہ یورپ کے بہت سے ممالک کی طرح پاکستان میں بھی ہجری کیلنڈر سعودی عرب کے کیلنڈر کے مطابق ترتیب دیا جائے اس سے عید نہ صرف پاکستان میں ایک دن ہو گی بلکہ عالم اسلام میں عیدین سمیت اسلامی تہوار شبِ قدر، شبِ معراج، شبِ برات اور عید میلادالنبی ایک ہی دن ہوں گے۔ 
امریکی ریاست الاسکا کے مسلمانوں نے اپنے ہاں ماہ صیام اور صلوٰة کے حوالے سے مکہ سے فتویٰ حاصل کیا ہے۔ جہاں مئی سے جولائی تک سورج غروب نہیں ہوتا اور نومبر سے جنوری تک طلوع نہیں ہوتا۔ یہ لوگ سعودی اوقات کے مطابق سحر و افطار کرتے اور نمازوں کی ادائیگی میں مکہ مکرمہ کے اوقات نماز کی پیروی کرتے ہیں۔ جب رات انتہائی مختصر یعنی دن بہت ہی طویل 22، تئیس گھنٹے کا ہوتا ہے تو یہ یقیناً ان کے لئے آزمائش ہو گی۔ اس دوران وہ کیا کرتے ہیں یہ ان سے معلوم کیا جا سکتا ہے۔ ان کو کیا کرنا چاہئے یہ ہمارے علما کرام بتا سکتے ہیں جو خود اب تک ایک عید کرنے پر متفق نہیں ہو سکے۔ تاہم 57 ہزار 6 سو کی آبادی والے ملک گرین لینڈ میں موجود واحد مسلمان وسام عزاقیر رمضان المبارک میں کیا کرتا ہے وہاں آج کل اگست میں رات صرف تین گھنٹے کی ہوتی ہے۔ وسام عزاقیر کے شب و روز کے بارے میں العربیہ ٹی وی چینل نے بڑی دلچسپ رپورٹ نشر کی ہے۔ 
”قطب شمالی کے یخ بستہ اور برفانی تودوں میں گھرے ملک ”گرین لینڈ“ کا رہائشی اکلوتا مسلمان اکیس گھنٹے طویل روزہ رکھ رہا ہے۔ ”گرین لینڈ“ میں کئی سال سے مقیم لبنانی نژاد وسام عزاقیر کو ”عرب کولمبس“ کا لقب دیا گیا ہے۔ اسے یہ لقب اس لیے دیا گیا ہے کہ وہ واحد عرب بالخصوص مسلمان شہری ہے جس نے طویل ترین سفر طے کر کے ”گرین لینڈ“ میں کاروبار شروع کیا۔ وسام عزاقیر گرین لینڈ کے دارالحکومت ”نوک“ میں مقیم ہے جہاں اس کا اپنا ایک ریستوران ہے۔ گرین لینڈ میں وسام کو نہ صرف اپنے آس پاس کوئی دوسرا مسلمان روزہ دار میسر نہیں بلکہ اس کے پاس افطاری و سحری کے درمیان کا وقفہ صرف چند منٹ سے زیادہ نہیں ہوتا۔ ماہ اگست کے طویل ترین ایام کے دوران اسے اکیس گھنٹے کا روزہ رکھنا ہوتا ہے۔
دنیا کے ”منفرد روزہ دار“ نے ”العربیہ“ سے بات کرتے ہوئے گرین لینڈ میں پہلا مسلمان ہونے کی حیثیت سے وہاں پہنچنے پر فخر کا اظہار کیا۔ عزاقیر کا کہنا ہے کہ اس نے گرین لینڈ کے صدر مقام ”نوک“ میں In "Drop" کے نام سے ایک ریستوران کھولا ہے، جہاں اس کے پاس روزانہ 200 سے زائد گاہک آتے ہیں۔ 
گرین لینڈ کے ”فاتح“ نے ”سفید جزیرے“ کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ یہاں سردیوں کا موسم آٹھ ماہ تک جاری رہتا ہے۔ موسم سرما میں درجہ حرارت منفی 20 درجے سینٹی گریڈ تک گر جاتا ہے۔ گرمیوں کا دن اگرچہ طویل ترین ہوتا ہے تاہم گرمی میں کوئی غیر معمولی تبدیلی نہیں آتی۔ اگست کے طویل ترین ایام میں بھی درجہ حرارت زیادہ سے زیادہ بیس درجے سینٹی گریڈ تک ہوتا ہے۔ گرمیوں کے موسم میں دن کے طویل اور رات کے مختصر ہونے سے نماز عشاء اور فجر کے درمیان بہت کم وقت رہ جاتا ہے۔ عموماً عشاءکی نماز 11:45 پر ادا کی جاتی ہے اور اس کے نصف گھنٹے کے بعد نماز فجر کا وقت شروع ہو جاتا ہے“۔ 
اکیس گھنٹے کا روزہ رکھنے سے وسام عزاقیر کو تو شاید زیادہ پریشانی نہیں لیکن ایسی ہی صورت حال سے دوچار دیگر مسلمان مشکلات کا شکار ہو سکتے ہیں۔ ان کی مشکلات کا کیا حل ہے؟ کیا یہ بھی سارا پالن کے دیس الاسکا کے مسلمانوں کی طرح صوم و صلوة کے اوقات کار سعودی عرب کے مطابق متعین کر لیں۔ اس معاملے میں علمائے کرام اور دانشوران عظام اپنی رائے دے سکتے ہیں لیکن ٹھہرئیے یہ براہِ راست ہم سے متعلقہ مسئلہ نہیں ہے۔ ہمارا مسئلہ تو عیدالفطر ہے جو دو دو تین تین دن چلتی ہے۔ پہلے یہ حل کریں پھر عالمی امور پر رائے دیں۔


