About Me

My photo
Fazal Hussain Awan colomnist Daily NAWAI WAQT awan368@yahoo.com 03334215368

Tuesday, January 31, 2012

v وکٹری

منگل ، 31 جنوری ، 2012

v وکٹری
فضل حسین اعوان 
دوسری جنگ عظیم میں برطانوی وزیراعظم سرونسٹن چرچل نے دو انگلیوں سے V وکٹری کا نشان بنا کر دوسروں تک اپنی کامیابی کی نوید اور خوش کن جذبات پہنچانے کیلئے ایک علامت ایجاد کی۔ چرچل کی یہ اختراع دنیا بھر میں عام ہوئی اور پاکستان میں بھی پھیل چکی ہے۔ برسبیلِ تذکرہ مغرب میں مٹھی بند کر کے انگوٹھے کو اوپر اٹھا کر دکھانے کو OK کی نشانی سمجھا جاتا ہے۔ مغرب والے جسے اوکے سمجھتے ہیں، ہمارے ہاں ویسے ہی انگوٹھا کھڑا کیا جائے تو اسے ٹھینگا قرار دیا جاتا ہے البتہ پاکستان میں بھی کہیں کہیں OK کا استعمال پایا جاتا ہے۔ 
آگے چلنے سے پہلے ایک اقتباس پر نظر ڈالئے (مصنف سے معذرت کے ساتھ نام یاد نہیں)۔ ”وکٹری کا نشان پہلے پہل سرونسٹن چرچل نے بنایا تھا۔ اپنے ہاتھ کی درمیانی انگلی اور اُس انگلی کی مدد سے "V" کا نشان بنا کر دکھایا کہ جس انگلی کو دور جاہلیت کے عرب ”سبّابہ“ کہتے تھے، کسی کو گالی دیتے وقت یا سبّ و شتم کرتے وقت یہی انگلی اٹھائی جاتی تھی۔ جب وہ محسنِ انسانیت ہویدا ہوا جسے خالق کائنات نے صاحبِ ”خلقِ عظیم“ قرار دیا تو یہی انگلی اس بات کی شہادت دینے کا اظہار کرنے لگی کہ اللہ کے سوا کوئی اِلٰہ نہیں اور محمد اللہ کے بندے اور رسول ہیں۔ اب ہم تمام مسلمان اس انگلی کو انگشتِ شہادت کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ چرچل نے Vivtory"V" کا نشان کیا بنایا سب نے چرچل کی اس سنت کو اپنا لیا۔ موقع بے موقع انگلیاں اٹھا کر یہ علامت بنائی جانے لگی حتیٰ کہ قومی مجرم جب پکڑ کر جیل لے جائے جاتے ہیں تو پولیس کی گاڑی میں بیٹھتے وقت یہی فاتحانہ نشان بناتے ہیں جیسے اعلان کر رہے ہوں کہ دیکھو! ہم نے کیسی فتح مندی کے ساتھ قومی خزانہ لوٹ لیا ہی!“ 2007ءمیں ایک فوجی دستے کو لال مسجد اور جامعہ حفصہ آپریشن کا ناخوشگوار فریضہ ادا کرنا پڑا جس میں سفاک صفت ڈکٹیٹر مشرف کے حکم پر معصوم بچیوں تک کو بارود سے پگھلا دیا گیا۔ آپریشن مکمل ہوا تو گاڑی میں واپس جاتے ہوئے بعض سکیورٹی اہلکار V کا نشان بنا رہے تھے۔ یہ انداز انتہائی شرمناک تھا۔ آپ نے دشمن کی سرزمین پر توحید کا پرچم نہیں لہرایا تھا معصوم جانوں پر بارود و آہن برسایا تھا۔ قومی کرکٹ ٹیم نے دوبئی اور ابوظہبی میں ورلڈ رینکنگ میں نمبرون برطانیہ کو بڑے مارجن سے شکست دے کر شاندار کامیابی حاصل کی۔ اس پر ٹیم اور قوم کی طرف سے جشن منانے کا حق تھا اور یہ جشن منایا بھی گیا۔ گذشتہ سال چندی گڑھ میں بھارت کے ہاتھوں، وہاں وزیراعظم گیلانی کی موجودگی میں سیمی فائنل ہارے تو اس پر ندامت کے بجائے ٹیم کے کھلاڑی اور کئی پاکستانی مسرور نظر آئے۔ ملک بھر میں ٹیم کے اعزاز میں تقریبات منعقد کی گئیں، کھلاڑی جگہ جگہ سے انعامات وصول کرتے رہے۔ یہ کھلاڑیوں‘ جشن منانے اور انعامات کی بارش کرنے والوں کیلئے شرم کا مقام ہونا چاہئے تھا۔ بھارت سے شکست پر انعامات اور تمغات نچھاور کرنے والوں کی حب الوطنی شک سے بالاتر نہیں رہی۔ کھلاڑی بھی شکست پر اعزازات کو بھیک اور ذلت کے تمغات ہی سمجھیں۔ گذشتہ دنوں وزیراعظم گیلانی کے سابق ایڈوائزر خرم رسول لمبی چوڑی عدالتی جدوجہد کے بعد سپریم کورٹ میں پیش ہوئے۔ ان پر ایک پارٹی سے 62 کروڑ کی رشوت کا الزام ہے۔ بنک سے 2 کروڑ قرض لے کر واپس نہ کرنے پر ایک عدالت نے جائیداد ضبط کرنے کا حکم دے رکھا ہے۔ اس کے علاوہ بھی وزیراعظم ہاﺅس کی چھت تلے بیٹھ کر کرپشن کی داستانیں سامنے آرہی ہیں۔ موصوف آجکل پولیس کے ریمانڈ پر ہیں۔ نیب کو ریمانڈ بعد میں ملے گا۔ یہ بھی حقانی کی طرح وزیراعظم ہاﺅس جیسے محفوظ قلعے میں مقیم رہے لیکن عدالت کے حکم پر بالآخر سپریم کورٹ میں پیش کر دیا گیا۔ عدالت سے واپس گئے تو وہ بھی وکٹری کا نشان بنا کر میڈیا کو دکھاتے ہوئے قوم کو چڑا رہے تھے۔ ن لیگ کے فراڈ میں ملوث سابق ایم این اے عقیل اور مونس الٰہی کے اپنی پیشیوں کے دوران وی کے نشان بھی میڈیا پر دکھائے جاتے رہے ہیں۔ ونسٹن چرچل اگر زندہ ہوتا تو اپنی ایجاد کردہ کامیابی اور سرخروئی کی علامت کے پاکستان میں اس طرح استعمال پر شاید خودکشی کر لیتا! کسی غیرت مند پر بے بنیاد الزام لگ جائے تو وہ منہ چھپائے پھرتا ہے، کئی تو خودکشی تک کر لیتے ہیں، ہمارے ہاں ملزم تو درکنار مجرم بھی اپنے کئے پر فخر کا اظہار کرتے ہیں۔ وزیراعظم گیلانی کو میرٹ سے ہٹ کر ملازمتیں تقسیم کرنے پر سزا ہوئی ڈی میرٹ کو میرٹ بنا دینے سے جہاں اہل افراد کی حق تلفی ہوتی ہے۔ وہیں نالائق لوگوں کے ہاتھ میں اختیارات آنے سے ادارے برباد ہو جاتے ہیں۔ یہ یقیناً قبیح جرم HEINOUS-CRIME ہے۔ وہ آج بڑے فخر سے کہتے ہیں کہ اسی طرح ملازمتیں دینے کا جرم کرتے رہیں گے۔ 19 جنوری کو توہین عدالت کے الزام میں عدالت میں جس لاﺅلشکر کے ساتھ پیش ہوئے وہ بھی ایک تفاخرانہ اور متکبرانہ انداز تھا۔ الزام پر شرمندگی کی بجائے تفاخر سے ظرف ظاہر ہو جاتا ہے۔ ملزم کو تو عدالت کی طرف سے باعزت بری ہونے پر بھی جشن منانے کی بجائے خدا کا شکر ادا کرنا چاہئے ہمارے ہاں تو باوا آدم ہی نرالا ہے۔ کامیابی پر بھی جشن، قید کرپشن رسوائی اور بے آبروئی پر بھی جشن....!!!


Saturday, January 28, 2012

دیدہ عبرت


29-1-2012


دیدہ عبرت
فضل حسین اعوان 
ابراہم لنکن کو امریکی تیسری مرتبہ بھی صدر منتخب کرنا چاہتے تھے‘ اس وقت کوئی آئینی پابندی بھی نہیں تھی لیکن پہلے امریکی صدر نے تیسری بار صدر بننے سے یہ کہہ کر معذرت کرلی کہ اسکے جو نظریات تھے‘ وہ ان کو بروئے کار لا چکے۔ اب نئے لوگ آئیں اور اپنے نظریات آزمائیں۔ یہ صدیوں پہلے کی بات ہے۔ موجودہ دور میں مہاتیر محمد اور نیلسن منڈیلا نے اپنے اپنے ملک کو ترقی کے آسمان پر پہنچا کر عوامی محبت‘ مطالبات اور دباﺅ کے باوجود اقتدار میں مزید رہنے سے معذرت کرلی۔ آج وہ جہاں سے گزرتے ہیں‘ لوگ عقیدت و احترام سے راہوں میں پلکیں بچھاتے نظر آتے ہیں۔ دوسری طرف خود کو عقل کل سمجھنے‘ اختیار و اقتدار کو اپنی ذات میں مرکوز اور محدود کرنے والوں کا انجام بھی سامنے ہے۔ شہنشاہ ایران رضا شاہ پہلوی کا مکمل تکیہ امریکہ پر تھا۔ اہل ایران شہنشاہ کے جبر سے تنگ آئے تو قہر بن کر اس پر ٹوٹ پڑے۔ انجام کار شہنشاہ کو نہ صرف اپنی سلطنت چھوڑ کر بھاگنا پڑا‘ بلکہ اس پر دنیا بھی اتنی تنگ ہو گئی کہ کہیں جائے پناہ نہ مل سکی۔ اگر ایران میں انصاف کا دور دورہ ہوتا‘ عوام مذہبی حوالے سے مطمئن اور مالی لحاظ سے خوشحال ہوتے تو شاید آج بھی ایران میں بادشاہت ہوتی۔ فلپائن کے مارکوس کو بھی امریکہ کی غلامی پر ناز تھا‘ وہ اس زعم میں اپنے ملک کو لوٹتا اور عوام کا خون چوستا رہا‘ اسکی پالیسیاں امریکی خوشامد کے بجائے عوامی مفاد میں ہوتیں تو وہ یقیناً دربدر بھٹک کر مرنے سے بچ جاتا۔ نجیب اللہ نے اپنی قوت ایمانی اور غیرت افغانی روس کے قدموں میں ڈھیر کر دی۔ اپنے ہی ہم وطنوں کا خون بہایا‘ اسکے دور میں افغانستان میں عوامی رائے کو کچلا اور مخالفین کا بے دردی سے خون بہایا گیا۔ اس کا مربی بھاگا تو ستمگر نجیب اللہ ستم زدہ لوگوں کے ہاتھوں کتے کی موت مارا گیا۔ کرین سے لٹکی اسکی لاش کئی دن تک دیدہ عبرت بنی رہی۔ نجیب غیرملکی قبضہ کیخلاف افغانوں کے ساتھ کھڑا ہوتا تو اس کا اقتدار طویل نہ بھی ہوتا‘ وہ عزت کی موت کا حقدار ضرور ہوتا۔ زین العابدین بن علی نے سرزمین تیونس خدا کے نام لیواﺅں پر تنگ کردی‘ خدا کے بجائے امریکہ کو مقتدر اعلیٰ سمجھتا رہا۔ ملک میں بھوک ناچتی تھی‘ جبکہ اسکی اہلیہ دولت اور سونے کے انبار لگاتی رہی‘ پھر اس جوڑے کو ایک ریڑھی والے کی موت نے موت سے اتنا ڈرایا کہ سرزمین کعبة اللہ میں پناہ لینا پڑی۔ یہ جوڑا مال و زر جمع کرنے کے بجائے اپنے لوگوں کے مسائل کی طرف توجہ دیتا تو بعید نہیں وہ عوام کی آنکھوں کا تارا ہوتے۔ حسنی مبارک کو عظیم اسلامی مملکت مصر کا اقتدار ملا‘ وہ ڈالر جمع کرتا رہا‘ نہ صرف امریکہ کی حاشیہ برداری کی بلکہ ملی غیرت مسلمانوں کے سب سے بڑے دشمن اسرائیل کے قدموں میں رکھ دی۔ آج اس کی حالت دنیا کے سامنے ہے۔ بستر پر لیٹا جانوروں کی طرح جنگلے میں بند ہو کر عدالت میں پیشیاں بھگت رہا ہے۔ کرنل قذافی نے لیبیا کی ترقی اور اپنے ہم وطنوں کو جگانے میں اہم کردار ادا کیا لیکن وسائل مکمل طور پر اپنے عوام تک نہ پہنچائے۔ عرب ممالک کے عوام کو جو سہولیات میسر ہیں‘وہ لیبیا کے شہریوں کےلئے ایک خواب تھا۔ صرف 56 لاکھ کی آبادی کو وسائل کے مطابق دنیا کی ہر جدید سہولت گھر بار تک فراہم کیا جا سکتا تھا لیکن صحرا نشیں کی شہرت کا حامل قذافی اپنے لوگوں کی نفسیات سمجھنے سے قاصر رہا جس کو خود اسکی رعیت نے نشانِ عبرت بنا دیا جن کو وہ چوہے اور کیڑے مکوڑے قرار دیتا تھا‘ وہ اسے گلے میں رسا ڈال کر گھسیٹتے رہے اور بالآخر گولیوں سے بھون ڈالا۔ اپنے مشرف کا انداز حکمرانی بھی جابرانہ اور کافی حد تک ملحدانہ تھا۔ اس نے قومی و مذہبی اقدار کیخلاف اقدامات نہ کئے ہوتے تو آج دربدر لور لور نہ پھرتا۔ تقدیر اور مقدر اٹل حقیقت ہے لیکن مقدر کے بنانے اور بگاڑنے پر انسان خود بھی قادر ہے۔ برائی کی کوکھ سے نیکی جنم نہیں لے سکتی‘ آگ کے شعلے ٹھنڈک نہیں دیتے‘ کانٹوں سے گزر کر پھول کے لمس کا احساس ناممکن ہے‘ جو بیجا ہے‘ وہی کاٹنا پڑیگا۔ عوام کا خون چوس کر ان سے ہی پذیرائی کی توقع حماقت ہے۔ قومی سلامتی و خودمختاری غیروں کے آگے گروی رکھ کر حب الوطنی کے دعوے اور نعرے جہالت اور اہل وطن کو دھوکہ دینے کے مترادف ہے۔ آج ہمارے سیاست دان حکومت میں ہیں یا اپوزیشن میں‘ جو کچھ کر رہے ہیں‘ وہ لمحہ بہ لمحہ تاریخ کا حصہ تو بن ہی رہا ہے مگر افسوس یہ تاریخ جو ہمارے حکمران رقم کر رہے ہیں‘ وہ برے الفاظ میں ہی لکھی جا رہی ہے‘ عوام بھی اس کو مانیٹر کر رہے ہیں۔ حکمران ٹھنڈے دل سے سوچیں کہ وہ عوام کے سروں پر حکمرانی کر رہے ہیں یا دلوں پر؟ عوام کو سبز باغ دکھانے‘ ان کیلئے دودھ اور شہد کی نہریں بہانے کے دعویدار سوچیں انہوں نے عوام اور وطن کیلئے کیا کیا؟ وہ تاریخ میں کس حیثیت اور نام سے یاد کئے جائینگے؟ وہ اپنی ”قومی خدمت“ کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنے مقام کا آسانی سے تعین کر سکتے ہیں‘ کس فہرست میں نام لکھوانا چاہتے ہیں‘ ابراہم لنکن‘ مہاتیر محمد‘ منڈیلا کی لسٹ میں یا رضا پہلوی‘ نجیب اللہ‘ ابن علی‘ قذافی‘ حسنی مبارک اور مشرف جیسوں کی فہرست میں؟ جلدی سوچیں‘ وقت بہت کم اور کرنے کو بہت کچھ ہے۔ ایک سال کی مدت کم نہیں‘ خلوص نیت سے کام کریں تو بہت کچھ نیا ہو سکتاہے۔ چار سالہ سیاہ کاریوں کا ازالہ ملک و ملت کا نام دوبالا اور وطن عزیز میں ترقی و خوشحالی کا اجالا بھی۔

