بدھ ، 04 جنوری ، 2012
امن کی چابی
فضل حسین اعوان ـ
مشرف دور کی معاشی صورت حال کا جائزہ لیاجائے تو وہ نہ صرف موجودہ دور بلکہ کئی گزشتہ ادوار سے بھی بہتر تھی۔مشرف دور میں بجلی کی قابلِ برداشت لوڈشیڈنگ ضرور ہوتی تھی گیس کئی کئی روز تک بند رکھنے کی روایت روٹی کپڑا اور مکان کی فراہمی کی دعویدار پارٹی نے قا ئم کی۔ آج ڈالر اور فی لیٹر پٹرول کی قیمت نوے روپے کو چھو رہی ہے۔ اُس دور میں ڈالر شروع سے آخر تک62 روپے تک رہا اور پٹرول کی قیمت 54 روپے سے نہ بڑھی۔ لوٹ مار، کرپشن اور اقربا پروری سے کوئی حکومت اور حکمران اپنا دامن نہیں بچا سکے مگر آج یوں نظر آتا ہے کہ ملک و قوم مکمل طورپر ٹھگوں کے ہتھے چڑھ گئے ہیں۔چینی ٹکے ٹوکری ہونے لگی تو حکومت میں موجود شوگر مافیا نے ملوں سے لاکھوں ٹن چینی مارکیٹ ریٹ پر خرید کر یوٹیلیٹی سٹورز پر42 روپے کلو فروخت کیلئے رکھوا دی۔سپریم کورٹ نے 45 روپے ریٹ مقرر کیا تو یہی شوگر مافیا سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف سدِ راہ بن گیا تھا۔آج کچھ لوگوں کو مشرف دورکی خوبیاں اور ان کی ملکی معاملات پر گرفت رہ رہ کر یاد آتی ہے لیکن انہوں نے اپنی دنیا،عاقبت اور سیاست پاکستان کو امریکہ کی جنگ کا حصہ بنا کر اور لال مسجد میں اپریشن سے معصوم بچیوں کو گولہ بارود سے جلا اور پگھلا کر خراب کرلی۔ خودکش حملوں بم دھماکوں اور پاک افواج کے اپریشنز میں سرکاری اعدادو شمار کے مطابق 35 ہزار سے زائد عام شہری اور5ہزار فوجی افسران و جوانان جاں بحق ہوچکے ہیں۔ امریکی ڈرون حملوں میں شہید ہونیوالے تین ہزار کے قریب معصوم بچے،خواتین اور بے گناہ افراد الگ ہیں۔ پاکستان میں خودکش حملوں کا آغاز لال مسجد اپریشن کے ردّعمل میں شروع ہوا آج اس کی وجوہات میں ڈرون حملوں کا ردّعمل بھی شامل ہے۔ وجوہات جو بھی ہوں خودکش حملوں سے کراچی لاہور،اسلام آباد، کوئٹہ اور پشاور سمیت ملک کا کوئی شہر گلی اور بازار محفوظ نہیں۔ہرسو بارود کی بو پھیلی، لاشوں کے ٹکڑے بکھرتے،زخمیوں کی آہ و بکا اور لواحقین کا نالہ وشیون نظر آتا ہے۔ طالبان مذاکرات کی بات کرتے ہیں تو رحمن ملک جیسے کرتا دھرتا آخری دہشت گرد کے خاتمے تک جنگ لڑنے کا اعلان کردیتے ہیں۔جنگ میں چونکہ قوم کے بچے مارے جارہے حکمرانوں کے نہیں۔ اس لئے امریکہ غلامی کی خوان کو امریکہ کی جنگ بڑے جوش ولولے سے لڑنے کی ترغیب دیتی ہے۔
قدرت کاملہ ہر چیز پر قادر ہے وہ چاہے تو اسلحہ بارود کے ڈھیروں پر بھی پھول کھلا سکتی ہے۔جس کا نظارہ ہم دیکھ رہے ہیں۔آج جلسے جلوسوں کا جیسے موسم شروع ہوگیا ہے۔بات میاں نواز شریف کے گوجرانوالہ والا جیسے پُر ہجوم جلسے کی ہو،گڑھی خدا بخش میں بینظیر بھٹو کی برسی پر لوگوں کے اژدہام کی یا عمران خان ،منور حسن کے کراچی کے لاکھوں افراد کے شرکا کی یا سنی تحریک اور مولانا سمیع الحق کی کانفرنسوں کی جن میں بھی لاکھوں افراد شریک ہوئے۔مولانا فضل الرحمن اور اسفند یارولی کے جلسے بھی شرکا کے لحاظ سے کسی سے کم نہیں تھے۔