اتوار ، 08 جنوری ، 2012
انقلاب کی حسرت! تیاری؟
فضل حسین اعوان ـ
اسلامی دنیا میں بڑی تیزی سے انقلابی تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں۔ مغرب کے تراشیدہ فرعونوں کے بت پاش پاش ہو رہے ہیں۔ یہ انقلاب یہ تبدیلی مسلمانوں کے ہاتھ پہ ہاتھ دھرے رکھنے سے نہیں آرہی۔ ہر انقلاب‘ ہر تبدیلی کے پیچھے ایک جہد مسلسل ہے۔ قربانیوں کا ایک لامتناہی سلسلہ ہے۔ ثابت قدمی و مستقل مزاجی کی داستان لازوال ہے۔ اسلامی دنیا میں رونما ہونے والی تبدیلیاں ہمارے لئے ایک درس ہے۔ اتحاد و اتفاق کا ایک پیغام ہے۔
مصر میں جو کچھ ہوا وہ تعجب خیز اور حیران کن نہیں یہ امام حسن البناءاور ان کے اخوان کی قربانیوں کا ثمر اور دست قدرت کا معجزہ ہے۔ آج مصر میں ہونے والے تین میں سے دو مراحل کے انتخابات کے بعد اخوان المسلمون نے دیگر اسلامی جماعتوں سے اتحاد کر کے اکثریت حاصل کر لی ہے۔ 10 جنوری کو آخری مرحلے میں بھی نتائج اخوان کے حق میں آنے کی توقع ہے۔ اخوان کی کامیابی پر اقتدار کے رسیا جرنیل دم بخود اور دلبرداشتہ ہیں۔ حتمی مرحلے کے نتائج سے قبل چلا اٹھے ”تمام اختیارات سول حکومت کو منتقل نہیں کئے جائیں گے“ کیا اخوان المسلمون 84 سال سے جانوں کے نذرانے جرنیلوں کی غلامی قبول کرنے کے لئے دیتے رہے؟ حسن البناءنے 1928ءمیں اخوان کی بنیاد رکھی۔ یہ وہ دور تھا جب مصر یورپ زدہ ہو رہا تھا۔ مسلمانوں کو فرعون کے دور کی طرف لوٹانے کی کوشش ہو رہی تھی۔ امام حسن البناءایسے اقدامات کی راہ میں سنگ گراں بن کر کھڑے ہو گئے بالآخران کو 12 فروری 1949ءکو وزیراعظم عبدالہادی سے ملاقات کے بعد گھر جاتے ہوئے ٹیکسی میں شہید کر دیا گیا تھا۔ اس کے واقعہ کے بعد مصر واقعی یورپ زدہ ہوا اور فرعون دور کی طرف لوٹ گیا۔ اخوان قربانیاں دیتے رہے اور عین 62 سال بعد موجودہ دور کا آخری فرعون مصر حسنی مبارک‘ 12 فروری 2011ءکو اپنے انجام کو پہنچا۔ وہ صدارتی محل سے اپنے گھر اور پھر مجرموں کے جنگلے میں منتقل ہوا۔ فرعونیت سے نجات کے لئے اخوان کو پون صدی سے زائد عرصہ تک قربانیاں دینا پڑیں۔
کہ خون صد ہزار انجم سے ہوتی ہے سحر پیدا
لیکن مصر میں پیدا ہونے والی سحر کو فوجی حکمرانوں نے پھر شب تاریک میں بدلنے کی کوشش کی ہے۔ لیکن نمودار ہوتی ہوئی سحر کو اجالوں میں ڈھلنے سے روکنا کسی کے بس کی بات نہیں۔ آخر مصری جرنیلوں کو اسی مقام پہ آنا پڑے گا جہاں ترک جرنیلوں کو وزیراعظم طیب اردگان اور صدر عبداللہ گل نے پہنچا دیا ہے۔ ترکی میں بھی اسلامی انقلاب کے لئے قربانیوں کا ایک سلسلہ جاری رہا۔ عدنان مندریس کو تختہ دار پر چڑھا دیا گیا تو نجم الدین اربکان سے تخت چھڑا لیا گیا۔ مراکش میں بھی آزادی کے بعد انتخابات کے ذریعے پہلی اسلامی حکومت تشکیل پا گئی ہے۔ یہاں بھی مذہبی جماعتوں کے اتحاد نے انتخابات میں کامیابی حاصل کی ہے۔