دم توڑتی قرارداد

 ہ ، 26 جنوری ، 2012


دم توڑتی قرارداد
فضل حسین اعوان 
پنجاب اسمبلی نے احسن کام کیا لیکن ایک مخصوص طبقے کی طرف سے پیالی میں طوفان برپا کرنے پر صوبائی حکومت نے ایک نیک نامی کو شرمندگی سمجھ کر اس سے لاتعلقی کا اظہار کردیا۔ پاکستان اسلامی جمہوریہ ہے‘ گو اسے نفاذ شریعت سے دور رکھا گیا تاہم جو اقدام ہمیں خرافات سے نکلنے میں مدد دے اور محسنات کی طرف لے جائے‘ اسکی تحسین و حوصلہ افزائی ہونی چاہیے۔ مسلم لیگ (ق) کی سیمل کامران کی تعلیمی اداروں میں میوزیکل کنسرٹس پر پابندی کی قرارداد کا متفقہ طور پر منظور ہو جانا ارکان کا دانشمندانہ اور تعلیم دوستی پر مبنی اقدام تھا۔ میوزیکل کنسرٹس کو موسیقی کا نام دے لیں یا ناچ گانے کا‘ اس کا تعلیم کے ساتھ کیا تعلق ہے؟ کچھ لوگ موسیقی کو روح کی غذا اور کچھ اسے اذہان کو ماﺅف کر دینے والی وبا قرار دیتے ہیں‘ دونوں آراءاپنی جگہ لیکن اسکے باوجود کہ پاکستان میں موسیقی کے چاہنے والے موجود ہیں‘ ناچ گانا اسلامی و پاکستانی تہذیب کلچر اور ثقافت کا ہرگز حصہ نہیں‘ اور وہ بھی درس و تدریس کے مراکز میں‘ لاحول ولا۔ سیمل کامران نے تعلیمی اداروں میں ناچ گانے کی محفلیں سجانے کیخلاف قرارداد پیش کی تو مسلم لیگ (ن) کے رانا ثناءاللہ نے اس میں قابل اعتراض کنسرٹس پر پابندی کے الفاظ شامل کرکے اسے تقریباً غیرموثر بنا دیا تھا۔ پھر اس پر اسمبلی میں موجود مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کا بھی اتفاق ہو گیا۔ قرارداد پاس ہوتے ہی چند ایک چینلز بالخصوص بھارتی ثقافت کے امین چینلز نے ہذیان سے ایک ہیجان اور طوفان اٹھا دیا۔ ہوش سے بےگانہ جذبات کے باعث اینکرز اور نیوز کاسٹرز کے منہ سے کف اڑ رہی تھی‘ ہندو کلچر کے شیداﺅں کو آن لائن لا کر تعلیمی اداروں میں قابل اعتراض کنسرٹس کی پابندی کو زندگی و موت کے مسئلے کی طرح لیا جاتا رہا۔ قرارداد کے موقع پر جو ارکان اسمبلی موجود نہ تھے‘ ان میں سے کئی کو ایک اپنی اہمیت دوچند کرنے کا موقع مل گیا۔ ان کا واویلا تھا چونکہ قرارداد انکی غیرموجودگی میں پیش ہوئی‘ اس لئے اسکی کوئی اہمیت نہیں۔ اصل قرارداد وہ ہو گی جو ہم لائیں گے۔ اس قرارداد پر عوامی جذبات کیا ہیں‘ یہ جاننے کی کوشش کئے بغیر پنجاب حکومت کے ترجمان نے چند ٹی وی چینلز کے منہ بسورنے پر اس قرارداد سے لاتعلقی کا اعلان کر دیا جو اسکے ارکان‘ وزراءاور سپیکر کی موجودگی میں منظور ہوئی تھی۔ مسلم لیگ (ن) ہوں یا کوئی دوسری پارٹی‘ جو بھی اس قرارداد سے لاتعلقی کا اظہار کرے‘ کیا قرارداد کے حق میں ووٹ دینے والے ارکان کی غیرت کا تقاضا نہیں کہ وہ اس پر مستعفی ہو جائیں؟ اگر ایسی جرات نہیں ہے تو کم از کم اپنی پارٹی کے سامنے اپنی توہین پر احتجاج تو ریکارڈ کرائیں۔ تعلیمی اداروں میں تعلیم کے ساتھ ثقافتی اور غیرنصابی سرگرمیاں ضرورہونی چاہئیں لیکن اس کا کوئی ضابطہ اور قاعدہ قانون بھی تو ہو۔ سیمل کامران کی قرارداد کا پس منظر گزشتہ ماہ الحمرا میں ناچ گانے کے ایک شو کے دوران چھ سات طالبات کی بھگدڑ کے باعث موت تھی۔ جائز تفریحی سرگرمیاں تعلیمی اداروں کے اندر ہوں تو کسی کو اعتراض نہیں۔ اگر والدین اپنی اولاد بالخصوص بچیوں کے مغربی یا مختصر لباس پہننے کو برا نہیںسمجھتے تو اس پر کسی کو کوئی اعتراض نہیں ہو سکتا۔ لیکن ان بچیوں کو مخلوط اجتماع میں لا کر یا سٹیج پر نچا کر تماشا بنانے سے عام پاکستانی کا دل ضرور دکھتا ہے۔ یہ ایسی مخلوط تعلیم اور آزاد خیالی کا ہی شاخسانہ ہے کہ اسلام آباد کے ایک تعلیمی ادارے کے تین تین طلباءو طالبات پشاور کے ایک ہوٹل میں جا ٹھہرے‘ کیا وہ وہاں پر ”بھجن“ گانے گئے تھے؟ تعلیمی اداروں میں قابل اعتراض مغربی انداز کے کنسرٹس پر پابندی کی قرارداد پر جہاں ہندو کلچر کے پجاری اودھم مچا رہے ہیں‘ اس موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ”بسنتے“ بھی میدان میں آگئے۔ ان کا موقف تھا کہ اگر ڈور سے کوئی زخمی ہوتا ہے تو صحتمندانہ تفریح پر پابندی کا کیا جواز ہے؟ ہر کھیل کا کوئی ضابطہ ہوتا ہے‘ بسنت کے ضوابط کو کھلاڑیوں نے روند ڈالا‘ ڈور کی جگہ تندی اور تانبے کی تاروں نے لے لی تو ہلاکتوں کا سلسلہ چل نکلا۔ بسنت ایک ہندوانہ تہوار ہے‘ اس کا پس منظر بھی معلوم کر لیجئے! لیکن ہمارے پتنگ باز ”سجنوں“ نے اس کھیل کو جان لیوا بھی بنا دیا جس سے کئی گھروں کے چراغ گل ہو گئے۔ اگر حکومت نے اس موت کے کھیل پر پابندی لگائی ہے تو قصور مہلک ڈور استعمال کرنے والوں کا ہے۔جن کنسرٹس پر پابندی کی قرارداد منظور ہوئی‘ ایسے کنسرٹس یا میوزیکل پروگرام ہوتے ہی کتنے تعلیمی اداروں میں ہیں‘ نجی یا سرکاری تعلیمی اداروں کے 95 فیصد سے زائد طلبا و طالبات کو یہ معلوم ہی نہیں کہ میوزیکل کنسرٹس کس چڑیا کا نام ہے جوکن تعلیمی اداروں میں پھدکتی ہے۔ یہ بڑے شہروں کے تعلیمی اداروں کے چونچلے ہیں‘ ان اداروں میں بھی یہ کوئی روز یا ہفتہ و ماہوار وقوعہ نہیں ہوتا۔ سال میں ایک آدھ بار ہوتا ہے۔ اگر یہ نہ بھی بپا ہو سکے تو کوئی قیامت وارد نہیں ہو جائیگی۔ تعلیمی اداروں کے اندر ملی نغموں کے مقابلے اور ڈرامے ہوتے رہتے ہیں‘ باہر سے میوزیکل گروپس کو بلانا ضروری نہیں۔ ویسے بھی سالانہ نتائج میں آدھے سے زیادہ طلبا و طالبات فیل ہو جاتے ہیں‘ یہ نتائج انکی آنکھیں کھولنے کیلئے کافی ہیں جو اس قرارداد کیخلاف علم لہرا رہے ہیں۔ عمران خان کی سنیئے‘ وہ اپنے مخصوص متفکرانہ انداز میں فرماتے ہیں‘ ان کو کنسرٹس پر پابندی کی سمجھ نہیں آئی۔ عمران صاحب جن اداروں کے تعلیم یافتہ ہیں‘ آج پاکستان میں ایسے تعلیمی اداروں میں پائے جانیوالے بچوں کی تعداد ایک فی ہزار سے بھی کم ہو گی اس لئے قابل اعتراض کنسرٹس پر پابندی انکی سمجھ میں نہیںآسکتی۔ پنجاب حکومت اپنے پاﺅں پر کھڑا ہونے کی کوشش کرے‘ مذکورہ قرارداد پر کسی کے خوف کے باعث لاتعلقی ظاہر کرنے کے بجائے اس دم توڑتی اور جائز قرارداد کی حمایت کرے اور اسے اپنائے‘ جو دوسرے صوبوں کیلئے بھی ایک مثال بنے تاکہ پورے ملک میں بچے اپنی پوری توجہ اپنی تعلیم پر مرکوز رکھ سکیں۔


