About Me

My photo
Fazal Hussain Awan colomnist Daily NAWAI WAQT awan368@yahoo.com 03334215368

Friday, January 6, 2012

توہینِ عدالت.... شوقِ شہادت


جمعۃالمبارک ، 06 جنوری ، 2012
توہینِ عدالت.... شوقِ شہادت
فضل حسین اعوان




این آر او کیس اپنے منطقی انجام کو پہنچتا دکھائی دے رہا ہے۔حکومت اپنے آغاز کے پہلے روز سے اس کا کریا کرم کرنے میں سرگرداں رہی لیکن دھیرے دھیرے یہ حکمرانوں کے گلے پڑتا گیا۔ اب یہ سانپ کے منہ میں چھچھوندر کی مانند ہے جسے نگلتے ہوئے پائے رفتن نہ اگلتے ہوئے جائے ماندن۔فیصلے کے بعد حکومت نے دو سال سے زائد کا عرصہ گزار لیا۔کبھی اسے دفنانے کی کوشش کی تو کبھی لٹکانے کی۔آج ایک طرف سپریم کورٹ اس فیصلے پر عمل کرانے کیلئے فعال نظر آتی ہے تو دوسری طرف حکومت خود کو شہیدوں کی صف میں شامل کرانے کیلئے بے کل دکھائی دیتی ہے۔ سپریم کورٹ فیصلے پر عملدرآمد کیلئے حکومت کو 6 روز کی مہلت دی جس میں اب چار دن بچے ہیں لیکن دو سال کی طرح دو دن میں بھی حکومت کی طرف سے فیصلے پر عملدرآمد کا کوئی ارادہ نظر نہیں آیا۔ حکومت کبھی فوج پر جھپٹتی ہے کبھی عدلیہ پر لپکتی ہے عدالتی احکامات پر عمل تو درکنار فیصلوں کی تضحیک کرتے ہوئے ان کے خلاف ہڑتالیں اور جلاﺅ گھیراﺅ تک کیاجاتا ہے۔یہی عدلیہ ہے جس کی بحالی کیلئے خون کا پہلا قطرہ بھی پیپلز پارٹی کے رہنما لطیف خان کھوسہ کے بے بال و پر سر سے بہا تھا۔ زرداری صاحب نے حسرت ظاہر کی ہے کہ کاش عدلیہ بھی ان کے ماتحت ہوتی۔ یہ خواہش شاید جسٹس عبدالحمید ڈوگر کی ماتحتی کا دور یاد کرکے عود کر آتی ہے۔آج بابر اعوان، خورشید، فردوس عاشق اعوان اور قمرالزمان کائرہ توہین عدالت کیس میں کٹہرے میں کھڑے ہیں۔ ڈوگر کےخلاف توہین عدالت کی کارروائی شروع ہوئی تھی وہ سیانے اور قانون کی طاقت کو سمجھتے تھے۔اس لئے معافی مانگ کر جان بچا کر چلے گئے۔ آج توہین عدالت کا سامنا کرنے والے بھی کم سیانے، دانش ور اور قانون دا ن نہیں ہیں لیکن یہ اپنے پیچھے اقتدار کی طاقت کے خناس اور گھمنڈ میں مبتلا ہیں۔ ان کو عدلیہ پر آوازے کسنے کی جرات اس لئے ہوتی ہے کہ ان کے ساتھیوں پر شاید سپریم کورٹ نے توہین عدالت کیس میں ہاتھ ہولا رکھا تھا۔ ان جانثارانِ زرداری و گیلانی کے ساتھ وہی کچھ ہونیوالا ہے جو علمبرداران نواز شریف، میاں منیر، طارق عزیز اور چودھری اختر رسول کے ساتھ نواز شریف پر صدقے واری جاتے ہوئے جسٹس سجاد علی شاہ کی عدالت الٹانے پر ہوا تھا۔ ان پر پارلیمنٹ کے دروازے بند ہیں۔ وہ لبِ پارلیمنٹ اندر کا نظارہ کرسکتے ہیں ہزار کوشش،لاکھ خواہش کے باوجود اندر نہیں جاسکتے۔ بابر اعوان سے سپریم کورٹ نے ”نوٹس ملیا تے ککھ نہ ہلیا“ الاپنے کا جواب یہ کہتے ہوئے مانگ لیا کہ ہمارا لائسنس اور ہماری بے عزتی یعنی ہماری بلی ہمیں ہی میاﺅں، بابر اعوان سے عدالت نے 9جنوری کو جواب مانگا ہے دیکھیے۔اس دوران شیر بابر رہتا ہے یا بلی بن جاتا ہے۔ بھٹو نے تاریخ کے ہاتھوں مرنے کے بجائے فوج کے ہاتھوں مرنے کو ترجیح دی تھی۔ان کے جانشین بھی کوئی ایسا طریقہ ڈھونڈیں عدلیہ کے ہاتھوں سیاسی موت ہوئی تو یہ شہادت نہیں ” کچلا دے کر مارے جانے “کی موت ہوگی۔این آر او فیصلے پر 6دن میں بھی عملدرآمد نہ کرنے سے وزیراعظم، اٹارنی جنرل، وزیر قانون، سیکرٹری قانون اور شاید کچھ دیگر پر بھی توہین عدالت لگے گی۔ آئین کے آرٹیکل62 کے تحت توہین عدالت کے مرتکب ہونیوالے اپنے عہدوں اور پارلیمنٹ کی نشستوں سے فارغ اور ان کے لئے پارلیمنٹ کے دروازے ہمیشہ کیلئے بند ہوجائیں گے ۔شاید ان کا گرو بھی یہی چاہتا ہے۔سرکاری، درباری توہین عدالت کی زد میں آتے ہیں تو یہ کہ اچنبھے کی بات نہیں اس سے قبل کئی صاحبانِ اقتدار کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی ہوئی اور کئی کو سزا بھی سنائی گئی قارئین کی دلچسپی کیلئے میڈیا میں آنے والے حقائق پر مختصراً نظر ڈالتے ہیں۔ نواز شریف کو 17نومبر 1997ءکو اس وقت کے چیف جسٹس پاکستان جسٹس سجاد شاہ کی جانب سے نوٹس جاری کئے جانے پر خود سپریم کورٹ کے سامنے پیش ہونا پڑا تھا۔ جسٹس سجاد نے 5سینئر ججوں کو سپریم کورٹ میں ترقی دینے کی تجویز دی تھی تاہم نواز شریف کی حکومت نے ایک نوٹیفکیشن جاری کرکے اعلیٰ عدلیہ میں ججوں کی تعداد17سے کم کرکے 12 کردی تھی۔ یہاں سے جسٹس سجاد اور نواز شریف کے درمیان اختلافات شروع ہوئے اور نتیجتاً چیف جسٹس آف پاکستان سجاد علی شاہ کی عدالت الٹا دی گئی اور بالآخر ان کے ساتھ میاں نواز شریف کی وزارت عظمیٰ سمیت پورے جمہوری سسٹم کو بھی جانا پڑا۔ سابق امریکی صدر بل کلنٹن کو اپریل 1994ءمیں مونیکا لیونسکی کے ساتھ تعلقات سے متعلق بین الاقوامی طور پر جھوٹا بیان دینے پر ایک وفاقی جج کی جانب سے توہین عدالت کا مرتکب ٹھہرایا گیا تھا۔ بھارتی وزیر ٹرانسپورٹ سواروپ سنگھ نائیک کو 2006ءمیں توہین عدالت کے الزام میں ایک ماہ کیلئے جیل بھیج دیا گیا۔ اسی دوران مہاراشٹر کے ایڈیشنل چیف سیکرٹری اشوک کھوٹ کو ایک ماہ کیلئے وزیر ٹرانسپورٹ کے ساتھ جیل بھیجا گیا تھا۔مذکورہ وزیر اور بیورو کریٹ نے ساملز کو عدالتی احکامات کے برخلاف لائسنس جاری کیا تھا۔1991ءمیں اس وقت کے برطانوی سیکرٹری داخلہ کینیتھ بیکر کو توہین عدالت کا مرتکب ٹھہرایا گیا۔ انہوں نے عدالتی احکامات تسلیم نہ کئے تھے اور ایک شخص کوزیر التواءکیس کے باوجود زائر ڈی پورٹ کردیا تھا۔




No comments:

Post a Comment