Friday, August 12, 2011

مہذب برطانیہ میں آگ کے شعلے


جمعۃالمبارک ، 12 اگست ، 2011


مہذب برطانیہ میں آگ کے شعلے
فضل حسین اعوان 
مہذب برطانیہ عظمیٰ کی تہذیب پانچ روز تک مسلسل بدتہذیبی کی آگ میں جلتی رہی۔ پولیس کے ہاتھوں مارک ڈگن کے قتل کے بعد برطانیہ میں جلاﺅ گھیراﺅ، لوٹ مار، بدامنی اور لاقانونیت کی انتہا ہو گئی۔ پاکستان جیسے معاشروں میں تو ایسا ہونا معمول ہے۔ برطانوی تو خود کو اعلیٰ نسل اور تہذیب کی اساس اور کمال قرار دیتے ہیں۔ پانچ روز تک برطانیہ عظمیٰ میں جنگل کا قانون رائج رہا۔ گھروں، دکانوں، گاڑیوں اور بنکوں تک کو آگ لگا دی گئی۔ لٹنے سے بنک محفوظ رہے نہ چھوٹے بڑے سٹور، 100 سے زائد پولیس اہلکار 200 عام آدمی زخمی ہوئے۔ بڑے شہروں میں جگہ جگہ آگ لگی رہی۔ نوجوان ٹولیوں کی صورت میں آگ لگاتے اور لوٹ مار کرتے رہے۔ بنکوں اور جیولری کی دکانوں کو خصوصی طور پر لوٹا گیا۔ پولیس نے ہنگامہ اٹھانے اور آگ بھڑکانے والے سینکڑوں افراد کو گرفتار کیا ۔پولیس حالات پر قابو پانے میں مکمل ناکام رہی تو لوگوں نے اپنی مدد آپ کے تحت دہشت اور وحشت پھیلانے والوں کا مقابلہ کیا۔ مارک ڈگن کو 6اگست کی رات کو قتل کیا گیا، فسادات 7 کو شروع ہوئے جن میں ہر گزرتے دن کے ساتھ اضافہ ہوتا گیا۔ان میں دوسروں کی جان و املاک کی حفاظت کرتے ہوئے تین پاکستانیوں کی شہادت کے بعد 10اگست کو قدرے کمی واقع ہوئی۔ شاید یہ آگ پاکستانیوں کے خون سے بجھائی جانی مقصود تھی۔ پولیس مقابلے میں مارا جانے والا کوئی سیاستدان، مذہبی پیشوا یا سماجی رہنما نہیں تھا۔مارک ڈگن کے بارے میں گارڈین اور ڈیلی میل نے لکھا ہے کہ وہ ماہر ڈرگ ڈیلر اور بُری شہرت کا حامل تھا۔ اس کے محلے کے لوگ بتاتے ہیں کہ وہ عموماً اپنے پاس گن رکھتا تھا۔ 29 سالہ مارک چار بچوں کا باپ تھا۔ ان بچوں کی مائیں دو تھیں، البتہ شادی کسی ایک سے بھی نہیں کی تھی۔ تین بچوں کی ماں 29 سالہ سیمون ولسن اس کی منگیتر تھی۔ ان کی دوستی 12 سال سے جاری تھی۔ برطانوی جرائد نے لکھا ہے کہ مارک ڈگن سٹار گینگ کا رکن تھا۔ سٹار گینگ منشیات اور اسلحہ کی سمگلنگ اور تخریب کاری میں بڑا نام اور اونچا مقام رکھتے تھے۔ اس کے قتل کے بعد برطانیہ میں قیامت اس کے گینگ اور اس قماش کے دیگر کئی گینگز نے برپا کی۔ 
نوٹنہم سے دوسرے شہروں برمنگھم، لیورپول اور مانچسٹر برسٹل تک فسادات بلیک بیری کے ذریعے میسجز سے پھیلائے گئے۔ ہنگامہ آرائی کے آغاز پر وزیر اعظم اور لندن کے میئر چھٹیوں پر تھے۔ دونوں نے فوری واپسی کی زحمت نہ کی۔ برطانیہ کے دل لندن کو آگ نے اپنی لپیٹ میں لیا۔ مکینوں کے مال و اسباب اور جسم و جان جلے تو بھاگے چلے آئے۔ ہمارے صدر صاحب گزشتہ سال فرانس اور برطانیہ کے دورے پر تھے ان کا وطن اور اہل وطن بدترین سیلاب میں ڈوب رہے تھے جناب طے شدہ دورہ مکمل کرکے ہی لوٹے تھے۔
سنا ہے چین نے اوائل ترقی کے دور میں باز نہ آنے والے تمام نشیﺅں کو بحری جہاز میں سوار کرکے غرق بحر کر دیا تھا۔ اس سے بھی قبل یورپ نے ٹھگوں ،لٹیروں، انسان نما شیطانوں اور حیوانوں کو سرزمین امریکہ پر اٹھا پھینکا تھا۔ انسانیت کے دشمن شاید کچھ پیچھے رہ گئے تھے جن میں سے ایک نے چند روز قبل اوسلو ناروے میں 100 افراد کو قتل اور 90 کو زخموں سے چور کرکے قیامت ڈھائی اور اب سٹار گینگ نے برطانیہ میں آگ بھڑکائی۔ بتایا جاتا ہے کہ سٹار گینگ میں ہر عمر کے گروپ پائے جاتے ہیں۔ برطانیہ کو جہنم میں بدلنے والوں میں سے اکثر نو عمر تھے۔ کیسی قیامت تھی۔ شرپسند دندناتے پھرتے تھے، امن پسند گھروں میں محصور اور پولیس بے بس و مجبور نظر آتی تھی۔ مسلمانوں کو مغرب شدت پسند، انتہا پسند اور دہشت گرد تک قرار دے دیتا ہے۔ جب بے گناہ انسانوں کا خون بہایا جائے۔ اس پر مرنے والوں کے لواحقین کی طرف سے ردِ عمل تو ہو گا مسلم اُمہ میں چونکہ اسلامی اخوت کا اٹوٹ رشتہ پایا جاتا ہے۔ اس لیے دنیا کے کسی بھی کونے میں دشمن کے ہاتھوں ایک مسلمان کی شہادت پر پوری اُمہ صدمے سے دوچار ہو جاتی ہے لیکن ردِ عمل ایسا نہیں ہوتا جیسا برطانیہ میں ایک مجرم کے قتل پر دیکھنے میں آیا۔ مسلمان تو کسی کاز کے لیے علم احتجاج بلند کرتے ہیں۔ ناروے میں خون کی ہولی کیوں کھیلی گئی اور برطانیہ شعلہ فشاں کیوں بنا؟ دہشت گرد اسلام میں نہیں مغرب میں ہیں۔ اسلام تو ہمیں وہ درس دیتا ہے جس کا مظاہرہ انسانیت کو بچاتے ہوئے مصور علی، شہزاد اور ہارون تین پاکستانیوں نے برطانیہ میں اپنی جانیں دے کر کیا۔یہ نوجوان ہمیں یہ سبق بھی دے گئے کہ پاکستان میں دہشت گردوں، ٹارگٹ کلرز اور کراچی و بلوچستان کو جہنم زار بنانے والوں کا مقابلہ عوام کو خود متحد ہو کر کرنا ہو گا۔

Wednesday, August 10, 2011

امریکہ .... چاند کی بلندی سے پستی تک


آج : بدھ ، 10 اگست ، 2011




امریکہ .... چاند کی بلندی سے پستی تک
فضل حسین اعوان
یہ 20جولائی1969ءکا تاریخی دن تھا‘ جب انسان نے چاند پر قدم رکھا۔ انسان کا چاند کو تسخیر کرنا قرآن کریم کی صداقت پر دلالت ہے کہ ”زمین اور آسمانوں میں جو کچھ ہے تمہارے (انسان کے) لیے مسخر کر دیا گیا ہے“۔ خلائی جہاز اپالو 11 امریکہ سے روانہ ہوا تو اس کی اونچائی 363 فٹ اور وزن 3 ہزار ٹن تھا۔ روانگی کے ساتھ ہی سٹرن راکٹ نے 13 ہزار 600 کلو گرام فی سیکنڈ ایندھن کو گیس میں تبدیل کرنا شروع کردیا۔ اپالو 163 میل بلندی پر پہنچا تو اس کی سپیڈ 17500 میل فی گھنٹہ ہو چکی تھی۔ چاند تک اڑھائی لاکھ میل میں سے خلائی جہاز نے زیادہ تر فاصلہ 25 ہزار میل گھنٹہ کی رفتار سے طے کیا۔ چاند پر اترنے کے بعد ماہ نوردوں آرم سٹرانگ، ایڈون ایلڈرن اور مائیکل کولنز نے بہت سے آلات نصب کرنے کے بعد چار فٹ لمبی ایلومینیم کی راڈ پر امریکی پرچم لٹکا دیا۔ انہوں نے وہاں ایک دھاتی تختی بھی نصب کی جس کے ایک طرف صدر نکسن اور تینوں خلانوردوں کے دستخط اور دوسری یہ عبارت درج تھی ”اس مقام پر سیارہ زمین سے انسان اترے۔ہم تمام نوعِ انسانی کی طرف سے امن و آشتی کے لیے چاند کی سطح پر آئے“۔
1969ءمیں امریکہ نے چاند کو اس پیغام کے ساتھ تسخیر کیا کہ وہاں تک نوع انسانی کی طرف سے امن و آشتی کیلئے آئے اور یہ کامیابی اس نے ٹیکنالوجی میں جدت اور ترقی کے باعث حاصل کی‘ جبکہ آج روئے زمین پر وہ انسان کو گولی کے زور پر تسخیر کرنا چاہتا ہے۔ ”امن“ کے نام پر انسانوں کا خون بے دردی سے بہایا جا رہا ہے۔ وہ بھی نہتے ،بے بس، بے کس، لاچار اور بے گناہ مسلمانوں کا۔
گزشتہ ویک اینڈ پر 6اگست 2011ءکو افغانستان کے صوبے وردک میں سعید آباد کے علاقے تنگی میں طالبان نے امریکی ہیلی کاپٹر مار گرایا۔ یہ ایک بڑے ٹارگٹ کی تلاش میں تھا۔ ٹارگٹ کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ مارے جانے والے 31 امریکی سیلز Seals میں سے 20 وہ تھے جنہوں نے 2مئی 2011ءکو ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن کے کمپاﺅنڈپر حملہ کرکے انہیں مبینہ طور پر قتل کر دیا تھا۔ ان کے ہمراہ سات افغان فوج کے کمانڈوز بھی مارے گئے۔ نیوی سیلز امریکہ کے بہترین کمانڈوز جانے جاتے ہیں۔ عموماً خصوصی اور ٹاپ سیکرٹ مشن کے لیے ان کو بلایا جاتا ہے۔ چنیوک ہیلی کاپٹر میں مارے جانے والے سیلز کا تعلق یونٹ 6 سے تھا جس کے کل کمانڈوز کی تعداد اڑھائی سو سے تین سو بتائی جاتی ہے۔ یہ کمانڈوز نیوی سے متعلق ضرور ہیں لیکن ان سے کہیں بھی براہ راست ایکشن، یرغمالیوں کو چھڑانا، انسداد دہشت گردی، روایتی اور غیر روایتی جنگی کارروائیوں میں حصہ لینا بھی اس کی ذمہ داری میں شامل ہے۔ SEAL مخفف ہے۔ SEA, AIR LAND کا۔
افغانستان میں دس سال سے جاری جنگ کے دوران ایک ہی واقعہ میں 31 امریکی فوجیوں کا مارے جانا سب سے بڑا نقصان ہے اور پھر سیلز کا طالبان کے ہاتھوں ہلاک ہونا تو امریکہ کے کرب و الم میں مزید اضافہ کر دیتا ہے۔ سیلز کو کارکردگی کے حوالے سے بلیک واٹر پر بھی برتری حاصل ہے اسی لیے 31 کمانڈوز کے مارے جانے پر امریکہ میں صف ماتم بچھ گئی ہے۔مغربی میڈیا نے عندیہ دیا تھا کہ اسامہ کی موت کے حقائق چھپانے کےلئے امریکہ نے خود اپنے کمانڈوز ہلاک کئے۔ ایسی افواہیں طالبان کی بہترین جنگی حکمت عملی اور کارکردگی کو سبوتاژ کرنے کی دانستہ کوشش ہو سکتی ہے۔ 
صدر اوباما نے سپیشل کمانڈوز کی ہلاکت پر افسوس کرتے ہوئے انہیں خراج تحسین پیش کیا اور کہا ”یہ ہلاکتیں ان غیر معمولی قربانیوں کی یاد دلاتی ہیں جو امریکی فوج اور ان کے خاندانوں نے افغانستان میں امن کے لیے دی ہیں“۔ امریکہ افغانستان میں جس قسم کا امن برپا کرنا چاہتا ہے اس کا اندازہ چنیوک ہیلی کاپٹر کی تباہی کے فوری بعد صوبہ ہلمند کے علاقے نادِ علی میں امام مسجد کے گھر پر نیٹو کی شدید بمباری سے لگایا جا سکتا ہے جس میں میاں بیوی اپنے 6 بچوں سمیت جاں بحق ہو گئے۔ افغانوں کو امن سے ہمکنار کرنے کے لیے ہی کبھی شادی کی تقریبات پر بمباری کی جاتی ہے کبھی مذہبی اجتماعات پر۔ حامد کرزئی نے بڑی تعداد میں امریکی اور افغان کمانڈوز کے مارے جانے پر اوباما سے دلی تعزیت کرتے ہوئے اسے امریکہ اور افغانستان کا مشترکہ نقصان قرار دیا اور کہا کہ وہ امریکی قوم کے درد میں شریک ہیں جبکہ نیٹو فورسز کی بمباری سے جو 6 بچے مارے گئے اس پر اوباما کو ندامت ہے نہ کرزئی کو اپنے ضمیر کی طرف کوئی ملامت۔
نوع انسانی کے امن کے لیے چاند پر جانے کا دعویدار امریکہ زمین پر لاشوں کے چیتھڑے اڑا کر بچوں اور خواتین سمیت معصوم انسانوں کے خون کی ندیاں بہا کر ایک ایسا ” امن“ قائم کر رہا ہے‘ جس کی بنیاد خالصتاً امریکی مفاد پر مبنی ہے۔ امریکہ دنیا کو جس قیمت پر تسخیر کرنا چاہتا ہے اس کا شاید امریکی انتظامیہ کو اندازہ نہیں ہے۔ بش اوباما سمیت کسی بڑی شخصیت کا بچہ اس امن کی جنگ کی آگ کا ایندھن نہیں بنا‘ جس میں نائن الیون کے بعد 25 سے لاکھ زائد انسان خاکستر اور زخموں سے چور ہو کر معذور ہو گئے۔ جن کی روحیں گھائل ہوئیں ان کی تعداد اس سے بھی کئی گنا ہے۔ دہشت گردی کے خلاف اس جنگ میں امریکی معیشت غرقاب ہو چکی ہے‘ افغانوں کے ہاتھوںدنیا کی پہلی سپرپاور روس کی طرح امریکہ کے بھی غروب ہونے کے امکانات روشن ہو چکے ہیں۔ پرغرور اور طاقت کے نشہ میں چور امریکہ کی یہ جنگ دراصل بے بس لوگوں سے نہیں بلکہ اللہ سے جنگ ہے‘ اور خدا سے بھلا کون جیت سکتا ہے؟ طالبان نے ایک اور امریکی ہیلی کاپٹر مار گرانے کا دعویٰ کیا ہے‘ جس میں 33 امریکی فوجی سوار تھے۔ دیکھیں امریکہ اس بارے میں کیا کہانی گھڑتا ہے؟