Tuesday, January 24, 2012

ہمارا حال افسوسناک ماضی کا آئینہ دار

 منگل ، 24 جنوری ، 2012


ہمارا حال افسوسناک ماضی کا آئینہ دار!
ـ 
فضل حسین اعوان
جسٹس ریٹائرڈ فرخ آفتاب صاحب اپنے مخصوص دھیمے انداز میں تشریف لائے اور حنیف رامے مرحوم کی کتاب ”باز آﺅ اور زندہ رہو“ کا صفحہ نمبر 153 کھول کر دکھاتے ہوئے گویا ہوئے‘ ”رامے مرحوم نے نوابزادہ لیاقت علی خان کے بارے میں عاشق بٹالوی کے حوالے سے جو لکھا‘ وہ سوہانِ روح بنا ہوا ہے۔“ میں نے بصد احترام جج صاحب سے ایک دن کیلئے کتاب مستعار لی‘ اس صفحہ کے آگے پیچھے پڑھا تو قائد ملت کے حوالے سے جو لکھا تھا‘ اس پر یقین نہ کرتے ہوئے بھی یہ نتیجہ اخذ کیا کہ ہم عوام اپنی سادگی‘ ہمارے سیاست دان اپنی چالاکی‘ ایمان و عوام فروشی کے جس درجے پراس وقت تھے‘ آج بھی وہیں ہیں۔ درمیان میں اتنا ضرور ہوا کہ علامہ اقبال کے تصور اور قائداعظم کی ولولہ انگیز قیادت نے ایک بھیڑ اور ہجوم کو قوم بنایا جو مسلمانوں کیلئے ایک آزاد ریاست کے حصول اور قائد کے انتقال کے بعد پھر قوم سے بے ہنگم ہجوم بن گئی‘ جسے اپنے فرائض کا ادراک تو درکنار‘ اپنے حقوق کا بھی احساس نہیں رہا۔ حقوق کے حصول کا سوال تو ادراک اور احساس کی کوکھ سے جنم لیتا ہے۔ پاکستان میں دو طبقے عوام اور حکمران ہمیشہ دو مختلف انتہاﺅں پر رہے ہیں۔ عوام نے حکمرانوں اور سیاست دان طبقہ کا کبھی محاسبہ نہیں کیا۔ سیاست دانوں نے بھی ان کو کبھی درخورِ اعتناء نہیں سمجھا‘ ہر کام ذاتی مفاد کیلئے ہی کیا‘ اگر عوام سیاست دانوں کا صحیح محاسبہ کرتے اور سیاست دان بھی ذاتی مفادات سے بالاتر ہو کر قومی و عوامی مفادات کیلئے کام کرتے تو آج عوام خوشحال اور پاکستان ترقی یافتہ ممالک کی صف میں شامل ہوتا۔ آگے چلنے سے قبل جسٹس صاحب کو قائد ملت کے بارے میں جس اقتباس نے مغموم اور دل گرفتہ کیا‘ اس پر ایک نظر ڈالئے: ”مجھے یہاں ایک نہایت تکلیف دہ اور افسوسناک بات کا ذکر کرنا ہے اور حقیقت یہ ہے کہ جب تک اس کا ذکر نہ کرلیا جائے‘ ماضی کی اس داستان کو آگے بڑھانا میرے لئے ناممکن ہے۔ جب سے پنجاب میں سرسکندر حیات خان کی وزارت قائم ہوئی تھی‘ نوابزادہ لیاقت علی خان کا ذاتی رویہ ہمارے متعلق (پنجاب مسلم لیگ‘ جس کے صدر علامہ اقبال تھے) بہت کچھ بدل گیا تھا۔ انکی امداد و اعانت اور تائید و حمایت کلیتًہ سرسکندر کیلئے وقف ہو چکی تھی۔ لیاقت آل انڈیا مسلم لیگ کے جنرل سیکرٹری تھے‘ وہ مسلم لیگ کے مرکزی پارلیمنٹری بورڈ کے ممبر تھے لیکن انہوں نے بورڈ سے استعفیٰ دیدیا تھا اور مسلم لیگ کی بجائے نیشنل ایگری کلچرل پارٹی کے ٹکٹ پر الیکشن 1937ءلڑنے کا فیصلہ کرلیا تھا۔ یو پی کی یہ پارٹی گویا پنجاب کی یونینسٹ پارٹی کا مثنیٰ اور ہمزاد تھی۔ لیاقت کے استعفیٰ نے عجب صورتحال پیدا کر دی تھی۔ ابھی چند مہینے ہوئے وہ لیگ کے جنرل سیکرٹری منتخب کئے گئے تھے۔ اب انکے استعفیٰ کے بعد لیگ کا کوئی سیکرٹری نہیں تھا۔ (صفحہ357) مسٹر جناح جن مشکلات میں اس وقت گھرے ہوئے تھے‘ ان کا صحیح اندازہ آج نہیں کیا جا سکتا۔ وہ تن تنہا آل انڈیا مسلم لیگ کا بوجھ اپنے کاندھوں پر اٹھائے ہوئے تھے۔ نوابزادہ لیاقت علی خان کے مستعفی ہو جانے کے بعد ساری خط و کتابت مسٹر جناح کو خود کرنی پڑتی تھی۔ انکے پاس کوئی ٹائپسٹ بھی نہیں تھا۔ خطوط اپنے ہاتھ سے لکھتے تھے‘ اس وقت انکی عمر ساٹھ سال ہو چکی تھی۔ (صفحہ 389, 388, 387)۔ جہاں تک ان (لیاقت علی خان) سے ہو سکتا تھا‘ وہ ہر موقع پر سرسکندر کی مدد اور ہماری مخالفت کرتے تھے۔ اس دوران کئی بار ایسے مواقع پیش آئے کہ ہم راستی پر تھے اور سرسکندر کا رویہ غلط تھا لیکن نوابزادہ مرحوم نے ہمیشہ سرسکندر کا ساتھ دیا۔ 
نوابزادہ لیاقت علی خان کے خاندان کے تمام لوگ اور جملہ اعزہ و اقارب کرنال میں رہتے تھے جنہیں آئے دن حکومت پنجاب کی امداد و اعانت کی ضرورت محسوس ہوتی تھی۔ سرسکندر بڑے زیرک اور ہوشیار آدمی تھے۔ انہوں نے نوابزادہ مرحوم کے اس کمزور پہلو کو اچھی طرح بھانپ لیا تھا۔ خود لیاقت علی خان کے بڑے بھائی نوابزادہ سجاد علی خان پنجاب اسمبلی کے ممبر اور یونینسٹ پارٹی کے رکن تھے۔ سرسکندر اور نوابزادہ لیاقت علی خان کے درمیان ہر قسم کا نامہ و پیام انہی کے توسل سے ہوتا تھا۔ ہمیں ایک ایک بات کا علم تھا‘ لیکن مصلحت کی مجبوریوں نے ہماری زبان و قلم پر پہرے بٹھا رکھے تھے۔ ہم سردست مسٹر جناح کے تفکرات میں اضافہ نہ کرنا چاہتے تھے۔“ (صفحہ 618,617) ۔ رامے مرحوم نے عاشق بٹالوی کی کتاب ”علامہ اقبال کے آخری دوسال“ سے مزید اقتباسات بھی اپنی کتاب میں نقل کئے ہیں جن سے ہم اپنے حال اور ماضی کا تقابل کریں تو کوئی خاص فرق نظر نہیں آتا۔ 
”1937ءکے الیکشن میں پنجاب سے مسلم لیگ پارلیمنٹری بورڈ کے سات امیدواروں میں سے صرف دو کامیاب ہوئے یعنی ملک برکت علی اور راجہ غضنفر علی خان لیکن اس سلسلے میں سب سے تعجب انگیز واقعہ یہ ہے کہ راجہ غضنفر علی خان نے اپنی کامیابی کے بعد بورڈ کے دفتر میں قدم رکھنا بھی گوارا نہ کیا۔ اسکے بجائے وہ سیدھے یونینسٹ پارٹی کے جلسے میں پہنچے اور جاتے ہی اعلان کر دیا کہ وہ مسلم لیگ کو ترک کرکے یونینسٹ پارٹی میں شامل ہو گئے۔ (صفحہ368)۔ اگر بات یہیں تک رہتی تو معاملہ زیادہ شرمناک صورت اختیار نہ کرتا لیکن ستم یہ ہوا کہ یونینسٹ پارٹی کے اسی جلسے میں راجہ غضنفر علی خان کا خیرمقدم کرتے ہوئے سرسکندر حیات نے جو تقریر کی‘ اس میں انہوں نے فرمایا:
”راجہ صاحب میری مرضی اور میرے ایماءسے مسلم لیگ کے ٹکٹ پر کھڑے ہوئے تھے لیکن شروع ہی سے انہوں نے میرے ساتھ وعدہ کر رکھا تھا کہ الیکشن میں کامیاب ہونے کے بعد وہ فوراً یونینسٹ پارٹی میں شریک ہو جائینگے۔ (صفحہ369) 
1937ءکے الیکشن کیلئے سردار مظفرعلی قزلباش نے مسلم لیگ کے پارلیمنٹری بورڈ کو درخواست دی تھی‘ تحصیل لاہور سے دو امیدواروں کی درخواستیں موصول ہوئی تھیں‘ ایک میاں عبدالمجید‘ دوسرے قزلباش۔ بورڈ نے یہ امر واضح کردیا تھا کہ اگر کسی شخص کو بورڈ نے اپنا امیدوار نامزد نہ کیا‘ تو وہ شخص کسی اور پارٹی کے ٹکٹ پر یا اپنے طور پر الیکشن میں کھڑے ہونے کا مجاز نہیں ہو گا اور جب بورڈ نے میاں عبدالمجید کو اپنا امیدوار نامزد کیا تو مظفر علی خان قزلباش یونینسٹ پارٹی کے ٹکٹ پر ان کیخلاف کھڑے ہو گئے۔“
”یوپی میں بھڑائچ کے حلقے سے مسلم لیگ کے امیدوار اصغر علی کامیاب ہوئے تھے لیکن اسمبلی کے ایوان میں داخل ہونے سے قبل ہی فوت ہو گئے۔ مسٹر جناح نے بیّن انداز میں فرمایا تھا کہ یہ نشست مسلم لیگ کی ہے اور ہم اسے اپنے ہاتھ سے کبھی نہیں جانے دینگے۔ مگر حیرت ہے کہ یوپی مسلم لیگ نے کانگریس کے امیدوار (رفیع احمدقدوائی) کے مقابلے میں اپنا امیدوار کھڑا کرنے سے انکار کر دیا اور یہ سوفیصد یقینی نشست بلامقابلہ کانگریس کے حوالے کر دی۔ مجھے یاد ہے کہ اس وقت عام طور پر یہ افواہ مشہور تھی کہ چودھری خلیق الزماں کی درپردہ کوشش سے رفیع احمد قدوائی کامیاب ہوئے ہیں۔ خلیق الزماں یو پی اسمبلی کی مسلم لیگ پارٹی کے لیڈر تھے۔ مسٹر جناح نے انہی دنوں بیان دیا تھا کہ ”مسٹر خلیق الزماں نے میرے ساتھ وعدہ کیا تھا کہ وہ اپنے ہاں کے حالات سے مجھے مطلع کرینگے۔ میں ان کو اس سلسلے میں کئی بار یاد دہانی کرا چکا ہوں‘ لیکن گزشتہ تین ہفتوں کے مسلسل انتظار کے باوجود انہوں نے مجھے کوئی اطلاع نہیں بھیجی۔ میں انکی پراسرار خاموشی کا مطلب سمجھنے سے معذور ہوں‘ مجھے امید ہے کہ وہ فریق ثانی.... کانگریس.... کے ساتھ ایسی کوئی مفاہمت نہیں کرینگے جسے انجام کار انکے صوبے ہی کے مسلمان نہیں بلکہ پورے ہندوستان کے مسلمان رد کرنے پر مجبور ہو جائیں۔“ (صفحہ404)۔ چودھری خلیق الزماں ہی کے ایماءسے مسلم لیگ نے اپنا امیدوار کھڑا نہیں کیا تھا۔ یہ واقعہ ہے کہ رفیع احمد قدوائی کے اسمبلی میں داخل ہو جانے کے بعد سیاسیات نے ایک ایسا رخ پلٹا (نیشنلسٹ مسلمانوں کا مسئلہ) جو ہر اعتبار سے ہندوستان کے مسلمانوں کیلئے پریشان کن اور مسلم لیگ کیلئے نقصان رساں ثابت ہوا۔ (صفحہ 409,408)
یہ ہے ہمارا ماضی جو ہمارے افسوسناک بلکہ شرمناک حال کا شاخسانہ ہے۔ خدا ہمیں اسی تسلسل کے حامل مستقبل سے محفوظ فرمائے۔ آج ہم اپنے گرد و پیش پر نظر دوڑائیں تو کچھ بھی بدلا ہوا محسوس نہیں ہوتا‘ بالکل اسی طرح حالات کے مطابق خفیہ یا سرِعام کرپٹ سیاست دانوں کی خرید و فروخت جاری ہے۔ کرپٹ لوگ ترقی و عہدوں کی معراج پر ہیں‘ عوام نے اس وقت ان کا محاسبہ کیا‘ نہ اب کر رہے ہیں۔ سیاست دانوں نے بھی انکی فلاح و رفاہ کے بارے میںاس وقت سوچا نہ اب فکر ہے۔ قائداعظم نے مسلمانوں کو جھنجھوڑا‘ ان کو خواب غفلت سے جگایا‘ مگر افسوس کہ انکی رحلت کے ساتھ ہی وہ پھر سو گئے۔ آج پھر قائداعظم جیسے رہنماءکی ضرورت ہے‘ موجودہ دور کے سیاست دانوں سے تو یہ ہرگز توقع نہیں لیکن امید ہے کہ کوئی نہ کوئی تو قائداعظم ثانی آئیگا جو بکھرے ہجوم اور بے ہنگم بھیڑ کو ایک بارپھر منظم قوم بنا دےگا۔