پاکستان میں جماعت اسلامی مصر کی اخوان المسلمون یا مصر میں اخوان المسلمون جماعت اسلامی ایک دوسری کا عکس ہیں۔ جماعت اسلامی بھی پاکستان میں اسلامی انقلاب کی بات کرتی ہے۔ کوشش بھی کرتی لیکن جہد مسلسل اور اپنے مشن کے لئے لازوال قربانیوں کی داستان رقم کرنے کے بارے میں شاید کچھ پیچھے ہے۔ منور حسن نے ایک جلسہ سے خطاب کے دوران کہا کہ انتخابات سے قبل انقلاب کی نوید سنائی دیتی ہے۔ ملک کی قسمت حجاب والی خواتین اور داڑھی والے حضرات بدلیں گے۔ یقیناً اسلامی دنیا میں داڑھی والے مرد اور حجاب والی خواتین نے انقلاب برپا کیا ہے۔ یہاں بھی یہ خواہش پائی جاتی ہے۔ لیکن انقلاب کے لئے اتحاد ناگزیر اور شرط اولین ہے۔ اسلامی جماعتوں نے 2002ءکے انتخابات میں اتحاد کیا تو اگلے الیکشن میں انقلاب کی دستک واضح سنائی دیتی تھی لیکن مجلس عمل کے قائدین کی بے عملی کی وجہ سے یہ مجلس منتشر ہو گئی۔ اگلے الیکشن میں مزید بکھری جماعت اسلامی الیکشن سے دور رہی۔ باقی جماعتیں الگ الگ ہو کر ہنوز اپنی بقا کی جنگ لڑ رہی ہیں۔ داڑھیوں والے انقلاب تب لائیں گے جب ان میں انقلاب لانے کی امنگ اور تڑپ پیدا ہونے کے ساتھ ساتھ اتحاد بھی ہو گا۔ ایک بندہ تو گھر کا دروازہ نہیں اکھاڑ سکتا۔ طاغوتی قوتوں کو کیسے للکارے گا۔ پاکستان میں انقلاب کے لئے جانوں کے نذرانوں کی نہیں خلوص‘ نیک نیتی اور ایثار کی ضرورت ہے۔ اپنی پارٹی کے لئے سیٹیں مانگنے کی بات نہ کی جائے دوسری پارٹیوں پر نچھاور کرنے کا جذبہ پیدا کیا جائے تو انقلاب کی منزل قریب آسکتی ہے۔ پاکستان میں اسلامی قوتوں کو متحد کرنے میں جماعت اسلامی کلیدی کردار ادا کر سکتی ہے لیکن یہ کبھی چھوٹی بڑی برائی کا فلسفہ لے کر ظالمو! قاضی آرہا کا نعرہ لگاتی ہے تو کبھی الیکشن کا بائیکاٹ کرکے اقتدار ناپسندید قوتوں کے حوالے کرنے میں دانستہ یا نادانستہ کردار ادا کرتی ہے۔ اسلامی ممالک میں داڑھی والوں اور حجاب والیوں نے انقلاب برپا کیا ہے تو ان کی طرح آپ بھی متحد ہو کر مضبوط ہونے کی کوشش کریں۔ قوم سیکولر قوتوں اور مغرب زدہ طاقتوں سے تنگ ہے اس کی نظریں کسی رہبر و رہنما کی طرف لگی ہیں۔ اسلامی انقلابی سامنے نہیں آئیں گے کوئی اور ترقی و خوشحالی کا جھانسہ دے کر قوم کو ساتھ ملا لے گا۔ ہمیں اسلامی انقلاب کی حسرت تو ہے، کیا اس کے لئے کوئی مناسب تیاری بھی کی ہے؟ تحریک پاکستان میں کردار کی بات تو جانے دیجئے؟ جواب منور حسن اوردیگر مذہبی جماعتوں کے قائدین پر لازم ہے۔
No comments:
Post a Comment