Tuesday, August 9, 2011

گورنر سعید بن عامر .... اور عمران خان


منگل ، 09 اگست ، 2011


گورنر سعید بن عامرؓ .... اور عمران خان
فضل حسین اعوان
پاکستان نے ایک ہی کرکٹ ورلڈ کپ جیتا جو عمران خان کے نام رہا‘ عمران خان نے شوکت خانم کینسر ہسپتال کے نام سے بہت بڑے منصوبے کا آغاز کیا تو دن رات ایک کرکے اسے بھی کامیابی سے ہمکنار کر دیا۔ آج اسکی پاکستان میں 62 لیبارٹریز اور کولیکشن سنٹر کام کر رہے ہیں۔ پشاور میں ہسپتال کی تعمیر شروع ہے‘ کراچی میں شہر کے اندر جگہ خریدنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ ہسپتال کے دو ارب روپے کے سالانہ اخراجات میں سے آدھے مخیر حضرات پورے کرتے ہیں۔ رمضان المبارک کے اوائل میں عطیات‘ زکوٰة اور خیرات کی وصولی کےلئے افطار کی تقریب ہوتی ہے۔ ایسی ہی تقریب چوتھے روزے ہوئی‘ جس میں دس کروڑ روپے کا ہدف مقرر کیا گیا تھا جو تقریباً پورا ہو گیا۔ بلاشبہ دنیا میں پاکستانی سب سے زیادہ چیریٹی کرنےوالے لوگ ہیں اور اس میں بھی شک نہیں کہ دنیا میں سب سے زیادہ ٹیکس چوری اور حرام خوری بھی پاکستان میں ہی ہوتی ہے۔ شاید اس لئے کہ چیریٹی کا پیسہ عوام پر خرچ ہونے کا یقین ہوتا ہے اور ٹیکس عمال کی جیبوں میں جانے کا۔ عمران کامیاب کپتانی کے بعد ایک کامیاب سماجی ورکر ٹھہرے‘ اب سیاست ہی نہیں‘ ملک میں بھی انقلاب برپا کرنے کیلئے سرگرم و سرگرداں ہیں‘ وہ عوامی خدمت اور سیاست کو الگ الگ رکھنے اور چلانے کی کوشش ضرور کرتے ہیں‘ لیکن دونوں کام ایک ہی شخصیت سے وابستہ ہیں تو خدمت اور سیاست کبھی کبھی پہلو بہ پہلو بھی ہو جاتے ہیں۔ 4 رمضان المبارک کو فنڈ ریزنگ تقریب غیرسیاسی تھی‘ لیکن موجودہ حالات میں سیاست کی تلخی یہاں بھی محسوس کی گئی۔ ایک مقرر نے حضرت سعید بن عامرؓ کی گورنری سے متعلقہ پہلو نمایاں کئے۔” عیاض بن غنمؓ کی وفات کے بعد جب حمص کی گورنری خالی ہوئی تو حضرت عمرؓ نے سعید بن عامرؓ کو اس جگہ متعین کیا۔ کچھ عرصہ بعد کسی نے مرکز خلافت میں خبر دی کہ سعید بن عامرؓ پر جنون کا اثر رہتا ہے تو حضرت عمرؓ نے تحقیقات کےلئے فوراً طلب فرمایا۔ اس طلبی پر حمص کا گورنر جس شان سے مدینے آیا‘ اس کا نقشہ سیرت اور تاریخ کی کتابوں میں ان الفاظ کے ساتھ کھینچا گیا ہے کہ سعید بن عامرؓ گورنر حمص کے ہاتھ میں صرف ایک عصا اور کھانے کیلئے ایک پیالہ تھا۔ حضرت عمرؓ نے پوچھا‘ ”سنا ہے تم پر جنون کا اثر رہتا ہے‘ تم پر غشی کے دورے پڑتے ہیں“؟ ہاں یہ سچ ہے لیکن اس کا سبب کسی قسم کا جنون نہیں ہے بلکہ اسکی وجہ خبیب بن عدیؓ کی شہادت کا واقعہ ہے‘ اس وقت میں بھی قریش کے ساتھ موقع شہادت پر موجود تھا۔ وہ اس حالت میں قریش کےلئے بددعا کرتے تھے‘ چونکہ میں بھی قریشی ہوں اس لئے جب خبیب بن عدیؓ کی بددعا یاد آتی ہے تو ڈر کے مارے بے ہوش ہونے لگتا ہوں۔“ حضرت عمرؓ نے پھر ان کو گورنری واپس کرنا چاہی تو انہوں نے انکار کر دیا لیکن پھر خلیفہ کے حکم سے مجبور ہو گئے اور حمص کی گورنری سنبھال لی۔ جب سعید بن عامرؓ حمص کے گورنر تھے تو ایک بار حضرت عمرؓ حمص اس غرض سے تشریف لے گئے کہ وہاں فقراءاور مساکین کی معاش کا انتظام کریں۔ خلیفہ نے کاتبوں سے ان کی فہرست تیار کرائی‘ اس میں سعید بن عامرؓ بھی ایک نام تھا۔ حضرت عمرؓ نے پوچھا یہ سعید بن عامرؓ کون ہیں؟ عرض کیا گیا ”یاامیرالمومنیں! ہمارے اور آپؓ کے امیر‘ حمص کے گورنر“۔ حضرت عمرؓ نے متحیر ہو کر پوچھا‘ ”تمہارا امیر اور فقیر! وظیفے کا کیا کرتا ہے؟“ لوگوں نے بتایا ”وظیفے کو تو وہ چھوتے بھی نہیں‘ غریبوں میں تقسیم کر دیتے ہیں“۔ حضرت عمرؓ سعید بن عامرؓ کی بے نیازی دیکھ کر رونے لگے اور اسی وقت ایک ہزار دینار کی تھیلی انکے پاس بھیجی تاکہ اس کو وہ اپنی ضرورت پر خرچ کریں۔ لیکن انہوں نے دولت کو اپنے لئے فتنہ سمجھا اور اگلے روز صبح اسلامی لشکر ادھر سے گزرا‘ آپ نے کل رقم اس کی ضرورت کیلئے دیدی۔“ ان صاحب نے عمران خان سے کہا‘ آپ کو اقتدار ملے تو ایسے ہی گورنر تعینات کیجئے گا۔ عمران خان نے اپنے خطاب میں کہا‘ بالکل ایسا کرنے کی کوشش کرینگے لیکن ایسے لوگ شاید امپورٹ کرنا پڑیں‘ لیکن کہاں سے؟ اس پر ایک ماہر قانون کی تقریباً دس سال قبل کی گفتگو یاد آگئی۔ وہ پاکستان میں تمام امراض کا علاج آزاد عدلیہ کو قرار دیتے ہوئے کہہ رہے تھے کہ سپریم کورٹ میں جج امپورٹ کرکے لائے جائیں‘ جن کو کوئی لالچ ہو‘ نہ خوف‘ اس سے اوپر سے نیچے تک سسٹم درست ہو جائیگا۔ ایسا چونکہ ممکن تھا‘ نہ کسی کی دلچسپی تھی‘ لیکن خدا کا کرنا یہ ہوا کہ ہمیں ایسے جج مل گئے جس طرح کے ایک قانون کے ماہر نے امپورٹ کرنے کا خواب دیکھا تھا۔ خدا کرے 2013ءکے بعد بھی ہمارے ججز جسٹس افتخار محمد چودھری کی روایات کے امین بن کر فیصلے کرتے رہیں۔ عمران خان اگر سیاسی انقلاب لے آتے ہیں‘ انکے کردار‘ اعمال و افکار‘ حضرت عمرؓ جیسا ہوئے تو یقیناً حضرت سعید بن عامرؓ جیسے گورنر عملہ اور عمال پاکستان سے ہی مل جائیں گے۔ قرون اولیٰ میں سلطنت وسیع ہوتی رہی‘ کامیابیوں کے پھریرے لہراتے رہے‘ عوام خوشحال اور امن و امان کی مثالی صورتحال تھی‘ ایک خاتون زیورات کے ساتھ تن تنہا مکہ سے مدینے تک بلاجھجک اور بغیر کسی خطرے کے سفر کرسکتی تھی‘ اس لئے کہ انصاف کی فراہمی یقینی تھی‘ سینکڑوں میل دور کتا بھوک سے مر جائے تو مدینے میں بیٹھا حکمران خود کو اس کا ذمہ دار سمجھتا تھا‘ عوام کی زندگی آسان‘ حکمرانوں کی کٹھن تھی‘ آج اسلامی جمہوریہ پاکستان میں اسکے برعکس ہے۔ برطانوی وزیراعظم کی رہائش گاہ 10ڈاﺅننگ سٹریٹ چند کمروں پر مشتمل ہے‘ یہ اخراجات انکی حکومت پورے کرتی ہے‘ بدیس میں حکمرانی کیلئے آئے تو گورنر ہاﺅس جیسے شاہی قلعے بنا دیئے جس میں پورا شہر آباد ہے‘ باغات‘ پہاڑیاں اور چڑیا گھر تک‘ یہ اخراجات غلاموں کا خون نچوڑ کر پورے کئے جاتے تھے‘ انگریز گیا فرق صرف یہ پڑا کہ مکینوں کی شکلیں بدلیں‘ نسلیں بدلیں اور رنگ بدلے‘ اعمال وہی رہے۔ ظاہر ہے گورے انگریزوں کی جگہ کالے ”انگریزوں“ نے لے لی تو مسائل بڑھنا ہی تھے۔ عام انتخابات زیادہ دوری پر نہیں‘ قوم کیلئے ان ملوکیت زدہ ”کالے انگریزوں“ سے جان چھڑانے کا ایک ہی بہترین موقع ہے‘ ووٹ کا صحیح استعمال اور غور و خوض کرکے سو بار سوچ کے کیجئے گا‘ شاید حضرت عمرؓ اور سعید بن عامرؓ جیسے حکمران پاکستان کو نصیب ہو جائیں۔ جہاں تک ”انقلاب“ کا تعلق ہے‘ خدا کرے وہ فرانسیسی انقلاب کی طرح نہ آئے‘ اس میں شاید عمران خان خود بھی اسکی نذر ہو جائیں‘ اللہ تعالیٰ پاکستان کو بتدریج انقلابی تبدیلی عطا فرمائے!