Sunday, January 22, 2012

استثنیٰ اول۔ این آر او فیصلہ آخر

 اتوار ، 22 جنوری ، 2012

استثنیٰ اول۔ این آر او فیصلہ آخر!
فضل حسین اعوان ـ 17 گھنٹے 31 منٹ پہلے شائع کی گئی
قومی مفاہمتی آرڈی ننس(NRO) کی رام کہانی،صدر جنرل پرویز مشرف کی طرف سے7اکتوبر2007 کو اجرا سے شروع ہوئی۔یہ آرڈی ننس مشرف بینظیر مفاہمت کی بنا پر جاری ہوا۔اس کے اجرا کے بعد محترمہ نے اسے کالا قانون قرار دیا جبکہ محترمہ کے قتل کے بعد ان کے جاںنشینوں نے اسے حِرزِ جان بناتے ہوئے الیکشن لڑا اور اقتدار کی منزل حاصل کی۔اس کو قانون کی شکل دینے کا وقت آیا تو اقتدار نشینوں کی راہ میں ان کے اتحادی جن پر اُس وقت اقتدار کا تکیہ تھاسنگِ گراں بن کر کھڑے ہوگئے۔ یوں اسے عدلیہ میں لایا گیا جس نے اسے کالعدم قرار دیا۔ حکومت نے اس پر نظر ثانی کی اپیل کی وہ بھی مسترد ہوگئی۔ عدالت نے فیصلے پر عملدرآمد کیلئے 10جنوری 2012 تک حتمی مدت اور مہلت کا اعلان کیا اس کے باوجود این آراو کیس پر فیصلہ عملدرآمد کا منتظر رہا۔ این آر او سے 8 ہزار41 لوگوں نے استفادہ کیا۔ کھربوں روپے معاف ہوئے۔قاتلوں، لوٹ مار اور مار دھاڑ کرنیوالوں کے کیس بند ہوئے۔ کئی سزا یافتگان جیلوں سے رہا ہوئے ان میں بعض کو اعلیٰ مناصب سے بھی سرفراز کردیا گیا۔این آر او کالعدم ہونے سے ہرچیز ریورس ہونی چاہئے تھی لیکن این آر او کے حوالے سے 7اکتوبر 2007 کو یعنی سوا چار سال قبل جو اینٹ جہاں تھی وہیں ہے۔ کہاجاتا ہے کہ این آر او کے ذریعے 932 ارب روپے معاف کرائے گئے۔یہ مالیت تقریباً کیری لوگر بل امداد سے تقریباً6گنا زیادہ ہے۔یہ رقم خزانے میں منتقل کرنے کی کوئی کوشش نہیں کی گئی۔عدالت کے دباﺅ پر اگر کسی سزا یافتہ کو پکڑ کر سزا مکمل کرنے کیلئے جیل ڈالا گیا تو صدر صاحب نے اس ایک فردکی رہائی کیلئے اتنی مدت کے تمام قیدیوں کی رہائی کے احکامات جاری کردئیے۔
این آر او کو کالعدم قرار دینے کا فیصلہ 16 دسمبر 2009 کو ہوا۔ اس کے بعد سے حکومت فیصلے کے اونٹ کو اپنے مفاد کی کروٹ بٹھانے کیلئے ہمہ تن کوشاں ہے۔ اس کی سوچ کی بھٹکی ہوئی سوئی اس ایک نقطے ” سوئس حکام کو خط نہیں لکھیں گے“ پر ایسی اٹکی کہ سب کچھ داﺅ پر لگا نظر آتا ہے لیکن سوئی وہیں کی وہیں۔جب عدالت عظمیٰ نے سوئس حکام کو خط نہ لکھنے کی مزاحمت پر وزیراعظم کو توہینِ عدالت کا نوٹس جاری کیا تو وہ عدالت میں پیش ہوگئے۔ وہ روز مرہ زندگی میں جس تضاد بیانی کے جوہر دکھاتے اور جگ ہنسائی کا باعث بنتے ہیں لوگوں کو یقین تھا کہ اگر ان کو گھنٹہ سوا گھنٹہ بولنے کا موقع دیا گیا تو وہ بہت کچھ ایسا کہہ دیں گے جو خود اپنے اور اپنی حکومت کیلئے کئی مسائل اور مشکلات کھڑی کردے گا۔وہ کم بولے تاہم وہاں صدر کے استثنیٰ کا معاملہ کھڑا کرآئے۔ استثنیٰ کی بات انہوں نے نادانستہ کی یا چالاکی سے۔اس کا پتہ اگلی پیشی یا اس کے بعد چلے گا تاہم ان کے نئے وکیل کہہ رہے ہیں کہ ان کو استثنیٰ کے حوالے سے دلائل دینے پر مجبور کیا۔ جو شخص اپنے ضمیر اور اصولوں کے برعکس فیس ماری یا کسی سے یاری کی خاطر بہت کچھ کہہ سکتا ہے وہ بوقت ضرورت استثنیٰ کو جائز اور ناجائز قرار دلانے کیلئے دلائل پہ دلائل بھی لا سکتا ہے۔
وزیراعظم گیلانی نے اپنے تازہ ترین بیان میں کہا ہے کہ صدارتی استثنیٰ پرعدالتی فیصلے کا احترام کریں گے۔ احترام تو حکومت ہرفیصلے کا کرتی ہے۔ سپریم کورٹ نے دیدار شاہ کی بطور چیئر مین نیب تقرری منسوخ کی تو پارٹی پلیٹ فارم پر سندھ میں ہڑتال کی کال دے کر جلاﺅ گھیراﺅ کیا گیا۔ یہ عدلیہ کے احترام کی چھوٹی سی مثال ہے جو گیلانی حکومت کے دوران پیش کی گئی۔ آپ احترام کریں نہ کریں۔ عمل ضرور کریں۔ یہی عدلیہ اور قوم چاہتی ہے۔
آئین سازی کیلئے دو تہائی اکثریت کا ہونا لازم ہے۔73 میں آئین اتفاقِ رائے سے منظور ہوا۔آئین کی منظوری کے بعد آئین ساز لوگ اس کے تابع ہوجاتے ہیں۔ پھر آئین ساز یہ نہیں کہہ سکتے کہ آئین کی تشریح بھی ہم خود کریں گے جبکہ سپریم کورٹ کا صرف ایک جج تشریح کرنے کا اختیار رکھتا ہے، اب استثنیٰ کے حوالے سے معاملہ سپریم کورٹ میں ہے ۔ اب کچھ آوازیں اُٹھ رہی ہیں کہ عدلیہ سے آئین اور قانون کی تشریح کا اختیار واپس لیاجائے۔ایسا ہوا تو اس مجوزہ قانون کی تشریح کیلئے بھی کوئی پارٹی یا کوئی شخصیت عدلیہ سے ہی رجوع کرے گی۔ حرف آخر یہ کہ معاملہ استثنیٰ کی طرف لڑھکا کے حکومتی وکیل نے دو ہفتے کا وقت لے لیا یہی حکومت کا مقصد و مدعا تھا۔اگلی پیشی پر شاید استثنیٰ کے فیصلے کیلئے کسی مزید لارجر بنچ کی تشکیل کی کوشش کی جائے۔ حکومت کا اصل مدعا استثنیٰ غیر استثنیٰ نہیں جب تک اقتدار میں ہیں کیس کو لٹکائے رکھنا ہے جس میں وہ کامیاب جارہی ہے اس کے قانونی مدار المہام اسی ایک نقطے پر اپنی پوری توجہ مبذول کئے ہوئے ہیں۔”استثنیٰ“ میں الجھا کر حکمران این آر او فیصلے اور معاملے کو پسِ پشت ڈلوانے میں کامیاب تو نہیں ہو گئے؟

Friday, January 20, 2012

! جمہوریت کی خدمت

19 جنوری ، 2012


جمہوریت کی خدمت
فضل حسین اعوان ـ 1 دن 17 گھنٹے پہلے شائع کی گئی
کچھ عرصہ سے وزیراعظم گیلانی کی اپنے کارنامے گنواتے ہوئے بات ”میں“ سے شروع ہو کر ”میں“ پر ہی ختم ہوتی ہے۔ جس قسم کی باتیں وہ کرتے ہیں‘ ان سے بلا کا غرور اور تکبر ٹپکتا۔ ذرا ملاحظہ ہو: ”میں نے ججوں کو رہا کیا‘ میرے ایگزیکٹو آرڈر پر جج بحال ہوئے‘ پانچ سال پورے کرینگے‘ جسے میری شکل پسند نہیں‘ عدم اعتماد لے آئے‘ وزیراعظم کی کرسی پر دھڑلے سے بیٹھیں گے۔“ یہ وزیراعظم کے رویے کی چند مثالیں ہیں۔ آجکل وہ ریاست اور آئین سے زیادہ اپنی پارٹی کے سربراہ سے وفاداری کا اظہار کر رہے ہیں۔ ان کا یہ بیان اس حقیقت کا مظہر ہے‘ صرف اس بات کو تسلیم کرونگا جو صدر کی طرف سے سامنے آئے۔ میمو کیس کے بعد بڑے بڑوں کا سانس پھولا ہوا ہے اور ٹانگیں کانپ رہی ہیں‘ وزیراعظم گیلانی کا اس کیس سے کوئی لینا دینا ہے یا نہیں لیکن وہ اس پر برملا شدید اشتعال اور غصے کا اظہار کرتے ہیں۔ غرور‘ نخوت اور تکبر و تفاجر‘ تدبر و عاقبت اندیشی کا دشمن ہے۔ اشتعال اور غصہ‘عقل و دانش کو کھاتا جاتا ہے۔ ملتانی پیر تکبر کے پہاڑ اور اشتعال کے گھوڑے سے اترنے پر تیار دکھائی نہیں دیتے۔ انکے شدید غصے کی کیفیت میں کئے گئے اقدامات اور دیئے گئے بیانات بلاشبہ ماورائے عقل ہونے کے باعث خود انکی ذات کیلئے اور جن کی جانثاری میں وہ ایسا کر رہے ہیں‘ ان کیلئے بھی نقصان دہ ہونگے۔ اس فرمان میں کونسی دانشوری صداقت اور حقیقت ہو سکتی ہے‘ ”فوج عدلیہ سے اختلاف رائے ہو سکتا ہے“۔ فوج آپکے ماتحت اور عدلیہ خودمختار ادارہ ہے‘ ماتحت ادارے سے کیا اختلاف رائے؟ عدلیہ نے انصاف فراہم کرنا ہے‘ اسکے فیصلے خواہ جتنے بھی سخت ہوں‘ عمل کے متقاضی ہیں۔ جسے پھانسی کی سزا سنا دی جائے‘ وہ بااختیار ہو تو فیصلہ ماننے سے انکار کرکے اپنی جان بچالے؟ آپ بااختیار ہیں‘ اس لئے عدلیہ سے اختلاف رائے اور اسکے فیصلوں کو ماننے سے انکار! خدا کے فضل سے اتحادی بھی ایسے ملے جن کا رویہ ” چڑھ جا سولی بیٹا‘ رام بھلی کریگا“ فرماتے ہیں۔ ”جیل تک ساتھ دینگے“ جیل پہنچانے کا اہتمام کرکے خود واپس چلے آئینگے؟ اتحادی اگر حکومت‘ جمہوریت بالخصوص اپنے عوام سے مخلص ہیں تو حکمرانوں کو ایسے اقدامات اور کام کرنے سے منع کیوں نہیں کرتے جو ان کو عوامی نفرت کا نشان بنا دے۔ جیل کی تنگ و تاریک کوٹھڑیوں میں پہنچا دے۔
”کسی سے نہیں ڈرتے‘ جو کرنا ہے کرلو۔ میں ہوں نا! بات صدر تک پہنچی تو اپنے سر لے لوں گا“۔ جیسے بیانات دینے اور رویہ اپنانے والے وزیراعظم آج سپریم کورٹ میں پیش ہونگے۔ عقل اور ہوشمندی کا تقاضہ یہی ہے کہ عدلیہ سے محاذ آرائی کی کیفیت کو ختم کرنے کیلئے سوئس حکام کو خط نہ لکھنے کی ضد چھوڑیں‘ انکے گرو اور ساتھی چیلے تو چاہتے ہیں‘ وزیراعظم آج عدالت عظمیٰ کو بھی بتا دیںکہ سوئس حکام کو خط لکھنے پر عدلیہ کا نہیں‘ پارٹی کا فیصلہ مانتا ہوں پھر انجام کیا ہو گا؟ اسکی ایک جھلک بابر اعوان کے فیصلے میں دیکھی جا سکتی ہے۔
وزیراعظم یہ بھی فرماتے ہیں کہ ”بڑی قربانی سے سب کی جان بچ جاتی ہے تو یہ بڑی کامیابی ہو گی۔“ گویا اپنے آپ کو وہ طوطا سمجھتے ہیں جس میں سب کی جان اٹکی ہے۔ یہ ”سب“ کون ہیں‘ پوری جمہوری مشینری یا جاہ پسندوں کا مجموعہ؟ آپکی اور ان سب کی جان کو آخر خطرہ کیا ہے؟ آپ آج عدالتی احکامات پر عملدرآمد کرا دیں‘ میموکیس کو منطقی انجام تک پہنچنے دیں‘ آپ بھی محفوظ‘ وہ سب بھی محفوظ ۔ جمہوریت کو خطرے کا تسلسل کے ساتھ ذکر کیا جاتا ہے۔ جمہوریت‘ زرداری اور گیلانی کا نام نہیں‘ جو سوئس حکام کو خط لکھنے اور میموگیٹ پر فیصلہ آنے سے خطرے میں گھر جائے۔ ایک وزیراعظم گیا تو تیرہ تیار بیٹھے ہیں۔ جمہوریت کو سب سے بڑا خطرہ ان لوگوں سے ہے جو عدالت کے تصادم پر تلے ہوئے اور فوج پر الزام اور دشنام باندھ رہے ہیں۔ 
بابر اعوان کا وکالتی لائسنس‘ عبوری طور پر عدالتی حکم کی نذر ہوا تو اس سے اعوان صاحب کا وہ غرور یقیناً ٹوٹا ہو گا جو اس مصرعے سے عیاں تھا۔ ”نوٹس ملیا تے ککھ نہ ہلیا“ اب ککھ بگولوں کے دوش پر ہیں۔ لائسنس کی عارضی معطلی پر پھر سخن طراز ہیں....
جنہاںتکیہ رب دا اوناں رزق ہمیش
پلے رزق نہ بنھ دے پنچھی تے درویش 
معلوم ہوتا ہے کہ بابر صاحب نے اپنا رزق وزارت سے منسوب کیا ہوا ہے‘ ”اعوان“ صاحب کو معلوم ہونا چاہیے کہ موت اور زندگی کی طرح مفلسی اور تونگری بھی خدا کے ہاتھ میں ہے۔ عدالتیں سزائے موت کا حکم کیا انسان کی جان لینے کیلئے دیتی ہیں؟ وہ تو جرم کی سزا دیتی ہیں‘بہرحال نظر آتا ہے کہ گیلانی صاحب نے بابر اعوان کا لائسنس معطل ہونے کے فیصلے سے کچھ سبق ضرور سیکھا ہے۔ ایک تو وہ اس فیصلے کے بعد خاموش ہیں‘ دوسرے انہوں نے اعتراز احسن کو اپنا وکیل مقرر کیا ہے جن کا گو صدارتی استثنیٰ پر مشرف اور زرداری کیلئے الگ الگ موقف رہا ہے تاہم وہ بارہا کہہ چکے ہیں کہ حکومت سپریم کورٹ کے حکم پرسوئس حکام کو خط لکھنے کی پابند ہے۔ شاید گیلانی صاحب وہ سب سمجھ گئے ہوں کہ انکے ساتھ کیا ہونیوالا ہے اور ان کو شہادت کے مقام پر پہنچانے کا جوش دلانے والے دراصل ان کو ہلاکت میں ڈالنا چاہتے ہیں۔ یہ تو نہیں ہو سکتا کہ محض فیس بٹورنے کیلئے اعتزاز اپنا نظریہ بدل لیں البتہ فیس سیونگ کےلئے گیلانی اصول کی راہ پر آسکتے ہیں۔ اس کا قدرے اظہار انکے بابر اعوان کو وزیر قانون بنانے سے انکار سے بھی ہوتا ہے جس کا توہین عدالت پر وکالتی لائسنس منسوخ ہوا اسے وزیر قانون بنانے کا مطلب عدلیہ کو چڑانے کی کوشش کے سوا اور کچھ نہیں لیا جا سکتا تھا۔ فوج اور عدلیہ کے حوالے سے حکومتی اقدامات اور رویے کے باعث سیاسی فضا کشیدہ ضرور ہے‘ لیکن اس سے جمہوریت کوئی خطرہ نہیں۔ البتہ وزیراعظم گیلانی جس کو جمہوریت کو خطرے میں سمجھتے ہیں‘ اسے بچانے کا بھی بہترین طریقہ یہی ہے کہ عدالتی فیصلوں کے سامنے سرتسلیم خم کریں اور میمو گیٹ پر سماعت میں روڑے اٹکانے کے بجائے تعاون کریں۔ ان کی طرف سے پسپائی نہیں‘ بلکہ اپنے Face Saving کے ساتھ ساتھ ملک و قوم اور جمہوریت کی بہترین خدمت بھی ہو گی۔

