About Me

My photo
Fazal Hussain Awan colomnist Daily NAWAI WAQT awan368@yahoo.com 03334215368

Sunday, January 1, 2012

مس فٹ

 اتوار ، 01 جنوری ، 2012


مس فٹ
فضل حسین اعوان
گاوں میں بڑے چودھری کے محل نما گھر کو آگ لگی۔ آناً فاناً پورا گھر اس کی لپیٹ میں آگیا۔ کوئی مٹکا اٹھائے آگ بجھانے کی کوشش کر رہا تھا کوئی بالٹی‘ لوٹے اور گلاس سے پانی انڈیل رہا تھا۔ اس سے آگ کیسے بجھتی! ہر کوئی چودھری کی جلتی جائیداد پر بظاہر افسردہ تھا لیکن چودھری کے منشی کی حالت دیکھ کر سب حیران تھے۔ وہ روتے اور چلاتے ہوئے آگ بجھانے کی سر توڑ کوشش کر رہا تھا۔ لوگ ایسی وفاداری پر عش عش کر اٹھے۔ کسی نے پوچھ لیا منشی صاحب اس درجہ دلبرداشتہ کیوں ہیں تو اس نے آنسو صاف کرتے ہوئے جواب دیا میری ڈائری بھی خاکستر ہو گئی۔ کسی نے کہا چودھری صاحب نے پہلے بھی لے کے دی تھی اب بھی لے دیں گے۔ اس پر منشی صاحب مزید دکھ سے بولے اس ڈائری میں میرا پانچ سو نوٹ بھی رکھا تھا۔ یہ لطیفہ ہے یا سچا واقعہ‘ وزیر دفاع احمد مختار کے اس بیان پر رہ رہ کر یاد آرہا ہے۔ جس میں انہوں نے فرمایا کہ نیٹو کنٹینرز کی وجہ سے ہماری سڑکیں خراب ہوئیں۔ اب مفت میں سپلائی بحال نہیں کریں گے۔ گویا نیٹو کی سپلائی اس لئے روکی گئی ہے کہ اس کے کنٹینر ہماری سڑکوں کو تباہ و برباد کر رہے تھے۔ 
امریکہ نیٹو سپلائی کی بندش کے باعث افغانستان سے جنگ سمیٹنے پر مجبور ہے۔ وہ بندش کے خاتمے کے لئے کسی بھی حد تک جا سکتا اور کوئی بھی قیمت ادا کرنے پر تیار ہے۔ نیٹو حملوں کے دوسرے تیسرے روز ہی وزیر دفاع نے کہا تھا امریکہ کے معافی مانگنے تک نیٹو سپلائی بحال نہیں ہو گی اسی روز وزیر خارجہ حنا ربانی کھر کا بیان تھا کہ معافی کے باوجود سپلائی بحال نہیں ہو گی یہی فوج اور قوم کا متفقہ فیصلہ ہے۔ امریکہ نے پاکستانی عسکری و سیاسی قیادت کے سخت موقف کے باعث شمسی ائر بیس خالی کیا۔ اب وہ کنٹینرز میں لدا سامان واپس لے جانے کی تیاری کر رہا ہے۔ ایسے موقع پر وزیر دفاع کی طرف سے موقف میں نرمی کا عندیہ‘ عسکری و سیاسی قیادت کے لئے پریشانی کا سبب بن سکتا ہے۔
پاکستان میں کابینہ کی تعداد سو تک تھی۔ اس میں بیٹھے بیٹھے سو جانے والے وزراءبھی تھے۔ ایک آدھ آج نسبتاً چھوٹی کابینہ میں بھی موجود ہے لیکن جس قسم کی خوابیدگی کا اظہار وزیر دفاع کی طرف سے دیکھنے میں آتا رہا ہے ایسا خوابیدہ شاید اور کوئی نہیں ہے۔ موصوف ایسے وزیر دفاع ہیں جن کو دفاعی امور میں درک تو حاصل نہیں سوائے فوجی بوٹوں کے! لیکن دوسرے معاملات میں ٹانگ ضرور اڑاتے ہیں۔ موصوف بھارت کو پسندیدہ ملک قرار دلانے میں بھی بے چین تھے۔ یاد کیجئے ان تواتر کے ساتھ بیانات ریکارڈ پر موجود ہیں جن میں وزیر مذکور نے کہا کہ پاکستان کے پاس ڈرون گرانے کی صلاحیت نہیں۔ جبکہ جن کا کام ملک کی فضائی سرحدوں کی حفاظت ہے وہ قوم اور پارلیمنٹ کو یقین دلا چکے ہیں کہ پاک فضائیہ ملکی فضا میں داخل ہونے والا کوئی طیارہ مار گرانے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ پاکستان کے پاس ایران کے مقابلے میں جدید دفاعی نظام موجود ہے۔ ایران نے تین ڈرون مار گرائے اور ایک کو بحفاظت اتار لیا۔ نیٹو حملوں کے بعد عسکری قیادت پاکستان کی فضا میں داخل ہونے والا ہر ڈرون مار گرانے کا اعلان کیا۔ اس کے بعد سے کسی ڈرون نے پاکستان کا رخ نہیں کیا۔ اوٹ پٹانگ بیان دے کر وزیر دفاع نے قوم کو بددل کرنے کی کوشش کی اس کا آخر کیا مقصد ہے۔ 
وزارت دفاع چار سال سے ان کے پاس ہے شاید ان کو اپنے وزیر ہونے کا یقین نہیں آرہا۔ ان کی اسی سوچ کا اندازہ کرکے ان کے ماتحت بھی ان کو وزیر نہیں سمجھتے۔ سیکرٹری دفاع ان سے بالا بالا عدالت جا کر جواب داخل کر آئے۔ اگر وزیر صاحب کی ایسی کارکردگی ہے تو بہتر ہے کہ وہ ملکی دفاع کا بیڑا غرق اور عوام کو مایوس کرنے کے بجائے اپنے پاپوش گری کے کاروبار کو چمکانے کے لئے پوری توجہ دیں۔ انہیں وہی کام اور کاروبار کرنا چاہئے جس کے لئے فٹ ہیں۔ اپنے بیانات اقوال و افعال سے تو ثابت کر رہے ہیں کہ وہ ایک آزاد خود مختار اور ایٹمی ملک کی وزارت دفاع کے لئے مس فٹ ہیں۔

No comments:

Post a Comment