Sunday, August 7, 2011

اسیران میانوالی کی فریاد


 اتوار ، 07 اگست ، 2011

اسیران میانوالی کی فریاد

فضل حسین اعوان 
حرمتِ حرف اور تقدیسِ لفظ کیا ہے ؟۔ جو کہو سوچ سمجھ کر۔ جو کہہ دیا پھر اس میں مزید غور وفکر کی گنجائش نہ رجوع کی ۔اپنے کہے ، وعدے یا معاہدے سے اگر کوئی مکرتا ہے تو اس کے لئے جھوٹا ‘ فریبی‘ دغا باز ‘ عیار و مکار جیسے القاب والفاظ استعمال ہوتے ہیں۔ ہمارے ہی معاشرے میں ایسے لوگ بھی ہیں جو زبان دے کر جان تو دے دیدیتے ہیں ۔ اپنے قول سے نہیں پھرتے۔ آ ج بدقسمتی سے ایسے لوگوں کے سر پر چودھراہٹ کی پگڑی بندھی نظر آتی ہے جو وعدہ خلافی اور کہہ مکرنی کو سیاست کا نام دیتے ہیں۔یہ سیاست نہیں منافقت ہے ۔ہم ایسی سیاست کے اسیر نہیں جو اخلاقیات کو تاریکیوں اور انسانیت کو گمراہیوں میں بھٹکنے کے لئے چھوڑ دیتی ہے ۔ ہم اس نبیﷺ کے امتی ہیں جو ایک یہودی کے گھر کے باہر تین دن اس لئے کھڑے رہے کہ اس نے کہا تھا کہ ابھی آیا اور پھر بھو ل گیا تھا۔ کوئی میرا آئیڈل ہے یا آپ کا یا کسی کا بھی‘ اپنے وعدے سے مکرتا ہے تو قابل نفرت تو ہے ہی قابلِ گرفت‘ اور قابلِ احتساب بھی ہے۔ پیپلز پارٹی کی حکومت اپنے وعدوں معاہدوں اور دعو ¶ں کا جو حشر کر چکی وہ سب کے سامنے ہے۔ اس کی سب سے بڑی ناقد مسلم لیگ ن رہی ہے۔ آج بات مسلم لیگ ن کے وعدے اور پھر اس سے مکر جانے کی کریں گے جس سے اس کی ساکھ بری طرح متاثرہو رہی ہے۔ آگے چلنے سے پہلے حاجی فلک شیر عوامی صدر انجمن تاجران میانوالی کا اخبارات اور چیف جسٹس سپریم کے نام لکھا گیا خط مختصراً ملاحظہ فرمائیے تاکہ معاملہ سمجھنے میں آسانی رہے۔
”ضلع میانوالی اس وقت نیشنل گرڈ کو 1000 سے زائد میگاواٹ بجلی فراہم کر رہا ہے اور تقریباً 700 میگاواٹ کے منصوبے زیر تکمیل ہیں مگر ضلع میانوالی کے گلی کوچوں اور کھیتوں کھلیانوں میں اندھیروں کا راج ہے، یہاں 16 سے 18 گھنٹے لوڈشیڈنگ کے عذاب نے نظام زندگی مفلوج کر کے رکھ دیا‘ لوگوں میں احساس محرومی بڑھا اور یہاں کے لوگوں نے میانوالی کو بجلی کی لوڈشیڈنگ سے مستثنیٰ قرار دلوانے کے لئے ایک غیر سیاسی تحریک ”تحریک حقوق میانوالی“ کی بنیاد رکھی، تحریک حقوق میانوالی کے زیراہتمام 4 جولائی کو میانوالی کے جہاز چوک پر دھرنا، چشمہ کی جانب علامتی لانگ مارچ کا اعلان کیا گیا۔ 4 جولائی کے دن میانوالی کے کونے کونے سے ہزاروں کی تعداد میں لوگ جہاز چوک پر جمع ہوئے اور ایک محتاط اندازے کے مطابق تقریباً 50 ہزار لوگ اس احتجاجی دھرنے میں شریک تھے جو تمام کے تمام نہتے اور انتہائی پر امن تھے۔ مقررین نے 2 گھنٹے تقاریر کیں اورچشمہ کی جانب علامتی لانگ مارچ چل پڑا۔ یہ پر امن عوامی مارچ ابھی صرف نصف کلومیٹر کا جس پر فائرنگ اور بدترین آنسو گیس کے شیل برسائے مگر شرکاءپیدل سفر طے کرتے ہوئے تقریباً 4 کلومیٹر دور حسن چوک پر پہنچ گئے جہاں جلوس کے قائدین اور ضلعی انتظامیہ کے افسران، ڈی پی او اور ڈی سی او میانوالی کے درمیان مذاکرات ہوئے قائدین نے 20 جولائی تک اپنا احتجاجی پروگرام مو ¿خر کرنے کا اعلان کر دیا۔ قائدین احتجاجی پروگرام ختم کرنے کااعلان کر کے جیسے ہی واپس پلٹے ڈی سی او اور ڈی پی او میانوالی کے حکم پر پولیس نے امن شہریوں پر فائرنگ اور آنسو گیس کی شیلنگ سے 2 شہری شہید ہو گئے اور 30 کے قریب زخمی ہو گئے جو ابھی تک ہسپتالوں میں زیر علاج ہیں۔ )میڈیا رپورٹس کے مطابق مظاہرین اور پولیس کے تصادم میں ڈی پی او ڈی سی او تین ڈی ایس پیز سمیت 20 پولیس اہلکار بھی زخمی ہوئے۔ پولیس سے متعدد رائفلیں بھی چھینی گئیں) سر شام میانوالی پولیس نے 6 ہزار 870 افراد کے خلاف تھانہ صدر میانوالی میں مقدمہ نمبر 239 درج کر لیا جس میں 67 افراد نامزد ہیں۔ اس ساری صورتحال پر وزیراعلیٰ پنجاب نے نوٹس لیا اور سینئر وزیر اور مشیر سردار ذوالفقار علی خان کھوسہ کی سربراہی میں کمیٹی قائم کی جس کے رکن صوبائی وزیر زکوٰة وعشر ملک ندیم کامران اسی رات میانوالی پہنچے، انہوں نے ضلعی انتظامیہ، آر پی او سرگودھا اور کمشنر سرگودھا کے ساتھ میٹنگز کیں اور اگلے دن 5 جولائی کو کینال ریسٹ ہاﺅس میں تحریک حقوق میانوالی کے قائدین اور صوبائی وزیر کے درمیان مذاکرات ہوئے، ان کی کامیابی کے بعد صوبائی وزیر اور تحریک حقوق میانوالی کے قائدین نے مشترکہ پریس کانفرنس کی جو مختلف چینلز پر براہ راست نشر کی گئی جس میں صوبائی وزیر نے صحافیوں کے سوالات کا جواب دیتے ہوئے کہا ”4 جولائی کے واقعات میانوالی کی ضلعی انتظامیہ کی نااہلی اور غفلت کا نتیجہ ہیں، ڈی سی او اور ڈی پی اومیانوالی اس واقعہ کے ذمہ دار ہیں، اس معاملے کی جوڈیشل انکوائری کروائی جائے گی اور ذمہ داروںکے خلاف مقدمات درج ہوں گے، یہ انکوائری کمیٹی ڈی سی او اور ڈی پی اومیانوالی کے فوری تبادلوں کی سفارش وزیراعلیٰ سے کرے گی جو اس وقت ملک سے باہر ہیں، ان کی واپسی کے بعد وہ اس پر فیصلہ کریں گے، شہید ہونیوالے شہریوں اور زخمیوں کی مالی امداد کے لئے پنجاب حکومت سے سفارش کی جائے گی اور پولیس نے شہریوں کے خلاف جو ایف آئی آر درج کی ہے وہ معطل رہے گی اور کسی بھی فرد کو گرفتار نہیں کیاجائیگا اور میںنے یہ حکم وزیراعلیٰ پنجاب اور حکومت پنجاب کے نمائندہ کے طور پر پولیس کی اعلیٰ انتظامیہ اور دیگر اعلیٰ حکام کو دے دیا ہے، اور انکوائری کمیٹی میانوالی کو لوڈشیڈنگ سے مستثنیٰ قرار دلوانے کے لئے پنجاب حکومت وفاقی حکومت سے بات کرے گی“۔صوبائی وزیر ملک ندیم کامران نے جو کچھ کیا اس پر عمل ہونا چاہئے تھا لیکن ”روزنامہ نوائے وقت“ سے وابستہ صحافی رانا محمد ادریس پاکستان پیپلز پارٹی کے سابق امیدوار قومی و صوبائی اسمبلی، ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن میانوالی کے معزز رکن محمد سردار بہادر خان المعروف بابر خان اور حاجی فلک شیر کو پولیس نے گرفتار کرکے دہشت گردی کے مقدمات درج کر لئے۔ تینوں کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور آج یہ تینوں میانوالی جیل کے عقوبت خانے میں بند ہیں۔ وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف عموماً حبیب جالب کی نظم کے اشعار گنگناتے ہیں کبھی کبھی تو سرِ محفل سر میں بھی گا کر سناتے ہیں؛ 
دیپ جس کا محلات ہی میں جلے
چند لوگوں کی خوشیوں کو لے کر چلے
وہ جو سائے میں ہر مصلحت کے پلے
ایسے دستور کو صبحِ بے نور کو
میں نہیں جانتا میں نہیں مانتا
میاں شہباز شریف کے وزیر ندیم نے میاں صاحب کی طرف سے میانوالی جا کر جو وعدے کیئے ان پر من و عن عمل ہونا چاہئے تھا۔ پولیس وہاں جو کچھ بھی کر رہی ہے ممکن نہیں کہ سب اپنی مرضی کر رہی ہو کیا ندیم کامران نے سب کچھ مصلحت کے تحت کیا تاکہ لوگ گھروں کو جائیں تو چند ایک کو عبرت کا نشان بنا دیا جائے۔ ہزاروں افراد پر مقدمہ درج کرنے کا سوائے بلیک میلنگ کے اور مقصد کیا ہے۔ اگر کامران نے وہاں جاکر نیک نیتی سے مذاکرات کئے۔ انہوں نے جو وعدے کئے ان پر عمل نہیں ہوا توکم از کم ان کو تو مستعفی ہو کر سرخرو ہو جانا چاہئے۔ وزیرِاعلیٰ صاحب جس صبحِ بے نور کو نہ ماننے کی بات کرتے ہیں تو ان کو ایسی صبح کو نہیں ماننا چاہئے جو خواہ کہیں اور سے ابھرے یا اپنے یا اپنوں کے آنگن سے طلوح ہو۔ صحافی کا ہتھیار قلم اور کیمرہ ہوتا ہے۔ اس سے کیا دہشتگردی ہو سکتی ہے۔ مسلم لیگ ن کی حکومت نے اہلیانِ میانوالی سے جو وعدہ کیا اسے ایفا کرے اور نوائے وقت کے نمائندے رانا ادریس سمیت دیگر دو بے گناہ معززین کو فوری رہا کیا جائے۔