Sunday, January 15, 2012

سپر صرف ریاست

 اتوار ، 15 جنوری ، 2012

سپر صرف ریاست!
فضل حسین اعوان ـ 18 گھنٹے 31 منٹ پہلے شائع کی گئی
صدر آصف علی زرداری اور وزیراعظم یوسف رضا گیلانی سمیت کچھ دیگر بھی پارلیمنٹ کی بالادستی اور سپرمیسی کی بات کرتے ہیں۔ وزیراعظم گیلانی تو سب سے زیادہ اور بڑھ چڑھ کر۔ یہ استدلال انہوں نے کہاں سے لیا؟ اس کا کوئی تذکرہ نہیں۔ بالادستی اور سپرمیسی کی بات کی جائے تو بلاشبہ ریاست یعنی مملکت خداداد پاکستان بالادست اور سپر ہے۔ کیا اس سے صدر وزیراعظم دیگران اور انکار فرمائیں گے؟ عدلیہ‘ انتظامیہ اور مقننہ (پارلمینٹ) کو ریاست کے ستون قرار دیا گیا ہے۔ جن کا سٹیٹس برابر ہے۔ ہر ادارے کا اپنا تقدس اور احترام ہے۔ ریاست کا سب سے بڑھ کر ہے۔ موجودہ پارلیمنٹ کتنی محترم‘ معتبر اور مقدس ہے اس کا اندازہ اس کے تخلیقی عمل سے کیا ہے۔ سپریم کورٹ کے سامنے لائے گئے شواہد جن سے حکمران پارٹی بھی متفق ہے کہ 2008ءکے انتخابات جن لسٹوں پر ہوئے ان میں 3 کروڑ 80 لاکھ ووٹر جعلی تھے۔ جوکل ووٹوں کا 40 فیصد ہے۔ اگلی پارلیمنٹ میں بہلا بھی قانونی طورپر پارلیمنٹ کا حصہ بننے کے حقدار ہو سکتے ہے۔ 2002ءاور 2008ءکے الیکشن میں گریجوایشن کی پابندی تھی۔ اس کے باوجود ان پڑھوں کے پارلیمنٹ میں داخلے کی راہیں مسدود نہ کی جا سکیں۔ جعلی ڈگریوں والے چہرے ہنوز بے نقاب ہو رہے ہیں۔ بہرحال پارلیمنٹ پارلیمنٹ ہوتی ہے۔ گریجوایٹس کا مجموعہ ہو یا نان گریجوایشن کا جمگھٹا‘ ایک طرف ہم تعلیمی پسماندگی اور انتہائی کم سطح کی شرح خواندگی کا رونا روتے ہیں تو دوسری طرف پارلیمنٹ کو گھوڑے گدھے کے فرق کے بغیر بھر دینا چاہتے ہیں۔ گریجوایشن کی شرط کے بعد کئی سیاستدانوں نے گریجوایشن کی۔ گریجوایشن کی شرط ختم ہونے کے بعد شاید اس راستے پر چلنے کے خواہشمندوں نے بوری بستہ اور کتابیں سمیٹ لی ہوں۔ اب سی ایس ایس‘ آئی ایس ایس بی اور ملازمتوں کے لئے تعلیمی شرط موقوف کرکے ذاتی اہلیت کو معیار اور میرٹ قرار دے دینا چاہئے تاکہ سیلف ایجوکیٹڈ لوگوں کو بھی قومی کی خدمت کا موقع ملے۔ میاں نواز اپنے دور میں اکیڈمی ادبیات کی سربراہی ایک سیلف ایجوکیٹڈ کے سپرد کرکے یہ تجربہ فرما چکے ہیں۔
آئین میں ہر ادارے کے کردار‘ اختیارات اور ذمہ داریوں کا تعین کر دیا گیا ہے۔ پاک فوج ملک کی سرحدوں کی نگہبان ہے لیکن یہ عدلیہ‘ انتظامیہ اور مقننہ کی طرح آزاد اور خود مختار نہیں۔ یہ انتظامیہ کے ماتحت ادارہ ہے جس کے آئینی سربراہ وزیراعظم ہیں۔ البتہ فوج کی طاقت سب پر عیاں ہے۔ اگر وہ سیاسی معاملات میں مداخلت کرتی رہی ہے تو یہ انتظامیہ کی کمزوری تھی۔ آج پھر صورت حال ایسی نظر آرہی ہے کہ جیسے فوج اور حکومت آمنے سامنے ہوں۔ اس تاثر کو حکومتی اقدامات تقویت پہنچاتے ہیں جبکہ فوج بار بار تردید کر رہی ہے۔ وزیراعظم گیلانی اپنے اس ماتحت ادارے کے خلاف ایک بار نہیں کئی بار الزامات لگا کر جگ ہنسائی کا باعث بن چکے ہیں۔ کبھی پارلیمنٹ میں فوج کو رگیدا تو کبھی چین کے اخبار پیپلز ڈیلی کو بلا کر جرنیلوں کی خبر لی۔ اس پر فوجی ترجمان کا بیان بھی لائق تحسین نہیں۔ وہ بھی اپنی حدود سے تجاوز کرتے نظر آئے۔ حکومت نے ایک طرف عدلیہ کو آگے لگا رکھا ہے تو دوسری طرف اپنے ماتحت ادارے فوج سے بھی شاکی ہے۔ گذشتہ روز کا اجلاس وزیراعظم پر اعتماد کی قرارداد لانے کے لئے بلایا گیا۔ اتحادیوں نے حمایت سے انکار کیا تو اسفند یار ولی سے ایک قرارداد پیش کروا دی۔ اعتماد کی قرارداد لائی جاتی تو مطلوبہ اکثریت تو ضرور وزیراعظم گیلانی کے ساتھ ہوتی۔ ان کو بہت بعد میں یاد آیا کہ وہ تو متفقہ طور پر منتخب ہوئے تھے۔ کہاں 342 ارکان کا اعتماد اور کہاں زیادہ سے زیادہ دو سو کا۔ اخلاقی طور پر یہ مجوزہ قرارداد ان کی حمایت میں نہیں مخالفت میں جاتی۔ اب جو کل سوموار کو قرار لائی جا رہی ہے۔ اس کا مرکزی نکتہ ہے ”تمام اداروں کو آئینی حدود میں رہنا چاہئے۔“ روئے سخن فوج کی جانب ہے۔ حکومت اپنے ماتحت ادارے کو پارلیمنٹ میں قرارداد کے ذریعے آئین کی حدود میں رہنے کا درس دے تو اس سے زیادہ حکومت کی نااہلی اور بے وقعتی ہو ہی نہیں سکتی۔ حکومت خود اگر آئین کے دائرہ کار میں رہ کر فرائض انجام دے اور اختیارات استعمال کرے تو تمام معاملات ایک آدھ روز میں سیٹل ہو سکتے ہیں۔ حکومت جمہوریت جمہوریت کا ورد کرتی ہے۔ جمہوریت صرف ایک پارٹی کا بادشاہت کا نام نہیں۔ قومی سلامتی اور خودمختاری کا تحفظ اور عوامی مسائل کا حل بھی اس کی ذمہ داری ہے۔ امریکہ نے حکومت اور فوج کے مابین چپقلش کا فائدہ اٹھا کر پھر سے ڈرون حملے شروع کر دئیے۔ اب دیکھنا یہ بھی ہے کہ سیاسی قیادت سارا ڈرامہ نیٹو سپلائی کی بحالی اور امریکہ سے تعلقات سلالہ چیک پوسٹ پر حملہ سے قبل کی سطح پر تو نہیں لانا چاہتی۔ جس کی راہ میں فوج مزاحم نظر آتی ہے؟ موجودہ جمہوریت میں عوام کو جو کچھ دیا سب کے سامنے ہے۔ حکومت چاہتی ہے کہ کسان جمہوریت بوئیں‘ صنعت کار جمہوریت بنائیں‘ عوام جمہوریت کھائیں اور حکمران اندرونی اور بیرونی بنک ان کے خون پسینے کی کمائی سے بھرتے ہوئے چین کی بنسی بجاتے رہےں۔ یہ چاہتے ہیں عدلیہ بجائے این آر او کے فیصلے پر عملدرآمد کیسے کرنا ہے۔ یہ فیصلے ان کی پارٹی کرے۔ جرنیل ریاست کے تحفظ اور آئین کی بالادستی کے بجائے عدالت میں جاکر حکمرانوں کی خواہش کی تکمیل کرتے ہوئے حقائق کو چھپائیں اور جھوٹے بیانات داخل کرائیں۔ کیا یہی پارلیمنٹ کی بالادستی ہے جس کا درس حکمران صبح و شام دیتے ہیں؟


Friday, January 13, 2012

حکمرانوں کا اپنے اوپر خود کش حملہ

 12 جنوری ، 2012

حکمرانوں کا اپنے اوپر خود کش حملہ
فضل حسین اعوان 
پیپلز پارٹی کی حکومت نے سپریم کورٹ اور اپنے ہی ماتحت ادارے فوج کو زچ کرکے رکھ دیا ہے۔ دونوں ادارے صبر تحمل اور ضبط و برداشت کا مظاہرہ کرتے چلے آ رہے ہیں۔ آج تک کسی کو عدالتی فیصلوں کے نہ ماننے کی جرات نہیں ہوئی۔ ایسا جرات اظہار بھی اس حکومت کا خاصا قرار پایا جس کی کسی ملکی معاملے پر گرفت ہے نہ کوئی پالیسی ملکی و عوامی مفاد میں۔ این آر او فیصلے پر عمل سے جس طرح انکار کیا جا رہا ہے وہ ملک کو پتھر کے دور میں دھکیلنے کے مترادف ہے۔ صدر صاحب فرماتے ہیں کہ این آر او پر عدالت کا نہیں پارٹی کا فیصلہ مانوں گا۔ پارٹی نے فیصلہ صادر فرمایا کہ سوئس حکام کو عدالتی احکامات کے برعکس خط نہیں لکھا جائے گا۔ اس اعلیٰ سطح سے عدلیہ کی بے توقیری کبھی سنی نہ دیکھی۔ میمو کیس پر الگ واویلا۔ جوڈیشنل کمیشن کی فائنڈنگز اور سفارشات جو بھی ہوں حکومتی اقدامات، وزیر اعظم گیلانی، حسین حقانی اور رحمن ملک کے منصور اعجاز کی پاکستان آمد کے حوالے سے تلخ اور ترش بیانات نے میمو کی حقیقت کو عیاں کر دیا ہے۔ ہر گزرتے لمحے کے ساتھ کچھ اہل اقتدار کو گلے میں این آر او اور کچھ کو میمو کا پھندا کستا محسوس ہو رہا ہے۔ کرپشن سے تو شاید ہی کسی کا دامن پاک ہو۔ جو بچیں گے ان کی شاید ڈگریاں دو نمبر ثابت ہوں گی۔ اس لیے کسی بھی قسم کے پھندے سے گردن بچانے کیلئے حکمران سسٹم کی بساط لپیٹنے پر تل گئے ہیں۔ ایک طرف عدلیہ سے محاذ آرائی تو دوسری طرف فوج سے پنجہ آزمائی۔ فوج جن ممالک کیلئے بھاری پتھر ثابت ہو رہی ہے وہ اسے کمزور اور ڈی مورالائز کرنا چاہتے ہیں۔ بھارت پاکستان کا ازلی دشمن ہے، پاکستان کے مفادات کی قیمت پر امریکی مفادات کی راہ میں پاک فوج بڑی حد تک مزاحم ہے۔ اسرائیل سمیت اکثر مغربی ممالک پاکستان کے ایٹمی طاقت ہونے اور ایٹمی اثاثے براہ راست پاک فوج کے کنٹرول میں ہونے کے باعث پاک وطن اورپاک فوج کے بارے میں وہی جذبات رکھتے ہیں جو بھارت و امریکہ کے ہیں۔ پاک فوج کو بدنام کرنا ان ممالک کا ایجنڈا ہے۔ شرم کی بات ہے کہ ہمارے حکمران اور اپوزیشن پاکستان دشمنوں کے ایجنڈے پر عمل پیرا ہے حکومت کچھ زیادہ ہی۔وزیر اعظم گیلانی اور صدر آصف علی زرداری کا ایک معاملے پر آج جو موقف ہوتا ہے کل اس کے برعکس اختیار کیے دکھائی دیتے ہیں۔ سپریم کورٹ نے ان کی دیانت کی بات کی عوام کو ان کی صداقت پر بھی شبہ ہے۔ فوج کے حوالے سے بھی ان کا کوئی بیان قابل اعتبار نہیں یہ کبھی فوج کی تعریف اور کبھی تضحیک کرتے ہیں لیکن پاکستان مخالف قوتیں اس بات کو اچھالیں گی جو پاک فوج کی بدنامی کا باعث ہو سکتی ہو۔ وزیر اعظم گیلانی نے اسامہ بن لادن کی پاکستان موجودگی کے حوالے سے پاک فوج کو نشانہ بنایا پھر اگلے روز منت اور معافی پر اُتر آئے۔ اب جبکہ جنرل کیانی چین کے دورے پر تھے۔ وزیر اعظم نے چینی اخبار نویسوں کو خصوصی طورپر بلا کرجنرل کیانی اور شجاع پاشا کے بارے میں کہہ دیا کہ وہ غیر آئینی اور غیر قانونی اقدام کے مرتکب ہوئے ہیں۔ بیک وقت فوج اور عدلیہ سے ماتھا لگانے کا ایک ہی مقصد ہو سکتا ہے کہ میمو، این آر او اور کرپشن کے پھندوں سے گردن چھڑانے کی کوشش کی جائے۔ اس کیلئے عدالت اور فوج کو اس حد تک مجبور کر دیا جائے کہ وہ ان کو گھر کی راہ دکھا دیں۔ عدلیہ اور فوج کے ساتھ حکمرانوں کی محاذ آرائی ان کا اپنے اوپر خود کش حملہ ہے، جس کی لپیٹ میں کوئی اور آئے نہ آئے یہ خود نہیں بچ پائیں گے۔
وزیر اعظم اور صدر بات بات پر پارلیمنٹ کی سپرمیسی اور بالادستی کی بات کرتے ہیں حالانکہ عدلیہ مقننہ (پارلیمنٹ) اور انتظامیہ کا یکساں سٹیٹس ہے، سپریم صرف اور صرف ریاست ہے۔ سپریم کورٹ آزاد اور خود مختار ہے۔حکومت خود انتظامیہ بھی ہے، تمام ریاستی ادارے آئین کے دائرے میں رہتے ہوئے اس کے ماتحت ہیں۔بدقسمتی سے بیورو کریسی نے مجموعی طور پر وہ کردار ادا نہیں کیا جو اس کے فرائض کا تقاضا ہے، چند ایک کے سوا تمام بیورو کریٹ حکمرانوں کے حاشیہ بردار ثابت ہو رہے ہیں۔ یہ حکومت کے ملازم نہیں ریاست کے ملازم ہیں جن کے بارے میں ایسے حالات میں جیسے اب ہیں قائد اعظم نے فرمایا تھا: 
”حکومتیں بنتی ہیں، حکومتی گرتی ہیں لیکن آپ لوگ وہیں رہتے ہیں۔ اس طرح آپ کے کاندھوں پر ایک عظیم ذمہ داری آ جاتی ہے، آپ کو اس لیے بھی تکلیف پہنچ سکتی ہے کہ آپ غلط کام کی بجائے صحیح کیوں کر رہے ہیں۔ آپ کو قربانی دینی ہو گی اور میں آپ سے اپیل کرتا ہوں کہ آگے بڑھیں اور قربانی دیں، خواہ آپ بلیک لسٹ ہو جائیں یا پریشانی اور تکلیف میں مبتلا کر دیئے جائیں، آپ کی انہی قربانیوں سے حالات بدلیں گے....پہلی بات جو میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں، یہ ہے کہ آپ کو کسی قسم کے سیاسی دباﺅ میں نہیں آنا چاہیے۔ آپ کو کسی سیاسی جماعت یا کسی سیاست دان کا اثر قبول نہیں کرنا چاہیے۔ اگر آپ واقعی پاکستان کا وقار بلند کرنا چاہتے ہیں تو آپ کو کسی طرح کے دباﺅ کا شکار نہیں ہونا چاہیے بلکہ عوام اور مملکت کے سچے خادم کی حیثیت سے اپنا فرض بے خوفی اور بے غرضی سے ادا کرنا چاہیے۔ مملکت کیلئے آپ کی خدمت وہی حیثیت رکھتی ہے جو جسم میں ریڑھ کی ہڈی کو حاصل ہے“۔بیورو کریسی یا سرکاری ملازمین کے تعاون کے بغیر حکومت ایک دن بھی نہیں چل سکتی، یہاں تو حکومت نے کرپشن اور اقربا پروری سے ہر ادارے کو ڈبو دیا اور سب کچھ ریاستی مشینری کے ذریعے ہی ہوتا رہا ہے۔ بیورو کریٹس قائد اعظم کے فرامین کو مشعل راہ بنائیں۔ حکومت کوئی بھی ہو، اس کی ملک اور عوام دشمنی پر مبنی پالیسیوں کی راہ میں سنگ گراں بن کر کھڑے ہو جائیں۔ آج کے حالات ان سے کسی بھی دور سے زیادہ ایسا کردار ادا کرنے کے متقاضی ہیں۔