یہ ساری رونقیں میلے ٹھیلے اگر سج رہے ہیں تو اس کی وجہ لوگوں کے دلوں سے خودکش حملوں کا خوف ختم ہونا ہے۔ انہیں حملوں اور حملہ آوروںکی دھمکیوں کے باعث اسفند یارولی خان صاحب نے اپنا گھر بار اور شہر چھوڑ پھر ملک بھی چھوڑ گئے۔ اب وہ بلا جھجھک اپنے صوبے میں جلسے کر رہے ہیں۔خودکش حملوں کے باعث تو ہمارے شہر بازار،سینما گھر تفریحی پارکیں اور پبلک مقامات ویران ہورہے تھے حتیٰ کہ بعض تولوگ مساجد میں جانے سے کتراتے تھے آج ایسا کچھ بھی نہیں ہے۔کیوں؟ اس لئے کہ عسکریت پسندوں کا امریکہ کی جنگ سے علیحدگی کا واحد مطالبہ تھا۔26 نومبر کو نیٹو فورسز نے سلالہ چیک پر حملہ کرکے پاک فوج کے 26سپوتوں کو شہید کیا تو عسکری قیادت کی طرف سے نیٹو سپلائی معطل کرنے اور شمسی ائیر بیس خالی کرانے کے اقدامات سے عسکریت پسندوںکا مطالبہ جزوی طورپر پورا ہوگیاجس کے بعد سے پورے ملک میں امن و سکون ہے۔ یہ برکت ہے امریکہ جنگ سے جزوی لا تعلقی کی۔ اگر پاکستان اس منحوس جنگ سے کُلی طورپر نکل جاتا ہے تو برکات کا اندازہ لگایاجاسکتا ہے۔ آج ملک میں اگر انتشار، فوج اور حکومت کے مابین اختلاف ہے تو امریکہ کے پاکستان میں عمل دخل اور اس کے نیٹو سپلائی بند کئے جانے کے اقدامات کے خلاف ردّعمل کی وجہ سے ہے۔ کفار سے دوستی تو ہو ہی نہیں سکتی البتہ ضروری تعلقات ضرور برقرار رکھنے چاہئیں۔ آج امریکہ پاکستان کے اصولی موقف اور پاکستان کے اپنے مفادات میں پالیسی وضع کرنے کے باعث نہ صرف ڈرون حملے کرنے سے خائف ہے بلکہ افغانستان سے اپنی جنگ سمیٹنے پر بھی مجبور ہے۔اس کے اشیائے ضروریہ سے لدے ہزاروں ٹرک اور کنٹینر افغانستان سرحد عبور کرنے کی اجازت ملنے کے انتظار میں گل سڑ رہے ہیں۔کراچی بندرگاہ پر اس کے اسلحہ و بارود اور جنگی آلات سمیت سامان کے ڈھیر لگے ہیں۔ ایک طرف وہ افغانستان پہنچانے کیلئے پاکستان بھجوایا گیا سامان واپس لے جانے کی بات کرتا ہے تو دوسری طرف مزید جہاز بھی سامان لیکر کراچی پورٹ پر لنگر انداز ہورہے ہیں۔آج امریکہ اپنی جنگ کی دلدل میں پھنس چکا ہے۔اسے اب متبادل راستوں کی تلاش ہے۔ ہوائی جہاز کے ذریعے جلد اور اتنا زیادہ سامان افغانستان بھجوانا ممکن نہیں۔ زخم خوردہ روس اسی دن کے انتظار میں تھا کہ امریکہ کب اس کے شکنجے میں آئے اوروہ شکنجہ کس دے۔ویسے بھی روس چاہے بھی تو تین چار ماہ تک امریکہ کی رسد افغانستان تک پہنچانے میں تعاون کرنے سے قاصر ہے۔شدید سردی یخ بستہ ہواﺅں اور برف سے ڈھکی سڑکیں کسی کی پیش نہیں چلتے دیتیں۔ امریکہ کی افغانستان میں جنگ اور وہاں اس کے قیام کا سارا دارومدار پاکستان پر ہے۔خطے میں قیام امن کیلئے امریکہ کا یہاں سے کوچ ناگزیر ہے۔ گویا نہ صرف خطے میں قیام امن بلکہ پاکستان میں بھی امن برقرار رکھنے کی چابی ہماری عسکری و سیاسی قیادت کے ہاتھ میں ہے۔ اسے اب دانشمندی سے استعمال کرنے کی ضرورت ہے۔
سورہ الم شرح میں ہے۔” پس یقینا مشکل کے ساتھ آسانی بھی ہے۔بے شک مشکل کے ساتھ آسانی ہے“ شاید اب ہماری مشکلیں ختم اور آسانیوں کا دور شروع ہونیوالا ہے۔
No comments:
Post a Comment