Friday, August 5, 2011

تعلیم

جمعۃالمبارک ، 05 اگست ، 2011

تعلیم
فضل حسین اعوان
(گزشتہ سے پیوستہ)
ہر پاکستانی کا تعلیم یافتہ یا خواندہ ہونا ملکی مفاد میں، لیکن تعلیم کو مخصوص طبقات تک محدود رکھنا سیاستدانوں کے مفاد میں ہے۔ ملک میں جمہوریت ہو یا آمریت تعلیمی شعبے کو یکساں نظر انداز کیا گیا ہے۔ نادانستہ نہیں، دانستہ۔ بالکل دانستہ۔ ہر دور میں ملک کو چوسا ”چرونڈا“ اور بھنبھوڑا گیا۔ کسی نے بھی قائد کے ملک کو نچوڑنے، مروڑنے اور متعدد نے تو توڑنے میں بھی کوئی کسر نہ چھوڑی۔ کیا یہ پسند کریں گے کہ پورا معاشرہ تعلیم کے زیور سے آراستہ ہو کر باشعور ہو جائے؟ ایک فلاحی ریاست میں تعلیم صحت اور روزگار فراہم کرنا حکومت کا فرض ہے۔ پاکستان تو اسلامی جمہوریہ بھی ہے جس میں عوام کو ہر ممکنہ سہولت فراہم کرنے کی حکومت پر ذمہ داری مزید بڑھ جاتی ہے۔ جن سہولیات پر عوام کا حق ہے ہر دور کے حکمران مراعات کا نام دے کر عوام کو فراہم کرکے احسان جتاتے ہیں۔ جس علاقے میں ایم این اے، ایم پی اے گلیاں، نالیاں، سڑکیں بنوا دیتا ہے۔ تھانے کچہری میں اپنے حلقے کے عوام کے شانہ بشانہ ہوتا ہے۔ علاقے میں نئے سکول تعمیر کراتا ہے۔ پرانے اپ ڈیٹ کراتا۔ کہیں بجلی، کہیں گیس لگوا دیتا ہے اور کہیں ڈسپنسریاں کھلوا دیتا، وہ لوٹ مار کرے، بدمعاشی یا عیاشی، اس کی علاقے مےں جے جے کار ہے۔ الیکشن آسانی سے جیت جاتا ہے۔ اپنے حقوق کے شعور اور حصول کے طریقہ کار سے لاعلمی کا فائدہ چالاک سیاستدان تب تک اٹھاتا رہے جب تک سادہ لوح لوگ تعلیم یافتہ نہیں ہو جاتے۔ اس لیے دیدہ دانستہ تمام سیاستدان اپنی مراعات میں اضافے کے بعد کسی نکتے پر متفق ہیں تو قوم کو تعلیم سے دور رکھنے میں۔ واویلا بڑاکیا جاتا ہے۔ مرکزی اور صوبائی حکومتیں تعلیم کے فروغ میں بڑی سرگرم نظر آتی ہیں۔ عملاً نتیجہ صفر ہے۔ تعلیم کے لیے مجموعی بجٹ کا 2 فیصد سے زائد نہیں۔ اس پر بھی بیورو کریسی اورعوامی نمائندے ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ ہائر ایجوکیشن کمشن نے کام شروع کیا۔اس کے توسط سے آج بھی ہزاروں سکالربیرون ممالک پی ایچ ڈی کر رہے ہیں۔ بھارت کو پاکستان کے ہائرایجوکیشن کمشن کی اعلیٰ کارکردگی کا علم ہوا تو بنیا حکومت ہِل کر رہ گئی۔ اُدھر وہ ابھی اس کا توڑ کرنے کے بارے میں سوچ رہے تھے۔کوئی سازشی ایجنڈہ ترتیب دینے کی تیاری کر رہے تھے۔اِدھر ا س کا ایجنڈا مکمل کر دیا گیا۔ ایچ ای سی نے سیاستدانوں کی جعلی ڈگریاں پکڑیں تو جعلسازوں نے ہائر ایجوکیشن کو ہی برباد کرکے رکھ دیا۔ اس بربادی میں ہو سکتا ہے دشمن کا ہاتھ نہ بھی ہو البتہ بھارتی بینئے نے سُکھ کا سانس ضرور لیا ہو گا۔ پاکستان اسے سائنسی تحقیقی اور ترقی کے آسمان پر درخشندہ ستارہ نظر آ رہا تھا۔ اب وہ شہاب ثاقب کی طرح زمین پر آ گرا ہے۔
مہاتیر محمد سے ملاقات میں ہائر ایجوکیشن کے سابق چیئر مین عطاءالرحمن نے ملائشیا کی تیزی سے ترقی کا راز پوچھا تو ان کا کہنا تھا کہ ہماری تیس سال توجہ تعلیم پر رہی، قومی بجٹ کا 30 فیصد تک تعلیم کے لیے مختص کیا جا رہا ہے۔ ہم نے عہد کیا تھا کہ پیٹ پر پتھر باندھ لیں گے۔ ملک کو تعلیم یافتہ بنائیں گے۔ ٹونی بلیر سے کسی نے پوچھا آپ کی تین ترجیحات کیا ہیں تو ان کا جواب تھا کہ تعلیم، تعلیم اور تعلیم۔ 1867ءمیں 15 سال کی عمر میں شہنشاہ موتسو ہیتو نے اقتدار سنبھالا تو انہوں نے جاپان کی کایا پلٹنے کی منصوبہ بندی کے لیے رائے مانگی۔ اکثر نے تعلیم کو ترجیح دینے کا مشورہ دیا۔ شہنشاہ نے اتفاق کرتے ہوئے تعلیم کے فروغ کے لیے وسائل کے منہ کھول دیئے۔ ملک میں اعلیٰ تعلیمی ادارے قائم کرکے دنیا کے جس خطے سے دستیاب تھے اساتذہ جاپان میں لائے گئے۔ جاپانی طلباءکو بیرون بھجوایا گیا۔ ایک وقت ایسا تھا کہ یورپ اور امریکہ کی یونیورسٹیوں میں ہر تیسرا سٹوڈنٹس جاپانی تھا۔ جاپان نے اگر دنیا کی معیشت پر اپنی اجارہ داری قائم کی تو تعلیم کو پہلی ترجیح دینے کی بدولت۔ حیران کن امر ہے کہ 1904ءمیں جاپان نے روس کو جنگ میں شکست دی۔ اس فتح میں بھی جاپانیوں کی جدید ٹیکنالوجی اور علوم پر دسترس کا حامل ہونا نمایاں پہلو تھا۔ ہم نے تعلیم کے حوالے سے نبی کریم کا فرمان نظر انداز کر دیا کہ تعلیم مرد و زن پر فرض ہے۔ تعلیم کے لئے چین بھی جانا پڑے تو جاﺅ۔ مروجہ جمہوریت میں معاشرہ صدیوں میں بھی خواندہ نہیں ہو سکتا۔ معاشرہ خواندہ نہیں ہو گا تو یہی جمہوریت چلے گی جس میں کرپٹ ترین لوگ اعلیٰ عہدوں پر چہرے بدل بدل براجمان رہیںگے۔ موسٹ اپر کلاس کرپٹ ہو گی تو کرپشن کا ناسور نیچے تک بلا روک ٹوک پھیلتا رہے گا۔ ظالم حکمران ہوں گے تو معاشرے میں انصاف کی توقع عبث ہے۔ ذرا سوچئیے ہر پاکستانی کو پڑھا لکھا کیسے بنایا جا سکتا ہے ؟ان حالات میں جبکہ تعلیم کے فروغ کی چابی ان ہاتھوں میں ہے جن کو پڑھا لکھا معاشرہ سوٹ نہیں کرتا۔ (ختم شد)


Thursday, August 4, 2011

تعلیم

 جمعرات ، 04 اگست ، 2011


تعلیم
فضل حسین اعوان