Tuesday, January 10, 2012

مشرف کی آمد----- سواری اپنے سامان کی

منگل ، 10 جنوری ، 2012


مشرف کی آمد۔ سواری اپنے سامان کی....
فضل حسین اعوان
بحرانوں کی دلدل مےں دھنسے اور مسائل کے جال مےں پھنسے عوام نے اس حوالے سے سکھ کا سانس ضرور لیا ہے کہ خودکش بمباروں کی پھیلائی ہوئی بو معدوم ہو رہی ہے۔ امریکہ پھر سے پاکستانیوں کو خودکش حملوں اور بم دھماکوں سے دوچار کرنے کے لئے بے قرار ہے، ڈرون حملوں کے ردعمل مےں پیدا ہونے والے خودکش بمبار بھی ڈرون حملوں کے بند ہوتے ہی شاید اپنے گھروں کو لوٹ گئے۔ امریکہ پھر سے ڈرون حملوں کے بارے مےں سوچ رہا ہے۔ جواز کے لئے کہہ دیا کہ ڈرون حملے رُکنے سے دہشت گرد متحد ہو رہے ہےں۔ امریکہ اب کبھی ڈرون حملوں کی جرات نہیں کرےگا، پہلے جو ہزاروں حملے کئے وہ ہمارے بدبخت حکمرانوں کی مرضی سے کئے۔ اب فوجی قیادت نے سخت موقف اپناتے ہوئے ڈرون گرانے کا اعلان کیا تو امریکہ چوکس ہوگیا۔ پاکستان کے ساتھ سلالہ چیک پوسٹ پر حملہ سے قبل کی سطح پر تعلقات لانے کے لئے ہر قسم کے لالچ اور دھونس کا حربہ آزما رہا ہے۔ فوج کی طرف سے امریکی جنگ سے جزوی لاتعلقی کا نتیجہ ملک مےں امن کی صورت مےں قوم نے دیکھ لیا۔ خوفزدہ لوگ گھروں سے نکل کر قصبوں اور شہروں کی رونق مےں اضافہ کا باعث بن رہے ہےں۔ الیکشن ابھی دور ہےں لیکن سیاسی سرگرمیوں مےں ایک جوش اور ولولہ نظر آتا ہے۔ ہر سیاسی پارٹی کا جلسہ پرانے ریکارڈ توڑ رہا ہے۔ جلسوں مےں شرکا کی تعداد اور جذبہ کو دیکھ ہر پارٹی خود کو بڑی پارٹی سمجھ رہی ہے۔ کچھ سیاستدان کے غبارے مےں ایسی ہوا بھری گئی کہ وہ پھٹا چاہتے ہےں۔ عمران خان عوامی پزیرائی پر خود کو مستقبل قریب کا وزیراعظم گردان رہے ہےں تو مشرف خود کو قوم کا نجات دہندہ جان رہے ہےں۔ نوزائیدگانِ سیاست کے ساتھ ساتھ سیاست کو وراثت سمجھنے والوں کو بھی عوام جلسوں مےں حاضری کی حد تک مایوس نہیں کر رہے۔ یوں ہر کوئی بزعمِ خویش مقبول ترین عوامی لیڈر ہے۔ پرویز مشرف نے وطن واپسی کا اعلان کیا۔ اس پر کراچی مےں جلسہ مےں لوگوں کی شرکت کے بعد مہر ثبت ہو گئی۔ عمران اپنے جلسوں کو سونامی قرار دیتے ہےں، مشرف نے کراچی کے جلسے کو زلزلہ قرار دیا۔ سونامی اور زلزلہ، ایسے الفاظ کے استعمال سے ان قوم کی رہنمائی کے دعویداروں کو نجانے خیر کا کونسا پہلو نظر آتا ہے۔ پرویز مشرف طویل عرصہ سے وطن واپسی کی تیاری کر رہے ہےں۔ بالآخر 30جنوری کو واپسی کا اعلان کر دیا۔ وہ پاکستان آنا چاہتے ہےں اور گرفتاری سے بھی بچنا چاہتے ہےں، جو بویا وہ کاٹنے پر تیار نہیں۔ موجودہ حکومت کی نااہلی، نالائقی، کرپشن اور اداروں کی تباہی کے باعث سمجھتے ہےں کہ قوم ان کی واپسی پر ان پر پھول نچھاور کرے گی اور راہوں مےں پلکیں بچھائے گی۔ پاکستان مشرف کا وطن ہے انہیں واپس ضرور آنا چاہئے، اس کے لئے کسی کا سہارا لینے کی ضرورت نہیں، سیدھے چلے آئیں لیکن وہ براستہ واشنگٹن اور ریاض آنا چاہتے ہےں۔ ریاض سے چلنے والی بات نواز شریف کی جدہ منتقلی پر منتج ہوئی۔ خادم حرمین الشریف کا کہا براہ راست کوئی پاکستانی حکمران نہیں ٹالتا۔ ان کا عرب ممالک پر بھی اثر و رسوخ اور رشتہ داری تک ہے۔ آصف زرداری کسی اور کی مانیں نہ مانیں امارات والوں کی نہیں موڑ سکتے۔ کچھ پریشر امریکہ بھی ڈالے گا جس کی معیشت اور سیاست پر یہودیوں کا مکمل کنٹرول ہے، اسرائیل کو تسلیم کرنے کی بات کر کے مشرف نے یہودیوں کے دل مےں جگہ بنا لی ہے۔ یوں مشرف کی پاکستان میں گرفتاری سے محفوظ واپسی ممکن ہے۔ چونکہ ان کے پاس پیسہ بہت ہے اور پاکستان مےں سیاست پیسے کا کھیل ہے، اس لئے ان کی سیاست مےں بے پایاں دلچسپی ہے۔ سعودی عرب، امریکہ، اسرائیل اور بھارت مشرف کو پاکستان بھجوا سکتے، گرفتاری سے بچا سکتے ہےں اور سیاست مےں ان کو ایک رتبہ دلا سکتے ہےں لیکن ان کی جان کی حفاظت کی ضمانت نہیں دے سکتے۔ مشرف کے دشمنوں کی تعداد دوستوں سے کہیں زیادہ ہے۔ خودکش حملوں کا سلسلہ لال مسجد مےں ان کے ظالمانہ اپریشن کے بعد شروع ہوا۔ اکبر بگٹی کا قتل ایک روح فرسا سانحہ تھا۔ اب تو بے نظیر کا قتل بھی ان پر پڑ رہا ہے۔ پاکستان مےں رہتے ہوئے تو ان کو فول پروف سکیورٹی حاصل تھی، علاوہ ازیں وہ آرمی ہاﺅس سے بھی باہر نہیں نکلتے تھے۔ سیاست مےں تو در در اور گھر گھر گھومنا پڑتا ہے۔ مشرف نے بےنظیر بھٹو کو پاکستان نہ آنے کا مشورہ دیا تھا، وہ نہ مانیں، وطن آئیں انجام سب نے دیکھ لیا۔ مشرف بھی آمد سے قبل غور فرمائیں کیا ان کے پاکستان واپسی اور پھر سیاست میں سرگرم ہونے کے لئے حالات سازگار ہےں؟ ان کے ساتھی ان کو سمجھائیں کہ آرمی چیف ہوتے ہوئے حکمرانی کرنا الگ اور ریٹائر ہو کر سیاست کرنا اس کے برعکس ہے۔ پاکستان مےں اگر ان کی کوئی عزت و احترام ہے تو اس کی صرف ایک وجہ ان کا سید ہونا ہے۔ اس کے سوا اور کچھ نہیں، خدا کرے وہ سید ہوں۔ بہتر ہے کہ ان کے پاس جو کھربوں کی دولت ہے، کچھ اپنی آسائش پر اور کچھ اپنے غریب ہم وطن پر خرچ کریں پاکستان واپس آنا ہے تو کچھ چک شہزاد مےں اپنے محل اور اپنی حفاظت پر لگائیں۔ سیاست سے تائب ہو جائیں جان جہان سے زیادہ قیمتی اور ضروری ہے۔ طلال بگٹی نے پھر کہہ دیا ہے کہ مشرف کا سر قلم کرنے والے کو 10 کروڑ کا کمرشل پلاٹ اور ایک ارب کی اراضی دینگے۔ مشرف اس دھمکی کو معمولی نہ سمجھیں۔ سواری اپنے سامان کی خود حفاظت کرے۔

