About Me

My photo
Fazal Hussain Awan colomnist Daily NAWAI WAQT awan368@yahoo.com 03334215368

Sunday, January 15, 2012

سپر صرف ریاست

 اتوار ، 15 جنوری ، 2012

سپر صرف ریاست!
فضل حسین اعوان ـ 18 گھنٹے 31 منٹ پہلے شائع کی گئی
صدر آصف علی زرداری اور وزیراعظم یوسف رضا گیلانی سمیت کچھ دیگر بھی پارلیمنٹ کی بالادستی اور سپرمیسی کی بات کرتے ہیں۔ وزیراعظم گیلانی تو سب سے زیادہ اور بڑھ چڑھ کر۔ یہ استدلال انہوں نے کہاں سے لیا؟ اس کا کوئی تذکرہ نہیں۔ بالادستی اور سپرمیسی کی بات کی جائے تو بلاشبہ ریاست یعنی مملکت خداداد پاکستان بالادست اور سپر ہے۔ کیا اس سے صدر وزیراعظم دیگران اور انکار فرمائیں گے؟ عدلیہ‘ انتظامیہ اور مقننہ (پارلمینٹ) کو ریاست کے ستون قرار دیا گیا ہے۔ جن کا سٹیٹس برابر ہے۔ ہر ادارے کا اپنا تقدس اور احترام ہے۔ ریاست کا سب سے بڑھ کر ہے۔ موجودہ پارلیمنٹ کتنی محترم‘ معتبر اور مقدس ہے اس کا اندازہ اس کے تخلیقی عمل سے کیا ہے۔ سپریم کورٹ کے سامنے لائے گئے شواہد جن سے حکمران پارٹی بھی متفق ہے کہ 2008ءکے انتخابات جن لسٹوں پر ہوئے ان میں 3 کروڑ 80 لاکھ ووٹر جعلی تھے۔ جوکل ووٹوں کا 40 فیصد ہے۔ اگلی پارلیمنٹ میں بہلا بھی قانونی طورپر پارلیمنٹ کا حصہ بننے کے حقدار ہو سکتے ہے۔ 2002ءاور 2008ءکے الیکشن میں گریجوایشن کی پابندی تھی۔ اس کے باوجود ان پڑھوں کے پارلیمنٹ میں داخلے کی راہیں مسدود نہ کی جا سکیں۔ جعلی ڈگریوں والے چہرے ہنوز بے نقاب ہو رہے ہیں۔ بہرحال پارلیمنٹ پارلیمنٹ ہوتی ہے۔ گریجوایٹس کا مجموعہ ہو یا نان گریجوایشن کا جمگھٹا‘ ایک طرف ہم تعلیمی پسماندگی اور انتہائی کم سطح کی شرح خواندگی کا رونا روتے ہیں تو دوسری طرف پارلیمنٹ کو گھوڑے گدھے کے فرق کے بغیر بھر دینا چاہتے ہیں۔ گریجوایشن کی شرط کے بعد کئی سیاستدانوں نے گریجوایشن کی۔ گریجوایشن کی شرط ختم ہونے کے بعد شاید اس راستے پر چلنے کے خواہشمندوں نے بوری بستہ اور کتابیں سمیٹ لی ہوں۔ اب سی ایس ایس‘ آئی ایس ایس بی اور ملازمتوں کے لئے تعلیمی شرط موقوف کرکے ذاتی اہلیت کو معیار اور میرٹ قرار دے دینا چاہئے تاکہ سیلف ایجوکیٹڈ لوگوں کو بھی قومی کی خدمت کا موقع ملے۔ میاں نواز اپنے دور میں اکیڈمی ادبیات کی سربراہی ایک سیلف ایجوکیٹڈ کے سپرد کرکے یہ تجربہ فرما چکے ہیں۔
آئین میں ہر ادارے کے کردار‘ اختیارات اور ذمہ داریوں کا تعین کر دیا گیا ہے۔ پاک فوج ملک کی سرحدوں کی نگہبان ہے لیکن یہ عدلیہ‘ انتظامیہ اور مقننہ کی طرح آزاد اور خود مختار نہیں۔ یہ انتظامیہ کے ماتحت ادارہ ہے جس کے آئینی سربراہ وزیراعظم ہیں۔ البتہ فوج کی طاقت سب پر عیاں ہے۔ اگر وہ سیاسی معاملات میں مداخلت کرتی رہی ہے تو یہ انتظامیہ کی کمزوری تھی۔ آج پھر صورت حال ایسی نظر آرہی ہے کہ جیسے فوج اور حکومت آمنے سامنے ہوں۔ اس تاثر کو حکومتی اقدامات تقویت پہنچاتے ہیں جبکہ فوج بار بار تردید کر رہی ہے۔ وزیراعظم گیلانی اپنے اس ماتحت ادارے کے خلاف ایک بار نہیں کئی بار الزامات لگا کر جگ ہنسائی کا باعث بن چکے ہیں۔ کبھی پارلیمنٹ میں فوج کو رگیدا تو کبھی چین کے اخبار پیپلز ڈیلی کو بلا کر جرنیلوں کی خبر لی۔ اس پر فوجی ترجمان کا بیان بھی لائق تحسین نہیں۔ وہ بھی اپنی حدود سے تجاوز کرتے نظر آئے۔ حکومت نے ایک طرف عدلیہ کو آگے لگا رکھا ہے تو دوسری طرف اپنے ماتحت ادارے فوج سے بھی شاکی ہے۔ گذشتہ روز کا اجلاس وزیراعظم پر اعتماد کی قرارداد لانے کے لئے بلایا گیا۔ اتحادیوں نے حمایت سے انکار کیا تو اسفند یار ولی سے ایک قرارداد پیش کروا دی۔ اعتماد کی قرارداد لائی جاتی تو مطلوبہ اکثریت تو ضرور وزیراعظم گیلانی کے ساتھ ہوتی۔ ان کو بہت بعد میں یاد آیا کہ وہ تو متفقہ طور پر منتخب ہوئے تھے۔ کہاں 342 ارکان کا اعتماد اور کہاں زیادہ سے زیادہ دو سو کا۔ اخلاقی طور پر یہ مجوزہ قرارداد ان کی حمایت میں نہیں مخالفت میں جاتی۔ اب جو کل سوموار کو قرار لائی جا رہی ہے۔ اس کا مرکزی نکتہ ہے ”تمام اداروں کو آئینی حدود میں رہنا چاہئے۔“ روئے سخن فوج کی جانب ہے۔ حکومت اپنے ماتحت ادارے کو پارلیمنٹ میں قرارداد کے ذریعے آئین کی حدود میں رہنے کا درس دے تو اس سے زیادہ حکومت کی نااہلی اور بے وقعتی ہو ہی نہیں سکتی۔ حکومت خود اگر آئین کے دائرہ کار میں رہ کر فرائض انجام دے اور اختیارات استعمال کرے تو تمام معاملات ایک آدھ روز میں سیٹل ہو سکتے ہیں۔ حکومت جمہوریت جمہوریت کا ورد کرتی ہے۔ جمہوریت صرف ایک پارٹی کا بادشاہت کا نام نہیں۔ قومی سلامتی اور خودمختاری کا تحفظ اور عوامی مسائل کا حل بھی اس کی ذمہ داری ہے۔ امریکہ نے حکومت اور فوج کے مابین چپقلش کا فائدہ اٹھا کر پھر سے ڈرون حملے شروع کر دئیے۔ اب دیکھنا یہ بھی ہے کہ سیاسی قیادت سارا ڈرامہ نیٹو سپلائی کی بحالی اور امریکہ سے تعلقات سلالہ چیک پوسٹ پر حملہ سے قبل کی سطح پر تو نہیں لانا چاہتی۔ جس کی راہ میں فوج مزاحم نظر آتی ہے؟ موجودہ جمہوریت میں عوام کو جو کچھ دیا سب کے سامنے ہے۔ حکومت چاہتی ہے کہ کسان جمہوریت بوئیں‘ صنعت کار جمہوریت بنائیں‘ عوام جمہوریت کھائیں اور حکمران اندرونی اور بیرونی بنک ان کے خون پسینے کی کمائی سے بھرتے ہوئے چین کی بنسی بجاتے رہےں۔ یہ چاہتے ہیں عدلیہ بجائے این آر او کے فیصلے پر عملدرآمد کیسے کرنا ہے۔ یہ فیصلے ان کی پارٹی کرے۔ جرنیل ریاست کے تحفظ اور آئین کی بالادستی کے بجائے عدالت میں جاکر حکمرانوں کی خواہش کی تکمیل کرتے ہوئے حقائق کو چھپائیں اور جھوٹے بیانات داخل کرائیں۔ کیا یہی پارلیمنٹ کی بالادستی ہے جس کا درس حکمران صبح و شام دیتے ہیں؟


No comments:

Post a Comment