قومی وجود کو لاحق امراض و عوارض کے اسباب کا جائزہ لیں تو سرِ فہرست تعلیمی پستی و انحطاط ہے۔ کرپشن، بدامنی، بیروز گاری اور لاقانونیت سمیت تمام مسائل مصائب اور بحرانوں کا حل صرف اور صرف تعلیم کے فروغ میں ہی پوشیدہ و پنہاں ہے۔ حکومتی دعوﺅں کے مطابق پاکستان میں تعلیمی شرح 56 فیصد ہے۔ جعلی سرویز اور بوگس اعداد و شمار سے حقیقت کو چھپایا نہیں جا سکتا۔ شرح خواندگی 100 فیصد قرار دینے سے بھی حقائق تبدیل نہیں ہو سکتے۔ ہمارے ہاں شعبہ تعلیم کو جس طرح نظر انداز کیا گیا ہے بلکہ لاوارث چھوڑا ہوا ہے، اس پر نظر ثانی نہ کی گئی۔ بھرپور توجہ نہ دی گئی تو ہزار سال میں بھی تعلیمی شرح 100فیصد نہیں ہو سکتی۔ ہمارے ہاں تعلیم یافتہ کا تعین شناختی کارڈ کے لیے جمع شدہ فارموں سے کیا جاتا ہے۔ جس نے انگوٹھا لگایا وہ اَن پڑھ، جس نے دستخط ثبت کر دیئے وہ تعلیم یافتہ۔ اگر میٹرک پاس کو ہی تعلیم یافتہ تصور کر لیا جائے تو شرح خواندگی بمشکل 15سولہ فیصد ہو گی۔ ایک طرف تعلیم کے میدان میں ہماری میدان چھوڑ قسم کی ”بے میدانی“ ہے دوسری طرف جمہوریت کا شوق بے پایاں ہے وہ بھی نظام ہے‘ ایک فرد ایک ووٹ۔ آپ ذرا دیہات میں تشریف لے جائیے۔ بہت سے لوگ ایسے ملیں گے جن کو سو تک گنتی نہیں آتی۔ صدر وزیراعظم اور گورنر و وزیراعلیٰ کے نام سے نابلد‘ کئی کو تو اپنی تحصیل و ضلع کے نام کا بھی نہیں پتہ‘ خاندانی بڑے یا علاقائی وڈیرے نے جس نشان پر مہر ثبت کرنے کو کہہ دیا اس پر جڑ دی۔ اہمیت کے حوالے سے اس شخص کا ووٹ زرداری، گیلانی، نواز شریف، جسٹس افتخار اور ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے برابر ہے۔ اعلیٰ سطح کی کرپشن معاشرے کی جڑوں تک کو کھوکھلا کر دیتی ہے۔ اس کے اثرات قومی وجود کے روئیں روئیں تک محسوس ہوتے ہیں۔ انصاف ناپید‘ ظلم رقصاں‘ تاریکیاں اور مایوسیاں عوام کا مقدر بن جاتی ہیں۔ یہ سب تعلیمی تنزل کا آئینہ دار ہے۔ آپ جب تک تعلیم عام نہیں کریں گے۔ ہر فرد کو حقیقی معانی میں پڑھا لکھا نہیں بنائیں گے، جمہوریت اپنے صحیح روپ میں نافذ ہو سکتی ہے نہ ترقی و خوشحالی کے خواب کو تعبیر مل سکتی ہے۔ ترقی و خوشحالی یقیناً تعلیم یافتہ معاشرے سے مشروط ہے۔ تعمیر کے لئے تعلیم ناگزیر ہے۔ اکثر ممالک تعلیم کے زور پر ترقی کی معراج تک پہنچے بعض نے تو تخریبی مقاصد کےلئے بھی تعلیم کو استعمال کیا۔ اس کی ایک مثال بھارت ہے۔ جس نے تعلیم کو تعذیب و تخریب کے ہتھیار کے طور پر استعمال کرتے ہوئے پاکستان کو دولخت کر دیا۔ لیفٹیننٹ کرنل (ر) سکندر خان بلوچ سقوط سے قبل مشرقی پاکستان میں تعینات تھے۔ وہ اپنی کتاب ”جانثارانِ وطن“ میں لکھتے ہیں کہ: ”ہماری یکجہتی کے خلاف سب سے اہم ہتھیار مشرقی پاکستان کی ہندو آبادی تھی، قیام پاکستان کے وقت مشرقی پاکستان کی کل آبادی تقریباً چار کروڑ کے لگ بھگ تھی جن میں تقریباً پچاس لاکھ ہندو تھے جو تجارت مالی امور تعلیم اور بقیہ سروسز میں اہم مقامات پر تعینات تھے۔ انہوں نے شروع سے جس تعلیمی نظام کی بنیاد رکھی وہ مغربی پاکستان کی مخالفت تھا کیونکہ اس کا رُخ کلکتہ کی طرف موڑ دیا گیا تھا۔ اسلام کی بجائے بنگالی کلچر کو تعلیم کا اہم موضوع بنایا گیا۔ تعلیمی نصاب میں ایسی ایسی لغو قسم کی مثالیں شامل کی گئیں جو شروع سے ہی بچوں کو پاکستان کا مخالف بنا دیں۔ مثلاً ایک دفعہ میرے ایک دوست نے تیسری جماعت کے حساب کی کتاب دکھائی جس میں کئی ایسے سوالات تھے جو بنگالی بچوں کے ذہنوں میں زہر گھولنے کے لیے کافی تھے۔ ذرا اس مثال پر غور کریں ۔ (الف): پنسل بنانے کی لکڑی مشرقی پاکستان میں پیدا ہوتی ہے لیکن پنسلیں مغربی پاکستان میں بنتی ہیں، وہاں ایک پنسل دو پیسے میں بنتی ہے اور یہاں ایک آنے میں فروخت ہوتی ہے۔ مشرقی پاکستان وہاں سے سالانہ تقریباً دس کروڑ پنسلیں منگواتا ہے۔ بتائیے ایک سال میں مغربی پاکستان نے مشرقی پاکستان سے کتنا زیادہ پیسہ وصول کیا؟ (ب): یہی پنسل اگر ہم کلکتہ سے منگوائیں تو ہمیں یہاں دو پیسے میں پڑے گی۔ اگر ہماری ضرورت دس کروڑ پنسلیں سالانہ ہوں تو بتائیں ایک سال میں مشرقی پاکستان کتنی رقم کی بچت کرے گا؟ 
اس قسم کے کئی اور سوالات تھے، جب چھوٹے معصوم بچوں کے ذہنوں میں اس قسم کے سوالات ڈالے جائیں گے تو وہ صحیح پاکستانی کیسے بنے گا وہاں ہندو اثر و رسوخ اتنا زیادہ تھا کہ ایک مرحلے پر راجشاہی یونیورسٹی کے اسلامیات کے شعبے کا سربراہ ہندو تھا۔ ہمیشہ چھوٹے چھوٹے واقعات طوفانوں کو جنم دیتے ہیں جو بعد میں تاریخ پر اثر انداز ہوتے ہیں اور یہی کچھ وہاں بھی ہوا۔ کہتے ہیں کہ کسی قوم میں تبدیلی اچانک شروع نہیں ہوتی اس کی ابتدا ہمیشہ سکولوں سے ہوتی ہے، اسی لئے کہا جاتا ہے کہ:
A man is what his mind is & his mind is what his education makes it.
1971ءمیں ان لوگوں نے وہی کچھ کیا جو کچھ ان کے نظام تعلیم نے انہیں بنایا۔ یہ کہنا بجا ہے کہ کسی قوم کی تقدیر نہ بڑی فیکٹریوں میں بنتی ہے نہ سیاسی ڈرائنگ روموں میں اور نہ ہی جاگیرداروں کی جاگیروں پر بلکہ ان ٹوٹی پھوٹی عمارتوں میں بنتی ہے جنہیں ہم سکول کہتے ہیں۔ معاشرے کو تعلیم یافتہ بنائے بغیر ہم ترقی یافتہ قوموں کی صف میں شامل نہیں ہو سکتے۔ جمہوریت بھی اصل شکل میں تبھی نافذ ہو سکتی ہے جب ہر پاکستانی تعلیم سے آراستہ و پیراستہ ہو۔ (جاری)