Sunday, January 8, 2012

انقلاب کی حسرت! تیاری؟

 اتوار ، 08 جنوری ، 2012

انقلاب کی حسرت! تیاری؟
فضل حسین اعوان ـ
اسلامی دنیا میں بڑی تیزی سے انقلابی تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں۔ مغرب کے تراشیدہ فرعونوں کے بت پاش پاش ہو رہے ہیں۔ یہ انقلاب یہ تبدیلی مسلمانوں کے ہاتھ پہ ہاتھ دھرے رکھنے سے نہیں آرہی۔ ہر انقلاب‘ ہر تبدیلی کے پیچھے ایک جہد مسلسل ہے۔ قربانیوں کا ایک لامتناہی سلسلہ ہے۔ ثابت قدمی و مستقل مزاجی کی داستان لازوال ہے۔ اسلامی دنیا میں رونما ہونے والی تبدیلیاں ہمارے لئے ایک درس ہے۔ اتحاد و اتفاق کا ایک پیغام ہے۔
مصر میں جو کچھ ہوا وہ تعجب خیز اور حیران کن نہیں یہ امام حسن البناءاور ان کے اخوان کی قربانیوں کا ثمر اور دست قدرت کا معجزہ ہے۔ آج مصر میں ہونے والے تین میں سے دو مراحل کے انتخابات کے بعد اخوان المسلمون نے دیگر اسلامی جماعتوں سے اتحاد کر کے اکثریت حاصل کر لی ہے۔ 10 جنوری کو آخری مرحلے میں بھی نتائج اخوان کے حق میں آنے کی توقع ہے۔ اخوان کی کامیابی پر اقتدار کے رسیا جرنیل دم بخود اور دلبرداشتہ ہیں۔ حتمی مرحلے کے نتائج سے قبل چلا اٹھے ”تمام اختیارات سول حکومت کو منتقل نہیں کئے جائیں گے“ کیا اخوان المسلمون 84 سال سے جانوں کے نذرانے جرنیلوں کی غلامی قبول کرنے کے لئے دیتے رہے؟ حسن البناءنے 1928ءمیں اخوان کی بنیاد رکھی۔ یہ وہ دور تھا جب مصر یورپ زدہ ہو رہا تھا۔ مسلمانوں کو فرعون کے دور کی طرف لوٹانے کی کوشش ہو رہی تھی۔ امام حسن البناءایسے اقدامات کی راہ میں سنگ گراں بن کر کھڑے ہو گئے بالآخران کو 12 فروری 1949ءکو وزیراعظم عبدالہادی سے ملاقات کے بعد گھر جاتے ہوئے ٹیکسی میں شہید کر دیا گیا تھا۔ اس کے واقعہ کے بعد مصر واقعی یورپ زدہ ہوا اور فرعون دور کی طرف لوٹ گیا۔ اخوان قربانیاں دیتے رہے اور عین 62 سال بعد موجودہ دور کا آخری فرعون مصر حسنی مبارک‘ 12 فروری 2011ءکو اپنے انجام کو پہنچا۔ وہ صدارتی محل سے اپنے گھر اور پھر مجرموں کے جنگلے میں منتقل ہوا۔ فرعونیت سے نجات کے لئے اخوان کو پون صدی سے زائد عرصہ تک قربانیاں دینا پڑیں۔
کہ خون صد ہزار انجم سے ہوتی ہے سحر پیدا
لیکن مصر میں پیدا ہونے والی سحر کو فوجی حکمرانوں نے پھر شب تاریک میں بدلنے کی کوشش کی ہے۔ لیکن نمودار ہوتی ہوئی سحر کو اجالوں میں ڈھلنے سے روکنا کسی کے بس کی بات نہیں۔ آخر مصری جرنیلوں کو اسی مقام پہ آنا پڑے گا جہاں ترک جرنیلوں کو وزیراعظم طیب اردگان اور صدر عبداللہ گل نے پہنچا دیا ہے۔ ترکی میں بھی اسلامی انقلاب کے لئے قربانیوں کا ایک سلسلہ جاری رہا۔ عدنان مندریس کو تختہ دار پر چڑھا دیا گیا تو نجم الدین اربکان سے تخت چھڑا لیا گیا۔ مراکش میں بھی آزادی کے بعد انتخابات کے ذریعے پہلی اسلامی حکومت تشکیل پا گئی ہے۔ یہاں بھی مذہبی جماعتوں کے اتحاد نے انتخابات میں کامیابی حاصل کی ہے۔ 
پاکستان میں جماعت اسلامی مصر کی اخوان المسلمون یا مصر میں اخوان المسلمون جماعت اسلامی ایک دوسری کا عکس ہیں۔ جماعت اسلامی بھی پاکستان میں اسلامی انقلاب کی بات کرتی ہے۔ کوشش بھی کرتی لیکن جہد مسلسل اور اپنے مشن کے لئے لازوال قربانیوں کی داستان رقم کرنے کے بارے میں شاید کچھ پیچھے ہے۔ منور حسن نے ایک جلسہ سے خطاب کے دوران کہا کہ انتخابات سے قبل انقلاب کی نوید سنائی دیتی ہے۔ ملک کی قسمت حجاب والی خواتین اور داڑھی والے حضرات بدلیں گے۔ یقیناً اسلامی دنیا میں داڑھی والے مرد اور حجاب والی خواتین نے انقلاب برپا کیا ہے۔ یہاں بھی یہ خواہش پائی جاتی ہے۔ لیکن انقلاب کے لئے اتحاد ناگزیر اور شرط اولین ہے۔ اسلامی جماعتوں نے 2002ءکے انتخابات میں اتحاد کیا تو اگلے الیکشن میں انقلاب کی دستک واضح سنائی دیتی تھی لیکن مجلس عمل کے قائدین کی بے عملی کی وجہ سے یہ مجلس منتشر ہو گئی۔ اگلے الیکشن میں مزید بکھری جماعت اسلامی الیکشن سے دور رہی۔ باقی جماعتیں الگ الگ ہو کر ہنوز اپنی بقا کی جنگ لڑ رہی ہیں۔ داڑھیوں والے انقلاب تب لائیں گے جب ان میں انقلاب لانے کی امنگ اور تڑپ پیدا ہونے کے ساتھ ساتھ اتحاد بھی ہو گا۔ ایک بندہ تو گھر کا دروازہ نہیں اکھاڑ سکتا۔ طاغوتی قوتوں کو کیسے للکارے گا۔ پاکستان میں انقلاب کے لئے جانوں کے نذرانوں کی نہیں خلوص‘ نیک نیتی اور ایثار کی ضرورت ہے۔ اپنی پارٹی کے لئے سیٹیں مانگنے کی بات نہ کی جائے دوسری پارٹیوں پر نچھاور کرنے کا جذبہ پیدا کیا جائے تو انقلاب کی منزل قریب آسکتی ہے۔ پاکستان میں اسلامی قوتوں کو متحد کرنے میں جماعت اسلامی کلیدی کردار ادا کر سکتی ہے لیکن یہ کبھی چھوٹی بڑی برائی کا فلسفہ لے کر ظالمو! قاضی آرہا کا نعرہ لگاتی ہے تو کبھی الیکشن کا بائیکاٹ کرکے اقتدار ناپسندید قوتوں کے حوالے کرنے میں دانستہ یا نادانستہ کردار ادا کرتی ہے۔ اسلامی ممالک میں داڑھی والوں اور حجاب والیوں نے انقلاب برپا کیا ہے تو ان کی طرح آپ بھی متحد ہو کر مضبوط ہونے کی کوشش کریں۔ قوم سیکولر قوتوں اور مغرب زدہ طاقتوں سے تنگ ہے اس کی نظریں کسی رہبر و رہنما کی طرف لگی ہیں۔ اسلامی انقلابی سامنے نہیں آئیں گے کوئی اور ترقی و خوشحالی کا جھانسہ دے کر قوم کو ساتھ ملا لے گا۔ ہمیں اسلامی انقلاب کی حسرت تو ہے، کیا اس کے لئے کوئی مناسب تیاری بھی کی ہے؟ تحریک پاکستان میں کردار کی بات تو جانے دیجئے؟ جواب منور حسن اوردیگر مذہبی جماعتوں کے قائدین پر لازم ہے۔

Friday, January 6, 2012

توہینِ عدالت.... شوقِ شہادت


جمعۃالمبارک ، 06 جنوری ، 2012
توہینِ عدالت.... شوقِ شہادت
فضل حسین اعوان




این آر او کیس اپنے منطقی انجام کو پہنچتا دکھائی دے رہا ہے۔حکومت اپنے آغاز کے پہلے روز سے اس کا کریا کرم کرنے میں سرگرداں رہی لیکن دھیرے دھیرے یہ حکمرانوں کے گلے پڑتا گیا۔ اب یہ سانپ کے منہ میں چھچھوندر کی مانند ہے جسے نگلتے ہوئے پائے رفتن نہ اگلتے ہوئے جائے ماندن۔فیصلے کے بعد حکومت نے دو سال سے زائد کا عرصہ گزار لیا۔کبھی اسے دفنانے کی کوشش کی تو کبھی لٹکانے کی۔آج ایک طرف سپریم کورٹ اس فیصلے پر عمل کرانے کیلئے فعال نظر آتی ہے تو دوسری طرف حکومت خود کو شہیدوں کی صف میں شامل کرانے کیلئے بے کل دکھائی دیتی ہے۔ سپریم کورٹ فیصلے پر عملدرآمد کیلئے حکومت کو 6 روز کی مہلت دی جس میں اب چار دن بچے ہیں لیکن دو سال کی طرح دو دن میں بھی حکومت کی طرف سے فیصلے پر عملدرآمد کا کوئی ارادہ نظر نہیں آیا۔ حکومت کبھی فوج پر جھپٹتی ہے کبھی عدلیہ پر لپکتی ہے عدالتی احکامات پر عمل تو درکنار فیصلوں کی تضحیک کرتے ہوئے ان کے خلاف ہڑتالیں اور جلاﺅ گھیراﺅ تک کیاجاتا ہے۔یہی عدلیہ ہے جس کی بحالی کیلئے خون کا پہلا قطرہ بھی پیپلز پارٹی کے رہنما لطیف خان کھوسہ کے بے بال و پر سر سے بہا تھا۔ زرداری صاحب نے حسرت ظاہر کی ہے کہ کاش عدلیہ بھی ان کے ماتحت ہوتی۔ یہ خواہش شاید جسٹس عبدالحمید ڈوگر کی ماتحتی کا دور یاد کرکے عود کر آتی ہے۔آج بابر اعوان، خورشید، فردوس عاشق اعوان اور قمرالزمان کائرہ توہین عدالت کیس میں کٹہرے میں کھڑے ہیں۔ ڈوگر کےخلاف توہین عدالت کی کارروائی شروع ہوئی تھی وہ سیانے اور قانون کی طاقت کو سمجھتے تھے۔اس لئے معافی مانگ کر جان بچا کر چلے گئے۔ آج توہین عدالت کا سامنا کرنے والے بھی کم سیانے، دانش ور اور قانون دا ن نہیں ہیں لیکن یہ اپنے پیچھے اقتدار کی طاقت کے خناس اور گھمنڈ میں مبتلا ہیں۔ ان کو عدلیہ پر آوازے کسنے کی جرات اس لئے ہوتی ہے کہ ان کے ساتھیوں پر شاید سپریم کورٹ نے توہین عدالت کیس میں ہاتھ ہولا رکھا تھا۔ ان جانثارانِ زرداری و گیلانی کے ساتھ وہی کچھ ہونیوالا ہے جو علمبرداران نواز شریف، میاں منیر، طارق عزیز اور چودھری اختر رسول کے ساتھ نواز شریف پر صدقے واری جاتے ہوئے جسٹس سجاد علی شاہ کی عدالت الٹانے پر ہوا تھا۔ ان پر پارلیمنٹ کے دروازے بند ہیں۔ وہ لبِ پارلیمنٹ اندر کا نظارہ کرسکتے ہیں ہزار کوشش،لاکھ خواہش کے باوجود اندر نہیں جاسکتے۔ بابر اعوان سے سپریم کورٹ نے ”نوٹس ملیا تے ککھ نہ ہلیا“ الاپنے کا جواب یہ کہتے ہوئے مانگ لیا کہ ہمارا لائسنس اور ہماری بے عزتی یعنی ہماری بلی ہمیں ہی میاﺅں، بابر اعوان سے عدالت نے 9جنوری کو جواب مانگا ہے دیکھیے۔اس دوران شیر بابر رہتا ہے یا بلی بن جاتا ہے۔ بھٹو نے تاریخ کے ہاتھوں مرنے کے بجائے فوج کے ہاتھوں مرنے کو ترجیح دی تھی۔ان کے جانشین بھی کوئی ایسا طریقہ ڈھونڈیں عدلیہ کے ہاتھوں سیاسی موت ہوئی تو یہ شہادت نہیں ” کچلا دے کر مارے جانے “کی موت ہوگی۔این آر او فیصلے پر 6دن میں بھی عملدرآمد نہ کرنے سے وزیراعظم، اٹارنی جنرل، وزیر قانون، سیکرٹری قانون اور شاید کچھ دیگر پر بھی توہین عدالت لگے گی۔ آئین کے آرٹیکل62 کے تحت توہین عدالت کے مرتکب ہونیوالے اپنے عہدوں اور پارلیمنٹ کی نشستوں سے فارغ اور ان کے لئے پارلیمنٹ کے دروازے ہمیشہ کیلئے بند ہوجائیں گے ۔شاید ان کا گرو بھی یہی چاہتا ہے۔سرکاری، درباری توہین عدالت کی زد میں آتے ہیں تو یہ کہ اچنبھے کی بات نہیں اس سے قبل کئی صاحبانِ اقتدار کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی ہوئی اور کئی کو سزا بھی سنائی گئی قارئین کی دلچسپی کیلئے میڈیا میں آنے والے حقائق پر مختصراً نظر ڈالتے ہیں۔ نواز شریف کو 17نومبر 1997ءکو اس وقت کے چیف جسٹس پاکستان جسٹس سجاد شاہ کی جانب سے نوٹس جاری کئے جانے پر خود سپریم کورٹ کے سامنے پیش ہونا پڑا تھا۔ جسٹس سجاد نے 5سینئر ججوں کو سپریم کورٹ میں ترقی دینے کی تجویز دی تھی تاہم نواز شریف کی حکومت نے ایک نوٹیفکیشن جاری کرکے اعلیٰ عدلیہ میں ججوں کی تعداد17سے کم کرکے 12 کردی تھی۔ یہاں سے جسٹس سجاد اور نواز شریف کے درمیان اختلافات شروع ہوئے اور نتیجتاً چیف جسٹس آف پاکستان سجاد علی شاہ کی عدالت الٹا دی گئی اور بالآخر ان کے ساتھ میاں نواز شریف کی وزارت عظمیٰ سمیت پورے جمہوری سسٹم کو بھی جانا پڑا۔ سابق امریکی صدر بل کلنٹن کو اپریل 1994ءمیں مونیکا لیونسکی کے ساتھ تعلقات سے متعلق بین الاقوامی طور پر جھوٹا بیان دینے پر ایک وفاقی جج کی جانب سے توہین عدالت کا مرتکب ٹھہرایا گیا تھا۔ بھارتی وزیر ٹرانسپورٹ سواروپ سنگھ نائیک کو 2006ءمیں توہین عدالت کے الزام میں ایک ماہ کیلئے جیل بھیج دیا گیا۔ اسی دوران مہاراشٹر کے ایڈیشنل چیف سیکرٹری اشوک کھوٹ کو ایک ماہ کیلئے وزیر ٹرانسپورٹ کے ساتھ جیل بھیجا گیا تھا۔مذکورہ وزیر اور بیورو کریٹ نے ساملز کو عدالتی احکامات کے برخلاف لائسنس جاری کیا تھا۔1991ءمیں اس وقت کے برطانوی سیکرٹری داخلہ کینیتھ بیکر کو توہین عدالت کا مرتکب ٹھہرایا گیا۔ انہوں نے عدالتی احکامات تسلیم نہ کئے تھے اور ایک شخص کوزیر التواءکیس کے باوجود زائر ڈی پورٹ کردیا تھا۔




