منگل ، 10 جنوری ، 2012
مشرف کی آمد۔ سواری اپنے سامان کی....
فضل حسین اعوان
بحرانوں کی دلدل مےں دھنسے اور مسائل کے جال مےں پھنسے عوام نے اس حوالے سے سکھ کا سانس ضرور لیا ہے کہ خودکش بمباروں کی پھیلائی ہوئی بو معدوم ہو رہی ہے۔ امریکہ پھر سے پاکستانیوں کو خودکش حملوں اور بم دھماکوں سے دوچار کرنے کے لئے بے قرار ہے، ڈرون حملوں کے ردعمل مےں پیدا ہونے والے خودکش بمبار بھی ڈرون حملوں کے بند ہوتے ہی شاید اپنے گھروں کو لوٹ گئے۔ امریکہ پھر سے ڈرون حملوں کے بارے مےں سوچ رہا ہے۔ جواز کے لئے کہہ دیا کہ ڈرون حملے رُکنے سے دہشت گرد متحد ہو رہے ہےں۔ امریکہ اب کبھی ڈرون حملوں کی جرات نہیں کرےگا، پہلے جو ہزاروں حملے کئے وہ ہمارے بدبخت حکمرانوں کی مرضی سے کئے۔ اب فوجی قیادت نے سخت موقف اپناتے ہوئے ڈرون گرانے کا اعلان کیا تو امریکہ چوکس ہوگیا۔ پاکستان کے ساتھ سلالہ چیک پوسٹ پر حملہ سے قبل کی سطح پر تعلقات لانے کے لئے ہر قسم کے لالچ اور دھونس کا حربہ آزما رہا ہے۔ فوج کی طرف سے امریکی جنگ سے جزوی لاتعلقی کا نتیجہ ملک مےں امن کی صورت مےں قوم نے دیکھ لیا۔ خوفزدہ لوگ گھروں سے نکل کر قصبوں اور شہروں کی رونق مےں اضافہ کا باعث بن رہے ہےں۔ الیکشن ابھی دور ہےں لیکن سیاسی سرگرمیوں مےں ایک جوش اور ولولہ نظر آتا ہے۔ ہر سیاسی پارٹی کا جلسہ پرانے ریکارڈ توڑ رہا ہے۔ جلسوں مےں شرکا کی تعداد اور جذبہ کو دیکھ ہر پارٹی خود کو بڑی پارٹی سمجھ رہی ہے۔ کچھ سیاستدان کے غبارے مےں ایسی ہوا بھری گئی کہ وہ پھٹا چاہتے ہےں۔ عمران خان عوامی پزیرائی پر خود کو مستقبل قریب کا وزیراعظم گردان رہے ہےں تو مشرف خود کو قوم کا نجات دہندہ جان رہے ہےں۔ نوزائیدگانِ سیاست کے ساتھ ساتھ سیاست کو وراثت سمجھنے والوں کو بھی عوام جلسوں مےں حاضری کی حد تک مایوس نہیں کر رہے۔ یوں ہر کوئی بزعمِ خویش مقبول ترین عوامی لیڈر ہے۔ پرویز مشرف نے وطن واپسی کا اعلان کیا۔ اس پر کراچی مےں جلسہ مےں لوگوں کی شرکت کے بعد مہر ثبت ہو گئی۔ عمران اپنے جلسوں کو سونامی قرار دیتے ہےں، مشرف نے کراچی کے جلسے کو زلزلہ قرار دیا۔ سونامی اور زلزلہ، ایسے الفاظ کے استعمال سے ان قوم کی رہنمائی کے دعویداروں کو نجانے خیر کا کونسا پہلو نظر آتا ہے۔ پرویز مشرف طویل عرصہ سے وطن واپسی کی تیاری کر رہے ہےں۔ بالآخر 30جنوری کو واپسی کا اعلان کر دیا۔ وہ پاکستان آنا چاہتے ہےں اور گرفتاری سے بھی بچنا چاہتے ہےں، جو بویا وہ کاٹنے پر تیار نہیں۔ موجودہ حکومت کی نااہلی، نالائقی، کرپشن اور اداروں کی تباہی کے باعث سمجھتے ہےں کہ قوم ان کی واپسی پر ان پر پھول نچھاور کرے گی اور راہوں مےں پلکیں بچھائے گی۔ پاکستان مشرف کا وطن ہے انہیں واپس ضرور آنا چاہئے، اس کے لئے کسی کا سہارا لینے کی ضرورت نہیں، سیدھے چلے آئیں لیکن وہ براستہ واشنگٹن اور ریاض آنا چاہتے ہےں۔ ریاض سے چلنے والی بات نواز شریف کی جدہ منتقلی پر منتج ہوئی۔ خادم حرمین الشریف کا کہا براہ راست کوئی پاکستانی حکمران نہیں ٹالتا۔ ان کا عرب ممالک پر بھی اثر و رسوخ اور رشتہ داری تک ہے۔ آصف زرداری کسی اور کی مانیں نہ مانیں امارات والوں کی نہیں موڑ سکتے۔ کچھ پریشر امریکہ بھی ڈالے گا جس کی معیشت اور سیاست پر یہودیوں کا مکمل کنٹرول ہے، اسرائیل کو تسلیم کرنے کی بات کر کے مشرف نے یہودیوں کے دل مےں جگہ بنا لی ہے۔ یوں مشرف کی پاکستان میں گرفتاری سے محفوظ واپسی ممکن ہے۔ چونکہ ان کے پاس پیسہ بہت ہے اور پاکستان مےں سیاست پیسے کا کھیل ہے، اس لئے ان کی سیاست مےں بے پایاں دلچسپی ہے۔ سعودی عرب، امریکہ، اسرائیل اور بھارت مشرف کو پاکستان بھجوا سکتے، گرفتاری سے بچا سکتے ہےں اور سیاست مےں ان کو ایک رتبہ دلا سکتے ہےں لیکن ان کی جان کی حفاظت کی ضمانت نہیں دے سکتے۔ مشرف کے دشمنوں کی تعداد دوستوں سے کہیں زیادہ ہے۔ خودکش حملوں کا سلسلہ لال مسجد مےں ان کے ظالمانہ اپریشن کے بعد شروع ہوا۔ اکبر بگٹی کا قتل ایک روح فرسا سانحہ تھا۔ اب تو بے نظیر کا قتل بھی ان پر پڑ رہا ہے۔ پاکستان مےں رہتے ہوئے تو ان کو فول پروف سکیورٹی حاصل تھی، علاوہ ازیں وہ آرمی ہاﺅس سے بھی باہر نہیں نکلتے تھے۔ سیاست مےں تو در در اور گھر گھر گھومنا پڑتا ہے۔ مشرف نے بےنظیر بھٹو کو پاکستان نہ آنے کا مشورہ دیا تھا، وہ نہ مانیں، وطن آئیں انجام سب نے دیکھ لیا۔ مشرف بھی آمد سے قبل غور فرمائیں کیا ان کے پاکستان واپسی اور پھر سیاست میں سرگرم ہونے کے لئے حالات سازگار ہےں؟ ان کے ساتھی ان کو سمجھائیں کہ آرمی چیف ہوتے ہوئے حکمرانی کرنا الگ اور ریٹائر ہو کر سیاست کرنا اس کے برعکس ہے۔ پاکستان مےں اگر ان کی کوئی عزت و احترام ہے تو اس کی صرف ایک وجہ ان کا سید ہونا ہے۔ اس کے سوا اور کچھ نہیں، خدا کرے وہ سید ہوں۔ بہتر ہے کہ ان کے پاس جو کھربوں کی دولت ہے، کچھ اپنی آسائش پر اور کچھ اپنے غریب ہم وطن پر خرچ کریں پاکستان واپس آنا ہے تو کچھ چک شہزاد مےں اپنے محل اور اپنی حفاظت پر لگائیں۔ سیاست سے تائب ہو جائیں جان جہان سے زیادہ قیمتی اور ضروری ہے۔ طلال بگٹی نے پھر کہہ دیا ہے کہ مشرف کا سر قلم کرنے والے کو 10 کروڑ کا کمرشل پلاٹ اور ایک ارب کی اراضی دینگے۔ مشرف اس دھمکی کو معمولی نہ سمجھیں۔ سواری اپنے سامان کی خود حفاظت کرے۔
No comments:
Post a Comment