Wednesday, August 3, 2011

ذمہ دار میڈیا

بدھ ، 03 اگست ، 2011

”ذمہ دار میڈیا“
فضل حسین اعوان 
یہ واقعہ، لطیفہ، ڈھمکیری یا افسانہ آپ نے پہلے بھی سن رکھا ہو گا۔ موقع کی مناسبت سے ایک بار پھر سہی۔ ”امریکن، کمیونسٹ روسی کو جمہوریت کے فضائل بتاتے ہوئے کمیونزم کے انسانی آزادی غصب کرنے، آزادی اظہار پر پابندیاں لگانے جیسے مسائل گِنا رہا تھا۔ روسی کا جواب تھا کہ وہ اپنی حکومت اور حکمرانوں کے روئیے سے مطمئن ہے۔ امریکن نے کہا کہ ہمیں جمہوریت نے اس قدر آزادی دے رکھی ہے کہ میں اپنے صدر کے روبرو یہ تک کہہ سکتا ہوں کہ تم بدمعاش، بے ایمان، چور لٹیرے ہو۔ روسی نے امریکن کی بات مکمل ہونے سے قبل ہی ترکی بہ ترکی جواب دیا ”یہ کونسی بڑی بات میں کئی بار یہ بات تمہارے صدر کے سامنے کہہ سکتا ہوں“.... دنیا میں ہر ملک اپنے مفاد کے لئے کام کرتا ہے۔ بات کرتا ہے۔ امریکہ اپنے مفاد کے لئے سات سمندر پار چلا آیا۔ برطانیہ سمیت کئی ملک اس کے اتحادی ہیں۔ امریکہ و برطانیہ‘ پاکستان میں اپنے اپنے مفاد کے لئے بہت کچھ کر رہے ہیں۔ ہم بھی جو ممکن ہے کرتے ہیں۔ اپنے مفاد کے لئے نہیں، اِن کے مفاد کے لئے۔ ایسی ہی مثال ہمارے نو آموز میڈیا کی بھی ہے۔ 
وزارتِ خارجہ کا قلمدان سنبھالنے کے چند روز بعد حنا ربانی کھر پاکستان بھارت وزرائے خارجہ سطح کے مذاکرات کے لئے دہلی گئیں۔ ہندو بنیے کا اسلام اور پاکستان سے تعصب اور خبث چھپائے نہیں چھپ سکتا۔ بھارتی میڈیا تو پاکستان دشمنی میں اپنے حکمرانوں اور سیاستدانوں سے بھی دو ہاتھ آگے ہے۔ پاکستان کا نام سنتے ہی عیار و مکار بنیے کے تن بدن میں نفرت کی چنگاری سلگ اٹھتی ہے تو میڈیا کا دل اور دماغ دہکنے اور زبان شعلے اگلتی ہے۔ گذشتہ ماہ 13 جولائی 2011 کو ممبئی میں پھر بم دھماکے ہوئے جن میں 23 افراد مارے گئے۔ بھارتی میڈیا نے ایک لمحہ کی تاخیر کئے بغیر، بلاتحقیق و تفتیش اس کا الزام پاکستان پر لگا دیا۔ بھارتی حکومت تذبذب میں رہی تاہم مکمل چھان بین کے بعد کہا گیا کہ اس میں پاکستان کا ہاتھ نہیں۔ ہندوانہ تعصب کے باعث بھارتی میڈیا نے ربانی کھر کا دورہ نئے انداز میں سبوتاژ کرنے کی کوشش کی۔ ان کی شخصیت کو طلسماتی اور کرشماتی قرار دینے کے پردے میں ان کے لباس‘ میک اپ‘ بیگ‘ زیورات اور سینڈل کی غیر حقیقی ہوشربا قیمتیں بتا کر ان کی تضحیک و تذلیل کی گئی۔ حنا ربانی نے بھارتی میڈیا کو لفٹ نہیں کرائی ہو سکتا ہے کہ وہ اس پر بھی پیچ تاب کھا رہا ہو۔ ٹائمز آف انڈیا نے حنا ربانی کھر کے بیگ کی قیمت 17 ہزار ڈالر بتائی۔ نیکلس کو مہنگے ترین موتیوں کا حامل ٹھہرایا میک اپ پر شرمناک قسم کا تبصرہ کیا۔ یہ بھی کہا گیا کہ وہ گیلانی کے ان وزرا میں شامل ہیں جو ٹیکس نہیں دیتے۔ کیا یہ بیگ نہرو گاندھی کی چمڑی اور نیکلس کے موتی ہندو حسیناﺅں کی ہڈیوں سے ان کی تشہیر کرنیوالوں کی موجودگی میں بنائے اور تراشے گئے تھے۔ ہندو الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا پاکستانی وزیر خارجہ کو ماڈل، فیشن کی دلدادہ قرار دیکر اپنے دل کی بھڑاس نکالتا رہا۔ اس پر یہاں حنا ربانی کھر کی اہلیت پر انگلیاں اٹھانے اور خود کو وزارت خارجہ کا اہل جتانے والے‘ بھارتی میڈیا کے شیطانی پراپیگنڈے کو اپنے روشن مستقبل کی نوید گردان رہے تھے۔ لیکن ہمارے میڈیا کو کیا ہوا؟ اسلام اور پاکستان ہندو میڈیا نے پاکستانی وزیر خارجہ کی شخصیت کو مسخ کرنے کا سلسلہ جہاں چھوڑا تھا ہمارے میڈیا نے اسے وہاں سے جھپٹ کر مزید آگے بڑھایا بلکہ آخری حد اور انتہا تک پہنچا دیا۔ ہمیں تو بھارتی میڈیا کا منہ توڑ جواب دینا چاہئے۔ افسوس کہ سبقت کے زعم میں دشمن میڈیا کی رپورٹوں اور رپورٹنگ کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا۔ بعض کالم نگار بھائی بھی جلتی پر تیل ڈالنے میں پیچھے نہ رہے۔ ہمارے میڈیا کے پاس حنا ربانی کھر کا کشمیری حریت قیادت سے بھارت کی زمین پر ملاقات ایک جرا ¿ت مندانہ، نمایاں اور منفرد کارنامہ ہے۔ جس کا بھارت میں سرکاری سطح پر بُرا منایا گیا۔ ہندو قیادت نے مذاکرات سے قبل دعوے کئے کہ مذاکرات کا ایجنڈا دہشتگردی ہو گا۔ کشمیر پر بات نہیں ہو گی۔ بھارت بدنیت ہی سہی تاہم یہ ساری دنیا نے دیکھا کہ مذاکرات میں مسئلہ کشمیر پر بات ہوئی۔ مشترکہ اعلامیہ میں اس کا ذکر تھا اور سب سے بڑھ کر مشترکہ پریس کانفرنس میں بھارتی وزیر خارجہ ایس ایم کرشنا نے کہا کہ کشمیر پر بات چیت جاری رہے گی۔ پاکستانی میڈیا ان معاملات کو نمایاں کر سکتا تھا۔ بھارتی میڈیا کو حنا ربانی نے کوئی اہمیت نہیں دی اس پر بہت کچھ لکھا، دکھایا اور سنایا جا سکتا تھا۔ بھارتی میڈیا نے جو کچھ کہا وہ اس کا اپنی حب الوطنی کا اظہار ہے۔ جو اپنے ہاں (نوائے وقت اور وقت نیوز کے سوا) ہوا۔ دانستہ یا نادانستہ اور بدستور ہو رہا ہے۔ آخر وہ کس سوچ کا عکاس ہے؟
تاہم اسلامی ملک کی خاتون وزیر خارجہ ہونے کے ناتے ان کا اپنے ہم منصب کرشنا سے مصافحہ کرنے کو پاکستان میں ضرور محسوس کیا گیا۔ محترمہ بینظیر بھٹو بطور وزیراعظم کسی سے ہاتھ نہیں ملایا کرتی تھیں۔ حنا کی طرف سے مصافحہ کے لئے پہل کو مزید شدت سے محسوس کیا گیا۔ پاکستانی اپنی وزیر خارجہ سے بجا طور پر امید رکھتے ہیں کہ وہ ان کے جذبات کے احترام میں آئندہ کسی مرد سے ہاتھ نہیں ملایا کریں گی۔ اس حوالے سے وہ اپنی پارٹی کی شہید قائد محترمہ بینظیر بھٹو کی تقلید کریں۔