Wednesday, January 4, 2012

امن کی چابی

 بدھ ، 04 جنوری ، 2012

امن کی چابی
فضل حسین اعوان ـ 
مشرف دور کی معاشی صورت حال کا جائزہ لیاجائے تو وہ نہ صرف موجودہ دور بلکہ کئی گزشتہ ادوار سے بھی بہتر تھی۔مشرف دور میں بجلی کی قابلِ برداشت لوڈشیڈنگ ضرور ہوتی تھی گیس کئی کئی روز تک بند رکھنے کی روایت روٹی کپڑا اور مکان کی فراہمی کی دعویدار پارٹی نے قا ئم کی۔ آج ڈالر اور فی لیٹر پٹرول کی قیمت نوے روپے کو چھو رہی ہے۔ اُس دور میں ڈالر شروع سے آخر تک62 روپے تک رہا اور پٹرول کی قیمت 54 روپے سے نہ بڑھی۔ لوٹ مار، کرپشن اور اقربا پروری سے کوئی حکومت اور حکمران اپنا دامن نہیں بچا سکے مگر آج یوں نظر آتا ہے کہ ملک و قوم مکمل طورپر ٹھگوں کے ہتھے چڑھ گئے ہیں۔چینی ٹکے ٹوکری ہونے لگی تو حکومت میں موجود شوگر مافیا نے ملوں سے لاکھوں ٹن چینی مارکیٹ ریٹ پر خرید کر یوٹیلیٹی سٹورز پر42 روپے کلو فروخت کیلئے رکھوا دی۔سپریم کورٹ نے 45 روپے ریٹ مقرر کیا تو یہی شوگر مافیا سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف سدِ راہ بن گیا تھا۔آج کچھ لوگوں کو مشرف دورکی خوبیاں اور ان کی ملکی معاملات پر گرفت رہ رہ کر یاد آتی ہے لیکن انہوں نے اپنی دنیا،عاقبت اور سیاست پاکستان کو امریکہ کی جنگ کا حصہ بنا کر اور لال مسجد میں اپریشن سے معصوم بچیوں کو گولہ بارود سے جلا اور پگھلا کر خراب کرلی۔ خودکش حملوں بم دھماکوں اور پاک افواج کے اپریشنز میں سرکاری اعدادو شمار کے مطابق 35 ہزار سے زائد عام شہری اور5ہزار فوجی افسران و جوانان جاں بحق ہوچکے ہیں۔ امریکی ڈرون حملوں میں شہید ہونیوالے تین ہزار کے قریب معصوم بچے،خواتین اور بے گناہ افراد الگ ہیں۔ پاکستان میں خودکش حملوں کا آغاز لال مسجد اپریشن کے ردّعمل میں شروع ہوا آج اس کی وجوہات میں ڈرون حملوں کا ردّعمل بھی شامل ہے۔ وجوہات جو بھی ہوں خودکش حملوں سے کراچی لاہور،اسلام آباد، کوئٹہ اور پشاور سمیت ملک کا کوئی شہر گلی اور بازار محفوظ نہیں۔ہرسو بارود کی بو پھیلی، لاشوں کے ٹکڑے بکھرتے،زخمیوں کی آہ و بکا اور لواحقین کا نالہ وشیون نظر آتا ہے۔ طالبان مذاکرات کی بات کرتے ہیں تو رحمن ملک جیسے کرتا دھرتا آخری دہشت گرد کے خاتمے تک جنگ لڑنے کا اعلان کردیتے ہیں۔جنگ میں چونکہ قوم کے بچے مارے جارہے حکمرانوں کے نہیں۔ اس لئے امریکہ غلامی کی خوان کو امریکہ کی جنگ بڑے جوش ولولے سے لڑنے کی ترغیب دیتی ہے۔
قدرت کاملہ ہر چیز پر قادر ہے وہ چاہے تو اسلحہ بارود کے ڈھیروں پر بھی پھول کھلا سکتی ہے۔جس کا نظارہ ہم دیکھ رہے ہیں۔آج جلسے جلوسوں کا جیسے موسم شروع ہوگیا ہے۔بات میاں نواز شریف کے گوجرانوالہ والا جیسے پُر ہجوم جلسے کی ہو،گڑھی خدا بخش میں بینظیر بھٹو کی برسی پر لوگوں کے اژدہام کی یا عمران خان ،منور حسن کے کراچی کے لاکھوں افراد کے شرکا کی یا سنی تحریک اور مولانا سمیع الحق کی کانفرنسوں کی جن میں بھی لاکھوں افراد شریک ہوئے۔مولانا فضل الرحمن اور اسفند یارولی کے جلسے بھی شرکا کے لحاظ سے کسی سے کم نہیں تھے۔یہ ساری رونقیں میلے ٹھیلے اگر سج رہے ہیں تو اس کی وجہ لوگوں کے دلوں سے خودکش حملوں کا خوف ختم ہونا ہے۔ انہیں حملوں اور حملہ آوروںکی دھمکیوں کے باعث اسفند یارولی خان صاحب نے اپنا گھر بار اور شہر چھوڑ پھر ملک بھی چھوڑ گئے۔ اب وہ بلا جھجھک اپنے صوبے میں جلسے کر رہے ہیں۔خودکش حملوں کے باعث تو ہمارے شہر بازار،سینما گھر تفریحی پارکیں اور پبلک مقامات ویران ہورہے تھے حتیٰ کہ بعض تولوگ مساجد میں جانے سے کتراتے تھے آج ایسا کچھ بھی نہیں ہے۔کیوں؟ اس لئے کہ عسکریت پسندوں کا امریکہ کی جنگ سے علیحدگی کا واحد مطالبہ تھا۔26 نومبر کو نیٹو فورسز نے سلالہ چیک پر حملہ کرکے پاک فوج کے 26سپوتوں کو شہید کیا تو عسکری قیادت کی طرف سے نیٹو سپلائی معطل کرنے اور شمسی ائیر بیس خالی کرانے کے اقدامات سے عسکریت پسندوںکا مطالبہ جزوی طورپر پورا ہوگیاجس کے بعد سے پورے ملک میں امن و سکون ہے۔ یہ برکت ہے امریکہ جنگ سے جزوی لا تعلقی کی۔ اگر پاکستان اس منحوس جنگ سے کُلی طورپر نکل جاتا ہے تو برکات کا اندازہ لگایاجاسکتا ہے۔ آج ملک میں اگر انتشار، فوج اور حکومت کے مابین اختلاف ہے تو امریکہ کے پاکستان میں عمل دخل اور اس کے نیٹو سپلائی بند کئے جانے کے اقدامات کے خلاف ردّعمل کی وجہ سے ہے۔ کفار سے دوستی تو ہو ہی نہیں سکتی البتہ ضروری تعلقات ضرور برقرار رکھنے چاہئیں۔ آج امریکہ پاکستان کے اصولی موقف اور پاکستان کے اپنے مفادات میں پالیسی وضع کرنے کے باعث نہ صرف ڈرون حملے کرنے سے خائف ہے بلکہ افغانستان سے اپنی جنگ سمیٹنے پر بھی مجبور ہے۔اس کے اشیائے ضروریہ سے لدے ہزاروں ٹرک اور کنٹینر افغانستان سرحد عبور کرنے کی اجازت ملنے کے انتظار میں گل سڑ رہے ہیں۔کراچی بندرگاہ پر اس کے اسلحہ و بارود اور جنگی آلات سمیت سامان کے ڈھیر لگے ہیں۔ ایک طرف وہ افغانستان پہنچانے کیلئے پاکستان بھجوایا گیا سامان واپس لے جانے کی بات کرتا ہے تو دوسری طرف مزید جہاز بھی سامان لیکر کراچی پورٹ پر لنگر انداز ہورہے ہیں۔آج امریکہ اپنی جنگ کی دلدل میں پھنس چکا ہے۔اسے اب متبادل راستوں کی تلاش ہے۔ ہوائی جہاز کے ذریعے جلد اور اتنا زیادہ سامان افغانستان بھجوانا ممکن نہیں۔ زخم خوردہ روس اسی دن کے انتظار میں تھا کہ امریکہ کب اس کے شکنجے میں آئے اوروہ شکنجہ کس دے۔ویسے بھی روس چاہے بھی تو تین چار ماہ تک امریکہ کی رسد افغانستان تک پہنچانے میں تعاون کرنے سے قاصر ہے۔شدید سردی یخ بستہ ہواﺅں اور برف سے ڈھکی سڑکیں کسی کی پیش نہیں چلتے دیتیں۔ امریکہ کی افغانستان میں جنگ اور وہاں اس کے قیام کا سارا دارومدار پاکستان پر ہے۔خطے میں قیام امن کیلئے امریکہ کا یہاں سے کوچ ناگزیر ہے۔ گویا نہ صرف خطے میں قیام امن بلکہ پاکستان میں بھی امن برقرار رکھنے کی چابی ہماری عسکری و سیاسی قیادت کے ہاتھ میں ہے۔ اسے اب دانشمندی سے استعمال کرنے کی ضرورت ہے۔
سورہ الم شرح میں ہے۔” پس یقینا مشکل کے ساتھ آسانی بھی ہے۔بے شک مشکل کے ساتھ آسانی ہے“ شاید اب ہماری مشکلیں ختم اور آسانیوں کا دور شروع ہونیوالا ہے۔


Sunday, January 1, 2012

مس فٹ

 اتوار ، 01 جنوری ، 2012


مس فٹ
فضل حسین اعوان
گاوں میں بڑے چودھری کے محل نما گھر کو آگ لگی۔ آناً فاناً پورا گھر اس کی لپیٹ میں آگیا۔ کوئی مٹکا اٹھائے آگ بجھانے کی کوشش کر رہا تھا کوئی بالٹی‘ لوٹے اور گلاس سے پانی انڈیل رہا تھا۔ اس سے آگ کیسے بجھتی! ہر کوئی چودھری کی جلتی جائیداد پر بظاہر افسردہ تھا لیکن چودھری کے منشی کی حالت دیکھ کر سب حیران تھے۔ وہ روتے اور چلاتے ہوئے آگ بجھانے کی سر توڑ کوشش کر رہا تھا۔ لوگ ایسی وفاداری پر عش عش کر اٹھے۔ کسی نے پوچھ لیا منشی صاحب اس درجہ دلبرداشتہ کیوں ہیں تو اس نے آنسو صاف کرتے ہوئے جواب دیا میری ڈائری بھی خاکستر ہو گئی۔ کسی نے کہا چودھری صاحب نے پہلے بھی لے کے دی تھی اب بھی لے دیں گے۔ اس پر منشی صاحب مزید دکھ سے بولے اس ڈائری میں میرا پانچ سو نوٹ بھی رکھا تھا۔ یہ لطیفہ ہے یا سچا واقعہ‘ وزیر دفاع احمد مختار کے اس بیان پر رہ رہ کر یاد آرہا ہے۔ جس میں انہوں نے فرمایا کہ نیٹو کنٹینرز کی وجہ سے ہماری سڑکیں خراب ہوئیں۔ اب مفت میں سپلائی بحال نہیں کریں گے۔ گویا نیٹو کی سپلائی اس لئے روکی گئی ہے کہ اس کے کنٹینر ہماری سڑکوں کو تباہ و برباد کر رہے تھے۔ 
امریکہ نیٹو سپلائی کی بندش کے باعث افغانستان سے جنگ سمیٹنے پر مجبور ہے۔ وہ بندش کے خاتمے کے لئے کسی بھی حد تک جا سکتا اور کوئی بھی قیمت ادا کرنے پر تیار ہے۔ نیٹو حملوں کے دوسرے تیسرے روز ہی وزیر دفاع نے کہا تھا امریکہ کے معافی مانگنے تک نیٹو سپلائی بحال نہیں ہو گی اسی روز وزیر خارجہ حنا ربانی کھر کا بیان تھا کہ معافی کے باوجود سپلائی بحال نہیں ہو گی یہی فوج اور قوم کا متفقہ فیصلہ ہے۔ امریکہ نے پاکستانی عسکری و سیاسی قیادت کے سخت موقف کے باعث شمسی ائر بیس خالی کیا۔ اب وہ کنٹینرز میں لدا سامان واپس لے جانے کی تیاری کر رہا ہے۔ ایسے موقع پر وزیر دفاع کی طرف سے موقف میں نرمی کا عندیہ‘ عسکری و سیاسی قیادت کے لئے پریشانی کا سبب بن سکتا ہے۔
پاکستان میں کابینہ کی تعداد سو تک تھی۔ اس میں بیٹھے بیٹھے سو جانے والے وزراءبھی تھے۔ ایک آدھ آج نسبتاً چھوٹی کابینہ میں بھی موجود ہے لیکن جس قسم کی خوابیدگی کا اظہار وزیر دفاع کی طرف سے دیکھنے میں آتا رہا ہے ایسا خوابیدہ شاید اور کوئی نہیں ہے۔ موصوف ایسے وزیر دفاع ہیں جن کو دفاعی امور میں درک تو حاصل نہیں سوائے فوجی بوٹوں کے! لیکن دوسرے معاملات میں ٹانگ ضرور اڑاتے ہیں۔ موصوف بھارت کو پسندیدہ ملک قرار دلانے میں بھی بے چین تھے۔ یاد کیجئے ان تواتر کے ساتھ بیانات ریکارڈ پر موجود ہیں جن میں وزیر مذکور نے کہا کہ پاکستان کے پاس ڈرون گرانے کی صلاحیت نہیں۔ جبکہ جن کا کام ملک کی فضائی سرحدوں کی حفاظت ہے وہ قوم اور پارلیمنٹ کو یقین دلا چکے ہیں کہ پاک فضائیہ ملکی فضا میں داخل ہونے والا کوئی طیارہ مار گرانے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ پاکستان کے پاس ایران کے مقابلے میں جدید دفاعی نظام موجود ہے۔ ایران نے تین ڈرون مار گرائے اور ایک کو بحفاظت اتار لیا۔ نیٹو حملوں کے بعد عسکری قیادت پاکستان کی فضا میں داخل ہونے والا ہر ڈرون مار گرانے کا اعلان کیا۔ اس کے بعد سے کسی ڈرون نے پاکستان کا رخ نہیں کیا۔ اوٹ پٹانگ بیان دے کر وزیر دفاع نے قوم کو بددل کرنے کی کوشش کی اس کا آخر کیا مقصد ہے۔ 
وزارت دفاع چار سال سے ان کے پاس ہے شاید ان کو اپنے وزیر ہونے کا یقین نہیں آرہا۔ ان کی اسی سوچ کا اندازہ کرکے ان کے ماتحت بھی ان کو وزیر نہیں سمجھتے۔ سیکرٹری دفاع ان سے بالا بالا عدالت جا کر جواب داخل کر آئے۔ اگر وزیر صاحب کی ایسی کارکردگی ہے تو بہتر ہے کہ وہ ملکی دفاع کا بیڑا غرق اور عوام کو مایوس کرنے کے بجائے اپنے پاپوش گری کے کاروبار کو چمکانے کے لئے پوری توجہ دیں۔ انہیں وہی کام اور کاروبار کرنا چاہئے جس کے لئے فٹ ہیں۔ اپنے بیانات اقوال و افعال سے تو ثابت کر رہے ہیں کہ وہ ایک آزاد خود مختار اور ایٹمی ملک کی وزارت دفاع کے لئے مس فٹ ہیں۔