اتوار ، 22 جنوری ، 2012
استثنیٰ اول۔ این آر او فیصلہ آخر!
فضل حسین اعوان ـ 17 گھنٹے 31 منٹ پہلے شائع کی گئی
قومی مفاہمتی آرڈی ننس(NRO) کی رام کہانی،صدر جنرل پرویز مشرف کی طرف سے7اکتوبر2007 کو اجرا سے شروع ہوئی۔یہ آرڈی ننس مشرف بینظیر مفاہمت کی بنا پر جاری ہوا۔اس کے اجرا کے بعد محترمہ نے اسے کالا قانون قرار دیا جبکہ محترمہ کے قتل کے بعد ان کے جاںنشینوں نے اسے حِرزِ جان بناتے ہوئے الیکشن لڑا اور اقتدار کی منزل حاصل کی۔اس کو قانون کی شکل دینے کا وقت آیا تو اقتدار نشینوں کی راہ میں ان کے اتحادی جن پر اُس وقت اقتدار کا تکیہ تھاسنگِ گراں بن کر کھڑے ہوگئے۔ یوں اسے عدلیہ میں لایا گیا جس نے اسے کالعدم قرار دیا۔ حکومت نے اس پر نظر ثانی کی اپیل کی وہ بھی مسترد ہوگئی۔ عدالت نے فیصلے پر عملدرآمد کیلئے 10جنوری 2012 تک حتمی مدت اور مہلت کا اعلان کیا اس کے باوجود این آراو کیس پر فیصلہ عملدرآمد کا منتظر رہا۔ این آر او سے 8 ہزار41 لوگوں نے استفادہ کیا۔ کھربوں روپے معاف ہوئے۔قاتلوں، لوٹ مار اور مار دھاڑ کرنیوالوں کے کیس بند ہوئے۔ کئی سزا یافتگان جیلوں سے رہا ہوئے ان میں بعض کو اعلیٰ مناصب سے بھی سرفراز کردیا گیا۔این آر او کالعدم ہونے سے ہرچیز ریورس ہونی چاہئے تھی لیکن این آر او کے حوالے سے 7اکتوبر 2007 کو یعنی سوا چار سال قبل جو اینٹ جہاں تھی وہیں ہے۔ کہاجاتا ہے کہ این آر او کے ذریعے 932 ارب روپے معاف کرائے گئے۔یہ مالیت تقریباً کیری لوگر بل امداد سے تقریباً6گنا زیادہ ہے۔یہ رقم خزانے میں منتقل کرنے کی کوئی کوشش نہیں کی گئی۔عدالت کے دباﺅ پر اگر کسی سزا یافتہ کو پکڑ کر سزا مکمل کرنے کیلئے جیل ڈالا گیا تو صدر صاحب نے اس ایک فردکی رہائی کیلئے اتنی مدت کے تمام قیدیوں کی رہائی کے احکامات جاری کردئیے۔
این آر او کو کالعدم قرار دینے کا فیصلہ 16 دسمبر 2009 کو ہوا۔ اس کے بعد سے حکومت فیصلے کے اونٹ کو اپنے مفاد کی کروٹ بٹھانے کیلئے ہمہ تن کوشاں ہے۔ اس کی سوچ کی بھٹکی ہوئی سوئی اس ایک نقطے ” سوئس حکام کو خط نہیں لکھیں گے“ پر ایسی اٹکی کہ سب کچھ داﺅ پر لگا نظر آتا ہے لیکن سوئی وہیں کی وہیں۔جب عدالت عظمیٰ نے سوئس حکام کو خط نہ لکھنے کی مزاحمت پر وزیراعظم کو توہینِ عدالت کا نوٹس جاری کیا تو وہ عدالت میں پیش ہوگئے۔ وہ روز مرہ زندگی میں جس تضاد بیانی کے جوہر دکھاتے اور جگ ہنسائی کا باعث بنتے ہیں لوگوں کو یقین تھا کہ اگر ان کو گھنٹہ سوا گھنٹہ بولنے کا موقع دیا گیا تو وہ بہت کچھ ایسا کہہ دیں گے جو خود اپنے اور اپنی حکومت کیلئے کئی مسائل اور مشکلات کھڑی کردے گا۔وہ کم بولے تاہم وہاں صدر کے استثنیٰ کا معاملہ کھڑا کرآئے۔ استثنیٰ کی بات انہوں نے نادانستہ کی یا چالاکی سے۔اس کا پتہ اگلی پیشی یا اس کے بعد چلے گا تاہم ان کے نئے وکیل کہہ رہے ہیں کہ ان کو استثنیٰ کے حوالے سے دلائل دینے پر مجبور کیا۔ جو شخص اپنے ضمیر اور اصولوں کے برعکس فیس ماری یا کسی سے یاری کی خاطر بہت کچھ کہہ سکتا ہے وہ بوقت ضرورت استثنیٰ کو جائز اور ناجائز قرار دلانے کیلئے دلائل پہ دلائل بھی لا سکتا ہے۔
وزیراعظم گیلانی نے اپنے تازہ ترین بیان میں کہا ہے کہ صدارتی استثنیٰ پرعدالتی فیصلے کا احترام کریں گے۔ احترام تو حکومت ہرفیصلے کا کرتی ہے۔ سپریم کورٹ نے دیدار شاہ کی بطور چیئر مین نیب تقرری منسوخ کی تو پارٹی پلیٹ فارم پر سندھ میں ہڑتال کی کال دے کر جلاﺅ گھیراﺅ کیا گیا۔ یہ عدلیہ کے احترام کی چھوٹی سی مثال ہے جو گیلانی حکومت کے دوران پیش کی گئی۔ آپ احترام کریں نہ کریں۔ عمل ضرور کریں۔ یہی عدلیہ اور قوم چاہتی ہے۔
آئین سازی کیلئے دو تہائی اکثریت کا ہونا لازم ہے۔73 میں آئین اتفاقِ رائے سے منظور ہوا۔آئین کی منظوری کے بعد آئین ساز لوگ اس کے تابع ہوجاتے ہیں۔ پھر آئین ساز یہ نہیں کہہ سکتے کہ آئین کی تشریح بھی ہم خود کریں گے جبکہ سپریم کورٹ کا صرف ایک جج تشریح کرنے کا اختیار رکھتا ہے، اب استثنیٰ کے حوالے سے معاملہ سپریم کورٹ میں ہے ۔ اب کچھ آوازیں اُٹھ رہی ہیں کہ عدلیہ سے آئین اور قانون کی تشریح کا اختیار واپس لیاجائے۔ایسا ہوا تو اس مجوزہ قانون کی تشریح کیلئے بھی کوئی پارٹی یا کوئی شخصیت عدلیہ سے ہی رجوع کرے گی۔ حرف آخر یہ کہ معاملہ استثنیٰ کی طرف لڑھکا کے حکومتی وکیل نے دو ہفتے کا وقت لے لیا یہی حکومت کا مقصد و مدعا تھا۔اگلی پیشی پر شاید استثنیٰ کے فیصلے کیلئے کسی مزید لارجر بنچ کی تشکیل کی کوشش کی جائے۔ حکومت کا اصل مدعا استثنیٰ غیر استثنیٰ نہیں جب تک اقتدار میں ہیں کیس کو لٹکائے رکھنا ہے جس میں وہ کامیاب جارہی ہے اس کے قانونی مدار المہام اسی ایک نقطے پر اپنی پوری توجہ مبذول کئے ہوئے ہیں۔”استثنیٰ“ میں الجھا کر حکمران این آر او فیصلے اور معاملے کو پسِ پشت ڈلوانے میں کامیاب تو نہیں ہو گئے؟
No comments:
Post a Comment