ترک جمہوریت


آج : بدھ ، 02 اگست ، 2011

ترک جمہوریت
فضل حسین اعوان 
ترکی میں اتاترک کا سیکولرازم بکھرے ہوئے عبرت کا نشاں بن رہا ہے۔ دہریت اپنی موت کی دہلیز پر ہے۔ سیکولرازم کی محافظت کی دعویدار، ضعیف الایمان، جاں نشین فوج مجرم بنی دہریت کے بتوں کو پاش پاش ہوتا دیکھ رہی ہے۔ جج اور جرنیل ملک میں اسلام کو برداشت کرتے ہیں نہ اسلام پسندوں کو۔ عدنان مینڈریس نے ترکی کو اپنے اصل کی طرف لے جانے کی کوشش کی تو انہیں پھانسی دیدی گئی۔ نجم الدین اربکان نے بھی میندریس کی طرح اسلامی پالیسی اپنائی تو ان کو بھی فوج ایک سال بعد ہی گھر کی راہ دکھا دی۔ آج ترکی میں نافذ العمل آئین 1982ءمیں فوج کا دیا ہوا ہے۔ فوج میں بھرتی سے قبل یقینی بنایا جاتا ہے کہ امیدوار میں ایمان و ایقان کی رمق تک نہ ہو۔ اس کے تن من میں اتاترک کا سیکولرازم اور جذبہ دہریت موجزن ہو۔ داڑھی رکھنے پر پابندی ہے۔ ترکوں کا اصل چونکہ اسلام ہے۔ کسی دل کے نہاں خانے میں اپنے اصل کی چنگاری کا موجود ہونا بعید نہیں۔ یہ کسی فوجی کے دل میں شعبہ بن جائے تو اس کی تپش اولاد کی تربیت سے محسوس کی جاتی ہے۔ لادین فوج نے کئی افسروں کو اس لئے فوج سے نکال دیا کہ ان کے بچے قرآن حفظ کرتے تھے۔ نمازی افسروں کی ترقی پر پابندی ہے، داڑھی رکھنے کی اجازت نہیں ہے۔ عظیم مذہبی رہنما فتح اللہ گولن نے اپنی تحریک کی ترویج کو خفیہ رکھنے کے لئے خود داڑھی رکھی نہ اپنے مریدوں کو اجازت دی۔ بظاہر ترکی میں جمہوریت تھی لیکن سکہ فوج کا چلتا رہا۔ طیب اردگان حکومت میں آئے۔ عبداللہ گل جیسا ساتھی ملا۔ دونوں نجم الدین اربکان کی پارٹی میں تھے تربیت کا اثر تھا۔ عدنان میندریس اور نجم الدین اربکان جیسی 8 پالیسیاں اپنائیں۔ دہریت سے نفرت، دین سے محبت کا اظہار کیا۔ طیب اردگان اور عبداللہ گل کی بیگمات حجاب اوڑھ کر سرکاری تقریبات میں شرکت کرنے لگیں تو فوج نے بُرا منایا۔ اس پر اعتراض اور احتجاج تک کیا، اسلام پسند پالیسیوں کے نفاذ پر باقاعدہ آنکھیں دکھائیں اور دھمکیاں دیں۔
اپریل 2007ءکے صدارتی الیکشن عبداللہ گل کے انتخاب پر فوج چیں بجیں ہوئی۔ فوج کی طرف سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا ترک افواج اپنے موقف کے اظہار سے نہیں شرمائے گی۔ یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ ترک افواج سیکولرازم کے مخلص محافظ ہیں اور ان مباحث کے خلاف ہیں اور اپنی پوزیشن اور موقف ضرورت کے وقت ظاہر کریں گے۔ اگر ضرورت پڑی تو وہ اپنا کردار ادا کرنے سے نہیں کترائے گی۔ 
اردگان نے اپنے کام سے کام رکھا۔ خاموشی سے اپنے طے شدہ پلان پر عمل پیرا رہے۔ 2003 میں فوج نے تختہ الٹنے کی سازش کی اسے ناکام بنایا۔ فوج کی وارننگ‘ دھمکیوں اور اصلاح کی تنبیہ کو صبر سے سنا۔ حاضری سروس جرنیلوں کے ساتھ ٹکراﺅ سے گریز کیا۔ فروری 2010ءمیں بری‘ بحری اور فضائی افواج کے سربراہوں کو ریٹائر ہوتے ہی گرفتار 2003 میں جمہوری حکومت کے خلاف بغاوت کی کوشش کے الزام میں ساتھیوں سمیت گرفتار کر لیا۔ جنرل ددگان، ایڈمرل اوزون اور ایئر چیف مارشل فرطانہ اپنے کرموں کا پھل جیل میں بیٹھے کھا رہے ہیں ان کے ساتھ 40 جرنیلوں سمیت 250 دیگر افسر بھی شامل ہیں۔ گزشتہ ماہ ایک ائر چیف مارشل فوجی انقلاب لانے کے لئے بے تاب نظر آئے تو حکومت نے ہتھکڑیاں لگا کر جیل میں ڈال دیا۔ فوجی قیادت اگلے پچھلے گرفتار شدہ فوجی ساتھیوں کی رہائی چاہتی تھی۔ کہا جاتا ہے حکومت کے ساتھ مذاکرات کئے گئے۔ مذاکرات ہمیشہ برابری کی سطح پر ہوتے ہیں۔ پاکستان کی طرح ترکی میں بھی فوج حکومت کا ماتحت ادارہ ہے۔ فوجی سربراہان کی طرف سے چیف آف جنرل سٹاف جنرل اسک کوسیز نے حکومت سے مذاکرات نہیں کئے۔ اپنے ساتھیوں کی رہائی کی درخواست کی تھی بغاوت پر آمادہ ایئرچیف مارشل کو عہدے پر بحال کرنے کی استدعا کی۔ حکومت نے استدعائیں اور التجائیں مسترد کیں تو 28 جولائی چیف آف جنرل سٹاف اور تینوں افواج کے سربراہوں نے استعفے دیدئیے۔ بات بغاوتوں اور انقلابوں کے بجائے استعفوں تک آ گئی۔ ترکی کے جرنیلوں نے آئینی اور قانونی طریقہ اپنایا۔ طیب اردگان نے اپنی بہترین صلاحیتوں، حکمت اور دانش سے آمادہ پیکار فوج کو اس کے آئینی اور قانونی حصار میں بند کر دیا۔ اب شاید ترکی میں کبھی فوج انقلاب اور اصلاح کے نام پر بغاوت نہ کر سکے۔ ترکی اور پاکستان کے آمریت و جمہوریت کے حوالے سے حالات کافی ملتے چلتے ہیں۔ ہمارے سیاستدان طیب اردگان کی حکمتِ عملی سے درس لیں۔ فوج کو سیاسی معاملات میں مداخلت کے لئے پکارنے کے بجائے اسے سرحدوں کے محافظ کے طور پر محترم و مکرم رکھیں۔ جہاں انکی بطور خاص ضرورت ہے۔ باالخصوص بھارتی بارڈر پر جو ہمارا ازلی دشمن ہے جس نے تقسیم ہند کو تسلیم کیا ہے نہ قیام پاکستان کو۔ جسے دولخت کرنے کے باوجود چین سے نہیں بیٹھ رہا۔ حکمران بھی خود بکری اور فوج کے شیر ہونے کے تاثر کو ختم کریں۔